مناقب امام موسیٰ کاظم عمناقب و فضائل

خوشبوئے حیات حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام(حصہ اول)

امامؑ علیہ السلام کے علمی طاقت وقوت اور مناظرے
بیشک حضرت امامؑ موسیٰ بن جعفر علیھما السلام کی زندگی نور ،کرامت اورحسن سلوک کا سرچشمہ ہے،ان کا فیض دائم ہے جس میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحا نیت ،جہاد،روش اور پا بندی دین کی جلوہ نما ئی با لکل مجسم شکل میں موجود ہے۔آپ کی سیرت و کردار کے مختصر حالات مندرجہ ذیل ہیں :
علمی طاقت وقوّت
راویوں اور محققین کا اس بات پر اجماع ہے کہ آپؑ اپنے زمانہ کے اعلم تھے ،آپ علوم ومعارف کی بڑی طاقت وقوت کے مالک تھے ، علماء اور راوی آپؑ کے علوم کے چشمے سے سیراب ہوئے ، وہ امامؑ کے زرین اقوال اور آداب کے متعلق جو فتویٰ دیتے اس کو لکھنے میں ایک دوسرے پر سبقت کرتے تھے،ائمہ اہل بیتؑ میں سب سے پہلے تشریع اسلام میں حلال وحرام کے باب کا آغاز کیا۔
(الفقہ الاسلامی مدخل لدراسة نظام المعاملات، صفحہ ١٦٠)
آپ ؑکے زمانہ میں آپ کے مدرسہ سے بڑے بڑے علماء اور فقہاء فارغ التحصیل ہوئے، ہم نے اپنی کتاب ”حیاةالامامؑ موسیٰ بن جعفر علیھما السلام”میں آپؑ کے اصحاب اور آپ سے حدیث نقل کرنے والے راویوںکی تعداد(٣٣١)بیان کی ہے ،ان علماء میں سے بعض آپؑ ہی کے دور میں علمی میدان میں فعال ہوئے جیسے بعض علماء نے امامؑت کے منکر اور دوسرے تمام فرق ومذاہب کے علماء کے ساتھ مناظرے کے میدان میں قدم رکھا جن میں سب سے نمایاں آپؑ کے صحابی ہشام بن حکم تھے ،انھوں نے برامکہ کے ساتھ بڑے اچھے مناظرے کئے اور بلاط عباسی میں امامؑت کے متعلق شیعوں کے مذہب کو اصل دلیل وبرہان کے وبرہان کے ذریعہ ثابت کیا۔ہم نے اپنی کتاب ”حیاةالامامؑ موسیٰ کاظم علیہ السلام”کی دوسری جلدمیںہشام بن حکم کے مناظروں کے متعلق تحریرکیاہے۔
امامؑ کے مناظرے
امامؑ موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اپنے دشمن اور بعض یہودی اور عیسائی علماء کے ساتھ حیرت انگیز اورمحکم مناظرے انجام دئے جو آپؑ کی علمی طاقت وقوت پر دلالت کرتے ہیں جو بھی آپ سے مناظرہ کرتاوہ عاجزوکمزورثابت ہو تا، امامؑ کے حجت ہونے کا یقین کرلیتا اور خود پر آپ کی علمی برتری کا معترف ہوجاتا آپ کے بعض مناظرے مندرجہ ذیل ہیں :
١۔نفیع انصاری کے ساتھ مناظرہ
نفیع انصاری امامؑ سے کینہ وبغض رکھنے والوں میں سے تھا،جب وہ عباسی مملکتوں میں امامؑ کا اکرام وتکریم ہوتا دیکھتاتو وہ غصہ سے بھر جاتا ،جب امامؑ ہارون کے پاس تشریف لے جارہے تھے تو ہارون کے دربان نے آگے بڑھ کر امامؑ کا بیحد استقبال کیا جب آپ ہارون کے پاس سے جانے لگے تو نفیع کے ساتھ عبدالعزیز نے کہا : یہ بزرگ کون ہیں ؟
یہ بزرگوار ابوطالب کی اولاد سے موسی بن جعفر ہیں ۔
نفیع نے کہا:میں نے اس قوم (یعنی بنی عباس)سے عاجز قوم نہیں دیکھی جو اس شخص کی اتنی ایسی تعظیم وتکریم کرتی ہے جو ان کو تخت حکومت سے نیچے اتارنے کے در پئے ہے،جان لے جب یہ باہر نکلیں گے تو میں ان کو ذلیل ورسوا کروں گا۔
