سلائیڈرمحافلمناقب امام جعفر صادق عمناقب و فضائل

امام جعفر صادق علیہ السلام علماء اہل سنت کی نظر میں

مولانا محمداصغر عسکری

امام جعفر صادق علیہ السلام کی شخصیت اپنے آباء واجداد کی طرح صرف شیعہ اور مسلمانوں سے متعلق نہیں ہے بلکہ آپ پوری انسانیت کے رہبر و رہنما تھے ۔اگر چہ بعض غیر مسلم دانشور وں نے امام علیہ السلام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پرروشنی ڈالی ہے لیکن انہوں نے اپنے مادی نکتہ نظر سے امام کی زندگی کاتجزیہ و تحلیل کیا ہے اور معروف کتاب (The Superman of Islam)اسی محدود اورناقص نکتہ نظر کا نتیجہ ہے کہ جس میں مصنف نے امام کو بالواسطہ یا بلاواسطہ بطلمیوس کاشاگر د جانا ہے۔جہا ں غیر مسلم دانشوروں نے امام کی شخصیت کے حوالے سے اپنی محدود اور ناقص شناخت کے مطابق با ت کی ہے وہاں مذاہب اسلامی کے پیشوائوں نے بھی امام کی بے نظیر شخصیت کے حوالے سے اظہار عقیدت کیا ہے ۔البتہ ایک بات کی وضاحت ضروری ہے ان پیشوائوں اور علماء نے امام کے حوالے سے جو اظہار ات کیے ہیں وہ اپنے نکتہ نظر کے مطابق یعنی امام کو معصوم نہ جانتے ہوئے بیان کیے ہیں ۔لہذا ان کی بیان کی ہوئی بعض تعبیرات ایسی ہیں جو مقام امامت کے شایان شان نہیں ہیں ۔اور امام کی ملکوتی اورمعنوی شخصیت کا احاطہ نہیں کر سکتیں ۔تو سب سے پہلے مذاہب اسلامی کے پیشوائوں کااس حوالے سے بیان اور پھر علماء اہل سنت نے جو کچھ کہا ہے بیان کرتے ہیں ۔حضرت مالک بن انس ،امام شافعی کے استاد تھے اور امام احمد بن حنبل نے دس سال تک ان سے کسب فیض کیا اور امام ابو حنیفہ اورامام مالک نے خود امام جعفر صادق علیہ السلام کی شاگردی اختیار کی تو اس طرح سے مذاہب اسلامی کے یہ چاروں امام و پیشوا بالواسطہ یا بلاواسطہ امام جعفر صادقـ کے شاگرد تھے ۔عبدالحلیم جندی اپنی کتاب “الامام الصادق “میں لکھتے ہیں ۔اگر امام مالک کے لیے فخر ہے کہ شافعی کے استاد تھے یاشافعی کے لیے فخر ہے کہ حنبل کے استاد تھے تو پھر سب سے بڑا فخر امام صادق علیہ السلام کے لیے ہے کہ آپ مذاہب اربعہ کے چاروں پیشوائوں کے استاد تھے
امام علیہ السلام نے جہاں اپنے دادکی علم وحکمت والی میراث کو ان پیشوائوں تک منتقل کیا ہے وہاں دوسرے بھی ہزاروں آپ کے نامی گرامی شاگردان ہیں جنہوں نے آپ سے کسب فیض کیا ہے اورآج علم وتحقیق کی دنیا میں ان کابہت بڑا نام اورمقام ہے ۔آپ کے ان شاگردوں میں سے بزرگ محدثین سفیان ثوری کہ جو تقویٰ وو رع میں تمام اہل عراق سے آگے تھے ۔ عمر و ابن عبید (معتزلہ کے بانی )محمد بن عبدالرحمن ،ابن ابی لیلیٰ اور سفیان بن عینیہ اوراہل سنت کے بہت سارے دیگر فقھاء ومحدثین نے آپ کی شاگردی اختیار کی ۔یہی وجہ ہے کہ شارح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی اہل سنت کے بہت بڑے عالم دین کہتے ہیں ۔اہل سنت کے مذاہب اربعہ کی فقہ ۔امام جعفر صادق علیہ السلام کی فقہ کی طرف پلٹی ہے ۔
امام مالک بن انس کہتے ہیں !
