محافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

زندگی نامہ جناب سیدہ کونین فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا

کتاب ” صحیفہ زھرا سلام اللہ علیھا” سے اقتباس
مؤلف: علی اصغر رضوانی
فاطمہ (س) ، وہ کوثر ہے جو خدا نے انہیں عطا کی ہے۔
فاطمہ (س) ، شجرہ طوبیٰ سے اٹھنے والی وہ خوشبو میں ہیں جسے شب معراج رسالتمآب ہمراہ لائے تھے۔
فاطمہ (س) ، شجرہ طوبیٰ کا وہ پھل ہے جسے شب معراج رسالتمآب نے تناول فرمایا۔
فاطمہ(س) ، وہ الھیات سے مانوس ہستی ہیں جو اپنی ولادت سے پہلے اپنی والدہ ماجدہسے ہم کلام ہوتی تھی۔
فاطمہ(س) ، ذبح عظیم کی مادر گرامی ہیں جس کی وجہ سے انہیں ام ابیھا بولا جاتا ہے۔
فاطمہ(س) ، جنت کے جوانوں کے سردار حسنین شریفین کی مادر گرامی ہیں۔
فاطمہ(س) ، مباھلہ نجران میں مرکزی نقطہ ہیں۔
فاطمہ(س) ، باپ، شوہر اور بیٹوں کے درمیان حدیث کسآ میں محور ہیں۔
فاطمہ(س) ، محراب عبادت میں ملکوت کو منور کرنے والی ہیں۔
فاطمہ(س) ، بہشتی اور حوروں سے مانوس مخلوق ہے جس کے بازوں پر تازیانوں کے زخم ہیں۔
فاطمہ(س) ، ایسی معصومہ ہیں جس کا غضب و رضا اللہ کا غضب اور رضا ہے۔
فاطمہ(س) ، مرضیہ، محدثہ، طاہرہ، بتول اور منصورہ سماوات ہے۔
فاطمہ(س) ، امام وقت کی غم گسار ہیں۔ سخت ترین حالات میں بھی حتی کہ حضرت محسن کی شہادت کے وقت بھی حضرت فضہ سے امیر المومنین کے متعلق پوچھا ۔
فاطمہ(س) ، اس مہدی، برحق کی والدہ ہیں جو ا ہلبیت اطہار کے انتقام لینے والے ہیں۔
فاطمہ(س) ، تسبیح و تہلیل کی صداؤں میں اونٹ پر سوار ہو کر محشر میں نمودار ہوں گی۔
فاطمہ(س) ، اپنے حسین کی قمیض لئے اپنے چاہنے والوں کی شفاعت کی خاطر بارگاہ ایزدی میں حاضر ہوں گی۔
امام جواد علیہ السلام نے فرمایااے آزمائشوں سے گزرنے والی خاتون! خداوند تبارک و تعالیٰ نے آپ کی خلقت سے پہلے آپ کو آزمایا، امتحان لیا، اور اس امتحان میں آپ کو صابر پایا، اور ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہم آپ کی تصدیق کرنے والے اور آپ سے خصوصی ارادت رکھنے والے لوگ ہیں، اور جو کچھ آپ کے والد گرامی اور ان کے جانشین لائے ہیں اس پرصابر ہیں،پس اگر ہمارا یہ عقیدہ درست ہے تو ان دونوں کی تصدیق کے بدلے ہمیں اپنے ساتھ متصل فرماتا کہ اپنے آپ کو بشارت دے سکیں کہ آپ سے مودت اور دوستی کی وجہ سے پاک ہو گئے ہیں۔
(التھذیب ۶:۹ جمال الاسبوع ۶۸ بحار الانوار ۱۰۰:۱۹۴)
جناب فاطمہ زھرا (س) کی ولادت با سعادت:
کسی بھی شخصیت کا زیادہ تعلق خاندان، والدین اور معاشرے سے ہوتا ہے۔ والدین اپنی گود سے ہی اولاد کی اساس اور بنیاد تشکیل دیتے ہیں اور اس کو اپنے روحانی اور اخلاقی سانچے میں ڈھال کر معاشرے کے حوالے کرتے ہیں۔
پیغمبر اسلام(ص) جیسی عظیم الشان شخصیت جو روحانی برتری، اخلاق حسنہ، بلند ہمتی اور فدا کاری اور شجاعت جیسے اوصاف سے مزین ہے سے ہر مسلمان بلکہ کسی بھی صاحب دانا وبینا سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ان کی عظمت و بزرگی کیلئے یہی کافی ہے کہ خداوند تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے، اے محمد آپ خلق عظیم کے مالک ہیں۔ آپ کی مادر گرامی خدیجہ نامی خاتون تھیں، جو سرمایہ دار عورت تھیں اور تجارت کرتی تھیں، بہت سے لوگ خدیجہ کیلئے تجارت کرتے تھے، جبسے انہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کو تجارت کی غرض سے منتخب کیا، تو انکی ایمانتداری اور صداقت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں، لہذا انہیں شادی کا پیغام بھجوایا، کیونکہ حضرت خدیجہ نے بعض دانشمندوں سے سن رکھا تھا کہ یہ آخرالزمان نبی ہیں۔
وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کی دعوت پر لبیک کہا اور اپنی تمام تر دولت بغیر کسی شرائط کے ان کے اختیار میں دے دی، عائشہ کہتی ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) ہر وقت خدیجہ کو خوبیوں کے ساتھ یاد کرتے تھے، تو ایک دن میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ خدیجہ ایک بوڑھی عورت تھی، جبکہ خدا نے اس سے بہتر آپ کو عطا کیں ہیں، تو پیغبر اسلام غضبناک ہوئے اور فرمایا، خدا کی قسم، اس سے بہتر خدا نے مجھے نہیں دیں، خدیجہ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں جب دوسرے انکار کر رہے تھے، اس وقت میری تصدیق کی جب دوسرے مجھے جھٹلا رہے تھے، اور اس وقت اپنی تمام دولت میرے اختیار میں دی جب دوسروں نے مجھے محروم کیا، اور میری نسل کو اس کی اولاد سے قرار دیا۔
