سیرتسیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑ

حضرت فاطمہ الزہرا ءسلام اللہ علیھا بطورشریک حیات

تحریر: محمد لطیف مطہری
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی زندگی کا احاطہ کرناعام انسان کی بس کی بات نہیں اس عظیم شخصیت کےبارے میں گفتگو کرنےکے لئے صاحب عصمت اور عالی بصیرت کا حامل ہونا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر آپؑ کے وجود کو کوئی درک نہیں کر سکتا۔آپؑ کے فضائل اور مناقب خدا وندمتعال، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماورائمہ معصومین علیہم السلام ہی بیان کر سکتے ہیں ۔ سمندر سیاہی، درخت قلم اور جن و انس لکھنے والے بن جائے تب بھی آپ ؑ کے فضائل بیان نہیں کر سکتے۔حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا اسوہ اسلام کى خواتىن کے لىے ازدواجى زندگى کے تمام پہلوؤں پر خوش بختى اور سعادت کے راستوں کا تعىن کرتا ہے تاکہ دنىا کے سامنےاىک عملى نمونہ ہیش کیا جاسکے۔اس مختصر مقالہ میں ہم جناب حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کوبعنوان شریک حیات تمام خواتین کے لئے نمونہ عمل اور اسوہ ہونے کے ناطےکچھ مطالب بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
1۔ کم توقعات رکھنے والی شریک حیات:
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ؑجانتى تھىں کہ وه اسلام کے سپہ سالار کى زوجہ ہىں اور وه شوہر کے مقام کو جانتى تھىں اس لىے کبھى بھى حضرت على ؑسے کسى ایسى خواہش کا اظہار نہىں کىا جو ان کى اسلامى سرگرمىوں مىں رکاوٹ کا سبب بنے اس بارے مىں ىوں رواىت بىان ہوئى ہے کہ اىک دن جناب امىر علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ؑسے پوچھا گھر مىں کوئى کھانے کى چىز ہے ؟ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے فرماىا:
لَا وَ الَّذِي أَكْرَمَ أَبِي بِالنُّبُوَّةِ وَ أَكْرَمَكَ بِالْوَصِيَّةِ مَا أَصْبَحَ الْغَدَاةَ عِنْدِي شَيْ‏ءٌ أُغَدِّيكَهُ وَ مَا كَانَ عِنْدِي شَيْ‏ءٌ مُنْذُ يَوْمَيْنِ إِلَّا شَيْ‏ءٌ كُنْتُ أُوثِرُكَ بِهِ عَلَى نَفْسِي وَ عَلَى ابْنَيَّ هَذَيْنِ حَسَنٍ وَ حُسَيْنٍ فَقَالَ عَلِيٌّ يَا فَاطِمَةُ أَ لَا كُنْتِ أَعْلَمْتِينِي فَأَبْغِيَكُمْ شَيْئاً فَقَالَتْ يَا أَبَا الْحَسَنِ إِنِّي لَأَسْتَحْيِي مِنْ إِلَهِي أَنْ تُكَلِّفَ نَفْسَكَ مَا لَا تَقْدِرُ عَلَيْه‏
(بحارالانوار٬ ج43 ٬ص59)
اس ذات کى قسم جس نے میرے بابا کو نبوت کا شرف بخشا اور آپ کو ان کا برحق وصی بنایا! دو دن سے ہمارے گھر مىں کھانے کى کوئى چىز موجودنہىں ہے۔ حضرت على علیہ السلام نے فرماىا: آپ نے مجھے کىوں نہىں بتاىا ؟ جواب دیا:” مجھے الله سے شرم آتى ہے کہ مىں آپ کو اس بات کى زحمت دوں کہ جو آپ کے لىے ممکن نہ ہو۔”
2۔ ہم راز و ہم نوا:
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور حضرت علی علیہ السلام دونوں ایک دوسرے کے ہم غم ، ہم راز و ہم نوا تھے۔ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ہمىشہ اپنے شوہر کى حوصلہ افزائى کىا کرتى تھىں اور ان کى فداکارى اور بہادرى کو سراہتى تھىں اس طرح حضرت على علیہ السلام کو آسوده خاطر کرتى تھىں اپنى بے رىامحبت سے تھکے ماندے جسم اوربدن کے زخموں کو تسکىن دىتى ۔ خود حضرت على علیہ السلام فرماىا کرتے تھے:
وَ لَقَدْ كُنْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهَا فَتَنْكَشِفُ عَنِّي الْهُمُومُ وَ الْأَحْزَان
(المناقب٬ 1411 ٬ص353)
جب بھی مىں گھر واپس آتا اور زہرا کو دىکھتا تو مىرا تمام غم واندوه ختم ہوجاتا تھا۔”
