سلائیڈرسیرتسیرت امام جعفر صادقؑ

امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور کے سیاسی حالات اور آپ ؑ کا طرز عمل

آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری رح کے خطابات سے اقتباس
امام جعفر صادق علیہ ‌السلام اور مسئلہ خلافت ( حصہ اول)
امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں دو سوالات ہمارے سامنے پیش کئے گئے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا دور امامت بنی امیہ کی حکومت کے آخری ایام اور بنی عباس کے اوائل اقتدار میں شروع ہوتا ہے۔سیاسی اعتبار سے امام علیہ السلام کے لئے بھترین موقعہ ہاتھ میں آیا۔ بنی عباس نے تو اس موقعہ پر بھر پور طریقے سے فائدہ اٹھا لیا۔ امام علیہ السلام نے ان سنھری لمحوں سے استفادہ کیوں نہیں کیا؟ بنی امیہ کا اقتدار زوال پذیر تھا۔ عربوں اور ایرانیوں، دینی اور غیر دینی حلقوں میں بنی امیہ کے بارے میں شدید ترین مخالفت وجود میں آچکی تھی۔ دینی حلقوں میں مخالفت کی وجہ ان کا علانیہ طور گناہوں کا ارتکاب کرنا تھا۔ دیندار طبقہ کے نزدیک بنی امیہ فاسق وفاجر اور نالائق لوگ تھے؟ اس کے علاوہ انھوں نے بزرگان اسلام اور دیگر دینی شخصیات پر جو مظالم ڈھائے ہیں وہ انتھائی قابل مذمت اور لائق نفرت تھے۔ اس طرح کی کئی مخالف وجوہات نفرت واختلاف کا باعث بن چکی تھیں” خاص طور پر امام حسین علیہ السلام کی شھادت نے بنی امیہ کے ناپاک اقتدار کو خاک میں ملا دیا۔ پھر رہی سھی کسر جناب زید بن علی ابن الحسین اور یحیی بن زید کے انقلابات نے نکال دی۔ مذھبی اور دینی اعتبار سے ان کا اثر و رسوخ بالکل ناپید ہوگیا تھا۔ بنی امیہ علانیہ طور پر فسق وفجور کے مرتکب ہوئے تھے، عیاشی اور شرابخوری میں تو انھوں نے بڑے بڑے رنگین مزاج حکمرانوں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ یھی وجہ ہے کہ لوگ ان سے سخت نفرت کرتے تھے۔ اور ان کو لادین عناصر سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ کچھ حکمران ظلم و ستم کے حوالے سے بہت ظالم وسفاک شمار کیے جاتے تھے ان میں ایک نام سلاطین بنی امیہ کا ہے۔ عراق میں حجاج بن یوسف اور خراسان میں چند حکمرانوں نے ایرانی عوام پر مظالم ڈھائے۔ وہ لوگ بنی امیہ کے مظالم کو ان مظالم کا سر چشمہ قرار دیتے تھے۔ اس لئے شروع ہی سے اسلام اور خلافت میں تفریق قائم کی گئی خاص طور پر علویوں کی تحریک خراسان میں غیر معمولی طور پر مؤثر ثابت ہوئی ۔ اگر چہ یہ انقلابی لوگ خود تو شھید ہوگئے لیکن ان کے خیالات اور ان کی تحریکوں نے مردہ قوموں میں جان ڈال دی۔ اور ان کے نتائج لوگوں پر بہت اچھے مرتب ہوئے۔
جناب زید بن زین العابدین علیہ السلام ے کوفہ کی حدود میں انقلاب برپا کیا وہاں کے لوگوں نے ان کے ساتھ عھد و پیمان کیا اور آپ کی بیعت کی، لیکن چند افراد کے سوا کوفیوں نے آپ کے ساتھ وفا نہ کی، جس کی وجہ سے اس عظیم سپوت اور بھادر و جری نوجوان کو بڑی بیدردی کے ساتھ شھید کر دیا گیا۔ ان ظالموں نے آپ کی قبر پر دو مرتبہ پانی چھوڑ دیا تاکہ لوگوں کو آپ کی قبر مبارک کے بارے میں پتہ نہ چل سکے، لیکن وہ چند دنوں کے بعد پھر آئے قبر کو کھود کر جناب زید کی لاش کو سولی پر لٹکا دیا اور کچھ دنوں تک اسی حالت میں لٹکتی رہی اور کہا پر وہ لاش خشک ہوگئی۔ کہا جاتا ہے کہ جناب زید کی لاش چار سالوں تک سولی پر لٹکتی رہی ۔ جناب زید کا ایک انقلابی بیٹا تھا ان کا نام یحیی تھا ۔انھوں نے انقلاب برپا کیا لیکن کامیاب نہ ہوسکے اور خراسان چلے گئے۔ پھر جناب یحیی بنی امیہ کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے شھید ہوگئے۔ آپ کی محبت لوگوں کے دلوں میں گھر کرتی چلی گئی۔ آپ کی شھادت کے بعد خراسان کے عوام کو پتہ چلا کہ خاندان رسالت کے ان نوجوانوں نے ایک ظالم حکومت کے خلاف جھاد کیا اور خود اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کرتے ہوئے شھید ہوگئے۔ ا س زمانے میں خبریں بہت دیر سے پہنچا کرتی تھیں۔ جناب یحیی نے امام حسین علیہ السلام اور جناب زید کی شھادت کو از سر نو زندہ کر دیا۔ لوگوں کو بعد میں پتہ چلا کہ آل محمد صلیٰ اللہ علیہ و آلہ‌وسلم نے بنی امیہ کے خلاف کس پاکیزہ مقصد کے تحت قیام کیا تھا۔
مورخین لکھتے ہیں جب جناب یحیی شھید ہوئے تو خراسان کے عوام نے ستر ۷۰ روز تک سوگ منایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے انقلابی سوچ رکھنے والے لوگوں کا اثر پھلے ہی سے تھا لیکن جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے لوگوں کے اذھان میں انقلابی اثرات گھر کرتے جاتے ہیں۔ ایک انقلابی اپنے اندر کئی انقلاب رکھتا ہے۔ بہر حال خراسان کی سرزمین ایک بڑے انقلاب کیلئے سازگار ہوگئی۔ لوگ بنی امیہ کے خلاف کھلے عام نفرت کرنے لگے۔
بنی امیہ کے خلاف عوامی رد عمل اور بنی عباس
بنو عباس نے سیاسی حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو خوب مستحکم و مضبوط کیا، یہ تین بھائی تھے ان کے نام یہ ہیں۔ ابراھیم امام، ابو العباس سفاح اور ابو جعفر منصور یہ تینوں عباس بن عبدالمطلب کی اولاد سے ہیں۔ یہ عبداللہ کے بیٹے تھے۔ عبداللہ بن عباس کا شمار حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہوتا ہے۔ اس کا علی نام سے ایک بیٹا تھا۔ اور علی کے بیٹے کا نام عبداللہ تھا” پھر عبداللہ کے تین بیٹے تھے۔ ابراہیم، ابو العباس سفاح اور ابو جعفر، یہ تینوں بہت ہی با صلاحیت، قابل ترین افراد تھے۔ ان تینوں بھائیوں نے بنی امیہ کے آخری دور حکومت میں بھر پور طریقے سے فائدہ اٹھایا۔ وہ اس طرح کہ انھوں نے خفیہ طور پر مبلغین کی ایک جماعت تیار کی اور پس پردہ انقلابی پروگرام تشکیل دینے میں شب و روز مصروف رہے۔ اور خود حجاز و عراق اور شام میں چھپے رہے، ان کے نمائندے اطراف و اکناف میں پھیل کرامویوں کے خلاف پروپیگنڈا کرتے تھے، خاص طور پر خراسان میں ایک عجیب قسم کا ماحول بن چکا تھا۔ لیکن ان کی تحریک کا پس منظر منفی تھا یہ کسی اچھے انسان کو اپنے ساتھ نہ ملاتے۔ یہ آل محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھرانے میں صرف ایک شخصیت کا نام استعمال کر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عوام کی توجہ کا مرکز آل محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی تھے۔ ان عباسیوں نے ایک کھیل کھیلا کہ ابو مسلم خراسانی کا نام استعمال کیا اس سے ان کا مقصد ایرانی عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنا تھا۔
