خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:304)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 23 مئی 2025 بمطابق 25 ذیقعد 1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع:اخلاق حسنہ اور معاشرے پر اس کے اثرات
اچھا اخلاق ہماری دینی اور معاشرتی زندگی کا بنیادی ستون ہے۔ اخلاق حسنہ انسان کے کردار کی خوبصورتی اور اس کی معاشرتی ذمہ داریوں کا آئینہ ہے۔ یہ وہ جوہر ہے جو فرد کو اللہ کا محبوب اور معاشرے کا قابل اعتماد رکن بناتا ہے۔ معاشرتی ہم آہنگی اسی اخلاق حسنہ کا نتیجہ ہے، جو افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت، احترام، اور تعاون کے رشتے میں باندھتی ہے۔ آج ہم اخلاق حسنہ کے چند اہم پہلوؤں پر گفتگو کریں گے تاکہ اچھا اخلاق اپنا کر ہم معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔
قرآن میں اخلاق حسنہ کی تاکید
اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا (سورہ البقرہ، آیت 83)
” اور لوگوں سے حسن گفتار سے پیش آؤ۔”
یہ آیت ہمیں ہدایت دیتی ہے کہ ہماری زبان سے نکلنے والا ہر لفظ محبت، احترام، اور خیر خواہی پر مبنی ہونا چاہیے۔ اخلاق حسنہ صرف عمل تک محدود نہیں، بلکہ ہمارے الفاظ اور طرز عمل بھی اس کا حصہ ہیں۔
تفسیر الکوثر:
علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
قرآنی آداب اور اسلامی اصول، تربیت میں حسن گفتار کی خصوصی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ گفتارسے ہی انسان کے ما فی الضمیر کا اظہار ہوتا ہے، یہ باہمی تفاہم اور افہام و تفہیم کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ حسن گفتار میں جادو کا اثر ہے۔ جب کہ بدکلامی سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خدائی دعوت و ارشادات میں گفتار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف تعبیرات کے ذریعے حسن گفتار کی تاکید فرمائی گئی ہے:
وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا {۴ نساء: ۵}
اور ان سے اچھے پیرائے میں گفتگو کرو۔
وَ لۡیَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا۔ {۴ نساء: ۹}
انہیں چاہیے کہ سنجیدہ باتیں کریں۔
فَقُلۡ لَّہُمۡ قَوۡلًا مَّیۡسُوۡرًا۔ {۱۷ اسراء: ۲۸}
ان سے نرمی کے ساتھ بات کریں۔
اس تاکید کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ حسن گفتار میں انسانی وقار اور احترام آدمیت محفوظ رہتا ہے جسے اسلام میں بہت اہمیت حاصل ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام سے وَ قُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا کے بارے میں روایت ہے:
قُوْلُوْا لِلنَّاسِ اَحْسَنَ مَا تُحِبُونَ اَنْ یُقَالَ لَکُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَ جَلَّ یُبْغِضُ السَّبَّاب اللَّعَّان الطَّعَّان عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ الفَاحِشَ المُفْحِشَ السَائِلَ وَ یُحِبُّ الحَیِّی حَلِیْم الْعَفِیفَ المُتَعفِّفَ۔
لوگوں سے ایسی اچھی باتیں کرو جنہیں تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ گالیاں دینے والے، مؤمنین کو طعن و تشنیع کرنے والے اور فحش گفتگو کرنے والے کو سخت ناپسند کرتا ہے، جب کہ باحیا، بردبار اور پاک دامن شخص کو پسند کرتا ہے۔ {المیزان جلد اول ذیل آیہ۔ مجمع البیان ۱: ۱۹۲۔ بحار الانوار ۶۵: ۱۵۲}
اسی طرح اخلاق عملی کی تعلیم دیتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ
(سورہ النحل، آیت 90)
"یقینا اللہ عدل اور احسان اور قرابتداروں کو (ان کا حق) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے شاید تم نصیحت قبول کرو۔”
