محافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

حضرت فاطمہ زہراءسلام اللہ علیھا عظیم نعمت الٰہی

مؤلف: سید علی حسینی خامنہ ای
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’يَاسیدِّة نِسَائِ العَالَمِینَ‘‘ ر اوی نے سوال کیا کہ ’’هی سَيِّدَۃُ نِسَآئِ عَالَمِها؟‘‘، کیا آپ کی جدہ امجد اپنے زمانے کی خواتین کی سردار تھیں ؟ امام نے جواب دیا کہ ’’ذَاکَ مَريَم‘‘، وہ جناب مریم علیھا السلام تھیں جو اپنے زمانے کی خواتین کی سردار تھیں۔
’’ھِيَ سَيِّدَة نِسَآئِ الاَوّلِینَ وَالاٰخِرِینَ فِی الدُّنيَا و الآخِرَة‘‘
’’وہ دنیا و آخرت میں اولین و آخرین کی سرورزنان ہیں‘‘۔
اور ان کی یہ عظمت ان کے زمانے تک محدود نہیں ہے۔ اگر آپ تمام مخلوقات عالم میں پوری تاریخ میں خلق کیے گئے ان کھربوں انسانوں کے درمیان اگر انگلیوں پر شمار کی جانے والی بہترین شخصیات کو ڈھونڈھنا چاہیں تو ان میں سے ایک یہی مطہرہ ومنورہ شخصیت ہے کہ جس کا نام اور یاد و ذکر ہمیں عطا کیا گیا ہے۔ خداوند عالم نے اپنے فضل و احسان کے ذریعے ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ اپنی زندگی کے کچھ حصوں کو اُن کی یاد میں بسر کریں ، اُن کے بارے میں باتیں کریں اور اُس عظیم ہستی سے متعلق باتوں کو سنیں۔ لوگوں کی اکثریت اُن سے غافل ہے جبکہ یہ ہم پر خداوند متعال کا بہت بڑا لطف و کرم ہے کہ ہم اُن سے متمسک ہیں۔
یعنی وہ اتنی عظیم المرتبت شخصیت کی مالک ہیں کہ بڑے بڑے مسلمان علما اور مفکرین یہ بحث کرتے تھے کہ کیا حضرت زہراء علیھا السلام کی شخصیت بلند ہے یا امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ٴ کا مقام زیادہ ہے؟ کیا یہ کوئی کم مقام و حیثیت ہے کہ مسلمان علما بیٹھیں اور ایک کہے کہ علی علیہ السلام کا مرتبہ زیادہ بلند ہے اور ایک کہے زہراء علیھا السلام کی عظمت زیادہ ہے! یہ بہت بلند مقام ہے۔ لہٰذا اُس عظیم المرتبت ذات سے ہمارے تعلق اورمحبت نے ہمارے دوش پر ایک بہت سنگین ذمہ داری عائد کی ہے۔ وہ ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اُس عظیم ذات کی سیرت اورنقش قدم پر چلیں،خواہ ان کا ذاتی و انفرادی کردار ہو یا اُن کی اجتماعی و سیاسی زندگی۔ راستہ یہی ہے کہ جس نے آج خداوند عالم کے فضل وکرم سے لوگوں کیلئے انقلاب کی راہ ہموارکی ہے۔
یہ وہی حضرت فاطمہ زہراء علیھا السلام کی راہ ہے یعنی خودسازی (تعمیر ذات) اورجہان سازی (تعمیر دنیا) کی راہ۔ خود سازی یعنی اس جان و روح کی آبادی و تعمیر کہ جس کیلئے جسم کا پیکر خاکی دیا گیا ہے۔فاطمہ زہر علیھا السلام ’’کَانَت تَقُومُ فِی مِحرَابِ عِبَادَتِها حَتٰی تَوَرَّمَت قَدَمَاها ‘‘
(بحارالانوار ۔ ج٤٣ ،ص ٧٦)
