سلائیڈرمحافلمناقب امام محمد تقی عمناقب و فضائل

امامتِ امام جواد علیہ السلام، شیعہ روایات کی روشنی میں

مقدمہ:
بچپنے میں امام جوادؑ کا منصب امامت پر فائز ہونا، اس لیے کہ وہ پہلے امام تھے، جو اس عمر میں امامت کے اعلی و عظیم مقام پر فائز ہوئے تھے، یہ ایک ایسا کام تھا جس نے اس وقت امامت کے بارے میں بہت سی ابحاث کو جنم دیا۔ امام رضاؑ کی شہادت کے بعد بعض لوگ اسی وجہ سے شک و تردید کا شکار ہو گئے۔ اگرچہ شیعیان کے لیے واضح تھا کہ امام رضاؑ نے اپنے کم عمر بیٹے کو اپنے جانشین کے طور پر معیّن کیا ہے، لیکن امام جوادؑ کی کم عمری کی وجہ سے امام رضاؑ  صرف اس بارے میں احتیاط سے کام لے رہے تھے۔ البتہ شیعوں کی اکثریت نے اعتماد و اطمینان کی وجہ سے امام جوادؑ کی امامت کو دل و جان سے قبول کر لیا تھا۔
(اقتباس و تلخيص از کتاب حيات فکري و سياسي امامان شيعه- جناب رسول جعفريان. صفحه 472 تا 474.)
آئمہؑ  کی طرف سے اس بارے میں لوگوں کے لیے حقیقت اور بصیرت کو بیان کرنا، ایک لازمی و واضح چیز معلوم ہوتی ہے کہ ہم اسی وجہ سے مشاہدہ کرتے ہیں کہ آئمہ معصومینؑ نے اور خاص طور پر امام رضاؑ  نے مختلف مواقع پر مختلف الفاظ اور عبارات کے ساتھ، اصل امامت اور امام جوادؑ کی امامت کو ذکر و بیان کیا تھا۔
اس تحریر میں ہم آئمہ معصومینؑ کے اقوال کو اسی کے بارے میں ذکر کرتے ہیں:
روایات:
امام جوادؑ کی امامت کے بارے میں کتب شیعہ میں متعدد احادیث ذکر ہوئی ہیں۔ شیعہ محدثین نے ان احادیث کو کبھی خاص طور پر " بَابُ الْإِشَارَةِ وَ النَّصِّ عَلَى أَبِي جَعْفَرٍ الثَّانِي عليه السلام ” والے ابواب میں ذکر کیا ہے۔
(الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب، الكافي، ج‏1 ص:320)
جبکہ بعض احادیث کو مناسبت کے لحاظ سے مختلف ابواب میں ذکر کیا ہے۔
(ابو جعفر الصدوق، عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج 2 ص 297)
(الشيخ المفيد محمد بن محمد بن النعمان، الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، ج 2 ص 346)
ذیل میں اس بارے میں اختصار کی وجہ سے 16 روایات کو ذکر کیا جا رہا ہے۔ ان میں بعض روایات خاص طور پر امام جوادؑ کی امامت کو اور بعض روایات عام و کلی طور پر امام جواد ؑ کی امامت کو بیان کر رہی ہیں۔ ان روایات میں سے بہت سی روایات کو شیعہ کی احادیث کی اصلی ترین کتب سے ذکر کیا گیا ہے۔
کتب شیعہ میں مذکور روایات کو چار اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے:
امامت امام جوادؑ  در احادیث معراج.
امامت امام جوادؑ در احادیث لوح.
امامت امام جوادؑ در احاديث اثنا عشر.
امامت امام جوادؑ در احاديث امام رضاؑ.
قابل ذکر ہے کہ کوشش کی گئی ہے کہ اس تحریر میں ان روایات کو جمع کیا جائے کہ جن میں امام جواد ؑکے مبارک نام کو بھی ذکر کیا گیا ہے اور اس طرح ” يَكُونُ تِسْعَةُ أَئِمَّةٍ بَعْدَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، والْأَئِمَّةُ بَعْدِي اثْنَا عَشَر” کی عبارات کو ذکر کرنے سے پرہیز کیا گیا ہے۔
ا – امامت امام جواد علیہ السلام در احادیث معراج:
احادیث معراج کی قسم میں تین روایات کو ذکر کیا گیا ہے۔ ایک روایت کو کتاب « كمال الدين، شيخ صدوق » اور دو روایات کو کتاب « كفاية الأثر في النص علي الأئمة الاثني عشر مرحوم خزاز قمی »سے ذکر کیا گیا ہے۔ تینوں روایات کو امام علیؑ نے رسولؐ خدا سے نقل فرمایا ہے۔ان روایات کے مطابق خداوند نے رسولؐ خدا کے سفر معراج میں بارہ آئمہ اور میں سے امام جوادؑکا رسول خدا کے ساتھ نورانی و معصوم انسان اور جانشین کے طور پر تعارف کرایا گیا۔
روایت اول:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْحَاقَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَمَّامٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَابُنْدَاذَقَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ هِلَالٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ عَنِ الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ آبَائِهِ  عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ‏ لَمَّا أُسْرِيَ بِي إِلَى السَّمَاءِ أَوْحَى إِلَيَّ رَبِّي جَلَّ جَلَالُهُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي اطَّلَعْتُ عَلَى الْأَرْضِ اطِّلَاعَةً فَاخْتَرْتُكَ مِنْهَا فَجَعَلْتُكَ نَبِيّاً … ثُمَّ اطَّلَعْتُ الثَّانِيَةَ فَاخْتَرْتُ مِنْهَا عَلِيّاً وَ جَعَلْتُهُ وَصِيَّكَ … وَ خَلَقْتُ فَاطِمَةَ وَ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ مِنْ نُورِكُمَا ثُمَّ عَرَضْتُ وَلَايَتَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَمَنْ قَبِلَهَا كَانَ عِنْدِي مِنَ الْمُقَرَّبِينَ يَا مُحَمَّدُ لَوْ أَنَ‏ عَبْداً عَبَدَنِي‏ حَتَّى يَنْقَطِعَ وَ يَصِيرَ كَالشَّنِّ الْبَالِي ثُمَّ أَتَانِي جَاحِداً لِوَلَايَتِهِمْ فَمَا أَسْكَنْتُهُ جَنَّتِي وَ لَا أَظْلَلْتُهُ تَحْتَ عَرْشِي يَا مُحَمَّدُ تُحِبُّ أَنْ تَرَاهُمْ قُلْتُ نَعَمْ يَا رَبِّ فَقَالَ عَزَّ وَ جَلَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ فَرَفَعْتُ رَأْسِي وَ إِذَا أَنَا بِأَنْوَارِ عَلِيٍّ وَ فَاطِمَةَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ وَ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ وَ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى وَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ وَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ وَ م‏ح‏م‏د بْنِ الْحَسَنِ الْقَائِمِ فِي وَسْطِهِمْ كَأَنَّهُ كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ- قُلْتُ يَا رَبِّ وَ مَنْ هَؤُلَاءِ قَالَ هَؤُلَاءِ الْأَئِمَّةُ …
امیر المؤمنین علیؑ نے فرمایا ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا کہ: جب مجھے سفر معراج پر لے جایا گیا تو، خداوند نے مجھ پر وحی نازل کی کہ: اے محمد! بے شک میں نے زمین کی طرف نگاہ کی اور آپ کو ان میں سے انتخاب کیا اور اپنا پیغمبر قرار دیا۔۔۔۔۔۔ پھر میں نے دوبارہ زمین کی طرف نگاہ کی اور علی کا انتخاب کر کے ان کو آپ کا وصی اور خلیفہ قرار دیا۔۔۔۔۔۔۔ اور تم دونوں کے نور سے فاطمہ، حسن و حسین کو خلق کیا۔ پھر ان کی ( امیر مؤمنین علیؑ، حضرت فاطمہ زہراؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ ) ولایت کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا، ان میں سے جس نے بھی ان کی ولایت کو قبول کر لیا، وہ میرے نزدیک مقربین میں سے ہے۔
اے محمد! اگر کوئی بندہ اس قدر میری عبادت کرے کہ ایک خشک و پرانی پانی کی مشک کی طرح ہو جائے، پھر اس حالت میں مجھ خداوند سے ملاقات کرے کہ ان کی ولایت کا انکار کرنے والا ہو، تو میں ایسے بندے کو جنت میں جگہ نہیں دوں گا اور اپنے عرش کا سایہ اس پر نہیں کروں گا۔ اے محمد کیا آپ ان لوگوں کو دیکھنا چاہتے ہیں؟ رسولؐ خدا نے عرض کیا ہاں، اے میرے پروردگار، خداوند نے فرمایا: اپنے سر کو اوپر کرو، میں نے سر بلند کیا اور علی، فاطمہ، حسن، حسین، علی بن الحسین، محمد بن علی، جعفر بن محمد، موسی بن جعفر، علی بن موسی، محمد بن علی، علی بن محمد، حسن بن علی اور قائم (علیہم السلام) کے انوار کو دیکھا کہ ان میں سے قائم ایک نورانی ستارے کی طرح روشن تھا، میں نے عرض کیا اے پرودگار یہ کون ہیں؟ خداوند نے فرمایا: یہ آپؐ کے بعد آنے والے آئمہ ہیں۔۔۔۔۔۔
(الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفى381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة، ص 252 الي 253، ناشر:‌ اسلامية ـ تهران‏، الطبعة الثانية‏، 1395 هـ.)
