محافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

کرامات حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا

آپ کے معجز ات اور کراما ت میں سے ایک یہ ہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رسالت پر مبعوث ہو ئے تو کفار مکہ کو ایمان اور وحد انیت کی دعوت دی انہوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچائی پر شق القمر کرنے کو کہا اس وقت حضرت خدیجہ بہت ہی پریشان ہونے لگیں جبکہ حضرت زہراء آپ کے شکم میں تھیں حضرت خدیجہ کے شکم ہی سے حضرت زہراء نے کہا: مادرگرامی کفار مکہ کی تکذیب رسول کرنے پر آپ نہ ڈریں کیونکہ خدا میرے پدر بزرگوار کے ساتھ ہے تب ہی تو حضرت زہراء کی ولادت ہوتے ہی دنیا نور سے منور کردیا۔
بحار الانوار ج ٤٣
نیز قریش کی عورتیں جب حضرت خدیجہ کو تنہا چھوڑ گئی تھیں تو حضرت زہراء شکم مادر سے حضرت خدیجہ کی پریشانی کو دور فرماتی تھیں، لہٰذا ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ سے سوال کیا آپ کسی سے تکلم کرتی ہیں؟ جناب خدیجہ نے فرمایا:
الجنین الذی فی بطنی یحدثنی ویونسنی ویخبرنی انہا انثی
اے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس فرزند سے گفتگو کرتی ہوں جو میرے شکم میں ہے وہ مجھ سے گفتگو کرتی ہے او رمیرا مونس ہے جبرائیل نے مجھے خبردی ہے کہ وہ ایک بیٹی ہے۔اگرچہ اکیسویں صدی کے مفکرین اور ماہرین ماں کے شکم سے بچہ جنم کرنے سے پہلے تکلم کرنے کو محال سمجھتے ہیں لیکن خدا کی قدرت اور نظام ہمیشہ اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ رہا ہے لہٰذا حضرت زہراء کا ماں کے شکم سے تکلم کرنا جناب خدیجہ کی پریشانی کو دور ہونے کا ذریعہ ہونے کے علاوہ اعجاز سمجھا جاتا ہے۔
امام علی علیہ السلام نے فرمایا: ایک دن میں نے بازار سے ایک درہم کا گوشت اور ایک درہم کا گندم خریدلیا اور حضرت زہراء کے پاس آیا اور کھانا بنانے کے لئے حضرت زہراء کے حوالہ کیا حضرت زہراء نے کھانا تیار کرنے کے بعد فرمایا: اے علی کیا میرے پدر بزرگوار کو دعوت نہیں دیں گے؟یہ سن کر حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانے گئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زوجات کے ساتھ تشریف لائے سب نے مل کروہ کھانا تناول فرمایا لیکن کھانا پھر بھی بچ گیا۔
بحار الانوار ج٤٣
جناب سیدہ کونین کے معجزات میں سے چوتھا معجزہ یہ ہے:ان علی استقرض من یہودی شعیرا فاسترہنہ شیئا فدفع الیہ ملاء ة فاطمة رہناً وکانت من الصوف فادخلہا الیہودی الی دار ووضعھا فی بیت فلما کانت اللیل دخلت زوجتہ البیت الذی فیہ الملاء ة بشغل فرأت نورا ساطعا فی البیت اضاء بہ کلہ فانصرفت الی زوجہا فاخبرتہ بانہا رأت فی ذالک البیت ضوء ا عظیما فتعجب الیہودی زوجہا وقد نسی ان فی بیتہ ملاء ة فاطمة فنہض مسرعا ودخل۔۔
بحار الانوار ج٤٣،ص30
ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے ایک یہودی سے کچھ مقدار جوکا قرض مانگے یہودی نے گروی مانگا جس کے بدلے میں آپ نے حضرت زہراء کی اُون سے بنی ہوئی چادر کو گروی رکھی یہودی نے اس چادر کو لے کر گھر کے کسی کمرے میں رکھا تھا، جب رات ہوئی تو یہودی کی بیوی کا اس کمرہ میں جانے کا اتفاق ہوا تو دیکھا کمرہ نور سے روشن ہے واپس شوہر کے پاس آئی اور کہا کمرے میں بہت روشنی نظر آرہی ہے شوہر تعجب سے دوڑتا ہوا کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ حضرت زہراء کی چادر چاند کی مانند منور ہے جس نے گھر کو منور کردیا ہے یہودی کو معلوم ہوا کہ یہ نور اسی چادر کی برکت سے ہے لہٰذا میاں بیوی دونوں نے اپنے قوم اور قبیلہ والو ں کو اس معجزہ سے آگاہ کیا جس کے نتیجہ میں اسی ہزرا یہودی دیکھنے کو آئے سب نے اس معجزہ کو دیکھا اور مسلمان ہوگئے۔جناب ابوذر فرماتے ہیں: بعثنی رسول اللہ ادع علیاً فاتیت ببیتہ فنادیتہ فلم یجبنی احد والرحی تطحن ولیس معہا احد فنادیتہ فخرج واصف الیہ رسول اللہ ۔۔
