امیرالمومنینفضائل اھل بیتؑمحافلمناقب و فضائل

واقعہ مباہلہ کی حقیقت میں غور و فکر

حضرت آیۃ اللہ العظمی مکارم شیرازی (مدظلہ) کی نظر میں
حضرت آیۃ اللہ العظمی مکارم شیرازی (مدظلہ) نے واقعہ مباہلہ کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے اس طرح فرمایا : تاریخ میں بیان ہوا ہے کہ نجران کے عیسائی ساٹھ لوگوں کے ساتھ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے بحث و گفتگو کرنے کیلئے مدینہ میں داخل ہوئے اور انہوں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے پوچھا کہ آپ ہمیں کس چیز کی دعوت دیتے ہو ؟ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : خداوندعالم کی طرف دعوت دیتا ہوں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی (ع) بھی خدا کے ایک بندہ تھے اور ایک انسان تھے ، انہوں نے یہ بات قبول نہیں کی اور بغیر باپ کے حضرت عیسی (ع)کی ولادت کی طرف اشارہ کیا اور اسی کو ان کی الوہیت پر دلیل دینے لگے ، اسی وقت کچھ آیات نازل ہوئیں اور ان کو جواب دیا ،لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا تو ان کو ”مباہلہ” کی دعوت دی ۔
خلاصہ تفسیر نمونہ ، جلد ١ ، صفحہ ٢٨٩
لہذا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مباہلہ کے طریقہ کو نجران کے عیسائیوں کے سامنے بیان کیا اور مباہلہ کرنے کیلئے ایک دن معین کرلیا ۔ عیسائیوں کے اسقف اعظم نے (جوکہ ان کا سب سے بڑا عالم دین ہوتا ہے) ان سے کہا :

مباہلہ کیلئے آمادہ ہوجائو اور جو دن معین کیا گیا ہے اس دن اپنے وقت پر وہاں پہنچ جانا، اگر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مباہلہ کے روز اپنے اصحاب ، دوست اور مسلمانوں کی مشہور شخصیات کے ساتھ تشریف لائے تو ان کے ساتھ مباہلہ کرنا لیکن مباہلہ کے لئے اپنے بچوں اور رشتہ داروں کو لے کر آئیں تو ان سے مباہلہ نہ کرنا کیونکہ پہلی صورت میں وہ اپنی نبوت کے دعوی میں سچے نہیں ہیں اوراس طرح وہ مغلوب ہوجائیں گے لیکن دوسری صورت پیش آتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا خدا سے کوئی رابطہ ہے جس کی وجہ سے وہ اس پر توکل کرتے ہوئے میدان میں آئیں گے ۔
خلاصہ تفسیر نمونہ ، جلد ١ ، صفحہ ٢٨٩
بہرحال وہ دن بھی آگیا اور عیسائیوں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنے دو بچوں حسن اور حسین (علیہما السلام) کا ہاتھ پکڑے ہوئے آرہے ہیں اور ان کے ساتھ علی و فاطمہ علیہما السلام بھی ہیں ۔
عیسائیوں کے اسقف اعظم نے جب یہ منظر دیکھا تو کہا : میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ دعا کریں گے تو یقینا ان کی دعا قبول ہوجائے گی اور تم سب نابود ہوجائو گے ، لہذا مباہلہ سے پرہیز کرو اور مسلمانوں سے کہو کہ ہم مباہلہ نہیں کرتے بلکہ جزیہ (ٹیکس) دینے کو تیار ہیں۔ا ور آپ کے ساتھ مسالمت آمیز زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں ،پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے بھی ان کی درخواست کو قبول کرلیا اور مباہلہ سے چشم پوشی کی ۔ مباہلہ کا یہ مختصر واقعہ اسلامی تواریخ میں ثبت ہے ۔
آیات ولایت در قرآن ، صفحہ ٢٠٤

مفہوم مباہلہ کی حقیقت
حضرت آیۃ اللہ العظمی مکارم شیرازی ، لفظ مباہلہ کی لغوی اور اصطلاحی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں : مباہلہ کا اصل مادہ (سہل کے وزن پر) ”بھل”ہے اوراس کے معنی چھوڑنے کے ہیں ، یہاں تک کہ فارسی جملوں میں بھی اس جملہ کو استعمال کرتے ہیں کہ فلاں شخص کو بہل کردیا ، یعنی اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور مذہبی تفسیر میں مباہلہ کے معنی یہ ہیں کہ مذہبی ایک امر میں دو گروہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں کھڑے ہوجائیں اور دونوں ایک دوسرے کیلئے بد دعاء کریں ، جس کی بھی بد دعاء قبول ہوگئی وہ برحق اور سچا ہے۔