روایت دوم:
حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مَنْدَةَ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْكُوفِيُّ الْمَعْرُوفُ بِأَبِي الْحَكَمِ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ حَبِيبٍ قَالَ حَدَّثَنِي شَرِيكٌ عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ قَيْسٍ قَالَ: خَطَبَنَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مِنْبَرِ الْكُوفَةِ خُطْبَتَهُ اللُّؤْلُؤَةَ … فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ يُقَالُ‏ لَهُ‏ عَامِرُ بْنُ‏ كَثِيرٍ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَقَدْ أَخْبَرْتَنَا عَنْ أَئِمَّةِ الْكُفْرِ وَ خُلَفَاءِ الْبَاطِلِ فَأَخْبِرْنَا عَنْ أَئِمَّةِ الْحَقِّ وَ أَلْسِنَةِ الصِّدْقِ بَعْدَكَ قَالَ نَعَمْ إِنَّهُ بِعَهْدٍ عَهِدَهُ إِلَيَّ رَسُولُ اللّٰهِ  أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ يَمْلِكُهَا اثْنَا عَشَرَ إِمَاماً تِسْعَةٌ مِنْ صُلْبِ الْحُسَيْنِ وَ لَقَدْ قَالَ النَّبِيُّ ص لَمَّا عُرِجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ نَظَرْتُ إِلَى سَاقِ الْعَرْشِ فَإِذَا فِيهِ مَكْتُوبٌ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰهِ أَيَّدْتُهُ بِعَلِيٍّ وَ نَصَرْتُهُ بِعَلِيٍّ وَ رَأَيْتُ اثْنَيْ عَشَرَ نُوراً فَقُلْتُ يَا رَبِّ أَنْوَارُ مَنْ هَذِهِ فَنُودِيتُ يَا مُحَمَّدُ هَذِهِ أَنْوَارُ الْأَئِمَّةِ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللّٰهِ أَ فَلَا تُسَمِّيهِمْ لِي قَالَ نَعَمْ أَنْتَ الْإِمَامُ وَ الْخَلِيفَةُ بَعْدِي تَقْضِي دَيْنِي وَ تُنْجِزُ عِدَاتِي وَ بَعْدَكَ ابْنَاكَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ بَعْدَ الْحُسَيْنِ ابْنُهُ عَلِيٌّ زَيْنُ الْعَابِدِينَ وَ بَعْدَهُ ابْنُهُ مُحَمَّدٌ يُدْعَى بِالْبَاقِرِ وَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ ابْنُهُ جَعْفَرٌ يُدْعَى بِالصَّادِقِ وَ بَعْدَ جَعْفَرٍ ابْنُهُ‏ مُوسَى يُدْعَى بِالْكَاظِمِ وَ بَعْدَ مُوسَى ابْنُهُ عَلِيٌّ يُدْعَى بِالرِّضَا وَ بَعْدَ عَلِيٍّ ابْنُهُ مُحَمَّدٌ يُدْعَى بِالزَّكِيِّ وَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ ابْنُهُ عَلِيٌّ يُدْعَى بِالنَّقِيِّ وَ بَعْدَ عَلِيٍّ ابْنُهُ الْحَسَنُ يُدْعَى بِالْأَمِينِ وَ الْقَائِمُ مِنْ وُلْدِ الْحسنِ سَمِيِّي وَ أَشْبَهُ النَّاسِ بِي يَمْلَأُهَا قِسْطاً وَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْما …
علقمۃ بن قیس نے کہا ہے کہ امیر المؤمنین علی ابن ابی طالبؑ نے منبر کوفہ پر خطبہ دیا۔ ۔۔۔۔۔۔ ایک عامر ابن کثیر نامی شخص کھڑا ہوا اور کہا: اے امیر المؤمنین! آپ نے ہمیں آئمہ کفر اور خلفاء باطل کے بارے میں آگاہ کیا ہے، تو اب آپ ہمیں اپنے بعد آنے والے آئمہ حق کے بارے میں بھی آگاہ کریں۔ علیؑ نے فرمایا:
یہ وہ عہد ہے کہ جو رسولؑ خدا نے میرے لیے بیان کیا ہے کہ امر خلافت 12 اماموں کو ملے گی، کہ ان میں سے 9 امام، نسل امام حسین ؑسے ہوں گے، اور فرمایا کہ: جب مجھے آسمان پر لے جایا گیا تو میں نے عرش کی طرف نگاہ کی تو اس پر لکھا تھا کہ:
«لا إله إلّا اللّٰه محمّد رسول اللّٰه»، اور محمد کی علی کے ذریعے سے مدد کی ہے، اور میں نے بارہ انوار کو دیکھا، عرض کیا: پرودگارا یہ انوار کون ہیں؟ نداء آئی: اے محمد یہ آپ کی اولاد میں سے آئمہ کا نور ہے۔ میں نے عرض کیا: اے رسول خدا کیا آپ میرے لیے ان کے ناموں کو ذکر نہیں فرمائیں گے؟ فرمایا، ہاں ذکر کرتا ہوں، تم میرے بعد امام و خلیفہ ہو اور تیرے بعد میرے دو بیٹے حسن و حیسن، اور حسین کے بعد ان کا بیٹا علی ابن الحسین زین العابدین، پھر علی کے بعد ان کے بیٹے محمد ہیں کہ جن کو باقر کہا جاتا ہے، اس کے بعد ان کے بیٹے جعفر ہیں کہ جن کو صادق کہا جاتا ہے، اس کے بعد ان کے بیٹے موسی ہیں کہ جن کو کاظم کہا جاتا ہے، اسکے بعد ان کے بیٹے علی ہیں کہ جن کو رضا کہا جاتا ہے، علی کے بعد ان کے بیٹے محمد ہیں کہ جن کو زکیّ و تقی کہا جاتا ہے، محمد کے بعد ان کے بیٹے علی ہیں کہ جن کو نقی کہا جاتا ہے، علی کے بعد ان کے بیٹے حسن ہیں کہ جن کو امین کہا جاتا ہے، اور ان کے بعد قائم ہیں۔ وہ میرا ہم نام اور لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے مشابہ ہے اور وہ زمین کو ایسے عدل و انصاف سے بھر دے گا کہ جس طرح سے وہ ظلم و ستم سے بھر چکی ہو گی۔۔۔۔۔
(الخزاز القمي الرازي، أبي القاسم علي بن محمد بن علي (متوفي400هـ)، كفاية الأثر في النص علي الأئمة الاثني عشر، ص 213 الي 218، تحقيق: السيد عبد اللطيف الحسيني الكوه كمري الخوئي، ناشر: انتشارات ـ قم، 140هـ.)
روایت سوم:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا هَارُونُ‏ بْنُ مُوسَى التَّلَّعُكْبَرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مُوسَى الْهَاشِمِيُّ بِسُرَّ مَنْ رَأَى قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِيهِ عَنْ آبَائِهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ عَلِيٍّ ع قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللّٰهِ  فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ وَ قَدْ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ "إِنَّما يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً ” فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ  يَا عَلِيُّ هَذِهِ الْآيَةُ نَزَلَتْ فِيكَ وَ فِي سِبْطَيَّ وَ الْأَئِمَّةِ مِنْ وُلْدِكَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللّٰهِ وَ كَمِ الْأَئِمَّةُ بَعْدَكَ قَالَ أَنْتَ يَا عَلِيُّ ثُمَ‏ ابْنَاكَ‏ الْحَسَنُ‏ وَ الْحُسَيْنُ وَ بَعْدَ الْحُسَيْنِ عَلِيٌّ ابْنُهُ وَ بَعْدَ عَلِيٍّ مُحَمَّدٌ ابْنُهُ وَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ جَعْفَرٌ ابْنُهُ وَ بَعْدَ جَعْفَرٍ مُوسَى ابْنُهُ وَ بَعْدَ مُوسَى عَلِيٌّ ابْنُهُ وَ بَعْدَ عَلِيٍّ مُحَمَّدٌ ابْنُهُ وَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ عَلِيٌّ ابْنُهُ وَ بَعْدَ عَلِيٍّ الْحَسَنُ ابْنُهُ وَ الْحُجَّةُ مِنْ وُلْدِ الْحَسَنِ هَكَذَا وَجَدْتُ أَسَامِيَهُمْ مَكْتُوبَةً عَلَى سَاقِ الْعَرْشِ فَسَأَلْتُ اللّٰهَ تَعَالَى عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ هُمُ الْأَئِمَّةُ بَعْدَكَ مُطَهَّرُونَ مَعْصُومُونَ وَ أَعْدَاؤُهُمْ مَلْعُونُونَ.
امیر المؤمنین علیؑ نے فرمایا ہے کہ میں ام سلمہ کے گھر رسول خدا (ص) کے پاس گیا تو ان پر
"إِنَّما يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً " کی آیت نازل ہوئی۔ رسول خدا (ص) نے فرمایا: اے علی یہ آیت تیرے، حسن، حسین، علی بن حسین، محمد بن علی، جعفر بن محمد، موسی بن جعفر، علی بن موسی، محمد بن علی، علی بن محمد، حسن بن علی اور حجت قائم (علیہم السلام) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ میں نے اسی ترتیب سے ان ناموں کو عرش پر لکھے ہوئے دیکھا تھا اور میں نے اس کے بارے میں خداوند سے سوال کیا تو، جواب آیا کہ: اے محمد یہ تیرے بعد آنے والے آئمہ ہیں۔ بے شک وہ پاک و معصوم انسان ہیں اور ان کے دشمن ملعون ہیں۔
(الخزاز القمي الرازي، أبي القاسم علي بن محمد بن علي (متوفي400هـ)، كفاية الأثر في النص علي الأئمة الاثني عشر، ص 156 الي 218، تحقيق: السيد عبد اللطيف الحسيني الكوه كمري الخوئي، ناشر: انتشارات ـ قم، 140هـ.)
ب: امامت امام جوادؑ  در احادیث لوح:
اس قسم میں روایات لوح متعدد اسناد کے ساتھ کتب شیعہ میں ذکر ہوئی ہیں۔ اسناد کے متعدد ہونے کی وجہ سے ان روایات کے بارے میں یقین و اطمینان حاصل ہو جاتا ہے، اسی وجہ سے ان روایات کی سند کے بارے میں بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس قسم میں نمونے کے طور پر تین روایات کو ذکر کیا گیا ہے۔ روایت اول کتاب کافی، یعقوب کلینی میں، روایت دوم کتاب عیون اَخبار الرضا ؑ، شیخ صدوق میں اور روايت سوم الارشاد، شیخ مفید میں موجود ہے۔
راوی حدیث لوح صحابی جلیل القدر جابر بن عبد اللہ انصاری ہے۔ اس نے کہا ہے کہ: امام حسین ؑکی ولادت کے بعد میں حضرت فاطمہ (س) کے پاس مبارک دینے کے لیے گیا۔ میں نے وہاں پر سبز رنگ کی ایک لوح (تختی) حضرت زہرا (س) کے ہاتھ میں دیکھی کہ جو سورج کی طرح نورانی تھی۔ میں نے کہا اے رسول خدا کی بیٹی، یہ لوح کیا ہے؟ بی بی نے فرمایا: یہ ایک ایسی لوح ہے کہ جو خداوند نے میرے والد رسول خدا کو ہدیہ کے طور پر دی تھی اور اس پر علی، حسن، حسین علیہم السلام اور میرے بیٹوں میں سے اوصیاء کے نام لکھے ہوئے ہیں (ان میں سے ایک امام جواد ہیں)، اس لوح کو میرے والد نے مجھے خوش کرنے کے لیے ہدئیے کے طور پر عطا فرمایا ہے۔
وہ تین روایات یہ ہیں:
روایت اول:
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ جَعْفَرٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ ظَرِيفٍ وَ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي حَمَّادٍ عَنْ بَكْرِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللّٰهِ  قَالَ: قَالَ أَبِي لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ الْأَنْصَارِيِّ- إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً فَمَتَى يَخِفُّ عَلَيْكَ أَنْ أَخْلُوَ بِكَ فَأَسْأَلَكَ عَنْهَا فَقَالَ لَهُ جَابِرٌ أَيَّ الْأَوْقَاتِ أَحْبَبْتَهُ فَخَلَا بِهِ فِي بَعْضِ الْأَيَّامِ فَقَالَ لَهُ يَا جَابِرُ أَخْبِرْنِي‏ عَنِ اللَّوْحِ الَّذِي رَأَيْتَهُ فِي يَدِ أُمِّي فَاطِمَةَ ع بِنْتِ رَسُولِ اللّٰهِ  وَ مَا أَخْبَرَتْكَ بِهِ أُمِّي أَنَّهُ فِي ذَلِكَ اللَّوْحِ مَكْتُوبٌ فَقَالَ جَابِرٌ أَشْهَدُ بِاللّٰهِ أَنِّي دَخَلْتُ عَلَى أُمِّكَ فَاطِمَةَ ع فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللّٰهِ  فَهَنَّيْتُهَا بِوِلَادَةِ الْحُسَيْنِ وَ رَأَيْتُ فِي يَدَيْهَا لَوْحاً أَخْضَرَ ظَنَنْتُ أَنَّهُ مِنْ زُمُرُّدٍ وَ رَأَيْتُ فِيهِ كِتَاباً أَبْيَضَ شِبْهَ لَوْنِ الشَّمْسِ فَقُلْتُ لَهَا بِأَبِي وَ أُمِّي يَا بِنْتَ رَسُولِ اللّٰهِ  مَا هَذَا اللَّوْحُ فَقَالَتْ هَذَا لَوْحٌ أَهْدَاهُ اللّٰهُ إِلَى رَسُولِهِ  فِيهِ اسْمُ أَبِي وَ اسْمُ بَعْلِي وَ اسْمُ ابْنَيَّ وَ اسْمُ الْأَوْصِيَاءِ مِنْ وُلْدِي وَ أَعْطَانِيهِ أَبِي لِيُبَشِّرَنِي بِذَلِكَ قَالَ جَابِرٌ فَأَعْطَتْنِيهِ أُمُّكَ فَاطِمَةُ  فَقَرَأْتُهُ وَ اسْتَنْسَخْتُهُ فَقَالَ لَهُ أَبِي فَهَلْ لَكَ يَا جَابِرُ أَنْ تَعْرِضَهُ عَلَيَّ قَالَ نَعَمْ فَمَشَى مَعَهُ أَبِي إِلَى مَنْزِلِ جَابِرٍ فَأَخْرَجَ صَحِيفَةً مِنْ رَقٍ‏ فَقَالَ يَا جَابِرُ انْظُرْ فِي كِتَابِكَ لِأَقْرَأَ أَنَا عَلَيْكَ فَنَظَرَ جَابِرٌ فِي نُسْخَةٍ فَقَرَأَهُ أَبِي فَمَا خَالَفَ حَرْفٌ حَرْفاً فَقَالَ جَابِرٌ فَأَشْهَدُ بِاللّٰهِ أَنِّي هَكَذَا رَأَيْتُهُ فِي اللَّوْحِ مَكْتُوباً بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ: هَذَا كِتَابٌ‏ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ لِمُحَمَّدٍ نَبِيِّهِ وَ نُورِهِ وَ سَفِيرِهِ وَ حِجَابِهِ وَ دَلِيلِهِ‏ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ‏ مِنْ عِنْدِ رَبِّ الْعَالَمِينَ عَظِّمْ يَا مُحَمَّدُ أَسْمَائِي وَ اشْكُرْ نَعْمَائِي وَ لَا تَجْحَدْ آلَائِي إِنِّي‏ أَنَا اللّٰهُ لا إِلهَ إِلَّا أَنَا قَاصِمُ الْجَبَّارِينَ وَ مُدِيلُ الْمَظْلُومِينَ وَ دَيَّانُ الدِّينِ إِنِّي‏ أَنَا اللّٰهُ لا إِلهَ إِلَّا أَنَا فَمَنْ رَجَا غَيْرَ فَضْلِي أَوْ خَافَ غَيْرَ عَدْلِي عَذَّبْتُهُ‏ عَذاباً لا أُعَذِّبُهُ‏ أَحَداً مِنَ الْعالَمِينَ‏ فَإِيَّايَ فَاعْبُدْ وَ عَلَيَّ فَتَوَكَّلْ إِنِّي لَمْ أَبْعَثْ نَبِيّاً فَأُكْمِلَتْ أَيَّامُهُ وَ انْقَضَتْ مُدَّتُهُ إِلَّا جَعَلْتُ لَهُ وَصِيّاً وَ إِنِّي فَضَّلْتُكَ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ وَ فَضَّلْتُ وَصِيَّكَ عَلَى الْأَوْصِيَاءِ وَ أَكْرَمْتُكَ بِشِبْلَيْكَ‏ وَ سِبْطَيْكَ حَسَنٍ وَ حُسَيْنٍ فَجَعَلْتُ حَسَناً مَعْدِنَ عِلْمِي- بَعْدَ انْقِضَاءِ مُدَّةِ أَبِيهِ وَ جَعَلْتُ حُسَيْناً خَازِنَ وَحْيِي وَ أَكْرَمْتُهُ بِالشَّهَادَةِ وَ خَتَمْتُ لَهُ بِالسَّعَادَةِ فَهُوَ أَفْضَلُ مَنِ اسْتُشْهِدَ وَ أَرْفَعُ الشُّهَدَاءِ دَرَجَةً جَعَلْتُ كَلِمَتِيَ التَّامَّةَ مَعَهُ وَ حُجَّتِيَ الْبَالِغَةَ عِنْدَهُ بِعِتْرَتِهِ أُثِيبُ وَ أُعَاقِبُ أَوَّلُهُمْ عَلِيٌّ سَيِّدُ الْعَابِدِينَ وَ زَيْنُ أَوْلِيَائِيَ الْمَاضِينَ‏ وَ ابْنُهُ شِبْهُ جَدِّهِ الْمَحْمُودِ مُحَمَّدٌ الْبَاقِرُ عِلْمِي وَ الْمَعْدِنُ لِحِكْمَتِي سَيَهْلِكُ الْمُرْتَابُونَ فِي جَعْفَرٍ الرَّادُّ عَلَيْهِ كَالرَّادِّ عَلَيَّ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأُكْرِمَنَّ مَثْوَى جَعْفَرٍ وَ لَأَسُرَّنَّهُ فِي أَشْيَاعِهِ وَ أَنْصَارِهِ وَ أَوْلِيَائِهِ أُتِيحَتْ‏ بَعْدَهُ مُوسَى فِتْنَةٌ عَمْيَاءُ حِنْدِسٌ- لِأَنَّ خَيْطَ فَرْضِي لَا يَنْقَطِعُ وَ حُجَّتِي لَا تَخْفَى وَ أَنَّ أَوْلِيَائِي يُسْقَوْنَ بِالْكَأْسِ الْأَوْفَى مَنْ جَحَدَ وَاحِداً مِنْهُمْ فَقَدْ جَحَدَ نِعْمَتِي وَ مَنْ غَيَّرَ آيَةً مِنْ كِتَابِي فَقَدِ افْتَرَى عَلَيَّ وَيْلٌ لِلْمُفْتَرِينَ الْجَاحِدِينَ عِنْدَ انْقِضَاءِ مُدَّةِ مُوسَى عَبْدِي وَ حَبِيبِي وَ خِيَرَتِي فِي عَلِيٍّ وَلِيِّي وَ نَاصِرِي وَ مَنْ أَضَعُ عَلَيْهِ أَعْبَاءَ النُّبُوَّةِ وَ أَمْتَحِنُهُ بِالاضْطِلَاعِ بِهَا يَقْتُلُهُ عِفْرِيتٌ مُسْتَكْبِرٌ يُدْفَنُ فِي الْمَدِينَةِ الَّتِي بَنَاهَا الْعَبْدُ الصَّالِحُ‏- إِلَى جَنْبِ شَرِّ خَلْقِي حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَسُرَّنَّهُ بِمُحَمَّدٍ ابْنِهِ وَ خَلِيفَتِهِ مِنْ بَعْدِهِ وَ وَارِثِ عِلْمِهِ فَهُوَ مَعْدِنُ عِلْمِي وَ مَوْضِعُ سِرِّي وَ حُجَّتِي عَلَى خَلْقِي لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ بِهِ إِلَّا جَعَلْتُ الْجَنَّةَ مَثْوَاهُ وَ شَفَّعْتُهُ فِي سَبْعِينَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدِ اسْتَوْجَبُوا النَّارَ وَ أَخْتِمُ بِالسَّعَادَةِ لِابْنِهِ عَلِيٍّ وَلِيِّي وَ نَاصِرِي وَ الشَّاهِدِ فِي خَلْقِي وَ أَمِينِي عَلَى وَحْيِي أُخْرِجُ مِنْهُ الدَّاعِيَ إِلَى سَبِيلِي وَ الْخَازِنَ لِعِلْمِيَ الْحَسَنَ وَ أُكْمِلُ ذَلِكَ بِابْنِهِ م‏ح‏م‏د رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ عَلَيْهِ كَمَالُ مُوسَى وَ بَهَاءُ عِيسَى وَ صَبْرُ أَيُّوبَ فَيُذَلُّ أَوْلِيَائِي فِي زَمَانِهِ وَ تُتَهَادَى رُءُوسُهُمْ كَمَا تُتَهَادَى رُءُوسُ التُّرْكِ وَ الدَّيْلَمِ فَيُقْتَلُونَ … أُولَئِكَ أَوْلِيَائِي حَقّاً بِهِمْ أَدْفَعُ كُلَّ فِتْنَةٍ عَمْيَاءَ حِنْدِسٍ وَ بِهِمْ أَكْشِفُ الزَّلَازِلَ وَ أَدْفَعُ الْآصَارَ وَ الْأَغْلَالَ‏ أُولئِكَ عَلَيْهِمْ‏ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ‏ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ‏.
قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَالِمٍ قَالَ أَبُو بَصِيرٍ لَوْ لَمْ تَسْمَعْ فِي دَهْرِكَ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ لَكَفَاكَ فَصُنْهُ إِلَّا عَنْ أَهْلِهِ.
امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ: ایک دن میرے والد گرامی (امام محمد باقر) نے جابر بن عبد اللہ انصاری سے فرمایا کہ: اس لوح اور اس پر درج مطالب کے بارے میں ہمیں آگاہ کرو، جسے تم نے حضرت فاطمہ (س) کے پاس مشاہدہ کیا تھا۔ اس پر جابر نے کہا: ایک دن میں رسول خدا (ص) کی حیات طیبہ میں امام حسین ؑکی ولادت با سعادت کی مناسبت سے حضرت زہرا کو تبریک پیش کرنے کی غرض سے ان کے ہاں گیا تو میں نے آپ (س) کے پاس ایک سبز رنگ کی تختی دیکھی اس موقع پر خیال کیا کہ شاید یہ زمرد کی کوئی تختی ہو گی لیکن اس پر سفید رنگوں میں واضح اور روشن تحریر دیکھی جو سورج کی طرح چمک رہی تھی، میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، یہ تختی کیا ہے؟ حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: "یہ وہ لوح ہے جسے خداوند نے اپنے رسول حضرت محمد مصطفی ؐ کو بطور ہدیہ دیا تھا۔ اس لوح پر میرے والد گرامی، میرے شوہر نامدار اور میرے بچوں اور میرے نسل سے آنے والے اماموں اور اوصیاؤں کے نام درج ہیں۔ میرے والد گرامی رسول خدا (ص) نے اسے مجھے عطا فرمائی ہے تا کہ اسے دیکھنے سے میرے دل کو خوشی اور سرور حاصل ہو جائے۔” اس کے بعد آپ کی دادی حضرت فاطمہ (س) نے وہ لوح میرے حوالے فرمائی۔ میں نے اس لوح میں جو کچھ تحریر تھی اس کا مطالعہ کیا اور اسے یاداشت کیا۔ اس وقت جابر نے ایک چمڑے پر لکھی ہوئی ایک تحریر نکالی، اسے کھولا اور اسے میرے والد گرامی (امام محمد باقر) کو دکھایا۔ میرے والد گرامی نے جابر سے فرمایا: جابر! اب جو کتاب تمہارے پاس ہے اس میں دیکھ لیں تا کہ میں اسے بغیر دیکھے تمہیں سنا دوں۔ جابر نے اپنے پاس موجود نسخے میں نگاہ کرنا شروع کیا اور میرے والد گرامی نے اس میں موجود تمام مطالب کو زبانی سنا دیا۔ خدا کی قسم امامؑ نے جو بھی سنایا وہ اور ان مطالب میں جو اس لوح پر تحریر تھی میں ایک حرف کی بھی کمی بیشی نہیں تھی۔ جب امام نے آخر تک سنایا تو جابر نے کہا میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے حضرت فاطمہ زہراء (س) کے پاس اس لوح میں دیکھا تھا، وہ بعینہ یہی تھا جو آپ نے فرمایا ہے۔ اس لوح پر تحریر متن یوں ہے:
یہ وہ کتاب ہے جسے خداوند کی طرف سے حضرت محمد پر نازل کیا گیا ہے، جو زمین پر خدا کا رسول اور اس کی آیات اور نشانیوں میں سے ہیں۔ یہ تحریر جبرئیل کے ذریعے خداوند کی طرف سے لائی گئی ہے کہ اے محمد! میرے اسماء کی تعظیم کرو اور میری نعمتوں پر شکریہ ادا کرو اور ہرگز میری نشانیوں کا انکار مت کرو۔ میں عالمین کا پروردگار اور معبود ہوں اور میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، طاغوتوں کو مغلوب کرنے والا اور مظلوموں کا حامی اور روز جزاء کا مالک میں ہوں۔ میں وہی خدا ہوں ہو جو تمہارا معبود ہوں کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ جو شخص بھی میرے سوا کسی اور سے لو لگائے بیٹھے یا میرے عدل کے سوا کسی اور چیز کا خوف دل میں رکھے تو میں اس شخص کو سخت عذاب میں مبتلا کرونگا کہ دنیا میں کسی نے ایسے عذاب کا تجربہ نہ کیا ہو۔ پس صرف میری عبادت کیا کرو۔ میں نے کسی نبی کو مبعوث نہیں کیا اور اس کی رسالت کو مکمل نہیں کیا اور اسکی تبلیغ کا دورانیہ ختم نہیں کیا، مگر یہ کہ اس کا کوئی جانشین مقرر کیا ہے۔ اے محمدؐ میں نے آپ کو تمام انبیاء پر برتری دی ہے اور تمہارے جانشین کو بھی تمام وصیوں پر برتری دی ہے۔ اس کے بعد آپ کو آپ کے دو بیٹے امام حسن ؑ اور امام حسینؑ کی وجہ سے عزت اور شرف بخشا۔ ان کے والد گرامی حضرت علی کی زندگی اور دوران امامت کے ختم ہونے کے بعد امام حسن ؑکو اپنے علم کا خزینہ قرار دیا اور امام حسینؑ کو اپنی وحی کا محافظ اور نگہبان قرار دیا۔ امام حسینؑ کو شہادت کی نعمت عطا کر کے انہیں مزید شرف اور سعادت عطا کیا ہے۔ امام حسینؑ وہ با فضیلت ‌ترین شخصیت ہے جو شہید ہوا اور شہداء کے درمیان سب سے افضل مقام پر فائز ہوا۔ امامت اور توحید کو تمام و کمال ان کے ساتھ رکھا میری حجت بالغہ کو ان کے ہاں قرار دیا ان کی اہل بیت اور قرابت کے مطابق میں صالحوں کو ثواب اور بدکاروں کو عقاب دونگا۔ ان کا پہلا فرزند علی [بن الحسین] عبادت گزاروں کی زینت اور میرے دوستوں میں سے ہے۔ ان کے بعد ان کے فرزند جو نام میں اپنے نانا رسول خدا کے ہم نام ہیں جو علم و حکمت کو عیاں کرنے والے ہیں۔ عنقریب امام جعفر صادق کی امامت میں شک کرنے والے ہلاک ہو جائیں گے جس نے بھی اسے ٹھکرایا گویا اس نے مجھے ٹھکرایا۔ یہ میرا ہی کلام ہے: میں قسم کھاتا ہوں کہ امام جعفر صادق ؑ اور ہر اس شخص کے مقام و منصب کو شرف بخشوں گا جو اس پر ایمان لے آیا۔ ان کی محبت اور عشق کو ان کے دوستوں، شیعوں، پیروی کرنے والوں اور ان کے مددگاروں کے دلوں میں قرار دونگا۔ اس کے بعد اندھے اور سیاہ فتنہ اور تقیہ کو امام موسی کاظم کے سامنے سے ہٹا دونگا، کیونکہ خدا کی اطاعت اور حکم خداوندی کبھی منقطع نہیں ہو گا اور میری حجت اور دلیل لوگوں سے کبھی بھی مخفی نہیں رہے گی اور میرے چاہنے والے کبھی بھی بد بخت نہیں رہے گا۔ اگر کوئی میری کسی ایک حجت کا بھی انکار کرے تو گویا میری عطا کردہ نعمت کا انکار کیا ہے اور جس نے بھی میری کتاب کی ایک آیت کو تبدیل کیا تو گویا اس نے مجھ پر تہمت باندھی ہے۔ ہلاکت ہو تہمت لگانے والوں اور انکار کرنے والوں پر۔ اور آخر کار میرے بندے اور دوست امام موسی کاظم ؑ کی امامت کا دور ختم ہو گا۔ آگاہ ہو جاؤ ! جس نے بھی میری آٹهویں حجت کو جھوٹا سمجھا گویا اس نے میرے تمام اولیاء کا انکار کیا ہے۔ علی [بن موسی (ع)] میرے دوست اور مدد گار ہیں اور میں نے علم، عصمت اور نبوت کی صفات سے ان کو مزین کر کے ان کی حفاظت کے حوالے سے ان کا امتحان لونگا۔ ستمگروں اور متکبروں کی شیطانیت انہیں شہید کرے گی اور اس شہر میں جسے میرے صالح بندے (ذوالقرنین) نے تعمیر کیا ہے، وہ میرے بندوں میں سے بدترین بندگان (ہارون الرشید) کے ساتھ دفن ہو گا۔ آٹھویں امام کی آنکھوں کو ان کے فرزند ارجمند اور ان کے جانشین کی ولادت کے ذریعے روشن کرینگے۔ محمد [بن علی بن موسی الرضا (ع)] میرے علم و دانش کے وارث اور معدن حکمت ہیں اور میرے بندوں پر میری حجت ہیں۔ جس نے بھی ان پر ایمان لایا، بہشت اس کا مقدر ہے اور اسے اپنے اہل و عیال میں سے 70 آدمیوں کی شفاعت کرنے کا حق دونگا، جن پر جہنم واجب ہو چکی ہو گی۔ ان کے بعد ان کے لخت جگر علی [بن محمد بن علی بن موسی الرضا (ع)] میرے دوست اور مددگار کو سعادتمند کر دوں گا۔ وہ میری وحی کے امین ہونگے۔ ان کے صلب سے حسن [بن علی بن محمد] کو پیدا کرونگا جو لوگوں کو خدا کی راہ میں دعوت دینے والا اور خدا کے علم کے نگہبان ہونگے۔ اس کے بعد اپنی حجت کو ان کے بیٹے محمد کے آنے کے ذریعے عالمین پر تمام کر دونگا۔ موسی کے قدرت و کمال، عیسی عظمت و نور اور ایوب کا صبر سب کے سب ان میں پائے گا۔ وہ ایک ایسے زمانے میں آئے گا جس زمانے میں میرے بندے ذلیل و خوار ہو چکے ہونگے اور مغلوں اور دیلمیوں کے مغرور مشرکوں کے ذریعے آگ میں جلائے جائیں گے۔ ان کے سر کو بعنوان ہدیہ دور و دراز بھیجا جائے گا اور سب پر ترس و وحشت طاری ہو گا۔ زمین ان کے خون سے رنگین ہو جائے گی اور ان کی عورتوں میں ہلاکت اور چیخ و پکار عام ہو گی۔ یہ لوگ حقیقت میں زمین پر میری حجت اور اولیاء ہونگے۔ ان کے ذریعے ہر اندھے فتنوں اور زلزوں کو خدا کی مخلوق سے دور کرونگا اور ان کے ذریعے خدا کے دشمنوں کے مکر و فریب اور مخفی چالوں کا سراغ لگایا جائے گا اور خدا کی مخلوق سے غلامی کے طوق و زنجیروں کو ان کے ذریعے ہی توڑا جائے گا۔ خدا کی رحمت اور درود ہو ان پر یہ لوگ وہی ہدایت پانے والے ہیں۔۔”
عبد الرحمن بن سالم نے کہا: ابو بصیر نے مجھے کہا کہ: اگر تم نے اپنی زندگی میں کوئی حدیث بھی نہ سنی ہو تو، یہ حدیث تمہارے لیے کافی ہے، پس تم فقط ایسی احادیث کو نا اہل افراد سے مخفی رکھا کرو۔
(الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الكافي، ج 1 ص 527 الي 528، ناشر: اسلاميه‏، تہران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.)
روایت دوم:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ شَاذَوَيْهِ الْمُؤَدِّبُ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ وَ أَحْمَدُ بْنُ هَارُونَ الْعَامِيُ‏ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْيَرِيُّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ مَالِكٍ الْفَزَارِيِ‏ الْكُوفِيِّ عَنْ مَالِكِ‏ بْنِ السَّلُولِيِّ عَنْ دُرُسْتَ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ جَبَلَةَ عَنْ أَبِي السَّفَاتِجِ‏ عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْبَاقِرِ ع عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللّٰهِ  وَ قُدَّامَهَا لَوْحٌ يَكَادُ ضَوْؤُهُ يَغْشَى الْأَبْصَارَ وَ فِيهِ اثْنَا عَشَرَ اسْماً ثَلَاثَةٌ فِي ظَاهِرِهِ وَ ثَلَاثَةٌ فِي بَاطِنِهِ وَ ثَلَاثَةُ أَسْمَاءَ فِي آخِرِهِ وَ ثَلَاثَةُ أَسْمَاءَ فِي طَرَفِهِ فَعَدَدْتُهَا فَإِذَا هِيَ اثْنَا عَشَرَ قُلْتُ أَسْمَاءُ مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالَتْ هَذِهِ أَسْمَاءُ الْأَوْصِيَاءِ أَوَّلُهُمْ ابْنُ عَمِّي وَ أَحَدَ عَشَرَ مِنْ وُلْدِي آخِرُهُمْ الْقَائِمُ قَالَ جَابِرٌ فَرَأَيْتُ فِيهِ مُحَمَّداً مُحَمَّداً مُحَمَّداً فِي ثَلَاثَةِ مَوَاضِعَ وَ عَلِيّاً عَلِيّاً عَلِيّاً عَلِيّاً فِي أَرْبَعَةِ مَوَاضِعَ.