بحار الانوار ج٤٣
ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حضرت علی کو بلانے کے لئے بھیجا میں حضرت علی علیہ السلام کے دروازے پر پہنچا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن جواب نہ ملا جبکہ چکی چل رہی تھی پھر دوبارہ دروازہ کھٹکھٹایا تو حضرت علی علیہ السلام نے دروازہ کھولا، پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام میں نے حضرت علی علیہ السلام کو دیا اور حضرت علی علیہ السلام فوراً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے کچھ فرمایا، لیکن میری سمجھ میں نہ آیا میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گھر کے عجیب حالات کوبیان کیا تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خدا نے میری بیٹی فاطمہ کے دل اور تمام اعضاء وجوارح کو ایمان سے مالا مال فرمایا ہے اور ان کی نازک حالت سے باخبر ہے لہٰذا مشکلات کے وقت خدا ان کی مدد کے لئے فرشتے نازل فرماتا ہے۔ان تمام معجزات او رکرامات سے بخوبی باشعور ہستی کے لئے واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت زہراء کی شخصیت اور مقام ومنزلت خدا کی نظر میں کیا ہے؟خدا نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کو ہماری نجات او رکامیابی کا وسیلہ بناکر خلق فرمایا ہے لیکن ہم ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ان کی تجہیز وتکفین سے پہلے حضرت زہراء کے ساتھ کس سلوک سے پیش آئے ان کی شخصیت کو کیسے پامال کیا ان کا ہدف کیا تھا نتیجہ کیا ہوا؟ اس پر غور کرنا انسانیت کا تقاضا ہے کیونکہ حضرت زہراء ہماری کامیابی اورسعادتمندی کا ذریعہ ہیں ، حضرت زہراء اور حغرت علی کے علاوہ کائنات کا مطالعہ کریں تو سوائے تاریکی اور گمراہی کے کوئی چیز نظر نہیں آتی۔
نیز آپ کے کرامات میں سے ایک یہ ہے کہ،ایک دن نجران کے نصاری میں سے ایک گروہ پیغمبر کی خدمت میں آیا جن میں ان کے بزر گواروں میں سے بڑی بڑی شخصیت کے مالک عاقب ،محسن اور اسقف بھی شامل تھے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا اے ابوالقاسم حضرت موسی کے باپ کا نام کیا تھا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عمران پھر پوچھاحضرت یوسف کے باپ کا نام کیا تھا ؟ فرمایا حضرت یعقوب پھر سوال کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں آپ کے والد گرامی کا نام کیا تھا ؟ فرمایا عبداللہ بن عبدالمطلب پھراسقف نے پوچھا حضرت عیسی کے پدر کون تھے ؟ پیغمبر اکرم خاموش رہے اتنے میں حضرت جبرائیل نازل ہو کر کہا اے پیغمبر ان سے کہہ دیجئے کہ حضرت عیسی خدا کی روح کا ٹکڑا اور کلمہ ہیں اسقف نے پھرپوچھا کیا روح باپ کے بغیر منتقل ہو سکتی ہے ؟پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے اتنے میں جبرائیل نازل ہو ئے اور اس آیت شریفہ کو سنایا :
اِنَّ مَثَلَ عِیسَی عِنْدَ اﷲِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ
آل عمران:٥٩
بے شک خدا کے نزدیک عیسی کی حالت ویسے ہی ہے جو حضرت آدم کی حالت تھی ان کو مٹی کا پتلا بنا کر کہا ہو جاوپس (فوراہی) وہ (انسان) ہوگیا۔جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت شریفہ کی تلاوت کی تو اسقف اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا کیونکہ ان کی نظر میں حضرت عیسی کی خلقت مٹی سے نہ تھی لہٰذا کھڑے ہو کر کہا یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے تورات ،انجیل اور زبور میں ایسا مطلب نہیں دیکھا ہے یہ صرف آپ فرماتے ہیں یہ آپس میں گفتگو ہو نے کے بعد اللہ تبارک وتعالی نے وحی بھیجی اور فرمایا
فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ َابْنَائَنَا وَاَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ ﷲِ عَلَی الْکَاذِبِینَ
آل عمران: ٦١
اے پیغمبر خدا ان سے کہدوکہ تم اپنے فرزندوں کو لے آؤ ہم اپنے فرزندان کولے کر آئیں گے اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اورتم اپنی جانوں کو ہم اپنی جانوں کو بلائیں اس کے بعد سب مل کر گڑ گڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں۔جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات کی تو اسقف اور انکے ساتھیوں نے کہا اے ابو القاسم آپ نے انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا لہٰذا مباہلہ کا وقت بھی مقرر کیجئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہم کل صبح کے وقت مباہلہ کریں گے جب صبح ہوئی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرت علی کے دست مبارک کو اپنے دست مبارک میں تھام کر اور زہراءسلام اللہ علیہا آپ کے پیچھے امام حسن آپ کے دائیں طرف ،امام حسین آپ کے بائیں طرف رکھ کر فرمایا (اے میرے اہل بیت )میں دعا کر تا ہوں آپ لوگ لبیک اور آمین کہیں۔آنحضرت زانوے مبارک زمین پررکھ کر بیٹھنے لگے اتنے میں نصاری کی نظر ان پر پڑی تو دیکھا کہ یہ پانچ ہستیاں یہاں جمع ہیں پشیمان ہو کر آپس میں مشورہ کر نے لگے اور کہا اگر ہم آنحضرت سے مباہلہ کریں گے تو یقینا خدا ان کی دعا مستجاب کرے گا اور ہم سب کی ذلت وہلاکت کے سویٰ کچھ نہیں ہے چونکہ آنحضرت جب کسی شیء سے نفرت کر تے ہیں تو وہ ہلاکت اور نابودی سے نجات نہیں پا سکتی لہٰذا بہتر یہ ہے کہ ہم مباہلہ نہ کریں بلکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صلح کرلیں۔
فاطمہ زہرا درکلام اہل سنت
تاریخ چہاردہ معصوم نامی کتاب کے صفحہ١٧٦ میں ایک روایت مرحوم قطب الدین راوندی نے جناب جابر ابن عبداللہ انصاری سے سند معتبر کے ساتھ نقل کی ہے جس کا ترجمہ قابل ذکرہے ایک وقت پیغمبر پر اس طرح گزرا کہ آپ نے کئی دنوں سے کوئی چیز تناول نہیں فرمائی تھی جس سے آپ پر بھوک اور پیاس کا غلبہ ہوا آپ زوجات کے گھروں میں تشریف لے گئے اور کھانا طلب فرمایا لیکن ازواج کہنے لگیں یا رسول اللہ ہمارے پاس کھانے کی کوئی چیز نہیں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب سیدہ فاطمہ زہراء کی خدمت میں پہنچے اور فرمایا اے میرا ٹکڑا اور میری بیٹی کیا آپ کے پاس کھانے کی کوئی چیز ہوگی؟ میں کئی دنوں سے بھوکا اور پیاساہوں حضرت فاطمہ زہراء نے فرمایا:بابا جان میں آپ پر فدا ہو جاؤں خدا کی قسم میرے پاس کو ئی طعام نہیں ہے آنحضرت فاطمہ کی دولت سرا سے باہر نکلے تو اتنے میں حضرت فاطمہ زہراء کی ایک کنیز روٹی کے دو ٹکڑے گوشت کی کچھ بوٹیاں ساتھ لے کر آئی اور حضرت فاطمہ زہراء کی خدمت میں ہدیہ کیا حضرت فاطمہ زہراء نے کنیزکے ہاتھ سے کھانے کو لیا اور پاک وپاکیزہ دستر خوان میں رکھ کر کہا خدا کی قسم یہ کھا نا میں اپنے پدر بزرگوار کی بھوک اور پیاس بجھانے کے لئے رکھوں گی اگر چہ میری اولاد اور ہم سب بھی بھوک میں مبتلا ہیں حضرت زہراء نے حسنین علیہمالسلام کو پیغمبر کی تلاش میں روانہ کیا تھوڑی دیر کے بعد حسنین پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر حضرت زہراء کی خد مت میں حاضر ہوئے تو کہا یا ابتاہ جب آپ میرے گھر سے باہر گئے