سلائیڈرسیرتمحافلمناقب امام مھدی عجمناقب و فضائل

حضرت امام مہدی عج کی عالمگیر حکومت، الٰہی وعدہ

تحریر : مختار حسین توسلی
کائنات اور اس میں موجود تمام چیزوں کو الله تعالی نے خلق فرمایا ہے، لہذا اصولی طور پر اس میں نظام بھی اسی کا چلنا چاہیے کیونکہ وہی تمام موجودات کا خالق اور مالک ہے، اور اس کا منشا بھی یہ رہا ہے کہ دنیا میں صرف اسی کا نظام چلے اور اس کے بھیجے ہوئے نمائندوں کی حکومت قائم ہو، چنانچہ اس مقصد کے حصول کی خاطر اس نے بنی نوع انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز بنا کے پیدا کیا ہے، پھر انسانوں میں سے کچھ ہستیوں کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے تاکہ وہ اس دنیا میں نظام الہی نافذ کریں، الله کے بھیجے ہوئے ان نمائندوں کو انبیاء و مرسلین کہتے ہیں اور کچھ ہستیوں کو انبیاء و مرسلین کے لائے ہوئے دین کی حفاظت اور نشر و اشاعت کے لیے منتخب کیا ہے جنہیں اولیاء و اوصیاء کہتے ہیں۔
الله تعالی نے انسان کو خلق فرمانے کے بعد ایسے ہی سرگرداں نہیں چھوڑا بلکہ دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے کچھ اصول و قوانین بھی عطا کیے جن کے مجموعے کو دین کہا جاتا ہے اور اس کے منتخب کردہ دین کا نام اسلام ہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے : ” اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۔”
یعنی بے شک الله تعالی کے نزدیک پسندیدہ دین صرف اسلام ہے۔”
(سورہ آل عمران : 19)
الله تعالی کا منشا یہ رہا ہے کہ لوگ اس کے بھیجے ہوئے دین کو دل وجان سے قبول کریں اور اپنی خوشی سے اس پر عمل پیرا ہو جائیں یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے نمائندوں کو لوگوں پر مسلط نہیں کیا یعنی انہیں بزور طاقت نظام الہی نافذ کرنے کا حکم نہیں دیا، اسی لئے انہوں نے مہر و محبت کے ساتھ لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دی ہے اس سلسلے میں زور زبردستی سے کام نہیں لیا۔
مگر چونکہ الله تعالی نے انسان کو اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا ہے اور اوپر سے شیطان بھی ان پر مسلط ہوگیا اس لیے ہر دور کے مفاد پرست لوگوں نے انبیاء و مرسلین علیہم السلام کی دعوت حق کو ٹھکرا دیا، کیونکہ انہوں نے نظام الٰہی کے نفاذ کی صورت میں اپنے ناجائز مفادات کو خطرے میں دیکھا چنانچہ انہوں نے ہمیشہ الہی نمائندوں کی راہ میں روڑے اٹکائے اور رکاوٹیں کھڑی کیں تاکہ وہ دنیا میں نظام عدل نافذ نہ کر سکیں۔
لیکن یہ الله تعالی کا وعدہ ہے کہ وہ اس دنیا میں ایک نہ ایک دن اپنے برگزیدہ بندوں کے ذریعے نظام عدل نافذ کرکے رہے گا اور دین مبین اسلام کو دیگر تمام ادیان پر غالب کر دے گا، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: ” هُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ۔”
یعنی الله وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے، اگرچہ مشرکین کو برا ہی لگے۔(سورہ توبہ : 33)