روایات میں ہے، کہ جب جبرئیل پیغمبر اسلام(ص) پر نازل ہوتے تو عرض کرتے کہ بارگاہ ایزدی سے خدیجہ کو سلام پہنچادیں اور انہیں کہیں خداوند تبارک و تعالیٰ نے بہشت میں ان کے لئے ایک خوبصورت محل تعمیر کیا ہے۔ ایک روز جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا کہ خداوند تبارک و تعالیٰ نے سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ چالیس دن اور چالیس راتیں خدیجہ سے الگ ہو کر عبادت اور تہجد میں مشغول رہیں اور پھر پیغمبر اسلام(ص) خداوند حکیم کے حکم کے مطابق چالیس دن تک خدیجہ کے گھر نہیں گئے، اس عرصے میں پیغمبر اسلام(ص) راتوں کو نماز اور عبادت میں مصروف ہو تے اور دن میں روزے رکھتے۔ جیسے ہی چالیس دن پورے ہوئے فرشتہ آیا اور جنت سے لائی ہوئی غذا پیش کرتے ہوئے عرض کی آج رات اس بہشتی غذا سے تناول فرمانا، رسول خدا نے ان ہی جنتی اور روحانی غذاؤں سے روزہ افطار کیا، جیسے ہی پیغمبر اسلام(ص) نماز کیلئے اٹھے، جبرئیل آئے اور عرض کی، کہ اے رسول خدا آج رات مستجی نمازوں کو چھوڑ کر حضرت خدیجہ کے گھر جائیں، کیونکہ خدا نے ارادہ کیا ہے کہ آپ کی صلب سے ایک پاکیزہ اولاد پیدا کرے۔
امام جعفرصادق ؑ فرماتے ہیں جب سے خدیجہ ؑ نے رسول خدا ؐ سے عقد کیا، مکہ کی عورتوں نے آپ سے قطع تعلق کر لیا تھا اور آپ کے گھر آنا جانا بند کردیا تھا، وہ اس وجہ سے غمگین رہتی تھیں، لیکن جیسے ہی حضرت فاطمہ (س) سے حاملہ ہوئیں تو تنہائی کے غم سے نجات پاگئیں اور اپنے شکم میں موجود بچے سے مانوس ہوگئیں اور اس سے باتیں کرتی رہتیں۔ جبرئیل پیغمبر اسلام(ص) اور حضرت خدیجہ کو خوشخبری سنانے کیلئے آئے اور کہا کہ اے پیغمبر اسلام(ص) خدیجہ کے رحم میں ایک ایسی بیٹی ہے جس سے تیری نسل چلے گی، وہ پیغمبر دین کے پیشواؤں اور اماموں کی ماں ہوگی جو وحی کے منقطع ہوجانے سے تیرے جانشین ہوں گے، جیسے ہی پیغمبر اسلام(ص) نے پروردگار جہاں کا پیام خدیجہ کو پہنچایا تو وہ بہت خوش ہوئیں۔
جی ہاں!پروردگار جہاں نے کچھ اس طرح کا ارادہ کر رکھاتھا کہ پاک و پاکیزہ نسل نبوی فقط فاطمہ سے ہی چلے اور یہ پاکیزہ زمین اس شرف و عزت والے درخت کو اپنے دامن میں پروان چڑھائے، نسل پیغمبر ہی اولاد فاطمہ ہیں اور پیغمبر کی ان پر خصوصی توجہ اس کی بہترین دلیل ہے۔
نام
امام جعفرصادق ؑ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ ؑ کے نو نام ہیں، فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، ذکیہ، راضیہ، مرضیہ، محدثہ، زہرا۔
آپ کے نام مختلف مناسبتوں سے رکھے گئے ہیں، اسم اور مسمی کے درمیان مطابقت توجہ طلب ہے اور یہاں پر فقط دو ناموں (فاطمہ، محدثہ) کے متعلق عرض کرنا ہے۔
نام اور شخصیت
اس بات کی تائید بہت سی روایت سے ملتی ہے۔
(الف) لغت میں فطم کے معنی کاٹنے والا، جدا کرنے والا کے ہیں، اور فاطم اور فاطمہ بمعنی کٹا ہوا کے ہیں، امام رضا علیہ السلام پیغمبر اسلام(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت(ص) کیلئے فاطمہ نام دکھنے کی علت یہ ہے کہ وہ اور ان کے شیعہ جہنم کی آگ سے الگ ہیں۔
امام محمد باقر سے روایت ہے کہ آپ کے نام فاطمہ رکھنے کی علت یہ ہے آپ نے علم دودھ کے ذریعہ سے اخذ کیا ہے یعنی وہ علم و دانش کا مرکز ہیں۔
امام جعفرصادق سے روایت ہے کہ آپ کا نام فاطمہ رکھنے کی علت یہ ہے کہ شر اور برائی آپ کے وجود اقدس سے جدا ہیں۔
(ب) ان کے ناموں سے ایک نام محدثہ ہے، محدث وہ ہوتا ہے جس پر فرشتہ نازل ہو، جس طرح بارہ امام محدث تھے اسی طرح فاطمہ بھی محدثہ ہیں۔
امام جعفرصادق سے روایت ہے کہ پیغمبر کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا محدثہ تھیں البتہ پیغمبر نہ تھیں، اسی وجہ سے انکو محدثہ کہتے ہیں، کیونکہ فرشتے آسمان سے اتر کر آپ سے ہمکلام ہوتے جس طرح مریم بنت عمران سے ہمکلام ہوتے تھے۔
روایات میں واضح طور پر اس موضوع کے متعلق آیا ہے پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت کے بعد خداوند تبارک و تعالیٰ نے آنحضرت(ص) کی تسلی اور تشفی کیلئے فرشتوں کو آپ سے مانوس کردیا، حضرت جبرئیل آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آنحضرت(ص) کی زندگی کے بعد ہونے والے واقعات سے خبر دیتے، حضرت امام علی ان کو تحریری طور پر محفوظ کر لیتے، ان آثار کو مصحف فاطمہ کہتے ہیں، جو آئمہ سے ہوتے ہوئے اب امام زمان (عجل) کی خدمت میں ہیں۔