ولقد کنت اتی جعفر بن محمد وکان کیثر المذاح والتبسم فاذا ذکر عندہ البنی اخضر و ا صفر ولقد اختلفت الیہ زمانا وما کنت اراہ الا علی ثلاث فصال اما مصلیا واماصائما واما یقرء القرآن ومارائیتہ قط یحدث عن رسول اللہ الا علیٰ الطھار ة ولا یتکلم فی مالا یعنیہ وکان من العلماء الذھا ر الذین یخشون اللہ وما رایت الا یخرج الوسادة تحتہ ویجعلھا تحتی
ترجمہ :میں کچھ عرصہ تک جعفر بن محمد کی خدمت میں مشرف ہوتا تھا ۔وہ ہمیشہ مسکراتے تھے اور زیادہ مزاح فرماتے تھے اورجب بھی آپ کے سامنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانام لیا جاتا تو آپ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوجاتا ۔پہلے سبز ہوتا پھرسرخ ہوجاتا تھا ۔اورمیں جب بھی آ پ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ کوہمیشہ تین حالتوں میں سے کسی ایک حالت میں پایا ۔یا آپ نماز کی حالت میں ہوتے تھے یاروزے کے ساتھ تھے اوریا قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے پایا ہے ۔اور آپ کبھی بھی وضو کے بغیر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث نقل نہیں کرتے تھے اور کبھی بے مقصد بات نہیں کرتے تھے آپ ان زاہد عبادت گزاروں اوران علماء میں سے تھے کہ جن کے دلوں میں خشیت الہیٰ ہو ۔ اور میں جب بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا ۔آپ اپنا تکیہ اپنے نیچے سے اٹھا کر مجھے دے دیتے تھےخود امام مالک کے بارے نقل ہو اہے کہ وہ بھی جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیتے تو ان کا رنگ زرد ہوجاتا اورجب محفل میں موجود لوگ اس کاسبب دریافت کرتے تو آپ فرماتے تھے کہ جو کچھ میں نے دیکھا ہے اگر آپ بھی دیکھتے تو آپ بھی تصدیق کرتے پھر آپ امام صادق علیہ السلام کی اس کیفیت کو بیان کرتے ۔
یوں امام مالک نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے اس کیفیت کو حاصل کیا ہے ۔امام مالک ایک اور روایت میں بیان کر تے ہو ئے کہتے ہیں۔
مارائت شمس ولا سمعت اذن ولاخطر علیٰ قلب بشر افضل من جعفر بن محمد علماوعبادة وورعا
ترجمہ ۔ جعفر بن محمد سے افضل علم ،عباد ت اور ورع کے لحاظ سے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دل میں کبھی کھٹکا
فقہ حنفی کے مشہور پیشوا نعمان بن ثابت امام ابو حنیفہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے علمی مقام و منزلت کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے کہتے ہیں :
ما راء یت افقہ من جعفر ابن محمد وانہ اعلم الامة
ترجمہ:۔ میں نے جعفر ابن محمد سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا اور وہ امت اسلامی میں سے اعلم تھے ۔اسی طرح ایک اور مقام میں آلوسی زادہ نے مختصر تحفہ اثنا عشریہ میں امام ابو حنیفہ سے قول نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :یہ ابو حنیفہ کہ جو فخر وافتخار کامقام ہیں پوری وضاحت سے یہ کہتے ہیں کہ لولاانستان لھلک النعمان۔ اگر وہ دو سال کہ جن میں جعفر ابن محمد سے میں نے علمی استفادہ کیا ہے نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوجاتا ۔ ٧۔