اس آیہ شریفہ میں الله تعالی نے واضح انداز میں فرمایا ہے کہ اس کا بھیجا ہوا دین دنیا کے تمام باطل ادیان پر غالب آئے گا اور ان شاء الله ایسا عنقریب ہوگا، واضح رہے کہ اس دنیا میں انسان ہمیشہ اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور جسمانی اور روحانی تسکین کے حصول کے لیے کوشاں رہتا ہے یہ اس کی قلبی آرزو ہے کہ اسے ایک سعادت مند زندگی نصیب ہو جو ابھی تک حاصل نہیں ہو سکی لیکن اس کے باوجود یہ آرزو نہ کل کے انسان کی نظر میں ناقابل حصول تھی اور نہ آج کے انسان کی نظر میں ہے کیونکہ اگر اس آرزو کے پورا ہونے کا امکان نہ ہوتا تو انسان کے دل و دماغ میں یہ نقش نہ ہوتی جیسا کہ اگر اشیائے خورد و نوش نہ ہوتیں تو کبھی بھی کوئی بھوک و پیاس محسوس نہ کرتا لہذا یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا کہ دنیا میں امن و آشتی کا دور دورہ ہوگا عدل و انصاف قائم ہوگا، ظالم و جابر حکمران نیست و نابود ہو جائیں گے اور دنیا میں حقیقی نمائندگان الہی کی حکومت قائم ہوگی، جس سے دنیا میں امن و سکون قائم ہوگا۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :” وَ نُرِیۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ نَجۡعَلَہُمۡ اَئِمَّۃً وَّ نَجۡعَلَہُمُ الۡوٰرِثِیۡنَ، و نُمَکِّنَ لَہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ نُرِیَ فِرۡعَوۡنَ وَ ہَامٰنَ وَ جُنُوۡدَہُمَا مِنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَحۡذَرُوۡنَ ۔
یعنی : اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو (زمین کا) وارث بنائیں اور ہم زمین میں انہیں اقتدار دیں اور ان کے ذریعے ہم فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ کچھ دکھا دیں جس کا انہیں ڈر تھا۔(سورہ قصص: 5 – 6)
الله تعالی کا یہ ارادہ اٹل اور حتمی الوقوع ہے کہ وہ اپنے مقرب بندوں کے ذریعے عدل و انصاف پر مبنی حکومت ضرور قائم کرے گا، ظلم و جور کا خاتمہ کرے گا اور نیک و صالح افراد کو لوگوں کی قیادت کا عظیم فریضہ عطا کرے گا، یہ ارادہ تکوینی ہے جو حتمی الوقوع ہے، ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام دنیا کے صالح ترین افراد ہیں، انہی کو الله تعالی نے تمام لوگوں کے سید و سردار بنایا ہے، انہی کے لیے وسیع و عریض کائنات کو خلق فرمایا ہے اور انہی کے وجود ذی جود کی برکت سے ابھی تک اس کائنات کا نظام چل رہا ہے، اور وہ دن دور نہیں کہ جو الله تعالی انہی کے ذریعہ اپنے وعدے کو پورا فرمائے گا کیونکہ تاریخ بشریت گواہ ہے کہ ان پاک اور برگزیدہ ہستیوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے چنانچہ خود معصومین علیھم السلام سے مروی ہے: نحن المستضعفین ” یعنی ہم ہی زمین میں کمزور بنا دیے گئے ہیں.”
ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ آخری زمانے میں الہی وعدے کے مطابق جو ہستی دنیا میں عدل و انصاف پر مبنی حکومت قائم کرے گی جس کی مثال نہ اولین میں ہوگی اور آخرین میں، وہ رسول اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے بارهویں جانشین حضرت امام مہدی علیہ السلام ہوں گے، آپ امام حسین علیہ السلام کی ذریت سے ہیں آپ کے والد گرامی حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اور والدہ جناب نرجس خاتون سلام الله علیہا ہیں، آپ کی ولادت 255 ہجری میں ہو چکی ہے تب سے لے کر آج تک زندہ اور مصلحت الٰہی کی بنا پر پردہ غیب میں ہیں لیکن جب حکم خداوندی ہوگا تو ظہور فرمائیں گے اور پوری دنیا میں اسلامی تعلیمات کے عین مطابق عدل و انصاف پر مبنی عظیم الشان حکومت قائم کریں گے۔
قرآن مجید کی متعدد آیات حضرت امام مہدی عجل الله تعالی فرجہ الشریف کے ذریعے قائم ہونے والی الہی حکومت کے بارے میں موجود ہیں، نیز اس سلسلے میں لسان رسول اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے بھی متواتر احادیث نقل ہوئی ہیں، ایسی احادیث کہ جو فریقین کے ہاں ناقابل انکار ہیں، فریقین کے بہت سارے علماء نے حضرت امام مہدی عجل الله تعالی فرجہ الشریف کے بارے میں مستقل کتابیں لکھی ہیں لہذا امام عالی مقام کے وجود مبارک اور آپ کے ذریعے قائم ہونے والی الہی حکومت کے بارے میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے ۔