آپ(س) کی تاریخ تولد اور اس کا تعین:
فاطمہ زھرا (س) انتہائی عظیم المرتبت والدین سے پیدا ہوئیں، لیکن تاریخ ولادت بلکہ سال ولادت بھی صحیح طور پر واضح نہیں ہے۔ مورخین نے فقط آپ کے بارے میں ہی متفق نہیں ہیں بلکہ ھادیان اور آئمہ معصومین کی تاریخوں اور مزید یہ کہ انکی تاریخ تولد بلکہ پیغمبر اسلام(ص) کی تاریخ وفات جیسے اہم ترین موضوع پر بھی متفق نہیں ہیں۔ بہرحال جو کچھ آسمانی ستارے کی تاریخ تولد کے بارے میں کہا گیا ہے، اس میں تین مشہور قول ہیں۔ الف۔ بعشت سے پانچ سال قبل، ب۔ بعشت کے پانچ سال بعد پیدا ہوئیں۔ البتہ تمام راویوں اور علماء و محدثین کی باتوں میں ایک قوی اور قابل توجہ قرینہ پایا جاتا ہے، جو واضح کرتا ہے کہ آنحضرت(ص) کی ولادت بعثت کے بعد میں ہوتی ے اور وہ قرینہ آپ کی ولادت اور معراج النبی کے درمیان ارتباط سے ہے کیونکہ روایات میں آیا ہے کہ پیغمبر نے فرمایا ہے کہ شب معراج مجھے جنت سے سیب دیا گیاجس سے میری بیٹی زہرا کا وجود اقدس اسی سبب سے تشکیل پایا۔ علاوہ ازیں علماء شیعہ معراج کو بعشت سے دو سال بعد سے لیکر ہجرت سے چھ ماہ قبل تک لکھتے ہیں۔
دوسری طرف سے کتاب شریف امالی میں شیخ صدوق علیہ الرحمة سے روایت ہے کہ جناب سیدہ کی ولادت کے موقع پر قریش اور بنی ہاشم کی خواتین سے کوئی بھی حضرت خدیجہ کی مدد کیلئے نہیں آئیں۔ بلکہ کہنے لگیں کہ اے خدیجہ اس وقت ہماری بات نہیں سنی اور ابو طالب کے یتیم بھتیجی سے شادی کرلی۔
مسلمہ بات ہے کہ اگر تاریخ تولد کو بعثت سے پانچ سال بعد قبول کرلیں، تو اس مدت میں تو یقینا پیغمبر مددگار رکھتے تھے بلکہ ایک طبقہ ایسا تھا جو دل و جان سے پیغمبر کا شیدائی تھا اور حضرت خدیجہ غیر مسلموں سے امداد کی نیاز مند ہی نہ تھیں، اور یتیم ابوطالب کے طعنے بھی بے بنیاد تھے۔ دوسری طرف سے چند شیعہ اور سنی روایات جناب فاطمہ کی ولادت کو خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے ساتھ مربوط کرتے ہیں، یہ تعمیر نو والی داستان، اور حجر اسود کے نصب کرنے میں پیغمبر کوقاضی قرار دینے والی باتیں مسلماً بعثت سے پہلے یا اوائل بعثت میں تھیں، کیونکہ بعثت کے پانچویں سال میں قریش پیغمبر سے دشمنی رکھتے تھے، لہذا اس حکم کی قضا پیغمبر کو نہ دیتے۔
شیعہ روایت میں اس طرح ہے کہ سیدہ بعثت سے پانچ یا دو سال بعد پیدا ہوئیں۔ جبکہ اہل سنت کی روایات بعثت سے پانچ سال پہلے والے قول کی تائید کرتی ہیں۔
حقیقی بات یہ ہے کہ بزرگ و عظیم المرتبت شخصیات کی تاریخ ولادت یا شہادت یا رحلت اتنی اہم نہیں ہوتی بلکہ جو چیز ایسے برجستہ اور عظیم المرتبت شخصیات کی زندگیوں سے آئندہ نسلوں کیلئے قابل توجہ ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ جان لیں کہ وہ بے نظیر لوگ کون تھے، کیسے زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے دور میں اور آئندہ کیلئے معاشرے میں کیا اثر چھوڑ گئے ہیں۔
حضرت فاطمۃ الزہرا (س) کا بچپن:
حضرت فاطمہ علیھا السلام نے اپنی انتہائی شفیق ماں حضرت خدیجہ علیھا السلام کی گود میں پرورش پائی اورپاکیزہ دودھ جو شرافت، نجابت، بردبادی اور توحید پرستی جیسے صاف شفاف چشمہ اور مرکز سے ملا ہوا تھا سیراب ہوتی رہیں۔ جناب سیدہ کی شیرخوارگی کے ایام اور بچپن صدر اسلام کے انتہائی خطرناک اور بحرانی ایام پر محیط ہیں۔ زندگی کا کچھ حصہ شعب ابی طالب میں گذرا، تقریباً تین سال تک آپ نے سوائے شعب ابی طالب کے کچھ نہیں دیکھا۔
جب آپ اور بنی ہاشم شعب ابی طالب کی تنگ گھاٹی سے نجات پاتے ہیں اور اپنے گھروں کو واپس لوٹتے ہیں، تو زندگی کے مناظر اور آزادی جیسی نعمتیں آپ کیلئے خوش کن تھیں لیکن افسوس کہ خوشی کے ایام دوام پیدا نہ کرسکے، کیونکہ اپنی انتہائی شفیق ماں حضرت خدیجہ کے سایہ سے محروم ہوجاتی ہیں، جس سے ان کی حساس روح افسردہ ہوجاتی ہے۔ ماں کی شفقت سے محرومی کے بعد پیغمبر اسلام(ص) کی محبت آپ سے بڑھ گی۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ رسول خدا جب تک آپ کو پیار نہیں کرلیتے سوتے نہیں تھے۔ اس قسم کے حادثات اور مسلسل مشکلات ممتاز اور عظیم لوگوں کیلئے فقط روح کی تقویت کا سبب ہوتے ہیں بلکہ ان کی اندرونی استعداد اور پوشیدہ صلاحیتوں کو ابھارتے ہیں اور مشکلات کے مقابلے میں پائیداری کا سبب بنتے ہیں۔
