رسالاتسلائیڈرسیرتسیرت جناب رسول خداؐ

رسول خدا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مختصر سوانح حیات

محمد بن عبد اللہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نبی کے ۲۹ پشت اور حضرت آدم کے ۴۹ پشت یعنی حضرت آدم علیہ السلام کے وفات کے ۹۷۰۰سال چار مہینے بعد،شیعہ علماء کے قول کے مطابق ۱۷ ربیع الاول بروز جمعہ ،یعنی ۲۹اگست ۵۷۱ء صبح صادق کے وقت پیدا ہوئے ۔
پدر بزرگوارجناب عبداللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف تھے جبکہ مادر گرامی جناب آمنہ سلام اللہ علیہا قبیلہ بنی کلاب کی شریف زادی اور رئیش خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ،شجاعت اور بہادری میں یہ خاندان بہت ممتاز گزرا ہے اور عرب میں بہت مستند تھا۔
شعب ابو طالب مکہ میں آپ کی ولادت ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد عبداللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے دو مہینے پہلے ہی وفات پا چکے تھے دادا عبد المطلب علیہ السلام موجود تھے وہ آپ کے کفیل ہوئے اور آپ کے چچا جناب ابوطالب علیہ السلام آپ کی ہر طرح سے کفالت اور دیکھ بھال کرتے رہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم مبارک : محمد ،احمد
آپ کی کنیت: ابو القاسم
آپ کے القاب: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے القاب ایک ہزار سے زیادہ ہیں جو زیادہ مشہور ہیں ان کوہم یہاں بیان کر رہے ہیں ۔ منجملہ ان کے ، مصطفےٰ ،مجتبیٰ ،محمود ، شفیع ،شافع ، خاتم الانبیا، رسول اللہ ،حبیب اللہ، اشرف المرسلین ، سید البشر ،محبوب حق،طاہر ،مختار ، سراج منیر ،امین ، صادق ، شمس الضحیٰ ، بدرالدجیٰ ، طہ،یٰس،مزمل ،مدثر ، سرور کائنات ، فخر موجودات ، سید عالم وغیرہ ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت
شہر مکہ تاریکیوں اور خاموشیوں میں ڈوبا ہوا تھا ،زندگی کے آثار دور دور تک نظرنہیں آ رہے تھے البتہ چاند اپنی عادت کے مطابق دھیر ے دھیرے پہاڑوں کی اوٹ سے گزرتاہوا ذرا بلندی پر آگیا تھا اور اپنی ٹھنڈی ٹھنڈی شعاعیں مکہ کے معمولی اور سادہ گھروں اور ریگستانی ذروں پر بکھیر رہا تھا۔
رفتہ رفتہ آدھی رات گزر گئی اور حجاز کے جلتے جھلستے ہوئے صحراؤں پر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں ذرا دیر کے لئےریگستانوں کے سینوں میں لگی آگ ٹھنڈی ہوئی،ریا کاری سے دور ،خلوص کی اس بزم میں ستاروں کی موجودگی نے جن میں اور اضافہ کر دیا ۔
صبح ہو چکی ہے نسیم سحر ہولے ہولے چل رہی ہے مرغان خوش الحان سحر انگیز نغمے فضا میں منتشر کر رہے ہیں گویا کسی معشوق سے راز و نیاز کر رہے ہیں۔
افق مکہ پر سپیدہ سحر ی نمودار ہونے والا ہےمگر سارے شہر پر ایک مبہم سا سکوت طاری ہے سب گہری نیند سورہے ہیں ،ہاں صرف” آمنہ ”بیدار ہیں ناگہاں چند نا معلوم مگر نورانی عورتیں ان کے کمرے میں آئیں ۔ان کی خوشبو نے جناب آمنہ کو متحیر کر دیا یہ کون ہیں اور کس طرح یہاں آئی ہیں کیوں کہ دروازہ تو بند ہے۔
