سلائیڈرمصائب امام زین العابدین ؑمکتوب مصائب

مصائب علی ابن الحسین زین العابدین علیہ السلام امام سجاد (ع) اور واقعۂ کربلا:

امام سجاد (ع) واقعۂ کربلا میں اپنے والد امام حسین (ع) اور اولاد و اصحاب کی شہادت کے دن، شدید بیماری میں مبتلا تھے اور بیماری کی شدت اس قدر تھی کہ جب بھی یزیدی سپاہی آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کرتے، ان ہی میں سے بعض کہہ دیتے تھے کہ اس نوجوان کے لیے یہی بیماری کافی ہے جس میں وہ مبتلا ہے۔
(شیخ مفید، الارشاد، ج 2، ص 113/طبرسی، اعلام الوری،ج 1، ص 469)
روز عاشورا امام زین العابدین (ع) پر غشی کا طاری ہونا:
اگر امام حسین علیہ السلام اپنی زندگی میں امام زین العابدین علیہ السلام کو اپنا وصی نہ بنا گئے ہوتے تو زمین و آسمان باقی نہ رہتے۔ یہ ضروری ہے کہ حجت ِخدا ہر وقت رہے۔ خلق سے پہلے بھی حجت خدا، بعد میں بھی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ بھی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ولی اُٹھتا نہیں جب تک کہ دوسرے کو اپنا قائم مقام نہ بنا لے۔ آئمہ طاہرین میں یہی رہا۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام قید خانے میں ہیں اور زہر دے دیا گیا ہے اور آپ کی حالت بس قریب المرگ پہنچ چکی ہے۔ تیسرے دن آپ زمین سے اُٹھ نہیں سکتے تھے۔ لیٹ کر ہی اشاروں سے نمازیں ادا ہو رہی ہیں۔ ایک غلام تھا جو مقرر کیا گیا تھا کہ دروازہ اس وقت تک نہ کھولنا جب تک یہ مر نہ جائیں۔ یہ کھڑا ہوا ہے دروازے پر یہ تیسرے دن کا واقعہ ہے۔ اس کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان یکایک میرے سامنے آیا۔ وہ اتنا حسین تھا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے چودہویں رات کا چاند ہو۔ اُس نے حکم دیا کہ دروازہ کھول دو۔ میں نے کہا کہ بادشاہ کا حکم نہیں ہے۔
اُس نے کہا کہ ہٹتا کیوں نہیں۔ میرا باپ دنیا سے جا رہا ہے، میں اُس کی آخری زیارت کیلئے حاضر ہوا ہوں۔ چنانچہ غلام ایک طرف ہٹا۔ وہ جوان آگے ہوا، دروازہ خود بخود کھلا۔ وہ داخل ہوا اور دروازہ پھر بند ہو گیا۔ اس کو دیکھتے ہی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ہاتھ اُٹھا دئیے اور سینے سے لگا لیا۔ یہ کیوں ؟ یہ اس لیے کہ زمین حجت ِخدا سے خالی نہ رہ جائے۔
امام حسین علیہ السلام بھی آئے اپنے فرزند بیمار کے پاس۔ امام زین العابدین پر عالمِ غشی طاری ہے۔ آپ کو کچھ پتا نہیں کہ کیا ہو چکا۔ صبح سے اب تک آپ اس وقت آئے ہیں جب علی اصغر کو بھی دفن کر چکے۔ آخری رخصت کیلئے بیبیوں کے خیمے میں آئے ہیں اور آواز دی کہ میرا آخری سلام قبول کر لو۔ چنانچہ زینب نے پاس بلا لیا۔ بھائی سے لپٹ گئیں۔ بھیا ! کیا میرے سر سے چادر اُترنے کا وقت آ گیا ؟ کیا میرے بازوؤں کے بندھنے کا وقت آ گیا ؟ امام حسین (ع) نے آپ (ع) کو تسلیاں دیں۔ آپ نے فرمایا: بہن ! اتنی مضطرب نہ ہو۔ اگر تم اتنی مضطرب ہو جاؤ گی تو ان بیبیوں کو شام تک کون لے جائے گا ؟ تمہیں سنبھالنا ہے، خدا کے بعد یہ بیبیاں تمہارے حوالے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے بچے تمہارے حوالے ہیں۔ آپ نے وصیتیں کیں۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: بہن ! ذرا مجھے میرے بیمار بیٹے تک پہنچا دو۔
جنابِ زینب امام زین العابدین علیہ السلام کے خیمے میں لے گئیں۔ خداوند کسی باپ کو بیٹے کی یہ حالت نہ دکھائے۔ عالمِ غشی میں پڑے ہیں۔ صبح سے بخار کی جو شدت ہوئی ہے تو آنکھ نہیں کھول سکے، امام زین العابدین علیہ السلام امام حسین کے پاس بیٹھ گئے، بیٹے کی شکل دیکھی۔ حالت ملاحظہ کی، آوازدی: بیٹا زین العابدین ! باپ کو آخری مرتبہ دیکھ لو۔ اب میں بھی جا رہا ہوں۔ امام زین العابدین ؑ کی آنکھ نہ کھلی۔ شانے پر ہاتھ رکھا۔ شانہ ہلایا، آنکھ نہ کھلی۔ آواز دی، آنکھ نہ کھلی۔ ایک مرتبہ نبض پر ہاتھ رکھا، بخار کی شدت معلوم ہوئی۔ انجام یاد آ گیا کہ تھوڑی دیر کے بعد کیا ہونے والا ہے ؟ آخر باپ کا دل تھا، مولا حسین علیہ السلام رونے لگے۔ گرم گرم آنسو جو بیمار امام کے چہرے مبارک پر پڑے، آپ نے آنکھیں کھول دیں۔ دیکھا کہ ایک شخص سر سے پاؤں تک خون میں ڈوبا ہوا سامنے بیٹھا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر عابد ِ بیمار پریشان ہو گئے۔
امام حسین (ع) نے فوراً کہا: بیٹا ! گھبراؤ نہیں اور کوئی نہیں ، تمہارا مظلوم باپ ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کو خیال آیا کہ میرے باپ کے اتنے دوست اور رفقاء تھے، یہ کس طرح زخمی ہو گئے؟ آپ پوچھتے ہیں: بابا ! حبیب ابن مظاہر کہاں گئے ؟ فرمایا: بیٹا ! وہ مارے گئے۔ کہا مسلم ابن عوسجہ کوکیا ہوا ؟ کہا کہ وہ بھی مارے گئے۔ اس کے بعد پوچھا : پھر میرے بہادر اور جری چچا عباس علمدار کہاں گئے ؟ فرمایا: دریا کے کنارے بازو کٹائے سو رہے ہیں۔ عرض کرتے ہیں: بابا ! پھر بھائی علی اکبر کہاں ہیں ؟ فرماتے ہیں: بیٹا ! کس کس کا پوچھو گے ؟ وہ بھی نہیں، صرف میں رہ گیا اور تم رہ گئے ہو۔
میں اس لیے آیا ہوں کہ تمہیں آخری وصیت کروں اور اسرار ِامامت سپرد کر دوں۔ اس کے بعد کچھ فرمایا کہ جس کا تعلق اسرارِ امامت سے تھا اور ایک مرتبہ اُٹھے کہ بیٹا میں جا رہا ہوں۔ اب نہیں آؤں گا۔ دیکھو ! ماں بہنوں کا ساتھ ہے بازاروں میں جانا ہے دربار میں جانا ہے، جلال میں نہ آ جانا۔
اسیری کے ایام:
عاشورا سن 61 کے بعد، جب لشکر یزید نے اہل بیت کو اسیر کر کے کوفہ منتقل کیا، تو ان میں سے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے علاوہ امام سجاد (ع) نے بھی اپنے خطبوں کے ذریعے حقائق واضح کیے اور حالات کی تشریح کی اور اپنا تعارف کراتے ہوئے یزید کے کارندوں کے جرائم کو آشکار کر دیا اور اہل کوفہ پر ملامت کی۔