جی ہاں حضرت فاطمہ ؑ کی زندگی میں موجود بحرانوں اور سختیوں نے نہ فقط ان کی روح کو متاثر کیا بلکہ ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشی، اور ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے میں مدد دی۔
آپ کے وجود اقدس میں انسانیت، جوانمردی، عفت و بزرگواری جیسے خواص جو کسی خاتون میں ممکن نہیں ہو سکتے تھے موجود تھے، وہ خود فخر و مباہات کرتے ہوئے کہتی کہ میں نے مدرسہ نبوت میں تربیت پائی ہے اور رسالت کی درس گاہ میں کمال پایا ہے۔ اس گھر میں جو فرشتوں کے اترنے کا محل اور وحی کے نزول کی جگہ تھی پرورش پائی، اور اپنے باپ اور شوہر جو مجسمہ انسان کامل تھے ان سے استفادہ کیا۔ حضرت ابو بکر سے گفتگو کے دوران جس انداز میں آیات قرآنی سے استفادہ کیا یہ ایک حقیقت کو ظاہر کررہی ہے کہ آپ قرآن کی آیات پر مکمل عبور رکھتیں تھیں، ایسے کیونکر نہ ہو جبکہ رسول خدا کی زبان اقدس سے قرآن سنتی تھیں، اور پیغمبر اور علی کے وجود میں اس کی تجلیاں دیکھتی تھیں اپنی روح کو قرآن کے مفاہیم کے ساتھ منطبق کرتے ہوئے احکام اور اپنے وظائف اس سے استخراج کرتی تھیں کیونکہ آپ بھی اہل بیت کی طرح فصاحت و بلاغت سے بہرہ مند تھیں۔ اپنی گفتار کی قوت سے دلوں پر حکمرانی کرتی تھیں، زورِ بیان سے جانوں کو اپنے اختیار میں لے لیتی تھیں اور بہترین انداز میں بات کرتی تھیں، یہ ساری باتیں ابو بکر سے فدک اور امر خلافت میں بحث کرتے ہوئے واضح کی تھیں۔
جناب فاطمۃ الزہرا (س) کی شادی:
جب سے آسمان رسالت سے خورشید رخ "زہرا” نمودار ہوا اور پھر جلالت و عظمت کے افق پر کامل ہوا، تو تمام لوگوں کی فکریں اور نگاہیں آپ کی طرف تھیں۔
اصحاب پیغمبرؐ چونکہ آپ کی اہمیت سے واقف تھے اور جانتے تھے اس لئے دروازہ رسالت پر شادی کے پیغام بھیجے، لیکن پیغمبر ہر بار ٹال جاتے تھے۔کفو کی تشخیص کوئی معمولی کام نہیں بلکہ انسان اس کو سمجھنے سے عاجز ہے فقط وہ ذات جو لوگوں کے ضمیروں سے آگاہ ہے جانتا ہے کہ کون کس کا کفو ہے اور موجودات عالم میں کون کس کے برابر ہے۔ اس حوالے سے حضرت فاطمہ کا انتخاب امیر المومنین کے لئے ایک الٰہی انتخاب ہے، زہرا کیلئے شوہر اور کفو خود ذات احدیث نے چنا، اس آسمانی نکاح کاخطبہ خود پروردگار نے پڑھا، اور اس ازدواج مقدس کے گواہ ذات پیغمبر گرامی اور حضرت جبرئیل اور خود فرشتے ہیں۔
آپ کے مقام و مرتبہ سے جہالت اور ناواقفی کی وجہ سے عمر اور ابوبکر جیسے لوگ رشتے کے پیغام بھیجتے تھے۔ لیکن پیغمبر اسلام(ص) سب کے جواب میں یوں فرماتے کہ فاطمہ کنیز خدا ہے۔ لہذا میں اس میں کسی قسم کا اختیار نہیں رکھتا، تنہا خداوند قدوس جانتا ہے کہ زہرا کیلئے کفو اور ہمسر کون ہے۔ چھٹے امام فرماتے ہیں۔ لو لا ان امیر المومنین تروجھا لھا کاان لہا کفو الی یوم القیامۃ علی وجہ الار ض ادم فمن دونہ
ترجمہ: اگر حضرت علی علیہ السلام حضرت زہرا سے عقد نہ کرتے تو حضرت آدم سے لے کر قیامت تک آنحضرت(ص)(ص) کے لئے کفو پیدا نہ ہوتا۔
جناب فاطمہ زھرا (س) کی ازدواجی زندگی:
جس طرح آنحضرت(ص) کی پوری زندگی نمونہ ہے شوہر کے گھر میں بھی بے نظیر زندگی گزاری۔ بعینہ اسی طرح ان کے شوہر باپ، اور فرزند نمونہ تھے۔
حضرت امام علی ؑ اور حضرت زہراؑ کی باہمی زندگی پیغمبراسلام ؐکے ارشادات کے سائے میں گزری۔ وہ دونوں زندگی کے معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے تھے۔ معمولاً معاشی مشکلات ان کے دامن گیر رہیں۔ حتی کہ خدمت گذار اور نوکر رکھنے کے لئے مالی وسائل نہ تھے۔ جو حضرت امام علی ؑ کو مشکل اور سخت کاموں میں مدد دے، ایسا بہت کم ہوا ہے کہ یہ شفیق اور مہربان میاں بیوی خنک اور چھوٹے بستر پر سردی کی وجہ سے چین سے سو سکے، اگر اوڑھنی کو پاؤں پر ڈالیں تو سر خالی اور اگر سر کو چادر میں کریں تو پاؤں ننگے ہو جاتے، حضرت زہرا طبیعتاً بے نیاز اور پرسکون تھیں۔ انہوں نے اپنے والد گرامی سے سن رکھاتھا کہ حقیقت میں بے نیازی ثروت سے نہیں ہوتی بلکہ بے نیازی انسان کی طبیعت اور نفس کے غنی ہونے میں مضمر ہے۔
اسی طرح اپنے والد گرامی سے سن رکھا تھاکہ خداوند قدوس چاہتا تھا کہ مکہ کے بیابانوں کو سونے سے بھر کر مجھے دے، لیکن میں نے عرض کیا، پروردگار میں پسند کرتا ہوں کہ ایک دن خالی پیٹ رہوں تو دوسرے دن سیر ہو کر کھاؤں، تاکہ جس دن خالی پیٹ رہوں تیری بارگاہ میں تضرع اور عرض نیاز کروں اور جس دن سیر ہوں تیری حمد و ثنا اور نعمتوں پر شکر بجالاؤں۔
انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک دن پیغمبر اسلام(ص) نے ہم سے پوچھا؟ کہ عورتوں کیلئے سب سے اچھی چیز کیاہے؟ کوئی بھی اس کا جواب نہیں جانتا تھا، حضرت علی علیہ السلام فوراً حضرت فاطمہ کے پاس آئے، اور ان سے سارا ماجرا بیان کیا، آنحضرت(ص)(ص) نے فرمایا کہہ کیوں نہیں دیا عورتوں کے لئے بہترین چیز یہ ہے کہ وہ نامحرم کو نہ دیکھے اور نامحرم اس کو نہ دیکھ سکیں۔
حضرت امام علی نے واپس آکر پیغمبر اسلام(ص) کے سوال کا جواب عرض کردیا، پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا کہ اے علی کس نے آپ کو اس کا جواب بتلایا ہے؟ فرمایا حضرت فاطمہ نے، اس وقت پیغمبر نے فرمایا حقیقتاً فاطمہ میرے بدن کا ٹکڑا ہے۔
کچھ ہی عرصے بعد ا س معمولی سے گھر کو انتہائی پیارے اور روح افزا بچوں نے روشن کردیا، لہذا یہ نیک میاں بیوی حسن، حسین اور محسن اور زینب و ام کلثوم جیسی اولاد کی نعمت سے سرفراز ہوتے ہیں۔
تینوں بیٹوں کے نام پیغمبر اسلام(ص) نے رکھے جبکہ دونوں صابزادیوں کے نام حضرت زہرا نے رکھے۔
سایہ پدری سے محروم ہونا:
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے ابھی زندگی سے کچھ ہی بہاریں گذاریں تھیں کہ وقوع پذیر ہونے والے واقعہ نے ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے اور وہ واقعہ پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت ہے۔
حضرت زہرا پیغمبر اسلام(ص) کی بیماری کے دوران ہمیشہ ان کی خدمت میں رہیں، جیسے ہی دھن مبارک پیغمبر سے یہ فرماتے ہوئے سنا، تمہارے غم و دکھ، تو دکھ بھرے لہجے میں فریاد بلند کی کیسے غم و دکھ؟
پیغمبر اسلام(ص) حضرت فاطمہ کی حالت زار پر پریشان ہوئے، تو اپنی بیٹی کے دل کو آرام پہنچانے کیلئے فرمایا، اے بیٹی آج کے بعد باپ کیلئے پریشان نہ ہونا۔
حضرت فاطمہ زہرا ؑ کو یاد آنے لگا کہ باپ نے بڑے رازدارانہ اندا زمیں فرمایا تھا کہ بیٹی تیری موت کا وقت بھی نزدیک ہے، اور اہل بیت علیھم السلام سے سب سے پہلے مجھ سے ملاقات کرے گی، اور مزید یاد آیا کہ پیغمبر نے مجھے بشارت دی تھی کہ اے فاطمہ جان کیا اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ سید النساء العالمین ہیں، حضرت زہر اباپ کی وفات کے بعد کبھی ہنسی نہیں، بلکہ اس قدر زیادہ ہوئی کہ تاریخ کے ان زیادہ چھ رونے والے افراد میں شمار ہونے لگیں، اور اس قدر زیادہ روتیں کہ اہل مدینہ تنگ آکر مطالبہ کرتے ہیں کہ یا دن میں روئیں یا رات میں روئیں، آخر کار جناب سیدہ رونے کیلئے جنت البقیع جاتیں، ایک مرتبہ اپنے باپ کے غم میں یوں اشعار پڑھے۔
ماذا علی من شم تربة احمد
ان لا یشم مدی الزمان غوالینا
قل للمغیب تحت اطباق الشری
ان کنت تسمع صرختی ندائیٰا
صبت علی مصائب لوانها
صبت علی الایام صرن لیالیٰا
قد کنت ذات رحمی بظل محمد
لا اخش من ضیم و کان حما لیٰا
فا لیوم اخضع للذلیل واتقی
ضیمی، وادفع ظالمی بردائیٰا
فاذا بکت قمریة فی لیلها
شجنا علی غصنٍ بکیت صباحیٰا
فلا جعلن الحزن بعدک مونسی
ولا جعلن الدمع فیک و شاحیٰا
ترجمہ:۔
کیا پرواہ ہے اس کو جو پیغمبر کی مٹی سے ایسی خوشبو سونگھے
گویا تمام عمر میں ایسی خوشبو نہیں سونگھی۔
اے خاک کے نیچے اپنے رخ کوچھپانے والے
بولو کیا میرے نالہ فریاد کی آوازیں سن رہے ہو
مجھ پر ایسی مصیبتیں آئیں اگراگریہ مصیبتیں روشن دنوں پرآتیں تووہ اندھیری راتوں میں بدل جاتےمیں جب تک پیغمبر کے سایہ اور ان کی حمائیت و تائید میں تھی کسی دشمن اور کینہ پرور سے نہیں ڈرتی تھی لیکن آج ذلیل لوگوں کے سامنے عاجز ہوں اور ڈر رہی ہوں کہ مجھ پر ظلم کیا جائے جبکہ اکیلی خود دفاع کررہی ہوں
جب پرندے ہنگامہ رات میں اپنے اپنے آشیانوں سے گریہ و نالہ بلند کرتے ہیں، تو میں بھی بار بار آہ و فغاں کرتی ہوں اے پدر جان تیرے غموں کو اپنے لئے مونس قرار دیا ہےاور تیرے سوگ میں غم میرے دامن سے متصل ہو گیاہے۔
فاطمہ زہرا ؑ اپنے شفیق اور مہربان والد کی وفات پر بہت زیادہ روتی تھیں، دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی حسرتیں اور آہیں کھلی فضا میں بکھر جاتیں ۔ جب پیغمبر اسلام(ص) کے جنازے کو قبر میں اتار چکے تو کسی ایک صحابی سے یوں کہا، کہ کس طرح تیرا دل پیغمبر اسلام(ص) کو منوں مٹی تلے اتارنے کے لئے راضی ہوا۔ اور ایک دم اس طرح فریاد بلند کی۔
اغیرآفاق السماء و کورت
شمس النهار والظلم العصران
والارض من بعدی النبی
اسفاعلیه کثیرة الرجفان
ترجمہ:۔