اخلاق در قرآن ، جلد ٣ ، صفحہ ٢٢٦
لہذا جب بھی دو گروہ منطقی بحثوں اور عقلی استدلال سے ایک دوسرے کو قانع نہ کرسکیں تو یہاں پر دونوں ایک دوسرے کیلئے بددعاء کرتے ہیں اور اس طرح کہتے ہیں : اگر میں برحق ہوں اور تم غلطی پر ہو تو خدا تمہیں اپنی طرف سے سزا دے اور پھر دوسرا گروہ بھی اسی بات کی تکرار کرے اور خداوندعالم کی بارگاہ میں گریہ وزاری کریں اوراس سے درخواست کریں کہ وہ جھوٹے کو ذلیل و خوار کرتے ہوئے سزا دے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ ایسا ہی کیا ۔
پیام قرآن ، جلد ٩ ، صفحہ ٢٢٩
ان تمام شرایط کے ساتھ ایسا کام انجام دینے کو ”مباہلہ” کہتے ہیں ۔
”مباہلہ” کے لغوی معنی کا اصطلاحی معنی کے ساتھ ارتباط واضح ہے ، کیونکہ مباہلہ میں جو شخص حق کا دعوی کرتا ہے وہ سامنے والے کو چھوڑ دیتا ہے اور اس کے کاموں کو خداوندعالم پر چھوڑ دیتا ہے ۔
آیات ولایت در قرآن ، صفحہ ٢٠٣
واقعہ مباہلہ کی اہمیت
رسالت کے دعوی میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حقانیت:
عظیم الشان مرجع جہان تشیع نے واقعہ مباہلہ کی اہمیت اور حقیقت کو بیان کرتے ہوئے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رسالت کی حقانیت کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : مباہلہ کی مشہور و معروف آیت (سورہ آل عمران آیت 61) میں سب سے پہلی بات جو نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے دعوائے رسالت پر مسئلہ مباہلہ بہترین گواہ ہے کیونکہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی اپنے ارتباط کے ذریعہ پروردگار پر ایمان نہ رکھتا ہو اور ایسے میدان میں داخل ہوجائے ، یعنی اپنے مخالفین کو دعوت دے کہ آؤ ہم اپنے پروردگار کی بارگاہ میں جھوٹے کو ذلیل و رسوا کریں اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ مخالفین کے حق میں میری دعا ضرور قبول ہوگی اور بہت جلدی نتیجہ مل جائے گا ۔
پیام قرآن ، جلد ٩ ، صفحہ ٢٣٧
یقینا ایسے میدان میں داخل ہونا بہت خطرناک ہے کیونکہ اگر بددعاء قبول ہوجائے اورمخالفین کو سزا نہ ملے تو دعوت دینے والا خود ذلیل و خوار ہوجاتا ہے اور کوئی بھی عقلمند انسان بغیر اطمینان کے ایسے میدان میں قدم نہیں رکھتا ۔
اسی وجہ سے ہم اسلامی روایات میں پڑھتے ہیں : جس وقت مباہلہ کی بات آئی تو نجران کے عیسائیوں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے مہلت مانگی کہ ہم غور وفکر کرکے جواب دیں گے اور جب انہوں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنے ساتھ مباہلہ کیلئے ایسے لوگوں کو لے کر آئے ہیں جن کی دعا مستجاب ہوتی ہے تو انہوں نے آپ کے دعوی کی تصدیق کردی اور مباہلہ کرنے سے انکار کردیا ، وہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ ان کے نزدیکی رشتہ داروں دو چھوٹے چھوٹے بچوں اور حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کو میدان میں آتے ہوئے دیکھ کر وحشت میں پڑ گئے اور مصالحت کے لئے تیار ہوگئے ۔
پیام قرآن ، جلد ٩ ، صفحہ ٢٣٨
خداوندعالم قرآن کریم میں فرماتا ہے :
فَمَنْ حَاجَّکَ فیہِ مِنْ بَعْدِ ما جاء َکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناء َنا وَ أَبْناء َکُمْ وَ نِساء َنا وَ نِساء َکُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّہِ عَلَی الْکاذِبین ۔
سورہ آل عمران ، آیت ٦١
"علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے (عیسی کے بارے میں) کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند،اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں”۔

مباھلہ یعنی عیسی کی الوہیت کی نفی
حضرت آیۃ اللہ العظمی مکارم شیرازی سورہ آل عمران کی 61 ویں آیت کی تفسیر میں عیسائیوں کے اعتقادی اور فکری ا نحرافات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے واقعہ مباھلہ کی حقیقت کو بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں : مذکورہ آیت اپنے سیاق و سباق کے ساتھ یہ بات بتاتی ہے کہ عیسائیوں نے اپنے غلط عقاید پر اصرار کیا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی الوہیت کے دعوی میں ذرہ برابر بھی غور وفکر اور منطق و استدلال سے کام نہیں لیا جس کی وجہ سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ان سے مباھلہ کرنے کا حکم دیا گیا اور پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی بات کی سچائی اس طرح ثابت کی ، یعنی ان کے ساتھ مباہلہ کیلئے تیار ہوگئے تاکہ سچے اور جھوٹے کی پہچان ہوجائے ۔
قرآن کریم کے مایہ ناز مفسر اور صاحب تفسیر نمونہ مشہور و معروف آیت مباھلہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : فَمَنْ حَاجَّکَ فیہِ مِنْ بَعْدِ ما جاء َکَ مِنَ الْعِلْمِ ‘‘ ۔ اے ہمارے پیغمبر ! حضرت عیسی بن مریم علیہما السلام کے بارے میں نصاری اور عیسائیوں سے اس قدر بحث و گفتگواور منطق و استدلال کے بعد اگر یہ پھر کٹ حجتی کریں اور اپنی بات پر باقی رہیں تو آپ دوسرا راستہ اختیار کریں اور ان کے ساتھ مباہلہ کریں ۔
فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناء َنا وَ أَبْناء َکُمْ وَ نِساء َنا وَ نِساء َکُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَکُم ۔ آیت کے اس حصہ میں ان افراد کو معین کیا گیا ہے جو مباھلہ میں شرکت کریں گے ۔
اے پیغمبر ! ان سے کہہ دو کہ دونوں طرف سے مباہلہ میں چار گروہ شرکت کریں گے :
1۔مسلمانوں کے سید وسردار ،یعنی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور عیسائیوں کے اسقف اعظم
2۔ہمارے بچے اور تمہارے بچے ۔
3۔ہماری عورتیں او رتمہاری عورتیں ۔
4۔ ہمارے نفوس اور تمہارے نفوس ۔
ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّہِ عَلَی الْکاذِبین ۔ پھر سب مباھلہ کی اس رسم میں شرکت کریں گے اور مباھلہ اس طرح سے انجام پائے گا کہ جو بھی اپنے دعوی میں جھوٹا ہوگا ، اس پر خدا کی لعنت اور عذاب ہوگا تاکہ اسطرح لوگوں کے سامنے حقیقت ظاہر ہوجائے ۔
آیات ولایت در قرآن ، صفحہ ٢٠٣
"ابنائنا” ، ”نسائنا” اور ”انفسنا” کون ہیں ؟

حضرت آیۃ اللہالعظمی مکارم شیرازی نے آیہ مباھلہ کی تفسیر کے ایک حصہ میں ”ابنائنا” ، ”نسائنا” اور ”انفسنا” کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :
ابنائنا ” سے مراد ، حسن اور حسین علیہما السلام ،”نسائنا” سے مراد فاطمہ زہرا (علیہا السلام) اور ”انفسنا” سے مراد علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں ۔
الکشاف ، جلد ١ ، صفحہ
اس بناء پر اس آیت میں”نسائنا” اور ”انفسنا” جمع کے صیغہ ہیں جن سے مراد مفرد ہے یعنی حضرت فاطمہ اور علی علیہما السلام کے لئے استعمال ہوا ہے ۔
اسی طرح معظم لہ نے فرمایا : ہمارے اور شیعوں کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ”نسائنا” سے مراد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام ہیں ، جس طرح تمام علمائے شیعہ اور اہل تسنن کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ”ابنائنا” سے مراد حسن ا ور حسن علیہما السلام ہیں ۔ اس بناء پر ہماری بحث و گفتگو کا اصلی مرکز ”انفسنا” کی تفسیر ہے ۔
