سیرتسیرت جناب رسول خداؐ

نہج البلاغہ اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (حصہ اول)

نہج البلاغہ جو خود حضرت علی کی عظیم شخصیت کی طرح ایک عظیم کلام ہے اور ایک ایسے بے کراں سمندر کی مانند ہے جس کی تہہ تک کسی کی رسائی نہیں ۔ دیگر موضوعات کی طرح مولائے کائنات نے اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلہ میں بھی ایسے گراں بہا جملے ارشاد فرمائے ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہوکر انسان دنیا و آخرت کی سعادتوں سے سرفراز ہوسکتا ہے
مقدمہ
اس موضوع کا انتخاب کیوں؟
میں نے اس موضوع کا انتخاب اس لئے کیا کہ :
١۔اطاعت رسول ایک ایسا موضوع ہے جس کو قرآن مجید نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور ایک باایمان شخص کی زندگی کی سعادت کا دارومدار ،پیغمبر کی اطاعت کو قرار دیا ہے ۔قرآن کریم کی بیسیوں آیات میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے ۔ سورہ نساء میں ارشاد ہوا۔
وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ
ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگراس واسطے کے خدا کے حکم سے لوگ اس کی اطاعت کریں ۔
نساء ،٦٤
٢۔قرآن کے اس واضح حکم پر جس شخصیت نے کما حقہ عمل کیا وہ علی ابن ابی طالب کی ذات اقدس ہے ۔
٣۔مولائے کائنات کی عظیم شخصیت سے محبت کا دم بھرنے والے شیعہ اثنا عشری افراد پر ایک الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ حضرات حضرت علی کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام دیتے ہیں اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس قدر ومنزلت کے قائل نہیں جو خدا نے ان کو عطا کی ہے ۔لہذا اس مختصر سی تحریر کو ضبط تحریر میں لانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم اہل فکر کو یہ بتائیں کہ ہم حضرت علی ابن ابی طالب کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اسلام کی دوسری عظیم شخصیت سمجھتے ہیں اور خود علی ابن ابی طالب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کس قدر مطیع اورفرمانبردار تھے اور انہوں نے اپنے ماننے والوں کو پیغمبر کی کیسے اتباع اور اطاعت کا حکم دیا ہے دوسرے الفاظ میں اگریوں کہوں تو شاید غلط نہ ہوگا کہ میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ ہم علی کی اس عظیم قدر ومنزلت کے بھی اس لئے قائل ہیں کیونکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس نے ان کا یہ مقام بیان فرمایا لہذا ہم من یطع الرسول فقد اطاع اللہ کے مصداق کہلاتے ہیں ۔
علی کی ذات اقدس عقیدہ رسالت کی ایک عملی تصویر ہے ،اگر کوئی شخص عقیدہ رسالت کو عملی صورت میں دیکھنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ علی کی سیرت کا مطالعہ کرے ۔ ضمنا لازم الذکر سمجھتی ہوں کہ اگر یہ موضوع ” علی مطیع رسول ” ہوتا تو یہ ایک نہایت وسیع و گستردہ موضوع تھا کیونکہ علی کی زندگی کا ایک ایک لمحہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں گذرا جیسا کہ خود مولائے کائنات نے فرمایا:
اصحاب پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے شریعت کے امانتدار افراد جانتے ہیں کہ میں نے ایک لحظہ بھی خدا اوررسول کے فرمان کی مخالفت نہیں کی۔
نہج البلاغہ،خطبہ ١٩٧ ،ص ٤١٠
