خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:163)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک19 اگست 2022ء بمطابق 20 محرم الحرام1444 ھ)

تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔

مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

25 محرم الحرام امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کا دن قریب ہے۔اس مناسبت سے آج ہم امام علیہ السلام کی سیرت مبارکہ کے مختلف پہلوؤں پر بات کریں گے۔امام زین العابدین علیہ السلام روحانیت و معنویت کا کامل نمونہ ہیں۔ ان کی زیارت گویا حقیقتِ اسلام کی زیارت ہے۔ آپٴ کی نمازیں‘ روح کی پرواز ہوتی تھی اور آپٴ پورے خضوع و خشوع کے ساتھ بارگاہِ پروردگار میں کھڑے ہوتے تھے۔ آپٴ محبت کے پیغام بر تھے۔ جب کبھی کوئی ایسا غریب و بے کس نظر آتا جو دوسروں کی توجہ سے محروم ہوتا تو اس کی دلجوئی کرتے اور اسے اپنے گھر لے جاتے۔

ایک دن آپٴ نے چند لوگوں کو دیکھا جو جذام کے مرض میں مبتلا تھے اور لوگ انہیں دھتکار رہے تھے، آپٴ انہیں اپنے گھر لے گئے اور ان کا خیال رکھا۔ امامٴ کا شریعت کدہ غریبوں، یتیموں اور بے کسوں کے لئے پناہ گاہ تھا۔ (سیری در سیرہ ائمہ اطہار، شہید مطہری)

امام علیہ السلام کے القاب:

سید العابدین، زین العابدین، سید المتقین، امام المومنین، سجاد اور زین الصالحین، یہ چوتھے امامٴ کے چند القاب ہیں، جن میں سے زین العابدین اور سجاد کو زیادہ شہرت ملی۔ یہ ایسے القاب نہیں ہیں جو تمام عرب اپنے بچوں کو ولادت کے وقت ہی یا بچپن میں دے دیا کرتے تھے۔ بلکہ یہ القاب قدر شناس جوہریوں اور انسان کی تلاش میں سرگرداں لوگوں نے آپٴ کو دیئے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو اس تاریک دور میں ظالموں کے ہاتھوں پریشان تھے اور امامٴ کی ذات میں ان کو ایک ایسا شخص دکھائی دیتا تھا جسے بڑے بڑے دانشور بھی روزِ روشن میں ڈھونڈ نہیں سکتے تھے۔

یہ القاب دینے والے اکثر لوگ نہ شیعہ تھے اور نہ وہ آپٴ کو خدا کی جانب سے برگزیدہ امام مانتے تھے۔ اس کے باوجود جو صفات انہیں آپٴ کے اندر دکھائی دیتی تھیں، وہ اسے نظرانداز نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ ان میں سے ہر لقب مرتبہ کمال، درجہ ایمان، مرحلہ اخلاص و تقوی کی نشاندہی کرتا ہے نیز صاحبِ لقب پر لوگوں کے ایمان اور اعتماد کا بھی مظہر ہے کہ آپٴ ان خصوصیات کا حقیقی مظہر تھے اور اس بات پر سب متفق ہیں۔

لقب سجادؑ :

ذہبی نے طبقات الحفاظ میں بحوالہ امام محمدباقرعلیہ السلام لکھاہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کوسجاد اس لیے کہاجاتاہے کہ آپ تقریبا ہرکارخیرپرسجدہ فرمایاکرتے تھے جب آپ خداکی کسی نعمت کاذکرکرتے توسجدہ کرتے جب کلام خداکی آیت ”سجدہ“ پڑھتے توسجدہ کرتے جب دوافراد میں صلح کراتے توسجدہ کرتے اسی کانتیجہ تھاکہ آپ کے سجدے کی جگہوں پراونٹ کے گھٹوں کی گھٹے پڑجاتے تھے پھرانہیں کٹواناپڑتاتھا۔