تو اتنے میں اللہ تعالی نے مجھے روٹی اور گوشت کا کچھ ٹکڑا عطا کیا جس کو میں نے آپ کے لیئے مخفی رکھا ہے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیٹی فاطمہ وہ کھا نا لے کر آئیے جب کھانا پیغمبر کی خدمت میں پیش کیا تو دیکھا کہ برتن روٹیوں اور گو شت کے ٹکڑوں سے بھرا ہوا ہے حضرت فاطمہ کو تعجب ہوااور کہا :اے اللہ اتنا کھا نا کہاں سے آیا جب میں نے کنیز سے لیا تھا اس وقت اتنا نہیں تھا کھا نے کو پیغمبر کی خدمت میں تقدیم کر نے کے بعد خدا کی حمد وثنا اور پیغمبر اکرم پر درود بھیجنا شروع کیا ،لیکن جب پیغمبر اکرم کی نظر کھا نے پر پڑی تو خدا کا شکر ادا کر تے ہو ئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.اے بیٹی فاطمہ زہراء یہ کھا نا کیسے فراہم کیا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے کہا یا رسول اللہ خدا نے ہی بھیجا ہے کیونکہ کوئی بھی شخص جب خدا سے مانگتا ہے تو خدا ہی بے انتہامقدار کے ساتھ عطا فرماتا ہے پیغمبر نے حضرت علی بچوں اور ازواج کو طلب کیا پھر سب نے مل کر کھا نا تناول فرمایا بھوک کا غلبہ ختم ہوا لیکن کھا نے میں کو ئی کمی نہیں آئی لہٰذا آپ نے فرمایا اس بابرکت کھا نے سے ہمسائیوں کو بھی سیراب فرما ئیں۔اسی طرح اور بھی متعدد واقعات اور روایتیں آپ کے معجزات وکرامات کو بیان کر تی ہیں کیونکہ حضرت زہراء جیسی خاتون آدم سے لے کر اب تک نہ آئی ہے نہ قیامت تک آئے گی لہٰذا اللہ نے کائنات کو وجود اور بقاء زہراء کے صدقہ میں عطاء کیا ہے کہ جس سے ساری مخلوقات فیضیاب ہو رہی ہیں اسی لیے بہت سارے لوگوں نے حضرت زہراء کوہو نے والی غائبانہ امداد کو پیغمبر اکرم کے زمانے میں مشاہدہ کر کے اس کا راز بھی پوچھا تو آپ نے فرمایا :
ان اللہ یعلم۔۔یعنی اللہ تبارک وتعالی زہراء کی کمزوری اور نا توانی کو جا نتا تھا کیو نکہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا خدا کی عبادت میں مشغول رہتی تھیں اللہ  زہراء کی رضایت اور خوشنودی کی خاطر فرشتے کو نازل کر تے تھے ۔
انھا علیہا السلام ربما اشتغلت بصلاتہا وعبادتہا فربما بکا ولدہا فرأی المہد یتحرک وکان ملک یحرکہ
بحارالانوار جلد ٤٣ ص٤٥
بے شک حضرت زہراء سلام اللہ علیہا جب نماز اور عبادت الہی میں مشغول ہو تی تھیں تو کبھی کبھارآپ کا فرزند گر یہ کر تا تھا اس وقت اللہ تعالی بچے کے گہوارے کو ہلانے کے لئے ایک فرشتہ کو مقرر کرتا تھا کہ وہ فرشتہ ہمیشہ بچے کا گہوارہ ہلاتے ہوئے نظر آتا تھا۔نیز دوسری روایت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
یا اباذر لاتعجب فان للہ ملائکة سیا حون فی الارض موکلون بمعونة آل محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم
بحارالانوار ج ٤٣ ص٤٥
اے ابوذرتو زہراء کی کرامت پر تعجب نہ کر کیونکہ خدا نے روئے زمین پر کچھ ایسے فرشتوں کو معین کیا ہے جو آل محمد کی ہمیشہ مدد کے لئے تیار رہتے ہیں۔
سلمان فارسی نے کہا پیغمبر کی وفات کے بعد میں زہراء کی احوال پرسی کے لئے گیا تھا تو زہراء نے فرمایا اے سلمان فارسی تھوڑی دیر تشریف رکھیں سلمان نے کہا میں حضرت زہراء کے قریب تھوڑی دیر تک بیٹھا تو  آپ نے فرمایا اے سلمان پیغمبر کی وفات کے بعد اس گھر میں فرشتوں کی رفت وآمد کا سلسلہ منقطع ہو نے پر میں پریشان رہتی ہوں اور میں ہمیشہ اسی فکر میں مشغول رہتی ہو ں لیکن کل اس گھر میں جنت کی حوروں میں سے چارحوریں داخل ہوئیں جبکہ گھر کا دروازہ بند تھا اور کہنے لگی اے دختر رسول ہم جنت کے دارالسلام کی حوروں میں سے ہیں اللہ نے ہمیں آپکی طرف بھیجا ہے ہم شدت سے آپکے مشتاق ہیں حضرت زہراء نے فرمایا اے سلمان فارسی جب میں نے ان حوروں میں سے جو زیادہ جوان خوبصورت تھیں ان سے پوچھا آپکا نام کیا ہے؟ اس نے کہا میرا نام مقدورہ ہے خدا نے مجھے مقداد ابن اسود کے لئے خلق کیا ہے پھر دوسرے سے پو چھاآپ کا نام کیا ہے؟اس نے کہا میرا نام ذرہ ہے اللہ نے مجھے جنت میں ابوذر کی خدمت کے لئے خلق کیا ہے پھر تیسرے سے پو چھا آپ کا نام کیا ہے؟ اس نے کہا میرا نام سلمی ہے خدا نے مجھے سلمان کی خاطر خلق کیا ہے، جناب سیدہ کے ساتھ سلمان کی گفتگو چل رہی تھی اتنے میں وہ حوریں جنت کے خرموں سے بھرا ہوا ایک طبق لے کر حضرت زہراء کی خدمت میں آئیں ایسے خرمے تھے جو برف سے زیادہ سفید مشک وعنبر سے زیادہ خوشبو دار تھے حضرت زہراء نے سلمان سے کہا یہ آپ کا حصہ ہے اس سے افطار کر کے اس کی گٹھلی مجھے واپس کر یں جناب سلمان کہتے ہیں میں نے حضرت زہراء سے خرمالے کر اس سے افطار کیا لیکن اس میں گھٹلی نہیں تھی سلمان جناب سیدہ کی خدمت میں آئے اور عرض کی یا حضرت زہراء اس خرما میں گٹھلی نہیں تھی۔آپ نے فرمایا اے سلمان یہ جنت کے ایک مخصوص باغ کا خرما ہے جو پیغمبر نے میرے لئے بویا تھا لہٰذا اس کی خوشبو، رنگ اور کیفیت باقی خرموں سے الگ ہے
مقتل الحسین خوارزمی ص٩٥
روی ان ام ایمن لما توفیت فاطمة حلفت ان لا تکون بالمدینة اذ لاینطق ان تنظر الی مواضع کانت بہا فخرجت الی مکة فلما کانت فی بعض الطریق عطشت عطشا شدیدا فرفعت یدیہا قالت یا رب انا خادمة فاطمة تقتلنی عطشا فانزل اﷲ علیہا دلواً من السماء فشربت فلم تحتج الی الطعام والشراب سبع سنین وکان الناس یعیشونہا فی الیوم الشدید الحر فما یصبہا عطش
اعجازالمعصومین ص٣٩٣
روایت کی گئی ہے جب حضرت زہراء کی شہادت ہوئی تو جناب ام ایمن نے پھر مدینہ منورہ میں نہ رہنے کی قسم کھا ئی چو نکہ جناب ام ایمن کو ان جگہوں کا نظر آنا قابل براشت نہ تھا جس میں حضرت زہراء کے ساتھ رہتی تھیں لہٰذا مکہ کی طرف روانہ ہو ئیں لیکن راستے میں پیاس کی شدت کی وجہ سے چل نہ سکی اتنے میں دونوں ہاتھوں کو بلند کر کے خدا سے التجاء کی اے پالنے والے میں زہراء کی خادمہ ہوں کیا مجھے پیاس کے ذریعے ہلاک کر نا چا ہتے ہو؟ اتنے میں آسمان سے آفتابہ نازل ہوا ام ایمن نے اس پانی سے پیاس کی حرارت کو بجھایا پھر سات سال تک بھوک اور پیاس کا احساس نہیں ہوا جب کہ اس وقت لوگ بھوک اور پیاس کی وجہ سے مر رہے تھے لیکن جناب ام ایمن پر کبھی پیاس لاحق نہیں ہو ئی۔اگر ہم بھی دل سے حضرت زہراء کے خادم یا خادمہ بنیں تو یقینا خدا ہماری پیاس اور بھوک کی شدت بھی حضرت زہراء کی برکت سے بجھا دے گا کیونکہ آپ کے کرامات اور معجزات سے خود پیغمبر اکرم جو تمام مخلوقات سے افضل ہونے کے باوجود مستفیظ ہو تے ہو ئے نظر آتے ہیں۔
نیز آپ کے کرامات میں سے ایک یہ ہے جو آج سے کئی سالوں پہلے کرمان میں ایک عالم باعمل متعہد باتقوی آیت اللہ کرمانی کے نام سے معروف تھے آپ نے ١٣٢٨ھ شمسی میں وفات پائی جب آپ نے اس وقت کے طاغوت اور استعماری حالات کو دیکھا تو احساس ذمہ داری کی کہ کرمان کے معاشرے کو دوبارہ قرآن وسنت اور اہل بیت علیہم السلام کے نورانی کلام سے آبیاری کروں لہٰذا اس دور میں ایک تو انا خطیب سید یحییٰ واعظ یزدی کے نام سے مشہور تھے اس کو کرمان آنے کی دعوت دی تاکہ دونوں مل کر معا شرے کی دوبارہ آبیاری کر سکیں واعظ یزدی مر حوم آیت اللہ کرمانی کی د عوت کو قبول کر کے کرمان پہنچے۔