اس طرح مولائے کائنات کی پوری زندگی کو مختلف پیراوں میں بیان کیا جاسکتا تھا لیکن میرا موضوع علی مطیع رسول نہج البلاغہ کی روشنی میں تھا لہذا میں نے کوشش کی کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے سلسلہ میں علی کے اس گوشہ حیات کو ذکر کروں جس کا نہج البلاغہ میں ذکر ہواہے. لہذا اس حوالے سے یہ موضوع مجھ جیسی ناتوان طالبہ کیلئے مشکل تھا۔بہر حال خداوند متعال سے دعا ہے کہ خدا میری اس ناچیز سی سعی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی طرح اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس طرح علی نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی ۔اور یہی سب سے بڑی کامیابی اور سعادت و خوش بختی ہے ۔
نہج البلاغہ اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
نہج البلاغہ جو خود حضرت علی کی عظیم شخصیت کی طرح ایک عظیم کلام ہے اور ایک ایسے بے کراں سمندر کی مانند ہے جس کی تہہ تک کسی کی رسائی نہیں ۔ دیگر موضوعات کی طرح مولائے کائنات نے اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلہ میں بھی ایسے گراں بہا جملے ارشاد فرمائے ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہوکر انسان دنیا و آخرت کی سعادتوں سے سرفراز ہوسکتا ہے ۔جیسا کہ حضرت امیر المومنین نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے سلسلہ میں یوں رطب اللسان ہیں:
فتس بنبیّک الاطیب الاطہرصلی اللہ علیہ وآلہ فن فیہ سوة لمن تسیٰ و عزاً لمن تعزی
یعنی تم لوگ اپنے طیب اور طاہر پیغمبر کا اتباع کرو کہ ان کی زندگی میں پیروی کرنے والے کیلئے بہترین نمونہ اور صبر اور سکون کے طلبگاروں کیلئے بہترین سامان صبر و سکون ہے .اللہ کی نظر میں محبوب ترین بندہ وہ ہے جو اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اتباع کرے اور اس کے نقش قدم پر چلے ۔
نہج البلاغہ ، خطبہ ١٦٠ ص٣٠٠
ایک اور جگہ پر فرمایا:
جعلہ اللہ بلاغا لرسالتہ و کرامة لامتہ
یعنی ”اللہ نے انہیں پیغام رسانی کا وسیلہ،امت کی کرامت ،اہل زمانہ کی بہار ،اعوان وانصار کی بلندی کا ذریعہ اور یارو مددگار افراد کی شرافت کا واسطہ قرار دیا ہے ”۔
نہج البلاغہ ،خطبہ ١٩٨،ص٤١٦
اب مولائے کائنات جنہوں نے ہمیں اس عظیم پیغمبر کی اطاعت و پیروی کاحکم دیا ہے،سب سے پہلے خود آپ نے اس عظیم شخصیت کی لحظہ بہ لحظہ ،قدم بہ قدم اطاعت کی، جیسا کہ خود فرمایا:
انی لم ارد علی اللہ و لا علی رسولہ ساعة قط
یعنی میں نے ایک لمحہ کیلئے بھی خدا اور رسول کی نافرمانی نہیں کی ”۔
نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ ١٩٧ ص٤١٠
اور یہ کیسے نہ ہوتا کیونکہ مولائے کائنات کے قول وفعل ،کردار و گفتار میں رسول سے مطابقت پائی جاتی ہے ۔خود نہج البلاغہ میں ایک جگہ پر فرمایا:
ایھا الناس ، انی واللہ ما احثکم علی طاعة الا و اسبقکم الیھا
اے لوگو!خدا کی قسم میں اس وقت تک تمہیں کسی نیک عمل کی تشویق و ترغیب نہیں دلاتا جب تک کہ میں خود اس پر عمل نہ کرلوں اور کسی گناہ سے نہیں روکتا مگر یہ کہ میں پہلے خوداس سے محفوظ رہوں ۔
نہج البلاغہ ، خطبہ ١٧٥ ص٣٣٢
گود سے لیکر گور تک حضرت علی، اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں
ولادت سے بعثت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک
1۔زمانہ بچپن اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :اس پاک مولود کی زندگی کا مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ولادت کی اساس ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان اور انکی مدد و نصرت اور و اطاعت پر استوار تھی ۔
حضرت ابو طالب کا گھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت کا مرکز تھا ،آپ کی تمام خصوصیات آپ کے ابن عم علی ابن ابی طالب میں منتقل ہوئیں ۔یہی وجہ تھی کہ مولائے کائنات ابھی چار سال کے نہ تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اپنے سے نسبت دی اور ان کو اپنا بھائی کہا۔ ان کی زندگی کا یہ اہم حصہ جس میں انسان کی شخصیت نشوونما پاتی ہے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیر سایہ تربیت میں گذرا۔
