اولاد معصومینؑحضرت عباس علمدارؑشخصیاتمحافلمناقب اولاد معصومین ؑمناقب و فضائل

حضرت عباس ابن علی علیہ السلام کا اجمالی تعارف

آپ کا اسم مبارک عباس اور مشہور القابات اباالفضل ،قمر بنی ہاشم، علمدار حسینی، شہنشاہ وفا، سقائے سکینہ ؑ، غازی اور باب الحوائج ہیں۔ آپ کی والدہ گرامی کا نام فاطمہ ام البنین تھا آپ امام علیؑ کی پانچویں اور ام البنین کی سب سے بڑی اولاد ہیں جن کا تعلق عرب کے ایک مشہور و معروف اور بہادر قبیلے بنی کلاب سے تھا۔ ، عباس بن علی اپنی بہادری اور شیر دلی کی وجہ سے بہت مشہور ہوئے۔ اپنے بھائی حسین بن علی کے ساتھ ان کی وفاداری واقعہ کربلا کے بعد ایک ضرب المثل بن گئی۔ اسی لیے وہ شہنشاہِ وفا کے طور پر مشہور ہیں۔حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام اسلامی تاریخ کی پیشانی پر ایک عظیم ترین رہنما اوربہادر ترین جرنیل کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے۔
حضرت عباس علیہ السلام کی شجاعت و بہادری اور ان کے تمام فضائل وکمالات کی مثال ونظیر پوری تاریخ بشریت میں نہیں مل سکتی۔ کربلا کے میدان میں حضرت عباس علیہ السلام نے جس عزم وحوصلہ ، شجاعت وبہادری اور ثابت قد می کا مظاہرہ کیا اس کو بیان کرنے کا مکمل حق ادا کرنا نہ تو کسی زبان کے لئے ممکن ہے اور نہ ہی کسی قلم میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اسے لکھ سکے۔
ولادت باسعادت: عباس بن علی کی ولادت باسعادت چار شعبان المعظم 26ھ کو ہوئی۔ انھوں نے اس وقت تک آنکھ نہیں کھولی جب تک ان کے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام نے انھیں اپنے ہاتھوں میں نہیں لیا۔ بچپن ہی سے انھیں حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بہت مودت محبت اور عقیدت تھی۔ علی بن ابی طالب نے اس عظیم الشان بچے کا نام عباس رکھا۔
ابتدائی زندگی: جناب عباس علیہ السلام ایسے عظیم پاک و طاہر اور صالح ماحول میں پروان چڑھے کہ جو شاذ و نادر ہی کسی انسان کو حاصل ہوتا ہے پس جناب عباس علیہ السلام نے اپنے بابا کے زیرِ سایہ زندگی کی منزلوں کو طے کرنا شروع کیا کہ جو اس کائنات میں عدل و انصاف کے سب سے بڑے علمبردار تھے جناب امیر المؤمنین علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو علم و تقویٰ کے خزانوں سے مالا مال کیا اور اس کے اندر ایسی عظیم عادات اور صفات کی روح پھونکی کہ جن کی بدولت وہ دنیا کے سامنے اپنے بابا کی شبیہ کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے ۔ علی بن ابی طالب سے انھوں نے فن سپہ گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجہ اسلامی علوم و معارف خصوصاً علم فقہ حاصل کیے ۔ عباس بن علی بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور مناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لیے ہوئی تھی۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بہبود کے لیے خاص طور پر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل ہوا۔
جنگ صفین میں آپ کا کارنامہ: جناب عباس نے والد کے سائے میں تقریبا 14 سال گزارےاور اس عرصے میں ہمہ وقت والد بزرگوار کے ہمراہ رہے۔ اور خلافت کے دشوار ایام میں لمحہ بھر بھی آپ سے جدا نہ ہوئے۔ جب سنہ 37 ہجری میں جنگ صفین چھڑ گئی تو عباس(ع) 12 یا 13سال کے تھے مگر آپ نے اس جنگ میں ناقابل کارنامے سر انجام دیئے۔معاویہ کا پچاسی ہزار افراد پر مشتمل لشکر صفین میں داخل ہوا تو اس نے سب سے پہلے "ابو الاعور اسلمی” کو بڑی نفری دے کر فرات پر متعین کیا اور حکم دیا کہ امیرالمؤمنین(ع) کے لشکر کو پانی نہ لینے دیا جائے تاکہ وہ پیاس کی وجہ سے جنگ لڑے بغیر شکست کھا جائیں۔ امیرالمؤمنین(ع) کا لشکر آپہنچا تو فوجی تھکاوٹ اور پیاس میں مبتلا تھے چنانچہ امیرالمؤمنین(ع) نے مجبور ہوکر صعصعہ بن صوحان اور شبث بن ربعی کو پانی لے کر آنے کی ذمہ داری سونپی۔ ان دو افراد نے کچھ نفری لے کر دریا پر تعینات معاویہ کے سپاہیوں پر حملہ کیا اور پانی کی ضرورت پوری کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس حملے میں حسین بن علی اور عباس بن علی بھی شریک تھے۔