وہ قومی تعصب پھیلا کر بھی لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے تھے، وقت کی قلت کے پیش نظر میں اس مسئلہ پر مزید روشنی نہیں ڈالنا چاہتا، البتہ میرے اس مدعا پر تاریخی شواہد ضرور موجود ہیں۔ ان کو بھی لوگ بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن بنی امیہ سے نجات حاصل کرنے کیلئے وہ ان کو اقتدار پر لے آنا چاہتے تھے۔ بنی امیہ ہر لحاظ سے اپنا مقام کھو چکے تھے، اگر چہ بنی امیہ ظاہر ی طور پر خود کو مسلمان کہلواتے تھے۔ لیکن ان کا اسلام سے دور تک واسطہ نہ تھا۔ خراسان میں ان کا اثر و رسوخ بالکل نہ تھا کہ لوگوں کو اس وقت کی حکومت کے خلاف اکٹھا کر سکیں اور خراسان کی فضا میں ایک خاص قسم کا تلاطم پیدا ہو چکا تھا، اگر چہ یہ لوگ چاہتے تھے کہ خلافت اور اسلام ہر دونوں کو اپنے پروگرام سے خارج کر دیں، لیکن نہ کرسکے، اور یہ اسلام کی بقاء اور مسلمانوں کی ترقی کا نام استعمال کر کے آگے بڑھتے گئے اور سال ۱۲۹ کے پہلے دن مرو کے ایک قصبے”سفید نج” میں اپنے قیام کا رسمی طور پر اعلان کیا۔ عید الفطر کا دن تھا۔ نماز عید کے بعد اس انقلاب کا اعلان کیا گیا، انھوں نے اپنے پرچم پر اس آیت کو تحریر کیا اور اسی آیہ کو اپنے انقلابی اہداف کا ماٹو قرار دیا:
"اذن للذین یقاتلون بانهم ظلموا وان الله علی نصرهم لقدیر” (۲۵)
"جن (مسلمانوں) سے (کفار) لڑا کرتے تھے چونکہ وہ (بہت) ستائے گئے اس وجہ سے انھیں بھی (جھادکی) اجازت دے دی گئی اور خدا تو ان لوگوں کی مدد پر یقیناً قادر (و توانا) ہے۔”
پھر انھوں نے سورہ حجرات کی آیہ نمبر ۱۳ کو اپنے منشور میں شامل کیا ارشاد خداوندی ہے:
"یا ایهاالناس انا خلقناکم من ذکر و انثی و جعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عندالله اتقکم”
لوگو ہم نے تو سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہارے قبیلے اور برادریاں بنائیں تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کر سکیں اس میں شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تم سب سے بڑا عزت دار وھی ہے جو بڑا پرہیز گار ہو۔”
اس آیت سے بنی نوع انسان کو سمجھایا جارہا ہے کہ اسلام اگر کسی کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے تو وہ اس کا متقی ہونا ہے۔ چونکہ اموی خاندان عربوں کو غیر عربوں پر ترجیح دیتے تھے اسلام نے ان کے اس نظریہ کی نفی کر کے ایک بار پھر اپنے دستور کی تائید کی ہے کہ خاندانی و جاہت، مالی آسودگی کو باعث فخر سمجھنے والو! تقوی ہی معیار انسانیت ہے۔
ایک حدیث ہے اور اس کو میں نے کتاب اسلام اور ایران کا تقابلی جائزہ میں نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ‌وسلم نے فرمایا ہے یا ایک صحابی نے نقل کیا ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ سفید رنگ کے گوسفند کالے رنگ کے گوسفند میں داخل ہوگئے اور یہ ایک دوسرے سے ملے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ان کی اولاد پیدا ہوئی ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خواب کی تعبیر ان الفاظ میں فرمائی کہ عجمی اسلام میں تمہارے ساتھ شرکت کریں گے، اور آپ لوگوں میں شادیاں کریں گے۔ آپ کی عورتیں ان کے مردوں اور ان کی عورتیں آپ کے مردوں کے ساتھ بیاہی جائیں گی۔ یعنی آپ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رشتے کریں گے۔ میں نے اس جملہ سے یہ سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک روز تم عجم کے ساتھ اور عجم تمہارے ساتھ اسلام کی خاطر جنگ کریں گے یعنی ایک روز تم عجم کے ساتھ جنگ کر کے انھیں مسلمان کریں گے اور ایک روز عجم تمہارے ساتھ لڑیں گے اور تمھیں اسلام کی طرف لوٹائیں گے اس حدیث کا مفھوم یھی ہے کہ اس قسم کا انقلاب آئے گا۔
بنی عباس انتھائی مضبوط پروگرام اور ٹھوس پالیسی پر عمل کرتے ہوئے تحریک کو پروان چڑھا رہے تھے۔ ان کا طریقہ کار بہت عمدہ اور منظم تھا انھوں نے ابو مسلم کو خراسان اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے بھیجا تھا۔ وہ یہ ہر گز نہیں چاہتے تھے کہ انقلاب ابو مسلم کے نام پر کامیاب ہو بلکہ انھوں نے چند مبلغوں کو خراسان بھیجا کہ جاکر لوگوں میں اچھے انداز میں تقریریں کر کے عوام کو امویوں کے خلاف اور عباسیوں کے حق میں جمع کریں۔ ابو مسلم کے نسب کے بارے میں آج تک معلوم نہیں ہو سکا تاریخ میں تو یہاں تک بھی پتہ نہیں ہے کہ ابو مسلم ایرانی تھے یا عربی؟ پھر اگر ایرانی تھے تو پھر کیا اصفھانی تھے یا خراسانی؟ وہ ایک غلام تھا اس کی عمر ۲۴ برس کی تھی کہ ابراہیم امام نے اس غیر معمولی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور اس کو تبلیغ کے لئے خراسان روانہ کیا تاکہ وہ خراسان کے عوام کے اندر ایک انقلاب برپا کر دے۔ اس نوجوان میں قائدانہ صلاحیتیں بھر پور طریقے سے موجود تھیں۔ یہ شخص سیاسی لحاظ سے تو خاصا با صلاحیت تھا لیکن حقیقت میں بہت برا انسان تھا۔ اس میں انسانیت کی بوتک نہ آتی تھی۔ ابو مسلم حجاج بن یوسف کی مانند تھا، اگر عرب حجاج پر فخر کرتے ہیں تو ہم بھی ابو مسلم پر فخر کرتے ہیں۔
حجاج بہت ہی زیرک اور ہوشیار انسان تھا۔ اس میں قائدانہ صلاحتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں، لیکن وہ انسانیت کے حوالے سے بہت ہی پست اور کمینہ شخص تھا۔ اس نے اپنے زمانہ اقتدار میں بیس ھزار آدمی قتل کیے اور ابو مسلم کے بارے میں مشھور ہے کہ اس نے چھ لاکھ آدمی قتل کیے۔ اس نے معمولی بات پر اپنے قریبی دوستوں کو بھی موت کے گھاٹ اتاردیا اور اس نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ ایرانی ہے یا عربی کہ ہم کہہ سکیں کہ وہ قومی تعصب رکھتا تھا۔
میں نہیں سمجھتا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس تحریک میں کسی قسم کی مداخلت کی ہو، لیکن بنو عباس نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کا یہ نعرہ تھا کہ وہ بنی امیہ سے خلافت ہر صورت میں لے کر رہیں گے۔ اس کیلئے وہ کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ یہاں پر قابل ذکر بات یہ ہے کہ بنو عباس کے پاس دو اشخاص ایسے ہیں کہ جو شروع سے لے کر آخر تک تحریک عباسیہ کی قیادت کرتے رہے۔ ایک عراق میں تھا اور وہ پس پردہ کام کررہا تھا اور دوسرا خراسان میں، اور جو کوفہ میں تھا وہ تاریخ میں ابو سلمہ خلال کے نام سے مشھور ہے اور جو خراسان میں تھا اس کا نام ابو مسلم ہے۔ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اس کو بنی عباس نے خراسان روانہ کیا اور اس نے بہت کم مدت میں بے شمار کامیابیاں سمیٹیں۔ ابو سلمہ کی حیثیت صدر اور ابو مسلم کی ایک وزیر کی تھی۔ یہ پڑھا لکھاشخص، سمجھدار سیاستدان اور بھترین منتظم تھا۔ گفتگو کرتے وقت دوسروں کو متأثر کر دیتا۔ یھی وجہ ہے کہ ابو مسلم ابو سلمہ سے حسد کرتا تھا۔ جب اس نے خراسان میں اپنی تحریک کا آغاز کیا تو ابو سلمہ کو درمیان سے ھٹا دیا اور ابو عباس سفاح کے نام ابو سلمہ کےخلاف ڈھیر سارے خط لکھ ڈالے، اور اس کو خطرناک شخص کے طور پر متعارف کروایا اور کھا کہ اس کو تحریک سے خارج کر دیجئے۔ اس نے اسی قسم کے خطوط بنی عباس کے مختلف اشخاص کی طرف ارسال کیے۔