جابر بن عبد اللہ انصاری کہتا ہے کہ: میں حضرت فاطمہ (س) کے پاس گیا، ان کے سامنے ایک لوح (تختی) پڑی ہوئی تھی، اس لوح کی روشنی آنکھوں کو اندھا کرنے والی تھی۔ اس لوح پر بارہ نام لکھے تھے، کہ تین نام اس لوح کے ظاہری حصے پر، تین نام اس کے باطنی حصے پر، تین نام اس لوح کے آخر پر اور تین نام اس لوح کے ایک طرف لکھے ہوئے تھے۔ میں نے ان ناموں کو گنا تو وہ بارہ نام تھے۔ میں نے پوچھا کہ: یہ کن کے نام ہیں؟ بی بی نے فرمایا کہ: یہ اوصیاء کے نام ہیں۔ ان میں سے پہلا وصی میرے چچا کا بیٹا اور گیارہ وصی میری اولاد میں سے ہیں کہ انکا آخری قائم ہے۔ جابر کہتا ہے کہ: اس لوح پر تین جگہ پر میں نے محمد کے نام کو دیکھا (محمد، محمد، محمد یعنی بارہ میں سے تین وصی کا نام محمد تھا) اور چار جگہ پر میں نے علی کے نام کو دیکھا تھا ( علی، علی، علی، علی یعنی بارہ میں سے چار وصی کا نام علی تھا)۔
(القمي، ابو جعفر الصدوق، محمد بن علي بن الحسين بن بابويه (متوفي381هـ)، عيون أخبار الرضا عليه السلام ج 1 ص 51، تحقيق: تصحيح وتعليق وتقديم: الشيخ حسين الأعلمي، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات – بيروت – لبنان، سال چاپ: 1404 – 1984 م)
روایت سوم:
أَخْبَرَنِي أَبُو الْقَاسِمِ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَعْقُوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ‏ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ أَبِي الْجَارُودِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ع عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللّٰهِ  وَ بَيْنَ يَدَيْهَا لَوْحٌ‏ فِيهِ أَسْمَاءُ الْأَوْصِيَاءِ وَ الْأَئِمَّةِ مِنْ وُلْدِهَا فَعَدَدْتُ اثْنَيْ عَشَرَ اسْماً آخِرُهُمْ الْقَائِمُ مِنْ وُلْدِ فَاطِمَةَ ثَلَاثَةٌ مِنْهُمْ مُحَمَّدٌ وَ أَرْبَعَةٌ مِنْهُمْ عَلِي‏۔
اس روایت کا ترجمہ بھی بالکل گذشتہ (روایت دوم) روایت کی طرح ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(البغدادي، الشيخ المفيد محمد بن محمد بن النعمان، العكبري، (متوفي 413هـ)، الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، ج 2 ص 346، تحقيق: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لتحقيق التراث، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع – بيروت – لبنان، سال چاپ: 1414 – 1993 م)
ج: امامت امام جوادؑ در احادیث اثنا عشر:
یہاں پر احادیث اثنا عشر سے مراد بارہ خلیفہ والی معروف احادیث (اثنی عشر خلیفہ) نہیں ہیں، بلکہ ان احادیث سے مراد وہ روایات ہیں کہ جن میں بارہ آئمہ کے نام ذکر کیے گئے ہیں۔ یہاں پر ہم فقط تین روایات کو ذکر کرتے ہیں۔ ایک روایت کتاب اصول کافی، یعقوب کلینی سے، ایک روایت کتاب کمال الدین شیخ صدوق سے اور ایک روایت کتاب کفایۃ الأثر فی النص علی الأئمۃ الاثنی عشر مرحوم خزاز قمی سے نقل کی گئی ہے۔ کلینی کی نقل کردہ روایت کی دو اسناد ہیں اور ہر دو سند علم حدیث کی نگاہ سے مکمل طور پر معتبر اور قابل قبول ہیں۔
امام حسن، امام جواد علیہما السلام اور جابر ابن عبد اللہ انصاری ان احادیث کے راوی ہیں۔ ان روایات میں امام جوادؑ کا اسم مبارک بھی بارہ آئمہ میں ایک امام کے طور پر ذکر ہوا ہے۔
وہ تین روایات یہ ہیں:
روایت اول: سند معتبر:
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْقِيِّ عَنْ أَبِي هَاشِمٍ دَاوُدَ بْنِ الْقَاسِمِ الْجَعْفَرِيِّ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الثَّانِي عليه السلام قَالَ أَقْبَلَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام ومَعَه الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ عليهما السلام وهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى يَدِ سَلْمَانَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ فَجَلَسَ إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ واللِّبَاسِ فَسَلَّمَ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ – فَرَدَّ عَلَيْه السَّلَامَ فَجَلَسَ ثُمَّ قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَسْأَلُكَ عَنْ ثَلَاثِ مَسَائِلَ إِنْ أَخْبَرْتَنِي بِهِنَّ عَلِمْتُ أَنَّ الْقَوْمَ رَكِبُوا مِنْ أَمْرِكَ مَا قُضِيَ عَلَيْهِمْ وأَنْ لَيْسُوا بِمَأْمُونِينَ فِي دُنْيَاهُمْ وآخِرَتِهِمْ وإِنْ تَكُنِ الأُخْرَى عَلِمْتُ أَنَّكَ وهُمْ شَرَعٌ سَوَاءٌ … فَالْتَفَتَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام إِلَى الْحَسَنِ فَقَالَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَجِبْه قَالَ فَأَجَابَه الْحَسَنُ عليه السلام فَقَالَ الرَّجُلُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللّٰه ولَمْ أَزَلْ أَشْهَدُ بِهَا وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللّٰه ولَمْ أَزَلْ أَشْهَدُ بِذَلِكَ وأَشْهَدُ أَنَّكَ وَصِيُّ رَسُولِ اللَّه ص والْقَائِمُ بِحُجَّتِه وأَشَارَ إِلَى أَمِيرِالْمُؤْمِنِينَ ولَمْ أَزَلْ أَشْهَدُ بِهَا وأَشْهَدُ أَنَّكَ وَصِيُّه والْقَائِمُ بِحُجَّتِه وأَشَارَ إِلَى الْحَسَنِ عليه السلام وأَشْهَدُ أَنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ وَصِيُّ أَخِيه والْقَائِمُ بِحُجَّتِه بَعْدَه وأَشْهَدُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ أَنَّه الْقَائِمُ بِأَمْرِ الْحُسَيْنِ بَعْدَه وأَشْهَدُ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّه الْقَائِمُ بِأَمْرِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وأَشْهَدُ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ بِأَنَّه الْقَائِمُ بِأَمْرِ مُحَمَّدٍ وأَشْهَدُ عَلَى مُوسَى أَنَّه الْقَائِمُ بِأَمْرِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ وأَشْهَدُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ مُوسَى أَنَّه الْقَائِمُ بِأَمْرِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ وأَشْهَدُ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّه الْقَائِمُ بِأَمْرِ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى وأَشْهَدُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ بِأَنَّه الْقَائِمُ بِأَمْرِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وأَشْهَدُ عَلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ بِأَنَّه الْقَائِمُ بِأَمْرِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ وأَشْهَدُ عَلَى رَجُلٍ مِنْ وُلْدِ الْحَسَنِ … فَيَمْلأَهَا عَدْلاً كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً والسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ورَحْمَةُ اللَّه وبَرَكَاتُه ثُمَّ قَامَ فَمَضَى فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ اتْبَعْه فَانْظُرْ أَيْنَ يَقْصِدُ فَخَرَجَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ عليه السلام فَقَالَ مَا كَانَ إِلَّا أَنْ وَضَعَ رِجْلَه خَارِجاً مِنَ الْمَسْجِدِ فَمَا دَرَيْتُ أَيْنَ أَخَذَ مِنْ أَرْضِ اللّٰه فَرَجَعْتُ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام فَأَعْلَمْتُه فَقَالَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أتَعْرِفُه قُلْتُ اللّٰه ورَسُولُه وأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ أَعْلَمُ قَالَ هُوَ الْخَضِرُ عليه السلام.
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الصَّفَّارِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللّٰه عَنْ أَبِي هَاشِمٍ مِثْلَه سَوَاءً.
امام جوادؑ نے فرمایا کہ: امیر المؤمنین علیؑ مسجد الحرام میں داخل ہوئے، حسن ابن علیؑ بھی ان کے ساتھ تھے، اچانک ایک خوبصورت چہرے اور اچھے لباس والا شخص وہاں آیا اور امیر المؤمنین کو سلام کیا، ان حضرت نے بھی سلام کا جواب دیا، پھر اس شخص نے کہا: اے امیر المؤمنین میں آپ سے تین مسئلوں کے بارے میں سوال کرتا ہوں، اگر آپ نے انکا جواب دیا تو میں سمجھ جاؤں گا کہ لوگوں نے آپ کی امامت کو قبول نہ کر کے غلطی کی ہے، اور اب وہ دنیا و آخرت میں محفوظ نہیں رہیں گے، اور اگر آپ نے ان مسئلوں کا جواب نہ دیا تو، میں سمجھ جاؤں گا کہ آپ کو ان لوگوں پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔۔۔۔۔ جب اس شخص نے اپنے سوالوں کو بیان کیا تو، امیر المؤمنین نے امام حسن سے فرمایا کہ: اے ابا محمد، آپ اس کو جواب دو، امام حسن نے اس کے سوالوں کے جواب دئیے، اس شخص نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور حضرت علی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ رسول خدا کے وصی اور حجت خدا ہیں، پھر امام حسن کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ بھی ان (حضرت علی) کے وصی ہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حسین ابن علی اپنے بھائی کے وصی ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی ابن الحسین، امام حسین کے بعد امامت کو قائم کریں گے، اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ابن علی، امام علی ابن الحسین کی امامت کے امر کو قائم کریں گے، اور گواہی دیتا ہوں کہ جعفر ابن محمد، امام محمد ابن علی کے بعد امامت کا عہدہ اپنے ذمہ پر لیں گے، اور گواہی دیتا ہوں کہ موسی ابن جعفر، امام جعفر ابن محمد کے امر امامت کو قائم کریں گے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی ابن موسی، امام موسی ابن جعفر کی امامت کو قائم کریں گے، اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ابن علی، امام موسی ابن جعفر کی امامت کے امر کو قائم کریں گے، اور گواہی دیتا ہوں کہ علی ابن محمد، امام محمد ابن علی کی امامت کو قائم کریں گے، اور گواہی دیتا ہوں کہ حسن ابن علی، امام علی ابن محمد کی امامت کو اپنے ذمہ پر لیں گے، اور گواہی دیتا ہوں اس شخص کے بارے میں کہ جو حسن عسکری کے فرزند ہیں۔ ۔۔۔۔ وہ زمین کو ایسے عدل سے بھر دیں گے، جس طرح وہ ظلم سے بھر چکی ہو گی، پھر اس شخص نے کہا کہ: آپ پر درود و سلام ہو اے امیر المؤمنین، اتنا کہہ کر وہ چلا گیا۔ امیر المؤمنین نے فرمایا اے ابا محمد اس کے پیچھے جاؤ اور دیکھو کہ وہ کہاں جاتا ہے۔ امام حسن باہر گئے اور واپس آ کر فرمایا: جونہی اس نے مسجد سے باہر قدم رکھا، معلوم نہیں وہ کہاں غائب ہو گیا ہے۔ امام علیؑ نے فرمایا: اے ابا محمد کیا آپ اس کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا: خدا، رسول اور امیر المؤمنین مجھ سے بہتر جانتے ہیں، فرمایا کہ: وہ اللہ کے نبی جناب خضرؑ تھے۔
(الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الكافي، ج‏1، ص 525 الي 526، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.)
بحث سندی:
ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ کتاب اصول کافی والی روایت کی ہر دو سند معتبر ہیں۔ ہم یہاں پر پہلی سند کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔
یہ سند ” عدة من أصحابنا ” کی عبارت سے شروع ہوتی ہے، اور اس کے بعد والا راوی احمد بن محمد بن خالد برقی ہے۔ علامہ حلی نے مرحوم کلینی کے قول سے نقل کیا ہے کہ:
كلما ذكرته في كتابي المشار إليه عدة من أصحابنا عن أحمد بن محمد بن خالد البرقي، فهم علي بن إبراهيم وعلي بن محمد بن عبد الله ابن أذينة وأحمد بن عبد اللّٰه بن أمية وعلي بن الحسن.
جب بھی میں اپنی کتاب میں ذکر کہوں: عدة من أصحابنا عن أحمد بن محمد بن خالد البرقي، تو اس عدہ و گروہ سے مراد، علی بن ابراہيم، علی بن محمد بن عبد اللّٰه بن اذينہ، احمد بن عبد اللّٰه بن اُميہ اور علی بن حسن ہیں۔
(الحلي الأسدي، جمال الدين أبو منصور الحسن بن يوسف بن المطهر (متوفى726هـ) خلاصة الأقوال في معرفة الرجال، ص 430، تحقيق: فضيلة الشيخ جواد القيومي، ناشر: مؤسسة نشر الفقاهة، الطبعة: الأولى، 1417هـ.)
جب بھی ہم اس گروہ میں سے ایک راوی کے ثقہ ہونے کو ثابت کر دیں تو پھر علم رجال کی نگاہ سے راویوں کا یہ گروہ قابل تمسک اور معتبر ہو جائے گا۔ جیسا کہ آپ نے مشاہدہ بھی کیا ہے کہ ان میں سے ایک راوی علی بن ابراہیم قمی ہے۔ اس کے ثقہ ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے۔ نجاشی نے اسکے بارے میں لکھا ہے کہ: علي بن إبراهيم بن هاشم ثقة في الحديث ثبت معتمد صحيح المذهب.
