محافلمناقب امام مھدی عجمناقب و فضائل

امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف قرآن کی روشنی میں (حصہ دوم)


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/jkrisalaat/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

حافظ سید محمد رضوی
لوگوں کے پیشوا:
وَنُرِیدُ ان نَّمُنَّ عَلَی الَّذِینَ استُضعِفُوا فِی الاَرضِ وَ نَجعَلَھُم اَئِمَّةً وَّ نَجعَلَھُمُ الوٰرِثِینَ
(قصص ۵)
اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ۔ ان پر احسان کریں اور انھیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں۔
اس آیت کے بارے میں میزان الحکمہ میں مرقوم ہے کہ : الإمامُ عليٌّ علیہ السلام في قولِهِ تعالیٰ :
و نُريدُ أنْ نَمُنَّ على۔۔۔: هُم آلُ محمّدٍ ، يَبعَثُ اللهُ مَهدِيَّهُم بَعد جَهدِهِم ، فَيُعِزُّهُم ويُذِلُّ عَدُوَّهُم
امام علی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے اس قول: –وَ نُرِیۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیۡنَ …کے متعلق فرمایا:اس میں – مستضعفین- سے مراد آلِ محمد ؐ ہیں، جن کے مہدی ؑ کو ان کی جد و جہد کے بعد بھیجے گا، وہی ان مستضعفین کو غلبہ دلائیں گے اور ان کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کریں گے۔
(حدیث : ۳۷۵۱ ، میزان الحکمہ)
نیز آیت اللہ صادق شیرازی نے اس آیت کو صاحب الامرؑ کی طرف مخصوص کیا ہے۔
(المھدی فی القرآن ، ص102)
صاحب میزان الحکمہ لکھتے ہیں کہ : الإمامُ الباقرُ علیہ السلام في قولِه تعالى : وَمَنۡ قُتِلَ مَظۡلُوۡمًا فَقَدۡ جَعَلۡنَا لِوَلِیِّہٖ سُلۡطٰنًا فَلَا یُسۡرِفۡ فِّی الۡقَتۡلِؕ اِنَّہٗ کَانَ مَنۡصُوۡرًا
(بنی اسرائیل۳۳)
سمَّى اللهُ المهديَّ المنصورَ ، كما سمَّى أحمدَ و محمّد ومحمود ، وكما سَمّى عيسى المسيحَ عليه السلام
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:یعنی جو ’’شخص مظلوم مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص کا)اختیار دیا ہے۔ پس اسے چاہئیے کہ قتل(خون کا بدلہ لینے) حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے ، یقینا اسی کی نصرت اس کی ہوگی ۔ ‘‘ اس آیت میں حضرت مہدی علیہ السلام کا نام اللہ تعالیٰ نے منصور رکھا ہے جِس طرح کہ آنحضرت (ص) کا نام احمد ،محمؐد، محمود رکھا ہے،یا جس طرح حضرت عیسی ٰ ؑ کا نام’’مسیح‘‘رکھاہے۔
(حدیث :۵۴۵ ، میزان الحکمہ)
و رحمتی وسعت کل شیء "اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے
( سورہ اعراف 156 )
کتاب الامام المہدی المنتظر میں میں متعدد حوالوں سے نقل کیا گیا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ امام زمانہ علیہ السلام کی اطاعت رحمت ہے جو کہ ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔
(العرف الوردی فی اخبار المھدی، ص61)
قَالَ لَوۡ اَنَّ لِیۡ بِکُمۡ قُوَّۃً اَوۡ اٰوِیۡۤ اِلٰی رُکۡنٍ شَدِیۡدٍ۔ ( سورہ ہود:80)
لوط نے کہا: اے کاش! مجھ میں (تمہیں روکنے کی) طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لے سکتا۔
امام صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق حضرت لوط علیہ السلام قوت کی حسرت مہدی آل محمد عجل اللہ فرجہ الشریف کیلئے مخصوص ہے اور وہ مضبوط اصحاب کی تمنا سے آپ ع کی اصحاب مراد تھی جن میں ایک صحابی چالیس جوانوں کی طاقت رکھتا ہے۔ ان کے دل فولاد کے ہیں جب وہ آواز دیں گے تو پہاڈ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور وہ اس وقت تک تلوار چلائیں گے جب تک اللہ تعالی کی ذات راضی نہ ہوجائے۔
(الزام الناصب ، ج1، ص68)
اَتٰۤی اَمۡرُ اللّٰہِ فَلَا تَسۡتَعۡجِلُوۡہُ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ
اللہ کا امر آگیا پس تم اس میں عجلت نہ کرو وہ پاک اور بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔(سورہ نحل1)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا امام مہدی علیہ السلام کی سب سے پہلے بیعت حضرت جبرائیل علیہ السلام کریں گے ۔ وہ سفید پرندہ کی صورت میں نازل ہوں گے اور بیعت کریں گے پھراایک شخص کو بیت الحرام پر اور ایک کو بیت المقدس پر چڑھایا جائے گا ۔ اس کے بعد جبریل امینؑ لوگوں کو پکار یں گے اور اس پکار کو تمام مخلوقات سنیں گی۔