آسمان کے کنارے بکھر سے گئے ہیں، اور سورج دن کو تاریکی میں ڈوب گیا ہے اور دنوں نے اندھیری راتوں کا سماں ڈھال لیا ہے۔ اور زمین ان کی وفات کے بعد ان پر اظہار تاسف کے لئے غمگین تھی اور لرز رہی تھی۔
جناب سیدہ کی شھادت:
حضرت فاطمہ علیھا السلام پیغمبر اسلام(ص) کے بعد نوے دن یا پچھتر دن زندہ رہ سکیں۔ اور اس عرصے میں کسی نے ان کو خوش نہیں دیکھا، کہتے ہیں کہ اپنی زندگی کے آخری روز اپنے معمولی سے بستر پر دراز ہوئیں تو کئی گھنٹوں تک سوتی رہیں، اس دوران میں اپنے والد گرامی کو خواب میں فرماتے سنا، اے پیاری بیٹی میری طرف آؤ میں تجھ سے ملنے کا مشتاق ہوں۔ تو میں نے عرض کی کہ میں آپ کے دیدار کیلئے بہت زیادہ مشتاق ہوں، تو پھر پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا تو آج رات میرے پاس ہو گی، حضرت زہرا جب نیند سے بیدار ہوئیں، اور آنکھیں کھولیں تو طبیعت میں تازگی لوٹ آئی، گویا آپ کیلئے بہترین زندگی موت سے کچھ دیر پہلے تھی، وہ اس وجہ سے کہ بہت جلد غموں اور دنیا کے دکھوں سے نجات پا کر اپنے والد گرامی سے ملاقات میں خوشی کا احساس کر رہی تھی، تو دوسری جانب ان کے دل کو آگ لگی تھی کہ انتہائی مہربان اور شفیق شوہر کو چھوڑنے والی ہیں۔ وہ شوہر جو دشمنوں اور قسادتوں سے بھری دنیا میں سوائے خدا کے اور حضرت زہرا کے کوئی ہمدم و غمگسار نہیں رکھتا تھا، ان سنگین حالات میں حضرت زہرا مرضیہ ان کی حامی و ناصر اور دفاع کرنے والی تھیں، آج اگر وہ دنیا سے چلی جائیں تو ان کی جگہ کون لے گا؟ اپنی چھوٹی چھوٹی اولاد کا مسئلہ ذہن میں تھا، آپ کے ناموں میں ایک نام "حانیہ” ہے کیونکہ آپ اپنے شوہر اور اولاد کے متعلق بہت مہربان اور شفیق ہے اور وہ بہت جلدی اپنے دل کے ٹکڑوں سے علیحدہ ہونے والی ہیں۔ اور اس کی رضاعت کے ساتھ راضی تھیں۔
وہ اب قریب المرگ تھیں لیکن کینہ پرور لوگوں کے کینے، حسد، قسادتوں اور سنگدلیوں سے خصوصاً وہ لوگ جو منافقانہ انداز میں کہ دائرہ ایمان میں داخل ہوئے اور اسلام پر پشت سے خنجر گھونپنے والوں سے دل پارہ پارہ ہو چکا تھا۔
وہ زہرا جو صبر و بردباری کا مجسمہ ہیں آج موت کی آرزو کر رہی ہیں، اور لقاء اللہ کی امید لئے بیٹھی ہیں، انہوں نے اپنے باپ کی رحلت کے بعد ایک بھی خوشی کا لمحہ نہیں دیکھا، بلکہ جب سے پیغمبر اسلام(ص) بستر بیماری پر تھے، آنحضرت(ص) نے دیو سیرت انسان نما چہروں کو دیکھا تھا جن کے خیالات سے خیانت جھلک رہی تھی کہ وہ پیغمبر اسلام(ص) کی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے متعلق وصیتوں کو روندتے ہوئے اسلام کو اپنے صحیح راستے سے منحرف کردیں گے۔ ان کا دل اس بات سے بوجھل تھا کہ مسلمانوں نے اپنی بیٹی اور داماد کی حمایت میں آواز بلند نہیں کی، وہ بستر بیماری پر ایسی موت کے استقبال میں ہیں جو اپنے وقت کے امام اور شوہر اور بیٹیوں کی حمایت میں آرہی ہے۔ اور وہ ایسی موت کا استقبال کر رہی ہیں جو پیغمبر اسلام(ص) کی فریاد قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودة فی القربی کے مقابل میں مسلمان اپنے ربہر اور مقتداء کو کیسے جواب دتیے ہیں، ہاں وہ وراثت جو پیغمبر اپنے بدن کے ٹکڑے کے لئے چھوڑتے ہیں غصب کر لیتے ہیں، اور اہل بیت کے گھر کو آگ لگا دیتے ہیں اور حضر ت زہرا کو دروازے اور دیوار کے درمیان دبا دیتے ہیں، حتی کہ چھ ماہ کے محسن کی موت کا سبب بنتے ہیں، اس بے کسی کی حالت میں اپنی کنیز حضرت فضہ کو اپنی پناہ گاہ سمجھ کر کہتی ہیں اے فضہ مجھے اٹھاؤ میرا محسن شہید ہو گیا ہے۔
وہ بستر پر ایسی موت کے استقبال میں ہیں، جو ایسے لوگوں کی طرف سے آرہی تھی جنہوں نے اپنے دونوں کانوں سے پیغمبر کی زبانی سن رکھا تھا جس نے فاطمہ کو اذیت دی گویا اس نے مجھے اذیت دی اور حضرت زہرا کی ناراضگی گویا خدا کی ناراضگی ہے۔
وہ لوگ جن کی آنکھوں کو دنیا کی چند روزہ زندگی نے پر کر رکھا تھا اور دنیاوی مقام و منصب سے عشق نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھ، گویا اپنے رب کو بھی بھول گئے، وہ لوگ اپنے آپ کو مسلمانوں کے امور کا ناخدا سمجھ بیٹھے ہیں حقیقت میں ابھی تک کفر کی زنجیر ان کی گردونوں میں آویزاں ہے۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ دین الہی کو ایسے لوگوں کے حوالے کیا جائے جو کفر و بت کی پرستی کے گرداب میں غوطہ زن رہے ہوں، اور پتھروں اور لکڑی سے بنے بتوں کے سامنے سر بسجود رہے ہوں، اور ان کا اعمال نامہ ہر قسم کی نجاست اور غلط کاریوں سے پر ہو؟