آیت الله شہید محمد باقر الصدر رضوان الله تعالیٰ علیہ اپنی کتاب "تصور مہدی” میں لکھتے ہیں کہ امام مہدی عج الله فرجہ الشریف کے بارے میں صرف اہل سنت کے طرق سے وارد ہونے والی احادیث چار سو کے لگ بھگ ہیں جبکہ شیعہ اور سنی دونوں ذرائع سے وارد ہونے والی روایات کی تعداد چھ ہزار سے زیادہ ہے۔
عقیدہ مہدویت پر پورے عالم اسلام کا اتفاق ہے، اہل سنت بھی حضرت امام مہدی عجل الله تعالی فرجہ الشریف کی آمد کا عقیدہ رکھتے ہیں لیکن اس سلسلے میں ان کا نظریہ اہل تشیع کے نظریہ سے قدرے مختلف ہے اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام پیدا ہوگئے ہیں جو امام حسین علیہ السلام کی ذریت سے ہیں اور مصلحت خداوندی کے تحت ہماری نظروں سے اوجھل ہیں جبکہ اہلسنت کے عقیدے کے مطابق امام مھدی علیہ السلام ابھی تک پیدا نہیں ہوئے بلکہ آخری زمانے میں پیدا ہوں گے اور وہ امام حسن مجتبی علیہ السلام کی نسل سے ہوں گے۔
بالفاظ دیگر شیعوں کے ہاں امام مہدی عجل الله تعالی فرجہ الشریف معین اور مشخص ہیں لہذا کوئی امام مہدی ہونے کا جھوٹا دعویٰ نہیں کر سکتا جبکہ سنیوں کے ہاں امام مہدی معین و مشخص نہیں ہیں جس کی وجہ سے بہت سارے مفاد پرست لوگوں نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور کر رہے ہیں۔
رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : " لو لم یبق من الدنیا إلا یوم واحد لطوّل الله ذلك الیوم حتى یخرج رجل من أهل بیتي، یملا الأرض عدلا ِّو قسطا كما ملئت ظلما و ِّجورا.”
یعنی جب دنیا کی زندگی ایک دن باقی رہ جائے تو الله تعالی اس کو اتنا طولانی کردے گا کہ میرے اہل بیت سے ایک شخص خروج کرے گا جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔”
(بحارالانوار ج : 21 ص: 60 – 58)
بعض روایات میں یوں آیا ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا نام میرا نام ہوگا اور اس کی کنیت میری کنیت ہوگی، نیز آپ فرماتے ہیں : لا یذهب الدنیا حتى یلي رجل من أهل بیتي یقال له المھدي۔”
یعنی ” دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک میرے اہل بیت میں سے ایک شخص حکومت نہ کرے اور اس کا نام مہدی ہوگا.” (بحارالانوار جلد: 21 صفحہ: 60)
اس میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں کہ حضرت امام مہدی عجل الله تعالی فرجہ الشریف پوری دنیا میں پرچم اسلام کو سربلند کرنے اور الہی نظام حکومت کے عملی نفاذ کے لئے ظہور فرمائیں گے، آپ کا طرز حکومت قرآن کے ارشادات اور نبی اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی سیرت کے عین مطابق ہو گا یعنی تمام امور کی بنیاد قرآن و سنت پر ہوگی۔
واضح رہے کہ حضرت امام مہدی عجل الله تعالی فرجہ الشریف لوگوں پر زبردستی نظام الہی نافذ نہیں کریں گے بلکہ آپ صرف دعوت دیں گے چونکہ اس دور میں لوگوں کی عقل کامل ہو جائے گی لہذا وہ اپنی ہوری فہم و فراست کے ساتھ اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے اس سلسلے میں کسی پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ قرآن مجید کا واضح اعلان ہے کہ: لا إکراہ في الدین... یعنی ” دین میں کوئی جبر نہیں ہے ۔۔۔۔” (یعنی دین قبول کرنے میں کوئی جبر نہیں ہے، کسی کو زبردستی مسلمان بنانا درست نہیں، لیکن اگر کوئی اپنی مرضی سے مسلمان ہو جاتا ہے تو پھر اسلام کے احکامات پہ عمل کرنا اس پر لازم ہو جاتا ہے۔)