اَتٰۤی اَمۡرُ اللّٰہِ فَلَا تَسۡتَعۡجِلُوۡہُ
اللہ کا حکم آگیا پس تم اس میں عجلت نہ کرو۔
(الزام الناصب ، ج1 ص70)
وَ قَدۡ مَکَرُوۡا مَکۡرَہُمۡ وَ عِنۡدَ اللّٰہِ مَکۡرُہُمۡ ؕ وَ اِنۡ کَانَ مَکۡرُہُمۡ لِتَزُوۡلَ مِنۡہُ الۡجِبَالُ
اور انہوں نے اپنی مکاریاں کیں اور ان کی مکاریاں اللہ کے سامنے تھیں اگرچہ ان کی مکاریاں ایسی تھیں کہ جن سے پہاڑ بھی ٹل جائیں۔(سورہ ابراہیم ۴۶)
کتاب الامام المہدی المنتظرؑ میں مرقوم ہے، جمیل بن دراج نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بے شک بنی عباس کی مکاری یہ تھی لوگوں کے قلوب کو قائم آل محمد علیہ السلام سے متنفر کردیں۔
(الامام المہدی فی القرآن ،ج 2،ص 418)
آیت اللہ صادق شیرازی نے اس آیت
” بَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیر لکُم اِن کُنتُم مُّومِنِینَ۔۔۔(ھود۶۸)
” اللہ کی طرف کا ذخیرہ تمھارے لئے بہت بہتر ہے، اگر تم صاحبِ ایمان ہو” کو روایت کی روشنی میں امام مہدی ؑ کے بارے میں منسوب کیا ہے۔ جب سر زمین مکّہ سے آپؑ کا ظہور ہوگا تو آپؑ اس آیت کی تلاوت فرما کر کہیں گے میں ہی وہ بقیة اللہ ہوں۔
مزید برآں تفسیر نمونہ میں اس آیت” بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ متعدد روایات میں ہے کہ ”بقیة اللہ“ صرف مہدی علیہ السلام یا بعض دوسرے ائمہ کے وجود کی طرف اشارہ ہے، ان روایات میں سے ایک کتاب ”اکمال الدین“ میں امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے، آپؑ فرماتے ہیں :
اول ما ینطق بہ القائم علیہ السلام حین خرج ھٰذہ الایة ”بَقِیَّةُ اللهِ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ
ثم یقال: انا بقیةاللّٰہ و حجتہ وخلیفتہ علیکم فلا یسلم علیہ مسلم الا قال علیک یا بقیةاللّٰہ فی ارضہ
پہلی بات جو حضرت مہدی علیہ السلام اپنے قیام کے بعد کریں گے وہ یہ آیت ہوگی” بَقِیَّةُ اللهِ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ۔
اس کے بعد کہیں گے: مَیں بقیةاللہ ہوں اور تم میں اس کی حجت اور خلیفہ ہوں، لہٰذا اس کے بعد کوئی شخص ایسا نہ ہوگا کہ جو اس طرح سے آپ علیه السلام پر سلام نہ کرے گا:
السلام علیک یا بقیة اللّٰہ فی ارضہ
اے خدا کی زمین میں بقیةاللہ! آپ پر سلام ہو
حضرت مہدی ؑ موعود چونکہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے بعد آخری پیشوا اور عظیم ترین انقلابی قائد ہیں” بَقِیَّةُ اللهِ“ کے مصادیق میں سے ایک روشن ترین مصداق ہیں اور ہر کسی سے بڑھ کر اس لقب کے اہل ہیں خصوصا جب کہ آپ(علیه السلام) انبیاء اور ائمہ کے واحد باقی ماندہ ہیں ۔ (تفسیرنمونہ ج5ص 345)
حافظ قندوزی اپنے اسناد کیساتھ امام محمد باقر اور جعفر صادق علیھما السلام سے روایت کرتے ہیں
وَلَقَد کَتَبنَا فِی الزَّبُورِ مِنم بَعدِ الذِّکرِ اَنَّ الاَرضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ(انبیاء105)
اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔ دونوں اماموں نے فرمایا کہ "ھم القائم و اصحابہ” وہ نیک بندے قائم آل محمد ؑ اور انکے اصحاب ہیں ۔
(المھدی فی القرآن ، ص81)
سورہ زخرف کی اس آیت وَ جَعَلَھا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ۔(زخرف :28)
(اور اللہ نے اس (توحید پرستی) کو ابراہیم کی نسل میں کلمہ باقیہ قرارد یا تاکہ وہ (اللہ کی طرف) رجوع کریں) کو امام زمانہ ؑکے بارے میں تاویل کی گئی ہیں۔
اس آیت کے ذیل میں مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی حفظہ اللہ نے الکوثر فی تفسیر القرآن میں چند روایات کو تحریر کی ہے کہ عَقِبِہٖ کے مصداق اس امت میں آل محمد علیہم السلام ہیں۔