اس عظیم اور جوان دختر نے کہ جو اپنی شہادت کے وقت صرف اٹھارہ سال کی تھی، اتنی عبادت کی آپ کے پاوں ورم کرجاتے تھے! یہ عظیم المرتبت خاتون اتنے عظیم مقام و منزلت کے باوجود گھر کے کام بھی خود انجام دیتی تھیں اور شوہر کی خدمت بچوں کی دیکھ بھال اورتربیت بھی انہی کے ذمے تھی۔
حضرت فاطمہ علیھا السلام کے بچپن کا سخت ترین زمانہ
یہ عظیم خاتون ایک گھریلو عورت تھی، اس کا اپنا گھر تھا، شوہر، بچے سب کچھ اور یہ اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرنے والی ماں بھی تھی۔ یہ بانوئے عصمت و طہارت ، زندگی کے سخت سے سخت مراحل میں اپنے شوہر اور والد کیلئے دلجوئی کا سبب تھی۔ حضرت زہراءعلیھا السلام نے بعثت کے پانچویں سال دنیا میں قدم رکھا کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی دعوت حق اپنے عروج پر تھی۔یہ وہ زمانہ تھا کہ تمام سختیوں، مشکلات اور مصائب نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور ان کے گھرانے کو اپنے نشانے پر لیا ہوا تھا۔
یہ واقعہ تو آپ نے سنا ہی ہے کہ حضرت فاطمہ علیھا السلام کی ولادت کے وقت شہر کی خواتین حضرت خدیجہ علیھا السلام کی مدد کیلئے نہیں آئی تھیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کفار سے مقابلہ کررہے تھے تو اس وقت کفار مکہ نے آپ کا ہر طرح سے بائیکاٹ کیا ہوا تھا اور ہر قسم کے رابطے اور تعلقات کو بالکل قطع کردیا تھا تاکہ اس کے ذریعے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم پر دباو ڈالا جاسکے۔ یہ وہ مقام تھا کہ جہاں حضرت خدیجہ علیھا السلام جیسی فداکاراور ایثار کرنے والی عورت نے استقامت دکھائی۔ آپ اپنے شوہر حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی دلجوئی فرماتیں اوراس کے بعد گھر میں اپنے بیٹی کی دیکھ بھال اور تربیت کرتیں۔ جب یہ دختر نیک اختر بڑی ہوئی اور پانچ چھ سال کی عمر کو پہنچی تو شعب ابی طالب ٴ کا واقعہ پیش آیا۔ آپ نے اس کوہستانی وادی کی گرمی، بھوک، سختی، دباو اور غریب الوطنی کی مشکلات کو اس وقت تحمل کیا کہ جب سب نے ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ شعب ابی طالبٴ میں آفتاب کی تمازت سے دھکنے والے دن، سرد راتیں اور اس علاقے کی شب و روز میں ناقابل تحمل آب وہوا، ان دشوار حالات میں بچے بھوکے پیٹوں اور تشنہ لبوں کے ساتھ ان افراد کے سامنے تڑپتے رہتے تھے۔ سختی اور مشکلات کے یہ تین سال کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے مکے سے باہر بیابان میں اِسی طرح گزارے۔
فاطمہ زہراء علیھا السلام اپنے والد کی مونس و غمخوار