یہ آیت اخلاق حسنہ کے جامع تقاضوں کو بیان کرتی ہے کہ ہم نہ صرف دوسروں کے ساتھ انصاف کریں، بلکہ احسان اور خیر خواہی کا رویہ بھی اپنائیں۔عدل و احسان اور صلہ رحمی معاشرے کے مثبت اور بے حیائی، برائی اور زیادتی منفی احکام ہیں۔ مثبت کے فروغ اور منفی کی روک تھام سے معاشروں میں انسانی قدروں کی روشنی پھیلتی ہے۔
اخلاق حسنہ کی عملی صورتیں
1. نرم گفتاری
نرم گفتاری اخلاق حسنہ کا ایک اہم جزو ہے۔ ہمارے الفاظ دوسروں کے دل جیت سکتے ہیں یا انہیں زخمی کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ و ہارونؑ کو فرعون جیسے کافر و متکبر کے پاس بھیجتے ہوئے فرمایا:
اِذۡہَبَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی دونوں فرعون کے پاس جائیں کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔
فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ پس دونوں اس سے نرم لہجے میں بات کرنا شاید وہ نصیحت مان لے یا ڈر جائے۔(سورہ طہ، آیت 44)
اگرچہ فرعون سرکش ہو گیا ہے تاہم گفتگو میں پھر بھی نرمی ہو کیونکہ انداز کلام میں اگر شیرینی نہیں ہے تو مضمون کلام خواہ کتنا ہی منطقی اور معقول کیوں نہ ہو کلام موثر واقع نہیں ہوتا۔
شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ اس بابت لکھتے ہیں:
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: اِنَّہٗ طَغٰی فرعون سرکش ہو گیا ہے لیکن موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے لیے نرم لہجے میں بات کرنے کا حکم ہے۔ یعنی وہ اگرچہ سرکش ہو گیا ہے مگر اسے سرکش کہہ کر خطاب نہیں کرنا۔
اہم نکتہ: انداز کلام خود کلام سے زیادہ مؤثر ہے۔
احادیث اہل بیتؑ:
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں:
مَنْ لَانَ كَلَامُهُ وَطَابَ خُلُقُهُ أَحَبَّهُ النَّاسُ
(الکافی، جلد 2، صفحہ 102)
"جس کی گفتگو نرم ہو اور اس کا اخلاق پاکیزہ ہو، لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔”
نصیحت آموز نکتہ: اپنی گفتگو میں ہمیشہ نرمی اور ادب کو ملحوظ رکھیں۔ اگر کوئی آپ سے سخت کلامی کرے تو صبر سے کام لیں اور جواب میں نرمی اختیار کریں۔ یہ عمل نہ صرف آپ کے کردار کی عکاسی کرے گا بلکہ معاشرے میں محبت کو فروغ دے گا۔
2. ایمانداری
ایمانداری اخلاق حسنہ کی بنیاد ہے۔ یہ نہ صرف اللہ کے ساتھ ہمارے تعلق کو مضبوط کرتی ہے بلکہ معاشرے میں اعتماد کا ماحول پیدا کرتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
(سورہ التوبہ، آیت 119)
"اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔”
حدیث: رسول اللہؐ نے فرمایا:
عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ، فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ
(بحار الانوار، جلد 77، صفحہ 81)
"تم پر لازم ہے کہ سچ بولو، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔”
نصیحت آموز نکتہ: اپنے وعدوں کو پورا کریں، چاہے وہ چھوٹا سا وعدہ ہی کیوں نہ ہو۔ ایمانداری سے نہ صرف آپ کی ساکھ بڑھتی ہے بلکہ معاشرے میں اعتماد کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔
3. حیاء
حیاء ایمان کا زیور اور اخلاق حسنہ کا لازمی حصہ ہے۔ یہ انسان کو فحاشی اور بداخلاقی سے بچاتی ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا:
الْحَيَاءُ مِنَ الْإِيمَانِ
(الکافی، جلد 2، صفحہ 106)
"حیاء ایمان کا حصہ ہے۔”
امام علیؑ فرماتے ہیں:
أَفْضَلُ الْحَيَاءِ أَنْ تَسْتَحْيِ مِنْ نَفْسِكَ
(غرر الحکم، حدیث 2314)
"بہترین حیاء یہ ہے کہ تم اپنے آپ سے شرم کرو۔”
