سیرتسیرت امام جعفر صادقؑ

امام جعفر صادق علیہ السلا م کے دور میں علمی پیشرفت کے محرکات اور شاگردسازی

آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری رح کے خطابات سے اقتباس
جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور امامت میں غیر معمولی طور پر ترقی ہوئی ہے۔ معاشرہ میں فکر و شعور کو جگہ ملی گویا سوئی ہوئی انسانیت ایک بار پھر پوری توانائی کے ساتھ جاگ اٹھی، بحثوں، مذاکروں اور مناظروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ انھی مذاکرات سے اسلام کو بہت زیادہ فائدہ ہوا، علمی ترقی اور پیشرفت کے تین بڑے محرکات ہمیں اپنی طرف متوجہ کرنے ہیں۔ پہلا سبب یہ تھا کہ اس وقت پورے کا پورا معاشرہ مذھبی تھا۔ لوگ مذھبی و دینی نظریات کے تحت زندگی گزار رہے تھے۔
پھر قرآن و حدیث میں لوگوں کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی تھی۔ لوگوں سے کھا گیا تھا کہ جو جانتے ہیں وہ نہ جاننے والوں کو تعلیم دیں، حسن تربیت کی طرف بھی اسلام نے خصوصی توجہ دی ہے۔ یہ محرک تھا کہ جس کی وجہ سے علم و دانش کی اس عالمگیر تحریک کو بہت زیادہ ترقی ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے قافلے کے قافلے اس کا رواں علم میں شامل ہوگئے۔ دوسرا عامل یہ تھا کہ مختلف قوموں، قبیلوں، علاقوں اور ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے۔ ان افراد کو تحصیل علم سے خاص لگاؤ تھا۔ تیسرا محرک یہ تھا کہ اسلام کو ہی وطن قرار دیا گیا یعنی جھاں اسلام ہے اس شھر، علاقے اور جگہ کو وطن سمجھا جائے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس وقت جتنے بھی ذات پات اور نسل پرستی تصورات تھے وہ اسی وقت دم توڑ گئے۔ اخوت وبرادری کا تصور رواج پکڑنے لگا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اگر استاد مصری ہے تو شاگرد خراسانی یا شاگرد مصری ہے تو استاد خراسانی، ایک بہت بڑا دینی مدرسہ تشکیل دیا گیا۔ آپ کے حلقہ درس میں نافع، عکرمہ جیسے غلام بھی درس میں شرکت کرتے ہیں، پھر عراقی، شامی، حجازی، ایرانی، اور ھندی طلبہ کی رفت و آمد شروع ہوگئی۔ دینی ادارے کی تشکیل سے لوگوں کا آپس میں رابط بڑھا اور اس سے ایک ہمہ گیر انقلاب کا راستہ ہموار ہوا۔ اس زمانے میں مسلم، غیر مسلم ایک دوسرے کے ساتھ رہتے۔ رواداری کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی کسی کے خلاف کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ عیسائیوں کے بڑے بڑے پادری موجود تھے۔ وہ مسلمانوں اور ان کے علماء کا دلی طور پر احترام کرتے بلکہ غیر مسلم مسلمانوں کے علم و تجربہ سے استفادہ کرتے۔ پھر کیا ہوا؟ کہ دوسری صدی میں مسلمانوں کی اقلیت اکثریت میں بدل گئی ۔ اس لحاظ سے مسلمانوں کا عیسائیوں کے ساتھ روداری کا مظاہر ہ کرنا کافی حد تک مفید ثابت ہوا۔
یہ تھے وہ محرکات کہ جن کی وجہ سے لوگوں میں فکری و نظریاتی اور شعوری طور پر پختگی پیدا ہوئی اور تعلیم و تربیت، علم و عمل کے حوالے سے جتنی بھی ترقی ہے یہ سب کچھ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی مھربانیوں کا نتیجہ ہے۔ پس ہماری گفتگو کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگر چہ امام جعفر صادق علیہ السلام کو ظاہر ی حکومت نہیں ملی اگر مل جاتی تو آپ اور بھی بھتر کارنامے انجام دیتے لیکن آپ کو جس طرح اور جیسا بھی کام کرنے کا موقعہ ملا آپ نے کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر بے شمار قابل ستائش کام کیے۔ مجموعی طور پر ہم کھہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کے جتنے بھی علمی و دینی کارنامے تاریخ میں موجود ہیں وہ سب صادق آل محمد علیہ السلام کے مرہون منت ہیں۔