عبدالعزیزنے اس کو امامؑ کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرنے سے منع کرتے ہوئے کہا: ایسی باتیں نہ کرو،یہ وہ اہل بیؑت ہیں جب بھی کسی نے ان سے ایسی باتیں کی ہیں اس کا ایسا جواب دیا جو قیامت تک کوئی جواب نہ لاسکے۔
جب امامؑ ہارون کے پاس سے نکلے تو نفیع نے آپ کے مرکب کی لگام پکڑتے ہوئے کہا: آپ کون ہیں ؟
امامؑ نے فرمایا:اے شخص اگر تم میرانسب پوچھنا چاہتے ہوتو میںاللہ کے حبیب کا فرزند ہوں، اسماعیل ذبیح اللہ کا فرزند ہوں اور ابراہیم خلیل اللہ کا فرزند ہوں،اگر تم میرے وطن کے متعلق سوال کرتے ہوتومیںاس شہرکارہنے والاہوںجس میں اللہ نے مسلمانوںاورتجھ(اگر تومسلمانوں میں سے ہے )پر حج کرنا واجب قرار دیا ہے ،اگر تم ہم پرفخر کرنا چاہتے ہو تو یاد رکھو میدان جنگ میں ہماری قوم کے مشرکوں نے تمہاری قوم کے مسلمانوں کو اپنے برابر کا نہیں سمجھا تھا اور میدان میں صاف کہدیا تھا کہ ہمارے برابر کے افراد کو ہمارے مقابلہ کیلئے بھیجو،میرے مرکب کی لگام چھوڑدے ” ۔
(نزہةالناظرفی تنبیہ الخاطر، صفحہ٤٥)
نفیع شکست کھاکر لوٹ گیا اس کو امامؑ کے بیان کئے ہوئے مطالب پر بے حد غصہ تھا ۔
٢۔ابویوسف کے ساتھ مناظرہ
ہارون نے اپنی موجودگی میں ابویوسف کو امامؑ موسیٰ کاظم سے فقہی مسائل پوچھنے کے لئے کہاکہ شاید امامؑ ان کا جواب نہ دے پائیں اور اسی طرح امامؑ کو رسواکیا جاسکے،ہارون رشید نے امامؑ کو ابویوسف کے سامنے حاضر کیاتواس نے امامؑ سے مندرجہ ذیل سوالات کئے:
ابویوسف : حالت احرام میں احرام باندھنے والے کے متعلق سایہ کر نے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟
فرمایا :”حرام ہے” ۔
سوال کیا کہ اگر کو ئی شخص خیمہ کے اندر چلا جائے یا گھر میں چلا جائے تو کیا حکم ہے ؟
فرمایا :”یہ حلال ہے” ۔
عرض کیا گیا : اِن دونوں میں کیا فرق ہے ؟
فرمایا :” حالت حیض میں عورت کی نماز کاکیا حکم ہے کیا عورت حالت حیض کے ایام کی نماز کی قضا بجالائے گی ؟”۔
اس نے کہا :نہیں۔
امامؑ :”کیاروزہ کی قضا کرے گی ؟”۔
اس نے کہا : ہاں ۔
امامؑ نے سوال کیا :”کیوں؟”
اس نے کہا :حکم خدا اسی طرح آیا ہے۔
امامؑ نے فرمایا:”تو اسی طرح یہ حکم بھی آیا ہے ”۔
ابو یوسف خا موش ہو گیا اور عاجزی کا اظہار کرنے لگا، اس نے ہارون سے کہا :آپ نے یہ میرے ساتھ کیا کیا ۔
(مناقب ،جلد ٣،صفحہ ٤٢٩)
٣۔ہارون رشید کے ساتھ مناظرہ
جب ہارون نے امامؑ موسیٰ علیہ السلام کو قیدخانہ میں ڈالدیااورآپ دوسال تک قیدکی سختیاں برداشت کرچکے تواس نے ایک دن امامؑ کو اپنے پاس بلابھیجا،جب آپ ہارون کے پاس پہنچے تو اس نے بڑے ہی غیظ وغضب کے ساتھ کہا:اے موسی بن جعفر علیھما السلام دو خلیفوں کے لئے خراج اکٹھا کیا جاتا ہے۔