لیکن سفاح نےاس کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا اور کھہ دیا کہ وہ مخلصانہ طویل خدمات کے صلے میں ابو سلمہ کےخلاف کسی قسم کا قدم نہیں اٹھا سکتے۔ پھر اعتراض کرنے والوں نے سفاح سے شکایت کی کہ ابو سلمہ اندر سے کچھ ہے اور باہر سے کچھ اور، وہ چاہتا ہے کہ آل عباس سے خلافت لے کر آل ابی طالب علیہ ‌السلام کے حوالے کرے۔ یہ سن کر سفاح نے کھا مجھ پر اس قسم کے الزام کی حقیقت ثابت نہ ہوسکی اگر ابو سلمہ اس طرح کی سوچ رکھتا ہے کہ وہ ایک انسان کی حیثیت سے اس طرح کی غلطی کرسکتا ہے۔ وہ ابو سلمہ کے خلاف جتنی بھی کوششیں کرتا تھا کار گر ثابت نہ ہوتی تھیں۔ کیونکہ ابو سفاح ابو سلمہ اس کو کسی نہ کسی حوالے سے نقصان دے سکتا ہے۔ اس لئے اس نے اس کے قتل کا منصوبہ بنا لیا۔ ابو سلمہ کی عادت تھی کہ وہ سفاح کے ساتھ رات گئے تک رھتا وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرتے ایک رات وہ سفاح سے ملاقات کر کے واپس آرہا تھا کہ ابو مسلم کے ساتھیوں نے اس کو قتل کر دیا۔ چونکہ سفاح کے کچھ آدمی اس قتل میں شریک تھے اس لئے ابو سلمہ کا خون کسی شمار میں نہ آسکا۔ یہ واقعہ سفاح کے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں پیش آیا۔ اس سانحہ کی کچھ وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ان میں کچھ محرکات یہ بھی ہیں۔
ابو سلمہ کا خط امام جعفر صادق علیہ ‌السلام اور عبد اللہ محض کے نام
مشھور مورخ مسعودی نے مروج الذھب میں لکھا ہے کہ ابو سلمہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اس فکر میں مستغرق رھتا تھا کہ خلافت آل عباس سے لے کر آل ابی طالب علیہ ‌السلام کے حوالے کرے۔ اگر چہ وہ شروع میں آل عباس کیلئے کام کرتا رہا۔ ۱۳۲ ھ میں جب بنی عباس نے رسمی طور پر اپنی حکومت کی داغ بیل ڈالی اس وقت ابراہیم امام شام کے علاقہ میں کام کرتا تھا لیکن وہ منظر عام پر نہیں آیا تھا۔ وہ بھائیوں میں سے بڑا تھا۔ اس لئے اس کی خواہش تھی کہ وہ خلیفہ وقت بنے لیکن وہ بنی امیہ کے آخری دور میں خلیفہ مروان بن محمد کے ہتھے چڑھ گیا اور اس کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ اگر اس کے خفیہ ٹھکانے کا کسی کو پتہ چل گیا تو وہ گرفتار کر لیا جائے گا۔ چنانچہ اس نے ایک وصیت نامہ لکھ کر مقامی کسان کے ذریعے اپنے بھائیوں کو بھجوایا۔ وہ کوفہ کے نواحی قصبے حمیمہ میں مقیم تھے، اس نے اس وصیت نامے میں اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں اپنی حالیہ پالیسی کے بارے میں اعلان کیا اور اپنا جانشین مقرر کیا اور اس میں اس نے یہ لکھا کہ اگر میں آپ لوگوں سے جدا ہوگیا تو میرا جانشین سفاح ہوگا (سفاح منصور سے چھوٹا تھا) اس نے اپنے بھائیوں کو حکم دیا کہ وہ یہاں سے کوفہ چلے جائیں اور کسی خفیہ مکان میں جاکر پناہ لیں اور انقلاب کا وقت قریب ہے۔ اس کو قتل کردیا گیا اور اس کا خط اس کے بھائیوں کے پاس پھنچایا گیا۔ وہ وہاں سے چھپتے چھپاتے کوفہ چلے آئے اور ایک لمبے عرصے تک وھیں پہ مقیم رہے۔ ابو سلمہ بھی کوفہ میں چھپا ہوا تھا اور تحریک کی قیادت کررہا تھا دو تین مھینوں کے اندر اندر یہ لوگ رسمی طور پر ظاہر ہوئے اور جنگ کر کے بہت بڑی فتح حاصل کی۔
مورخین نے لکھا ہے کہ اس انقلاب کے بعد ابراہیم امام کو قتل کردیا گیا۔ حکومت سفاح کے ہاتھ میں آگئی۔ اس واقعہ کے بعد ابو سلمہ کو پریشانی لاحق ہوئی اور وہ سوچنے لگا کہ خلافت کیوں نہ آل عباس سے لے کر آل ابو طالب کے حوالے کی جائے۔ اس نے دو علیحدہ علیحدہ خطوط لکھے ایک خط امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں روانہ کیا اور دوسرا خط عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب علیہ السلام کے نام ارسال کیا۔ (حضرت امام حسن علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام حسن تھا جسے حسن مثنیٰ سے یاد کیا جاتا ہے یعنی دوسرے حسن، حسن مثنی کربلا میں شریک جھاد ہوئے لیکن زخمی ہوئے اور درجئہ شھادت پر فائز نہ ہو سکے۔
اس جنگ میں ان کی ماں کی طرف سے ایک رشتہ داران کے پاس آیا اور عبید اللہ ابن زیاد سے سفارش کی کہ ان کو کچھ نہ کہا جائے۔ حسن مثنیٰ نے اپنا علاج معالجہ کرایا اور صحت یاب ہوگئے۔ ان کے دو صاجزادے تھے ایک کانام عبداللہ تھا۔ عبداللہ ماں کے لحاظ سے امام حسین علیہ السلام کے نواسے تھے اور باپ کی طرف سے امام حسن علیہ السلام کے پوتے تھے۔ آپ دو طریقوں سے فخر کرتے ہوئے کھا کرتے تھے کہ میں دو حوالوں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیٹا ہوں۔ اسی وجہ سے ان کو عبداللہ محض کھا جاتا تھا۔ یعنی خالصتاً اولاد پیغمبر، عبداللہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور امامت میں اولاد امام حسن علیہ السلام کے سربراہ تھے، جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام اولاد امام حسین علیہ السلام کے سربراہ تھے۔)
ابو سلمہ نے ایک شخص کے ذریعہ سے یہ دو خطوط روانہ کیے، اور اس کو تاکید کی کہ اس کی خبر کسی کو بھی نہ ہو۔ خط کا خلاصہ یہ تھا کہ خلافت میرے ہاتھ میں ہے۔ خراسان بھی میرے پاس ہے اور کوفہ پر بھی میرا کنٹرول ہے، اور اب تک میری ہی وجہ سے خلافت بنی عباس کو ملی ہے۔ اگر آپ حضرات راضی ہوں تو میں حالات کو پلٹ دیتا ہوں یعنی وہ خلافت آپ کو دے دیتا ہوں۔
امام علیہ ‌السلام اور عبداللہ محض کا رد عمل
قاصد وہ خط سب سے پھلے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں لے آیا۔ رات کی تاریکی چھا چکی تھی۔ اس کے بعد عبداللہ محض کو ابو سلمہ کا خط پہنچایا گیا۔ جب اس نے یہ خط حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں پیش کیا تو عرض کی مولا یہ خط آپ کے ماننے والے ابو سلمہ کا ہے۔ حضرت نے فرمایا ابو سلمہ ہمارا شیعہ نہیں ہے۔ قاصد نے کہا آپ مجھے ہر صورت میں جواب سے نوازیں۔آپ نے چراغ منگوایا آپ نے ابو سلمہ کا خط نہ پڑھا اور اس کے سامنے وہ خط پھاڑ کر جلا دیا اور فرمایا اپنے دوست (ابو سلمہ) سے کہنا کہ اس کا جواب یھی ہے اس کے بعد حضرت نے یہ شعر پڑھا ؂