معظم لہ نے حضرت علی علیہ السلام کے اوپر ”انفسنا” کے لفظ کو منطبق کرتے ہوئے فرمایا :
مرحوم قاضی نور اللہ شوشتری نے اپنی گرانقدر کتاب احقاق الحق میں فرمایا ہے :
اجمع المفسرون علی ان … انفسنا اشارة الی علی علیہ السلام ۔
(تمام شیعہ اور اہل تسنن )مفسرین کا اجماع اور اتفاق ہے کہ ”انفسنا” سے مراد علی علیہ السلام ہیں ۔
اسی طرح مرحوم آیۃ اللہ العظمی مرعشی (رحمة اللہ علیہ) نے اہل سنت کی تقریبا ساٹھ کتابوں سے اس بات کونقل کیا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات اس قدر واضح اور روشن ہے کہ اہل تسنن کی تمام کتابوں میں بیان ہوئی ہے ۔
احقاق الحق ، جلد ٣ ، صفحہ ٤٦
اس بناء پر آیہ مباھلہ ، حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا نفس نفیس اور فاطمہ زہرا اور ان کے دونوں فرزند حسن و حسین علیہما السلام کو آنحضرت (ص) کے مقرب ترین اور نزدیک ترین افراد بیان کرتی ہے جن کی دعاء ، پروردگار عالم کی بارگاہ میں مستجاب ہوتی ہے ۔
پیام امام امیرالمومنین علیہ السلام ، جلد ١ ، صفحہ٣١٢
آلوسی کے دعوی کا جواب
حضرت آیۃ اللہ العظمی مکارم شیرازی نے ”ابنائنا” ، ”نسائنا” اور ”انفسنا” کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے آلوسی کے کلام کا جواب دیا ہے جس میں اس نے لفظ ”انفسنا” کوپیغمبر اکرم (ص) پر منطبق کیا ہے ۔ آپ نے فرمایا : آلوسی نے روح المعانی میں یہ اعتراف کیا کہ مباھلہ میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ علی ، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کے علاوہ کوئی اور نہیں گیا تھا اور کسی بھی مومن انسان کو اس سلسلہ میں شک نہیں کرنا چاہئے ،پھر علمائے شیعہ کے استدلال کو بیان کیا اور اس بات کا دعوی کیا کہ ”انفسنا” سے مراد خود پیغمبر اکرم (ص) ہیں اور علی ”ابنائنا” کا جزء ہے کیونکہ ادبیات عرب میں داماد کو بھی بیٹا کہا جاتا ہے ! ۔
روح المعانی ، جلد ٣ ،صفحہ ١٨٩
اس بات کا جواب بہت واضح ہے کیونکہ اس آیت کے مطابق پیغمبر اکرم نے ”ابنائنا” ، ”نسائنا” اور ”انفسنا” کو دعوت دی ہے ، اگر ”انفسنا” سے مراد خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہیں تو کیا آنحضرت (ص) نے اپنے آپ کو بھی دعوت دی ہے؟ جبکہ قرآن مجید فصیح ترین کلام ہے ،یقینا ایسا غیر فصیح کلام بیان نہیں کرسکتا اور پیغمبر اکرم کو حکم نہیں دے سکتا کہ اپنے آپ کو بھی دعوت دیں ،لہذا یقینا ”انفسنا” سے مراد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نہیں ہیں ، اس کے علاوہ ہمیں عربی ادبیات میں کہیں نہیں ملا ہے کہ دامادکو بیٹا کہا جاتا ہو اورایسا استعمال بہت ہی نامانوس اور مجاز ہے ۔
آیات ولایت در قرآن ، صفحہ ٢٠٨
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرف جھوٹی نسبت دینا عذاب کا سبب ہے
یقینا واقعہ مباھلہ کے ذریعہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر جھوٹی تہمتوں کو آشکار کیا جاسکتا ہے ، لہذا حضرت آیۃ اللہ العظمی مکارم شیرازی نے بھی اپنے کلام میں ایسے جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کی ہے معظم لہ نے ایک جگہ فرمایا : آیہ مباھلہ میں جھوٹ کی ایک دوسری قسم یعنی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر بہتان باندھنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس میں ایسے جھوٹوں پر خدا کی لعنت بیان ہوئی ہے ، خداوندعالم نے اس مشہورو معروف آیت کے آخر میں فرمایا :
فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّہِ عَلَی الْکاذِبین
جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہو۔ آیت کے اس حصہ میں جھوٹ کے گناہ کی سزا کو بیان کیا گیا ہے ۔