امام علی ابن الحسین علیہ السلام جو سجاد ، زین العابدین ، اور سید الساجدین ، جیسے القاب سے مشہور تھے، کربلا میں آئے تو 22 سالہ نوجوان تھے۔11 محرم کو عمر ابن سعد ملعون نے اپنے مقتولین کی لاشیں اکٹھی کروائیں اور ان پر نماز پڑھی اور انہیں دفنا دیا مگر امام حسین علیہ السلام اور اصحاب و خاندان کے شہداء کے جنازے دشت کربلا میں پڑے رہے۔ عمر سعد نے کوفہ کی طرف حرکت کا حکم دیا۔ عرب اور کوفے کے قبیلوں کے افراد نے ابن زیاد کی قربت اور خداوند کی لعنت حاصل کرنے کے لیے شہداء کے مطہر سروں کو آپس میں تقسیم کر کے نیزوں پر سجایا اور کوفہ جانے کے لیے تیار ہوئے اور حرم رسول اللہ (ص) کی خواتین، بچوں اور بچیوں کو بے چادر، اونٹوں پر سوار کیا گیا اور کفار کے اسیروں کی طرح انہیں کوفہ کی جانب لے گئے۔
جب یہ اسراء کوفے کے نزدیک پہنچے تو وہاں کے لوگ اسیروں کا تماشا دیکھنے کے لیے اکٹھے ہو گئے۔ ایک کوفی خاتون جو اپنے گھر کی چھت سے اسیروں کے کارواں کا تماشا دیکھ رہی تھی، نے اسراء سے پوچھا: تم کس قوم کے اسیر ہو ؟
جواب ملا : ہم اسیران آل محمد (ع) ہیں۔
چنانچہ وہ خاتون جلدی سے نیچے اتر آئی اور بیبیوں کے لیے چادریں، مقنعے اور لباس لے کر آئی۔
اب ذرا تصور کریں کہ امام سجاد علیہ السلام کا حال کیا رہا ہو گا ؟
ایک طرف سے بیماری کی وجہ سے نقاہت جسم مبارک پر طاری تھی، دوسری طرف سے اہل خاندان، بھائیوں، چچا زاد بھائیوں، رشتہ داروں، چچاؤں اور بابا کی شہادت سے دل ٹکڑے ٹکرے تھا اور پھر ان کے قلم شدہ سر آپ (ع) کے سامنے نیزوں پر جا رہے تھے مگر ان سب غموں اور دکھوں سے بڑا اور تکلیف دہ غم یہ تھا کہ آپ اس کے باوجود کہ امام تھے اور غیرت الہی کا مظہر تامّ و تمام تھے، آپ کے خاندان کی سیدانیاں بے مقنعہ و چادر آپ (ع) کے ہمراہ اسیر ہو کر جا رہی تھیں جبکہ چاروں طرف سے نامحرموں اور دشمنوں کی نظریں ٹکی ہوئی تھیں…
دار الامارہ میں اسیران آل محمد کے داخلے سے قبل، امام حسین (ع) کا سر مطہر ابن زیاد کے سامنے لایا گیا۔ ابن مرجانہ کے ہاتھ میں خیزران کی ایک چھڑی تھی جس سے امام کے لب و دندان پر وہ بے ادبی کرنے لگا۔
یہ بے ادبی اور جسارت حاضرین کے اعتراض و تنقید کا باعث بنی۔ رسول اللہ (ص) کے صحابی اور جنگ صفین میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ جہاد کرنے والے بزرگ صحابی زیدابن ارقم جو اس وقت بہت بوڑھے ہو چکے تھے، نے عبیداللہ سے خطاب کر کے تنبیہ کی:
اپنی چھڑی اٹھا لو ! خدا کی قسم میں نے پیغمبر اکرم (ص) کو دیکھا کہ جن لبوں اور دانتوں کو تم چھڑی مار رہے ہو، آپ (ص) ان کے بوسے لیا کرتے تھے۔ ابن ارقم یہ کہہ کر رونے لگے۔
یزید کے گورنر نے کہا: اگر تم پاگل اور عقل باختہ بوڑھے نہ ہوتے تو ابھی اسی وقت تمہارا سر قلم کر دیتا۔