نصیحت آموز نکتہ: اپنے لباس، گفتگو، اور طرز عمل میں حیاء کو اپنائیں۔ یہ نہ صرف آپ کے ایمان کی حفاظت کرے گی بلکہ معاشرے میں عزت و احترام کا باعث بنے گی۔
4. صبر و تحمل
صبر و تحمل اخلاق حسنہ کا ایک عظیم پہلو ہے جو ہمیں مشکل حالات میں ثابت قدم رکھتا ہے اور دوسروں کے ساتھ ہمارے تعلقات کو بہتر بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
(سورہ ہود، آیت 115)
"اور صبر کرو یقینا اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔”
حدیث: امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:الصَّبْرُ رَأْسُ الْإِيمَانِ
"صبر ایمان کا سر ہے۔”(الکافی، جلد 2، صفحہ 128)
نصیحت آموز نکتہ: اختلافات یا تنازعات کے وقت صبر سے کام لیں۔ دوسروں کی بات سن کر ان کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ عمل معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے۔
5. خدمت خلق
خدمت خلق اخلاق حسنہ کا عملی مظہر ہے۔ دوسروں کی مدد کرنا نہ صرف اللہ کی رضا کا ذریعہ ہے بلکہ معاشرے میں محبت اور اتحاد کو بھی بڑھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ(سورہ المائدہ، آیت 2)
"اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔”
حدیث: امام رضاؑ فرماتے ہیں:
مَنْ فَرَّجَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللّٰهُ عَنْهُ كُرْبَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ
(بحار الانوار، جلد 75، صفحہ 331)
"جس نے کسی مومن کی پریشانی دور کی، اللہ اس کی قیامت کے دن کی پریشانی دور کرے گا۔”
نصیحت آموز نکتہ: چھوٹے چھوٹے اعمال خیر، جیسے کہ کسی کی مالی مدد، تعلیم و تربیت میں مدد، حوصلہ افزائی، یا کسی کو وقت دینا، معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اپنے اردگرد کے ضرورت مندوں کی مدد کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔

معاشرتی ہم آہنگی اور اخلاق حسنہ کا باہمی تعلق
اخلاق حسنہ معاشرتی ہم آہنگی کی بنیاد ہے۔ جب ہم نرم گفتاری، ایمانداری، حیاء، صبر، اور خدمت خلق کو اپناتے ہیں، تو معاشرے میں نفرت، اختلاف، اور تنازعات کم ہوتے ہیں۔ بداخلاقی، جیسے کہ غیبت، بدزبانی، اور خودغرضی، معاشرے میں انتشار اور دوری کا باعث بنتی ہے۔ امیر المومنین ؑ نے جب مالک اشتر کو مصر کا گورنر بنایا تو ان کے نام اپنے مشہور و معروف آئین حکمرانی پر مشتمل مکتوب میں فرمایا:
اَطْلِقْ عَنِ النَّاسِ عُقْدَةَ كُلِّ حِقْدٍ، وَ اقْطَعْ عَنْكَ سَبَبَ كُلِّ وِتْرٍ، وَ تَغَابَ عَنْ كُلِّ مَا لَا یَضِحُ لَكَ، وَ لَا تَعْجَلَنَّ اِلٰى تَصْدِیْقِ سَاعٍ، فَاِنَّ السَّاعِیَ غَاشٌّ وَّ اِنْ تَشَبَّهَ بِالنّٰصِحِیْنَ.
لوگوں سے کینہ کی ہر گرہ کو کھول دو، اور دشمنی کی ہر رسی کاٹ دو، اور ہر ایسے رویہ سے جو تمہارے لئے مناسب نہیں بے خبر بن جاؤ، اور چغل خور کی جھٹ سے ہاں میں ہاں نہ ملاؤ۔ کیونکہ وہ فریب کار ہوتا ہے، اگرچہ خیر خواہوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔(نہج البلاغہ مکتوب 53)
اس سے پیغام ملتا ہے کہ معاشرتی ہم آہنگی کے لیے ہمیں اپنے مفادات سے ہٹ کر دوسروں کے حقوق اور جذبات کا خیال رکھنا چاہیے اور معاشرے میں مثبت رویوں کو فروغ دینا چاہیے۔
نصیحت آموز واقعہ
اخلاق رسول ص اور عُدی بن حاتم کا قبول اسلام
حضرت عُدی (اس نام کا درست تلفظ "اُدائے” ہے) بن حاتم طائی کے قبول اسلام کا واقعہ موجود ہے جو رسول اللہ ﷺ کے بہترین اخلاق سے متاثر ہو کر پیش آیا. یہ واقعہ آپ ﷺ کے حسنِ خلق کا ایک خوبصورت نمونہ ہے.
اس واقعے کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
• حضرت عدی بن حاتم طائی اپنے قبیلے کے سردار تھے اور عیسائی مذہب پر تھے.