بحار الانوار ،ج/۱۵ص/۳۲۵
تھوڑی دیر گزری تھی کہ ان کا عزیز فرزند متولدہوا۔ جس چیز کا مہینوں سے انتظار تھا ۱۷ ربیع الاول
یعنی ۲۹ اگست۵۷۱ع صبح صادق کے وقت اپنے بچے کی صورت دیکھ کر جناب آمنہ سلام اللہ علیہا کی آنکھیں چمک اٹھیں اوردل باغ باغ ہو گیا۔
بحار الانوار ،ج/۱۵ص/۲۵۰
ہر ایک کو اس ولادت کی خوشی تھی ” محمد ” سے جناب آمنہ کےگھر کے درودیوار روشن و منور ہو گئے لیکن اس وقت آمنہ جواں سال شوہر ” عبداللہ” کی کمی شدت سے محسوس کر رہی تھیں جس وقت وہ شام سے مدینہ واپس آرہے تھے راستہ میں ان کا انتقال ہو گیا تھا انھیں وہیں دفن کر دیا گیا تھا اور آمنہ ہمیشہ ہمیشہ کےلئے تنہا ہو گئی تھیں۔
بحار الانوار،ج/۱۵ص/۲۵۷
ولادت کے وقت
جس وقت آپ کی ولادت ہوئی اس وقت زمین و آسمان میں ایسے عجائبات و معجزات خدا کی طرف سے ظاہر ہوئے خاص کر مشرق میں ،جو کہ اس وقت کی تہذیب و تمدن کا مرکز تھا۔
یہ بچہ تمام فرسودہ رسم و رواج کا خاتمہ کرنے ولا اور ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھنے والا تھا ، انسانوں کو سعادت کی شاہراہ پر گامزن کرنےوالا تھا ، لہٰذا ولادت کے پہلے ہی دن سے فرسودہ اور جاہلی نظام کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔
"نوشیرواں کا وسیع و عریض محل ،جس کی ابدیت کا خواب دیکھا جارہا تھا ، اسی رات اس میں زلزلہ آیا اور اس کے چودہ کنگورے گر گئے،آتش کدہ فارس جو ایک ہزار سال سے مجوسی قوم نے جلا رکھا تھا خود بخود خاموش ہو گیا۔وقت ولادت ایسی روشنی پھیلی کہ شام و کسریٰ کی عمارتیں دکھائی دینےلگیں ، جہاں کہیں بھی بت رکھے ہوئے تھے سب سر نگوں ہو گئے ۔خیالی خدا ؤں کےپجاری جن کا تعصب انھیں کوئی اور فکر کرنے نہیں دیتا تھا وہ بھی ان واقعات کے بعدسوچنے پر مجبور ہو گئے اسی طرح ” ساوہ ” کے دریا نے خشک ہو کر بیداری کا پیغام دیا”۔
بحار الانوار ،ج/۱۵ص/۲۵۸ و ۲۶۳
ماں کی شفقت سے محروم
ابھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر کی چھ بہاریں گزری تھیں۔
بحار الانوار ،ج/۱۵ص/۴۰۲و ۴۰۵
کہ آپ کی والدہ جناب آمنہ اپنے رشتہ داروں اور اپنے مرحوم شوہر کی قبر کی زیارت کرنے گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواپنے ہمراہ لے گئیں ،مدینہ میں رشتہ داروں سے ملاقات کی اور شوہر کی قبر کی زیارت کرکے اپنے عہد کی تجدید کی اور پھر مکہ واپس آنے لگیں کہ راستہ میں ” ابواء” نامی جگہ پر آپ (آمنہ) کا انتقال ہوگیا۔
سیرۃ ابن ہشام ،ج/۱ص/۱۶۸
و ہ عمر جس میں بچے کو ماں کی محبتوں اور باپ کی شفقت کی بے پناہ ضرورت ہوتی ہے اس عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر سے دونوں سایہ اٹھ گئے۔
نبوت کے آثار