ایا موقدانارا لغیرک ضوءها
یا حاطبافی غیر حبلک تحطب
"یعنی آگ روشن کرنے والے اور، اس کی روشنی سے دوسرے مستفید ہوں۔ اے وہ کہ جو صحرا میں لکڑیاں اکٹھی کرتا ہے اور تو خیال کرتا ہے کہ یہ تو اپنی رسی میں ڈالی ہیں تجھے یہ خبر نہیں ہے تو نے جتنی بھی لکڑیاں جمع کی ہیں اس کو تیرے دشمن اٹھا کر لے جائیں گے۔”
اس شعر سے حضرت کا مقصد یہ تھا کہ ایک شخص محنت کرتا ہے لیکن اس کی محنت سے استفادہ دوسرے لوگ کرتے ہیں گویا آپ کھہ رہے تھے کہ ابو سلمہ بھی کتنا بد بخت شخص ہے کہ اس نے حکومت کی تشکیل دینے کیلئے بہت زیادہ محنت کی ہے لیکن اس سے فائدہ دوسروں نے اٹھایا ہے یا اس شعر کا مطلب یہ تھا کہ اگر ہم خلافت کے لئے محنت کرتے ہیں اور وہ نا اہل ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔
کتنے افسوس اور دکھ کی بات ہے حضرت نے خط کو جلا دیا اور اس قاصد کو جواب نہ دیا ابو سلمہ کا قاصد وہاں سے اٹھا اور عبداللہ محض کے پاس آیا اور ان کو ابو سلمہ کا خط دیا۔ عبد اللہ خط کو پڑھ کر بے حد مسرور ہوئے۔ مورخ مسعودی نے لکھا ہے کہ عبداللہ صبح ہوتے ہی اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے در دولت پر آئے۔ امام علیہ السلام نے ان کا احترام کیا، حضرت جانتے تھے کہ عبداللہ کے آنے کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا لگتا ہے کہ آپ کوئی نئی خبر لے کر آئے ہیں۔ عبداللہ نے عرض کی جی ھاں ایسی خبر کہ جس کی تعریف و توصیف بیان نہ کی جاسکے۔ (نعم ہو اجل من ان یوصف) یہ خط ابو سلمہ نے مجھے بھیجا ہے انھوں نے اس خط میں تحریر کیا ہے کہ خراسان کے تمام شیعہ اس بات پر مکمل طور پر تیار ہیں کہ خلافت و ولایت ہمارے سپرد کردیں۔ انھوں نے مجھ سے درخواست کی ہے کہ ان کی یہ پیشکش قبول کر لوں۔ یہ سن کر امام علیہ السلام نے فرمایا:
"ومتی کان اهل خراسان شیعة لک؟”
خراسان والے آپ کے شیعہ کب بنے ہیں؟”
انت بعثت ابا مسلم الی خراسان؟”
کیا آپ نے ابو مسلم کو خراسان بھیجا ہے؟”
آپ نے خراسان والوں سے کہا ہے کہ وہ سیاہ لباس پہنیں اور ماتمی لباس کو اپنا شعار بنائیں۔ کیا یہ خراسان سے آئے ہیں یالائے گئے ہیں؟تم تو ایک آدمی کو بھی نہیں پھچانتے؟ امام علیہ السلام کی باتیں سن کر عبداللہ ناراض ہو گئے۔ انسان جب کوئی چیز پسند کرے اور اس کی خوشخبری سننے کے بعد کوئی اور بات سننا گوار نہیں کرتا۔ گویا یہ انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ اس نے حضرت امام جعفر صادق سے بحث کرنی شروع کردی اور حضرت سے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں:”انما یرید القوم ابنی محمدا لانه مهدی هذه الامة”
یہ میرے بیٹے محمد کو خلافت دینا چاہتے ہیں آُپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم اس امت کا امام مھدی آپ کا بیٹا محمد نہیں ہے اگر اس نے قیام کیا تو قتل کیا جائے گا۔ یہ سن کر عبداللہ اظہار ناراضگی کرتے ہوئے بولا آپ خواہ مخواہ ہماری مخالفت کر رہے ہیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا بخدا ہم تمہاری خیر خواہی اور بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں چاہتے ۔ آپ کا مقصد کبھی پورا نہیں ہوگا۔ اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا کہ بخدا ابو سلمہ نے بالکل اسی طرح کا خط ہماری طرف بھی روانہ کیا ہے لیکن ہم نے پڑھنے کی بجائے اس کو آگ میں جلا دیا۔ عبداللہ ناراض ہو کر چلے گئے۔ ان حالات کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت سیاسی فضا کس قدر تشویشناک تھی، بنی عباس کی تحریک کامیاب ہوتی ہے؟ ابو مسلم اس وقت خاصا فعال ہوتا ہے۔ اور وہ ابو سلمہ جیسے انقلابی شخص کو قتل کرادیتا ہے۔ سفاح بھی اس کی حمایت کرنے لگ جاتا ہے۔ پھر ایسا ہوا کہ ابو سلمہ کا قاصد ابھی مدینہ سے کوفہ نہ پھنچا تھا کہ ابو سلمہ قتل ہو چکا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے عبداللہ محض کا جواب ابو سلمہ کے ہاتھوں تک نہ پھنچ سکا۔
ایک تحقیق
اس واقعہ کو جس خوبی کے ساتھ مسعودی نے لکھا ہے اتنا اور کسی مورخ نے نہیں لکھا۔ میرے نزدیک ابو سلمہ کا مسئلہ بہت واضح ہے کہ وہ شخص سیاستدان تھا۔ وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شیعوں میں ہر گز نہ تھا۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ وہ ایک مرتبہ آل عباس کیلئے کام کرتا ہے اور دوسری مرتبہ وہ اپنی پالیسی بدل لیتا ہے۔ دراصل عوام کی اکثریت یہ نہیں چاہتی تھی کہ خلافت خاندان رسالت سے باہر کسی دوسرے شخص کے پاس جائے۔ آل ابی طالب میں دو شخصیات اہم شمار کی جاتی تھیں ایک حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور دوسرے جناب عبداللہ محض، ابو سلمہ ان دونوں شخصیات کے ساتھ دینداری اور خلوص کی وجہ سے یہ کام نہیں کر رہا تھا وہ چاہتا تھا کہ خلافت بدلنے سے اس کے ذاتی مفادات محفوظ رہیں۔ ابھی اس کو امام جعفر صادق علیہ السلام اور عبد اللہ محض کی طرف سے جواب موصول نہ ہوا تھا کہ ابو سلمہ قتل ہو گیا۔ جب میں یہ بات کرتے ہوئے لوگوں کو سنتا ہوں تو مجھے حیرانگی ہوتی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابو سلمہ کے خط کا جواب کیوں نہیں دیاتھا اور اس کی دعوت قبول کیوں نہیں کی تھی؟ ا سکا جواب بھی صاف ظاہر ہے کہ یہاں پر بھی حالات سازگار نہ تھے۔
صورت حال نہ روحانی لحاظ سے اچھی تھی اور نہ ظاہر ی لحاظ سے بھتر تھی بلکہ امام علیہ السلام نے جو بھی اقدامات کیے وہ حقیقت پر مبنی تھے ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے شروع ہی سے بنی عباس کی کسی قسم کی حمایت نہیں کی۔ دراصل آپ نہ امویوں کے حق میں تھے اور نہ عباسیوں کے حق میں۔ یہ دو خاندان اور موروثی حکمران ذاتی مفاد کے علاوہ کوئی سوچ نہ رکھتے تھے۔ ہم نے کتاب الفرج اصفھانی سے استفادہ کیا۔ اس سلسلے میں جتنی ابو الفرج نے تفصیل لکھی ہے اتنا اور کسی مورخ نے نہیں لکھا۔ ابو الفرج اموی مورخ تھے۔ اور سنی المذھب تھے ان کو اصفھان میں سکونت رکھنے کی وجہ سے اصفھانی کہا جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ اصفھانی نہ تھے بلکہ اموی تھے اگر چہ یہ اموی مورخ تھے لیکن انھوں نے تاریخ نویسی میں اعتدال قائم رکھا اس لئے جناب شیخ مفید (رح) نے اپنی کتاب ارشاد میں ابو الفرج سے روایات نقل کی ہیں۔
ھاشمی رھنماؤں کی خفیہ میٹنگ