کیا یہ ہو سکتا ہے کہ دین خدا کو ایسے لوگوں کے حوالے کردیا جائے جن کی پوری زندگی میں روشنی کا نشان تک نہ ہو؟ پردے کے پیچھے تو عورتیں بھی اپنے آپ کو دانا سمجھتی ہیں، جنگوں میں انتہائی ذلت کے ساتھ فرار کرتے تھے اور اپنے پیغمبر پر انتہائی ناروا کاموں کی وجہ سے الزام لگاتے تھے اور معارف قرآن سے ناواقف تھے گویا قرآن پڑھا ہی نہیں ہے۔
وہ ایسی موت کے استقبال میں ہیں کہ گویا اپنے شوہر نامدار اور اپنی پیاری اولاد سے جدائی کا وقت آن پہنچا ہے۔ جیسے ہی اٹھنے کی سکت ختم ہوتی نظر آئی، تو اپنے بستر بیماری سے اٹھتی ہیں اور گھر کے کام کاج میں مشغول ہوجاتی ہیں، اتنے میں امیر المومنین علی علیہ السلام گھر میں آتے ہیں اور کام کرنے کی وجہ پوچھتے ہیں۔ بی بی اپنا خواب نقل کردیتی ہیں۔
اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ بی بی تمام مدت سے دل میں رکھے ان تمام واقعات سے اپنے شوہر نامدار کو آگاہ کریں اور اپنی وصیتیں کریں۔ حضرت امام علی سب کو کمرے سے باہر بھیج دیتے ہیں اور خود اپنی شفیق رفیقہ حیات کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں۔ اے چچا کے بیٹے پوری زندگی میں مجھ سے جھوٹ اور خیات نہیں دیکھی ہو گی اور مزید یہ کہ اس عرصے میں کسی بھی وقت آپ کی مخالفت نہیں کی۔ حضرت نے فرمایا آپ اس سے کہیں زیادہ دانا، متقی اور عزت دار ہیں کہ میں آپ کو اپنی مخالفت کرنے پر سرزنش کروں۔ آپ سے جدائی میرے لئے بہت سخت اور دشوار ہو گی لیکن کیاکریں کہ موت سے کسی کو گریز نہیں۔ خدا کی قسم آپ کے جانے سے رسول خدا کی مصیبت دوبارہ زندہ ہوجائے گی۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ یہ بہت بڑی مصیبت ہے۔ اس مصیبت میں کوئی مددگار نہیں ہے اور ایسا غم ہے جو اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ حضرت فاطمہ نے فرمایا، میں آپ کو وصیت کرتی ہوں کہ میرے جنازے میں جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا شریک نہ ہوں۔ ہرگز ایسے لوگوں میں سے کوئی مجھ پر نماز جنازہ نہ پڑھے۔ مجھے آدھی رات میں جب آنکھیں بند ہوجائیں اور لوگ سو جائیں دفن کرنا۔
بعض روایات سے یوں استفادہ ہوتا ہے کہ وقت احتضار میں امیر المومنین گھر میں نہیں تھے۔ فقط حضرت اسماء گھر میں تھیں اور دنیا سے چلے جانے کے بعد امام حسن اور امام حسین علیھما السلام گھر میں آئے۔ اور حضرت اسماء سے کہتے ہیں کہ ہماری ماں پہلے تو اس وقت میں نہیں سوتی تھیں۔ وہ جواب دیتی ہیں اے فرزندان رسول خدا آپ کی ماں سوئی نہیں بلکہ دنیا سے جا چکی ہیں۔
یہ بات سنتے ہی بچوں نے فریاد بلندکی اور ماں کے جنازے پر گر پڑے۔ اور اپنی ماں سے گفتگو کی۔ اتنے میں حضرت اسماء بچوں سے امیر المومنین کو مسجد سے بلانے کے لئے کہتی ہیں۔ حضرت امام علی اپنی وفادار رفیقہ حیات کے پاس بیٹھ کر کہتے ہیں کہ آج کے بعد کس سے دل کی بات کروں گا؟ پیغمبر اسلام(ص) کی وفات کی طرح آج پھر مدینہ کے لوگوں نے رونے اور بینوں کی آوازیں سنیں، لوگ اس انتظار مییں تھے کہ تشیع جنازہ میں شریک ہوکر نماز جنازہ پڑھیں گے۔ لیکن امیر المومنین نے تشیع جنازہ میں تاخیر کردی تاکہ وصیت کے مطابق عمل کیا جائے۔
جب مدینے والے سو گئے اور خاموشی چھا گئی۔ امام علیہ السلام نے اس نحیف سے بدن کو جو چاند کی طرح کمرخمیدہ تھیں غسل و کفن دیا۔ اور پیغمبر اسلام(ص) کے دیئے ہوئے بہشتی حنوط سے حنوط کیا۔ ان مراحل کے بعد امیر المومنین نے اپنی اولاد کو آواز دی اے حسن، حسین، اے زینب، اے کلثوم، آؤ اور اپنی ماں سے الوداع کر لو کیونکہ جدائی کا وقت آن پہنچا ہے پھر اس کے بعد جنت میں ان سے ملاقات کرو گے۔ بچے گویا اسی انتظار میں تھے جلدی سے آئے اور خود کو ماں کے جنازے پر گرادیا۔ پھر آہستہ آہستہ رونا شروع کیا یہاں تک کہ ماں کے کفن کو آنسوؤں سے تر کردیا۔
بہرحال حضرت زہرا کے لئے قبر تیار کی گئی جس کی جگہ کسی کو بھی معلوم نہیں۔ اور ایسے ہی امام زمانہ عجل اللہ کے ظہور تک مخفی رہے گی۔ فضائل و مناقب کے مجموعہ کو دفنانے کے بعد امیر المومنین یوں گویا ہوئے۔ اے زمین اپنی امانت تیرے حوالے کی۔ یہ رسول خدا کی بیٹی ہے۔ اے فاطمہ تجھے اس کے حوالے کرتا ہوں جو مجھ سے زیادہ شائستہ اور حق دار ہے۔ اور جس سے خدا راضی ہوتا ہے۔ میں بھی اسی سے راضی ہوں۔