جس طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت اور اس کے بعد رو نما ہونے والے غیر معمولی وقعات آنحضرت کی شخصیت اور عظمت کی ترجمانی کر رہے تھے اسی طرح بچپن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کردار آپ کو دوسرے بچوں سے ممتاز کر رہا تھا جناب عبد المطلب علیہ السلام کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا ۔اسی لئے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غیر معمولی احترام کرتے تھے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا جناب ابو طالب کا بیان ہے کہ ہم نے کبھی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےغلط بیانی اور کوئی نازیبابات نہیں دیکھی، نہ کبھی بے جا ہنستے دیکھا اور نہ کبھی بےجا گفتگو کرتے دیکھا وہ اکثرو بیشتر تنہا رہتے تھے۔
بحار الانوار ،ج/۱۵۔ص/ ۳۸۲ و ۰۲ ۴ و ۳۶۶و ۳۳۶
قریش کے سردار جناب عبد المطلب علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہر گز اس طرح سے پیش نہیں آتے تھے جس طرح دوسرے بچوں کے ساتھ پیش آتے تھے بلکہ بہت عزت اوراحترام کرتے تھے ۔
جس وقت خانہ کعبہ کے گرد جناب عبد المطلب علیہ السلام کے لئے مخصوص نشست بنائی جاتی تھی اور ان کے فرزند اس کے گرد جمع ہو جاتے تھے تو ایسا رعب طاری ہوتاتھا کہ کوئی اس جگہ تک جا نہیں سکتا تھا ،لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس جاہ و جلال سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدھے وہاں جاتے تھے جہاں جناب عبد المطلب علیہ السلام بیٹھے ہوتےتھے ،وہ لوگ جو آنحضرت کو وہاں جانے سے روکتے تھے عبد المطلب علیہ السلام ان سے کہتے تھے کہ میرے فرزند کو روکو نہیں ،خدا کی قسم اس کی جدا گانہ شان ہے ، اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب عبد المطلب علیہ السلام کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتے تھے۔
بحار الانوار ،ج/۱۵۔ص/ ۱۴۲۔سیرۃ ابن ہشام ،ج/۱ص/۱۶۸
یاد ماضی
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچپن یتیمی کے کرب کے ساتھ دادا عبد المطلب علیہ السلام اور چچا ابو طالب کی شفقت کی چھاؤں میں گزرا ۔یتیمی کا رنج ہر رنج سے جانگداز ہو تا ہے ،رنج کے یہ تجربےآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آئندہ زندگی کے لئے بڑے مفید ثابت ہوئے ۔
رفتہ رفتہ عمر میں اضافہ ہوتا رہا اور بچپن سے جوانی میں قدم رکھا ، جہاں صلاحیتیں اور جذبات پروان چڑھتےہیں اگرچہ ماں کی محبت اور باپ کی شفقت سے محروم ہو چکے تھے مگر جناب ابوطالب اپناخلاقی فریضہ اور اپنے والد کی وصیت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برابر حفاظت کرتے رہے ۔ابوطالب کے لئے حضرت تین طرح سے عزیز تھے ،فرزند تھے ۔مرحوم بھائی کی نشانی اوراپنے مرحوم پدر کی یادگار تھے ۔لہٰذاآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب ابوطالب کے گھر کے ایک فرد تھے۔ جناب ابوطالب کے دوسرے بچوں کی طرح حضرت بھی ان کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھتےتھے جناب ابوطالب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مہربان باپ ،وفادار چچا اور دل سوز مربی تھے ۔