اگرچہ امام ابو حنیفہ نے مدینہ اور کوفہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے کئی ملاقاتیں کی ہیں مگر جن دو سالوں میں آپ نے مسلسل امام سے مدینہ میں کسب فیض کیا اور امام کے علمی سمندر سے بہرہ مند ہو ئے یہی دوسال آپ کی نجات کا باعث بنے۔اہل سنت کے بہت بڑے فقیہ اور محدث شمس الدین ذہبی نے ایک واقعہ نقل کیا ہے ۔جس سے امام صادق علیہ السلام کی علمی عظمت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔وہ لکھتے ہیں :عباسی خلیفہ منصور دوانیقی نے جعفر بن محمد کومدینے سے عراق طلب کیا اور امام ابو حنیفہ سے کہا لوگ جعفر بن محمد کے فضائل کے گرویدہ ہوتے جارہے ہیں لہذا تم کچھ مشکل سے مشکل سوالات تیار کرو اوران سے مناظرہ کرو تاکہ ان کے مقام کو کم کیا جا سکے ۔
امام ابو حنیفہ اس واقعے کویوں بیان کرتے ہیں :منصور دوانیقی مقام حیرة میں تھا میںداخل ہوا میں نے دیکھا کہ جعفر ابن محمد منصور کے دائیں جانب تشریف فرما تھے جب میری نظر ان پر پڑی تو ان کے رعب و دبدبے سے میں متاثر ہوا میں،نے ان کوسلام کیا منصور دوانیقی جعفر ابن محمد کی طرف متوجہ ہوا اور کہا ،یا ابا عبداللہ یہ شخص ابو حنیفہ ہے ۔امام نے فرمایا !وہ پہلے بھی میرے پاس آئے تھے اور میں ان کو پہچانتا ہوں پھر منصور میری طرف متوجہ ہواور کہا اے ابو حنیفہ اپنے سوالات کوابوعبداللہ سے پوچھو ۔ میں نے اپنے سوالات بیا ن کیے اور انہوں نے میرے تمام سوالات کے جواب دیئے اور فرمایا :تم اس مسئلہ میں اس طرح کہتے ہو مدینہ کے لوگ یوں کہتے ہیں ۔اور ہم اس مسئلہ میں اس طرح کہتے ہیں کبھی وہ ان کے قو ل کو قبول کرتے تھے اورکبھی مخالفت کرتے یہاں تک کہ جعفر ابن محمد نے چالیس سوالات کے اسی تفصیل سے جواب دیئے ۔جب مناظرہ ختم ہوا تو ابو حنیفہ نے امام صادق علیہ السلام کی طرف بے اختیار اشارہ کرتے ہوئے کہا :”ا ن اعلم الناس باختلاف الناس ”یعنی لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا وہ شخص ہے ۔جو مسائل میں علماء کی مختلف آراء اور نظریات سے آگاہ ہو ۔
ابو حنیفہ کے اس قول سے واضح ہوجاتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام اس زمانے کے تمام علماء سے زیادہ آگاہی اور علم رکھتے تھے۔اگرچہ ابو حنیفہ عمر میں امام صادق علیہ السلام سے بڑے تھے پہلے پیدائش ہوئی اور امام صادق علیہ السلام کے بعد وفات ہوئی بزرگ ہونے کے باوجود اس انداز سے امام صادق علیہ السلام کے علمی مقام کااعتراف کرتے ہیں۔ابو بحر جاحظ جوکہ اہل سنت کے بہت بڑے عالم دین تھے اوردوسری صدی کے آخر میں ان کادور تھا ایک غیر معمولی ادیب ،ایک بہترین جامعہ شناس اور مورخ تھے ،کتاب الحیوان ،جس کو آپ نے لکھا ہے بہت معروف ہے اور آج بھی یورپ کے سائنس دانوں کے لیے قابل توجہ ہے یہ عالم امام صادق علیہ السلام کے آخری دور میں موجود تھے۔امام علیہ السلام کے بارے میں کہا :
جعفر ابن محمد الذی ملا الدنیا علمہ وفقھہ ویقال ان ابا حنیفہ من تلامذتہ وکذلک سفیان الثوری وجسک بھما فی ھذا الباب
جعفر ابن محمد وہ ہیں کہ جن کے علم اورفقہ نے دنیا کوپُر کردیا ہے اورکہا جاتا ہے کہ ابو حنیفہ آپ کے شاگردوں میں سے تھے اور اسی طرح سفیان ثوری بھی آپ کے شاگرد تھے ۔اور ان دونوں کاشاگرد ہونا آپ کی عظمت کے لیے کافی ہے ۔٩۔ذیل میں ہم اہل سنت کے چند معروف علماء کے امام کے متعلق بیان کیے گئے اقوال کونقل کرتے ہیں جوانہوں نے امام علیہ السلام کے متعلق بیان کیے ہیں ۔محمدشہر ستانی الملل والنحل کے مصنف کہ جن کاشمار فلاسفہ اور متکلمین میں سے ہوتا ہے ۔پانچویں صدی ہجری میں تھے امام کے بارے فرماتے ہیں ۔