امیر المومنین اپنی زندگی کے سخت ترین دور سے گذر رہے تھے۔ کیونکہ اپنی زندگی کی شروعات میں ہی قیمتی ترین متاع اپنے ہاتھ سے دے چکے تھے۔ ان دکھ بھرے لمحات میں حضرت امام علی قبر سے مٹی کو ہاتھ میں اس انداز میں مسل رہے ہیں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور کہہ رہے ہیں۔
السلام علیک یا رسول اللّٰه عنی، السلام علیک عن ابتک وزائرتک ولبائتة فی الثری یقعتک، والمختاره اللّٰه لها سرعة اللحاق بک، قل یا رسول اللّٰه عن صفیتک صبری، وعفا عن سیده نساء العالمین تجلدی……،
بلی و فی کتاب اللّٰه یی انعم القبول، ان للّٰه وانا الیه راجعون، قد استرجعت الودیعة واخذت الرهینة واختلست الزهراء، فمااقبح الخضراء والغبراء یا رسول اللّٰه اما حزنی فسرمد، اما یسلی فمسهد وهم لا یبرح من قلبی، اویختار اللّٰه لی دارک التی انت فیها مقیم کمد مقیح و هم مهیح، سرعان مافزق اللّٰه بیننا، الی اللّٰه اشکو وستنبئک ابنتک بتضافر امتک علی، وعلی هضمها حقها، فاحفها السؤال واستخبرها الحال فکم عن غلیل متعلج بصدرها لم تجد الی بثه سبیلاً، وستقول و یحکم اللّٰه وهو خیر الحاکمین، والسلام علیکما یا رسول اللّٰه سلام مودع لا ولا قال، فان انصرف فلا عن ملالة، وان اقم فلا عن سوء ظن بما وعند اللّٰه الصابرین، واها واها، والصبر ایمن واجمل، ولو لا غلبة المستولین علینا لجعلت المقام عند قبرک الزاماً، والتلبت عنده عکونا ولا عولت اعوال الثکلی علی جلیل الرزیة، فبعین اللّٰه تدفن ابنتک سرا، ویهتضم حقها قهراً بیمنع ارثها جهراً، ولم یطل منک العهد، ولم یخلق منک الذکر فالی اللّٰه یا رسول اللّٰه المشتکی، وفیک یا رسول اللّٰه اجمل العزاء فصلوات اللّٰه علیها وعلیک ورحمة اللّٰه وبرکاته
ترجمہ: کلام امیر المومنین علیہ السلام
اے رسول خدا آپ پر سلام، آپ کی بیٹی اور آپ کی زیارت کرنے والی کی طرف سے سلام، جو آپ کی مقدس بارگاہ میں منوں مٹی تلے پر سکون سو رہی ہے۔ وہ جس کو خدا نے آپ سے ملاقات کے لئے سب سے پہلے چن لیا، ہم اس بات پر صابر ہیں کہ آپ کی محبوبہ حضرت زہرا کی آپ سے جدائی کم ہوگئی ہے لیکن سیدہ نساء العالمین کے فراق میں ہماری قوت برداشت ختم ہو رہی ہے۔
جی ہاں تقدیر الٰہی کے سامنے سرتسلیم خم کئے بغیر چارہ نہیں جب ہی تو کہہ رہے ہیں، ان لللّٰہ وانا الیہ راجعون، پس امانت لوٹالی گئی اور گروی شدہ چیز واپس لے لی گئی اور حضرت زہرا ان دکھوں سے نجات پا گئی۔
اے رسول خدا مجھے نیلا آسمان اور خاکی زمین بہت پست نظر آرہے ہیں میرے دکھ ہمیشہ رہنے والے ہیں، اور میری راتیں بیداری میں گزریں گی، اور غموں نے میرے دل میں آشیانہ بنا لیا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میرے لئے وہ گھر منتخب کر لے جس میں آپ مقیم ہیں گہرے دکھوں نے دل خون کردیا، اور ایسے غموں میں مبتلا ہوں جو ابل رہے ہیں، کتنی جلدی خدا نے ہمارے درمیان جدائی ڈال دی اور میں بارگاہ ایزدی میں اس کی شکایت کرتا ہوں۔
عنقریب آپ کی بیٹی آپ کو بتائیں گی کہ آپ کی امت میرے خلاف جمع ہو گئی ہے، اور فدک کے غصب ہونے کے متعلق پوچھنا، اور اپنی بیٹی سے بار بار پوچھنا کہ حالات سے پردہ اٹھائے۔
کیونکہ بعض دکھ ان کے سینے میں آگ کی طرح بھڑک رہے تھے جنہیں دنیا میں کسی سے بیان نہیں کر سکیں لیکن وہ جلد کہیں گی اور خدا فیصلہ کرے گا کیونکہ وہ بہترین قضاوت کرنے والا ہے،
اے رسول خدا آپ دونوں پر سلام، اس الوداع کہنے والے کو سلام جو نہ پریشان ہے اور نہ ناراض ہے، اور اگر یہاں سے چلاجاؤں تو یہ پریشانی کی وجہ سے نہیں، یا یہاں پر رک جاؤں تو اس وجہ سے نہیں کہ خدا کے صبر کرنے والوں سے کئے گئے وعدے سے بدگمان ہوں۔
صبر اور بردبادی مبارک اور سب سے پسندیدہ ہیں، اور اگر دشمنوں کے مخالف آجانے کا خوف نہ ہوتا تو آپ کی قبر کے پاس ہی اپنی قیام گاہ بنا لیتا اور بڑے سکون سے اعتکاف بیٹھنے والوں کی طرح یہی رک جاتا، اور اس ماں کی طرح بین کرتا رہت اجو اپنے جوان بیٹے کی موت پر بین کرتی ہے،
جی ہاں، پیغمبر آپ کی بیٹی خدا کے حضور میں رات کی تاریکی میں دفن کی گئی، جبراً اس کا حق چھینا گیا، واضح طور پر اس کو اپنی وراثت سے محروم کردیا گیا، حالانکہ آپ کے دنیا سے چلے جانے سے زیادہ عرصہ بھی نہ گذرا تھا، اور آپ کا نام بھی ذہنوں سے محو نہیں ہوا تھا،
پس رسول خدا میری شکایت فقط بارگاہ ایزدی سے ہے اور آپ بہترین دل جوئی کرنے والے ہیں، پس خداوند تبارک و تعالیٰ کا درود و سلام ہو رحمتیں اور برکتیں ہوں آپ پر اور حضرت فاطمہ پر۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button