مناقب سیدہ زینب بنت علی سمناقب و فضائل

شیر خدا کی شیر دل بیٹی حضرت زینب علیہا السلام

تحریر: سید محمد علی شاہ الحسینی (ایس ایم شاہ)
تاریخ بشریت میں چند خواتین ایسی آئی ہیں، جنہوں نے تاریخ رقم کی ہے۔ جناب مریم، جناب آسیہ، جناب خدیجہ، جناب فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کے بعد حضرت زینب ؑہی وہ عظیم ہستی ہیں کہ چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود آج تک آپ کا کوئی ثانی نہیں۔ اس میں جہاں آپ کے نسب کا اثر ہے تو ساتھ ہی حسب بھی بے مثل ہے۔ آپ کی ولادت باسعادت کے بارے میں کئی اقوال ہیں ان میں سے سب سے مشہور 5 جمادی الاوّل 6ہجری ہے۔ آپ کا نام بھی آپ کے جد نامدار حضرت محمدؐ نے “زینب” رکھا؛ یعنی باپ کی زینت۔ آپ کے مختلف القابات میں سے “عقیلہ” سب سے مشہور ہے۔ آپ ماں باپ دونوں طرف سے ہاشمی ہیں۔ وراثت، نسب، حافظہ، معاشرہ اور ارادے سے مربوط تمام عوامل جو ایک انسان کی تقدیر ساز حیثیت کی حامل ہیں، بطور اتم آپ میں موجود تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ حیا میں حضرت خدیجہؑ کی مانند، عفت میں اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہؑ جیسی اور فصاحت و بلاغت میں اپنے والد گرامی کی شبیہ تھیں، حلم اور غیر معمولی صبر میں آپ اپنے بھائی حسنؑ سے مشابہت رکھتی تھیں اور بہادری و قوت قلبی میں آپ حسینؑ کی مانند تھیں۔ آپ نے ایک ایسے معاشرے میں پرورش پائی، جو مرکز عظمت و کمال کی حیثیت رکھتا تھا۔ پورے معاشرے کو ان کی فضیلت نے پاکیزگی اور سچائی سے بھر دیا تھا۔ آپ کی نشو و نما مدینے میں حضرت علیؑ، حضرت فاطمہؑ، حضرت حسنؑ اور حضرت حسینؑ کے ہاں انجام پائی۔ ابتدا میں آپ نے رسول خدا ﷺ کے نور کے سائے میں پھر حضرت فاطمہؑ و حضرت علیؑ کے یاروں اور خاندان نبوت کی ممتاز خواتین اور ان کی شاگردوں کے زیر سایہ پرورش پائی۔ بنابرایں آپ نے رسالت و امامت کے گھرانے میں آنکھ کھولی اور آپ نبوی، علوی اور فاطمی خصائص و کمالات کی وارث قرار پائیں۔ آپ کے جد امجد محمد مصطفٰی ﷺ مالک کون و مکان ہیں۔
آپ کی نانی ام المؤمنین حضرت خدیجہ کبریٰ ہیں، آپ ہی وہ خاتون ہیں کہ جو سب سے پہلے پیغمبر اسلام پر ایمان لائیں، دین اسلام کو قبول کیا اور سب سے پہلے رسول اکرم ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھی، آپ کے والد بزرگوار علی مرتضٰی حق و باطل کی شناخت کا معیار اور مؤمن و منافق کی پہچان کا پیمانہ ہیں، آپ کی والدہ ٔ ماجدہ زہراء مرضیہ زنان عالم کی سربراہ اور آپ کے دو بھائی حسنؑ و حسینؑ بہشت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ اس طرح حضرت زینبؑ کی شخصیت ایک باکردار اور شخصیت ساز گھرانے میں تشکیل پائی۔ آپ کے بارے میں حضورؐ کا ارشاد پاک ہے کہ “اس بیٹی کا احترام کیا کرو، کیونکہ یہ خدیجہ کبریٰ کی مانند ہیں۔” حضرت خدیجہؑ میں جتنی خصوصیات پائی جاتی تھیں، وہ تمام خصوصیات کامل طور پر حضرت زینبؑ میں بھی پائی جاتی تھیں۔ آپ کے والد بزرگوار نے آپ کی شادی آپ کے چچازاد بھائی، سخاوت کے دریا جناب عبد اللہ بن جعفر طیار سے ہوئی۔ شادی کے بعد حضرت علیؑ ہر روز آپ کے دیدار کے لئے جناب عبد اللہ کے ہاں تشریف لے جایا کرتے تھے اور آپؑ جناب عبداللہ اور حضرت زینبؑ کے ساتھ نہایت شفقت و محبت سے پیش آتے تھے۔ جو سلوک آپؑ اپنے دو صاحبزادوں حضرت حسنؑ اور حضرت حسینؑ سے روا رکھتے، وہی رویہ جناب عبد اللہ بن جعفر سے بھی روا رکھتے تھے۔ جب بھی حضرت زینبؑ اپنے جد نامدار حضرت رسول خداؐ کی زیارت کے لئے مسجد کا رخ کرتیں، تب امام حسنؑ ایک طرف اور امام حسینؑ دوسری طرف ان کے ساتھ تشریف لے جایا کرتے تھے۔ امیر المؤمنینؑ کسی کو مسجد کی طرف بھیجتے، تاکہ وہ مسجد کی لائٹوں کو بند کرے کہ کہیں کسی نامحرم کی نظر اس مخدرہ عصمت پر نہ پڑے ۔ جناب عبداللہ سے شادی کے بعد خداوند متعال نے آپ کا دامن متعدد موتیوں سے بھر دیا۔
ابن سعد کے قول کے مطابق آپ کے پانچ بچے تھے: علی، عون، عباس، محمد اور ام کلثوم۔ انسان کی کامیابی کا راز خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں وقت سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے پر منحصر ہے۔ ان خواتین کو ایک خاص امتیاز اور کامیابی نصیب ہوگی، جو اپنے بچے کو بااخلاق اور مہذب بنا کر ایک بہترین ماں ہونے کا ثبوت دیں۔ آپ نے اپنی مادر گرامی کی سیرت کو اپناتے ہوئے ان دونوں پہلوؤں کی طرف خصوصی توجہ دی۔ در نتیجہ آپ ایسے بچوں کی تربیت کر گئیں کہ حضرت عون و محمد کربلا میں امام حسینؑ کے ساتھ شہید ہوئے۔ آپ کی ایک صاحبزادی امّ کلثوم تھی۔ ان کی شان میں کہا گیا ہے کہ آپ حسن و جمال، کمالات معنویت، عقلمندی اور تیز فہم ہونے میں معصومینؑ کے علاوہ باقی خواتین میں بے مثل تھیں۔ لٰہذا تمام مسلم خواتین کو آپ کی مانند اپنے بچوں کی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ آپ اپنے گھر کا سارا کام خود انجام دیا کرتی تھیں۔ آپ کے شوہر حضرت عبداللہ صاحب استطاعت اور صاحب جاہ و حشم کے مالک ہونے کے باوجود بھی آپ نے ان کو کبھی گھر میں خدمت گار رکھنے نہ دیا اور تمام گھریلو امور عبادت سمجھ کر آپ خود انجام دیتی رہیں۔ یوں آپ قیامت تک آنے والی خواتین کے لئے نمونہ عمل قرار پائیں۔ آپ نے اس حقیقت کو عملی جامہ پہنا کر دکھا دیا کہ عفت کے پردے میں رہ کر گھریلو امور کو انجام دینا نہ صرف معیوب نہیں بلکہ بہترین عبادت ہے۔

اخلاق اور روحانی زاویے سے بھی آپ اعلٰی مقام پر فائز تھیں۔ آپ خضوع و خشوع اور عبادت و بندگی کے اعتبار سے اپنے پدر بزرگوار اور مادر گرامی کی حقیقی وارث تھیں۔ اکثر راتوں میں آپ تہجد کی حالت میں صبح کرتیں۔ آپ ہمیشہ قرآن کی تلاوت کیا کرتی تھیں۔ آپ کی شب بیداری اور تہجد کا سلسلہ پوری زندگی میں کبھی قطع نہیں ہوا۔ حضرت سجادؑ فرماتے ہیں کہ محرم الحرام کی گیارھویں کی شب بھی ان تمام دلسوز مصائب و آلام اور تھکاوٹ کے باوجود بھی میں نے اپنی پھوپھی جان کو جائے نماز پر مشغول عبادت پایا۔ روایات کے مطابق آپ کی ایک عظیم خصلت ایثار ہے۔ عاشور کے بعد بھی آپ ایثار کا پیکر بن کر اپنے حصے کا کھانا بچوں میں بانٹ دیا کرتیں اور خود بھوکی رہتی تھیں۔ آپ اپنی عفت اور حجاب کے لحاظ سے یگانہ تھیں، کیونکہ اپنے والد بزرگوار اور بھائیوں کی زندگی میں عاشور کے دن تک آپ پر کسی نامحرم کی نظر نہیں پڑی تھی۔ یحیٰی مازنی کا کہنا ہے کہ “میں نے کافی مدت مدینے میں حضرت علیؑ کی ہمسائیگی میں زندگی گزاری۔ خدا کی قسم ! میں نے اس طولانی مدت میں کبھی بھی زینبؑ کو نہیں دیکھا اور نہ ہی آپ کی کوئی آواز ہمارے کانوں سے ٹکرائی۔” صبر کی تو آپ پہاڑ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد جب آپ اسیر ہوکر ابن زیاد کے دربار میں پہنچیں تو اس نے طنزیہ لہجے میں کہا کہ تمہارے خدا نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟ تب آپ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا: “میں نے خدا سے اچھائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔” آپ نے بھایئوں اور بیٹوں کو خدا کی راہ میں شہید ہوتے دیکھا، صبر کیا، اموال کو غارت ہوتے دیکھا، صبر کیا۔ شہداء کے بچے بچیوں کو پایا اور ان کو اسیر ہوتے دیکھا، صبر کیا۔ بھوک، پیاس، قتل و غارت گری، توہین، اسیری اور شہداء کے بدن کو بے گور و کفن دیکھا، ان کے سروں کو نیزے پر بھی دیکھا، ان تمام مواقع پر بھی صبر کیا۔ عام انسانوں کے لئے ایسے وقائع کا تصور کرنا بھی مشکل ہوتا ہے اور اس کا جگر خون ہو جاتا ہے۔
آپ مقام رضا پر فائز تھیں، یہی وجہ ہے کہ جب آپ اپنے بھائی کی لاش پر پہنچیں، تب اس خون میں لت پت لاش کو سینے سے لگا کر خدا سے دعا کرتی ہیں: “خدایا! ہماری طرف سے اس قلیل قربانی کو اپنی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ عطا فرما۔” حضرت زینبؑ کی طینت، طینت رسول اللہ ہے اور آپ نے جہاد بالنفس کے ذریعے لذائذ حیوانی کو ترک کرکے ایک ایسا مقام حاصل کیا جسے “عصمت صغریٰ” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ عصمت صغریٰ کا مقام اولیائے الٰہی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ عصمت مجاہدۂ نفس اور لذائذ حیوانی کو ترک کرکے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اسی قول کو آیت اللہ تبریزی اور آیت اللہ خوئی دونوں نے قبول کیا ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ائمہ معصومینؑ کے بعد ایسی باعظمت ہستی ہیں، جو عصمت کے دوسرے درجہ پر فائز ہیں اور دوسرے تمام نیکو کاروں اور پرہیزگاروں پر برتری رکھتی ہیں۔ آپ تمام مسلمان خواتین کے لئے مرجع کی حیثیت رکھتی تھیں اور وہ اپنے دینی معاملات میں آپ کی طرف رجوع کیا کرتی تھیں۔ آپ انہیں درس تفسیر دیا کرتیں، حلال و حرام بیان فرماتیں اور ان کے سوالات کے جواب دیا کرتی تھیں۔ آپ نے حلال و حرام کو قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کیا اور مشتبہ امور کو ترک کرنے کی تلقین فرمائی۔ فصاحت و بلاغت تو آپ کو اپنے والد گرامی سے ورثے میں ملی تھی۔ جب بھی آپ کسی سے بات کرتیں، تب مخاطب گمان کرتا کہ شاید آپ کے والد بزرگوار ان سے بات کر رہے ہیں۔ آپ نے اپنے منطقی، ولولہ انگیز اور بامعنی خطبوں سے اپنے انقلاب کا آغاز کیا۔ اس کا سب سے پہلا نتیجہ یہ ہوا کہ نبیﷺ کے خاندان کو ایک ایسے خطرناک مرحلے سے نجات دلا دی، جس کی دشمن دھمکی دے رہے تھے. کیونکہ ہر لحظہ یہ خطرہ رہتا تھا کہ ابن زیاد کہ جس کا باطن خباثت اور اہل بیتؑ کی دشمنی سے پر تھا، ابھی فتح کے نشے میں مست بیٹھا تھا، کہیں ان کے قتل کا حکم صادر نہ کر دے۔ آپ نے ایسے موثر اور ماہرانہ انداز سے گفتگو کی کہ کوفے کے لوگوں کو مجہول الاصل اولاد زیاد کی حکومت سے کوسوں دور کر دیا۔ آپ نے اپنے خطبوں، بیانات، احتجاجات اور مجالس عزاء کے ذریعے امام حسینؑ کے اہداف کو لوگوں پر واضح کرکے رکھ دیا، امام کے پیغام کو سادہ لوح افراد تک پہنچایا۔ آپؑ نے کوفے میں اسیری کی حالت میں جو خطبے دیئے، ان سے بنو امیہ کے ہاتھوں کربلا میں سیدالشہداء کی شہادت اور دوسرے تمام جرائم کا پردہ چاک ہوا۔ آپؑ نے بنو امیہ کے فریب، دھوکے اور ان کے ظلم و ستم کی حقیقت کو فاش کیا۔ کوفے والوں کو ان کی عہد شکنی اور تاریک مستقبل کی طرف متوجہ کرکے ان کے درمیان انقلاب پیدا کر دیا۔ ظالم، غاصب اور فریب کار حاکموں کی طاقت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ آخر کار واقعہ کربلا اور امام حسینؑ کی شخصیت اور ان کے اہداف اور انکے مددگاروں کے اہداف کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ شہیدوں کے پیغام کو غفلت اور دھوکے میں پڑے ہوئے افراد پر واضح کر دیا، تاکہ اسیری اور خطبوں کا تسلسل، شہادت اور عاشورا کے پیغام کو دوسرے مراحل تک پہنچانے کا سبب بنیں۔
پس مدینے سے مکہ پھر مکے سے کربلا تک امام حسینؑ کا امتحان تھا، جس میں آپؑ سرخرو ہوئے، عصر عاشور سے حضرت زینبؑ کا امتحان شروع ہوا، کربلا سے کوفہ، کوفے سے شام، شام سے دوبارہ کربلا پھر مدینے سے باعزت نکلنے والا اہل بیتؑ لٹا ہوا یہ قافلہ تمام بھائی بیٹوں سے محروم ہوکر حضرت امام سجادؑ اور حضرت زینب ؑ کی قیادت میں مدینہ پہنچا۔ غرض آپ پیغمبر کربلا ہیں۔ آپ نے زندان شام میں ہی عزاداری امام حسینؑ کا اہتمام کیا، رہائی کا حکم ملتے ہی چند روز تک شام کی خواتین کو امت رسول کی جانب سے آل رسول کے ساتھ ہونے والے سلوک کا تذکرہ کرتی رہیں۔ جب لوگوں میں آگہی بڑھتی گئی اور آل رسول کی معرفت میں اضافہ ہوتا گیا تو یزید کی حکومت کا تختہ الٹنے کا خطرہ لاحق ہوا، پھر اس نے مجبور ہو کر اہل بیت اطہارؑ کو رہا کر دیا۔ یوں تمام مسلمانوں کے لئے عزاداری امام حسینؑ حضرت زینبؑ کی ایک اہم امانت ہے۔ اسی وجہ سے شاعر نے کیا خوب کہا ہے: “کربلا کے واقعے میں رنگ دونوں نے بھرا، ابتدا شبیرؑ نے کی انتہا زینبؑ نے کی۔” آپ کی رحلت اور مدفن کے بارے میں بھی کئی اقوال ہیں۔ مشہور یہی ہے کہ آپ نے 62 ہجری، رجب المرجب کی پندرہویں کو رحلت فرمائی اور آپ کو شام میں دمشق کے مقام پر دفنا دیا گیا۔ جہاں آج بھی ہزاروں لوگ آپ کی زیارت سے شرفیاب ہو رہے ہیں۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button