جب مکہ میں ایک سال سخت قحط پڑا ،تو حضرت ابو طالب کے ایک بیٹے جناب جعفر کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس اور جناب علی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنے گھر میں کفالت کیلئے لے آئے اور حضرت علی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت تک آپ کے گھر میں رہے اور حضرت علی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے پہلے تصدیق کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کی۔
الکامل فی التاریخ ج٢ ص٥٨ ،السیرۃ النبویہ ج٢ ص٢٦
اور شارح نہج البلاغہ محمد تقی تستری نے مقاتل ابی الفرج سے بھی اسی طرح کے کلام کو نقل کیا ہے ۔
نہج الصباغہ فی شرح نہج البلاغہ ،شیخ محمد تقی تستری ج٤ ص١٠٩
جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی کو اپنے گھر لے آئے توفرمایا :
”میں نے علی کو ایسے ہی منتخب کیا ہے جیسے خدا نے اس کو میرے لئے منتخب کیا ہے”۔
حضرت امیر المومنین نہج البلاغہ کے خطبہ قاصعہ میں اپنی زندگی کے اس حصے کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
و قدعلمتم موضعی من رسول اللہ بالقرابة و المنزلة الخصیصة وضعنی فی حجرہ و انا ولد یضمنی الی صدرہ
تمہیں معلوم ہے مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کس قدر قرابت اور مخصوص منزلت حاصل ہے انہوں نے بچپنے سے مجھے اپنی گود میں جگہ دی کہ مجھے اپنے سینے سے لگائے رکھتے تھے،اپنے بستر پر جگہ دیتے تھے،اپنے کلیجے سے لگا کر رکھتے تھے اور مجھے مسلسل اپنی خوشبو سے سرفراز فرمایا کرتے تھے،اور غذا کو اپنے دانتوں سے چبا کر مجھے کھلاتے تھے ۔نہ انہوں نے میرے کسی بیان میں جھوٹ پایا اور نہ میرے کسی عمل میں غلطی دیکھی۔
یہاں تک کہ آپ نے فرمایا:
ولقد کنت اتبعہ اتباع الفصیل ثر مہ
میں ان کے پیچھے اس طرح چلتا تھا جس طرح ناقہ کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے، وہ روزانہ میرے سامنے اپنے اخلاق کا ایک درس پیش کرتے تھے۔
و یامرنی بالاقتداء بہ
اورپھر مجھے اپنی اقتداء اور اطاعت کرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔
نہج البلاغہ خطبہ١٩٢،ص٣٩٦
2۔غار حرا میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اور ہمراہی :
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث بہ رسالت ہونے کے پہلے سال میں ایک مہینہ غار حرا میں عبادت بجا لاتے تھے،ایک ماہ مکمل ہونے کے بعد آپ گھر تشریف لے جانے سے پہلے مسجد الحرام میں سات مرتبہ یا جتنا خدا چاہتا ،خانہ خدا کاطواف بجا لاتے تھے۔
السیرۃ النبویہ ،ابن ہشام،ج١ ص٢٥٢
مختلف شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضرت علی سے ایک خاص قسم کی وابستگی اور توجہ کے نتیجے میں اس ایک ماہ کی مدت میں بھی حضرت علی ،پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء و اطاعت میں ان کے ہمراہ رہتے تھے ۔جب جبرائیل امین پہلی دفعہ غار حرا میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئے اور آپ کو مبعوث بہ رسالت ہونے کی خوشخبری دی تو حضرت علی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوار میں موجود مختلف شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضرت علی سے ایک خاص قسم کی وابستگی اور توجہ کے نتیجے میں اس ایک ماہ کی مدت میں بھی حضرت علی ، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء و اطاعت میں ان کے ہمراہ رہتے تھے ۔جب جبرائیل امین پہلی دفعہ غار حرا میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئے اور آپ کو مبعوث بہ رسالت ہونے کی خوشخبری دی تو حضرت علی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوار میں موجود تھے اور یہ دن اسی مہینے کا ایک روز تھا جس میں آپ غار حرا میں عبادت کیا کرتے تھے۔