سیدیحییٰ واعظ یزدی نے آیت اللہ کے حکم سے تبلیغ شروع کی تو استعمار کے ایجنڈوں کو پتہ چلا انہوں نے سید یحیی واعظ یزدی کو قتل کر نے کی سازش کی اور آپس میں کہنے لگے اگر اس واعظ یزدی پر کنڑول نہیں کیا تو معاشرہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔لہٰذا استعمار کے ایجنڈوں میں سے ایک سید یحییٰ کے پاس آکر کہا ہم فلان شخص کے گھر میں جمع ہو جاتے ہیں آپ خطاب کیلئے تشریف لائیں سید یحییٰ نے قبول کیا استعمار کا ایک گروپ احترام کے ساتھ سید یحییٰ کو خطیب زمان کی حیثیت سے استعمار کی مخفی گاہ کی طرف لے جا نے لگا سید یحییٰ مرحوم کو راستے میں معلوم ہوا یہ لوگ مجھے شہر سے باہر کہیں لے جارہے ہیں آہستہ آہستہ یقین ہوا کہ یہ لوگ مجھے قتل کریں گے لیکن جب آپ مخفی گاہ میں پہنچے تو استعماری ایجنڈوں نے کہا تم خطابت کی اجرت لینے کو تیار ہو جائو اس وقت آپ نے اپنی جدہ بزرگوار سے متوسل ہو کر کہا:
یا مولا تی یا فاطمة اغیثنی
یہ جملہ تکرار کر تے رہے قاتل نے تلوار لے کر کہا کہ تم کو اسی تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کروں گا اسی کشمکش کی حالت میں تھے کہ اتنے میں پورے مخفی گاہ کے ارد گرد سے اللہ اکبر  کی آواز بلند ہوئی لوگ مخفی گاہ کے تمام اطراف سے اندر آنے لگے اور قاتلوں کے ہاتھ سے سیدیحییٰ واعظ یزدی کو نجات ملی لوگوں نے ان کو احترام کے ساتھ آیت اللہ محمد رضا کرمانی کے پاس پہنچا دیا سید یحییٰ واعظ یزدی نے آیت اللہ کرما نی سے پوچھا آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ مجھ پر ایسی حالت پیش آئی ہے آیت اللہ کرمانی نے کہا اے سید یحیی جب قاتلوں نے آپ کو قتل کرنے کی تیاری کی تواس وقت مجھے حضرت زہراء خواب میں نظر آئیں اور سیدہ نے مجھ سے فرمایا اے محمد رضا فوراً میرے بیٹے سیدیحییٰ کو نجات دینے کے لئے جاؤ اگر تاخیر کی تو اس کو قتل کر دیا جائے گا۔
بحارالانوار جلد ٤٣ ص٢٨
اسی طرح آپ کی کرامات میں سے ایک دلچسپ کرامت یہ ہے: کسی شخص کے دو فرزند تھے ایک نیک اور اچھے رفتار کا مالک دوسرا برے کردار کا مالک تھا برے کردار میں مرتکب ہو نے والا فرزند ہمیشہ لوگوں کو اذیتیں ،طرح طرح کے ظلم وستم پہنچا تا تھا.لوگ اس کے نیک کر دار کے عادی بھا ئی سے ان کی شکایت کر تے تھے ایک دن نیک کردار کے عادی فرزند نے کسی قافلہ کے ساتھ امام رضا علیہ السلام کی زیارت کو جا نے کا عزم کیا لیکن بری کردار کا عادی بھائی بھی ان کے ساتھ زائرین کے قافلہ میں شریک ہو کر مشہد کی طرف جا نے لگا راستے میں زواروں پر ہر قسم کی اذیت ،ظلم وستم پہنچا یا لیکن اچا نک مشہد پہنچنے سے پہلے وہ مریض ہو کر دنیا سے چل پڑا زائرین نے اس کی مو ت پر اظہار خوشی کے ساتھ خدا کا شکر ادا کیا اور کہا پالنے والے تو نے ہی ہمیں اس ظالم سے نجات دی لیکن اس کے بھا ئی کی غیرت اور رشتہ داری کے رابطہ نے اس کو راستے میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی،لہٰذا اس کو تجہیز وتکفین کر کے تابوت میں رکھ کر مشہد امام رضا علیہ السلام پر پہنچا دیا ضریح قدس کا طواف کرانے کے بعد اس کو دفن کیا لیکن جب رات ہو ئی تواس کے بھا ئی کو وہ عالم خواب میں نظر آیا کہ وہ جنت کے سر سبز بہت ہی مجلل باغ میں استبرق کے لباس سے مزین ہو کر خوشی کے ساتھ رہ رہا ہے بھا ئی نے عالم خواب میں اس سے پوچھا تم تو دنیا میں برے اعما ل کے عادی تھے ایسا مقام تمہیں کیسے ملا ہے؟ اس نے کہا اے میرے بھائی جب میرا احتضار کا وقت شروع ہوا تو مجھے بہت اذیت ہو ئی غسل کا پانی جب میرے بدن پر ڈالا گیا تو آگ سے زیادہ گرمی کا احساس ہو ا جب کفن پہنایا گیا تو کفن کے ٹکڑوں کو میرے بدن پر آگ کے ٹکڑوں کی مانند گرمی کا احساس ہوا اور دو فرشتے مسلسل جنازہ کے ساتھ مجھے عذاب اور آتش جہنم کے ذریعے اذیت دیتے رہے۔