۱۔ حضرت حذیفہ بن یمان راوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان اللّٰہ تبارک و تعالیٰ جعل الامامۃ فی عقب الحسین و ذلک قولہ تعالیٰ وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ۔۔۔۔
(کفایۃ الاثر ص ۱۳۶)
اللہ تعالیٰ نے امامت کو حسین کی نسل میں رکھا ہے۔ چنانچہ اللہ کا فرمان ہے:
وَجَعَلَھا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ
2 : الاعرج ، ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ
کے بارے میں پوچھا تو فرمایا:
جعل الامامۃ فی عقب الحسین ع یخرج من صلبہ تسعۃ من الائمۃ منہم مہدی ھذہ الامۃ۔۔۔۔
اللہ نے امامت حسین علیہ السلام کی اولاد میں رکھی ہے۔ آپؑ کی پشت سے نو اماموں کی ولادت ہو گی۔ ان میں ایک اس امت کے مہدی ہیں۔
(اثبات الھداۃ بالنصوص و المعجزات ج2، ص160)
صاحب تفسیر الکوثر نے سورہ زمر ۶۹ کو ظہور امام مہدیؑ پر تطبیق کی ہے۔
واَشۡرَقَتِ الۡاَرۡضُ بِنُوۡرِ رَبِّہَا وَ وُضِعَ الۡکِتٰبُ وَ جِایۡٓءَ بِالنَّبِیّٖنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ قُضِیَ بَیۡنَہُمۡ بِالۡحَقِّ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ
اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک جائے گی اور (اعمال کی) کتاب رکھ دی جائے گی اور پیغمبروں اور گواہوں کو حاضر کیا جائے گا اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
علامہ شیخ محسن نجفی کے بقول بعض روایات میں اس آیت کی تطبیق ظہور حضرت امام مہدی علیہ السلام پرہوئی ہے کہ آپ ؑکے ظہور سے زمین عدل و انصاف کے نور سے روشن ہو جائے گی۔
(الکوثر فی تفسیر القرآن،ج7ص445)
فَارۡتَقِبۡ یَوۡمَ تَاۡتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیۡنٍ، یَّغۡشَی النَّاسَ ؕ ہٰذَا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ
پس آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان نمایاں دھواں لے کر آئے گا، جو لوگوں پر چھا جائے گا، یہ عذاب دردناک ہو گا۔
اس آیت کی دو تفسیریں بیان کی گئی ہیں اور ایک روایت عامہ و خاصہ(علائم ظہور امام زمانہ ؑ ) کو بھی نقل فرمایا ہے ۔ ان دو تفسیروں میں سے دوسری تفسیر ہمارے موضوع کے متعلق ہے ۔
قیامت کے قریب چند ایک علامات ایسی ظاہر ہونے والی ہیں جو قیامت نزدیک ہونے کی علامات ہوں گی۔ ان میں سے ایک دھواں ہے۔ امامیہ و غیر امامیہ مصادر میں یہ روایت متعدد طرق سے منقول ہے کہ یہ دھواں قیامت کے قریب کی علامات میں سے ایک ہے۔ غیر امامیہ مآخذ میں آیا ہے کہ قیامت کی علامات میں سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دھواں، دابۃ الارض ، یا جوج و ماجوج کا خروج، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول، عدن سے آگ کا نکلنا اور جزیرۃ العرب میں زمین کا دھنسا شامل ہے۔
امامیہ ماخذ میں امذکورہ علامات کے علاوہ سفیانی اور دجال کا خروج اور حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ کے ظہور کا اضافہ ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القرآن ج7ص 165،166)
امام صادق علیہ السلام سورہ سجدہ کی اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
لَنُذِیۡقَنَّھمۡ مِّنَ الۡعَذَابِ الۡاَدۡنٰی دُوۡنَ الۡعَذَابِ الۡاَکۡبَرِ لَعَلَّھمۡ یَرۡجِعُوۡنَ
(سجدہ۲۱ )
اور ہم انہیں بڑے عذاب کے علاوہ کمتر عذاب کا ذائقہ بھی ضرور چکھائیں گے، شاید وہ باز آ جائیں۔
ادنی عذاب سے مراد خوراک اور پانی کی قلت ہے اور عذاب اکبر سے مراد آخری زمانے میں حضرت قائم عجل اللہ فرجہ الشریف کا تلوار کیساتھ قیام فرمانا ہے ۔
(امام مہدیؑ ولادت سےظہور تک ، 2016 ، ص368)
فانتظروا انی معکم من المنتظرین
(سورہ یونس 102 )
اس آیت کے بارے میں امام رضا علیہ السلام سے منقول روایت کے مطابق آپ نے فرمایا کہ انتظار فرج خود فرج ہے جس کے لئے اللہ عزوجل نے فرمایا ہے انتظار کرو میں بھی انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔
(الامام المہدی المنتظر فی القرآن ج2ص16)
اسی کتاب میں درج ذیل آیت کو امام مہدی ؑ کے بارے میں منسوب کی ہیں ۔ حتی اذا استیس الرسل وظنوا انھم قد کذبوا جاءھم نصرنا فنجی من نشآء ۔۔۔