چچااور بھتیجے میں اتنی محبت تھی گویا دو قالب ایک جان تھے ۔یہی وجہ تھی کہ ابو طالب ہر جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ رکھتے تھے ،اپنے ساتھ عرب کے مشہور بازاروں ”عکاظ ” ”محبنہ” اور ” ذی المجاز” لے جاتے تھے ۔یہاں تک کہ جس وقت جناب ابوطالب کاروان تجارت کے ساتھ شام جانے لگے تو حضرت کی جدائی برداشت نہ کر سکے اور حضرت کواپنے ہمراہ شام لے گئے ۔حضرت نے اونٹ کے اوپر ”یثرب” اور ”شام” کا دور درازسفر کیا۔
سیرۃ ابن ہشام ،ج/۱،ص/۱۸۰
بحیر ا سے ملاقات
جب قریش کا قافلہ ”بصری” (بصرہ شام کایک چھوٹا سا شہر)کے نزدیک پہنچا ،اس وقت گوشہ نشین زاہد بحیرا اپنے صومعہ میں تھا ،اس نے دیکھا کہ ایک قافلہ آرہا ہے اور قافلہ کےساتھ ساتھ ابر کا ایک ٹکڑا بھی حرکت کر رہا ہے ۔
بحیرا اپنے صومعہ سے نیچے اتر کر ایک گوشہ میں کھڑا ہو گیا اور اپنے خادم سے کہنے لگا کہ قافلہ والوں سے جا کر کہدو کہ وہ سب آج ہمارے مہمان ہیں ۔ حضرت کے علاوہ ہر شخص اس کے پاس چلا گیا۔بحیرا نے دیکھا کہ ابر کا ٹکڑا وہیں رکا ہوا ہے ۔اس نے دریافت کیا کہ قافلہ کےتمام افراد یہاں آ گئے ہیں؟ سب نے کہا ہاں ! البتہ ایک نوجوان جو سن میں سب سےچھوٹا ہے وہ یہاں نہیں ہے ۔ بحیرا نے کہا جاؤ اس کو بھی بلا لاؤ جب حضرت چلے تو ابربھی ان کے ساتھ چلا ۔بحیرا غور سے یہ منظر دیکھتا رہا ۔
جب کھانا وغیرہ کھا چکےتو بحیرا نے حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا میں آپ سے چند سوال کرنا چاہتا ہوں ۔ میں آپ کو ”لات” اور”عزیٰ ” کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ ضرور جواب دیں گے۔
حضرت: جن دو ناموں میں تم نے مجھے قسم دلائی ہے مجھے سب سے زیادہ انہی دو ناموں سے نفرت ہے۔
بحیرا: آپ کو اللہ (خدا) کی قسم دیتا ہوں کہ آپ میرےسوالوں کا جواب دیجئے ۔
حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : اپنا سوال بیان کرو۔
مختصر سی گفتگو کےبعد بحیرا حضرت کے قدموں پر گر پڑا اور آپ کے دست و پا کا بوسہ لیا اور کہا :اگرمیں اس تک زندہ رہا تو آپ کے دشمنوں سے جنگ کروں گا آپ بشریت کے سردار ہیں۔
اسکے بعد اس نے قافلہ والوں سے پوچھا کہ یہ جوان کون ہے ۔ قافلہ والوں نے ابو طالب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا فرزند ہے بحیرا نے کہا: یہ ان کے والد نہیں ہیں ان کے والد ان کی ولادت سے پہلے انتقال کر چکے ہیں ۔
ابوطالب علیہ السلام نے کہا ہاں وہ میرے بھائی کا بیٹا ہے۔
بحیرا نے کہا : اس جوان کا مستقبل بہت ہی روشن وتابناک ہے ۔جو خصوصیات میں اس میں دیکھ رہا ہوں اگر یہودیوں کو معلوم ہو جائےتو اس کو قتل کر ڈا لیں ۔ اس جوان کے سلسلے میں یہودیوں سے بہت زیادہ ہوشیار رہیے۔
ابوطالب علیہ السلام نے پوچھا : یہ بچہ کیا کار نامہ انجام دے گا؟ اور یہودی کیا کریں گے ۔