یہ بیٹی، ان سخت ترین حالات میں اپنے والد کیلئے فرشتہ نجات تھی اور یہ زمانہ تھا کہ جب حضرت خدیجہ علیھا السلام نے داعی اجل کو لبیک کہا اور یہی وقت تھا کہ جب آپ کے محسن اور چچا، حضرت ابو طالبٴ نے دنیا سے رخت سفر باندھا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو یکتا و تنہا چھوڑدیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب یہ بیٹی اپنے باپ کی دلجوئی کرتی تھی، ان کی خدمت کرتی اورغم و مشکلات کی گرد وغبار کواُ ن کو چہرے سے صاف کرتی۔ اس بچی نے اپنے باپ کی اتنی خدمت کی کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اس سات ، آٹھ سالہ دختر کو کہا ’’اُمُّ اَبِیھَا‘‘ ،یعنی ’’ماں‘‘ یعنی یہ بچی اپنے والد کی ماں کی طرح دیکھ بھال کرتی تھی۔
ایسا باپ کہ عالم کی تمام مشکلات نے جسے اپنے نشانے پر لیا ہوا تھا لیکن اس کے باوجود تمام بشریت کی ہدایت کی ذمہ داری اُس کے دوش پر تھی۔وہ ایسا پیغمبر تھا کہ اُس کا رب اُسے سختیوں،مشکلات ، غموں کے برداشت کرنے اور حق میں مسلسل اور اَن تھک محنت و مشقت کی وجہ سے اس کی دلجوئی کرتا ہے۔ ’’طٰه مَآ اَنزَلنَا عَلَیکَ القُراَنَ لِتَشقيٰ‘‘
(سورہ طہ١،٢)
اے رسول تم خود کو اتنی سختی میں کیوں ڈالتے ہو؟ اتنا رنج کیوں اٹھاتے ہو اور اپنی پاک و پاکیزہ روح پر اتنا دباو کیوں ڈالتے ہو؟ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں خدا اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو تسلی دیتا ہے۔ ان سخت ترین حالات میں حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی روح پر دباو بہت زیادہ تھا اور دشوار ترین حالات میں یہ چھوٹا فرشتہ ،معنوی وملکوتی روح کی حامل بیٹی اوردختر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اس نور کی مانند ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور نئے مسلمان ہونے والے افراد کی تاریک شبوں میں اپنی پوری آب و تاب اور نورانیت کے ساتھ چمک رہا ہے۔ امیر المومنین ٴکا وجود بھی بالکل ایسا ہی نورانی تھا ۔ روایت میں ہے کہ ’’سُمِّيَت فَاطِمَة زَهرَا‘‘
(بحار الانوار ج ٤٣ ص١٦)
حضرت فاطمہ کو ’’زہراء‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے آپ دن میں تین بار حضرت علی ٴ کی نگاہوں کے سامنے جلوہ فرماتیں۔
حضرت فاطمہ علیھا السلام کی علمی فضیلت اور راہ خدا میں آپ کا جہاد
اگر عورت مرد کی پشت پناہ ہو اورزندگی کے مختلف میدان ہائے عمل میں اُس کے شانہ بشانہ ،قدم بقدم اوراس کی ہمت و حوصلے کو بڑھانے والی ہو تو مرد کی قوت وطاقت کئی برابر ہوجاتی ہے۔ یہ حکیمہ، عالمہ اور محدثہ خاتون، یہ خاتون کہ جو عالم ہائے غیب سے متصل تھی، یہ خاتون کہ فرشتے جس سے ہمکلامی کا شرف حاصل کرتے تھے ۔
(حضرت استاد مولاناسید آغا جعفر نقوی مرحوم اپنے استاد آیت اللہ شیخ محمد شریعت اصفہانی (آقائے شریعت) سے نقل فرماتے تھے کہ حدیث کسا کی راوی حضرت زہراء ہیں اور یہ آپ کی عظمت وفضیلت ہے کہ آپ حضرت جبرائیل اور خدا کے درمیان ہونے والی گفتگو کو خود سن کر نقل فرما رہی ہیں! مترجم)