(سورہ بقرہ: 256)
اس دور میں موجود لوگوں کی بھاری اکثریت حضرت امام مہدی عجل الله تعالی فرجہ شریف پر ایمان لے آئے گی مگر کچھ لوگ آپ سے روگردانی کریں گے جن میں سے سرکش اور شرپسند قسم کے لوگوں کو جو براہ راست آپ کے مقابلے پر آجائیں گے، مار دیا جائے گا لیکن ان میں سے جو پرامن رہیں گے انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا بلکہ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق حکومت اسلامی کے رعایا بن کر رہنے کی اجازت دے دی جائے گی۔
آیات اور روایات کی روشنی میں اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ حضرت امام مہدی عجل الله تعالی فرجہ الشریف کے دور حکومت میں دینی اقلیتیں موجود ہوں گی جیسے یہود و نصاریٰ کے بارے میں قرآن مجید میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وہ قیامت تک رہیں گے چنانچہ یہودیوں کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ” وَ لَیَزِیۡدَنَّ کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ مَّاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ طُغۡیَانًا وَّ کُفۡرًا ؕ وَ اَلۡقَیۡنَا بَیۡنَہُمُ الۡعَدَاوَۃَ وَ الۡبَغۡضَآءَ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ؕ کُلَّمَاۤ اَوۡقَدُوۡا نَارًا لِّلۡحَرۡبِ اَطۡفَاَهَا اللّٰہُ ۙ وَ یسۡمعوۡن فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ۔”
ترجمہ: (اے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) آپ کے رب کی طرف سے جو کتاب آپ پر نازل ہوئی ہے وہ ان ( یہودیوں) میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کرے گی اور ہم نے قیامت تک کے لیے ان کے درمیان عداوت اور بغض ڈال دیا ہے، یہ جب جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اسے بجھا دیتا ہے اور یہ لوگ زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور اللہ فسادیوں کو دوست نہیں رکھتا۔(سورہ مائدہ: 64)
نصاری کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے : ” مِنَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّا نَصٰرٰۤی اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَہُمۡ فَنَسُوۡا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوۡا بِہٖ ۪ فَاَغۡرَیۡنَا بَیۡنَہُمُ الۡعَدَاوَۃَ وَ الۡبَغۡضَآءَ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ سَوۡفَ یُنَبِّئُہُمُ اللہ بِمَا کَانُوۡا یَصۡنَعُوۡنَ ۔”
ترجمہ: اور ہم نے ان لوگوں سے (بھی) عہد لیا تھا جو کہتے ہیں: ہم نصاریٰ ہیں پس انہوں نے (بھی) اس نصیحت کا ایک حصہ فراموش کر دیا جو انہیں کی گئی تھی، تو ہم نے قیامت تک کے لیے انکے درمیان بغض و عداوت ڈال دی اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اللہ عنقریب انہیں جتا دے گا۔”(سورہ مائدہ : 14)
روایات میں بھی آیا ہے کہ اسلامی نظام ِ حکومت کے نفاذ کے بعد امام زمانہ عجل الله تعالی فرجہ الشریف اہل ذمہ سے جزیہ لیں گے، چنانچہ ابوبصیر سے مروی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا، امام زمانہ کا اہل ذمہ کے ساتھ کیا برتاو ہوگا ؟ امام عالی مقام نے فرمایا :” یسالمھم كما سالمھم رسول الله صلى الله علیه وآله وسلم ویؤدون الجزیة عن یدوهم صاغرون.