لیکن جب میر ا جنازہ امام ہشتم کے روضہ کے قریب صحن میں پہنچا تو وہ دو فرشتے جو مجھے عذاب دینے کے لئے معین تھے مجھ سے جدا ہو ئے اور جب میرے جنازہ کو حرم امام رضاعلیہ السلام میں داخل کیا گیا تو امام رضا علیہ السلام زوّاروں کے استقبال کے لئے ایک بلند جگہ پر تشریف فرما تھے میں نے حضرت سے گنا ہوں کو معاف کر نے کی درخواست کی لیکن امام نے نہیں ما نی جب جنازہ امام رضا علیہ السلام کے بالائے سر پر پہنچا تو مجھے ایک نورانی عمر رسیدہ ہستی نظر آئی اس نے مجھ سے فرمایا اے گناہگار امام رضا سے شفاعت ما نگو وگر نہ حرم سے نکلنے کے بعد وہی عذاب دو بارہ کیا جا ئے گا جو پہلے کیا تھا میں نے کہا اے عمر رسیدہ ہستی میں نے امام رضا سے شفاعت مانگی تھی لیکن حضرت نے قبول نہیں فرمایا عمر رسیدہ ہستی نے کہا تم امام کے پاس جاؤ اور جناب سیدہ فاطمہ سے متوسل ہو کر امام سے شفاعت کی در خواست کرو جب میں حضر ت زہراء کے متوسل ہوکر امام سے شفاعت مانگی تو آپ نے میری شفاعت فرمائی اور میرے جنازہ کے ساتھ عذاب دینے والے جو دو فرشتے آئے تھے وہ امام کی شفاعت کے بعد چلے گئے ان کے بدلے میں اور دو فرشتے رحمت بن کر میری نگہبانی کو آئے ہیں انہوں نے یہ مقام مجھے دیا ہے۔
داستان دوستان جلد٢ ص١٩٣
لہٰذا اگر ہم بحارالانوار جیسی مفصل کتاب کا بغور مطالعہ کریں تو واضح ہو جا تاہے کہ حضرت زہراء کی فضیلت ،مقام ومنزلت خدا کی نظر میں کتنی زیادہ ہے جس کے تو سل اور کراما ت کی طرف حتی امام معصوم علیہ السلام بھی محتاج ہیں چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام کے بارے میں ایک روایت ہے آپ کبھی کبھاربخار جیسے مرض کا شکار ہو تے تھے جس کے نتیجہ میں آپ کی توانائی کھو جاتی تھی اس وقت آپ بخار کی تکلیف کو برطرف کرنے اور اس بیماری سے نجات کی خاطر  یازہراء بنت رسول اللہ کی آواز بلند کر تے تھے جس سے آپ کو شفا ملتی تھی۔
سیمائے فاطمہ زہراء ص٣٩
نیز امام جواد علیہ السلام کے بارے میں روایت کی گئی ہے کہ امام جواد ہر روز ظہر کے قریب مسجد نبوی میں تشریف لے جا تے تھے پھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کے بعد خانہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا میں داخل ہو جا تے تھے اور بہت ہی گریہ وزاری کے ساتھ دعا کرتے تھے۔
سفینة البحارجلد ٢ ص٧٤
یہ چیزیں حقیقت میں ہمارے لیے دلیل ہیں حضرت زہراء نے جس جگہ زندگی گزاری ہے اس جگہ جا کر مشکلات کے حل کو چاہنا ان سے متوسل ہو کر خدا سے دعا کر نا ایک مر غوب عمل ہے۔
مرحوم آیت اللہ سید محمد ہادی میلانی کے زمانے میں جرمن سے ایک خاتون ایک مرد جو آپس میں میاں ،بیوی تھی ایک نوجوان بیٹی لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے آیت اللہ میلانی سے کہنے لگے ہمیں قوانین اسلام سے باخبر کریں ہم مسلمان ہو جائیں گے آیت اللہ نے اس کا راز پوچھا تو انہوں نے کہا ہماری یہ بیٹی ایک حادثہ میں گر گئی تھی اس کے پہلو اور کچھ اعضاء کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں تھی جس کے علاج کے لئے دنیا کے ما ہر ترین ڈاکٹروں سے ہم نے مراجعہ کیا کا فی خرچہ کر نے کے علاوہ وافر مقدار میں ان کوٹھیک کر نے پر سونے اور چاندی کا انعام بھی رکھا تھا لیکن تمام ڈاکٹروں نے بالا تفاق کہا بچی کی بیماری ٹھیک نہیں ہو سکتی ہم لوگ مایوسی کے عالم میں بچی کو لے کر ہمیشہ مغموم رہتے تھے لیکن ہمارے گھر کی خادمہ ایرانی تھی ہم اس کو بی بی سے یاد کر تے تھے ایک دن ہماری بیٹی نے پوری داستان بی بی کو سنائی اور کہا ہم پوری دولت دینے پر راضی تھے لیکن میری صحت اور تندرستی واپس نہیں آسکی کا ش کو ئی تندرستی کو واپس لانے والا ہو تا بی بی نے بیٹی سے کہا اگر تو راضی ہے تو مجھے ایک طبیب کا پتہ ہے شاید وہ تمہاری بیماری کو ٹھیک