ھوذ وعلم عزیر وادب کامل فی الحکمة وزھد فی الدنیا وورع تام عن الشھوات ویفیض علیٰ الموالی لہ اسرار العلوم ثم دخل العراق ولانازع فی الخلافة احدا ومن غرق فی بحرالمعرفة لم یقع فی شط ومن تعلی الیٰ ذروة الحقیقة لم یخف من حط
آپ کے پاس جوش مارنے والا علم تھا اورحکمت میں کامل ادب تھا دنیا میں زہد اور شہوات سے مکمل دوری تھی آپ نے دوستوں پر مختلف علوم کے اسرار ورموز کا فیض پہنچایا ۔پھر آپ عراق میں داخل ہوئے اور کسی سے خلافت کے بارے میں جھگڑا نہیں کیا ۔ اور معرفت وعلوم کے سمندر میں آپ ایسے غوطہ ور ہو گئے کہ ان مسائل کی طرف توجہ ہی نہ دی اور جو بھی علم ومعرفت کے سمندر میں غرق ہوجائے وہ کنارے میں نہیں آتا ۔اور جو حقیقت کی چوٹی پر چڑھ جائے وہ نیچے گرنے سے نہیں ڈرتا ۔اگرچہ شہر ستانی نے اس قول میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ سب ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے کہ خلافت کے بارے کسی سے جھگڑا نہیں کیا اور دوری اختیار کی ہے ۔اگرچہ ہم اس نقطہ نظر کو تسلیم نہیں کرتے مگر چونکہ یہ ہمارے موضوع سے خارج ہے لہذا اس کو بحث نہیں کریں گے ۔
ابن حجر عسقلاتی کہتے ہیں کہ
”جعفر الصادق نقل الناس عنہ ماسارت بہ الرکبان وانتشر صیتہ فی جمیع البلدان
یعنی لوگوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اتنی زیادہ احادیث نقل کی ہیں کہ انسان کی فکر وہاںتک نہیں پہنچ سکتی اور یہ علوم پوری دنیا میں زبان زد عام ہوگئے ہیں ۔ عمر وابن ابی المقدام سے روایت نقل ہوئی ہے کہ
قال کنت اذانظرت الیٰ جعفر بن محمد علمت انہ من سلالة البنیین قد رایتہ واقفاعند الجمر ة یقول سلونی سلونی
عمر و کہتے ہیں کہ میں جب بھی جعفر بن محمد کی طرف نظر دوڑاتا تو جان لیتا کہ آپ انبیاء کی نسل میں سے ہیں اور میں نے آپ کو دیکھا جب آپ ایک پتھر پر کھڑے تھے اور یہ فرما رہے تھے سلونی سلونی ۔مجھ سے پوچھو مجھ سے پوچھو ۔آپ نے اپنے جدامیر المومنین علیہ السلام کی طرح یہ دعویٰ کیا ہے مولا امیر المومنین علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا تھااس سے پہلے کہ میں تمھارے درمیان نہ رہو ں ۔مجھ سے علمی مسائل اور مشکلات کے بارے پوچھ لو اور میرے بعد کوئی بھی مجھ جیسے حدیث بیان نہیں کرے گا ۔
ایک اہم سوالصحیح بخاری جو کہ اہل سنت کے ہاں سب سے معتبر ترین کتا ب ہے امام بخاری نے اس کتاب میں غیر موثق اور ضعیف روایات کوبھی بیان کیا ہے بلکہ عمران بن حطان سدوسی جوکہ خارجی تھا اس سے روایت نقل کی ہے اور اسی طرح دوسرے خوارج اورنواصب سے روایات نقل کی ہیں ۔لیکن امام جعفر صادق علیہ السلام جن کے علمی مقام کو اہل سنت کے تمام آئمہ نے اور دیگر علماء نے قبول کیا ہے ان سے ایک روایت بھی صحیح بخاری نے نقل نہیں کی؟صحیح بخاری کی کل ٥٣٧٤ احادیث میں صرف ابو ہریرہ سے ٤٤٦احادیث نقل کی ہیں جبکہ امام الائمہ جعفر صادق علیہ السلام ایک حدیث بھی نقل نہیںکی ؟جبکہ امام بخاری کادور امام جعفر صادق علیہ السلام کے قریب تھا اور امام علیہ السلام کے بعد ایک صدی تک امام بخاری کی وفات ہوئی ہے ۔اگرچہ امام بخاری کاامام جعفر صادق علیہ السلام سے حدیث نقل نہ کرنے سے امام کے علمی مقام و منزلت میں ذرہ بھر بھی کمی نہیں آئے گی کیونکہ آپ وہ ہیں کہ پوری امت مسلمہ نے جن کی صداقت کی گواہی دی ہے اور اسی وجہ سے آپ کو صادق کا لقب دیا گیا ہے ۔ابن خلکان میں لکھا ہے کہ