حضرت علی نہج البلاغہ کے خطبہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنی اس ہمراہی اور اتباع کو ذکر کرتے ہوئے یوں بیان کرتے ہیں:
و لقد کان یجاور فی کل سنة بحراء فراہ ولا یراہ غیری
وہ سال میں ایک زمانہ غار حرا میں گذارا کرتے تھے جہاں صرف میں انہیں دیکھتا تھا اور کوئی دوسرا نہ ہوتا تھا۔
یہاں تک کہ آپ نے فرمایا:
ولقد سمعت رنة الشیطان حین نزل الوحی علیہ
میں نے نزول وحی کے وقت شیطان کی چیخ کی آواز سنی اور عرض کیا یا رسول اللہ! یہ چیخ کیسی ہے ؟تو فرمایا یہ شیطان کی چیخ ہے جو آج اپنی عبادت سے مایوس ہوگیا ہے ،تم وہ سب دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں، اور وہ سب سن رہے ہو جو میں سن رہا ہوں صرف فرق یہ کہ تم نبی نہیں ہو۔لیکن تم میرے وزیر بھی ہو اور منزل خیر پر بھی ہو۔
نہج البلاغہ ،خطبہ ١٩٢،ص٣٩٦
اگرچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ عبادت مبعوث بہ رسالت ہونے سے پہلے تھی لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت واطاعت کا یہ نتیجہ تھا کہ علی کی پاک روح اس کمسنی کے عالم میں اپنے نورانی قلب اور پرتاثیر نگاہوں اور صاف و پاک قوت سماعت سے ایسے امور کا مشاہدہ اور ایسی صداؤں کو سن رہی تھے کہ جو کسی عام انسان کے بس کاروگ نہ تھا ۔اسی سلسلہ میں ابن ابی الحدید معتزلی نہج البلاغہ کی شرح میں یوں رقمطراز ہیں :
صحاح ستہ میں یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ جب جبرائیل امین پہلی دفعہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئے اور بعثت کی خوشخبری دی تو حضرت علی ان کے جوار میں موجود تھے ۔
شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج١٣ ص٢١٨
اطاعت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعثت سے ہجرت تک
حضرت علی کی زندگی کا دوسرا مرحلہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے لیکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ ہجرت تک کا زمانہ ہے جو زمانے کے لحاظ سے تیرہ سال بنتا ہے ۔ آئیے نہج البلاغہ کی رو سے ان کی اس مجاہدانہ اور مخلصانہ زندگی پر اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے ایک اجمالی نظر دوڑائیں ۔
ا۔ اطاعت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سب سے پہلے ایمان لانے والے:
یہ صرف حضرت علی کا امتیاز ہے کہ آپ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرتے ہوئے سب سے پہلے اسلام قبول کیا. بلکہ صحیح تو یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ آپ نے سب سے پہلے اپنے اسلام کا اظہار کیا کیونکہ آپ بچپن ہی سے موحد تھے اور بت پرستی سے آپ کا دامن محفوظ و مصون تھا۔
احطب حوارزم المناقب ص١٨
اس مطلب کی تائید کیلئے یہی کافی ہے کہ آپ ہی وہ شخصیت ہیں جسے (کرم اللہ وجہہ)کا لقب ملا یعنی ایسی ذات جو ایک لمحہ کیلئے بھی غیر خدا کے سامنے سر بسجود نہ ہوئی ہو ۔
کتاب نہج الصباغہ میں خطیب سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس کی سند میں یحی بن حسین نے حضرت جابر سے روایت نقل کی ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تین افراد ایسے ہیں جنہوں نے پلک جھپکنے کی مقدار میں بھی کفر اختیار نہیں کیا۔ مومن آل یاسین٢:علی ابن ابی طالب٣:آسیہ زوجہ فرعون