ابن ارقم اسی وقت اٹھے اور دار الامارہ سے باہر نکلتے ہوئے کہا: اے عرب ! آج سے تم سب غلام بن گئے۔ تم نے فرزند فاطمہ (س) کو قتل کیا اور ابن مرجانہ کو اپنا امیر تسلیم کیا ! خدا کی قسم ! یہ شخص تمہارے نیک اور صالح افراد کو قتل کرے گا اور تمہارے جرائم پیشہ افراد سے کام لے گا۔
اسی مجمع میں رسول خدا (ص) کے ایک اور صحابی انس ابن مالک بھی موجود تھے جو امام حسین علیہ السلام کا سر دیکھ کر اور عبید اللہ کی جسارت کا مشاہدہ کر کے روئے اور کہا:
یہ رسول اللہ کے ساتھ بہت زیادہ شباہت رکھتے ہیں۔
اس کے بعد اسراء کو ابن زیاد کے دربار میں لایا گیا، ابن مرجانہ نے امام سجاد (ع) کو دیکھا تو کہا: تم کون ہو ؟
فرمایا: علی ابن الحسین ،
اس ملعون نے کہا: کیا علی ابن الحسین کو خدا نے کربلا میں نہیں مارا ؟
امام نے فرمایا: میرے ایک بھائی کا نام بھی علی تھا کہ جنکو تمہارے لوگوں نے قتل کر ڈالا ہے۔
ابن زیادنے کہا: خدا نے مارا ہے اسے۔
امام نے فرمایا: اللہ یتوفی الانفس حین موتھا،
خدا موت کے وقت انسانوں کی روح اپنے قبضے میں لے لیتا ہے،(سورہ زمر آیت 42)
ابن زیاد نے غصے میں کہا: میرے جواب میں دلیری دکھاتے ہو ؟ اپنے جلادوں کو حکم دیا کہ ان کا کلام قطع کر دیں اور ان کا سر قلم کر دیں۔
اسی وقت حضرت زینب (س) نے فرمایا: اے پسر زیاد ! تم نے جتنا ہمارا خون بہایا اتنا بس ہے اور امام سجاد کو جناب زینب نے اپنی آغوش میں لیا اور فرمایا: واللہ میں ان سے جدا نہ ہونگی۔ اگر تم انہیں مارنا چاہتے ہو تو مجھے بھی قتل کر دو۔
ابن زیاد نے ان کی طرف دیکھا اور کہا: عجبا کہ یہ عورت اپنے بھتیجے کے ہمراہ قتل ہونا چاہتی ہے ! چھوڑو اس کو کیونکہ یہ اپنی بیماری سے ہی مر جائے گا۔۔۔۔۔۔
امام سجاد (ع) نے اس کے بعد سفر شام کی مشقتیں، اسیری کے دکھ درد اور دربار یزید کے عذاب کو برداشت کیا… اور اپنی مبارک زندگی کے آخری ایام تک کربلا اور کوفہ و شام کے مصائب کو یاد کرتے تھے اور گریہ فرماتے تھے …
(طبرسی، الاحتجاج، ج 2، ص 305/شیخ عباس قمی، منتھی الامال،ج 1، ص 733)
کچھ دن بعد اہل حرم کا قافلہ دمشق لے جایا گیا جس کی سا ربانی امام فرمارہے تھے۔راستہ طویل اور سخت تھا اس لئے آپ کو اونٹ کی ننگی پیٹھ پر رسیوں سے باندھ دیا گیا تھا تاکہ آپ کمزوری کے باعث اونٹ سے گر نہ جائیں۔ اہل حرم کا یہ قافلہ جب دمشق پہنچا تو اسے فوری دربار یزید میں جانے کی اجازت نہ دی گئی ۔بازار دمشق سجایا جارہا تھا تاکہ لوگ آل رسول کو قیدی بنا دیکھ سکیں۔جب بازار اور دربار آراستہ ہوچکے تو امام زین العابدین علیہ السلام کو اہل حرم کے ساتھ داخلہ کی اجازت ملی۔ یہ وہ وقت تھا جب امام اپنی ماوں بہنوں اور پھوپھیوں کو دربار یزید میں برہنہ سرکئی سوکرسی نشینوں کے سامنے آتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ اس وقت امام زاروقطار رو رہے تھے۔ رہائی کے بعد بھی اسوقت کو یاد کرکے آپ بہت زیادہ گریہ کرتے تھے۔ جب کوئی پوچھتا تھا کہ مولاآپ پر سب سے زیادہ مصیبتیں کہاں پڑیں تو آپ کا ایک ہی جواب ہوتا تھا ” آلشام آلشام الشام”