وجود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں ایمان راسخ کی حقیقت مباھلہ
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے وجود میں ایمان راسخ ایک ایسی حقیقت ہے جو واقعہ مباھلہ میں اپنے درجہ کمال تک پہنچ گئی ہے ، لہذا حضرت آیۃ اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اس بنیادی خصوصیت کی تفسیر میں فرمایا : اس طرح مباہلہ کرنے کا طریقہ شاید اس وقت تک عرب میں نہیں پایا جاتا تھا اور یہ ایسا راستہ تھا جس کے ذریعہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا ایمان اور سچائی کا دعوی سو فیصد صحیح تھا ، لہذا واقعہ مباھلہ بتاتا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) خدا کے احکام وقوانین پر کس حد تک ایمان رکھتے تھے ۔
پیام قرآن ، جلد ٨ ، صفحہ ٣٩٩
کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا دل وایمان محکم تھا اور آپ کی کمر محکم تھی ورنہ عام حالات میں کسی بھی شخص میں اس طرح کی طاقت اور دعوی کرنے کی جرائت نہیں ہوتی۔
خاص طور سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے سلسلہ میں مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا شمار ایسے لوگوں میں نہیں ہوتا تھا جو بغیر حساب و کتاب کے اپنا کام انجام دیتے ہیں بلکہ آپ کے تمام کام بہت ہی غور وفکر کے بعد انجام پاتے تھے ،ایسے شخص کا ایسا دعوی بتاتا ہے کہ وہ اس دنیا کے علاوہ کسی دوسری چیز یعنی وحی الہی اور خداوندعالم کے علم پر تکیہ کرتے تھے ۔
اس بناء پر واقعہ مباھلہ اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا اپنے دشمنوں کو دعوت دینا (کہ اگر وہ سچ کہتے ہیں تو مباھلہ کریں اور خدا سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہے اس پر عذاب نازل ہو ) اپنے مکتب پر ایمان راسخ کی دوسری دلیل ہے ،کیونکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس سلسلہ میں اپنی آمادگی کا اعلان کیا ، اگر چہ دشمن پیچھے ہٹ گئے کیونکہ انہیں اپنے مذہب پر کامل ا طمینان نہیں تھا ۔

واقعہ مباھلہ کے سایہ میں ولایت کا اثبات
حضرت آیۃ اللہ العظمی مکارم شیرازی آیہ مباھلہ سے تمسک کرتے ہوئے ولایت علی علیہ السلام کی اہمیت کو بیان کرتے ہیں اور بعض اعتراض کرنے والوں کو اس طرح جواب دیتے ہیں : اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آیہ مباھلہ بہت ہی محکم اور صریح آیت ہے جو امیرالمومنین علی علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کی ولایت کو واضح طور پر دلالت کرتی ہے ۔
معظم لہ نے واقعہ مباھلہ میں اصل ولایت کو ثابت کرتے ہوئے فرمایا : شاید یہ سوال کیا جائے کہ یہ بات صحیح ہے کہ آیہ مباھلہ ، حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت اور ا فتخار کو بیان کرتی ہے لیکن ولایت اور رہبری کے مسئلہ سے اس کا تعلق کیا ہے ؟
معظم لہ نے اس اعتراض کے جواب میں فرمایا : یقینا آیہ مباھلہ میں ”انفسنا” سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا نفس خطاب کیا ہے ، کیا یہاں پر حقیقی معنی مراد ہیں یا حضرت علی علیہ السلام کا مقام و مرتبہ مراد ہے ؟
یقینا حقیقی معنی مراد نہیں ہیں ، یعنی حضرت علی علیہ السلام ، پیغمبر نہیں ہیں ! بلکہ مراد یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام فضائل و کمالات میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرح ہیں ، یعنی پیغمبر اکرم کی تمام خصوصیات آپ کے اندر پائی جاتی ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت علی علیہ السلام تمام مقامات، کمالات اور خصوصیات میں پیغمبر اکرم کے جانشین ہیں ۔