علی ابن ابراہیم حدیث میں ایک مورد وثوق انسان ہے۔ وہ ثابت قدم، مورد اعتماد اور صحیح مذہب رکھنے والا انسان ہے۔
(النجاشي الأسدي الكوفي، ابوالعباس أحمد بن علي بن أحمد بن العباس (متوفى450هـ)، فهرست أسماء مصنفي الشيعة المشتهر ب‍ رجال النجاشي، ص 260، تحقيق: السيد موسي الشبيري الزنجاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.)
اسی طرح احمد بن محمد بن خالد برقی بھی نجاشی کی نظر میں قابل اعتماد ہے۔ اس نے اس راوی کے بارے میں لکھا ہے کہ:
و كان ثقة في نفسه، احمد بن محمد بن خالد ایک قابل ثقہ انسان ہے۔
(النجاشي الأسدي الكوفي، ابو العباس أحمد بن علي بن أحمد بن العباس (متوفى450هـ)، فهرست أسماء مصنفي الشيعة المشتهر ب‍ رجال النجاشي، ص 76، تحقيق: السيد موسي الشبيري الزنجاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.)
اسکے بعد والا راوی ابو ہاشم جعفری ہے، نجاشی نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ:
داود بن القاسم أبو هاشم الجعفري رحمه اللّٰه كان عظيم المنزلة عند الأئمة عليهم السلام، شريف القدر، ثقة.
داود بن قاسم ابو ہاشم جعفری کا آئمہ کے نزدیک بلند مرتبہ تھا، وہ ایک شریف اور ثقہ انسان تھا۔
(النجاشي الأسدي الكوفي، ابو العباس أحمد بن علي بن أحمد بن العباس (متوفى450هـ)، فهرست أسماء مصنفي الشيعة المشتهر ب‍ رجال النجاشي، ص 156، تحقيق: السيد موسي الشبيري الزنجاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.)
روایت دوم:
حَدَّثَنَا غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِنَا قَالُوا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَمَّامٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ مَالِكٍ الفرازي [الْفَزَارِيِ‏] قَالَ حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَمَاعَةَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ حَدَّثَنِي الْمُفَضَّلُ بْنُ عُمَرَ عَنْ يُونُسَ بْنِ ظَبْيَانَ عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ الْجُعْفِيِّ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰهِ الْأَنْصَارِيَّ يَقُولُ‏ لَمَّا أَنْزَلَ اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَى نَبِيِّهِ مُحَمَّدٍ ‏ "يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّٰهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ "‏ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللّٰهِ عَرَفْنَا اللّٰهَ وَ رَسُولَهُ فَمَنْ أُولُو الْأَمْرِ الَّذِينَ قَرَنَ اللّٰهُ طَاعَتَهُمْ بِطَاعَتِكَفَقَالَ هُمْ خُلَفَائِي‏ يَا جَابِرُ وَ أَئِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ بَعْدِي أَوَّلُهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ثُمَّ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ ثُمَّ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ ثُمَّ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْمَعْرُوفُ فِي التَّوْرَاةِ بِالْبَاقِرِ وَ سَتُدْرِكُهُ يَا جَابِرُ فَإِذَا لَقِيتَهُ فَأَقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ ثُمَّ الصَّادِقُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ثُمَّ مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ ثُمَّ عَلِيُّ بْنُ مُوسَى ثُمَّ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ ثُمَّ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ثُمَّ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ثُمَّ سَمِيِّي وَ كَنِيِّي حُجَّةُ اللّٰهِ فِي أَرْضِهِ وَ بَقِيَّتُهُ فِي عِبَادِهِ ابْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ …..
جابر بن عبد اللہ انصاری نے روایت کی ہے کہ: جب خداوند نے يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّٰهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ والی آیت نازل کی تو، میں نے کہا: اے رسول خدا، ہم نے خدا اور اس کے رسول کو پہچان لیا ہے، اب یہ اولو الامر کون ہیں کہ خداوند نے جن کی اطاعت کو اپنی اطاعت کے ساتھ ایک جگہ اکٹھا ذکر کیا ہے؟ رسول خدا (ص) نے فرمایا: اے جابر، وہ میرے بعد جانشین اور آئمہ ہیں۔ ان میں سے پہلا علی بن ابی طالب عليہ السلام، پھر حسن، حسين، پھر علی بن حسين پھر ان کے بعد محمد ابن علی کہ جو کتاب تورات میں باقر کے نام سے شہرت رکھتے ہیں، اے جابر تم ان سے ملاقات کرو گے، پھر ان کو میرا سلام دینا۔ اس کے بعد امام جعفر بن محمد، پھر اس کے بعد موسی ابن جعفر، پھر اس کے بعد علی بن موسی، پھر اس کے بعد محمد بن علی، پھر اس کے بعد علی بن محمد، پھر اس کے بعد حسن بن علی اور اس کے بعد ان کے فرزند ہیں کہ وہ میرا ہم نام اور ہم کنیت ہو گا اور وہ خداوند کی طرف سے بندوں پر حجت ہو گا۔
(الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفى381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة، ص 253 الي 254، ناشر:‌ اسلامية ـ تهران‏، الطبعة الثانية‏، 1395 هـ.)
روايت سوم:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ [عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ‏] عِيسَى بْنِ الْمَنْصُورِ الْهَاشِمِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى عِيسَى بْنُ أَحْمَدَ الْعَطَّارُ قَالَ حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّورِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ترابي [عَنْ أَبِي‏] الْحَجَّافِ دَاوُدَ بْنِ أَبِي عَوْفٍ [عَنِ‏] الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ  قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ  يَقُولُ‏ لِعَلِيٍ‏  أَنْتَ وَارِثُ عِلْمِي وَ مَعْدِنُ حُكْمِي وَ الْإِمَامُ بَعْدِي فَإِذَا اسْتُشْهِدْتَ فَابْنُكَ الْحَسَنُ فَإِذَا اسْتُشْهِدَ الْحَسَنُ فَابْنُكَ الْحُسَيْنُ فَإِذَا اسْتُشْهِدَ الْحُسَيْنُ فَعَلِيٌّ ابْنُهُ يَتْلُوهُ تِسْعَةٌ مِنْ صُلْبِ الْحُسَيْنِ أَئِمَّةٌ أَطْهَارٌ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللّٰهِ فَمَا أَسَامِيهِمْ قَالَ عَلِيٌّ وَ مُحَمَّدٌ وَ جَعْفَرٌ وَ مُوسَى وَ عَلِيٌّ وَ مُحَمَّدٌ وَ عَلِيٌّ وَ الْحَسَنُ وَ الْمَهْدِيُّ مِنْ صُلْبِ الْحُسَيْنِ يَمْلَأُ اللّٰهُ تَعَالَى بِهِ الْأَرْضَ قِسْطاً وَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْماً۔
امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول خداؐ سے سنا کہ انھوں نے میرے والد گرامی سے فرمایا کہ: تم میرے بعد میرے علم کے وارث اور امام ہو گے۔ جب تم شہید ہو جاؤ گے تو امام تمہارا بیٹا حسن ہو گا، حسن کی شہادت کے بعد حسین امام ہو گا، اس کے بعد علی ابن حسین امام ہو گا، پھر حسین کی اولاد سے نو امام ہوں گے، میں نے کہا: ان کے نام کیا ہیں؟ فرمایا: علی، محمد، جعفر، موسی، علی، محمد، علی، حسن اور مہدی علیہم السلام ہیں۔ بے شک خداوند مہدی کے ذریعے سے زمین کو عدل سے بھر دے گا، جس طرح کہ وہ ظلم و ستم سے بھر چکی ہو گی۔
(الخزاز القمي الرازي، أبي القاسم علي بن محمد بن علي (متوفي400هـ)، كفاية الأثر في النص علي الأئمة الاثني عشر، ص167، تحقيق: السيد عبد اللطيف الحسيني الكوه كمري الخوئي، ناشر: انتشارات ـ قم، 140هـ.)
د: امامت امام جوادؑ در احادیث امام رضاؑ:
اس قسم میں امام رضاؑ سے بعض روایات امام جواد کی ولادت سے بھی پہلے کی ہیں اور بعض روایات امام جواد کی ولادت با سعادت کے بعد کے زمانے کی ہیں۔ اس قسم میں سات روایات کو ذکر کیا گیا ہے۔ چھ روایات کتاب اصول کافی سے اور ایک روایت کتاب عیون اخبار الرضا شیخ صدوق سے نقل کی گئی ہے۔ ان سات روایات میں سے چار روایات کی سند علم حدیث کی روشنی میں معتبر اور قابل قبول ہے۔
امام رضا علیہ السلام امام جواد کی امامت کو کبھی دوسروں کے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں اور کبھی بغیر کسی کے سوال کرنے کے خود اپنی طرف سے، بیان کیا ہے۔
ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام رضاؑ کی نگاہ میں بھی اپنے بیٹے کا کم عمر ہونا، یہ منصب امامت پر فائز ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ امام رضاؑ نے مختلف مواقع پر لوگوں کو اپنے بیٹے کی امامت کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔
امام رضاؑ نے ایک جگہ فرمایا کہ: ہمارا خاندان ایسا ہے کہ جس میں ہمارا کم عمر بچہ اپنے بزرگوں سے کامل و مکمل طور پر میراث کو لیتا ہے۔ کبھی امام رضاؑ اسی بارے میں حضرت عیسی کی نبوت سے بھی استدلال کیا کرتے تھے۔
خداوند نے قرآن میں حضرت مسیح کے قول کو ایسے نقل کیا ہے کہ: قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آَتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا.
حضرت عیسیؑ نے کہا: میں خدا کا بندہ ہوں کہ مجھے کتاب دی گئی ہے اور نبی بنایا گیا ہے۔ (سوره مريم آیت 30)
اس آیت کے مطابق حضرت عیسیؑ جب گہوارے میں تھے تو خداوند کی طرف سے شریعت کی تبلیغ کے لیے مقام نبوت پر فائز ہوئے تھے۔ اب اس میں کیا مشکل اور کیسا اعتراض ہے کہ خداوند کے خاص ارادے سے امام جوادؑ جیسا ایک کم عمر بچہ بچپن کی حالت میں سات سال کی عمر میں ایک نئی شریعت کی تبلیغ کے لیے نہیں بلکہ اسی شریعت کے دفاع اور رہبری کے لیے، امامت کے عظیم عہدے پر فائز ہو جائیں؟
وہ روایات یہ ہیں:
روایت اول: سند معتبر:
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ بَزِيعٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا ع‏أَنَّهُ سُئِلَ أَ تَكُونُ الْإِمَامَةُ فِي عَمٍّ أَوْ خَالٍ فَقَالَ لَا فَقُلْتُ فَفِي أَخٍ قَالَ لَا قُلْتُ فَفِي مَنْ؟ قَالَ فِي وَلَدِي وَ هُوَ يَوْمَئِذٍ لَا وَلَدَ لَه‏.
محمد بن اسماعيل بن بزیع کہتا ہے کہ: امام رضاؑ سے سوال کیا گیا کہ: کیا آپ کے چچا اور ماموں کو امامت کا عہدہ ملے گا؟ امام نے فرمایا: نہ، وہ کہتا ہے کہ یہ سن کر میں نے امام سے عرض کیا: کیا آپ کے بھائی کو امامت کا عہدہ ملے گا؟ امام نے فرمایا: نہ، وہ کہتا ہے کہ پھر میں نے عرض کیا کہ پھر یہ منصب امامت کس کو ملے گا؟ امام نے فرمایا: میرے بیٹے کو، حالانکہ اس وقت امام رضا کا بیٹا ابھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔
(الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الكافي، ج‏1، ص: 286، ناشر: اسلاميه‏، تہران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.)