یعنی آپ ان کے ساتھ وہی معاملہ کریں گے جیساکہ رسول اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے ان کے ساتھ کیا ہے، اور وہ (اہل ذمہ) خود اپنے ہاتھوں سے (تسلیم و رضا کے ساتھ) آپ کو جزیہ دیں گے۔”
(بحار الأنوار: جلد: 52، صفحہ : 376)
نیز عقلی طور پر بھی یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ ظہور امام زمانہ عجل الله تعالی فرجہ الشریف کے وقت اسلام کے علاوہ باقی ادیان ختم ہو جائیں، کیونکہ الله تعالی نے انسان کو دین کے انتخاب میں مکمل اختیار دے دیا ہے اور یہ اختیار نہ ابھی سلب ہوا ہے اور نہ امام زمانہ کے دور حکومت میں ہوگا ورنہ جبر لازم آئے گا۔
آیات اور روایات میں اس بات کا تو ذکر ہوا ہے کہ آخری زمانے میں اسلام کو باقی ادیان پر غلبہ حاصل ہو گا لیکن اس بات کا کہیں بھی ذکر نہیں ہوا کہ باقی ادیان بالکل ہی ختم ہو جائیں گے اس کا مطلب یہ ہے کہ باقی ادیان تو ہوں گے لیکن اسلام کے مقابلے میں کم تر اور کمزور ہوں گے، پس اس دور میں لوگوں کی غالب اکثریت اپنے ارادہ و اختیار اور اپنی خوشی و مرضی سے حضرت حجت حق پر ایمان لے آئے گی اور کچھ لوگ بہر کیف روگردانی کریں گے۔
خلاصہ یہ هے کہ حضرت امام مھدی عجل الله تعالی فرجہ شریف عدل وانصاف پر مبنی ایک عالمگیر الہی نظام حکومت اس روئے زمین پر تشکیل دیں گے جو درحقیقت الله تعالی کے اس وعدے کی تکمیل ہو گئی جو اس نے قرآن مجید میں کیا ہے، امام عالی مقام کے توسط سے اسلام اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ پوری دنیا میں نافذ ہوگا، امام کا طرز حکومت دستور الہی کے عین مطابق ہو گا آپ اپنی پوری طاقت سے احکام الہی کو نافذ کریں گے اور کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ کسی بھی حوالے سے معاشرے میں کوئی خرابی پیدا کرے۔
علاوہ ازیں اسلام پر عمل پیرا نہ ہونے والے بھی کسی بھی قسم کی عہد شکنی یا قانون شکنی نہیں کریں گے کیونکہ ان کو اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی، امام کے نظام عدل میں ہر دین و مذہب کے پیروکاروں کو مکمل آزادی اور حقوق حاصل ہوں گے لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص خرابی پیدا کرتا ہے یا قانونی شکنی کرتا ہے تو اسے سخت سزا بھگتنا پڑے گی۔
واضح رہے کہ یہاں پر مکمل آزادی سے مراد وہ آزادی ہے جو اسلام کی تعلیمات اور اخلاقی اقدار کے منافی نہ ہو، چنانچہ دیگر ادیان کے لوگ مادرپدر آزاد نہیں ہوں گے جس طرح آج کی دنیا میں ہیں، بلکہ انہیں بھی انسانی اقدار و روایات کا لحاظ کرنا ہوگا، بالفاظ دیگر انہیں حیوانوں کی طرح نہیں بلکہ انسانوں کی طرح رہنا ہوگا، پس نظام عدل کے نفاذ کے بعد دنیا کو خلق کرنے کا حقیقی مقصد لوگوں پر واضح ہوجائےگا یا لوگ اسے درک کر پائیں گے۔
عصر ظہور عقلی تکامل کا دور هوگا نیز لوگ انتہائی خضوع و خشوع سے الله تعالی کی عبادت کریں گے اور خاندان وحی اور نمائندگان الٰہی کے نورانی مقام سے آگاہ ہو کر ان کے حقیقی پیروکار بن جائیں گے ہر طرف امن ہی امن ہوگا سلامتی ہی سلامتی ہو گی۔
دعا ہے کہ الله تعالی ہمیں بھی حضرت امام مہدی عج کے ظہور پُرنور اور ان کی عالمگیر الہی حکومت کے فوائد سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین یا رب العامین)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button