( یوسف 110)
یہاں تک کہ جب انبیاء مایوس ہوگئے اور لوگ بھی یہ خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا تو پیغمروں کیلئے ہماری نصرت پہنچ گئی۔
مدد الہیہ سے مراد مہدی آل محمد عجل اللہ فرجہ الشریف کا خروج ہے ۔
(الامام المہدی المنتظر فی القرآن،ج،2ص52،53)
یَسۡتَعۡجِلُ بِہَا الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِہَا ۚ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مُشۡفِقُوۡنَ مِنۡہَا ۙ وَ یَعۡلَمُوۡنَ اَنَّھا الۡحَقُّ ؕ اَلَاۤ اِنَّ الَّذِیۡنَ یُمَارُوۡنَ فِی السَّاعَۃِ لَفِیۡ ضَلٰلٍۭ بَعِیۡدٍ
( شوریٰ ۱۸)
جو لوگ اس (قیامت) پر ایمان نہیں رکھتے وہ اس کے بارے میں جلدی مچا رہے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اس سے ڈرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ قیامت یقینا برحق ہے، آگاہ رہو! جو قیامت کے بارے میں جھگڑتے ہیں، وہ یقینا گمراہی میں دور نکل گئے ہیں۔
صادق آل محمد علیہ السلام سے منقول ہے کہ اس سے مراد قیام و حکومت امام مہدی ہے اس سے ڈرتا ہے وہی ہے جو ایمان نہیں رکھتا اور جو ایمان رکھتا ہے وہ اس کے قیام کے لئے جلدی کرتا ہے ۔
(الزام الناصب ، الجزء الاول ، ص 87)
تفسیر نمونہ میں امام صادقؑ سے سورہ عصر کی اس آیت ” والعصر ان الانسان لفی خسر” کی تفسیر سے متعلق ایک روایت پیش کی گئی ہے جس میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ عصر سے مراد امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے قیام کا زمانہ ہے۔
(تفسیرنمونہ ج15ص 459 )
کتاب کمال الدین و اتمام النعمۃ میں امام رضا علیہ السلام سے مروی ہے جس میں آپ ؑ قائم آل محمد ﷺو اآلہ صفات بیان فرماتے ہیں کہ آسمان سے ایک منادی اسکی طرف لوگوں کو دعوت دے گا جسے تمام اہل زمین سنیں گے ۔ وہ منادی کہے گا آگاہ ہو جاؤ اللہ کی حجت بیت اللہ کے پاس ظاہر ہوئی ہے ۔ پس اس کی اتباع کرو حق اس کے ساتھ ہے اور اس کے بارے میں ارشاد رب العزت ہے
ان نشاء ننزل علیھم منن السمآء آیۃ فظلت اعناقھم لھا خاضعین
( شعراء 04)
اگر ہم چاہیں ان پر آسمان سے ایک نشانی اتاریں پھر ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں۔
(کمال الدین و اتمام النعمۃ ، ج 2ص371)
یہ آیہ شریفہ ” جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل کان زهوقا
(اسراء 81)
"( یعنی حق آیا اور باطل مٹ گیا اور یقیناً باطل کو مٹنا ہی تھا ) وہی آیت ہے جو امام زمانہ ؑ کی ولادت کے وقت آپ ؑ کے داہنے بازو پر مکتوب تھی ۔
(کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ، ج2ص 498)
امام محمد باقر ؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب قائم آل محمد ؑ خروج کریں گے تو باطل مٹ جائے گا۔
(الزام الناصب ، ج1، ص 86)
اَلَا لَعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ
(سورہ ہود 18)
خبردار! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا : زمانہ آخر میں مہدی آل محمد عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے دوران آسمان سے تین آواز آئیں گی جن میں پہلی الا لعنۃ اللہ علی الظالمین اور تیسری آواز آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ تعالی نے مہدی آخر الزمان علیہ السلام کو مبعوث کر دیا ہے۔
(الامام المہدی فی القرآن ،ج 2،ص 27)
قل لا اسلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربیٰ۔۔۔۔
(شوریٰ 23)
اے رسول ﷺ آپ کہہ دیجئے کہ تم سے کوئی اجر رسالت نہیں مانگتا مگر اپنی قربیٰ کی محبت کا سوال کرتا ہوں۔
محمد بن یعقوب روایت کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اس آیت سے مراد امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، حضرت فاطمۃ الزھراء علیہا السلام یعنی ہم خانوادہ رسالت جن میں ہمارے پہلے حضرت علی علیہ السلام اور آخری مہدی ؑ آل محمد ﷺوآلہ ہیں۔
(الامام المہدی المنتظر فی القرآن ج3، ص43)
