امام حسن مجتبیٰ صلوات اللہ علیہ: کریم اہل بیتؑ

تحریر:حسنین احمد
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی ذاتِ مبارکہ تاریخِ اسلام میں ایک ایسی پرنور ہستی ہے جو کرم، سخاوت، حلم، اور صبر و ایثار کا بے مثال نمونہ ہے۔ مولا حسن صلوات اللہ علیہ”کریم اہل بیتؑ” کا لقب اس قدر ملا کہ یہ آپ کی پہچان بن گیا۔ آپ علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب نواسے، جنت کے نوجوانوں کے سردار، اور حضرت علی علیہ السلام و حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے پہلے فرزند ہیں۔ آپ کی زندگی کا ہر پہلو مسلمانوں کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہے، جس میں آپ نے کبھی اپنے ذاتی مفادات کو اہمیت نہیں دی، بلکہ ہمیشہ دین اور امت کی بھلائی کو مقدم رکھا۔
۱۔ کرم اور سخاوت کی زندہ مثال
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی سب سے نمایاں خصوصیت آپ کی بے مثال سخاوت تھی۔ آپ نے کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔ اسی وجہ سے آپ کو "کریم اہل بیتؑ” کا لقب دیا گیا۔
مالی ایثار:
تاریخ میں یہ واقعہ مشہور ہے کہ امام حسن علیہ السلام نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ اپنی ساری دولت، اور تین مرتبہ اپنی آدھی دولت اللہ کی راہ میں تقسیم کر دی۔ آپ کا یہ عمل محض مالی ایثار نہیں تھا بلکہ اللہ کی رضا کے لیے ہر چیز قربان کر دینے کی ایک عملی مثال تھی۔
غریبوں اور مسکینوں سے محبت:
مولا حسن مجتبٰی صلوات اللہ علیہ کا کرم صرف دولت تک محدود نہیں تھا۔ آپ یتیموں، مسکینوں اور غریبوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے، ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے اور ان سے محبت کا اظہار کرتے تھے۔
(کشف الغمہ، جلد 2، صفحہ 187)
اس کتاب میں امام حسنؑ کی سخاوت اور آپ کے کریم ہونے کے کئی واقعات بیان کیے گئے ہیں۔
۲۔ حلم اور بردباری کا پیکر
مولا حسن علیہ السلام کے کردار کی ایک اور اہم خوبی آپ کا حلم اور بردباری ہے۔ آپ نے کبھی کسی کی بدتمیزی یا بدزبانی کا جواب برائی سے نہیں دیا۔
شامی شخص کا واقعہ:
ایک بار ایک شامی شخص نے آپ کو برا بھلا کہا، اور جب وہ تھک گیا تو آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہاری کوئی اور حاجت بھی ہے؟ یہ سن کر وہ شخص شرمندہ ہوا اور اس نے آپ سے معافی مانگی۔ آپ نے اسے معاف کر دیا اور فرمایا کہ تم کو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو ہم تمہاری مدد کریں گے۔
حوالہ:
سیرت ابن ہشام، تاریخ یعقوبی اور دیگر کتبِ تاریخ میں یہ واقعہ مختلف اسانید سے موجود ہے۔
اہمیت:
یہ واقعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ حلم اور بردباری ہی ایک حقیقی مومن کی نشانی ہے۔ امام حسنؑ نے اپنے کردار سے یہ ثابت کیا کہ برائی کا جواب برائی سے نہیں، بلکہ نیکی اور معافی سے دینا چاہیے، تاکہ دشمن بھی دوست بن جائے۔
۳۔ صلح کی حکمت اور قربانی
امام حسنؑ کی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ، جو آپ کی حکمت، ایثار اور قربانی کا لازوال ثبوت ہے، آپ کا معاویہ کے ساتھ صلح کرنا ہے۔
امت کے لیے قربانی:
امام حسن علیہ السلام نے امت مسلمہ کو خانہ جنگی اور خونریزی سے بچانے کے لیے خلافت جیسے عظیم منصب کو چھوڑ دیا۔ یہ فیصلہ انتہائی مشکل تھا، لیکن آپ نے ذاتی نقصان اور دکھ کو امت کی بھلائی پر قربان کر دیا۔ یہ عمل نبی اکرم ﷺ کی اس پیشن گوئی کا مصداق تھا کہ "میرا یہ بیٹا سید ہے، اور امید ہے کہ اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کروائے گا۔”
(صحیح بخاری، حدیث نمبر 2704)
فکر انگیز پہلو:
اس صلح نے نہ صرف مسلمانوں کی جانیں بچائیں بلکہ ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ حق پر ہوتے ہوئے بھی اتحاد اور اخوت کی خاطر بڑے سے بڑے مفادات کو قربان کر دینا چاہیے۔ یہ عمل امام حسنؑ کی بصیرت اور دور اندیشی کا بھی ثبوت ہے۔ مولا حسن صلوات اللہ علیہ نے اس صلح کے ذریعے معاویہ کا "قصاص عثمان” کا بنایا ہوا خود ساختہ بیانیے کا پول بھی کھول دیا۔ صلح حسن علیہ السلام کے ذریعے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ معاویہ نے "قصاص عثمان” کے نام پر اپنے باطن میں خلافت کی لالچ چھپائی ہوئی تھی۔
خلاصہ
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی ذاتِ مبارکہ کرم، حلم، اور ایثار کا ایک مکمل پیکر ہے۔ آپ نے اپنی زندگی سے یہ ثابت کیا کہ عظمت کا معیار دولت یا اقتدار نہیں بلکہ اخلاقی فضائل اور اللہ کی رضا کے لیے قربانی ہے۔ آپ کو "کریم اہل بیتؑ” کا لقب اسی لیے ملا کہ آپ نے اپنے دل میں انسانیت کے لیے بے پناہ محبت اور سخاوت رکھی۔ آپ کی سیرت ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ہمیں بھی اپنے کردار میں کرم، سخاوت، اور صبر کو شامل کرنا چاہیے۔ آپ کی قربانیاں، خاص طور پر صلح کا فیصلہ، امت کے لیے اتحاد، اخوت، اور باہمی تنازعات کو حل کرنے کا ایک عملی طریقہ فراہم کرتی ہیں۔ یوں، امام حسنؑ کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ حقیقی کامیابی اسی میں ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کے لیے اپنی ہر چیز قربان کر دیں۔