نہج الصباغہ فی شرح نہج البلاغہ ج٤ ص١١٨
یہ ایک ایسا امتیاز اور کمال ہے جسے قرآن نے برتری کا ایک معیار اور کسوٹی قرار دیا اور ایک خاص اہمیت دی ہے ارشاد ہوا:
والسابقون السابقون اولئک المقربون
واقعہ ١٠۔١١
جن لوگوں نے (اسلام قبول کرنے میں) سبقت کی ہے ان کا مقام خدا کی بارگاہ میں بلند وبرتر ہے ۔
قرآن مجید نے فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے اور خدا کی راہ میں جان ومال کا انفاق کرنے والوں کو ان افراد سے افضل و برتر قرار دیا ہے جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے اور جہاد کیا۔
لا یستوی منکم من انفق من قبل الفتح و قاتل
حدید ١٠
تم میں سے جس شخص نے فتح (مکہ)سے پہلے (اپنامال)خرچ کیا اور جہادکیا اور (جس)نے بعد (میں)وہ برابر نہیں، انکا درجہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور جہاد کیا ۔
جب معیار یہ ٹھہرا تو قابل غور ہے کہ پھر ان افراد کا مقام و منزلت کس قدر بلند ہے جو ہجرت سے پہلے اور ظہور اسلام کی ابتداء میں مسلمان ہوئے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی ، تو اس بنا پر علی ابن ابی طالب کا مقام و منزلت تو خداہی جانتا ہے کہ جس نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کی اطاعت و فرمانبرداری کا اس وقت اعلان کیا اور اس وقت ان کی تصدیق کی جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث بہ رسالت ہوئے ۔
اسی اطاعت و ایمان کے بارے میں حضرت نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
و لم یجمع بیت واحد یومئذ فی الاسلام غیر رسول اللہ و خدیجہ و انا ثالثھما
اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خدیجہ کے علاوہ کسی گھر میں اسلام کا گذر نہ تھا اور ان میں تیسرا میں تھا ،میں نور وحی و رسالت کا مشاہدہ کرتا تھا ،اور خوشبوئے رسالت سے دماغ کو معطر کرتا تھا۔
نہج البلاغہ خطبہ ١٩٢ ص٣٩٦
اسی طرح ایک اور جگہ پر فرمایا:
اللھم انی اول من اناب ،سمع و اجاب ، لم یسبقنی الا رسول اللّٰہ بالصلاة
خدا یا تجھے معلوم ہے میں نے سب سے پہلے تیری طرف رخ کیا اور تیرے پیغام کو سنا اور پیغمبر کی دعوت پر لبیک کہا ہے اور تیری بندگی میں رسول کے علاوہ کسی نے مجھ پر سبقت نہیں کی۔
خطبہ ١٣١ ص٢٥٢
اسی لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا:
اولکم ورودا علی الحوض و اولکم اسلاما علی ابن ابی طالب
تم میں سب سے پہلے حوض کوثر پر جو شخص مجھ سے ملاقات کرے گا وہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہے جس نے تم سب سے پہلے اسلام کا اظہار کیا ۔
استیعاب فی معرفة الاصحاب ج٣ ص٢٨،شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج١٣ ص١١٩
امیر المومنین علیہ السلام نے ایک اور مقام پر اسی سبقت کو یوں بیان کیا:
میں خد اکا بندہ ہوں اور اللہ کے رسول کا بھائی ،اور صدیق اکبر ہوں، میرے بعد یہ دعوی ، جھوٹا اور بہتان باندھنے والا ہی کرسکتا ہے میں نے لوگوں سے سات سال پہلے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی۔
تاریخ الامم و الملوک ، ج٢ ص٣١٢
دعوت ذوالعشیرہ اور اطاعت علی
بعثت کے تین سال بعد دعوت عام کے آغاز کا حکم دینے کیلئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جبرائیل امین آیہ انذار
وانذر عشیرتک الاقربین واخفض جناحک لمن اتبعک