قرآن و حدیث کے مطابق جب قائم آل محمد ﷺوآلہ قیام فرمائیں گےتو اس وقت کوئی مشرک باقی نہ رہےگا۔ ۔۔۔۔یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا۔۔۔۔
( نور55)
اہل زمین کا دوبارہ زندہ ہونا اِعلَمُوا اَنَّ اللّٰہَ یُحیِ الاَرضَ بَعدَ مَوتِھٰا۔۔۔
(حدید ۷۱)
یاد رکھو کہ خدا ہی زمین کو اُس کے مرنے (ختم ہونے) کے بعد زندہ (آباد) کرتاہے۔پیغام:امام جعفر صادقؑ سے مروی ہے کہ زمین کے مردہ ہونے سے مراد اہل زمین کا کفر اختیار کرنا ہے۔الزام الناصب میں امام محمد باقر ؑ سے منقول ہے کہ یہ آیت مہدی آل محمد ؑ کےزمانہ غیبت اور ایام غیبت کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ امام محمد باقر ؑ سے روایت ہے یُحیِ الاَرضَ بَعدَ مَوتِھٰا خداوند عالم مردہ کفار کو حضرت حجة ابن الحسنؑ کے ذریعہ زندگی عطا کرےگاا۔
(الزام الناصب ، ج1ص93)
ذلِکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَیۡبِ نُوۡحِیۡہِ اِلَیۡکَ ۚ وَ مَا کُنۡتَ لَدَیۡہِمۡ اِذۡ اَجۡمَعُوۡۤا اَمۡرَہُمۡ وَ ہُمۡ یَمۡکُرُوۡنَ
( یوسف :۱۰۲)
یہ غیب کی خبروں کا حصہ ہیں جنہیں ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں وگرنہ آپ اس وقت ان کے پاس موجود نہ تھے جب وہ اور پختہ کر کے سازش کر رہے رہے تھے۔
ینابیع المودۃ میں قندوزی حنفی حضرت جابر عبد اللہ انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ جنادہ بن جبیر نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے آپ جانشینوں کے بارے میں پوچھا تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا کہ میرے بارہ اوصیاء ہیں پہلے سید الاوصیاء اماموں کے والد ہیں اور انکے بعد (پھر آپ ص نے بالترتیب تمام اوصیاء کے اسماء بتائے) آخر محمد جن کو مہدی ، حجت اور قائم کے نام سے پکارا جائے گا ۔ غیبت سے ظاہر ہونے کے بعد ظلم و جور بھری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسا کہ ظلم وستم سے بھری ہوگی ۔ خوش قسمت ہیں اسکی غیبت میں صبر کرنے والے جو اس کو دوست رکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے کہ ذٰلِکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَیۡبِ۔۔۔
اَنۡۢبَآءِ الۡغَیۡبِ سے مراد مہدی آل محمد عجل اللہ فرجہ الشریف کے خروج پر ایمان کامل ہے۔
(الامام المہدی المنتظر فی القرآن ، ج 2 ،ص49)
سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ اَوَ لَمۡ یَکۡفِ بِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ
( فصلت: 53)
ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ یقینا وہی (اللہ) حق ہے۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ للہ تعالی اپنی نشانیوں کو ان کے نفسوں میں دکھائے گا کہ ان کیلئے آفاق عالم کی فضا کو تنگ کردے گا اس طرح وہ اللہ کی قدرت کو اپنے نفوس میں اور آفاق میں دیکھیں گے پھر اللہ تعالی کا یہ ارشاد کہ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ اس سے مراد اللہ تعالی نے ظہور قائم آل محمد عجل اللہ فرجہ الشریف کو لیا ہے کہ یہ حق ہے اور منجانب اللہ ہے، یہ سب مخلوق کو دکھایا جائے گا اور یہ لازمی ہوناہے۔
(الزام الناصب ، ج1 ص 86)
آغا باقر شریف قرشی سورہ شوری 17 کی ذیل میں تحریر کرتے ہیں کہ حافظ سلیمان قندوزی نے مفضل بن عمر کے حوالے سے صادق آل محمد علیہ السلام سے روایت کی ہے وہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ” وما یدریک لعل الساعۃ قریب” تجھے کیا معلوم ! شاید قیامت قریب ہی ہو ۔ یہاں الساعۃ سے مراد حضرت قائم آل محمد عجل اللہ فرجہ الشریف کا قیام ہے۔
(الامام المہدی المنتظر فی القرآن ج3،ص16)
وَ لَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ
( انبیاء ۱۰۵)
اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔
اس آیت کے متعلق امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک روایت ہے کہ حضرت قائم ؑ کے زمانے میں آپ ؑ کے اصحاب کا پوری روئے زمین پر تسلط ہوگا۔
(انوار النجف، ج 9،ص258 )