شیعہ تعلیمی مراکز تو روز روشن کی طرح واضح ہیں۔ اہل سنت بھائیوں کے تعلیمی و دینی مراکز میں امام علیہ السلام کے پاک و پاکیزہ علوم کی روشنی ضرور پھنچی ہے۔ اہل سنت حضرات کی سب سے بڑی یونیورسٹی الازھر کو صدیوں قبل فاطمی شیعوں نے تشکیل دیا تھا اور جامعہ ازھر کے بعد پھر اہل تسنن کے مدرسے اور دینی ادارے بنتے چلے گئے۔ ان لوگوں کے اس اعتراض (کہ امام علیہ السلام میدان جنگ میں جھاد کرتے تو بھتر تھا؟) کا جواب ہم نے دے دیا ہے ان کو یہ بات بھی بغور سننی چاہی ے کہ اسلام جنگ کے ساتھ کبھی نہیں پھیلا بلکہ اسلام تو امن و سلامتی کا پیامبر ہے۔ مسلمان تو صرف دفاع کرنے کا مجاز ہے، آپ اسے جھاد کے نام سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ امام علیہ السلام کی حلم و بردباری اور حسن تدبر نے نہ فقط ماحول کو خوشگوار بنایا بلکہ لوگوں کو شعور بخشا، علم جیسی روشنی سے مالا مال کر دیا، اسلام اور مسلمانوں کی عظمت و رفعت میں اضافہ ہوا۔
باقی رہا یہ سوال کہ ائمہ طاہر ین عليه‌السلام عنان حکومت ہاتھ میں لے کر اسلام اور مسلمانوں کی بخوبی خدمت کر سکتے تھے انھوں نے اس موقعہ سے فائدہ نہیں اٹھایا پر امن رہنے کے باوجود بھی ان کو جام شھادت نوش کرنا پڑا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حالات اس قدر بھی سازگار و خوشگوار نہ تھے کہ آئمہ اطہارعليه‌السلام کو حکومت و خلافت مل جاتی؟ امام علیہ السلام نے حکمرانوں سے ٹکرانے کی بجائے ایک اہم تعمیری کام کی طرف توجہ دی۔ علماء فضلاء، فقھاء اور دانشور تیار کر کے آپ نے قیامت تک کے انسانوں پر احسان عظیم کر دیا۔ وقت وقت کی بات ہے آئمہ طاہر ین علیھم السلام نے ہر حال، ہر موقعہ پر اسلام اور مظلوم طبقہ کی بھر پور طریقے سے ترجمانی کی۔
آپ علیہ السلام کے دو عظیم شاگرد
جابر بن حیان
ایک وقت ایسا آیا کہ ایک نئی اور حیرت انگیز خبر نے پوری دنیا کو ورطئہ حیرت میں ڈال دیا وہ تھی جابر بن حیان کی علمی دنیا میں آمد ۔ تاریخ اسلام کے اس عظیم ھیرو کو جابر بن حیان صوفی بھی کھا جاتا ہے۔ اس دانائے راز نے علمی انکشاف اور سائنسی تحقیقات کے حوالے سے ایک نئی تاریخ رقم کر کے مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ ابن الندیم نے اپنی مشھور کتاب الفھرست میں جناب جابر کو یاد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جابر بن حیان ایک سو پچاس علمی وفلسفی کتب کے مصنف و مؤلف ہیں۔ کیمسٹری جابر بن حیان کے فکری احسانات کا صلہ ہے۔ ان کو کیمسٹری کی دنیا میں باپ اور بانی کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ابن الندیم کے مطابق جناب جابر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے دسترخوان علم سے خوشہ چینی کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔
ابن خلکان ایک سنی رائٹر ہیں۔ وہ جابر بن حیان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ کیمسٹری کا یہ بانی امام جعفر صادق علیہ السلام کا شاگر تھا۔ دوسرے مورخین نے بھی کچھ اس طرح کی عبارت تحریر کی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جن جن علوم کی جناب جابر نے بنیاد رکھی ہے وہ ان سے پھلے بالکل وجود ہی نہ رکھتے تھے۔ پھر کیا ہوا کہ جابر بن حیان نے نئی نئی اختراعات ایجاد کر کے جدید ترین دنیا کو حیران کر دیا۔ اس موضوع پر اب تک سینکڑوں کتابیں اور رسالہ جات شائع ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر کے سائنسدان اور ماہر ین نے جناب جابر کی جدید علمی خدمات کو بیحد سراہتے ہوئے کھا ہے کہ اگر جابر نہ ہوتے تو پوری انسانیت اتنے بڑے علم سے محروم رھتی۔ ایران کے ممتاز دانشور جناب تقی زادہ نے جابر بن حیان کی علمی ودینی خدمات پر انھیں زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ میرے خیال میں جابر کے متعلق بہت سی چیزیں مخفی اور پوشیدہ ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ شیعہ کتب میں بھی جناب جابر جیسے عظیم ھیرو کا تذکرہ بہت کم ہوا ہے۔ یہاں تک کہ بعض شیعہ علم رجال اور حدیث کی کتابوں میں اسی بزرگ ہستی کا نام کھیں پہ استعمال نہیں ہوا۔ ابن الندیم شائد شیعہ ہو اس لئے انھوں نے جناب جابر کا نام اور تذکرہ خاص اہتمام اور احترام کے ساتھ کیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پوری دنیا کو بالآخر ماننا پڑا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے جس طرح لائق و فائق علماء تیار کئے ہیں اتنے اور کسی مذھب نے پیشوا نہیں کئے۔
ایک سوال اور ایک جواب
سوال:کیا جابر بن حیان نے ذاتی طور پر امام جعفر صادق علیہ السلام سے علم حاصل کیا تھا؟
جواب:میں نے عرض کیا ہے کہ یہ ایک سوال ہے جو تاریخ میں واضح نہیں ہے ابھی تک تاریخ یہ فیصلہ نہ کر سکی کہ جابر بن حیان نے سوفی صد امام جعفر صادق علیہ السلام سے درس حاصل کیا ہے۔ البتہ کچھ ایسے مورخین بھی ہیں جو جابر کو امام علیہ السلام کا شاگردتسلیم نہیں کرتے ۔ان کا کہنا ہے کہ جابر کا زمانہ امام علیہ السلام کے بعد کا دوران ہے ان کے مطابق جابر امام علیہ السلام کے شاگردوں کا شاگرد ہے۔ لیکن بعض کھتے ہیں کہ جابر نے براہ راست امام علیہ السلام سے کسب فیض کیا ہے۔ جابر نے ان علوم میں مہارت حاصل کی ہے کہ جو پھلے موجود نہ تھے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے مخلتف شعبوں میں اپنے ہونہار شاگرد تیار کیے تھے جس کا مقصد یہ تھا کہ اس سمندر علم سے ہر کوئی اپنی اپنی پیاس بجھا کر جائے۔
جیسا کہ حضرت امیر علیہ السلام نے کمیل بن زیاد سے فرمایا ہے:
"ان ههنا لعلما جما لو اصبت له حملة”
آپ نے اپنے سینہ اقدس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا دیکھو یہاں علم کا بڑا ذخیرہ موجود ہے کاش! اس کے اٹھانے والے مجھے مل جاتے۔”ھاں کوئی تو ایسا؟ جو ذہین تو ہے نا قابل اطمینان ہے اور دنیا کے لیے دین کو آلہ کار بنانے والا ہے۔ یا جو ارباب حق ودانش کا مطیع تو ہے مگر اس کے دل کے گوشوں میں بصیرت کی روشنی نہیں ہے یا ایسا شخص ملتا ہے کہ جو لذتوں پر مٹا ہوا ہے یا ایسا شخص جو جمع آوری و ذخیرہ اندوزی پر جان دیئے ہوئے ہے۔
ھشام بن الحکم
امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک اور معروف شاگرد کا نام ھشام بن الحکم ہے۔ یہ شخص واقعتاً نابغہ روزگار ہے، اپنے دور کے تمام دانشوروں پر ہمیشہ ان کو برتری حاصل رہی ہے۔ آپ جب بھی کسی موضوع پر بات چیت کرتے تو سننے والوں کو مسحور کر دیتے۔ اس مرد قلندر کی زبان میں عجیب تاثیر تھی۔ جناب ھشام سے بڑے بڑے علماء آکر شوق وذوق کے ساتھ بحث و مباحثہ کرتے اور سمندر علم کی جولانیوں اور طوفان خیزیوں کو دیکھ کر وہ اپنے اندر ایک خاص قسم کا اطمینان و سکون حاصل کرتے۔ یہ سب کچھ میں اہل سنت بھائیوں کی کتب سے پیش کر رہا ہوں۔ ابو الھزیل علاف ایک ایرانی النسل دانشور تھے۔ آپ علم کلام کے اعلی پایہ کے ماہر تسلیم کیے جاتے تھے۔ شبلی نعمانی تاریخ علم کلام میں لکھتا ہے کہ ابو الھزیل کے مقابلے میں کوئی شخص بحث نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن یھی ابو الھزیل ھشام بن الحکم کے سامنے آنے کی جرأت نہ کرتا تھا۔ جناب ھشام نے جدید علوم میں جدید تحقیق کو رواج دیا۔ آپ نے طبعیات کے بارے میں ایسے ایسے اسرار و رموز کو بیان کیا ہے کہ وہ لوگوں کے وھم و خیال میں بھی نہ تھے۔ ان کا کھنا ہے کہ رنگ و بو انسانی جسم کا ایک مستقل جزو ہے اور وہ ایک ایسی چیز ہے جو فضا میں پھیل جاتی ہے۔
ابو الھزیل ھشام کے شاگردوں میں سے تھا اور وہ اکثر اپنی علمی آراء میں اپنے استاد محترم جناب ھشام کا حوالہ ضرور دیا کرتے تھے۔ اور ھشام امام جعفر صادق علیہ السلام کی شاگردی پر نہ فقط فخر کیا کرتے تھے بلکہ خود کو "خوش نصیب” کھا کرتے تھے۔ جیسا کہ ہم نے پھلے عرض کیا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے تعلیم و تربیت اور تھذیب و تمدن کے فروغ اور احیاء کے لیے شب و روز کام کیا۔ فرصت کے لمحوں کو ضروری اور اہم کاموں پر استعمال کیا، چونکہ ہمارے آئمہ میں سے کسی کو کام کرنے کا موقعہ ہی نہ دیا گیا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام واحد ہستی ہیں کہ جنھوں نے بہت کم عرصے میں صدیوں کا کام کر دکھایا۔ پھر امام رضا علیہ السلام کو بھی علمی و دینی خدمات کے حوالے سے کچھ کام کرنے کا موقعہ میسر آیا۔ ان کے بعد فضا بدتر ہوتی چلی گئی، حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کا دور انتھائی مصیبتوں، پریشانیوں اور دکھوں کا دور ہے۔ آپ پر حد سے زیادہ پابندیاں عائد کر دی گئیں، بغیر کسی وجہ اور جرم و خطا کے آپ کو زندگی بھر زندانوں میں رہ کر اسیرانہ زندگی بسر کرنی پڑی۔
ان کے بعد دیگرائمہ طاہر ین علیھم السلام عالم جوانی میں شھید کر دیئے گئے۔ ان کا دشمن بھی کتنا بزدل تھا کہ اکثر کو زھر کے ذریعہ شھید کر دیا گیا۔ ان پر عرصہ حیات ا س لیے تنگ کر دیا تھا کہ وہ علم و عمل کے فروغ اور انسانیت کی فلاح و بھبود کے لیے کام نہ کر سکیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کو ایک تو کام کرنے کا موقع مل گیا دوسرا آپ نے عمر بھی لمبی پائی تقریباً ستر ( ۷۰) سال تک زندہ رہے۔
اب یہ صورت حال کس قدر واضح ہو گئی ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے ادوار میں کتنا فرق تھا؟ امام عالی مقام علیہ السلام کو ذرا بھر کام کرنے کا موقعہ نہ مل سکا، یعنی حالات ہی اتنے نا گفتہ بہ تھے کہ مصیبتوں اور مجبوریوں کی وجہ سے سخت پریشان رہے۔ پھر انتھائی بے دردی کے ساتھ آپ کو شھید کر دیا گیا، لیکن آپ کی اور آپ کے ساتھیوں کی مظلومیت نے پوری دنیا میں حق و انصاف کا بول بالا کر دیا اور ظالم کا نام اور کردار ایک گالی بن کر رہ گیا۔
