محافلمناقب امام جعفر صادق عمناقب و فضائل

امام جعفر صادق علیہ ‌السلام اور مختلف مکاتب فکر

آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری رح کے خطابات سے اقتباس
ھم دیکھتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اتنی بڑی مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود مختلف فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی اسلامی طریقے سے تربیت کرنے کی بھر پور کوششیں کیں۔ قرآت اور تفسیر میں امام علیہ السلام نے انتھائی قابل ترین شاگرد تیار کیے جو لوگوں کو قرآن مجید کی صحیح طریقے سے تعلیم دیتے اور ان کو صحیح تفسیر سے متعارف کراتے، جہاں کہیں کسی قسم کی غلطی دیکھتے فوراً پکار اٹھتے اور بروقت اصلاح کرنے کی کوشش کرتے۔ پھر ایسے ہونہار طلبہ بھی میدان میں آئے جو علم حدیث میں پوری طرح سے مہارت رکھتے۔ نا سمجھ لوگوں کو بتایا جاتا کہ حدیث صحیح ہے اور یہ صحیح نہیں ہے۔ اس حدیث کا سلسلہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پھنچتا ہے اور یہ حدیث من گھڑت ہے۔
فقھی مسائل کے حل اور لوگوں کی شرعی احکام میں تربیت کے لیے آپ کے لائق ترین شاگردوں نے بھر پور کردار ادا کیا۔ جولوگ فقہ سے نا آشنائی رکھتے یہ نوجوان طلبہ قریہ قریہ جاکر لوگوں کو حلال وحرام اور دیگر مسائل فقھی کی تعلیم دیتے۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ برادران اہل سنت کے تمام بڑے مذھبی رھنما کسی نہ کسی حوالے سے امام جعفر صادق علیہ السلام سے علمی فیض حاصل کرتے رہے ہیں۔تاریخ کی تمام کتب میں درج ہے کہ جناب ابو حنیفہ دو سال تک امام علیہ السلام سے پڑھتے رہے ہیں۔ جناب ابو حنیفہ کا ایک قول بہت مشھور ہے اور یہ قول تمام کتب اہل سنت میں موجود ہے کہ ملت حنفیہ کے سر براہ جناب ابو حنیفہ نے فرمایا کہ
"لولا السنتان لهلک نعمان”
"اگر میں نے وہ دو سال امام علیہ السلام کی شاگردی میں نہ گزارے ہوتے تو میں ہلاک ہوجاتا۔”
جناب ابو حنیفہ کا اصل نام نعمان ہے۔ کتب میں آپ کو نعمان بن ثابت بن زوطی بن مرزبان، کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ آپ کے آباؤ اجداد ایرانی تھے۔
اسی طرح اہلسنت کے دوسرے امام جناب مالک بن انس امام جعفر صادق علیہ السلام کے ہم عصر تھے۔ جناب مالک نے بھی امام علیہ السلام سے کسب فیض کیا اور عمر بھر اس پر فخر کرتے رہے۔ امام شافعی کا دور بعد کا دور ہے انھوں نے جناب ابو حنیفہ کے شاگردوں، مالک بن انس اور احمد بن حنبل سے استفادہ کیا۔ لیکن ان کے اساتذہ کا سلسلہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔ اپنے وقت کے چند علماء، فقہاء، محدثین امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی و دینی فیوضیات سے مستفیض ہوئے۔ امام علیہ السلام کے حلقہ درس میں علماء و فضلاء کا ہمہ وقت ٹھٹھ لگا رھتا تھا۔
امام جعفر صادق علیہ ‌السلام کے بار ے میں جناب مالک کے تاثرات
جناب مالک بن انس مدینہ میں رہائش پزیر تھے۔ نسبتاً خود پسند انسان تھے۔ ان کا کھنا ہے کہ میں جب بھی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ کو ہمیشہ اور ہر وقت ھنستا مسکراتا ہوا پاتا۔
"وکان کثیر التبسم”
آپ کے ہونٹوں پر ہمیشہ مسکراہٹ کے پھول کھلے ہوئے ہوتے تھے۔”