نیز آیت اللہ قزوینی نے علامہ طبرسی رحمہ اللہ سے مذکورہ آیت کے ذیل میں امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ وہ اللہ کے نیک بندے آخری زمانے میں امام مہدی علیہ السلام کے پیرو ہیں ۔
(امام مہدیؑ ولادت سےظہور تک ،ص65)
وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَاخۡتُلِفَ فِیۡہِ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّہُمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ
( ہود ۱۱۰)
بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی پھر اس کے بارے میں اختلاف کیا گیا اور اگر آپ کے رب کی طرف سے فیصلہ کن کلمہ نہ کہا گیا ہوتا تو ان کا بھی فیصلہ ہو چکا ہوتا اور وہ اس بارے میں تردد میں ڈالنے والے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔
امام محمد باقر علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس امت نے قرآن کے بارے میں اختلاف کیا اور جب قائم علیہ السلام کے بارے میں بھی اختلاف کریں گے تو یاد رکھو کہ بہت سے لوگ ان کی مخالفت کریں گے جس کے نتیجے میں حضرت حجت علیہ السلام ان کی گردن ماردیں گے۔
(تفسیر الصافی ،ج2 ،ص ، 474)
لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی بِاٰیٰتِنَاۤ اَنۡ اَخۡرِجۡ قَوۡمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ وَ ذَکِّرۡہُمۡ بِاَیّٰىمِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ
( ابراہیم ۵)
اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا(اور حکم دیا)کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤ اور انہیں ایام خدا یاد دلاؤ، ہر صبر و شکر کرنے والے کے لیے یقینا ان میں نشانیاں ہیں۔
الخصال میں مرقوم ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ ایام اللہ تین ہیں ۔قائم آل محمد علیہ السلام کے ظہور کا دن ، یوم الرجعہ اور قیامت کا دن ایام اللہ میں شامل ہیں۔
(تفسیر نور الثقلین ، ص571ج4)
امام صادقین علیہما السلام سے روایت ہے کہ” ایام اللہ” تین ہیں۔
یوم ظہور مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف
یوم الکرۃ ( یوم رجعۃ رسول اللہ و رجعۃ علی امیر المؤمنین علیہما السلام )
یوم القیامۃ
(البرہان فی تفسیر القرآن ، ج2 ، ص 305)
قَالَ رَبِّ فَاَنۡظِرۡنِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ
﴿سورہ الحجر:۳۶ ﴾
کہا : پروردگارا! پھر مجھے لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن (قیامت) تک مہلت دے دے۔
قَالَ فَاِنَّکَ مِنَ الۡمُنۡظَرِیۡنَ
فرمایا: تو مہلت ملنے والوں میں سے ہے
اِلٰی یَوۡمِ الۡوَقۡتِ الۡمَعۡلُوۡمِ
معین وقت کے دن تک
امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کوفہ کےمنبر پر جلوہ افروز ہونگے تو ابلیس لعین روتا ہوا آئے گا اور امام زمانہ علیہ السلام اس کے بالوں کو پکڑ کر اس کی گردن ماردیں گے اور یہ ہی وقت معلوم ہوگ جس کا وعدہ اللہ سبحانہ نے فرمایا تھا ۔
(البرہان فی تفسیر القرآن ، ج2 ، ص 343)
آیہ مجیدہ :
وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنٰکَ سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ وَ الۡقُرۡاٰنَ الۡعَظِیۡمَ
(حجر۸۷)
اور بتحقیق ہم نے آپ کو (بار بار) دہرائی جانے والی سات (آیات) اور عظیم قرآن عطا کیا ہے۔
کے بارے میں صادق آل محمد علیہ السلام نے فرمایا کہ سبع مثانی سے مراد ظاہری سورہ الفاتحہ ہے جبکہ باطنا آئمہ اطہار علیھم السلام ہیں جن میں ساتواں مہدی آخر الزمان عجل اللہ فرجہ الشریف ہیں۔
(تفسیر عیاشی ،ج 2ص251)
ابو بصیر نے امام صادق علیہ السلام سے
” عَذَابَ الۡخِزۡیِ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ لَعَذَابُ الۡاٰخِرَۃِ اَخۡزٰی”
ہم دنیاوی زندگی ہی میں انہیں رسوائی کا عذاب چکھا دیں گے اور آخرت کا عذاب تو اس سے زیادہ رسوا کن ہے” کی تفسیر دریافت کی۔ آپ علیہ السلام نےفرمایا : اے ابو بصیر ! اس سے بڑھ کر عذاب اور کیا ہوگا کہ ایک شحص اپنے اہل خاندان اور اہل و عیال کیساتھ بیٹھاہوگا کہ اچانک اس کے اہل و عیال اپنے گریبان چاک کریں گے اور چیخنے چلانے لگیں گے ،لوگ پوچیں گے کہ کیا ہوگیا تم لوگوں کو؟