کر سکے کیا تم ان سے علاج کرنے پر راضی ہو بچی نے کہا ہم ساری دولت تجھے دیں گے اگر ٹھیک کیا بی بی نے کہا اے بیٹی میں علوی سادات سے تعلق رکھتی ہوں میری جدہ حضرت زہراء کا پہلو بھی دشمنوں نے ظلم وستم کر کے شہید کر دیا تھا تو دل سے حضرت زہراء سے متوسل ہو کر یہ جملہ کہو یا اللہ مجھے حضرت زہراء کے صدقہ میں شفا دے بیٹی نے بی بی کی بات پر عمل کر کے دل شکستہ ہو کر یہ جملہ شروع کیا خود بی بی نے بھی حضرت زہراء سے درخواست کی یا حضرت زہراء ہماری آبرو کا مسئلہ ہے اگر آپ اس مریض کی بیماری کو شفانہ دیں اتنے میں وہ لڑکی ٹھیک ہو نے لگی اور کہا:’ بابا مجھے حضرت زہراء نے شفادی ہے ماما مجھے حضرت زہراء نے ٹھیک کر دیا ہے ‘یہ حالت جب دیکھی تو ہمیں یقین آیا  کہ اسلام دین حق ہے ہم بیٹی کو لے کر آپ کی خدمت میں قوانین اسلام سے با خبر ہو نے کو آئے ہیں یہ سن کر حضرت آیت اللہ میلانی کو تعجب کے ساتھ خوشی ہو ئی اور ان کو اصول وفروع کے احکام سے نوازا اور وہ خاندان مسلمان ہو گیا۔
ریاحین شریعہ جلد ١ ص٥٨
نیز ہندوستان کی ایک جگہ کا نام عباس آباد ہے جس میں ایام محرم میں معمول تھا کہ شبیہ حضرت عباس بنائے کہ ایک دن لوگوں میں سے جو شخص رشید،تنومند اور طاقتور ہو اس کو حضرت عباس بنایا تھا جس کا باپ اہل بیت کا دشمن تھا وہ جوان مراسم انجام دینے کی وجہ سے گھر میں دیر سے پہنچا باپ نے اس سے پوچھا تم کہاں تھے کیوں دیر سے آئے ہو ؟ بیٹے نے کہا لوگوں نے مجھے شبیہ حضرت عباس بنایا اور مراسم عاشورا انجام دے رہے تھے اس وجہ سے تاخیر ہوئی یہ سن کر باپ غصہ کی حالت میں کہنے لگا کیا تم حضرت عباس سے محبت رکھتے ہو ؟بیٹے نے کہا جی ہاں میری جان ان پر فدا ہو باپ نے کہا اگر تم ان سے محبت رکھتے ہو تو جس طرح کربلا میں حضرت عباس کے ہاتھوں کو بدن سے جدا کیا گیا ہے اسی طرح میں بھی تمہا رے ہاتھوں کو بدن سے جدا کروں گا یہ کہہ کر بیٹے کے ہاتھوں کو اس شقی نے الگ کر دیا یہ حالت ان کی والدہ نے دیکھی تو شوہر سے کہنے لگی اے شقی القلب کیا تو حضرت زہراء سے شرمندہ نہیں ہو تا؟ جب بیوی نے حضرت زہراء کا نام لیا تو اس نے بیوی کی زبان کو کا ٹ دیا بیوی اور بیٹے دونوں کو گھر سے نکال دیا اور کہا جاؤ حضرت عباس سے ہماری شکایت کرو ما ں ،بیٹا دونوں نے عباس آباد کی مسجد میں رات گزاری۔وہ خاتون نقل کرتی ہے جب رات کی تاریکی میں میں اور میرا فرزند بیہوشی کی حالت میں تھے رات کاکچھ حصہ گزرنے کے بعد ایک حسین خاتون میرے پاس آئیں اور میری زبان کو ٹھیک کر نے لگیں یہ حالت جب میں نے دیکھی تو میں نے ان سے درخواست کی میرے جوان فرزند کے ہاتھوں کو بھی ٹھیک فرمائیں آپ نے فرمایا ان کے ہاتھوں کو بھی ٹھیک کریں گے میں نے پوچھا آپ کون ہیں فرمایا میں امام حسین کی والدہ گرامی فاطمہ زہراء ہوں یہ کہہ کر میری نظروں سے غائب ہو گئیں میں اپنے فرزند کے پاس آئی تو دیکھا ان کے دونوں ہاتھ بالکل ٹھیک ہو چکے ہیں میں نے پو چھا تمہارے دونوں ہاتھ کیسے ٹھیک ہوئے؟ اس نے کہا میں بیہوشی کی حالت میں سویا ہوا تھا اتنے میں ایک جوان میرے پاس آیا اور میرے ہاتھوں کو ٹھیک کیا میں نے پوچھا آپ کو ن ہیں ؟فرمایا میں عباس ہوں یہ کہہ کر وہ میری نظروں سے غائب ہو گئے۔
کتاب فضائل الزہراء ص ١٠٩
پس حضرت زہراء کی اتنی عظمت اور شرافت ہو نے کے باوجود حضرت زہراء سے انکار کر نا ہماری بد بختی ہے اور حضرت زہراء کی کرامات اور معجزات انہی مذکورہ معجزات وکرامات میں منحصر نہیں ہیں بلکہ معجزات حضرت زہراء کے موضوع پر کئی کتابیں لکھی گئی ہے رجوع کیجئے۔
https://shiastudies.com/ur

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button