بحث سندی:
پہلا راوی محمد بن یحیی ہے، نجاشی نے اسکی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: محمد بن یحیی أبو جعفر العطار القمي شيخ أصحابنا في زمانه، ثقة، عين، كثير الحديث. محمد بن یحیی ابو جعفر عطار قمی، اپنے زمانے میں ہمارے اصحاب کا استاد تھا۔ وہ ایک مورد وثوق اور بہت سی روایات کا نقل کرنے والا انسان تھا۔
(النجاشي الأسدي الكوفي، ابوالعباس أحمد بن علي بن أحمد بن العباس (متوفى450هـ)، فهرست أسماء مصنفي الشيعة المشتهر ب‍ رجال النجاشي، ص 353، تحقيق: السيد موسي الشبيري الزنجاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.)
دوسرا راوی احمد بن محمد بن عیسی اشعری ہے۔ شيخ طوسی نے اسکے بارے میں لکھا ہے کہ: وأبو جعفر هذا شيخ قم و وجهها.
ابو جعفر احمد بن محمد بن عیسی اہل قم کا بزرگ اور بلند مرتبہ انسان تھا۔
(الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفى460هـ)، الفهرست، ص 68، تحقيق: الشيخ جواد القيومي،‌ ناشر: مؤسسة نشر الفقاهة،‌ چاپخانه: مؤسسة النشر الإسلامي، الطبعة الأولى1417)
آخری راوی محمد بن اسماعیل بن بزیع ہے کہ نجاشی نے اسکی ایسے تعریف کی ہے: محمد بن إسماعيل بن بزيع كان من صالحي هذه الطائفة وثقاتهم. محمد بن اسماعیل بن بزیع شیعوں کے صالح اور مورد وثوق افراد میں سے تھا۔
(النجاشي الأسدي الكوفي، ابوالعباس أحمد بن علي بن أحمد بن العباس (متوفاى450هـ)، فهرست أسماء مصنفي الشيعة المشتهر ب‍ رجال النجاشي، ص 330، تحقيق: السيد موسي الشبيري الزنجاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.)
روایت دوم: سند معتبر:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زِيَادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْهَمَدَانِيُّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ صَالِحٍ الْهَرَوِيِّ قَالَ سَمِعْتُ دِعْبِلَ بْنَ عَلِيٍّ الْخُزَاعِيَّ يَقُولُ لَمَّا أَنْشَدْتُ مَوْلَايَ الرِّضَا ع قَصِيدَتِيَ الَّتِي أَوَّلُهَا: مَدَارِسُ آيَاتٍ خَلَتْ مِنْ تِلَاوَةٍ وَ مَنْزِلُ وَحْيٍ مُقْفِرُ الْعَرَصَاتِ. فَلَمَّا انْتَهَيْتُ إِلَي قَوْلِي: خُرُوجُ إِمَامٍ لَا مَحَالَةَ خَارِجٌ .يَقُومُ عَلَي اسْمِ اللَّهِ والْبَرَكَاتِ. بَكَي الرِّضَا عليه السلام بُكَاءً شَدِيداً ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيَّ فَقَالَ لِي يَا خُزَاعِيُّ فَهَلْ تَدْرِي مَنْ هَذَا الْإِمَامُ … يَا دِعْبِلُ الْإِمَامُ بَعْدِي مُحَمَّدٌ ابْنِي وبَعْدَ مُحَمَّدٍ ابْنُهُ عَلِيٌّ وبَعْدَ عَلِيٍّ ابْنُهُ الْحَسَنُ وبَعْدَ الْحَسَنِ ابْنُهُ الْحُجَّةُ الْقَائِمُ الْمُنْتَظَرُ …
دعبل خزاعی نے کہا ہے کہ: میں نے امام رضاؑ کے حضور میں اپنے قصیدے کو ان اشعار کے ساتھ پڑھنا شروع کیا:
مدارس آيات خلت من تلاوة، ومنزل وحي مقفر العرصات،
جب میں اس شعر پر پہنچا:
خروج امام لا محالة خارج، يقوم علي اسم اللّٰه والبركات،
یعنی امام قائم حتمی طور پر ظاہر ہوں گے، اس حالت میں کہ اسم خدا اور اس کی برکات سے مدد لیتے ہوئے قیام کریں گے۔
امام رضا عليہ السّلام نے اشعار کو سن کر گریہ کیا اور اسی حالت میں مجھ سے فرمایا: اے دعبل، کیا تم جانتے ہو کہ جو امام خروج کرے گا، وہ کون ہے؟ ۔ ۔۔۔۔۔ اے دعبل، میرے بعد میرا بیٹا محمد اور اس کے بعد اسک ا بیٹا علی، اس کے بعد اسکا بیٹا حسن اور حسن کے بعد اس کا بیٹا منتظر قائم ہو گا۔۔۔۔۔۔۔
(القمي، ابي جعفر الصدوق، محمد بن علي بن الحسين بن بابويه (متوفي381هـ)، عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج 2 ص 297، تحقيق: تصحيح وتعليق وتقديم: الشيخ حسين الأعلمي، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات – بيروت – لبنان، سال چاپ: 1404 – 1984 م)
بحث سندی:
پہلا راوی احمد بن زیاد ہمدانی ہے۔ شیخ صدوق نے اسکو ایک متدین اور مورد اعتماد انسان کہا ہے اور اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:
كان رجلا ثقة دينا فاضلا وہ ایک ثقہ، دیندار اور فاضل انسان تھا۔
(الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفى381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة، ص 369، ناشر:‌ اسلامية ـ تهران‏، الطبعة الثانية‏، 1395 هـ،)
علی ابن ابراہیم کے علمی مقام کو پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔
بعد والے راوی، اس کے والد ابراہیم بن ہاشم ہیں۔ آیت اللہ خوئی ان کے بارے میں لکھا ہے کہ:
لا ينبغي الشك في وثاقة إبراهيم بن هاشم ويدل على ذلك عدة أمور: الاول: أنه روى عنه ابنه علي في تفسيره كثيرا وقد التزم في أول كتابه بأن ما يذكره فيه قد انتهى إليه بواسطة الثقات. الثاني:أن السيد ابن طاووس ادعى الاتفاق على وثاقته. الثالث: أنه أول من نشر حديث الكوفيين بقم والقميون قد اعتمدوا على رواياته وفيهم من هو مستصعب في أمر الحديث فلو كان فيه شائبة الغمز لم يكن يتسالم على أخذ الرواية عنه وقبول قوله.
ابراہیم ابن ہاشم کے ثقہ ہونے میں کسی قسم کا شک نہیں ہے، کیونکہ
اولا: اس کے بیٹے (علی ابن ابراہیم) نے اپنی تفسیر میں اس سے روایت کو نقل کیا ہے اور وہ پابند ہے کہ اپنی تفسیر کی کتاب میں فقط ثقہ افراد سے روایت کو نقل کرے۔
ثانیا: سید بن طاووس نے دعوی کیا ہے کہ ابراہیم ابن ہاشم کا ثقہ ہونا اجماعی ہے۔
ثالثا: وہ پہلا شخص تھا کہ جو اہل بیت کی احادیث کو شہر مقدس قم میں لے کر آیا تھا اور اہل قم بھی اس کی نقل روایات پر اعتماد کیا کرتے تھے، حالانکہ شہر قم میں ایسے محدثین تھے کہ جو احادیث کو نقل کرنے بہت ہی زیادہ احتیاط سے کام لیتے تھے اور اگر ابراہیم ابن ہاشم ان محدثین کی نگاہ میں مورد اعتماد وثقہ نہ ہوتا تو، وہ ہرگز اس کی نقل کردہ روایات کو قبول نہ کرتے۔
(الموسوي الخوئي، السيد أبو القاسم (متوفى1411هـ)، معجم رجال الحديث ج 1 ص 291، الطبعة الخامسة، 1413هـ ـ 1992م)
بعد والا راوی ابو صلت خادم امام رضا عليہ السلام ہے۔ نجاشی نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ:
عبد السلام بن صالح أبو الصلت الهروي ثقة صحيح الحديث‏.
عبد السلام بن صالح مورد وثوق ہے اور اس کی نقل کردہ احادیث صحیح ہیں۔
(النجاشي الأسدي الكوفي، ابوالعباس أحمد بن علي بن أحمد بن العباس (متوفى450هـ)، فهرست أسماء مصنفي الشيعة المشتهر ب‍ رجال النجاشي، ص 245، تحقيق: السيد موسي الشبيري الزنجاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.)
اس سلسلہ سند کا آخری راوی دعبل ہے۔ نجاشی نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ:
دعبل بن علي الخزاعي الشاعر مشهور في أصحابنا. دعبل بن علی خزاعی شاعر تھا کہ جو علماء امامیہ کے نزدیک مشہور تھا۔
(النجاشي الأسدي الكوفي، ابوالعباس أحمد بن علي بن أحمد بن العباس (متوفى450هـ)، فهرست أسماء مصنفي الشيعة المشتهر ب‍ رجال النجاشي، ص 162، تحقيق: السيد موسي الشبيري الزنجاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.)
علامہ حلی نے بھی اس کے حالات کے بارے میں لکھا ہے کہ: دعبل ابن علي الخزاعي الشاعر،حاله مشهور في الايمان وعلو المنزلة، عظيم الشأن. دعبل بن علی خزاعی شاعر تھا کہ ایمان میں، بلند مرتبہ ہونے اور عظیم الشان ہونے میں وہ بہت مشہور تھا۔
(الحلي الأسدي، جمال الدين أبو منصور الحسن بن يوسف بن المطهر (متوفى726هـ) خلاصة الأقوال في معرفة الرجال، ص 144، تحقيق: فضيلة الشيخ جواد القيومي، ناشر: مؤسسة نشر الفقاهة، الطبعة: الأولى، 1417هـ.)
روایت سوم: سند معتبر:
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَمَّرِ بْنِ خَلَّادٍ قَالَ سَمِعْتُ الرِّضَا  وذَكَرَ شَيْئاً فَقَالَ مَا حَاجَتُكُمْ إِلَى ذَلِكَ هَذَا أَبُو جَعْفَرٍ قَدْ أَجْلَسْتُه مَجْلِسِي وصَيَّرْتُه مَكَانِي وقَالَ إِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ يَتَوَارَثُ أَصَاغِرُنَا عَنْ أَكَابِرِنَا الْقُذَّةَ بِالْقُذَّةِ
معمر بن خلاد نے روایت کی ہے کہ: میں نے امام رضا سے سنا کہ وہ امامت کے بارے میں مطالب کو بیان فرما رہے تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ: تمہاری اس کے پاس کیا حاجت ہے؟ یہ ابو جعفر ہے، بے شک میں نے اس کو اپنی جگہ پر بٹھایا اور اپنا جانشین قرار دیا ہے۔ ہمارا خاندان ایسا ہے کہ جس میں ہمارا کم عمر بچہ بھی اپنے بزرگوں سے کامل و مکمل طور پر میراث کو لیتا ہے۔
(الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الكافي، ج 1 ص 320، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.)
بحث سندی:
پہلا راوی محمد بن یحیی العطار اور دوسرا راوی احمد بن محمد بن عیسی اشعری ہے کہ دونوں کے ثقہ ہونے کے بارے میں پہلے اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔اس سلسلے کا آخری راوی معمر بن خلاد ہے۔ نجاشی نے لکھا ہے کہ: معمر بن خلاد بن أبي خلاد، ثقة. معمر بن خلاد بن ابی خلاد ایک مورد وثوق انسان ہے۔
(النجاشي الأسدي الكوفي، ابوالعباس أحمد بن علي بن أحمد بن العباس (متوفى450هـ)، فهرست أسماء مصنفي الشيعة المشتهر ب‍ رجال النجاشي، ص 421، تحقيق: السيد موسي الشبيري الزنجاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.)