بحیرا نے کہا: یہ بچہ مستقبل میں پیغمبر ہوگا ۔اس پر وحی کا فرشتہ نازل ہوگا۔
ابوطالب علیہ السلام نے کہا: خدا یقینا اس بچہ کی حفاظت کرے گا۔
سیرۃ ابن ہشام ،ج/۱،ص/۱۸۱۔اعلام الوریٰ ،ص/۲۶۔بحار الانوار ،ج/۱۵،ص/۱۹۳و۲۰۴
یہودیوں اور دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔
کردار کی بلندی
جس معاشرے میں حضرت زندگی بسر کر رہے تھے ،اخلاقی پستیاں اس معاشرے کی فضیلت شمار کی جاتی تھیں ۔ جوان تو جوان حجاز کے بوڑھے بھی بدکاری میں سب سے آگے تھے یہاں تک کہ ہر گلی اور کوچہ میں بالا خانوں پر سیاہ پرچم مرکز فساد کی نشاندہی کرتے تھےاور لوگوں کو بدکرداری اور انحراف کی طرف بلاتے تھے ۔
ایسے گندے اور کثیف ماحول میں حضرت نے اپنی جوانی کے پچیس سال گزارے لیکن آپ کے دامن کردار پر ماحول کی کثافت کا ذرا بھی اثر نہ ہو ا بلکہ دوست و دشمن ہر ایک نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کردار کی بلندی کاعتراف کیا ہے۔
جس وقت جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا سے آپ کی شادی ہوئی اس وقت شعراء نے حضرت کی مدح میں جو اشعار کہے وہ حضرت کے کردار کے آئینہ دار ہیں ، شاعر جناب خدیجہ کومخاطب کرکے کہتا ہے کہ : ”اے خدیجہ ! دنیا والوں میں تم کو بہت بڑا مرتبہ ملاہے تم کو فوقیت حاصل ہے ،تم کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا شوہر ملاہے ،دنیا کی تمام عورتوں نے آج تک ایسا کوئی بچہ پیدا نہیں کیا۔تمام اخلاقی اقدار ،بلندیاں،حیاوعفت سب اس میں جمع ہیں اور اسی طرح جمع رہیں گی”
بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/۷۴
ایک دوسرا شاعر کہتاہے:
”اگر تمام مخلوقات کے ساتھ حضرت کا مقابلہ کیا جائے تو ان کو سب پر فوقیت حاصل رہے گی ۔یقیناًقریش ان کے اخلاق اور کردار کی بلند یوں سے خوب واقف ہیں”
بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/ ۷۵
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادی
جوانی فطری تقاضوں کے ظہور کا وقت ہوتا ہے ۔ اس وقت خواہشات سر اٹھانے لگتی ہیں۔جب لڑکا اور لڑکی عمر کے اس مرحلہ میں قدم رکھتے ہیں تو ان کے دلوں میں گھر بسنے کی تمنا جاگنے لگتی ہیں اور دونوں کو ایک دوسرے کا احساس ہونے لگتا ہے تاکہ ان کو سکون دل حاصل ہو جائے۔
"اسلام نے فطری تقاضے کی سیرابی اور فتنہ و فساد سےمحفوظ رہنے کے لئے تاکید کی ہے کہ جوانوں کو جلدی شادی کرنا چاہئے اور یہ بہانہ نہ بنانا کہ بعد کے اخراجات کے وسائل ان کے پاس نہیں ہیں ۔ہاں اگرزندگی درہم برہم ،شادی کے ابتدا ئی اور بنیادی مسائل بھی فراہم نہیں ہیں تو اس صورت میں عفت اور پاک دامنی کے ساتھ حالات کا انتظار کرنا چاہئے”۔
قرآن کی آیت سے استفادہ کیا ہے ( نور/۳۱و۳۲)
حضرت نے اپنی زندگی کے ۲۵ سال اسی طرح کے سخت حالات میں گزارے۔مالی حالت ایسی نہ تھی کہ حضرت شادی کر سکتے ۔اس لئے حضرت حالات کا انتظار کر رہےتھے ۔
بحار الانوار،ج/۱۶۔ص/۳،تاریخ یعقوبی ج/۲،ص/۱۵۔ اعیان الشیعہ ج/۲ص/۸ ۔سیرت ،ج/۱ص/۱۵۲