• جب اسلامی لشکر نے ان کے قبیلے پر فتح حاصل کی تو بہت سے لوگوں کو قیدی بنایا گیا، جن میں عدی بن حاتم کی بہن سفانہ بنت حاتم بھی شامل تھیں.
• سفانہ کو دیگر قیدیوں کے ساتھ مدینہ میں رکھا گیا. جب رسول اللہ ﷺ ان کے پاس سے گزرے تو سفانہ نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ وہ ان پر احسان فرما کر انہیں آزاد کر دیں، یہ کہتے ہوئے کہ ان کے والد فوت ہو چکے ہیں اور سرپرست بچھڑ گیا ہے.
• رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ ان کا سرپرست کون ہے؟ جب سفانہ نے عدی بن حاتم کا نام لیا تو آپ ﷺ نے پوچھا: "کیا وہی جو اللہ اور اس کے رسول سے دور بھاگتا ہے؟”.
• یہ سوال و جواب دو دن تک جاری رہا. تیسرے دن جب سفانہ نے دوبارہ درخواست کی، تو حضور ﷺ نے ان پر احسان فرمایا اور انہیں اور دیگر قیدیوں کو آزادی دے دی.
• جب سفانہ جانے لگیں تو آپ ﷺ کو خبر دی گئی. آپ ﷺ نے انہیں ایک جوڑا، سواری اور سفر خرچ دے کر اعزاز و اکرام کے ساتھ رخصت کیا.
• جب سفانہ اپنے بھائی عدی بن حاتم کے پاس ملک شام پہنچیں، تو عدی ان کی پریشانی میں تھے. سفانہ نے انہیں حضور ﷺ کے عمدہ اخلاق اور سخاوت کے بارے میں بتایا اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ فوراً محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں. انہوں نے کہا کہ اگر وہ نبی ہیں تو جلد جانا باعث فضیلت ہے، اور اگر بادشاہ ہیں تو وہ لوگوں کی قدر کرنا جانتے ہیں اور عزت والوں کو ذلیل نہیں کرتے.
• عدی بن حاتم مدینہ پہنچے اور مسجد میں حضور ﷺ سے ملاقات کی. آپ ﷺ نے ان کا پرجوش استقبال کیا اور انہیں اپنے گھر لے گئے.
• راستے میں ایک کمزور بوڑھی عورت نے آپ ﷺ کو روکا اور دیر تک اپنی مشکلات بیان کرتی رہی، اور آپ ﷺ نرمی سے اس کی باتیں سنتے رہے. یہ دیکھ کر عدی نے دل میں کہا کہ یہ بادشاہوں کا رویہ نہیں.
• گھر پہنچ کر آپ ﷺ نے عدی کو بیٹھنے کے لیے ایک چمڑے کا گدا دیا اور خود زمین پر بیٹھ گئے. یہ دیکھ کر عدی کو یقین ہو گیا کہ یہ بادشاہوں والا معاملہ نہیں.
• آپ ﷺ نے عدی سے ان کے مذہب اور قبیلے سے متعلق سوالات کیے جن سے عدی کو اندازہ ہوا کہ آپ ﷺ واقعی اللہ کے سچے رسول ہیں.
• حضور ﷺ کے عمدہ اخلاق، تواضع، مہمان نوازی، اور انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کو دیکھ کر عدی بن حاتم بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا.
یہ واقعہ واضح طور پر دکھاتا ہے کہ کس طرح رسول اللہ ﷺ کے اعلیٰ اخلاق اور نرمی نے ایک مخالف سردار کے دل کو جیتا اور اسے اسلام کی طرف راغب کیا۔اسی طرح بہت سے لوگ آپ کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔

عملی نصیحتیں:
1. نرم گفتاری: اپنی زبان کو ہمیشہ پاکیزہ اور خیر خواہ رکھیں۔ غیبت، بدزبانی، اور جھوٹ سے پرہیز کریں۔
2. ایمانداری: اپنے وعدوں اور عہد کو پورا کریں، چاہے وہ چھوٹا سا معاملہ ہی کیوں نہ ہو۔
3. حیاء: اپنے لباس، گفتگو، اور طرز عمل میں اسلامی اقدار اور شرم و حیا کو ملحوظ رکھیں۔
4. صبر و تحمل: مشکل حالات اور اختلافات میں صبر سے کام لیں اور دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
5. خدمت خلق: اپنے وقت، وسائل، یا صلاحیتوں سے دوسروں کی مدد کریں، خاص طور پر ضرورت مندوں اور کمزوروں کی۔تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button