صفین میں جنگ زوروں پر تھی جب اچانک ایک کم عمر نقاب پوش لڑکا لشکر علی سے جدا ہوا۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ اس لڑکے کی عمر غالبا 13 سال تھی۔ لشکر معاویہ کے لشکر کے سامنے آکر رکا اور ہل من مبارز کی صدا بلند کی۔ معاویہ نے اپنے لشکر کے طاقتور ترین پہلوان ابو شعثاء سے میدان میں نکل کر اس نوجوان کا جواب دینے کا حکم دیا مگر اس نے کہا: شام والے سمجھتے ہیں کہ میں ایک ہزار گھڑسوار شہسواروں کے برابر ہوں اور تم مجھے اس نوجوان کے سامنے بھجوا رہا ہے؟ میرے سات بیٹے ہیں جو اس اس نوجوان کا جواب دے سکتے ہیں چنانچہ اس نے اپنا ایک بیٹا میدان کارزار میں روانہ کیا جو چند ہی لمحوں میں نوجوان کے ہاتھوں اپنے خون میں نہا گیا۔ ابو شعثاء نے بڑی حیرت سے یہ نظارہ دیکھا اور اپنا دوسرا بیٹا نئی ہدایات دے کر میدان میں اتارا لیکن نتیجہ وہی تھا اور یوں ابو شعثاء کے سات اس نوجوان کے ہاتھوں مارے گئے۔ آخر کار ابو شعثاء [شاید سات بیٹوں کا بدلہ لینے] نوجوان کا جواب دینے کے لئے میدان میں اترا لیکن وہ بھی چند ہی لمحوں میں اس نوجوان کی ایک کاری ضرب کا شکار ہوکر اپنے بیٹوں سے جا ملا۔ مزید معاویہ کے لشکر میں کسی میں اس نوجوان کا جواب دینے کی جرأت نہ تھی اور دوسری طرف سے سپاہ امیرالمؤمنین(ع) میں بھی سب حیرت زدہ ہوکر اس نوجوان کو خراج تحسین پیش کررہے تھے۔ بالاخر کوئی حریف نہ پاکر اپنی سپاہ کی طرف لوٹا اور امیرالمؤمنین(ع) نے آپ کا نقاب اٹھایا اور بیٹے کے چہرے سے دھول ہٹا دی۔
(سید عبدالرزاق الموسوی المقرم، العباس علیه ‏السلام، ص153)
حضرت عباس(ع) کی شادی اور اولاد
جناب عباس(ع) لبابہ بنت عبید اللہ بن عباس بن عبدالمطلب کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ لبابہ بنت عبید اللہ اپنے زمانے کی پاکیزہ اور بزرگ خواتیں میں شمار ہوتی تھیں اور قرآن کے سائے اوراہل بیت کی محبت و اطاعت سے مالامال ماحول میں پرورش پا چکی تھیں۔ آپ شادی کے وقت 20 سالہ نوجوان تھے۔آپ کی اولاد کی تعداد کے حوالے سےچند اقوال منقول ہوئے ہیں، ایک روایت کے مطابق حضرت عباس کی پانچ اولادیں تھیں: چار بیٹے: "عبیدالله، فضل، حسن، قاسم” اور ایک بیٹی۔بعض منابع کے مطابق آپ کے تین بیٹے تھے: عبیدا لله، حسن اور قاسم اوربعض نے کہا ہے کہ آپ کے دو بیٹے: عبید اللہ اور محمدتھے۔
واقعہ کربلا اور عباس بن علی:
واقعہ کربلا کے وقت عباس بن علی کی عمر تقریباً 33 سال کی تھی۔ حسین بن علی نے آپ کو لشکر کا علمبردار قراردیا۔ اِسی وجہ سے آپ کا ایک لقب علمدار کربلا بھی مشہور ہے۔حسین بن علی کے ساتھیوں کی تعداد 72 یا زیادہ سے زیادہ سو افراد پر مشتمل تھی اور لشکر یزیدی کی تعداد تیس ہزارسے زیادہ تھی مگر عباس بن علی کی ہیبت و دہشت لشکر ابن زياد پر چھائی ہوئی تھی۔ کربلامیں کئی ایسے مواقع آئے جب عباس بن علی جنگ کا رخ بدل سکتے تھے لیکن امامؑ وقت نے انھیں لڑنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس جنگ کا مقصد دنیاوی لحاظ سے جیتنا نہیں تھا۔ امام جعفر صادق، عباس بن علی کی عظمت و جلالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے : ”چچا عباسؑ کامل بصیرت کے حامل تھے وہ بڑے ہی مدبر و دور اندیش تھے انہوں نے حق کی راہ میں بھائی کا ساتھ دیا اور جہاد میں مشغول رہے یہاں تک کہ درجۂ شہادت پرفائز ہو گئے آپ نے بڑ اہی کامیاب امتحان دیا اور بہترین عنوان سے اپناحق ادا کر گئے۔