جناب خدیجہ سلام اللہ علیہاکی پیش کش
جناب خدیجہ سلام اللہ علیہادولت مند اور شریف خاتون تھیں دوسرے افراد ان کے سرمائے سے تجارت کرتے تھے اور اپنی مزدوری لے کر نفع حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو دے دیتے تھے
جس وقت حضرت کی امانت داری بلند کرداری کا سارے عرب میں شہرہ ہو گیا تو جناب خدیجہ سلام اللہ علیہانے سوچا کہ کیوں نہ حضرت کے ذریعہ تجارت کی جائے ،جناب خدیجہ سلام اللہ علیہانے یہ پیش کش حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان رکھی کہ میں ایک غلام کے ساتھ سرمایہ آپ کو دوںگی تاکہ آپ اس سے تجارت کریں اور آپ کودسروں سے زیادہ دوں گی ۔
حضرت، جناب ابو طالب علیہ السلام کی زندگی سے بخوبی واقف تھے اخراجات کتنے زیادہ ہیں اور آمدنی کتنی محدود ہے ،زندگی کس تنگی میں گزر رہی ہے ۔لہٰذا آپ نے جناب خدیجہ سلام اللہ علیہاکی پیش کش قبول کر لی۔
سیرۃ ابن ہشام ،ج/۱،ص/۱۸۸طبع ۱۳۷۵ھ۔بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/۲۲
شام کا سفر
جس وقت قریش کا قافلہ تجارت کے لئے شام جانے لگا حضرت نے بھی اپنے سفر کی تیاری کی اور قافلہ میں شامل ہو گئے ،جناب خدیجہ سلام اللہ علیہانے سرمایہ حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کرتے ہوئے اپنےغلام ”میسرہ ” سے کہا کہ تم ان کے ساتھ جاؤ اور ان کی خدمت کرو ۔
اس تاریخی سفر کی جزئیات گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے بیان نہیں کیا جا سکتا بس اتنا جاننا ضروری ہے کہ سفر بے پناہ برکتیں اپنے دامن میں لئے ہوئے تھا ،تجارت میں کافی فائدہ ہوا۔ حضرت کی شخصیت اور نمایاں ہو گئی تھی ۔ عیسائی راہب نے حضرت سے ملاقات کی تھی اور آپ کی رسالت کی پیش گوئی کی تھی ۔
سیرۃ ابن ہشام،ج/۱،ص/۱۸۸طبع ۱۳۷۵ھ
یہ راہب بحیرا کے علاوہ ہے جس نے بچپن میں پیشین گوئی کی تھی۔
اور یہی سفر شادی کا ذریعہ بھی قرار پایا تھا۔
"جب یہ قافلہ اپنا سفر طے کرکے مکہ واپس ہو ا تو میسرہ نے سفرکی تمام جزئیات تفصیل سے جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کو سنا دیں ۔یہ باتیں سن کراور ایک عیسائی راہب کی پیشین گوئی سن کر کہ حضرت کی شادی قریش کی ایک بہت ہی باعزت اور محترم خاتون سے ہوگی ،خدیجہ سلام اللہ علیہا نے اپنے دل میں ایک خاص لگاؤ محسوس کیا اورحضرت کی شکل میں اپنا در مقصود نظر آیا”۔
کامل ابن اثیر ج/۲ص/۳۹مطبوعہ بیروت ۱۳۸۵ھ،بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/ ۲۰و۲۱
اس سے پہلے ان کےچچا ” ورقہ بن نوفل” بھی پیغمبر وں کے بارے مین کافی باتیں بتا چکے تھے اور بیان کر چکے تھے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت کے بلند مرتبہ پر فائز ہوں گے اور خدیجہ سلام اللہ علیہاسے ان کی شادی ہوگی ان باتوں نے اس قلبی لگاؤ میں اور زیادہ شدت پیدا کر دی۔
بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/ ۲۰و۲۱