مقاتل میں ہے کہ جب امام زین العابدین علیہ السلام کو یزید کے دربار میں لایا گیا تو اس وقت وہ ملعون شراب نوشی میں مصروف تھا اور امام حسین علیہ السلام کا سر اقدس اک طشت میں اس کے سامنے رکھا تھا۔سامنے اہل حرم مجرموں کی طرح صف بستہ کھڑے تھے امام نے یزید سے پوچھا اے یزید یہ بتا کہ اگر حضرت رسول خدا ص ہم لوگوں کواس حالت میں دیکھتے تو انکا کیا حال ہوتا ؟
(سید بن طاووس، اللہوف ، ص 248/ابن سعد، الطبقات الکبری، ج 10، ص 448)
روضہ رسول پرامام علیہ السلام کی فریاد
مقتل ابی مخنف ص ۱۴۳ میں ہے کہ جب یہ لٹاہواقافلہ مدینہ میں داخل ہواتوحضرت ام کلثوم گریہ وبکاکرتی ہوئی مسجدنبوی میں داخل ہوئیں اورعرض کی، اے ناناآپ پرمیراسلام ہو”انی ناعیة الیک ولدک الحسین“ میں آپ کوآپ کے فرزندحسین کی خبرشہادت سناتی ہوں، یہ کہناتھا کہ قبررسول سے گریہ کی صدابلندہوئی اورتمام لوگ رونے لگے پھرحضرت امام زین العابدین علیہ السلام اپنے ناناکی قبرمبارک پرتشریف لائے اوراپنے رخسارقبرمطہرسے رگڑتے ہوئے یوں فریادکرنے لگے :
اناجیک یاجداہ یاخیرمرسل
اناجیک محزوناعلیک موجلا
سبیناکماتسبی الاماء ومسنا
حبیبک مقتول ونسلک ضائع
اسیرا ومالی حامیا ومدافع
من الضرمالاتحملہ الاصابع
ترجمہ: میں آپ سے فریادکرتاہوں اے نانا، اے تمام رسولوں میں سب سے بہتر،آپ کامحبوب ”حسین“ شہیدکردیاگیا اورآپ کی نسل تباہ وبربادکردی گئی، اے نانامیں رنج وغم کاماراآپ سے فریادکرتاہوں مجھے قید کیاگیامیراکوئی حامی ومددگار نہ تھا اے نانا ہم سب کواس طرح قیدکیاگیا،جس طرح (لاوارث) کنیزوں کوقیدکیا جاتاہے،اے ناناہم پراتنے مصائب ڈھائے گئے جوانگلیوں پرگنے نہیں جاسکتے۔
امام سجاد (ع) کی با مقصد اور اثر گذار سوگواری:
امام سجاد (ع) شہدائے کربلا کی یاد زندہ رکھنے کے لیے مختلف مواقع پر اپنے عزیزوں کے لیے گریہ و بکاء کرتے تھے۔ امام (ع) کے آنسو لوگوں کے جذبات کو متحرک کر دیتے تھے اور سننے اور دیکھنےوالوں کے ذہنوں میں شہدائے کربلا کی مظلومیت کا خاکہ بنا دیتے تھے۔ تحریک عاشورا کو جاری و ساری رکھنے میں ان اشکوں کا بہت اہم کردار تھا اور آج بھی امام سجاد (ع) کی سنت پر عمل پیراہو کر مسلمانان عالم اس تحریک کو جاری رکھ رہے ہیں اور عزا داری اور سوگواری آج بھی کروڑوں شیدائی عزاداروں کے جذبات و احساسات کو حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی راہ و روش اور مقدس مشن سے جوڑنے کے سلسلے میں اہم ترین سبب سمجھی جاتی ہے۔
پوچھا جاتا تھا کہ آپ (ع) کب تک عزادار رہیں گے تو آپ فرماتے تھے:
مجھ پر ملامت نہ کرو، حضرت یعقوب ابن اسحق ابن ابراہیم (ع) پیغمبر تھے جن کے والد اور دادا بھی پیغمبر تھے، ان کے بارہ بیٹے تھے جن میں سے ایک کو خداوند نے کچھ عرصے کے لیے ان کی نظروں سے اوجھل کر دیا، اس وقتی جدائی کے غم سےیعقوب (ع) کے سر کے بال سفیدہوئے، کمر خمیدہ ہوئی اور ان کی آنکھوں کی روشنی شدت گریہ کی وجہ سے ختم ہوئی جبکہ ان کا بیٹااسی دنیامیں زندہ تھا، جبکہ میں نے اپنی آنکھوں سے اپنے والد، بھائیوں اور خاندان کے 17 افراد کو مظلومانہ قتل ہوتے ہوئے اور زمین پر گرتے ہوئے دیکھا ہے، پس میرا غم و اندوہ کیونکر ختم ہو گا اور میرا گریہ کیونکر رکے گا۔
(اللہوف سید بن طاووس، ص 380)
امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ:
امام سجاد علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی تو پورا مدینہ امام علیہ السلام کے سوگ میں عزادار ہو گیا، مرد و زن، گورا کالا اور چھوٹا بڑا سب امام کے غم میں گریاں تھے اور زمین و آسمان سے غم کے آثار نمایاں تھے۔
امام سجاد (ع) محرم الحرام سن 94 يا 95 ہجری، کو 57 سال کی عمر میں اموی بادشاہ عبد الملک ابن مروان کے حکم پر اس کے ایک ملعون بیٹے کے ہاتھوں مسموم ہوئے اور بستر شہادت پر لیٹ گئے۔
امام سجاد علیہ السلام نے بیماری کے عالم میں اپنی اولاد کو جمع کیا اور اپنے فرزند محمد ابن علی کہ وہ بھی کربلا کی مصیبتوں میں موجود تھے جبکہ اس وقت آپ کی عمر صرف 4 سال تھی، کو اپنا وصی مقرر کیا اور انہیں باقر نام دیا اور اپنی دیگر اولاد کی ذمہ داری آپ کے سپرد کی اور انہیں نصیحت و وصیت کی۔
اس کے بعد امام باقر علیہ السلام کو اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا:
میں تمہیں وہی وصیت کرتا ہوں جو میرے بابا نے مجھے اپنی شہادت کے دن وصیت کی تھی اور کہا تھا کہ انہیں ان کے والد گرامی نے وصیت کی تھی اپنی شہادت کے وقت اور وہ یہ ہے کہ:
ہرگز اس شخص پر ظلم مت کرنا جس کا خدا کے علاوہ کوئی دوسرا یار و مدد گار نہ ہو۔
امام سجاد (ع) کا قاتل:
حضرت علی ابن الحسین ابن علی ابن ابی طالب (ع) ولید ابن عبد الملک کی بادشاہی کے زمانے میں شہید ہوئے۔ چنانچہ عمر ابن عبد العزیز بادشاہ بنا تو کہا: ولید ایک جابر و ظالم شخص تھا جس نے خدا کی زمین کو ظلم و جور سے بھر دیا تھا۔ اس شخص کے دور میں پیروان آل محمد (ص)، خاندان رسالت اور بالخصوص امام سجاد (ع) کے ساتھ مروانیوں اور امویوں کا رویہ بہت ظالمانہ اور سفاکانہ تھا۔
گو کہ مدینہ کا والی ہشام ابن اسماعیل مروان کے زمانے سے مدینہ منورہ پر مسلط تھا لیکن ولید کے دور میں اس کا رویہ بہت ظالمانہ تھا اور اس نے امام سجاد (ع) کے ساتھ شدت آمیز برتاؤ روا رکھا۔ اس نے اہل مدینہ پر اتنے مظالم ڈھائے کہ ولید ابن عبد الملک نے اس کو منصب سے ہٹا دیا اور اپنے باپ مروان کے گھر کے دروازے کے ساتھ رکھا تا کہ لوگ اس سے اپنا بدلہ لے سکیں۔ یہ شخص خود کہا کرتا تھا کہ امام سجاد (ع) سے خوفزدہ ہے اور اس کو ڈر تھا کہ امام سجاد (ع) اس کی شکایت کریں گے، امام سجاد (ع) اپنے اصحاب کے ہمراہ مروان کے گھر کے سامنے سے گزرے جہاں ہشام ابن اسماعیل کی شکایتیں ہو رہی تھیں لیکن امام اور آپ کے ساتھیوں نے ایک گرے ہوئے منکوب شخص کی کسی سے کوئی شکایت نہیں کی اور ہشام چلّا اٹھا کہ:
الله اعلم حیث یجعل رسالته،
خدا خود ہی جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کس خاندان میں قرار دے۔
بلکہ روایت میں ہے کہ امام سجاد (ع) نے معزول مروانی گورنر کو اس کے تمام مظالم اور جرائم بھلا کر پیغام بھیجا کہ اگر تم تنگدست ہو تو ہم تمہاری مدد کے لیے تیار ہیں۔
مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے بعض کا کہنا ہے کہ امام سجاد (ع) ولید ابن عبد الملک کے ہاتھوں مسموم ہوئے اور بعض دوسرے کہتے ہیں کہ آپ کو ولید کے بھائی ہشام ابن عبد الملک نے مسموم کیا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ خواہ ہشام ہی امام کا قاتل کیوں نہ ہو، وہ یہ کام ولید کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتا تھا چنانچہ ولید ابن عبد الملک ابن مروان ابن العاص رو سیاہ ہی امام سجاد (ع) کا قاتل ہے۔(بحار الانوار،‌ج 46، ص 152، حدیث 12 و ص 153 و 154)
مدینہ منورہ کے عوام اور امام سجاد (ع) کی شہادت کا سوگ:
امام سجاد (ع) کو شدید دور کا سامنا تھا لیکن آپ نے 35 سالہ انسانی اور الہی سیرت و روش کے ذریعے لوگوں کو اپنا مجذوب بنا رکھا تھا اور امامت کی خوبصورت تصویر ان کی نظروں کے سامنے رکھی تھی چنانچہ آپ کی شہادت کی خبر جنگل کی آگ کی مانند پورے شہر مدینہ میں پھیل گئی اور لوگ جنازے میں شرکت کے لیے جمع ہو گئے۔
سعید ابن مسیب روایت کرتے ہیں کہ جب امام سجاد (ع) شہید ہو گئے تو مدینہ کے تمام باشندے نیک انسانوں سے لے کر بد کردار انسانوں تک، سب آپ کے جنازے میں شریک ہوئے، سب آپ کی تعریف و تمجید کر رہے تھے اور اشکوں کے سیلاب رواں تھے، امام کے جنازے میں سب نے شرکت کی حتی کہ مسجد النبی (ص) میں ایک شخص بھی نہیں رہا تھا کہ جو اس جنازے میں شریک نہ ہوا ہو۔
(بحار الانوار، ‌ج 46، ص 150)
شہادت کے وقت عمر مبارک مشہور قول کے مطابق57 سال تھی۔
آپ نے امام علی علیہ السلام، امام حسن مجتبی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی حیات اور ادوار امامت کا ادراک کیا ہے اور معاویہ ملعون کی طرف سے عراق اور دوسرے علاقوں کے شیعیان آل رسول (ص) کو تنگ کرنے اور ان پر دباؤ بڑھانے کی سازشوں کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں۔
امام سجاد (ع) سن 94 یا 95 ہجری میں اس زہر کے ذریعے جام شہادت نوش کر گئے جو ولید ابن عبد الملک ملعون کے حکم پر انہیں کھلایا گیا تھا۔ آپ (ع) کو جنت البقیع میں چچا امام حسن مجتبی (ع) کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button