آیات ولایت در قرآن ، صفحہ٢٠٩
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد خداوندعالم کی طرف سے کوئی شخص آنحضرت کا جانشین اور خلیفہ منصوب ہوتا ہے ، یا اسلامی امت کسی کو اس مقام کے لئے منتخب کرتی ہے تو کیا ایسے شخص کو انتخاب نہیں کرنا چاہئے جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ہمطراز ہو ، یا دوسرے مرحلہ میں بالکل انہی کی طرح ہو ؟
کیا لوگوں کی طرف سے یا خداوندعالم کی طرف سے ایسا شخص منصوب نہیں ہونا چاہئے جو فضائل و کمالات مخصوصا تقوی اور عصمت میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وآلہ وسلم) جیسا ہو ؟
اور اگر ایسے انسان کے ہوتے ہوئے دوسرے لوگوں کا انتخاب کیا جائے تو کیا عقل ایسے کام کو قبیح ا ور غلط شمار نہیں کرے گی ؟
اس بناء پر جملہ ”انفسنا” کو علی بن ابی طالب علیہما السلام کی شخصیت پر منطبق کرکے ولایت اور امامت سے نزدیک ہوجانا چاہئے اور اس کے ذریعہ ولایت کو ثابت کرنا چاہئے ۔

واقعہ مباہلہ، اہل بیت علیہم السلام کے بلند وبالا مقام و منزلت کا آئینہ
حضرت آیۃ اللہ العظمی مکارم شیرازی سورہ آل عمران کی 61 ویں آیت کی بنیاد پر واقعہ مباھلہ میں اہل بیت علیہم السلام کے مقام و مرتبہ کو ایک بنیادی اور ا ہم خصوصیت بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں : اہل بیت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وآلہ وسلم) ،علی علیہ السلام ، فاطمہ زہرا علیہا السلام اور حسن و حسین علیہما السلام کے بلند و بالا مقام و مرتبہ کے لئے آیہ مباھلہ واضح اور اہم سند ہے ، کیونکہ اس آیت میں تین کلمہ موجود ہیں : ‘‘انفسنا” ، ”نسائنا” اور ”ابنائنا” ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ”ابنائنا” سے مراد امام حسن اور امام حسین علیہما السلام ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور ”نسائنا” فقط حضرت زہرا علیہا السلام پر منطبق ہوتا ہے اور ”انفسنا” یقینا حضرت علی علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے اور اس سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وآلہ وسلم) مراد نہیں ہیں ۔
پیام قرآن ، جلد ٨ ، صفحہ ٢
کیونکہ آیت کہتی ہے : ”ندع …و انفسنا” : اپنے نفسوں کو بلاؤ ۔سے مراد اگر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وآلہ وسلم) ہوتے تو انسان کا اپنے آپ کو دعوت دینے کے کوئی معنی نہیں ہیں ، اس بناء پر کوئی راستہ باقی نہیں رہ جاتا کہ اس سے مراد صرف اور صرف حضرت علی علیہ السلام ہیں ۔

اہل سنت کے مطابق آیہ مباھلہ کا اہل بیت (علیہم السلام ) کی شان میں نازل ہونا
حضرت آیۃ اللہ العظمی مکارم شیرازی نے شیعوں کے بے حد و بے حساب معتبر منابع و مآخذ کے علاوہ اہل تسنن کے قطعی مآخذ سے بیان کیا ہے کہ یہ آیت اہل بیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے ، آپ فرماتے ہیں : اہل تسنن کی معتبر اور مشہورکتابوں میں بہت ہی وضاحت کے ساتھ یہ بات بیان ہوئی ہے کہ آیہ مباھلہ حضرت علی ، فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
پیام قرآن ، جلد ٨ ، صفحہ ٢٣٢
اہل تسنن کے طراز اول کے بیس سے زیادہ مفسرین، محدثین اور بزرگ علماء نے تائید کی ہے کہ آیہ مباھلہ اہل بیت پیغمبر علیہم السلام یعنی علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے ، جیسے امام فخر رازی نے اپنی مشہور تفسیر (جلد ٨ ، صفحہ ٨٥) میں، ا ہل تسنن کے مشہور مفسر طبری نے (تاریخ طبری جلد ٣ ، صفحہ ٤٠٧) میں ، سیوطی نے ”الدرالمنثور” جلد ٢ ، صفحہ ٣٩) میں واحدی نے اسباب النزول (ص٦٨) اور بیضاوی نے اپنی مشہور تفسیر جلد ٢ ، صفحہ ٤٧ میں بیان کیا ہے ۔