گویا آپ کو میں نے ہمیشہ خوش اخلاق پایا۔ آپ کی ایک عادت یہ تھی کہ جب آپ کے سامنے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام مبارک لیا جاتا تو آپ کے چھرے کا رنگ یکسر بدل جاتا۔ میں اکثر اوقات امام علیہ السلام کے پاس آتا رھتا تھا۔ آپ اپنے زمانے کے عابد و زاہد انسان تھے۔ تقوی و پرہیز گاری اور راستبازی میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ جناب مالک ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے کھتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ امام علیہ السلام کے ہمراہ تھا جب ہم مدینہ سے نکل کر مسجد الشجرہ پر پھنچے تو ہم نے احرام باندھ لیا ہم چاہتے تھے کہ لبیک کھیں اور رسمی طور پر محرم ہو جائیں، چنانچہ ہم نے لبیک کھنا شروع کیا اور احرام باندھا تو میری نگاہ امام علیہ السلام پر پڑی تو میں نے دیکھا کہ آپ کے چھرہ اقدس کا رنگ یکسر بدل گیا ہے، اور آپ کا بدن کانپ رہا ہے۔ یوں لگتا تھا کہ شاید سواری سے گر جائیں۔ خدا خوفی کی وجہ سے آپ پر عجیب قسم کی کیفیت طاری تھی۔ میں نے عرض کیا اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اب آپ لبیک کھہ ہی دیں تو آپ نے فرمایا میں کیا کھوں اور کیسے کھوں اگر میں لبیک کھتا ہوں؟ تو مجھے جواب ملے کہ لا لبیک تو اس وقت میں کیا کروں گا؟ اس روایت کو آقا شیخ عباس قمی اور دوسرے مورخین نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔ اس روایت کے راوی جناب مالک بن انس ہیں جو اہل سنت حضرات کے بہت بڑے امام ہیں جناب مالک کا کھنا ہے کہ:
"ما رات عین ولا سمعت اذن ولا خطر علی قلب بشر افضل من جعفر بن محمد”
آنکھ نے نہیں دیکھا کان نے نہیں سنا اور کسی کے خیال خاطر میں نہیں آیا کہ کوئی مرد امام جعفر صادق علیہ السلام سے افضل نظر سے گزرا ہو۔”
محمد شھرستانی جو کتاب الملل والنحل کے مصنف ہیں آپ پانچویں ہجری میں بہت بڑے عالم، متکلم، فلاسفی ہو کر گزرے ہیں۔ دینی و مذھبی اور فلسفیانہ اعتبار سے یہ کتاب دنیا بھر میں مشھور ہے۔ مصنف کتاب ایک جگہ پر امام جعفر صادق علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
"هو ذو علم غریر”
کہ آپ کا علم ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔”
وادب کامل فی الحکمة”
حکمت میں ادب کامل تھے۔”
وزهد فی الدنیا وورع تام عن الشهوات”
آپ غیر معمولی پر متقی و پرہیز گار تھے آپ خواہشات نفسانی سے دور رہتے تھے۔”
"ویفیض علی الموالی له اسرار العلوم ثم (دخل العراق)”
آپ سرزمین مدینہ میں رہ کر دوستوں اور لوگوں کو علم کی خیرات بانٹتے تھے۔” پھر آپ عراق تشریف لے آئے یہ مصنف امام علیہ السلام کی سیاست سے کنارہ کشی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے۔”
ولا نازع فی الخلافة احدا”
"کہ آپ نے خلافت کے مسئلہ پر کسی سے کسی قسم کا اختلاف ونزاع نہ کیا۔”
اس کنارہ گیری کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ آپ علم و معرفت کے سمندر میں غوطہ زن رہتے تھے اس لیے دوسرے کاموں کے لیے آپ کے پاس وقت ہی نہ تھا۔ میں محمد شھرستانی کی توجیہ کو صحیح نہیں سمجھتا۔ میرا مقصود اس سے یہ ہے کہ اس نے کھلے لفظوں میں امام کی غیر معمولی معرفت کا اعتراف کیا ہے لکھتا ہے۔
"ومن غرق فی بحر المعرفة لم یقع فی شط”
کہ جو دریائے معرفت میں ڈوبا ہوا ہو وہ خود کو کنارے پر نہیں لے آئے گا” اس کے نزدیک خلافت و حکومت ایک سطحی سی چیزیں ہیں جبکہ علم و معرفت کی بات ہی کچھ اور ہے۔
"ومن تعلی الی ذروة الحقیقة لم یخف من حط”