اور یہ عظیم المرتبت ہستی کہ جس کا قلب ،علی ٴ و پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے قلوب کی مانند ملک وملکوت کے عالموں کی نورانیت سے منور تھا،اپنی تمام تر استعداد وصلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اور اپنے تمام تر اعليٰ درجات کے ساتھ تمام مراحل زندگی میں جب تک زندہ رہی (اپنے شوہر، صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم ، اپنے امام وقت اور) امیر المومنین علیہ السلام ٴ کے پیچھے ایک بلند و بالا اور مضبوط پہاڑ کی مانند کھڑی رہی۔
آپ نے اپنے امام وقت اور اس کی ولایت کے دفاع کیلئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور حضرت علی علیہ السلام ٴکی حمایت میں ایک بہت ہی فصیح و بلیغ خطبہ دیا۔ علامہ مجلسی رضوان اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فصاحت و بلاغت کے علما اور دانشوروں نے اس خطبے کی فصاحت و بلاغت ،اعلی اوربے مثال کلمات،جملوں کی ترتیب،معانی اور اُس کے ظاہر و باطن کی خوبصورتی سے اپنے ہاتھوں کو کاٹ ڈالا ہے! یہ نکتہ بہت ہی عجیب ہے۔علامہ مجلسی نے آئمہ علیہم السلام سے اتنی کثیر تعداد میں روایات کو نقل کیا اور ہمارے لیے گرانبہا ذخیرہ چھوڑا ہے لیکن جب اس خطبے کے مقابل اپنے آپ کو پاتے ہیں تو اُن کا وجود فرط جذبات و احساسات اورخطبے کی عظمت سے لرز اٹھتا ہے! یہ بہت ہی عجیب خطبہ ہے اور اسے نہج البلاغہ کے خوبصورت اور فصیح وبلیغ ترین خطبوں کا ہم وزن شمار کیا جاتا ہے۔
ایسا خطبہ جو شدید ترین غم و اندوہ کے عالم میں ، مسجد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم میں سینکڑوں مردوں اور مسلمانوں کے سامنے دیا جاتا ہے۔ یہ خطبہ بغیر کسی تیاری اورتفکر کے فی البدیع اس عظیم خاتون کی زبان پر جاری ہوتا ہے۔ اس کا وہ بیانِ رسا،اس کی حکمتیں، عالم غیب سے اُس کا رابطہ ،وہ عظیم ترین مطالب، وہ معرفت الٰہی و شریعت کے گوہر ہائے بے مثل و نظیر ، و ہ عمق و گہرائی ، وہ عظمت الٰہی کو بیان کرنے والے کلام کی رفعت وبلندی اور سب سے بڑھ کر وہ نورانی قلب کہ جس سے حکمت و معرفت کہ یہ چشمے جاری ہوئے ،وہ نورانی بیان کہ جس نے سب کو مبہوت کردیا اور وہ نورانی اور مبارک زبان کہ جس کے ذریعے اُس خاتون نے اپنے کلمات کو خدا کی راہ میں بیان کیا ۔ اس تمام عظمت و فضیلت کے بارے میں ہمارے سرمائے کی کیا حیثیت ہے کہ اگر ہم اُسے مکمل طور پر خدا کی راہ میں خرچ کردیں! ہمارے سرمائے کیا حیثیت رکھتے ہیں؟ کیا ہمارا سرمایہ اُس عظیم سرمائے کہ جسے حضرت زہر اء علیھا السلام ، اُن کے شوہر ، اُن کے والد ماجد اور ان کی اولاد نے خد اکی راہ میں خرچ کیا، قابل مقایسہ ہے؟!