لیکر آئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی کو جب کہ ان کی عمر مبارک تیرہ سال کی تھی ، حکم دیا کہ کھانے کا بندوبست کیا جائے اور حضرت عبد المطلب کی اولاد میں سے چالیس افراد(مرد و زن)کو دعوت دی جائے ۔حضرت علی نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرتے ہوئے کھانے کا انتظام کیا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بھرے مجمع میں کھانے کے بعد اپنی دعوت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا :
”تم میں سے کون ہے جو میرا حامی و مددگار ہو”۔
سب نے سر جھکا لیا تین مرتبہ ایسے ہی ہو ا اور تینوں مرتبہ علی کے علاوہ کسی نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و حمایت کا اعلان نہ کیا تو بالآخر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ہاتھ علی کے ہاتھ پر مارتے ہوئے ایک تاریخی جملہ ارشادفرمایا :
اے میرے اقرباء! تمہارے درمیان یہ علی میرا بھائی ،و صی اور خلیفہ ہے۔
شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج٣ ص٢١١
علی اپنے اس قول پر ثابت قدم رہے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمیشہ اطاعت اور حمایت کرتے رہے
جیسا کہ خود نہج البلاغہ میں اس مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
و لقد کنت معہ صلی اللہ علیہ وآلہ لما تا ہ الملاء من قریش
میں اس وقت بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں ان کے ہمراہ تھا جب قریش کے سرداروں نے آکر کہا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !تم نے بہت بڑادعوی کیا ہے جو تمہارے گھر خاندان والوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔
امیر المومنین آگے چل کر فرماتے ہیں:
”جب قریش والوں نے آپ سے (معجزہ کے طور پر) درخت کو جڑ سے اکھاڑنے کا مطالبہ کیاتو قسم ہے اس ذات کی جس نے انہیں حق کے ساتھ مبعوث کیا کہ درخت جڑ سے اکھڑ گیا اور اس عالم میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آگیا کہ اس میں سخت کھڑکھڑاہٹ تھی اور پرندوں کی آوازوں جیسی پھرپھراہٹ بھی تھی اس کی ایک شاخ سرکار کے سر پر سایہ افگن تھی اور ایک میرے کاندھے پر، جب کہ میں آپ کے دائیں پہلو میں تھا ”۔
نہج البلاغہ خطبہ ١٩٢ ص٣٩٨
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اعلانیہ دعوت سے لیکر مدینہ ہجرت تک علی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم بہ قدم ان کی اقتدا میں رہے اور ہر مقام پر آپ کا تحفظ کیا۔جب قریش والوں نے بنی ہاشم کا اقتصادی بائیکاٹ کیا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چالیس افراد کے ساتھ شعب ابی طالب میں قیام پذیر ہوئے تو حضرت ابو طالب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کے سلسلہ میں رات کے آخری حصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مختلف جگہوں پر منتقل کردیتے تو علی، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر استراحت کرتے ،آپ نے اس مدت میں ایسی اطاعت اور فداکاری کا ثبوت دیا جس کی کہیں مثال نہیں ملتی ،جب کہ آپ کی عمر مبارک اس وقت سترہ سے بیس سال کے درمیان تھی۔
شرح ابن ابی الحدید،ج١٣ص٢٥٦
اسی طرح شہر طائف میں جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دس دن یا تیس دن قیام کیا تاکہ طائف کے بزرگان و اشراف کو اسلام کی دعوت دیکر طائف کو اسلام کا مرکز بنایا جائے تو اس مدت میں بھی علی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمراہی و اقتداء میں رہے بلکہ جب اس شہر والوں نے اسلام قبول نہ کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہر سے نکال دیا اور آپ پر پتھروں کی بارش کی توپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفاع میں علی کا سر بھی زخمی ہوگیا۔