جعفر بن محمد احد الآئمہ اثنی عشر کان من سادا ت اہل البیت ولقب باالصادق لصدق مقالتہ وفضلہ اشھر من ان یذکر جعفر ابن محمد
بارہ اماموں میں سے ایک اور سادات اہل بیت میں سے تھے اور آپ کی صداقت کی وجہ سے آپ کوصادق کا لقب دیا گیا ہے اور آپ کے فضائل کو بیان نہیں کیا جا سکتا ۔اگر چہ اہل سنت کے بہت سارے دوسرے علماء متقدمین اور معاصر نے امام کے علمی ومعنوی مقام کو بیان کیا ہے مگر اس مختصر تحریر میں ان تمام کو بیان نہیں کیا جا سکتا آخر میں علما ء معاصر میں سے میر علی ہندی کے خوبصورت جملات سے اختتام کر تے ہیں ۔کہا
لا مشاحة ان انتشار العلم فی ذلک الحین قد ساعد علیٰ فک الفکر من لمقالہ فا صحبت المنا قشات الفلسےة عامة فی کل حاضرة من حواضر العالم الا سلامی ولا یغو تنا ان عانشیرَ الیٰ ان الذی تزعم تلک الحرکة ہو حفید علی ابن ابی طالب المسمی با الا مام الصادق ھو رجل رھب افق تفکیر بعید أغوالا لعقل علم کل ألمام بعلوم عصرہ ویعتبر فی الواقع ھو اول من أ سَّ المدارس الفلسفےة المشھورة فی الاسلام ولم یکن یحضر حلقتہ العلمےة اولئک الذین أ صبحوا موسّی المذاھب الفقھیہ فحسب بل کان یحضر ھا طلاب الفلسفة والمتفلسفون من أ نحا ء الواسعہ
اس میں کو ئی شک نہیں ہے کہ زمانہ امام صادق علیہ السلام میں مختلف علوم کے پھیلنے سے افکا رکی آزادی ہو ئی اور فکری پابندی ختم ہو ئی جس کے نیتجے میں تمام فلسفی ابحاث اسلامی معاشرے میں عام ہو گئیں اور ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ جس ہستی نے اس فکری تحریک کی رہبری کی وہ علی ابن ابی طالبـ کے پوتے امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں اور وہ ایسے فرد تھے کہ جن کی سوچ کا افق بہت وسیع تھا۔ ان کی عقل بہت عمیق اور گہری تھی وہ اپنے دور کے علوم پر غیر معمولی توجہ رکھتے تھے ۔حقیقت میں سب سے پہلے جس ہستی نے اسلامی دنیا میں عقلی وفکری مدارس کی بنیاد رکھی وہ آپ تھے آپ کے شاگردوں کاحلقہ فقط فقہی مذاہب کی تاسیس تک محدود نہیں تھا بلکہ دنیا کے کو نے کو نے سے علوم عقلی کے طلاب بھی آپ کے شاگر دتھے ۔
حوالہ جات
1۔محمد حسین مظفر ،الامام الصادق ،ص٧٥٢
2۔عبد الحلیم الجندی،الامام الصادق،ص١٧٤٣
3۔شرح نہج البلا غہ ،ابن ابی الحدید معتزلی،ج١۔ص١٨٤
4۔عبدالحلیم الجندی ،الا ما م الصادق ،ص٧٥٥
5۔اسد حیدر ،الامام الصادق والمذاھب الا ربعہ،ج١،ص٥٣٦
6۔شمس الدین ذہبی،تذکرة الحفاظ،ج١،ص١٦٦٧
7۔اسدحیدر الامام الصادق والمذاھب الاربعہ ،ج١،ص٥٨٨
8۔اسد حیدر ،الامام الصادق والمذاھب الا ربعہ،ج٤،ص٣٢٥٩
9۔جاحظ،رسائل الجاحظ،ص١٠٦١٠
10۔شہرستانی ،الملل والنحل١١
11۔ابن حجر عسقلانی ،الصواعق المحرقہ ،ص٢٠١١٢
12۔شمس الدین ذہبی ، سیر أعلام النبلا ،ج٦،ص٤٤٠١٣
13۔ابن خلکان ،وفیات الا ٔ عیان ،ج١،ص٣٠٧١٤
Source: http://shiastudies.com/ur:

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button