ہمارا یہ مختصر علم، ہماری یہ ناقابل قوت بیان و زبان ،قلیل سرمایہ ، مختصر پیمانے پر ہمارا اثر ونفوذ ، ہماری محدود صلاحیتیں اور نچلی سطح کی مختصر سی معرفت اُس عظیم اور بے مثل و نظیر ذخیرے کے مقابلے میں کہ جسے خداوند عالم نے حضرت فاطمہ زہراء علیھا السلام کے ملکوتی و نورانی وجود میں قرار دیا تھا، کس اہمیت کا حامل ہے؟! ہمارے پاس ہے ہی کیا جو راہ خدا میں بخل سے کام لیں؟ آج علی ٴ، فاطمہ علیہما السلام اور آئمہ کی راہ وہی امام خمینی کی راہ ہے۔ اگر کسی نے اس (راہ اور اس راہ دکھانے والی شخصیت) کونہ جانا اور نہ سمجھا ہو تو اسے اپنی بصیرت کے حصول کیلئے از سر نو جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، اسی راہ میں خرچ کرنا چاہیے اور یہی وہ چیز ہے کہ جو اہل بیت ٴ سے ہمارے تعلق اور لگاو کو حقیقت کا رنگ بخشتی ہے۔
فاطمہ زہراء علیھا السلام ،عالم ہستی کا درخشاں ستارہ
ہم نے حضرت فاطمہ زہراء علیھا السلام کے بارے میں حقیقتاً بہت کم گفتگو کی ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں نہیں علم کہ ہم کیا کہیں اور کیا سوچیں؟ اس انسيّہ حوراء، روح مجرد اورخلاصہ نبوت ولایت کے بابرکت وجود کے ابعاد اور جہات ہمارے سامنے اتنے زیادہ وسیع، لامتناہی اور ناقابل درک ہیں کہ ہم جب اس شخصیت پر نگاہ ڈالتے ہیں تو وادی حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔ آپ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ زمانہ اُ ن من جملہ سے تعلق رکھتا ہے کہ جو انسان کو شخصیت کہ صحیح طور پر پہنچانے اور درک کرنے کی راہ میں مانع ہوتے ہیں۔
عالم بشریت کے اکثر و بیشتر ستارے اپنی حیات میں اپنے ہم عصر افراد کے ذریعے ناقابل شناخت رہے اور انہیں پہنچانا نہیں گیا۔ انبیا واولیا میں سے بہت کم افراد ایسے تھے جو اپنے قریبی ترین مخصوص و مختصر افرادکے ذریعے پہچانے گئے۔ لیکن حضرت فاطمہ زہر اء علیھا السلام کی شخصیت ایسی ہے کہ جس کی نہ صرف اپنے زمانے میں اپنے والد ،شوہر ، اولاد اور خاص شیعوں کے ذریعے سے بلکہ اُن افراد کے ذریعے سے بھی کہ جو حضرات زہراء علیھا السلام سے شاید اتنے قریب بھی نہیں تھے، مدح و ثنا کی گئی ہے۔
اہل سنت کی کتابوں میں حضرت زہراء علیھا السلام کی شخصیت
اگر آپ اہل سنت محدثین کی حضرت زہراء علیھا السلام کے بارے میں لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی زبان حضرت صدیقہ طاہرہ علیھا السلام کی مدح و ستائش میں بہت سی روایات نقل کی گئی ہیں یا حضرت زہراء علیھا السلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے کردار و سلوک کو بیان کیا گیا ہے یا ازواج نبی یا دیگر شخصیات کی زبانی تعریف کی گئی ہے۔
حضرت عائشہ سے یہ معروف حدیث نقل کی گئی ہے ’’واللّٰه مارَاَیتُ فِی سمته و هدیة اَشبَه بِرَسُولِ اللّٰه مِن فَاطِمَة‘‘ ۔میں نے پیغمبر اکرم کی شکل و شمائل ،ظاہری قیافے،درخشندگی اور حرکات و رفتار کے لحاظ سے کسی ایک کو بھی فاطمہ سے زیادہ شباہت رکھنے والا نہیں پایا‘‘ ۔ وَکَانَ اِذَا دَخَلَت عَلٰی رَسُولِ اللّٰه قَامَ اِلَیها‘‘۔ جب فاطمہ زہراء علیھا السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس تشریف لائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اُن کے احترام میں کھڑے ہوجاتے اور مشتاقانہ انداز میں ان کی طرف بڑھ کر اُن کااستقبال کرتے۔ یہ ہے ’’قَامَ اِلَیها‘‘ کی تعبیر کا معنی۔ ایسا نہیں تھا کہ جب حضرت زہراء علیھا السلام تشریف لاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم صرف کھڑے ہوکر اُن کا استقبال کرتے، نہیں ! ’’قَامَ اِلَیها‘‘ یعنی کھڑے ہوکر اُن کی طرف قدم بڑھاتے۔بعض مقامات پر اسی راوی نے اس روایت کو اس طرح نقل کیا ہے کہ ’’وَ کَانَ يُقَبِّلُها ويُجلِسُها مَجلِسَه ‘‘۔’’وہ حضرت فاطمہ زہراء علیھا السلام کو پیار کرتے، چومتے اور اُن کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ پر بٹھاتے‘‘۔ یہ ہے حضرت فاطمہ زہراء علیھا السلام کا مقام ومنزلت ۔ اس باعظمت شخصیت کے بارے میں ایک عام انسان کی کیا مجال کہ وہ لب گشائی کرے!