امامؑ ؑنے بڑی ہی لطف ونرمی کے ساتھ اس سے مخاطب ہوکر فرمایا:”اے حاکم!میں تجھ سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں کہ تو میرے اور اپنے گناہ کا بوجھ اٹھائے ،ہمارے دشمنوںکی باتوںکوہمارے خلاف قبول کرے،توجانتاہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت سے ہی ہم پراتہامات لگائے جاتے رہے ،اگر تجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ قرابت ہے توکیامجھے اس بات کی اجازت ہے کہ میں تجھے ایک خبر سنائوں جس کو میرے پدربزرگوارنے اپنے آباء سے اور انھوں نے میرے جدامجد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے ”۔
ہارون :میں نے آپ کو اجازت دی ۔
امامؑ نے فرمایا:”مجھے میرے والد بزرگوار نے اپنے آباء سے اور انھوں نے اپنے جد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلام سے نقل کیا ہے :رشتہ دار جب رشتہ دار سے اپنا بدن مس کرتا ہے تو مل کر بے چین ہوجاتا ہے پس تو اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے ”۔
ہارون کے دل میں رحم آگیا اُس نے اپنا ہاتھ امامؑ کی طرف بڑھایااُن کو اپنی طرف کھینچا معانقہ کیا ،پھر انھیں اپنے اور قریب کیا اور امامؑ سے یوں گویا ہوا :آپ اور آپ کے جد نے صحیح فرمایا ہے ،میرے خون میں روانی آگئی ہے ،میری رگیں مضطرب ہو گئی ہیں یہاں تک کہ مجھ پر رقت طاری ہو گئی ،اور میری آنکھوں میں آنسو بھر گئے ہیں،میں آپ سے کچھ چیزوں کے بارے میں سوال کرنا چا ہتا ہوں ،جو میرے دل میں کچھ مدت سے کھٹک رہی ہیں اور ان کے متعلق میں نے کسی سے کو ئی سوال ہی نہیں کیا ہے ،اگر آپ نے اُن کا جواب دیدیا تو میں آپ کو آزاد کر دوں گا ،آپ کے بارے میں کسی کی کو ئی بات نہیں سنُوں گا ، مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ہے، لہٰذا آپ میری تصدیق فرمائیے جو چیزیں میرے دل میں ہیں اور میں آپ سے سوال کرتا ہوں ۔
امامؑ :”جن چیزوں کا علم میرے پاس ہے میں اُن کے سلسلہ میں ضرورتجھے بتائوں گا اگر تو مجھے اُن کے متعلق امان دے گا ”۔
آپ کیلئے امان ہے اگر آپ نے مجھے سچ بتلایا اور تقیہ نہیں کیا ،جو آپ بنی فاطمؑہ کی پہچان ہے۔
امامؑ ؑ:”جو کچھ پوچھناہے پوچھ لے ”۔
ہارون :آپ کو ہم پر کیوںفضیلت دی گئی جبکہ آپ اور ہم ایک ہی شجرہ سے ہیں ؟ عبدالمطلب کی اولاد ہمارا اور آپ کے باپ ایک ہی ہے ،ہم بنی عباس ہیں اور آپ ابوطالب کی اولاد ہیں ،جبکہ وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا تھے ،اور دونوں کے رشتہ برابر ہیں ۔
امامؑ :”ہم زیادہ قریب ہیں ”۔
ہارون :کیسے ؟
امامؑ :”چونکہ عبداللہ اور ابوطالب ایک ماں باپ کی اولاد ہیں ،اور تمہارا باپ عباس، عبداللہ اور ابوطالب کی ماں سے نہیں ہیں” ۔
ہارون:آپ یہ کیوںادعاکرتے ہیں کہ آپ نبی کے وارث ہیں اور چچا،چچاکے بیٹے کا حاجب ہے ،حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا سے جاچکے تھے اور ابوطالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے وفات پاچکے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا عباس زندہ تھے ؟
امامؑ :”اے حاکم!مجھے اس مسئلہ سے معاف رہنے دے، مجھ سے اس کے علاوہ اور دوسرے مسائل پوچھ لے ”۔
ہارون:نہیں ،آپ کو جواب دینا ہوگا۔
امامؑ :”تو تُو مجھے امان دے گا” ۔