عصر عاشور امام حسین(ع) کے تمام یار و انصار شہادت کے رفیع درجے پر فائز ہوئے ۔ صبح سے سہ پہر تک حضرت عباس(ع) امام حسین(ع) کے ساتھ جوانان بنی ہاشم اور اصحاب با وفاء کی لاشیں اٹھا اٹھا کر نڈھال ہوگئے تھے اپنے بھائیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے دیکھ چکے تھے ۔ حضرت عباس(ع) کو سب سے بڑھ کر بھائی کی تنہائی اور چھوٹے بچوں کی شدت پیاس سے العطش کی صدائیں برداشت نہیں ہو پا رہی تھیں۔ حضرت عباس(ع) نے میدان میں جانے کی اجازت چاہی لیکن امام والا مقام(ع) نے یہ کہہ کر ٹالا کہ آپ میرے لشکر کے سپہ سالار اور علمدار ہیں۔ امام حضرت عباسؑ کی موجودگی سے احساس توانمندی کرتے تھے اور دشمن بھی عباسؑ کی موجودگی میں خیام حسینی ؑ پر حملہ کی جرأت نہیں کر سکتے تھے۔ حضرت عباسؑ کے اصرار پر آپ کو فقط بچوں کی پیاس بجھانے کے لئے پانی فراہم کرنے کی اجازت ملی ۔ آپ ؑ مشکیزہ ساتھ لئے نہر فرات کی طرف بڑھے ، دشمن کے چار ہزار کا محاصرہ توڑ کر نہر فرات پہنچے ، ایک چلو پانی لیا پیاس کی شدت بڑھ رہی تھی ۔ لیکن آپ نے پانی نہر فرات پر پھینکا اور اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے: اے عباسؑ یہ تیرے آئین (وفاء) کے خلاف ہے کہ تو اپنے مولا حسین ؑ اور ان کے ننھے بچوں اور مخدرات سے پہلے اپنی پیاس بجھائے ۔ مشکیزہ پانی سے بھر کر خیام حسینی کی طرف چل دیئے ، فوج اشقیاء مانع بنی لیکن ثانی حیدر ان کو مولی گاجر کی طرح کاٹتے ہوئے آگے بڑھتے گئے ، عباس کی ایک آس تھی کہ کسی طرح پانی کا مشکیزہ خیام حسینیؑ تک پہنچا دیں لیکن ایک بزدل نے پیچھے سے گھات میں لگا کر آپ ؑ کا دایاں بازو جدا کیا لیکن آپ نے مشکیزہ کو بائیں ہاتھ سے پکڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن ایک بد ذات شقی نے چھپ کر پیچھے سے بائیں بازو کو بھی شہید کر ڈالا لیکن شجاعت کے پیکر عباسؑ نے اس حالت میں بھی ہمت نہیں ہاری، مشکیزہ کو دانتوں سے پکڑ کر پاؤں سے دفاع کرتے ہوئے آگے بڑھے، لیکن دشمنوں نے ایک دفعہ مشکیزے پر تیروں کی بارش کی اور پانی زمین کربلا میں گرا ، یوں عباس کی آس ٹوٹ گئی ۔ ایک ظالم نے گرز جفا کو آنحضرت ؑ کے سر اقدس پر مارا اور آپؑ اسی حالت میں زمین کربلا پر گرے درحالیکہ دونوں بازو جدا ہو چکے تھے ؛ مولا حسینؑ کو آخری سلام دیا ۔ امام حسین ؑ آپؑ کی شہادت پر بہت روئے ۔ عرب شاعر نے کہا :
احق الناس ان یبکی علیہ فتی ابکی الحسین بکربلاء
اخوہ وابن والدہ علی ابوالفضل المضرج بالدماء
و من واساہ لا یثنیہ شئی و جادلہ علی عطش بماء
ترجمہ : لوگوں کے رونے کے زیادہ حقدار وہ جوان ہے کہ جس پر کربلاء میں امام حسین ؑ روئے ۔ وہ ان کے بھائی اور بابا علی ؑ کے بیٹے ہیں ۔ وہ حضرت ابوالفضل ہیں جو اپنے خون سے نہلا گئے ۔ اور اس نے اپنے بھائی کی مدد کی اور کسی چیز سے خوف کھائے بغیر ان کی راہ میں جہاد کیا اور اپنے بھائی کی پیاس کو یاد کر کے پانی سے اپنا منہ پھیرا ۔(انا للہ و انا الیہ راجعون)۔( کتاب لہوف سید بن طاؤوس ، ص ۱۶۱ )
روضہ مبارک: کربلا کے شہر میں حرم امام حسینؑ کے شمال مشرق میں 372 میٹر کے فاصلے پر حضرت عباس کا محل دفن ہے جو شیعوں کی اہم زیارتگاہوں میں سے ایک ہے۔ اور ان دو حرموں کے درمیانی فاصلے کو بین الحرمین کہا جاتا ہے۔ بہت سارے مورخین کی نظر کے مطابق حضرت عباسؑ جو کہ نہر علقمہ کے کنارے شہید ہوئے تھے وہیں پر ہی دفن ہوئے ہیں۔ کیونکہ امام حسینؑ نے دیگر شہدا کے برخلاف آپ کی محل شہادت سے نہیں اٹھایا گنج شہدا نہیں لے گیا۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button