دراصل بات یہ ہے کہ شروع میں یہ طے پایا تھا کہ امویوں کے خلاف تحریک شروع کی جائے۔ بنی ھاشم کے سرکردہ لیڑر ابواء مقام پر جمع ہوگئے تھے۔ یہ مقام مکہ و مدینہ کے درمیان واقع ہے۔ (ابواء یہ ایک تاریخ جگہ ہے یہ وہ جگہ ہے جھاں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے انتقال فرمایا تھا۔) ۔ چناچہ ابواء کے مقام پر ہونے والی خفیہ میٹنگ میں اولاد امام حسن علیہ ‌السلام عبداللہ محض اور آپ کے دونوں صاجزادے محمد و ابراہیم موجود تھے۔ اسی طرح بنی عباس کی نمائندگی کرتے ہوئے ابراہیم امام، ابوالعباس سفاح، ابو جعفر منصور اور ان کے چند بزرگوں نے شرکت کی۔ اس وقت عبداللہ محض نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اے بنی ھاشم! اس وقت لوگوں کی نگاہیں آپ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ اور عوام کی آپ سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں۔ اللہ تعالی نے آپ کو یہاں پر اکٹھے ہونے کا موقعہ بخشا ہے لھذا سب مل جل کر اس نوجوان (عبداللہ محض کے بیٹے) کی بیعت کریں۔ ان کو اپنی تحریک کا قائد منتخب کریں۔ اور امویوں کے خلاف وسیع پیمانے پر جنگ کا آغاز کریں۔ یہ واقعہ ابو سلمہ کے واقعات سے پھلے کا ہے۔ تقریباً انقلاب خراسان سے بارہ سال قبل۔ اس وقت اولاد امام حسن علیہ السلام اور بنو عباس کی مشترکہ خواہش تھی کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو کر امویوں کا مقابلہ کریں۔
محمد نفس زکیہ کی بیعت
بنی عباس کا شروع سے یہی پروگرام تھا کہ وہ آل علی علیہ السلا میں ایسے نوجوان کو اپنے ساتھ ملائے رکھیں کہ جو لوگوں میں مقبول ہو اور لوگ اس کی وجہ سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوسکتے ہوں۔ جب ان کی تحریک کامیاب ہو جائے گی تو اس نوجوان کو درمیان میں سے ھٹا دیا جائے گا۔ اس کام کیلئے انھوں نے محمد نفس زکیہ کو منتخب کیا ۔ محمد جناب عبداللہ محض کے صاحبزادے تھے ۔ عبد اللہ بہت ہی متقی اور پرہیز گار اور انتھائی خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا بیٹا محمد کردار و گفتار اور شکل و صورت میں ہو بھو اپنے باپ کی تصویر تھا۔ اسلامی روایات میں ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو اولاد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سے ایک نوجوان ظاہر ہوتا ہے اور اپنے جد امجد کی طرح اسی کا نام بھی محمد ہوگا اسی طرح اسلامی تحریکیں چلتی رہیں گی اور اولاد زھراعلیھا السلام میں سے ایک سید زادہ انقلابی جد وجھد کی قیادت کرتا رہے گا۔ اولاد امام حسن علیہ السلام کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ امت کا مھدی یھی محمد ہے۔ بنو عباس کے نزدیک بھی یھی محمد مھدی کے طور پر نمودار ہوئے تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انھوں نے سازش کر کے ان کو مھدی وقت مان لیاہو؟
بہر حال ابو الفرج نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ محض نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے مزید کھا ہمیں متحد ہو کر ایک ایسے نوجوان کی قیادت میں کام شروع کردینا چاہیے کہ جو اس مظلوم ملت کو ظالموں کے شکنجوں سے نجات دے سکے۔ ا سکے بعد بولے ایھا الناس اے لوگو! میری بات غور سے سنو ” ان ابنی ھذا ہو المھدی ” کہ میرا بیٹا محمد ہی مھدی دوراں ہے۔ آپ سب مل کر ان کی بیعت کریں۔ اس اثناء میں منصور بولا کہ مھدی کے عنوان سے نہیں البتہ یہ نوجوان موجودہ دور میں قیادت کے فرائض احسن طریقے سے نبھا سکتا ہے۔ آپ سچ کھہ رہے ہیں ہم سب کو اس نوجوان کی بیعت کرنی چاہی ے۔ میٹنگ کے تمام شرکاء نے ایک زبان ہو کر اس کی تصدیق کی اور ایک ایک کرکے انھوں نے محمد کی بیعت کی۔ اس کے بعد انھوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو پیغام بھیجا کہ آپ بھی تشریف لائیں۔ جب حضرت تشریف فرما ہوئے سب نے حضرت کا استقبال کیا۔ عبداللہ محض جو صدر مجلس تھے نے اپنے پہلو میں حضرت کو جگہ دی۔ اس کے بعد انھوں نے امام علیہ السلام کی خدمت میں رپورٹ پیش کی اور کہا جیسا کہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ملکی و سیاسی حالات مخدوش ہیں لھذا وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی شخص اٹھے اور امت و ملت کی قیادت کرے۔ اس میٹنگ کے تمام شرکاء نے میرے بیٹے محمد کی بیعت کی ہے ۔کیونکہ ہمارے نزدیک مھدی دوراں یہی محمد ہی ہیں۔ لھذا آپ ان کی بیعت کریں۔ فقال جعفر لا تفعلوا ، امام علیہ السلام نے فرمایا نہیں تم ایسا نہ کرو:
"فان هذا الامر ثم یات بعد ان کنت تری ان ابنک هذا هو المهدی فلیس به ولا هذا اوانه”
رہی بات مھدی علیہ السلام کے ظھور کی تو یہ وقت ظھور نہیں ہے۔ اے عبداللہ اگر تم خیال کرتے ہو کہ تمہارا یہ بیٹا محمد مھدی ہے تو تم سخت غلطی پر ہو، تمہارا بیٹا ہر گز مھدی نہیں ہے اس وقت مھدی علیہ السلام کا مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کی آمد اور ظھور کا وقت ہوا ہے۔”
وان کنت انما یرید ان تخرجه غضبا لله ولیامر بالمعروف وینه عن المنکر فانا والله لا ندعک فانت شیخنا ونبایع ابنک فی الامر "
حضرت نے اپنا موقف واضح کرتے ہوئے فرمایا اگر تم مھدی کے نام پر بیعت لے رہے ہو تو میں ہرگز بیعت نہیں کروں گا۔ کیونکہ یہ سراسر جھوٹ ہے یہ مھدی نہیں ہے اور نہ ہی مھدی علیہ السلام کے ظھور کا وقت ہوا ہے لیکن اگر آپ نیکی کے فروغ اور برائیوں اور ظلم کے خاتمے کے لئے جھاد کریں گے تو ہم آپ لوگوں کا ہر طرح سے ساتھ دیں گے۔”
امام علیہ السلام کے اس فرمان سے آپ کا موقف کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ آپ نے نیکیوں کی ترویج اور برائیوں کے خاتمہ کے لئے ساتھ دینے کا وعدہ تو کیا لیکن آپ نے ان کی غلط پالیسیوں کی مخالفت کردی کہ یہ محمد مھدی نہیں ہے۔ جب آپ نے بیعت کا انکار کیا تو عبداللہ ناراض ہوگئے۔ جب آپ نے عبداللہ کی ناراضگی کو دیکھا تو فرمایا دیکھو عبداللہ میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ تمہارا بیٹا محمد مھدی نہیں ہیں ہم اہل بیت کے نزدیک یہ ایک ایسا راز ہے کہ جس کو ہم ہی جانتے ہیں ہمارے سوا کوئی اور نہیں جانتا کہ وقت کا امام کون ہے اور مھدی علیہ ‌السلام کون ہوگا؟ یاد رکھو تمہارا یہ بیٹا بہت جلد قتل کر دیا جائے گا۔ ابو الفرج نے لکھا ہے کہ عبداللہ سخت ناراض ہوئے اور کھا خیر آپ نے جو کھنا تھا کہہ دیا لیکن ہمارا نظریہ یھی ہے کہ محمد مھدی وقت ہے، آپ حسد اور خاندانی رقابت کے باعث اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں۔