ہارون:میں نے آپ کو کلام کرنے سے پہلے ہی امان دیدی ہے ۔
امامؑ :”حضرت علیؑ کافرمان ہے حقیقی اولاد کے ہوتے ہوئے چاہے وہ مذکرہویامونث کسی ایک کے لئے بھی ماں باپ،شوہراورزوجہ کے علاوہ میراث میں کوئی حصہ نہیں ہے ،لہٰذاحقیقی اولاد کے ہوتے ہوئے چچاکو کوئی میراث نہیں ملے گی،ہاں ،تیم عدی اور بنی امیہ کہتے ہیں:چچاوالدہوتاہے ، ان میں سے کوئی بھی حقیقی نہیں ہے اور ان کے پاس نبی کی کو ئی تائید نہیں ہے ”۔
پھر آپ نے اسی زمانہ کے فقہاء کا ایک جملہ نقل فرمایا جنہوں نے اسی مسئلہ میں وہی فتویٰ دیا تھا جو آپ کے جدامیرالمؤمنؑین نے دیاتھا۔اس کے بعد مزید فرمایا:”قدماء اہل سنت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:تم میں سب کے لئے حق فیصلہ کرنے والے علی ہیں،اسی طرح عمر بن خطاب کا کہنا ہے :ہمارے درمیان علی سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں اور وہ یعنی ”قضائ”اسم جامع ہے کیونکہ جن تمام چیزوں کے ذریعہ نبی کی مدح وثناکی جائے چاہے وہ قرائت ہے یافرائض اور علم ہو سب قضاوت میں داخل ہیں” ۔
ہارون نے امامؑ سے مزید وضاحت طلب کی۔
توامامؑ نے فرمایا:”جس نے ہجرت نہیں کی ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو وارث نہیں بنایا اور نہ ہی ہجرت سے پہلے اس کے لئے ولایت ثابت ہے ”۔
ہارون :آپ کے پاس کیا دلیل ہے ؟
امامؑ نے دلیل کے طورپر میںخداوند عالم کایہ قول پیش کیا :
’’وَالَّذِینَ آمَنُواوَلَمْ یُهاجَرُوا مَالَکُمْ مِنْ وَلاَیَتِهمْ مِنْ شَیْئٍ حَتَّی یُهاجِرُوا‘‘
(سورہ انفال، آیت ٧٢)
”اور جن لوگوں نے ایمان اختیار کر کے ہجرت نہیں کی ان کی ولایت سے آپ کا کو ئی تعلق نہیں ہے جب تک ہجرت نہ کریں ”۔
بیشک ہمارے چچا عباس نے ہجرت نہیں کی تھی ۔
ہارون کی تدبیر ناکام ہوگئی اور اس کی ناک بھویںچڑھ گئیں اور اس نے امامؑ سے کہا: کیا آپ نے ہمارے کسی ایک دشمن کویہ فتویٰ دیا ہے ،یا فقہاء میں سے کسی ایک فقیہ کو اس سے باخبر کیا ہے ؟
امامؑ :”مجھ سے تیرے علاوہ کسی اور نے یہ سوال ہی نہیں کیا”۔
ہارون کا غصہ کچھ ٹھنڈاہوااوراس نے امامؑ کی خدمت میں عرض کیا:کیوںآپ نے اہل سنت اور شیعوںکویہ اجازت دی ہے کہ وہ تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کرتے ہوئے یوں کہیں:یابنی رسول اللہ ، صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالانکہ آپ علی کی اولاد ہیں ،جبکہ انسان کو اس کے باپ سے منسوب کیاجاتا ہے ،فاطمہ صلب ہیں اور نبی آپ کے ناناہیں؟
امامؑ نے ہارون کی یہ بات اس واضح دلیل کے ذریعہ رد فرمائی:”اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زندہ کیاجائے اور وہ تمہاری لڑکی سے شادی کرنا چاہیں تو کیا تم اس کو قبول کرلوگے؟”۔
ہارون :کیوں نہیں ؟بلکہ میں اس بات پر عرب اور عجم پر فخر کروں گا۔
امامؑ :”لیکن نہ وہ مجھ سے مطالبہ کریں گے اور نہ میں ایسا کروں گا”۔
ہارون :کیوں؟
امامؑ :”کیونکہ وہ میرے والد ہیں تیرے والد نہیں” ۔