یہ بات کس طرح حضرت تک پہنچائی جائے ۔کیوں کہ خدیجہ سلام اللہ علیہاکوئی معمولی عورت نہ تھیں قریش کی سب سے زیادہ محترم خاتون تھیں۔
شادی کی پیش کش
خدیجہ سلام اللہ علیہا نے اپنی سہیلی ”نفیسہ ” (جو خدیجہ کے راز ہائے دل سے واقف تھی) کےسامنے یہ بات رکھی تاکہ وہ حضرت سے گفتگو کرے ۔نفیسہ حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئیں اور حضرت سے کہا کہ آ پ شادی کیوں نہیں کرتے؟
حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا : میرے حالات شادی کی اجازت نہیں دےتے ۔
نفیسہ نے کہا : اور اگر وہ وسائل فراہم ہو جائیں اور مسائل حل و جائیں ،ایک شریف خاندان کی دولت مند عورت اس بات پر تیار ہو جائے کیا اس وقت آپ شادی کریں گے ؟
حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت کیا ۔وہ عورت کون ہے؟
نفیسہ نے کہ : خدیجہ ۔
اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا کہ اس نے تو قریش کے بڑے بڑے ثروت مندوں کےپیغامات رد کر دئے ہیں وہ میرے ساتھ شادی کرے گی ۔
نفیسہ نے کہا: ہاں یہ ہو سکتا ہے اور میں اس رشتہ کو طے کروں گی ۔
سیرۃ حلبیہ ،ج/۱ص/۱۵۲۔اعیانالشیعہ ج/۲ص/۸
جس وقت حضرت کو اس بات کااطمینان ہو گیا کہ خدیجہ شادی کرنے کے لئے راضی ہیں حضرت نے ساری باتیں اپنے چچا سےبیان کر دیں ،وہ لوگ یہ خبر سن کر بہت خوش ہوئے رشتہ طے ہوا اور خاص اہتمام سے شادی ہو گئی۔
بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/ ۵۶۔۷۳
حضرت نے شادی کے خاص بہترین ایام یعنی اپنی زندگی کے ۲۵سال جناب خدیجہ کے ساتھ گزارے ،خدیجہ حضرت کی صرف شریک حیات نہ تھیں بلکہ حضرت کی بہت بڑی مددگار بھی تھیں عورتوں میں آپ حضرت پر سب سے پہلے ایمانلائیں اور اپنا سارا مال و متاع دین مقدس اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے دے دیا ۔
بحار الانوار،ج/۱۶۔ص/۷۔۱۰۔۱۱۔ اعلام الوریٰ ص/۱۴۶،ج۱۶۔ص/۱۰۔۷۱۔اعیان الشیعہ ،ج/۲ص/۸
جناب خدیجہ سلام اللہ علیہاسے حضرت کی کئی اولادیں ہوئیں ،قاسم اور طاہر دوفرزند اور ایک بیٹی جناب فاطمہ زہرا علیہا السلام ،دونوں بیٹے بچپنے میں ہی انتقال کر گئے۔
بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/۳۔اعیان الشیعہ ،ج/۲ص/۸
جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کی محبت، فداکاری ،کی حضرت ہمیشہ قدر کرتے رہے۔زندگی میں بھی ان کے قدر داں رہے اور ان کے انتقال کے بعد بھی برابر یاد کرتے رہےاور جب بھی یاد کرتے تھے غمگین ہو جاتے تھے ۔
بحارالانوار ،ج/۱۶۔ص/۸ ۔۱۳
کبھی کبھی ان کی یادمیں میں آنسوبھی نکل آتے تھے ۔جناب خدیجہ کی حیات کا چراغ اگر چہ ۶۵برس کی عمر میں گل ہوالیکن حضرت کا گھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خدیجہ کے نور سے محروم ہو گیا۔
بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/۸
https://fazellankarani.com/urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button