"فقال والله ماذاک یحملنی ولکن هذا واخوته وابنانهم دونکم وضرب یده ظهر ابی العباس”
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنا دست مبارک ابو العباس کی پشت پر مارتے ہوئے فرمایا یہ بھائی مسند خلافت پر فائز ہو جائیں گے اور آپ اور آپ کے بیٹے محروم رہیں گے۔”
اس کے بعد آپ نے عبداللہ حسن کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:
"ما هی الیک ولا الی ابنیک”
تم اور تمہارے بیٹے خلافت تک نہیں پھنچ سکیں گے۔”
ان کو قتل ہونے سے بچائیے۔ بنو عباس آپ کو خلافت تک پھنچنے نہیں دیں گے۔ اور تمہارے دونوں بیٹے قتل کر دئیے جائیں گے۔ اس کے بعد امام علیہ السلام اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ نے اپنا ایک ہاتھ عبدالعزیز عمران زھری کے کندھے پر رکھتے ہوئے اس سے کہا:
"ارایت صاحب الرداء الاصغر؟”
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے کہ جس نے سبز قبا پہنی ہوئی تھی؟”
(آپ کی اس سے مراد ابو جعفر منصور تھی) وہ بولا نعم جی ھاں آپ نے فرمایا خدا کی قسم ہم جانتے ہیں کہ یھی شخص مستقبل قریب میں عبداللہ کے بیٹوں کو قتل کردے گا۔
یہ سن کر عبدالعزیز سخت متعجب ہوا اور اپنے آپ سے کھنے لگا یہ لوگ آج تو اس کی بیعت کر رہے ہیں اور کل اسے قتل کردیں گے؟ آپ نے فرمایا ھاں عبدالعزیز ایسا ہی ہوگا عبدالعزیز نے کہا میرے دل میں تھوڑا سا شک گزرا ہو سکتا ہے امام علیہ السلام نے حسد وغیرہ کی وجہ سے ایسا کھا ہو لیکن خدا کی قسم میں نے اپنی زندگی ہی میں دیکھ لیا کہ ابو جعفر منصور نے عبداللہ کے دونوں بیٹوں کو قتل کردیا۔ دوسری طرف حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام محمد سے بے حد پیار کرتے تھے۔ ابوالفرج کے بقول
"کان جعفر بن محمد اذا رای محمد بن عبدالله بن الحسن تغر غرت عیناه”
کہ امام علیہ السلام کی نگاہ مبارک جب محمد پر پڑتی تو آپ کی آنکھو سے بے ساختہ آنسو چھلک پڑتے اور فرمایا کرتے:
"بنفسی هو ان الناس فیقولون فیه انه لمقتول لیس هذا فی کتاب علی من خلفاء هذه الامة”
میری جان قربان ہو اس پر لوگ جو اس کے بارے میں مھدی ہونے کے قائل ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ یہ نوجوان قتل کیا جائے گا ہمارے پاس حضرت علی علیہ السلام کی ایک کتاب موجود ہے اس میں محمد کا نام خلفاء میں شامل نہیں ہے۔”
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں تحریک کا آغاز ہی مھدویت کے نام پر ہوا ہے لیکن امام جعفر صادق علیہ ‌السلام نے اس کی سخت مخالفت کی اور فرمایا اگر یہ تحریک نیکیوں کے فروغ اور برائیوں کے خاتمہ کے لئے ہے تو پھر ہم اس کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کریں گے لیکن ہم محمد کو مھدی کے طور پر تسلیم نہیں کرسکتے، رہی بات بنو عباس کی تو ان کا مطمع نظر سیاسی و حکومتی مفادات حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے ۔
امام جعفر صادق علیہ ‌السلام کے دور امامت کی چند خصوصیات
یھاں پر ہم جس لازمی نکتے کا ذکر کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا دور امامت اسلامی خدمات کے حوالے سے بے نظیر اور بھترین دور ہے۔ آپ کے دور میں مختلف قسم کی تحریکوں نے جنم لیا، بے شمار انقلابات رونما ہوئے ۔ امام علیہ السلام کے والد گرامی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا انتقال ۱۱۴ کو ہوا۔ آپ اس وقت امام وقت مقرر ہوئے اور ۱۴۸ تک زندہ رہے۔ ظھور اسلام سےلیکر اب تک دو تین نسلیں حلقہ اسلام میں داخل ہو چکی تھیں۔ سیاسی و تمدنی لحاظ سے بے تحاشا ترقی ہوئی۔ اور کچھ ایسی جماعتیں بھی وجود میں آئیں جو خدا کی منکر تھیں۔ زندیق اس دور میں رونما ہوئے یہ لوگ خدا، دین اور پیغمبر کے مخالف تھے۔ بنی عباس کی طرف سے ان بے دین عناصر کو ہر لحاظ سے آزادی حاصل تھی۔ صوفیاء بھی اسی دور میں ظاہر ہوئے اور کچھ ایسے فقھا بھی پیدا ہوئے کہ جو فقہ کو قیاس کی طرف لے گئے۔ اس دور میں مختلف نظریات رکھنے والے لوگ، جماعتیں پیدا ہوئیں۔ اس نوع کی تبدیلی اور جدت وندرت پہلے ادوار میں نہ تھی۔
امام حسین علیہ ‌السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانوں کا زمین و آسمان کا فرق ہے۔ امام حسین علیہ السلام کے دور میں بہت زیادہ گھٹن تھی اور مشکل ترین دور تھا اس لئے امام عالی مقام نے اپنے دور امامت میں حدیث کے پانچ چھ جملے بیان فرمائے اس کے علاوہ کوئی حدیث نظر نہیں آتی، لیکن امام جعفر صادق علیہ السلام کا دور امام تعلیمی وتربیتی حوالے سے بھترین دور تھا۔ آپ نے فرصت کے ان لمحوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت کم مدت میں چار ھزار فضلاء تیار کیے۔ لھذا اگر ہم فرض کریں (جو کہ غلط ہے) کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کو وھی حالات پیش آتے جو امام حسین علیہ السلام کو پیش آئے تھے تو پھر بھی امام جعفر صادق علیہ السلام علمی کارنامے انجام دیتے؟ ہم نے پھلے عرض کیا ہے کہ آئمہ طاہر ین کی حیات طیبہ کا انداز ایک جیسا ہوتا ہے اور آپ کی شھادت وھی رنگ لاتی جو کہ امام حسین علیہ ‌السلام کی لائی ہے۔ اگر چہ آپ ایک وقت درجئہ شھادت پر فائز بھی ہوئے لیکن آپ کو قدرت نے خوب موقعہ فراہم کیا کہ آپ نے علمی و دینی لحاظ سے غیر معمولی کارنامے سر انجام دیئے۔ آج امام جعفر صادق علیہ السلام کا نام پوری دنیا میں ایک بہت بڑے مصلح کے طور پر مانا جانا جاتا ہے۔
امام جعفر صادق علیہ ‌السلام اور مسئلہ خلافت ( حصہ دوئم)
ھم نے گزشتہ تقریر میں عرض کیا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور امامت میں مسئلہ خلافت بھر پور طریقے سے سامنے آیا اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے دور میں حالات نے کچھ اس طرح کروٹ لی کہ طالبان حکومت داعیان خلافت ایک بار پھر پورے جوش وخروش کے ساتھ میدان عمل میں آگئے لیکن مصلحت وقت کے تحت امام جعفر صادق علیہ السلام نے گوشہ نشیشی اختیار کر لی۔ آپ کے دور امامت میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ امویوں کی حکومت کا مکمل طور پر خاتمہ ہوا۔ پھر ابو سلمہ خلال اور ابو مسلم جیسے انقلابی لوگ پیدا ہوئے۔ ابو سلمہ کو وزیر آل محمدعلیھم ‌السلام اور ابو مسلم کو امیر آل محمد کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ یھی نوجوان امویوں کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنے اگرچہ انھوں نے عباسیوں کو اقتدار حکومت سونپنے میں بھر پور کردار ادا کیا تاہم ابو سلمہ ایسا نوجوان ہے کہ جو آخر میں اس چیز کی خواہش رکھتا تھا کہ اقتدار آل علی علیھم السلام کو منتقل کیا جائے۔ انھوں نے اسی مقصد کی تکمیل کیلئے ایک خط امام جعفر صادق علیہ السلام اور عبداللہ محض کے نام بھی ارسال کیا تھا ان دونوں شخصیات میں عبداللہ حکومت ملنے پر خوش اور آمادہ تھے لیکن امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابو سلمہ کی اس پیش کش کو ذرہ بھر اہمیت نہ دی۔ یہاں تک آپ نے اس کے خط کو بھی نہ پڑھا جب آپ کی خدمت میں چراغ لایا گیا تو امام علیہ السلام نے اس خط کو نہ فقط پھاڑ دیا بلکہ اسے جلا بھی دیا اور فرمایا اس خط کا جواب یھی ہے اس سے متعلق ہم تفصیل سے گفتگو کر چکے ہیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے سیاسی و حکومتی امور میں دلچسپی لینے اور ان میں مداخلت کرنے کی بجائے گوشہ نشینی کو ترجیح دی اور آپ اقتدار کو سنبھالنے کی ذرا بھر خواہش نہ رکھتے تھے اور نہ ہی اس کے لئے کسی قسم کی کوشش کا سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام اگر کوشش کرتے تو اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لے سکتے تھے۔ اس کے باوجود آپ خاموش کیوں رہے؟ اس عدم دلچسپی کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ جبکہ فضا بھی امام کے حق میں تھی۔ بالفرض اگر اس مقصد کے لئے آپ شھید بھی ہو جاتے تو شھادت بھی آل محمد علیھم السلام کے لئے سب سے بڑا اعزاز ہے۔ ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے، ایک بار پھر ہم امام جعفر صادق علیہ السلام کی ہمہ جھت شخصیت کے بارے میں کچھ روشنی ڈالتے ہیں تاکہ حقیقت پوری طرح سے روشن ہو جائے۔ ہم نے پہلے عرض کیا ہے کہ اگر امام حسین علیہ السلام اس دور میں ہوتے تو آپ کا انداز زندگی بالکل امام جعفر صادق علیہ السلام اور دیگر آئمہ طاہر ین عليه‌السلام جیسا ہوتا چونکہ امام حسین علیہ السلام اور دیگر اماموں کے دور ھائے امامت میں فرق تھا اس لئے ہر امام نے مصلحت و حکمت عملی اپناتے ہوئے امن و آشتی کا راستہ اختیار کیا۔ ہماری گفتگو کا محوریہ نہیں ہے کہ امام علیہ السلام نے اقتدار کیوں نہیں قبول کیا؟ بلکہ بات یہ ہے کہ آپ چپ کیوں رہے اور میدان جنگ میں آکر اپنی جان جان آفرین کے حوالے کیوں نہیں کی؟
امام حسین علیہ ‌السلام اور امام صادق علیہ السلام کے ادوار میں باہمی فرق
ان دو اماموں کا آپس میں ایک صدی کا فاصلہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی شھادت سال ۶۱ ہجری کو ہوئی اور امام صادق علیہ السلام کی شھادت ۱۴۸ کو واقع ہوئی گویا ان دو اماموں کی شھادتیں ۸۷ سال ایک دوسرے سے فرق رکھتی ہیں۔ اس مدت میں زمانہ بہت بدلا، حالات نے کروٹ لی اور دنیائے اسلام میں گونا گوں تبدیلیاں ہوئیں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کے دور میں صرف ایک مسئلہ خلافت تھا کہ جس پر اختلاف ہوا دوسرے لفظوں میں ہر چیز خلافت میں سموئی ہوئی تھی، اور خلافت ہی کو معیار زندگی سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت اختلاف کا مقصد اور بحث کا ما حصل یہ تھا کہ کس کو "امیر امت” متعین کیا جائے اور کس کو نہ کیا جائے۔ اسی وجہ سے خلافت کا تصور زندگی کے تمام شعبوں پر محیط تھا۔ معاویہ سیاسی لحاظ سے بہت ہی طاقتور اور ظالم شخص تھا۔ اس کے دور حکومت میں سانس لینا بھی مشکل تھا۔ لوگ حکومت وقت کے خلاف ایک جملہ تک نہ کہہ سکتے تھے۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ اگر کوئی شخص حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت میں کوئی حدیث بیان کرنا چاہتا تو وہ اپنے اندر خوف محسوس کرتا تھا اور اس کو دھڑکا سا لگا رھتا کہ کھیں حکومت وقت کو پتہ نہ چل جائے۔ نماز جمعہ کے اجتماعات میں حضرت علی علیہ السلام پر کھلے عام تبرا کیا جاتا تھا۔ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی موجودگی میں منبر پر حضرت امیر علیہ السلام پر (نعوذ باللہ) لعنت کی جاتی تھی۔ جب ہم امام حسین علیہ السلام کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کا موسم کس قدر پتھریلا اور سخت تھا؟
کیسا عجیب دور تھا کہ امام حسین علیہ السلام جیسے امام سے ایک حدیث، ایک جمعہ، ایک مکالمہ ایک خطبہ اور ایک تقریر اور ایک ملاقات کا ذکر نہیں ہے۔ عجیب قسم کی گھٹن تھی۔ لوگوں کو آپ سے ملنے نہیں دیا جاتا تھا۔آپ نے پچاس سالوں میں کتنی تلخیاں دیکھیں۔ کتنی پابندیاں برداشت کیں۔ یہ صرف امام حسین علیہ السلام ہی جانتے ہیں یہاں تک آپ سے تین جملے بھی حدیث کے نقل نہیں کیے گئے۔ آپ ہر لحاظ سے مصائب میں گھرے ہوئے تھے۔یہ دور بھی گزر گیا جانے والے چلے گئے اور آنے والے آگئے بنی امیہ کی حکومت ختم ہوئی اور بنو عباس کی حکومت شروع ہوئی اس وقت لوگوں میں علمی و فکری لحاظ سے کافی تبدیلی ہو چکی تھی۔ لوگ فکری لحاظ سے آزادی محسوس کرتے تھے۔ اس دور میں جس تیزی سے علمی وفکری ترقی ہوئی اس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت پر وسیع پیمانے پر کام ہونے لگا مثال کے طور پر علم قرات، علم تفسیر، علم حدیث، علم فقہ اور دیگر ادبی سرگرمیاں عروج پر ہونے لگیں یہاں تک کہ طب، فلسفہ، نجوم اور ریاضی وغیرہ جیسے علوم منظر عام پر آنے لگے۔
یہ سب کچھ تاریخ میں موجود ہے کہ حالات کا رخ بدلنے سے لوگوں میں علمی وفکری شعور پیدا ہوا۔ باصلاحیت افراد کو اپنی صلاحیتیں آزمانے کا موقعہ ملا۔ یہ علمی فضا اور تعلیمی ماحول امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانوں سے قبل وجود تک نہ رکھتا تھا۔ یہ سب کچھ صرف حالات بدلنے سے ہوا کہ لوگ اچانک علم و عمل، فکر و نظر کی باتیں سننے لگے اور پھر کیا ہوا کہ چہار سو علم کی روشنی پھیلتی چلی گئی۔ اب اگر بنو عباس پابندی عائد کرنا بھی چاہتے تو ان کے بس سے باہر تھا۔ کیونکہ عربوں کے علاوہ دوسری قومیں مشرف بہ اسلام ہوچکی تھیں۔ ان قوموں میں ایرانی غیر معمولی حد تک روشن فکر تھے۔ ان میں جوش و جذبہ بھی تھا اور علمی صلاحیت بھی۔ مصری اور شامی لوگ بھی فکری اعتبار سے خاصے زرخیز تھے۔ ان علاقوں میں دنیا کے مختلف افراد آکر آباد ہوئے۔ پھر دنیا کے لوگوں کی آمد و رفت نے اس خطے کو علم و ادب کا گھوارا بنا دیا۔ مختلف قومیں، مختلف نظریات اور پھر بحث مباحثوں سے فضا میں حیرت انگیز تبدیلی رونما ہوئی۔ یہاں پر اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہو چکا تھا۔ لوگ چاہتے تھے کہ اسلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں۔ دوسری طرف عرب قرآن مجید میں کچھ زیادہ غور و خوض نہ کرتے تھے، لیکن دوسری قوموں میں قرآنی تعلیمات حاصل کرنے کے بارے میں بہت زیادہ جذبہ کار فرما تھا۔ اس دور میں قرآن مجید کے ترجمہ، تفسیر اور مفاہی م پر خاصہ کام ہوا اور لوگ قرآن مجید کو بنیادی حیثیت دے کر بات کرتے تھے۔