اسد الغابۃ،ابن اثیر ج٥ ص١٨٦
اطاعت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں علی کی بت شکنی
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر کھڑ ے ہوکر کعبہ میں موجود بت کو چکنا چور کردینا بھی علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی انفرادی خصوصیت ہے ۔ جس کی تفصیل معتبر منابع اہل سنت میں موجود ہے جس کے ذکر کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ۔ خود حضرت نے ابو بکر سے مخاطب ہوکر اسی ماجرا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں کیا وہ تم تھے جس نے پیغمبر کے شانوں پر سوار ہوکر کعبہ میں بتوں کو نیچے گرایا تھا اور ان کو توڑا تھا ،یا یہ کارنامہ انجام دینے والا میں تھا ؟ابو بکر نے جواب دیا: یقینا آپ ہی تھے ۔
الاحتجاج ج١ص٣١١،الخصال ص ٥٥٢
شب ہجرت ،اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک
بعثت کے چودھویں سال دارالندوہ میں مشرکین نے میٹنگ کر کے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا اور خدا وند عالم نے مشرکین کے اس ناپاک عزم سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آگاہ کردیا اور حکم دیا آپ مکہ کو یثرب روانہ ہونے کی نیت سے ترک کردیں ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسئلہ کو حضرت علی علیہ السلام کے سامنے پیش کیا اور کہا مشرکین کو اس عز م میں ناکام کرنے کیلئے تم آج رات میرے بستر پر سو جاو اور فرمایا یا علی تم کیا کہتے ہو؟
دیکھیے اطاعت علی ! حضرت علی نے ایک ایسا جواب دیا جس کو تاریخ نے اپنے سنہری حروف میں قلم بند کیا ، آپ نے کہا: اے اللہ کے رسول اگر میں آپ کی جگہ پر سو جاوں تو کیا آپ محفوظ رہیں گے؟حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا ہاں جبرائیل امین نے مجھے خبر دی ہے ۔ حضرت علی مسکرا دئیے اور سر سجدہ میں رکھ دیا اور شکر خدا بجا لائے ، علی کا سجدہ شکر اس وجہ سے ہے کہ علی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فدا ہورہے ہیں ۔
سجدہ شکر سے سر اٹھایا اور کہا اے اللہ کے رسول جو آپ چاہتے ہیں اس کو انجام دیجئے میرا تن من آپ پر قربان ہو، آپ مجھے جو بھی حکم دیں گے میں اطاعت کروں گا۔
ابن ہشام سیرۃالنبویہ ج٢ ص١٢٣
نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں حضرت فرماتے ہیں:
فجعلت اتبع فاخذ رسول اللہ
میں مسلسل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلتا رہا اور ان کے ذکر کردہ خطوط پر قدم جماتا رہا یہاں تک کہ مقام عروج تک پہنچ گیا۔
نہج البلاغہ خطبہ ٢٣٦،ص ٤٧٠
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار ثور میں تین دن قیام کرنے کے بعد مدینہ روانہ ہوئے اور بارہ دن کے بعد مقام قبا پر پہنچ کر علی کا انتظار کرنے لگے ،یہاں تک کہ علی ابن ابی طالب آپ کی خدمت میں پہنچ گئے ۔ صاحب منہاج البراعہ نے تفصیل کے ساتھ اس واقعہ کو ذکر کیا ہے ۔
منہاج البراعۃفی الشرح نہج البلاغہ ج١٥ ص١١٤
اسی اطاعت و فداکاری کو خود حضرت نے چھ افراد پر مشتمل شوریٰ میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ مجھے بتائو ، میرے علاوہ کون تھا جو اس پر خطر رات میں کہ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار ثور تشریف لے گئے ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر سویا اور خود کو مصیبتوں کے سپرد کیا ؟سب نے کہا آپ کے سوا کوئی نہ تھا۔
سیرۃ النبویۃ ابن ہشام ج/٢ ص/١٨٩
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://balaghah.net/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button