امام زین العابدین علیہ السلام کا بلندنسب اور نسل باپ اورماں کی طرف سے دیکھے جاتے ہیں، امام علیہ السلام کے والدماجد حضرت امام حسینؑ اورداداحضرت علیؑ اوردادی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اورآپ کی والدہ جناب شہربانوبنت یزدجردابن شہریارابن کسری ہیں ،یعنی آپ حضرت پیغمبراسلام علیہ السلام کے پوتے اورنوشیرواں عادل کے نواسے ہیں ،یہ وہ بادشاہ ہے جس کے عہدمیں پیداہونے پرسرورکائنات نے اظہارمسرّت فرمایاہے

امام زین العابدینٴ کے دور کے حالات اور ذمہ داریاں:

امام زین العابدینٴ کا دور بہت سخت اور دشوار تھا۔ یہاں تک کہ آپٴ خود فرماتے ہیں: ’’اگر کسی پر کفر کی تہمت لگائی جاتی تو یہ اس سے بہتر تھا کہ اس پر تشیع کا الزام لگایا جاتا( یعنی یہ ایسا دور تھا جس میں کافر کو اتنا برا نہیں سمجھا جاتا تھا جتنا شیعہ کو برا سمجھا جاتا تھا)۔‘‘ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج ٢) نیز فرمایا: ’’مکہ او ر مدینہ میں بیس لوگ ایسے نہیں ہیں جو ہم سے محبت کرتے ہوں۔‘‘ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ٤)

آپٴ کے دور میں اموی خاندان لوگوں پر پوری طرح سے غالب تھا کہ لوگوں پر ظلم و ستم روا رکھنے کے علاوہ ان کے دین کی تحریف پر بھی تُل گئے تھے۔ چنانچہ صحابی رسول، جناب انس بن مالک گریہ کرتے ہوئے کہا کرتے تھے: ’’جو باتیں زمانِ رسول میں موجود تھیں، ان میں سے کچھ بھی نہیں ملتا۔ جو چیزیں ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سیکھی ہیں ان میں سے صرف نماز بچی ہے کہ اس میں بھی بدعتیں پیدا ہوگئی ہیں۔‘‘ (امام سجاد قہرمان مبارزہ با تہاجم فرہنگی جلد ١) مشہور مورخ مسعودی کہتا ہے: ’’علیٴ بن الحسینٴ نے انتہائی کٹھن دور میں امامت کی ذمہ داری سنبھالی۔‘‘ (اثبات الوصیہ، مسعودی جلد ٤) امامٴ نے دوراندیشی اور اعلی تدبیر اختیار کرتے ہوئے بہترین انداز سے کام کیا اور وحی کے روشن چراغ کو بجھنے سے بچایا۔ آپٴ نے آسمان سے نازل ہونے والے خالص دین کو طوفانِ حوادث کے درمیان سے صحیح سلامت نکال کر اگلی نسلوں کے حوالے کیا اور اہل بیت علیھم السلام کے نام کو زندہ رکھا۔ مناسب حالات فراہم نہ ہونے کی وجہ سے قیام سے پرہیز، دعا کے قالب میں عظیم ثقافتی کام کا بیڑہ اٹھانا، ہر مناسب موقع پر شعور کو جھنجھوڑنا، عزائے سید الشہداءٴ میں زار و قطار رونا ۔۔ حصولِ مقصد میں آپٴ کے کامیاب اقدامات کا ایک حصہ ہے۔

تہذیبی حملے کا زبردست مقابلہ اور امام سجادٴ:

دینِ اسلام کسی بھی دور میں تہذیبی حملوں سے محفوظ نہیں رہا اور نہ ہے۔ بعض اوقات بعض معصومین کے دور میں یہ حملے عروج پر پہنچ جاتے تھے اور ایسے ہی خطروں کا مقابلہ کرتے ہوئے عاشورا جیسا خونی معرکہ درپیش آجاتا تھا۔ امام سجادٴ بھی ایک ایسے دور میں زندگی گزار رہے تھے کہ جب اخلاقی اقدار اور خالص اسلامی تہذیب کو طاقِ فراموشی کے سپرد کیا جارہا تھا اور پست اقدار اور اخلاقی کمزوریاں جابجاپھیلی ہوئی تھی۔ امامٴ نے ان ناگوار حالات میں بھی دشمن کے لئے میدان کو خالی نہ چھوڑا۔ امامٴ نے علی الاعلان قیام سے پرہیز کرتے ہوئے اس کے بجائے، دھیمے اور خفیہ طریقے سے نیک انسانوں کی تربیت اور ان کو درست نظریات کی تعلیم نیز ان کو آنکھیں کھولنے کا پیغام دیتے ہوئے تہذیبی و ثقافتی حملے کا مقابلہ کیا اور اس تہذیبی حملے کے میدان میں کامیاب و کامران رہے۔ اس بارے میں ہم صرف ایک حوالہ پیش کریں گے یعنی صحیفہ کاملہ، جو کہ خدا مخالف اور غیراسلامی تہذیبوں کے حملوں کے مقابل صدیوں سے ہدایت کی تشنہ اور تکامل کی خواہاں روحوں کے لئے آبِ گوارا کی مانند ہے۔