حضرت على وحضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کا گھر در حقىقت اخلاص او رمحبت کا مرکز تھا میاں بیوى دونوں کمال اخلاص کےساتھ باهمى مدد سے گھر کے امور چلاتے تھے۔ حضرت على علیہ السلام بچپن ہى سے پىغمبر اسلام کے دامن وحى کے تربىت یافتہ تھے ۔آپ بهترین اسلامى اخلاق ، فضائل کے مالک تھے ۔ حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام نے بھى اپنى بابا گرامى کے دامن وحى مىں تربت پائى تھى آپ کے کان بچپن ہى سے قرآن سے مانوس تھے۔
تاریخ گواہ ہے حضرت على علیہ السلام حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ایک دوسرے کا بہت احترام اور خیال رکھتے تھے۔ لیکن کبھی کبھار آپس میں مزاح بھی فرمایا کرتے تھے۔ مثلا ایک دن آپس مىں اىک دوسر ےسے کہتے ہىں کہ حضرت رسول اللهؐ مجھ سے زیاده محبت کرتے ہىں دوسرى طرف سے جواب آتا ہےکہ مجھ سے زىاده محبت کرتے ہیں۔ حضرت على علیہ السلام نے فرمایاہم رسول خدا کى خدمت میں چلتے ہیں اور انہی سے ہی پوچھتے ہیں کہ ہم دونوں میں سے کس کو زیادہ دوست رکھتے ہیں؟ پس دونوں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کى خدمت میں گئے تو حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے پوچھا ؟
أَيُّنَا أَحَبُ‏ إِلَيْكَ‏ أَنَا أَمْ‏ عَلِيٌ‏ ع قَالَ النَّبِيُّ ص أَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ وَ عَلِيٌّ أَعَزُّ عَلَيَّ مِنْكَ فَعِنْدَهَا قَالَ سَيِّدُنَا وَ مَوْلَانَا الْإِمَامُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ أَ لَمْ أَقُلْ لَكَ أَنَا وَلَدُ فَاطِمَةَ ذَاتِ التُّقَى قَالَتْ فَاطِمَةُ وَ أَنَا ابْنَةُ خَدِيجَةَ الْكُبْرَى قَالَ عَلِيٌّ وَ أَنَا ابْنُ الصَّفَا قَالَتْ فَاطِمَةُ أَنَا ابْنَةُ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى قَالَ عَلِيٌّ وَ أَنَا فَخْرُ الْوَرَى قَالَتْ فَاطِمَةُ وَ أَنَا ابْنَةُ دَنا فَتَدَلَّى‏ وَ كَانَ مِنْ رَبِّهِ‏ قابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى‏ قَالَ عَلِيٌّ وَ أَنَا وَلَدُ الْمُحْصَنَاتِ قَالَتْ فَاطِمَةُ أَنَا بِنْتُ الصَّالِحَاتِ وَ الْمُؤْمِنَات‏
(عوالم العلوم والمعارف ج11 ٬ص262-266، الفضائل ص80 )
آپ مجھ سے زىاده محبت کرتے ہىں ىا علىؑ سے ؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دىا
انت احب الى وعلى اعز منک
اے فاطمہ زہؑرا! تجھے زیادہ چاہتا ہوں اور علؑی میرے لئے زیادہ عزیز ہیں۔ اس وقت ہمارے مولا اور سید ، سردار نے کہا: کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا: میں فاطمہ(بنت اسد) صاحب تقویٰ کا فرزند ہوں، جناب فاطمؑہ نے جواب میں کہا: میں خدیجہ کبرؑیٰ کی بیٹی ہوں، علیؑ نے کہا: میں صفا کا بیٹا ہوں، فاطمؑہ نے کہا: میں سدرۃ المنتہیٰ کی بیٹی ہوں، علیؑ نے کہا: میں فخر وری ٰ ہوں، فاطمؑہ نے کہا: میں دنا فتدلی اور قاب و قوسین اوادنی کی بیٹی ہوں، علیؑ نے کہا: میں پاک دامن ماؤں کا بیٹا ہوں تو فاطمؑہ نے کہا: میں صالحات اور مؤمنات کی بیٹی ہوں۔”حضرت علىؑ اورحضرت فاطمؑہ زہرا علیہما السلام نے الٰہی انعامات کا مذکوره مکالمہ میں ذکر فرمایا ہے جس سے ہر میاں بیوى کو یہ سبق ملتا ہے کہ فضول اور مادى چىزوں کے ذریعے اىک دوسرے پر فخر نہیں کرنا چاہئے اور اپنى بڑائى بىان نہیں کرنى چاہىے ۔
3۔ساده زندگى:
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا حضرت رسول اللهؐ کى تربىت یافتہ تھیں انھوں نے دنیا کى ظاہرى شان وشوکت سے دورى اور سادگى کا درس اپنے بابا سے لیا تھا اور ایثار وقربانى بھى اپنے والدىن سىکھى تھىں انھوں نے امام علىؑ کے ہمراه اپنى زندگى کو رضاىت خدا کے لیے وقف کردیا تھا اور جو کچھ ان کے پاس حتى کہ اپنے جہىز کوبھى الله کى راه مىں خرچ کردىا ۔ حدیث مىں ذکر ہوا ہے کہ ایک دن حضرت رسول خدا اپنى بیٹى کے گھر آئے تودیکھا جناب حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا زمین پر بیٹھى ایک ہاتھ سے چکى چلارہىں اور دوسرےہاتھ سے بچے کو گود میں لےکر دودھ پلارہى ہیں توجناب رسول خد اکى آنکھوں مىں آنسو آگئے فرمایا:
"يا فاطمة تعجلي‏ مرارة الدّنيا بنعيم الآخرة (الجنّة)غدا
(المناقب٬ج3 ٬ص 342)
اے فاطمہ دنىاکى مشکلات کو آخرت ،بهشت کى مٹھاس کے لىے برداشت کرو۔” حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے جواب مىں فرماىا:
” الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى نَعْمَائِهِ وَ الشُّكْرُ لِلَّهِ عَلَى آلَائِه‏”
حمد وشکر خداوند کے لىے هے اس کى لاتعداد نعمتوں کے بدلے مىں تو اس وقت ىہ آىہ نازل ہوئى :
فأنزل اللّه تعالى‏ وَ لَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضى
(الضحى،آیت5)
عنقرىب تىرا رب تمہىں اتنا عطا کرے گا کہ تو راضى ہوجائےگا۔
4۔ شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری:
جناب فاطمؑہ عالمین کی سیدہ ہونے کے باوجود کبھی بھی اپنے شوہر کی اتباع میں لیت و لعل کا مظاہرہ نہیں کیا ۔آپ ؑ ہمیشہ حضرت علی علیہ السلام کی مکمل اتباع کرتی تھیں۔ آپ ؑ اپنے شوہر کی اجازت کے بغىر کبھى گھر سے باہر قد م نہیں رکھتی تھیں۔ کیونکہ آپؑ اسلامی تعلیمات کے نہ فقط پابند تھیں بلکہ نسوان عالم کی معلمہ بھی تھیں۔ آپؑ اس بات سے کاملا آگاہ تھیں کہ اسلام عورت کو شوہر کى اجازت کے بغىر گھرسے نکلنے سےمنع کرتا ہے۔ اگر کوئى عورت اىسا کرے اور شوہر کو غضبناک کرے خداوند عالم اس کى عبادت کو قبول نہىں کرتا جب تک اس کا شوہر راضى نہ ہوجائے ۔
(اسلام کى مثالى خاتون، ص96)
5۔ گھریلو ذمہ داریوں کی تقسیم:
حضرت على علیہ السلام گھر کے اندر ونى حالات ومسائل سے مکمل طور پر بے فکر تھے اور اپنى شرىک حىات کى حوصلہ افزائى سے بہره مندرہتے تھے آپ جانتے تھے کہ جس قدر مرد کو عورت کى طرف سے اخلاص ، محبت اور قدردانى کى ضرورت ہوتى ہے اس قدر عورت بھى اس کى طالب ہوتى ہے امام علىؑ بھى جناب سىده کى ہرلحاظ سے حوصلہ افزائى فرماتے اور گھر کے کاموں مىں ان کى مدد کرتے تھے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہىں:
” كَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع يَحْتَطِبُ‏ وَ يَسْتَقِي وَ يَكْنُسُ وَ كَانَتْ فَاطِمَةُ ع تَطْحَنُ وَ تَعْجِنُ وَ تَخْبِزُ
(بحار الانوار٬ ج43 ٬ص117)
حضرت على گھر کے لىے لکڑىاں اور پانى مہىا کرتے اور گھر کى صفائى کرتے تھے اور جناب حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام چکى پىس کر آٹا گوند تى اور روٹى پکاتى تھىں۔”لهذا آج کے مىاں اور بىوى بھى اس الٰهى جوڑے کو اپنے لئے نمونہ عمل قراردىں تو گھرىلو زندگى جنت نظىر بنا سکتے ہیں ، بىوى حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کى طرح شوہر سے بے جا فرمائشیں نہ کرے اور شوہر حضرت علىؑ کى طرح اپنى بىوى کى اچھے کاموں مىں مدد کرے جس طرح مولا کائنات اور حضرت زہؑرا سے ایک دوسرےکے بارے مىں جناب رسول خدا نے سوال کیا تو انہوں نے آپ ؐکے جواب مىں فرمایا :
” فَسَأَلَ عَلِيّاً كَيْفَ وَجَدْتَ أَهْلَكَ قَالَ نِعْمَ‏ الْعَوْنُ‏ عَلَى‏ طَاعَةِ اللَّهِ‏ وَ سَأَلَ فَاطِمَةَ فَقَالَتْ خَيْرُ بَعْل‏
( بحار الأنوار، ج‏43، ص 117)
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا الله کى اطاعت مىں مىرى بہترىن مددگار ہىں ۔اور علی میری نسبت بہترین شوہر ہیں۔”
خدا ہم سب کو سیرہ بانوئے دو عالم فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا اور ائمہ معصومین علیہم السلام پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
آمین۔
{السّلام علیک أیّتها الصدّیقة الشهیدة الممنوعة إرثُها، المکسور ضلعها، المظلوم بعلها، المقتولِ وَلَدُها}

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button