کہ جو حقیقت کی بلند و بالا چوٹیوں پر پھنچ جائے وہ نیچے کی طرف آنے سے کیسے ڈرے گا۔”
با وجودیکہ شھرستانی شیعوں کا مخالف شخص ہے، لیکن امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں مدحت سرائی کر رہا ہے۔ اس نے اپنی کتاب الملل و النحل میں شیعوں کے خلاف بہت زیادہ زھر اگلا ہے۔ لیکن اس نے امام علیہ السلام کو بہت ہی اچھے لفظوں کے ساتھ یاد کیا ہے۔ اگر چہ یہ دشمن تھا لیکن حقیقت کو ماننے پر مجبور ہو گیا۔ یہ نہ مانتا تو کیسے نہ مانتا؟ امام جعفر صادق علیہ السلام جیسا کوئی ہوتا تو یہ سامنے لاتا۔ سورج کا بھلا چراغوں سے کیسے مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟ اب بھی دنیا میں ایسے علماء موجود ہیں جو شیعیت کے سخت دشمن ہیں۔ لیکن امام جعفر صادق علیہ السلام کا بیحد احترام کرتے ہیں۔ وہ کھتے ہیں کہ شیعہ حضرات سے جن باتوں پر ہمارا اختلاف ہے۔ وہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے بیان کردہ باتوں میں نہیں ہے کیونکہ صادق آل محمد علیھم السلام ایک انتھائی باکمال شخصیت و بے نظیر حیثیت کے مالک انسان تھے اور آپ کی علمی خدمات اور دینی احسانات کو کبھی اور کسی طور بھی نہیں بھلایا جاسکتا۔
احمد آمین کی رائے فجر الاسلام، ضحی الاسلام، ظھر الاسلام، یوم الاسلام یہ احمد آمین کی معروف ترین کتب ہیں۔ احمد آمین ہمارے ہم عصر عالم دین ہیں۔ اور یہ شیعوں کے سخت مخالف ہیں۔ ان کو مذھب شیعہ کے بارے میں ذرا بھر علم نہیں ہے۔ سنی سنائی باتوں کو وجہ اعتراض بناکر شیعوں کے خلاف اپنی کتابوں میں انھوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ حالانکہ اس سطح اور اس پائے کے عالم دین کو حق کو سامنے رکھ کر حقیقت پسندی کا مظاہر ہ کرنا چاہی ے تھا۔ لیکن انھوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی جتنی تعریف کی ہے اتنی کسی اور سنی عالم نے نہیں کی۔ امام علیہ السلام کے فرامین اور ارشادات کی تفسیر و تشریح اس انداز میں کی ہے کہ کوئی عالم دین بھی نہ کر سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی سیرت اور تاریخ کا مطالعہ کیا ہے۔ ملت اسلامیہ، مذھب جعفریہ کے بارے میں ذرا بھر بھی تحقیق کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ کاش وہ شیعوں کے بارے میں حقیقت پسندی سے کام لیتے اور ایک عظیم اور شریف ملت پر الزامات عائد کر کے اپنی کتب کے صفحات کو سیاہ نہ کرتے؟
جاحظ کا اعتراف
میرے نزدیک جاحظ کی علمی صلاحیت اور دینی قابلیت دوسرے سنی علماء سے بڑھ کر ہے۔ یہ شخص دوسری صدی کے اواخر اور تیسری صدی کے اوائل کا سب سے بڑا عالم ہے۔ یہ شخص ذھانت ومطانت کا عظیم شاہکار ہونے کےساتھ ساتھ غیر معمولی حد تک صاحب مطالعہ تھا۔ جاحظ نہ صرف اپنے عھد کا بہت بڑا ادیب ہے بلکہ ایک بہت بڑا محقق اور مورخ بھی ہے انھوں نے حیوان شناسی پر ایک کتاب الحیوان تحریر کی تھی آج یہ کتاب یورپی سائنسدانوں کے نزدیک بہت اہمیت رکھتی ہے۔ بلکہ ماہر ین حیوانات اس کتاب پر نئے نئے تحقیقات کر رہے ہیں۔ جانوروں اور حیوانات کے بارے میں اس سے بڑھ کر کوئی کتاب نہیں ہے۔ یہ کتاب اس دور میں لکھی گئی جب یونان اور غیر یونان میں جدید علوم نے اتنی ترقی نہ کی تھی۔ اس وقت ان کے پاس کسی قسم کا موادنہ تھا۔ انھوں نے اپنی طرف سے حیوانات پر تحقیق کر کے دنیا بھر کے جدید و قدیم ماہر ین کو ورطئہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔
جاحظ ایک متعصب سنی عالم ہے۔ انھوں نے شیعوں کے ساتھ مناظرے بھی کئے اور انتھا پسندی کے باعث شیعہ حضرات ان کو ناصبی بھی کھتے ہیں۔ لیکن میں ذاتی طور پر کم از کم ان کو ناصبی نہیں کھہ سکتا۔ یہ شخص امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور کا عالم ہے۔ ہوسکتا ہے اس نے امام علیہ السلام کا آخری دور پایا ہو؟ شاید یہ اس وقت بچہ ہو یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امام علیہ السلام کا دور ایک نسل قبل کا دور ہو۔ کھنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کا دور اور امام علیہ السلام ایک دوسرے کے بہت قریب ہے۔ بھر حال جاحظ امام جعفر صادق علیہ‌السلام کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
"جعفر بن محمد الذی ملأ الدنیا علمه و فقهه”
کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے پوری دنیا کو علم و دانش اور معرفت و حکمت سے پر کردیا ہے۔”
ویقال ان ابا حنیفة من تلامذته و کذلک سفیان الثوری”
کہا جاتا ہے کہ جناب ابو حنیفہ اور سفیان ثوری کا شمار امام علیہ السلام کے شاگردان خاص میں سے ہوتا ہے سفیان ثوری بہت بڑے فقیھہ اور سوفی ہو کر گزرے ہیں۔
میر علی ھندی کا نظریہ
میر علی ھندی ہمارے ہم عصر سنی عالم ہیں وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں اظہارے خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
"لا مشاحة ان انتشار العلم فی ذلک الحین قد ساعد علی فک الفکر من عقاله”
علوم کا پھیلاؤ اس زمانے میں ممکن بنایا گیا اور لوگوں کو فکری آزادی ملی اور ہر طرح کی پابندیاں ختم کردی گئیں۔”
فاصبحت المناقشات الفلسفیة عامة فی کل حاضرة من حواضر العالم الاسلامی”
"دنیا بھر کے اسلامی حلقوں میں علمی و عقلی اور فلسفیانہ مباحث کو رواج ملا۔”
جناب ھندی مزید لکھتے ہیں کہ:
"ولا یفوتنا ان نشیر الی ان الذی تزعم تلک الحرکة هو حفید علی ابن ابی طالب المسمی بالامام الصادق”
ھم سب کو یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہی ے کہ جس عظیم شخصیت نے دنیائے اسلام میں فکری انقلاب کی قیادت کی ہے وہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے پوتے ہیں اور انکا نام نامی امام صادق علیہ‌السلام ہے۔”
وهو رجل رحب افق التفکیر”
وہ ایسے انسان تھے کہ جن کا افق فکری بہت بلند ہے یعنی جن کی فکری وسعت کی کوئی حد نہ تھی۔”
"بعید اغوار العقل”
ان کی عقل و فکر بہت گھری تھی ۔”
"ملم کل المام بعلوم عصره”
آپ اپنے عھد کے تمام علوم پر خصوصی توجہ رکھتے تھے۔ جناب ھندی مزید کھتے ہیں ۔”
ویعتبر فی الواقع هو اول من اسس المدارس الفلسفیة المشهورة فی الاسلام”
در حقیقت سب سے پھلے جس شخصیت نے جدید علمی مراکز قائم کیے ہیں وہ امام جعفر صادق علیہ السلام ہی ہیں۔”
ولم یکن یحضر حلقته العلمیة اولئک الذین اصبحوا مؤسسی المذاهب الفقهیة فحسب بل کان یحضرها طلاب الفسفة والمتفلسفون من انحاء الواسعة”
وہ کہتا ہے کہ آپ نہ صرف ابو حنیفہ جیسی بزرگ شخصیت کے استاد تھے بلکہ جدید علوم کی بھی طلبہ کو تعلیم دیا کرتے تھے گویا جدید ترقی امام علیہ السلام کی مرہون منت ہے۔
احمد زکی صالح کے خیالات
کتاب امام صادق علیہ السلام میں آقائے مظفر احمد زکی صالح ماہنامہ الرسالۃ العصریہ سے نقل کرتے ہیں کہ شیعہ فرقہ کی علمی پیشرفت تمام فرقوں سے زیادہ ہے۔ کھا جاتا ہے کہ علوم کی ترقی اور پیشرفت میں اہل ایران کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب ایران میں شیعوں کی اکثریت نہ تھی۔ ابھی ہم اس کے بارے میں بحث نہیں کرتے یہ پھر کبھی سھی یہ مصری لکھتا ہے:
"من الجلی الواضح لدی کل من درس علم الکلام الفرق الشیعة کانت انشط الفرق الاسلامیة حرکة”
کہ واضح سی بات ہے کہ ہر وہ شخص جو ذرا بھر علمی شعور رکھتا ہے وہ اس بات کا معترف ہے کہ شیعہ فرقہ کی مذھبی و علمی پیشرفت تمام فرقوں سے زیادہ ہے۔”
وکانت اولی من اسس المذاهب الدینیة علی اسس فلسفیة حتی ان البعض ینسب الفلسفة خاصة بعلی بن ابی طالب”
"یعنی شیعہ پہلا اسلامی مذھب ہے کہ جو دینی مسائل کو فکری و عقلی بنیادوں پر حل کرتا ہے۔ شیعہ یعنی امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور امامت میں مختلف علوم کو عقلی و فکری لحاظ سے پرکھا جاتا تھا۔ اس کی بھترین دلیل یہ ہے کہ اہل تسنن کی احادیث کی ان کتابوں (صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد و صحیح نسائی) میں صرف اور صرف فروعی مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بتایا گیا ہے کہ وضو کے احکام یہ ہیں، نماز کے مسائل کچھ اس طرح کے ہیں۔ روزہ، حج، جھاد، وغیرہ کے احکام یہ ہیں۔ مثال کے طور پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر میں اس طرح عمل فرمایا ہے لیکن آپ اگر شیعہ کی احادیث کی کتب کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے شیعہ احادیث میں سب سے پھلے عقل و جھل کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے، لیکن اہل سنت حضرات کی کتب میں اس طرح کی باتیں موجود نہیں ہیں۔ میں یہ کھنا چاہتا ہوں کہ اس کی بنیاد صرف امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں، بلکہ امام صادق علیہ السلام کے ساتھ ساتھ اس میں تمام آئمہ طاہر ین علیھم السلام کی کوشش بھی شامل ہیں۔ اس کی اصل بنیاد تو خود حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ اس عظیم مشن کا آغاز حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا تھا اور اسے آگے آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑھایا ہے۔
چونکہ امام جعفر صادق عليه‌السلام کو کام کرنے کا خوب موقعہ ملا ہے اس لیے آپ نے اپنے آباءو اجداد کی علمی میراث کو کما حقہ محفوظ رکھا ہے۔ اور اس عظیم ورثہ کو قیامت تک آنے والی نسلوں کیلئے ثمر آور بنادیا۔ ہماری احادیث کی کتب میں کتاب العقل والجھل کے بعد کتاب التوحید آتی ہے۔ ہمارے پاس توحید الٰھی کے بارے میں ھزاروں مختلف احادیث موجود ہیں۔ ذات خداوندی، معرفت الٰھی، فضاء و قدر، جبر و اختیار سے متعلق ملت جعفریہ کے پاس نہ ختم ہونے والا ذخیرہ احادیث موجود ہے۔ شیعہ قوم فخر سے کھہ سکتی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام اور ہمارے جلیل القدر دیگر آئمہ طاہر ین نے جتنا ہمیں دیا ہے اتنا کسی اور پیشوا نے اپنی ملت کو نہیں دیا۔ اس لیے ہم کھہ سکتے ہیں کہ فکری، علمی اور عقلی و نظریاتی لحاظ سے امام جعفر صادق علیہ السلام نے نئے علوم کی بنیاد رکھ کر بنی نوع انسان پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔
کتاب ” سیرت آل محمد” مؤلف: آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری” سے اقتباس
Book source: alhassanain.org

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button