امام کے قیام نہ کرنے کا سبب

عظیم لوگوں کی کامیابی کا ایک راز حالات سے آگاہی اور اپنے زمانے کی پہچان ہے۔ یہ حضرات اپنے اردگرد ہونے والے حالات و واقعات کا درست جائزہ لینے کے بعد اپنے رویے کا انتخاب کرتے ہیں۔ لہذا نہ ہمیشہ تحریک چلاتے ہیں اور نہ ہمیشہ صلح کی حالت میں رہتے ہیں۔ بلکہ زمانے کی مصلحت اور حالات کے تقاضے ان کے لئے جنگ یا صلح کومعین کرتی ہے۔

امام سجادٴ بھی اس قاعدے سے مستثنی نہیں تھے۔ آپٴ نے درست طور پر اور قابلِ ستائش انداز سے مصلحت کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ دین کی استقامت و پائداری کے لئے اب مقابلے کا انداز بدلنا ہوگا۔ درحقیقت معاشرے میں حکم فرما سخت وحشت انگیز اور آمرانہ فضا اور ظالم اموی حکومت کے سخت کنٹرول اور تسلط کی وجہ سے ہر قسم کی مسلحانہ تحریک کی شکست پہلے ہی سے واضح تھی اور کوئی معمولی سی بھی حرکت حکومتی جاسوسوں سے چھپ نہیں سکتی تھی۔

اسی بنا پر امامٴ یہ دیکھ رہے تھے کہ درست اور عاقلانہ طریقہ کار یہی ہے کہ مقابلہ کا انداز بدل دیا جائے اور دعا کے قالب میں ظالم کا مقابلہ کر کے اگلی نسلوں تک اپنا پیغام پہنچایا جائے۔ گویا امام سجادٴ اسی دردناک حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دعا کے قالب میں خدائے متعال سے عرض کرتے ہیں: (خدایا!) کتنے ہی ایسے دشمن تھے جنہوں نے شمشیر عداوت کو مجھ پر بے نیام کیا اور میرے لئے اپنی چھری کی دھا ر کو باریک اور اپنی تندی و سختی کی باڑ کو تیز کیا اور پانی میں میرے لئے مہلک زہروں کی آمیزش کی اور کمانوں میں تیروں کو جوڑ کر مجھے نشانہ کی زد پر رکھ لیا اور ان کی تعاقب کرنے والی نگاہیں مجھ سے ذرا غافل نہ ہوئیں اور دل میں میری ایذا رسانی کے منصوبے باندھتے اور تلخ جرعوں کی تلخی سے مجھے پیہم تلخ کام بناتے رہے۔‘‘ (صحیفہ کاملہ دعائے ٤٩)

امام سجادٴ نے آزادی کے ساتھ تحریک چلانے کے لئے حالات کو نامناسب دیکھتے ہوئے بالواسطہ مقابلہ کیا اور حقیقی اسلام کی ترویج اور استحکام کے لئے حکیمانہ سیاست اختیار کی جس کے بعض نکات درج ذیل ہیں:

١۔ عاشوراء کی یاد کو زندہ رکھنا:

امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی شہادت اموی حکومت کے لئے بہت مہنگی ثابت ہوئی تھی۔ رائے عامہ ان کے خلاف ہو گئی تھی اور اموی حکومت کا جواز خطرے میں پڑ گیا تھا۔ چنانچہ اس اندوہناک واقعے کی یاد کو تازہ رکھنے اور اس کے عظیم اثرات کے حصول کے لئے امامٴ شہدائے کربلا پر گریہ کرتے رہے اور ان کی یاد کو زندہ رکھتے ہوئے، گریہ کی صورت میں منفی مقابلہ جاری رکھا۔ اگرچہ یہ بہتے آنسو جذباتی بنیادوں پر استوار تھے لیکن اس کی اجتماعی برکات اور سیاسی آثار بھی بے نظیر تھے۔ یہاں تک کہ عاشوراء کے نام کی جاودانگی کا راز امام زین العابدین علیہ السلام کی اسی گریہ و زاری اور عزاداری کو قرار دیا جاسکتا ہے۔

٢۔ وعظ و نصیحت:

اگرچہ امام سجاد علیہ السلام اپنے دور کے گھٹن آلود ماحول کی وجہ سے اپنے افکار و نظریات کو کھل کر بیان نہ کرسکے، لیکن ان ہی باتوں کو وعظ و نصیحت کی زبان سے ادا کر دیا کرتے تھے۔ ان مواعظ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام حکمت کے ساتھ، لوگوں کو موعظہ کرتے ہوئے جو چیز چاہتے ان کو سکھا دیا کرتے تھے۔ اور اس دور میں درست اسلامی نظریات کی تعلیم کا بہترین انداز یہی تھا۔

٣۔ درباری علماء کا سامنا اور ان سے مقابلہ:

درباری علماء عوام الناس کے اذہان اور ان کے افکار کو فاسق و فاجر حکمرانوں کی جانب راغب کرتے تھے تاکہ حکومت کو قبول کرنے کے لئے رائے عامہ کو ہموار کیا جائے اور حکمران اس سے اپنے مفادات حاصل کر سکیں۔ بنابریں، امام سجاد علیہ السلام گمراہی اور بربادی کی جڑوں سے مقابلہ کرتے ہوئے بنیادی سطح پر حقیقی اسلامی ثقافت کی ترویج کے لئے کوششیں کرتے تھے اور لوگوں کو ان جڑوں کے بارے میں خبردار کیا کرتے تھے جن سے ان ظالموں کو روحانی غذا ملتی تھی۔

٤۔ انکشافات کے لئے ہر مناسب موقع سے فائدہ اٹھانا:

امام سجاد علیہ السلام کے دور میں تحریک کے لئے حالات مناسب نہ تھے، لیکن حالات کی سختی آپ کو مناسب مواقع پر حقائق کے انکشاف سے بازنہ رکھ سکے۔ بطورِ مثال اپنی اسیری کے دوران جب دربارِ یزید میں آپٴ کو کچھ دیر گفتگو کا موقع ملا، تو منبر پر جاکر فرمایا:

’’اے لوگو! جو مجھے نہیں پہچانتا میں اس سے اپنا تعارف کرواتا ہوں،میں مکہ و منی کا بیٹا ہوں، میں صفا و مروہ کا فرزند ہوں، میں فرزندِ محمد مصطفی ہوں کہ جن کا مقام سب پر واضح اور جس کی پہنچ آسمانوں تک ہے۔ میں علی مرتضی اور فاطمہ زہراٴ کا بیٹا ہوں۔۔ میں اس کا بیٹا ہوں جس نے تشنہ لب جان دی اور اس کا بدن خاکِ کربلا پر گرا۔

اے لوگو! خدائے متعال نے ہم اہلبیت کی خوب آزمائش کی ۔ کامیابی، عدالت اور تقوی کو ہماری ذات میں قرار دیا۔ ہمیں چھ خصوصیات سے برتری اور دوسرے لوگوں پر سرداری عطا فرمائی۔ حلم و علم، شجاعت اور سخاوت عنایت کی اور مومنین کے قلوب کو ہماری دوستی اور عظمت کا مقام اور ہمارے گھر کو فرشتوں کی رفت و آمد کا مرکز قرار دیا۔ ‘‘

(مناقب آل ابیطالبٴ، ابن شہر آشوب جلد ٤)