امام حسین علیہ السلام کے لیے دو ہی صورتیں تھیں ایک یہ کہ آپ خاموش ہو کر بیٹھ جاتے اور عبادت کرتے دوسری صورت وھی تھی جو کہ آپ نے اختیار کی، یعنی میدان جھاد میں اتر کر اپنی جان جان آفرین کے حوالے کر دی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کو حالات و واقعات نے کام کرنے کا وقت اور موقعہ فراہم کر دیا۔ شھادت تو آپ کو نصیب ہونی تھی۔ آپ کو جو نھی موقعہ ملا آپ نے چہار سو علم کی شمعیں روشن کر کے جگہ جگہ روشنی پھیلا دی۔ علم کی روشنی اور عمل کی خوشبو نے ظلمت و جھالت میں ڈوبی ہوئی سوسائٹی کو از سر نو زندہ کر کے اسے روشن و منور کر دیا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آئمہ اطہارعلیہ‌السلام کی زندگی کا مقصد اور مشن اور طریقہ کار ایک جیسا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر امام صادق علیہ السلام نہ ہوتے تو امام حسین علیہ السلام بھی نہ ہوتے۔ اسی طرح امام حسین علیہ‌السلام نہ ہوتے تو امام صادق علیہ السلام نہ ہوتے۔ یہ ہستیاں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے ظلم اور باطل کے خلاف جھاد کرتے ہوئے شھادت پائی۔ پھر آنے والے آئمہ اطہارعلیہ ‌السلام نے ان کے فلسفہ شھادت اور مقصد قیام کو عملی لحاظ سے پایہ تکمیل تک پھنچایا۔
امام جعفر صادق علیہ ‌السلام نے اگر چہ حکومت وقت کے خلاف علانیہ طور پر جنگ شروع نہیں کی تھی۔ لیکن یہ بھی پوری دنیا جانتی ہے کہ آپ حکام وقت سے نہ فقط دور رہے بلکہ خفیہ طور پر ان کے ساتھ بھر پور مقابلہ بھی کیا۔ ایک طرح کی امام علیہ السلام سرد جنگ لڑتے رہے۔ آپ علیہ السلام کی وجہ سے اس وقت کے ظالم حکمرانوں کی ظالمانہ کاروائیوں کی داستانیں عام ہوئیں اور ان کی آمریت کا جنازہ اس طرح اٹھا کہ مستحق لعن و نفریں ٹہرے، یھی وجہ ہے کہ منصور کو مجبور ہو کر کھنا پڑا کہ:
"هذا الشجی معترض فی الحلق”
کہ جعفر بن محمد میرے حلق میں پھنسی ہوئی ھڈی کے مانند ہیں۔ میں نہ ان کو باہر نکال سکتا ہوں اور نہ نگلنے کے قابل رہا ہوں نہ میں ان کا عیب تلاش کرکے ان کو سزادے سکتا ہوں، اور نہ ان کو برداشت کرسکتا ہوں۔”
یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ ہمارے خلاف ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔برداشت کر رہا ہوں۔ مجھے پتہ ہے کہ امام علیہ السلام نے ہمارے خلاف لوگوں کو ایک نہ ایک دن اکٹھا کر ہی لینا ہے۔ اس کے باوجود بھی میں اتنا بے بس ہوں کہ ان کے خلاف ذرا بھر اقدام نہیں کرسکتا۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام علیہ السلام نے اپنی حسن سیاست اور بھترین حکمت عملی کی بدولت اپنے مکار، عیار اور با اختیار دشمن کو بے بس کیے رکھا۔ ہم سب پر لازم ہے کہ اپنے دشمنوں، مخالفوں کے مقابلے میں ہمہ وقت تیار ہیں۔ ہوشیاری و بیداری کے ساتھ ساتھ ہمارا قومی و ملی اتحاد بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمارا بزدل دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے۔ وہ کسی وقت بھی ہمیں نقصان پھنچا سکتا ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے۔ طاقت و غلبہ کے تصور کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو وقت کی نبض تھام کر سوچ سمجھ کر آگے بڑھتے ہیں اور پھر بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
کتاب ” سیرت آل محمد” مؤلف: آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری” سے اقتباس
Book source: alhassanain.org

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button