روایت چہارم: سند معتبر:
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى قَالَ قُلْتُ لِلرِّضَا قَدْ كُنَّا نَسْأَلُكَ قَبْلَ أَنْ يَهَبَ اللّٰه لَكَ أَبَا جَعْفَرٍ ع فَكُنْتَ تَقُولُ يَهَبُ اللّٰه لِي غُلَاماً فَقَدْ وَهَبَه اللَّه لَكَ فَأَقَرَّ عُيُونَنَا فَلَا أَرَانَا اللّٰه يَوْمَكَ فَإِنْ كَانَ كَوْنٌ فَإِلَى مَنْ فَأَشَارَ بِيَدِه إِلَى أَبِي جَعْفَرٍ وهُوَ قَائِمٌ بَيْنَ يَدَيْه فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ هَذَا ابْنُ ثَلَاثِ سِنِينَ فَقَالَ ومَا يَضُرُّه مِنْ ذَلِكَ فَقَدْ قَامَ عِيسَى  بِالْحُجَّةِ وهُوَ ابْنُ ثَلَاثِ سِنِينَ [وَ هُوَ ابْنُ أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثِ سِنِينَ.]
صفوان بن یحیی نے روایت کی ہے کہ: میں نے امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا کہ: خداوند کی طرف سے آپ کو ابو جعفر (امام جواد) کے عطا ہونے سے پہلے، ہم آپ کے جانشین کے بارے میں، آپ سے سوال کیا کرتے تھے اور آپ جواب فرمایا کرتے تھے کہ: خداوند مجھے ایک فرزند عطا کرے گا۔ لہذا اب خداوند نے آپ کو وہ فرزند عطا کر دیا ہے اور ہماری آنکھوں کو ان کے وجود سے ٹھنڈک بخشی ہے۔ اگر خدا نخواستہ آپ کے ساتھ کچھ ہو جائے تو پھر ہم کس کی طرف رجوع کریں؟ امام رضا نے اپنے ہاتھ سے اپنے سامنے کھڑے ابو جعفر کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے کہا: میں آپ پر قربان ہو جاؤں، ابو جعفر تو ابھی تین سال کا بچہ ہے؟ ! امام نے فرمایا: تو پھر کیا ہوا؟ عیسی ؑبھی تو تین سال کے تھے کہ جب وہ نبوت کے مرتبے پر فائز ہوئے تھے۔
الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاى328 هـ)، الكافي، ج‏1، ص: 321، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
بحث سندی:
اس روایت کے پہلے دو راوی، گذشتہ روایت والے پہلے دو راوی ہی ہیں، یعنی محمد بن یحیی العطار اور احمد بن محمد بن عیسی اشعری۔ ہم نے پہلے بیان کیا کہ ہر دو قابل اعتماد اور ثقہ ہیں۔نجاشی نے اس سند کے تیسرے راوی کے بارے میں لکھا ہے کہ:
صفوان بن يحيى أبو محمد البجلي ثقة ثقة عين. صفوان بن یحیی ابو محمد بجلی بہت اعلی درجے کا ثقہ اور بلند مرتبہ انسان ہے۔
(النجاشي الأسدي الكوفي، ابوالعباس أحمد بن علي بن أحمد بن العباس (متوفاى450هـ)، فهرست أسماء مصنفي الشيعة المشتهر ب‍ رجال النجاشي، ص 197، تحقيق: السيد موسي الشبيري الزنجاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.)
شیخ الطائفہ شیخ طوسی نے ان الفاظ کے ساتھ اس کی تعریف کی ہے: أوثق أهل زمانه عند أصحاب الحديث وأعبدهم.
علم حدیث کے علماء کے نزدیک وہ اپنے زمانے کا مورد اعتماد ترین و عابدترين فرد تھا۔
(الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفاى460هـ)، الفهرست، ص 145، تحقيق: الشيخ جواد القيومي،‌ ناشر: مؤسسة نشر الفقاهة،‌ چاپخانه: مؤسسة النشر الإسلامي، الطبعة الأولى1417.)
یہاں پر یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ صفوان کے بلند علمی مرتبے اور اس کی وثاقت کو نظر میں رکھتے ہوئے، بعض وہ روایات کہ جو صفوان کی مذمت کو بیان کرتی ہیں، ان کو قبول نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ مذمت والی بعض روایات، مدح والی بہت سی روایات کے ساتھ تضاد رکھتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہی صحیح سند والی روایت ہے کہ جس میں امام رضاؑ نے اس کے عادل ہونے پر گواہی دی ہے۔
اس کے علاوہ بزرگ شیعہ علمائے رجال جیسے نجاشی اور شیخ طوسی نے بھی صفوان کے ثقہ ہونے پر تصریح کی ہے۔ لہذا صفوان کے بارے میں اس جیسی مذمت والی روایات کو تقیہ وغیرہ پر حمل کیا جائے گا۔ یعنی صفوان کے بارے میں یہ روایات آئمہ سے تقیہ کی حالت میں صادر ہوئیں تھیں۔
رجوع فرمائیں: (الموسوي الخوئي، السيد أبو القاسم (متوفاى1411هـ)، معجم رجال الحديث، ج 10 ص 139، الطبعة الخامسة، 1413هـ ـ 1992م)
روایت پنجم:
أَحْمَدُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ ابْنِ قِيَامَا الْوَاسِطِيِّ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ مُوسَى فَقُلْتُ لَه أيَكُونُ إِمَامَانِ قَالَ لَا إِلَّا وأَحَدُهُمَا صَامِتٌ فَقُلْتُ لَه هُوَ ذَا أَنْتَ لَيْسَ لَكَ صَامِتٌ ولَمْ يَكُنْ وُلِدَ لَه أَبُو جَعْفَرٍ  بَعْدُ فَقَالَ لِي واللّٰه لَيَجْعَلَنَّ اللَّه مِنِّي مَا يُثْبِتُ بِه الْحَقَّ وأَهْلَه ويَمْحَقُ بِه الْبَاطِلَ وأَهْلَه فَوُلِدَ لَه بَعْدَ سَنَةٍ أَبُو جَعْفَرٍ عليه السلام وكَانَ ابْنُ قِيَامَا وَاقِفِيّاً
ابن قیاما نے کہا ہے کہ: میں امام علی ابن موسی الرضاؑ کے پاس گیا اور کہا: کیا ایک ہی زمانے میں دو امام موجود ہو سکتے ہیں؟ امام نے فرمایا: نہیں، مگر یہ کہ ان میں سے ایک ساکت و خاموش ہو۔ ابن قیاما نے پھر کہا کہ: لیکن آپ کے ساتھ تو کوئی ساکت امام نہیں ہے،( کہ جو آپ کے بعد امام و جانشین ہو)، اس وقت ابھی تک ابو جعفر دنیا میں تشریف نہیں لائے تھے۔ امام رضا نے فرمایا: خدا کی قسم، خداوند مجھے ایسا فرزند عطا کرے گا کہ جس کے ذریعے سے حق و اہل حق ثابت ہو جائیں گے اور باطل و اہل باطل نابود ہو جائیں گے، پس ایک سال کے بعد ابو جعفر دنیا میں آ گئے۔ ابن قیاما واقفی مذہب تھا۔
(الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاى328 هـ)، الكافي، ج‏1، ص: 321، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.)
روایت ششم:
بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ حُكَيْمٍ عَنِ ابْنِ أَبِي نَصْرٍ قَالَ: قَالَ لِيَ ابْنُ النَّجَاشِيِّ مَنِ الْإِمَامُ بَعْدَ صَاحِبِكَ فَأَشْتَهِي أَنْ تَسْأَلَهُ حَتَّى أَعْلَمَ فَدَخَلْتُ عَلَى الرِّضَا ع فَأَخْبَرْتُهُ قَالَ فَقَالَ لِي الْإِمَامُ ابْنِي ثُمَّ قَالَ هَلْ يَتَجَرَّأُ أَحَدٌ أَنْ يَقُولَ ابْنِي وَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ.
ابن ابی نصر نے روایت کی ہے کہ: ابن نجاشی نے مجھ سے کہا ہے کہ: آپ کے آقا (امام رضا) کے بعد امام کون ہو گا؟ میں نے اس سے کہا کہ خود جا کر ان (امام رضا) سے پوچھ لو۔ راوی کہتا ہے میں امام رضاؑ کے پاس گیا اور یہ بات ان کو بتائی۔ اس پر امام نے فرمایا: امام، میرا بیٹا (جواد) ہو گا۔ پھر فرمایا: کیا کوئی اولاد ہونے کے بغیر بھی جرات کر سکتا ہے کہ کہے، میرا بیٹا امام بنے گا؟
(الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاى328 هـ)، الكافي، ج‏1، ص: 320، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.)
روایت ہفتم:
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الْخَيْرَانِيِّ عَنْ أَبِيه قَالَ كُنْتُ وَاقِفاً بَيْنَ يَدَيْ أَبِي الْحَسَنِ عليه السلام بِخُرَاسَانَ فَقَالَ لَه قَائِلٌ يَا سَيِّدِي إِنْ كَانَ كَوْنٌ فَإِلَى مَنْ قَالَ إِلَى أَبِي جَعْفَرٍ ابْنِي فَكَأَنَّ الْقَائِلَ اسْتَصْغَرَ سِنَّ أَبِي جَعْفَرٍ  فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ  إِنَّ اللّٰه تَبَارَكَ و تَعَالَى بَعَثَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ  رَسُولاً نَبِيّاً صَاحِبَ شَرِيعَةٍ مُبْتَدَأَةٍ فِي أَصْغَرَ مِنَ السِّنِّ الَّذِي فِيه أَبُو جَعْفَرٍ
پدر خیرانی نے روایت کی ہے کہ: میں خراسان میں امام رضا کے پاس ہی بیٹھا تھا کہ ایک شخص نے امام سے کہا کہ: اگر خدا نخواستہ آپ کے ساتھ کچھ ہو جائے تو پھر ہم کس کی طرف رجوع کریں؟ امامؑ نے فرمایا: میرے بیٹے ابو جعفر کی طرف، گویا سوال کرنے والے شخص نے ابو جعفر کو بہت چھوٹا شمار کیا، اس پر امام رضاؑ نے فرمایا: خداوند نے عیسی ابن مریم کو نبوت، رسالت اور نئی شریعت عطا کر کے مبعوث کیا تھا، حالانکہ ان کی عمر، ابو جعفر سے بھی کم تھی۔
(الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاى328 هـ)، الكافي، ج 1 ص 384، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.)
مطالب کی جمع بندی و خلاصہ:
تمام بیان کیے گئے مطالب سے معلوم ہوتا ہے کہ آئمہ معصومینؑ، امام جوادؑ کی امامت کے بیان کرنے کو ہمیشہ بہت اہمیت دیا کرتے تھے اور مختلف مواقع اور مختلف الفاظ کے ساتھ انہوں نے لوگوں کے لیے یہ کام انجام دیا تھا۔ اس بارے میں آئمہ سے نقل ہونے والی احاديث معراج، احادیث لوح، احادیث اثنی عشر اور خاص طور پر امام رضا ؑسے نقل ہونے والی احادیث کو مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بیان ہوا کہ جس طرح خداوند نے اپنی حکمت و قدرت کی بناء پر حضرت عیسیؑ کو گہوارے میں نبوت و رسالت اور کتاب عطا کی تھی، اسی طرح خداوند نے اپنی حکمت و قدرت کی بناء پر حضرت امام جوادؑ کو بھی کم عمری کی حالت میں امامت کے بلند مرتبے پر فائز فرمایا تھا۔
https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=949

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button