آیین ما (اصل الشیعہ) ، صفحہ ٥٢
اسی طرح مذہب حنبلی کے مشہور راہنما احمد بن حنبل نے مسند جلد١، صفحہ ١٨٥ پر ،مسلم نے اپنی صحیح کی جلد ٧ ، صفحہ ١٢٠ پر ، حاکم نے کتاب مستدرک ، جلد ٣ ، صفحہ ١٥٠ پر اور ابن حجر عسقلانی نے ”الاصابۃ” جلد ٢ ، صفحہ ٥٠٣ پر ذکر کیا ہے ۔
مثال کے طور پر مسلم نے کتاب فضائل الصحابۃ کے باب فضائل علی بن ابی طالب علیہ السلام میں سعد بن ابی وقاص سے نقل کیا ہے کہ معاویہ نے سعد سے کہا : تم ابوتراب (علی علیہ السلام) پر سب و ستم کیوں نہیں کرتے ؟ اس نے کہا : مجھے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وآلہ وسلم) کی تین باتیں یاد ہیں جن کی وجہ سے میں علی علیہ السلام کوکچھ نہیں کہتا ! جس وقت آیہ مباھلہ نازل ہوئی تو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وآلہ وسلم) نے علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام کو بلایا ، پھر عرض کیا : خدایا ! یہی میرے اہل بیت ہیں (اور اس آیت کے مصداق ہیں ۔
صحیح مسلم ، جلد ٤ ،صفحہ ١٨٧١ ، حدیث شمارہ ٣٢ ، باب ٤
اسی طرح اہل تسنن کے معتبر مآخذ میں ذکر ہوا ہے کہ جس وقت (واقعہ مباھلہ میں) سورہ آل عمران کی 61 ویں آیت ” فقل تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم نازل ہوئی تو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وآلہ وسلم) نے علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام کو بلایا اور فرمایا : اللھم ھولاء اھلی خدایا ! یہ میرا خاندان ہے ۔
صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ ، باب فضائل علی بن ابی طالب، حدیث سوم ، باتلخیص
بہرحال بزرگان اہل تسنن کے ایک گروہ کی گواہی کے مطابق مذکورہ روایات بہت زیادہ ہیں جو تواتر کی حد تک پہنچ گئی ہیں ۔

مباھلہ آخری حربہ
اس بات کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ دین اسلام ، دوسرے ادیان سے بہت ہی عزت و احترام اور دوستی ومحبت کے ساتھ پیش آتا ہے ، اسلام کی آسمانی کتاب قرآن مجید حکم دیتا ہے کہ
وَ لا تُجادِلُوا أَہْلَ الْکِتابِ ِلاَّ بِالَّتی ہِیَ أَحْسَنُ
اور اہلِ کتاب سے مناطرہ نہ کرو مگر اس انداز سے جو بہترین انداز ہے ۔ سورہ عنکبوت ، آیت ٤٨
لہذا تمام انبیاء اس وقت تک لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دیتے تھے جب تک ان کو ہدایت کی امید رہتی تھی اور خداوندعالم سے ان کی ہدایت کی دعا کرتے تھے ،اسی وجہ سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے کبھی بددعاء نہیں کی بلکہ صرف واقعہ مباھلہ میں آنحضرت (ص) نے بعض عیسائیوں کیلئے بددعاء کرنا چاہی تھی لیکن عیسائیوں کے تسلیم ہونے کی صورت میں وہ بھی انجام نہیں پائی ۔
لہذا قرآن کریم سورہ آل عمران کی 35 تا 60 ویں آیات میں حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق بیان کرتا ہے ، حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت،ان کا مقام و مرتبہ، ان کی ماں کی شخصیت، حضرت مریم کے فضائل ، فرشتوں سے ان کی گفتگو ، مائدہ آسمانی اور دوسرے مسائل کو بیان کیا ہے ، خداوندعالم نے حضرت عیسی کے متعلق طویل بحث کرنے کے بعد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ اگر عیسائی ان تمام امور کو بیان کرنے اور منطقی استدلال کے بعد بھی اسلام کو قبول نہیں کرتے تو ان سے مقابلہ کرنے کیلئے دوسرا راستہ اختیار کرو ، ان کے ساتھ مباھلہ کرو تاکہ حق واضح ہوجائے ۔
۔۔۔۔۔۔
منابع و مآخذ:
تنظیم و ترتیب اور تحقیق آیۃ اللہ العظمی مکارم شیرازی کے دفتر کی سایٹ کی طرف سے اہل قلم کی ایک جماعت
www.makarem.ir

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button