نظریات کی جنگ
اچانک پھر کیا ہوا کہ عقائد و نظریات کا بازار گرم ہوگیا، سب سے پھلے تو تفسیر قرآن، قرات اور آیات قرانی پر بحث ہونے لگی۔ ایک ایسی جماعت پیدا ہوئی کہ جو لوگوں کو علم قرات، اور الفاظ، حروف کی صحیح ادائیگی کے بارے میں تعلیم دینے لگی، اس وقت قرآن مجید کی اشاعت و طباعت ایسی نہ تھی کہ جیسا کہ ہمارے دور میں ہے۔ ان میں سے ایک شخص کھتا تھا میں قرات کرتا ہوں اور یہ روایت فلاں بن فلاں صحابی سے نقل کرتا ہوں اور ان کی اکثریت حضرت علی علیہ السلام تک پھنچتی تھی۔ دوسرے افراد مختلف شخصیات سے روایت کرتے اسی طرح بحثوں اور مذاکروں کا سلسلہ عروج تک جا پھنچا۔ یہ لوگ مساجد میں جاکر لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیتے۔ عربوں کی نسبت غیر عرب زیادہ شوق و ذوق سے شرکت کرتے تھے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عجمی لوگ قرآن مجید کو پڑھنے اور سمجھنے میں زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔ ایک قرات کے استاد مسجد میں آکر لوگوں کو درس قرآن دیتے اور ان کے ارد گرد لوگوں کا ایک ہجوم جمع ہوجاتا۔ اتفاق سے قرات میں بھی اختلاف پیدا ہوگیا پھر قرآن مجید کے معانی پر اختلاف پیدا ہوگیا، کوئی کچھ معنی کرتا اور کوئی کچھ ۔ اسی طرح احادیث کے بارے میں بھی مختلف آراء تھیں۔ حافظ احادیث کو بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ مساجد و محافل میں بڑے فخر و انبساط سے احادیث نقل کرتا اور لوگوں کو نئے اسلوب کے ساتھ حدیثیں بیان کرتا۔ نقل احادیث کے مراحل بھی بیان کرتا کہ یہ حدیث میں نے فلاں سے سنی اور اس نے فلاں سے اور فلاں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کی ہے پھر اس کا معنی و مفھوم یہ ہے۔
ان میں قابل احترام طبقہ فقھاء کا تھا لوگ ان سے فقھی مسائل پوچھتے تھے جیسا کہ اب بھی لوگ علماء سے شرعی و فقھی مسائل دریافت کرتے ہیں۔فقھاء کی ایک کثیر تعداد مختلف علاقوں میں پھیل گئی۔ لوگوں کو آسان طریقے سے بتایا جاتا تھا کہ یہ چیز حلال ہے اور یہ حرام یہ چیز پاک ہے اور یہ نجس یہ کاروبار صحیح ہے اور یہ ناجائز وغیرہ وغیرہ، مدینہ بہت بڑا علمی مرکز تھا اور دوسرا بڑا مرکز کوفہ میں قائم تھا۔ جناب ابو حنیفہ کوفہ میں تھے بصرہ بھی علمی لحاظ سے کافی اچھی شھرت کا حامل تھا۔ اس کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور امامت میں اندلس فتح ہوا تو یہاں پر بھی علمی مرکز قائم ہوگیا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ ہر اسلامی شھر علم و عمل کا مرکز کھلاتا تھا کھا جاتا تھا کہ فلاں فقیھہ کا یہ نظریہ ہے اور فلاں فقیھہ یہ فرماتے ہیں مختلف مکاتب فکر کی موجودگی میں اختلاف رائے کا پیدا ہونا ضروری امر تھا۔ چنانچہ فقھی میدان میں بھی عقائد کی جنگ چھڑ گئی اور یہ روز بروز زور پکڑتی گئی۔ ان تمام اختلافات سے بڑھ کر اختلاف "علم کلام” کا تھا۔
پہلی صدی ہی میں متکلم حضرات کی آمد شروع ہوگئی جیسا کہ ہم امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور میں دیکھتے ہیں کہ "متکلمین” آپس میں بحث مباحثہ کرتے اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے بعض شاگرد علم کلام میں خاص مہارت رکھتے تھے اور اعتراض کرنے والوں کو بڑے شائستہ طریقے سے جواب دیتے تھے۔ یہ لوگ خدا، صفات خدا اور قرآن مجید کی ان آیات سے متعلق بحث و تمحیص کرتے جو خدا کے بارے میں ہوا کرتی تھیں۔ کہا جاتا تھا کہ خدا کی فلاں صفت عین ذات ہے یا نھیں، کیا وہ حادث ہے یا قدیم؟ نبوت اور وحی کے بارے میں بحث کی جاتی تھی، شیطان کو بھی بحث میں لایا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟ اور کھاں سے آیا ہے اس کا کام کیا ہے اور اس کے شر سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟ پھر ایمان اور عمل پر روشنی ڈالی جاتی قضا وقدر، جبر و اختیار پر گفتگو ہوتی۔ غرض کہ علم کلام کے ماہر ین کے مابین نوک جھونک ہوتی رھتی اور مباحثوں کا یہ طویل سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور آج تک موجود ہے اور قیامت تک رہے گا لیکن بحث کے وقت انسان انتھا پسندانہ رویے کو ترک کرکے صلح و آشتی اور پرامن رویے کو اپنے سامنے رکھے۔ ان بحثوں کا نتیجہ تھا کہ ایک خطرناک ترین گروہ پیدا ہو گیا۔ ان کو آپ زندیق، لا مذھب کھہ سکتے ہیں۔ یہ لوگ خدا اور ادیان کے قائل نہ تھے۔ ان کو ہر لحاظ سے مکمل آزادی تھی، یہ مکہ و مدینہ، مسجد الحرام یہاں تک مسجد الحرام اور مسجد النبی میں بیٹھ کر اپنے عقائد کی ترویج کرتے تھے۔
اگر چہ وہ ہمارے نزدیک ایک بے دین کی سی حیثیت رکھتے ہیں لیکن وہ پڑھے لکھے ضرور تھے، ان کے سینوں میں علم اور ان کے ذھنوں میں فکر تھی، جو انھیں کچھ سوچنے اور بولنے پر مجبور کر رہی تھی یہ اور بات ہے کہ وہ سیدھی راہ سے بھٹک گئے تھے۔ ان میں کچھ سریانی زبان بولتے تھے اور کچھ یونانی زبان جانتے تھے، کچھ ایرانی تھے کہ فارسی بولتے تھے۔ کچھ ھندی زبان جانتے تھے۔ سر زمین ھند سے کافی زندیق منگوائے گئے تھے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ زندیقیوں کا وجود کھاں سے شروع ہوا اور اس کی وجہ کیا ہے؟اس دور کی ایک اور بات کہ لوگ افراط وتفریط کا شکار ہوگئے تھے۔ کچھ لوگ صوفیوں اور خشک مقدس مولویوں کے روپ میں سامنے آگئے۔ یہ صوفی حضرات بھی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور امامت میں وارد ہوئے۔ انھوں نے بہت جلد اپنا ایک مستقل اور الگ گروہ بنا لیا۔ یہ کھلے عام تبلیغ کرتے تھے۔
یہ لوگ اسلام کے خلاف کوئی بات نہ کرتے بلکہ لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے تھے کہ اصل اسلام وھی ہے کہ جو یہ کھہ رہے ہیں۔ ان خشک مقدس مولویوں نے لوگوں میں عجیب قسم کا نظریہ پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ ان کا ظاہر ی صالحانہ، عابدانہ اور زاہدانہ انداز اختیار کرنا زبردست کشش کا باعث بنا اور یہ خالص اور حقیقی دین اسلام کے لیے زبر دست خطرے کا باعث تھا خوارج بھی اسی نظریہ کی پیداوار ہیں۔
کتاب ” سیرت آل محمد” مؤلف: آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری” سے اقتباس
Book source: alhassanain.org

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button