سیرت حضرت زہراء علیھا السلام کی کما حقہ معرفت
میرے محترم دوستو! حضرت فاطمہ علیھا السلام کی عظمت و فضیلت اُن کی سیرت میں واضح و آشکار ہے ۔ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم حضرت زہراء علیھا السلام کے بارے میں کیا شناخت و آشنائی رکھتے ہیں۔ اہل بیت ٴ کے محبوں نے پوری تاریخ میں حتی الامکان یہی کوشش کی ہے کہ حضرت فاطمہ زہراء علیھا السلام کی کما حقہ معرفت حاصل کریں۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی یہ خیال کرے کہ یہ عظیم شخصیت صرف ہمارے زمانے میں ہی ہر دلعزیز ہے ۔ آج الحمدللہ اسلامی حکومت کا زمانہ ہے اور حکومت قرآن ، حکومت علوی اور حکومت اہل بیت ٴ کا دوردورہ ہے ۔جو کچھ دل میں موجزن ہے وہ زبانوں پر بھی جاری ہوتا ہے اور ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔
دنیائے اسلام کی قدیمی ترین جامعہ (یونیورسٹی) جس کا تعلق تیسری اور چوتھی صدی ہجری سے ہے، حضرت فاطمہ زہراء علیھا السلام کے نام پر ہے۔ اسی معروف جامعۃ الازھر کا نام حضرت زہر علیھا السلام کے نام سے اخذ کیا گیا ہے۔ اُن ایام میں حضرت فاطمہ زہراء علیھا السلام کے نام پر یونیورسٹی بناتے تھے۔ مصر میں حکومت کرنے والے فاطمی خلفاء سب شیعہ تھے ۔ بنا برایں ، صدیوں سے شیعوں کی یہی کوشش رہی ہے کہ اس عظیم ہستی کی کماحقہ معرفت حاصل کریں۔
عظمت خدا کا ایک نمونہ!
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ہم تمام ستاروں سے اپنی راہ تلاش کریں۔
’’وَبِالنِّجمِ هم ییھتَدُونَ ‘‘
(سورہ نحل ١٦)
عاقل انسان کا یہی عمل ہوتا ہے۔ستارہ جو آسمان پر چمک رہا ہے اُس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ ستاروں کی بھی اپنی ایک عجیب اورعظیم دنیا ہے۔ کیا یہ ستارے یہی ہیں کہ جو ہم اور آپ دیکھ رہے ہیں؟ کہتے ہیں کہ آسمان پر چمکنے والے ان چھوٹے سے ستاروں میں سے بعض ستارے کہکشاں کہ جس میں خود اربوں ستارے موجود ہیں، سے بڑے ہیں! قدرت الٰہی کی نہ کوئی حد ہے اور نہ کوئی اندازہ۔ عاقل انسان کہ جسے خداوند عالم نے قوتِ بصارت دی ہے، کو چاہیے کہ اپنی زندگی کیلئے ان تمام ستاروں کے وجود سے فائدہ حاصل کرے۔ قر آن کہتا ہے کہ ’’وَبِالنِّجمِ هم یهتَدُونَ ‘‘ ۔ یہ ستاروں کے ذریعے سے راستہ کو پاتے ہیں۔
حضرت فاطمہ علیھا السلام سے درس خدا لیجئے!