امام زین العابدین علیہ السلام اورفقراء مدینہ کی کفالت

علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فقراء مدینہ کے سوگھروں کی کفالت فرماتے تھے اورساراسامان ان کے گھرپہنچایاکرتے تھے جنہیں آپ یہ بھی معلوم نہ ہونے دیتے تھے کہ یہ سامان خوردونوش رات کوکون دے جاتاہے آپ کااصول یہ تھاکہ بوریاں پشت پرلادکر گھروں میں روٹی اورآٹا وغیرہ پہنچاتے تھے اوریہ سلسلہ تابحیات جاری رہا، بعض معززین کاکہناہے کہ ہم نے اہل مدینہ کویہ کہتے ہوئے سناہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی تک ہم خفیہ غذائی رسد سے محروم نہیں ہوئے۔ (مطالب السؤل ص 265 ،نورالابصار ص 126) ۔

امام زین العابدین علیہ السلام اورصحیفہ کاملہ

کتاب صحیفہ کاملہ آپ کی دعاؤں کامجموعہ ہے اس میں بے شمارعلوم وفنون کے جوہرموجودہیں یہ پہلی صدی کی تصنیف ہے (معالم العلماء ص ۱ طبع ایران)۔ اسے علماء اسلام نے زبورآل محمداورانجیل اہلبیت کہاہے (ینابیع المودۃ ص 499 ،فہرست کتب خانہ طہران ص 36) ۔ اوراس کی فصاحت وبلاغت معانی کودیکھ کراسے کتب سماویہ اورصحف لوحیہ وعرشیہ کادرجہ دیاگیاہے (ریاض السالکین ص ۱) اس کی چالیس شرحیں ہیں ان میں ریاض السالکین کو فوقیت حاصل ہے۔صحیفہ کاملہ پر گفتگو کرنے کےلیے ایک الگ نشست درکار ہوگی۔

توہین کا جواب

امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس ایک شخص آیا اور آپ پر چلایا اور آپ کو ناسزا باتیں کہیں! لیکن امام علیہ السلام نے اس کو ایک بات کا بھی جواب نہ دیا یہاں تک کہ وہ شخص اپنے گھر واپس ہوگیا۔

اس کے جانے کے بعد امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: تم لوگوں نے سنا کہ یہ شخص کیا کہہ رہا تھا؟ میں چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ چلو تاکہ میں جو اس کو جواب دوں وہ بھی سن لو، انھوں نے کہا: ٹھیک ہے ، ہم آپ کے ساتھ چلتے ہیں ، چنانچہ امام علیہ السلام نے نعلین پہنے اور اس کے گھر کی طرف روانہ ہوئے، اور یہ آیت تلاوت فرمائی: والکاظمین الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (آل عمران:134)

”…اوروہ لوگ جو غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں (کی خطاؤں) کو معاف کرنے والے ہیں اور خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔“

(آپ کے ساتھی کہتے ہیں:) ہمیں معلوم ہوگیا کہ امام علیہ السلام اس سے کچھ نھیں کہیں گے، بہر حال اس کے گھر پر پہنچے ، اور بلند آواز میں کہا: اس سے کہو؟ یہ علی بن حسین (علیھما السلام) آئے ھیں، وہ شخص جو فساد کرنے کے لئے تیار تھا اپنے گھر سے باھر نکلا اور اُسے شک نھیں تھا کہ آپ اس کی توھین آمیز گفتگو کی تلافی کرنے کے لئے آئے ھیں، امام سجاد علیہ السلام نے اس سے فرمایا: اے بھائی! کچھ دیر پہلے تم نے میرے سامنے میرے بارے میں کچھ باتیں کہیں، اگر مجھ میں وہ پاتیں پائی جاتی ھیں تو میں خدا کی بارگاہ میں طلب بخشش چاہتا ہوں، اور اگر وہ باتیں مجھ میں نھیں پائی جاتیں تو خدا تجھے معاف کردے، (یہ سننا تھا کہ) اس شخص نے آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور کہا: جو چیزیں میں نے کہیں وہ آپ میں نہیں ہیں بلکہ میں خود ان باتوں کا زیادہ سزاوار ہوں۔

