محافلمناقب رسول خدا صمناقب و فضائل

بعثت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

آیۃاللہ ناصر مکارم شیرازی
مترجم:علامہ صفدر حسین نجفی
آغازوحی
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کوہ حرا پر گئے ہوئے تھے کہ جبرئیل آئے اور کہا : اے محمد پڑھ: پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں پڑھا ہوانہیں ہوں ۔ جبرئیل نے انہیں آغوش میں لے کردبایا اور دوبارہ کہا : پڑھ، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر اسی جواب کو دہرایا۔ اس کے بعد جبرئیل نے پھر وہی کام کیا اور وہی جواب سنا ، اور تیسری بارکہا:
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ
(سورہ علق آیت ۱)
جبرائیل علیہ السلام یہ بات کہہ کر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظروں سے غائب ہوگئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو وحی کی پہلی شعاع کو حاصل کرنے کے بعد بہت تھکے ہوئے تھے خدیجہ کے پاس آئے اور فرمایا : ” زملونی ودثرونی “ مجھے اڑھادو اور کوئی کپڑا میرے اوپر ڈال دوتاکہ میں آرام کروں ۔
”علامہ طبرسی“ بھی مجمع البیان میں یہ نقل کرتے ہیں کہ رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نےحضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا :
”جب میں تنہا ہوتا ہوں تو ایک آواز سن کر پریشان ہوجاتاہوں “ ۔ حضرت خدیجہ علیہ السلام نے عرض کیا : خداآپ کے بارے میں خیر اور بھلائی کے سواکچھ نہیں کرے گا کیونکہ خدا کی قسم آپ امانت کو ادا کرتے ہیں اور صلہ رحم بجالاتے ہیں ‘اور جوبات کرتے ہیں اس میں سچ بولتے ہیں ۔
”خدیجہ“ کہتی ہیں : اس واقعہ کے بعد ہم ورقہ بن نوفل کے پاس گئےنوفل خدیجہ کا زاد بھائی اور عرب کے علماء میں سے تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو کچھ دیکھا تھا وہ“ ورقہ“ سے بیان کیا ” ورقہ “ نے کہا : جس وقت وہ پکارنے والا آپ کے پاس آئے تو غور سے سنو کہ وہ کیا کہتا ہے ؟ اس کے بعد مجھ سے بیان کرنا۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی خلوت گاہ میں سنا کہ وہ کہہ رہاہے :
اے محمد ! کہو :
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
اور کہو ” لاالہ الااللہ“ اس کے بعد آپ ورقہ کے پاس آئے اور اس ماجرے کو بیان کیا ۔
” ورقہ “ نے کہا : آپ کو بشارت ہو ‘ پھر بھی آپ کو بشارت ہو ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ وہی ہیں جن کی عیسی بن مریم علیہ السلام نے بشارت دی ہےآپ حضرت موسی علیہ السلام کی طرح صاحب شریعت ہیں اور پیغمبر مرسل ہیں ۔ آج کے بعد بہت جلدہی جہاد کے لیے مامور ہوں گے اور اگر میں اس دن تک زندہ رہا تو آپ کے ساتھ مل کر جہاد کروں گا “ جب “ ور قہ دنیا سے رخصت ہو گیا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”میں نے اس روحانی شخص کو بہشت (برزخی جنت ) میں دیکھا ہے کہ وہ جسم پر ریشمی لباس پہنے ہوئے تھا‘ کیونکہ وہ مجھ پر ایمان لایا تھا اور میری تصدیق کی تھی”۔
(یقینی طورپر مفسرین کے بعض کلمات یا تاریخ کی کتابوں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کی اس فصل کے بارے میں ایسے ناموزوں مطالب نظرآتے ہیں جو مسلمہ طور پر جعلی‘ وضعی ‘ گھڑی ہوئی روایات اور اسرائیلیات سے ہیں مثلاًیہ کہ پیغمبر نزول وحی کے پہلے واقعہ کے بعد بہت ہی ناراحت ہوئے اور ڈرگئے کہ کہیں یہ شیطانی القات نہ ہوں )
پہلا مسلمان
(اس سوال کو اکثر مفسرین نے سورہ توبہ آیت۱۰۰”السابقو’ن الاولون“کے ضمن میں بیان کیا ہے)