انہیں بتایاجائے گا کہ ابھی ابھی فلان شخص کاچہرہ مسخ ہوگیا۔
راوی نے پوچھا کہ یہ بات ظہور امام قائم عجل اللہ فرجہ الشریف سے پہلے ہوگی یا ظہور کےبعد ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ ظہور سے پہلے ہوگی ۔
(بحار الانوار ج 12ص 162)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے قول خدا "سال سائل بعذاب واقع ” کے متعلق ارشاد فرمایا کہ جانوروں کے باڑے میں آگ لگے گی جو کناسہ بنی عدی پہنچے گی اور وہاں سے گزر کرثقیف تک اور آل محمد صلوات اللہ علیھم اجمعین کے کسی دشمن کو جلائے بغیر نہیں چھوڑے گی اور یہ ظہور امام قائم علیہ السلا سے پہلے ہوگا۔
(بحار الانوار ، ج12ص 14)
وَ قَدۡ مَکَرُوۡا مَکۡرَھمۡ وَ عِنۡدَ اللّٰہِ مَکۡرُھمۡ ؕ وَ اِنۡ کَانَ مَکۡرُہُمۡ لِتَزُوۡلَ مِنۡہُ الۡجِبَالُ
( ابراہیم ۴۶)
اور انہوں نے اپنی مکاریاں کیں اور ان کی مکاریاں اللہ کے سامنے تھیں اگرچہ ان کی مکاریاں ایسی تھیں کہ جن سے پہاڑ بھی ٹل جائیں۔
جمیل بن دراج نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بے شک بنی عباس کی مکاری یہ تھی لوگوں کے قلوب کو قائم آل محمد علیہ السلام سے متنفر کردیں۔
(تفسیر عیاشی ج 2ص 235 )
ھلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ تَاۡتِیَہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَوۡ یَاۡتِیَ اَمۡرُ رَبِّکَ ؕ کَذٰلِکَ فَعَلَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ وَ مَا ظَلَمَہُمُ اللّٰہُ وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ
(نحل 33)
کیا یہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ فرشتے (ان کی جان کنی کے لیے) ان کے پاس آئیں یا آپ کے رب کا فیصلہ آئے؟ ان سے پہلوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا، اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں۔
امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ اس قول خدا میں امر سے مراد عذاب ، موت ، اور قائم عجل اللہ فرجہ الشریف کا خروج ہے۔
(تفسیر الصافی ،ج3 ،ص 135)
قُلۡ مَنۡ کَانَ فِی الضَّلٰلَۃِ فَلۡیَمۡدُدۡ لَہُ الرَّحۡمٰنُ مَدًّا ۬ۚ حَتّٰۤی اِذَا رَاَوۡا مَا یُوۡعَدُوۡنَ اِمَّا الۡعَذَابَ وَ اِمَّا السَّاعَۃَ ؕ فَسَیَعۡلَمُوۡنَ مَنۡ ہُوَ شَرٌّ مَّکَانًا وَّ اَضۡعَفُ جُنۡدًا
(مریم 75)
کہدیجئے: جو شخص گمراہی میں ہے اسے خدائے رحمن لمبی مہلت دیتا ہے لیکن جب وہ اس کا مشاہدہ کریں گے جس کا وعدہ ہوا تھا، خواہ وہ عذاب ہو یا قیامت تو اس وقت انہیں معلوم ہو گا کہ کس کا مقام زیادہ برا ہے اور کس کا لاؤ لشکر زیادہ کمزور ہے۔
ابو بصیر نے صادق آل محمد علیہ السلام سے عرض کیا : مَنۡ کَانَ فِی الضَّلٰلَۃِ فَلۡیَمۡدُدۡ لَہُ الرَّحۡمٰنُ مَدًّا ” جو شخص گمراہی میں ہے اسے خدائے رحمن لمبی مہلت دیتا ہے” کا مقصد کیا ہے ؟
آپ ؑ نےفرمایا : جو لوگ امیر المؤمنین ؑاور ہمارے ولایت کے منکر ہوتے ہیں خدا انہیں دنیا میں چند دنوں کی ڈ ھیل دیتا ہے ۔ بعد میں انکی سخت گرفت کرتا ہے۔
میں (راوی)نے کہا : حَتّٰۤی اِذَا رَاَوۡا مَا یُوۡعَدُوۡنَ۔۔۔کی آیت کا کیا مقصد ہے؟
آپؑ نے فرمایا : اس سے حضرت قائم علیہ السلام کا ظہور مراد ہے اور وہی ساعت ہیں جب وہ ظہور کریں گے تو ہمارے دشمنوں کو پتہ چلے گا کہ ان دو گروہوں میں سے بدترین تھکانا کس کا ہے اور کمزور لشکر رکھنے والا کون ہے؟
اور جہاں تک ہدایت کا معاملہ ہے تو ظہور قائم ؑ کے وقت ان کی ہدایت میں خدا مزید اضافہ کرے گا ، اسی لیے وہ قائمؑ کا انکار نہیں کریں گے ۔
(تفسیر نور الثقلین ،ج 5،ص436)
وَ لَئِنۡ اَخَّرۡنَا عَنۡہُمُ الۡعَذَابَ اِلٰۤی اُمَّۃٍ مَّعۡدُوۡدَۃٍ لَّیَقُوۡلُنَّ مَا یَحۡبِسُہٗ ؕ اَلَا یَوۡمَ یَاۡتِیۡہِمۡ لَیۡسَ مَصۡرُوۡفًا عَنۡہُمۡ وَ حَاقَ بِہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یسۡتَہۡزِءُوۡنَ
(ہود8)