(ارشاد، مفید، ج۲، ص۱۴۵)

واقعہ کربلااورحضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے خطبات :

معرکہ کربلاکی غم انگیز داستان تاریخ اسلام ہی نہیں تاریخ عالم کاافسوسناک سانحہ ہے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اول سے آخرتک اس ہوش ربا اورروح فرساواقعہ میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ رہے اوران کی شہادت کے بعدخوداس تحریک کے علمبرداربنے اورپھرجب تک زندہ رہے اس سانحہ کاماتم کرتے رہے ۱۰/ محرم ۶۱ ھء کاواقعہ یہ اندوہناک حادثہ جس میں ۱۸/ بنی ہاشم اوربہتّراصحاب وانصارشہید ہوئے حضرت امام زین العابدینؑ مرتے دم تک اس کی یادفراموش نہ ہوئی اوراس کاصدمہ جانکاہ دورنہ ہوا، آپ یوں تواس واقعہ کے بعدتقریبا 35 سال زندہ رہے مگر لطف زندگی سے محروم رہے اورکسی نے آپ کوبشاش اورفرحناک نہ دیکھا،اس جانکاہ واقعہ کربلاکے سلسلہ میں آپ نے جوجابجاخطبات ارشادفرمائے ہیں ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں۔

کوفہ میں آپ علیہ السلام کاخطبہ :

کتاب لہوف میں ہےکہ کوفہ پہنچنے کے بعدامام زین العابدینؑ علیہ السلام نے لوگوں کوخاموش رہنے کااشارہ کیا،سب خاموش ہوگئے، آپ کھڑے ہوئے خداکی حمدوثناء کی ،حضرتؑ نے نبیﷺ کاذکرکیا، ان پرصلوات بھیجی پھرارشادفرمایاائے لوگو! جومجھے جانتاہے وہ توپہچانتاہی ہے جونہیں جانتا اسے میں بتاتاہوں میں علی بن الحسین بن علی بن ابی طالبؑ ہوں ،میں اس کافرزندہوں جس کی بے حرمتی کی گئی جس کاسامان لوٹاگیاجس کے اہل وعیال قیدکردئیے گئے میں اس کافرزندہوں جوساحل فرات پرذبح کردیاگیا،اوربغیرکفن ودفن چھوڑدیاگیااور(شہادت حسینؑ)ہمارے فخرکے لیے کافی ہے اے لوگو! تمہارابراہوکہ تم نے اپنے لیے ہلاکت کاسامان مہیاکرلیا، تمہاری آراء کس قدربری ہیں ،تم کن آنکھوں سے رسول ﷺ کودیکھوگے جب رسول ﷺ تم سے پوچھ گچھ کریں گے کہ تم لوگوں نے میری عترت کوقتل کیااورمیرے اہل حرم کوذلیل کیا ”اس لیے تم میری امت سے نہیں ہو“۔

مسجددمشق (شام) میں آپؑ علیہ السلام کاخطبہ :

مقتل ابی مخنف ، بحارالانوار ، ریاض القدس ، اورروضة الاحباب وغیرہ میں ہے کہ جب حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اہل حرم سمیت درباریزیدمیں داخل کئے گئے اور ان کومنبرپرجانے کاموقع ملاتوآپ منبرپرتشریف لے گئے اورانبیاءؑ کی طرح شیریں زبان میں نہایت فصاحت وبلاغت کے ساتھ خطبہ ارشادفرمایا :

اے لوگو! تم سے جومجھے پہچانتاہے وہ توپہچانتاہی ہے، اورجونہیں پہچانتامیں اسے بتاتاہوں کہ میں کون ہوں؟ سنو، میں علی بن الحسین بن علی بن ابی طالبؑ ہوں، میں اس کافرزندہوں جس نے حج کئے ہیں اس کافر زندہوں جس نے طواف کعبہ کیاہے اورسعی کی ہے ، میں پسرزمزم وصفاہوں، میں فرزندفاطمہ زہراسلام اللہ علیہا ہوں، میں اسکافرزند ہوں جسے پشت گردن سے ذبح کیاگیا،میں اس پیاسے کافرزند ہوں جوپیاساہی دنیاسے اٹھا،میں اس کافرزندہوں جس پرلوگوں نے پانی بندکردیا، حالانکہ تمام مخلوقات پرپانی کوجائزقراردیا،میں محمدمصطفی کافرزندہوں، میں اس کافرزندہوں