اس سوال کے جواب میں سب نے متفقہ طور پر کھا ہے کہ عورتوں میں سے جو خاتون سب سے پہلے مسلمان ہوئیں وہ جناب خدیجہ علیہا السلام تھیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفاداراور فدا کار زوجہ تہیں باقی رہا مردوں میں سے تو تمام شیعہ علماء ومفسرین اور اہل سنت علماء کے ایک بہت بڑے گروہ نے کہا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام وہ پہلے شخض تھے جنہوں نے مردوں میں سے دعوت پیغمبر پر لبیک کہی علماء اہل سنت میں اس امرکی اتنی شہرت ہے کہ ا ن میں سے ایک جماعت نے اس پر اجماع واتفاق کا دعویٰ کیا ہے ان میں سے حاکم نیشاپوری نے کہا ہے :
مورخین میں اس امر پر کوئی اختلاف نہیں کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام اسلام لانے والے پہلے شخص ہیں ۔ اختلاف اسلام قبول کرتے وقت ان کے بلوغ کے بارے میں ہے ۔
(مستدرک علی صحیحین کتاب معرفت ص۲۲)
جناب ابن عبدالبر لکھتے ہیں : اس مسئلہ پر اتفاق ہے کہ خدیجہ علیہا السلام وہ پہلی خاتون ہیں جو خدا اور اس بات کا پختہ ارادہ کرلیا کہ خود کو پہاڑ سے گرادیں ‘ اور اسی قسم کے فضول اور بے ہودہ باتیں جو نہ تو نبوت کے بلند مقام کے ساتھ سازگار ہیں اور نہ ہی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس عقل اور حد سے زیادہ دانش مندی ‘ مدبریت ‘ صبر وتحمل وشکیبائی ‘ نفس پر تسلط اور اس اعتماد کو ظاہر کرتی ہیں جو تاریخوں میں ثبت ہے ۔
(استیعاب ،ج ۲ ص۴۵۷)
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس قسم کی ضعیف ورکیک روایات دشمنان اسلام کی ساختہ وپرداختہ ہیں جن کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کو بھی مورد اعتراض قراردے دیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات گرامی کو بھی ۔
اس کے رسول پر ایمان لائیں اور جو کچھ وہ لائے تھے اسی کی تصدیق کی ۔ پھر حضرت علی علیہ السلام نے ان کے بعد یہی کام انجام دیا ۔
(الغدیر ج ،۳ص۲۳۷)
ابوجعفر الکافی معتزلی لکھتا ہے : تمام لوگوں نے یہی نقل کیا ہے کہ سبقت اسلام کا افتخار علی سے مخصوص ہے ۔
(الغدیر ج ،۳ص۲۳۷)
قطع نظر اس کے کہ پیغمبر اکرم سے،خود حضرت علی علیہ السلام سے اور صحابہ سے اس بارے میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں جو حد تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں ،ذیل میں چند روایات ہم نمونے کے طور پر نقل کرتے ہیں : پیغمبر اکر منے فرمایا :
۱ ۔پہلا شخص جو حوض کوثر کے کنارے میرے پاس پہنچے گا وہ شخص ہے جو سب سے پہلے اسلام لایا اور وہ علی بن ابی طالب علیہ السلام ہے۔
(الغدیرمیں یہ حدیث مستدرک حاکم ج۲ص۶ ۱۳ ،استیعاب ج۲ ص ۴۵۷ اور شرح ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۲۵۸ سے نقل کی گئی ہے)
۲ ۔ علماء اہل سنت کے ایک گروہ نے پیغمبر اکرم سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑکر فرمایا :
یہ پہلا شخص ہے جو مجھ پر ایمان لایا اور پہلا شخص ہے جو قیامت میں مجھ سے مصافحہ کرے گا اور یہ ”صدیق اکبر“ ہے ۔
(الغدیر ہی میں یہ حدیث طبرانی اور بیہقی سے نقل کی گئی ہے نیز بیہقی نے مجمع میں، حافظ گنجی نے کفایہ اکمال میں اور کنز العمال میں نقل کی ہے)
۳ ۔ابو سعید خدری رسول اکرم سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت نے حضرت علی علیہ السلام کے دونوں شانوں کے درمیان ہاتھ مارکر فرمایا :”اے علی علیہ السلام : تم سات ممتاز صفات کے حامل ہو کہ جن کے بارے میں روز قیامت کوئی تم سے حجت بازی نہیں کرسکتا ۔ تم وہ پہلے شخص ہو جو خدا پر ایمان لائے اور خدائی پیمانوں کے زیادہ وفادار ہو اور فرمان خداکی اطاعت میں تم زیادہ قیام کرنیوالے ہو۔
(الغدیر میں یہ حدیث حلیتہ الاولیاء ج اص ۶۶ کے حوالے سے نقل کی گئی ہے)
http://alhassanain.org/urdu/?com

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button