اور اگر ہم ایک مقررہ مدت تک ان سے عذاب کو ٹال دیں تو وہ ضرور کہنے لگتے ہیں: اسے کس چیز نے روک رکھا ہے؟ آگاہ رہو! جس دن ان پر عذاب واقع ہو گا تو ان سے ٹالا نہیں جائے گا اور جس چیز کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں وہی انہیں گھیر لے گی۔
حضرت امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیھما السلام سے مروی ہےکہ امت معدودۃ سےاصحاب قائم علیہ السلام مراد ہیں۔ انکی تعداد تین سو دس سے کچھ زیادہ ہونگے جیسے اصحاب بدر کی تعداد کے برابر 313 ہوگی ۔اور وہ موسم خریف کے بادلوں کی طرح فورا جمع ہو جائیں گے۔
(مجمع البیان ،ج5 ، ص 246)
مزید برآں اس آیت کے ذیل میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت مجیدہ کا معنی منقول ہے اگر ان منافقوں اور کافروں کے عذاب کو ہم تا ظہور قائم آل محمد علیہ السلام مؤخر کرتے ہیں یہ لوگ از راہ تمسخر و استہزاء کہتے ہیں۔ کس چیز نے اس کو روک رکھا ہے اور وہ کیوں ظہور نہیں کرتا۔ بے شک آئے اور سزا دے ایک دوسرے کو کہتے ہیں کسی قائم کا وجود نہیں ہے۔ لہذا انتظار کی کوئی ضرورت نہیں ہے پس خدا ایسے لوگوں کو متنبہ فرماتا ہے کہ جب وہ آئے گا تو پھر عذاب خدا سے بچنے کا کوئی سہارا نہ ہوگا۔ جس چیز کا تمسخر و استہزاء کرتے ہیں ان کا وبال ان کو اپنے احاطہ میں لے لے گا۔
(انوار النجف، ج7،ص193 )
اس آیت کو آمد قائم علیہ السلام بارے میں بیان کیا گیا ہے۔
وَ یَوۡمَ نَحۡشُرُ مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍ فَوۡجًا مِّمَّنۡ یُّکَذِّبُ بِاٰیٰتِنَا فَہُمۡ یُوۡزَعُوۡنَ
اور جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک جماعت کو جمع کریں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتی تھیں پھر انہیں روک دیا جائے گا۔
وَ یَوۡمَ نَحۡشُرُ امامیہ مذہب میں جو لوگ رجعت کے قائل ہیں انہوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ قیام مہدی علیہ السلام کے نزدیک اللہ تعالی ان کے شیعوں اور موالیوں میں سے ایک جماعت کو دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے گا تاکہ ان کی نصرت و امداد کا ثواب حاصل کریں اور انکی پرکیف و پرامن حکومت کی بہاریں دیکھیں۔نیز ان کے دشمنوں کو بھی دوبارہ اٹھایا جائے گا تاکہ ان سے انتقام لیا جائے اور آپ کی حکومت کی عظمت و شوکت ان کو دکھا کر ذلیل و رسوا کیا جائے۔
(انوار النجف، ج10،ص153 )
وَ قَاتِلُوۡھمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ فَاِنِ انۡتَھوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ
(سورہ انفال۳۹)
اور تم لوگ کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارا اللہ کے لیے خاص ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو اللہ یقینا ان کے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔
و قاتلوھم ۔۔۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے ابھی اس آیت مجیدہ کی تاویل کا زمانہ نہیں آیا۔ جب ہمارے قائم کا ظہور ہوگا تو ان کو پانے والے دیکھیں گے کہ آیت کی تاویل کس طرح ہے اور دین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہاں تک پہنچتا ہے یہاں تک کہ روئے زمین پر کوئی مشرک باقی نہ رہے گا۔
امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک طویل روایت میں ہےکہ حضرت قائم آل محمد علیہ السلام جب تشریف لائیں گے تو حجر اسود سے تکیہ لگا کر بیٹھیں گے اور لوگوں پر اپنی حجت تمام کریں گے پھر مقام ابراہیم علیہ السلام پر دو رکعت نماز ادا کر کے اپنی حجیت کو دہرائیں گے آپ علیہ السلام نے قسمیہ بیان فرمایا کہ امن یجیب المضطر ۔۔۔ میں لفظ مضطر کے مصداق قائم علیہ السلام ہی ہیں ۔ اس اثناء میں حضرت جبرائیل میزاب بیت اللہ پر ہوں گے اور پہلے پہل وہ ہی ان کی بیعت کریں گے پھر تین سوتیرہ آدمی آپ کی بیعت کریں گے۔
(انوار النجف، ج6ص 195، 196)


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/jkrisalaat/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button