جوکربلامیں شہیدکیاگیا،میں اس کافرزندہوں جس کے انصار زمین میں آرام کی نیندسوگئے، میں اسکا پسرہوں جس کے اہل حرم قیدکردئے گئے میں اس کافرزندہوں جس کے بچے بغیرجرم وخطاذبح کرڈالے گئے ، میں اس کابیٹا ہوں جس کے خیموں میں آگ لگادی گئی، میں اس کافرزند ہوں جس کاسرنوک نیزہ پربلندکیاگیا، میں اس کافرزند ہوں جس کے اہل حرم کی کربلامیں بے حرمتی کی گئی، میں اس کافرزندہوں جس کاجسم کربلا کی زمین پرچھوڑدیاگیااورسر دوسرے مقامات پرنوک نیزہ پربلندکرکے پھرایا گیا میں اس کافرزند ہوں جس کے اردگردسوائے دشمن کے کوئی اورنہ تھا،میں اس کافرزندہوں جس کے اہل حرم کوقیدکرکے شام تک پھرایاگیا، میں اس کافرزندہوں جوبے یارومددگارتھا۔ پھرامام علیہ السلام نے فرمایا لوگو! خدانے ہم کوپانچ فضیلتیں بخشی ہیں:

۱۔ خدا کی قسم ہمارے ہی گھرمیں فرشتوں کی آمدورفت رہی اورہم ہی معدن نبوت ورسالت ہیں۔

۲۔ ہماری شان میں قرآن کی آیتیں نازل کیں، اورہم نے لوگوں کی ہدایت کی۔

۳۔ شجاعت ہمارے ہی گھرکی کنیزہے ،ہم کبھی کسی کی قوت وطاقت سے نہیں ڈرے اورفصاحت ہماراہی حصہ ہے، جب فصحاء فخرومباہات کریں۔

۴ ۔ ہم ہی صراط مستقیم اورہدایت کامرکزہیں اوراس کے لیے علم کاسرچشمہ ہیں جوعلم حاصل کرناچاہے اوردنیاکے مومنین کے دلوں میں ہماری محبت ہے۔

۵ ۔ ہمارے ہی مرتبے آسمانوں اورزمینوں میں بلندہیں ،اگرہم نہ ہوتے توخدادنیاکوپیداہی نہ کرتا،ہرفخرہمارے فخرکے سامنے پست ہے، ہمارے دوست (روزقیامت ) سیروسیراب ہوں گے اورہمارے دشمن روزقیامت بدبختی میں ہوں گے۔

جب لوگوں نے امام زین العابدینؑ کاکلام سناتو چیخ مار کر رونے اور پیٹنے لگے اوران کی آوازیں بے ساختہ بلندہونے لگیں یہ حال دیکھ کر یزیدگھبرااٹھاکہ کہیں کوئی فتنہ نہ کھڑاہوجائے اس نے اس کے ردّعمل میں فوراًمؤذّن کوحکم دیا(کہ اذان شروع کرکے) امامؑ کے خطبہ کومنقطع کردے، مؤذّن گلدستہ اذان پرگیا؛