میرے عزیز دوستو! عالم خلقت کا یہ درخشاں ستارہ ایسا نہیں ہے جو ہمیں نظر آرہا ہے، اس کی حقیقت اور مقام و منزلت اس ظاہری اور نظر آنے والے وجود سے بہت بلند و برتر ہے۔ ہم حضرت زہر علیھا السلام سے صرف ایک نور و روشنی دیکھ رہے ہیں لیکن حقیقت اس سے بہت آگے اور بلند ہے۔ میں اور آپ ان بزرگوار ہستی سے کیا استفادہ کرسکتے ہیں؟ روایت میں ہے کہ ’’تُظهرُ الآَهلَ السَّمآء ‘‘ عالم ملکوت کے رہنے والوں کی آنکھیں حضرت زہراء علیھا السلام کے نور سے خیرہ ہوجاتی ہیں،تو میں اور آپ کیا حقیقت رکھتے ہیں!یہاں ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم اس عظیم ہستی کے وجود سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ چاہیے کہ اس روشن و درخشاں ستارے سے خدا اوراس کی بندگی کی راہ کو ڈھونڈیں کیونکہ یہی سیدھا راستہ ہے اور فاطمہ زہراء علیھا السلام نے اس راہ کو پایا اور فاطمۃ الزہراء بن گئیں۔ خداوند عالم نے اُن کے وجود کو اعلی و ارفع قرار دیا ،اس لیے کہ وہ جانتا تھا کہ وہ عالم مادہ اور عالم ناسوت کے امتحان میں اچھی طرح کامیاب ہوں گی۔
حضرت زہراء علیھا السلام کے صبر اور غوروفکر کی عظمت!
اِمتَحَنَکِ اللّٰه الَّذِی خَلَقَکِ قَبلَ اَن يَخلُقَکِ فَوَجَدَکِ لِمَا امتَحَنَکِ صَابِرَۃً ‘‘
(مناقب، جلد ٣، صفحہ ٣٤١)
خدا نے آپ کی تخلیق سے قبل امتحان لیا اور ان تمام حالات میں آپ کو صابر پایا)۔ اگر خداوند عالم نے (خلقت سے قبل) اُن کے (نورانی) وجود پر اپنا خاص لطف کیا ہے تواُس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراء علیھا السلام (دنیوی) امتحانات میں کس طرح کامیاب ہوں گی۔ ورنہ بہت سے افراد کی شروعات تو بہت اچھی تھیں لیکن کیا وہ سب امتحانات میں کامیاب ہوگئے؟ ہمیں اپنی نجات کیلئے حضرت زہراء علیھا السلام کی زندگی کے اس حصے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ حدیث شیعہ راویوں سے نقل کی ہے کہ پیغمبر اکرم نے حضرت فاطمہ علیہا السلام سے فرمایا
’’یا فاطِمَة بِنتَ محمّدٍ اِنّی لَا اَغنيٰ عَنکِ مِنَ اللّٰه شَیئًا‘‘
اے میری پیاری لخت جگر، اے میری فاطمہ میں خدا کیلئے تم کو کسی چیز سے بے نیاز نہیں کرسکتا ہوں ۔ یعنی تم اپنے غوروفکر کے ذریعے سے بارگاہ الٰہی میں آگے بڑھو اور ایسا ہی تھا۔ وہ اپنی فکر و معرفت کے ذریعے اِس مقام تک پہنچیں۔
http://alhassanain.org/urdu/?com: Source

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button