ہارون :مرحبا یا موسیٰ ،آپ اس سلسلہ میں کیا فرماتے ہیں :نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کو ئی فرزند نہیں تھا جبکہ نسل لڑکے سے چلتی ہے لڑکی سے نہیں ،اور آپ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کے فرزند ہیں ؟
امامؑ ”:میرے رشتہ کا واسطہ مجھے معاف رکھ ”۔
ہارون :نہیں ،اے اولاد علی اس سے متعلق آپ اپنی دلیل بیان کیجئے اور اے امامؑ موسیٰ کاظم آپ ان کے سردار ہیں ،آپ اس زمانہ میں امامؑ ہیں اور میں اس بارے میں آپ کومعاف نہیں کروں گا ؟
امامؑ :” کیا تیری اجازت ہے کہ میں جواب دوں ؟”۔
ہارون : بیان فرما ئیے ۔
اما م :خداوند عالم کا فرمان ہے :
’’ وَوَهبْنَا لَه ِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ کُلًّا ہَدَیْنَا وَنُوحًا ہَدَیْنَامِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وََیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَهارُونَ وَکَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ۔ وَزَکَرِیَّاوَیَحْیَی وَعِیسَی وَِلْیَاسَ کُلّ مِنْ الصَّالِحِینَ‘‘۔
(سورہ انعام ،آیت ٨٤۔٨٥)
”اور ہم نے ابراہیم کو اسحق و یعقوب دئے اور سب کو ہدایت بھی دی اور اس کے پہلے نوح کو ہدایت دی اور پھر ابراہیم کی اولاد میں دائود ،سلیمان ،ایوب ،یوسف ،مو سیٰ اور ہارون قرار دئے اور ہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں زکریا،یحییٰ عیسیٰ اور الیاس کو قرار دیا اور وہ سب صالحین میں تھے ”۔
اے حاکم ! عیسیٰ کا باپ کون ہے ؟
ہارون : عیسیٰ کاکو ئی باپ نہیں ہے ۔
امامؑ :”خداوند عالم نے حضرت عیسیٰ کو مریم کے ذریعہ انبیاء کی ذریت سے ملحق کیا اسی طرح ہم کو ہماری والدہ ما جدہ فاطمہ کے ذریعہ نبی کی ذریت سے ملحق کیا ”۔
ہارون نے اس سلسلہ میں امامؑ سے مزید دلیل کی خواہش کی ۔
امامؑ نے فرمایا :”خداوند عالم فرماتا ہے :
’’فَمَنْ حَاجَّکَ فِیه مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْانَدْعُ َبْنَائَنَاوََبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَاوَنِسَائَکُمْ وََنْفُسَنَاوََنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اﷲِ عَلَی الْکَاذِبِین‘‘
(سورہ آل عمران، آیت ٦١)
”پیغمبر علم آجانے کے بعدجو لوگ تم سے کٹ حجتی کریںان سے کہہ دیجئے کہ آئو ہم لوگ اپنے اپنے فرزند ،اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں ”۔
کو ئی بھی یہ ادعا نہیں کر سکتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چادر کے نیچے اور نصاریٰ سے مباہلہ کے وقت علی بن ابی طالب ،فاطمہ حسن اور حسین علیھم السلام کے علاوہ کسی اور کو اپنے ساتھ لیا ہو ”۔
ہارون کے پاس اور کو ئی دلیل باقی نہ رہی چونکہ امامؑ نے اس کی تمام دلیلوں کو رد فرما دیا ۔
(حیاةالامامؑ مو سیٰ بن جعفر ، جلد ١،صفحہ ٢٦١۔٢٦٥)
(اقتباس ازکتاب اہل بیت علیھم السلام کی سیرت سے خوشبوئے حیات: باقر شریف قرشی )

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button