اورکہا”اللہ اکبر“ (خداکی ذات سب سے بزرگ وبرترہے) امام ؑنے فرمایاتونے ایک بڑی ذات کی بڑائی بیان کی اورایک عظیم الشان ذات کی عظمت کااظہار کیااور جو کچھ کہا”حق“ ہے ۔پھر مؤذّن نے کہا”اشہد ان لاالہ الااللہ (میں گواہی دیتاہوں کہ خداکے سوا کوئی معبودنہیں) امامؑ نے فرمایامیں بھی اس مقصدکی ہرگواہ کے ساتھ گواہی دیتاہوں اورہرانکارکرنے والے کے خلاف اقرارکرتاہوں۔ پھر مؤذّن نے کہ” اشہدان محمدارسول اللہ“ (میں گواہی دیتاہوں کہ محمدمصطفی اللہ کے رسول ہیں) فبکی علی، یہ سن کرحضرت علی ابن الحسینؑ رو پڑے اورفرمایا ائے یزید میں تجھ سے خداکاواسطہ دے کر پوچھتاہوں بتا حضرت محمدمصطفی میرے ناناتھے یاتیرے ؟! یزیدنے کہاآپ کے، آپ نے فرمایا،پھرکیوں تونے ان کے اہلبیتؑ کوشہیدکیا، یزیدنے کوئی جواب نہ دیااوراپنے محل میں یہ کہتا ہوا چلاگیا۔”لاحاجة لی بالصلواة“ مجھے نمازسے کوئی واسطہ نہیں،اس کے بعد منہال بن عمر کھڑے ہوگئے اورکہافرزندرسول آپ کاکیاحال ہے، فرمایااے منہال ایسے شخص کاکیاحال پوچھتے ہوجس کاباپ(نہایت بے دردی سے) شہیدکردیاگیاہو، جس کے مددگارختم کردئیے گئے ہوں جواپنے چاروں طرف اپنے اہل حرم کوقیدی دیکھ رہاہو،جن کانہ پردہ رہ گیانہ چادریں رہ گئیں، جن کانہ کوئی مددگارہے نہ حامی، تم تودیکھ رہے ہوکہ میں قید میں ہوں، نہ کوئی میراناصرہے،نہ مددگار، میں اورمیرے اہل بیت لباس کہنہ میں ملبوس ہیں ہم پرنئے لباس حرام کردئیے گئے ہیں اب جوتم میراحال پوچھتے ہوتو میں تمہارے سامنے موجود ہوں تم دیکھ ہی رہے ہو،ہمارے دشمن ہمیں برابھلا کہتے ہیں اورہم صبح وشام موت کاانتظارکرتے ہیں۔

پھرفرمایاعرب وعجم اس پرفخرکرتے ہیں کہ حضرت محمدمصطفی ﷺ ان میں سے تھے، اورقریش عرب پراس لیے فخرکرتے ہیں کہ آنحضرت قریش میں سے تھے اورہم ان کے اہلبیتؑ ہیں لیکن ہم کوقتل کیاگیا، ہم پرظلم کیاگیا،ہم پرمصیبتوں کے پہاڑ توڑے گئے اورہم کوقیدکرکے دربدرپھرایاگیا،گویاہماراحسب بہت گراہواہو اورہمارانسب بہت ذلیل ہو، گویاہم عزت کی بلندیوں پرنہیں ہیں اوربزرگوں کے فرش پرجلوہ افروزنہیں ہوئے آج گویا تمام ملک یزیداوراس کے لشکرکاہوگیااورآل مصطفی یزید کی ادنی غلام ہوگئی ہو !، یہ سنناتھا کہ ہرطرف سے رونے پیٹنے کی صدائیں بلندہوئیں_

یزیدبہت خائف ہوا کہ کوئی فتنہ نہ کھڑاہوجائے اس نے اس شخص سے کہاجس نے امامؑ کومنبرپرتشریف لے جانے کے لیے کہاتھا ”ویحک اردت بصعودہ زوال ملکی“ تیرا برا ہو تو ان کو منبر بر بٹھا کر میری سلطنت ختم کرناچاہتاہے اس نے جواب دیا، بخدا میں یہ نہ جانتاتھا کہ یہ جوان اتنی بلندگفتگوکرے گا یزیدنے کہاکیاتونہیں جانتاکہ یہ اہلبیت نبوت اورمعدن رسالت کا ایک فردہے، یہ سن کر مؤذن سے نہ رہاگیا اوراس نے کہااےیزید”اذاکان کذالک فلماقتلت اباہ“ جب تویہ جانتاتھا توتونے ان کے پدربزرگوارکوکیوں شہیدکیا، مؤذن کی گفتگوسن کریزیدبرہم ہو گیا،”فامربضرب عنقہ“ اور مؤذن کی گردن ماردینے کاحکم دے دیا۔

تمت بالخیر

٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button