سلائیڈرسیرتسیرت امام مھدیؑ

انتظار کے دوران ہماری ذمہ داریاں

آیت اللہ محمد مہدی آصفی مدظلہ العالی

اس وقت ہم انتظار کے دور سے گذر رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ یہ تاریخ اسلام کا سب سے طویل دور ہو تو پھر اس کے دوران ہمارے واجبات اور ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟آئندہ صفحات میں ہم ان ہی ذمہ داریوں کا مختصر ساخاکہ پیش کررہے ہیں:

شعور اوربیداری

شعور وآگہی کی چند قسمیں ہیں:

۱ ۔شعور توحید :

پوری کائنات کا خالق اللہ ہے دنیا کی ہر چیز اسی کے حکم کی تابع ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اور زمین وسمان کی ہرچیزاسی کے سامنے مسخرہے کسی شی کا اپنے بارے میں کوئی اختیار نہیں ہے جیسا کہ سورہ اعراف کی ۵۴ ویں یت میں ارشاد ہے:

”اور آفتاب وماہتاب اور ستارے سب اسی کے حکم کے تابع ہیں اسی کے لئے خلق بھی ہے اور امر بھی اس کی ذات نہایت ہی با برکت ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے۔“

۲ ۔سیاسی گھٹن کے دوران وعدہ الٰہی کا شعور:

افسوس اور لاچاری کی فضانیزگھٹن کے سخت ترین ماحول میں بھی انسان خداوندعالم کے اس قول پر یقین واذعان رکھے اگر چہ ایسے گھٹن کے عالم میں وعدہ الٰہی پر یقین بہت سخت کام ہے

 وَلاَتَهِنُوا وَلاَتَحْزَنُوا وَاٴَنْتُمْ الْاٴَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ

” خبردار سستی نہ کرنا ،مصائب پر محزون نہ ہونا،اگر تم صاحب ایمان ہوتو سر بلند ی تمہارے ہی لئے ہے۔“

یا خداوندعالم کا قول ہے

 وَنُرِیدُ اٴَنْ نَمُنَّ عَلَی الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْاٴَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اٴَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمْ الْوَارِثِینَ وَنُمَکِّنَ لَهُمْ فِی الْاٴَرْض

” اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنادیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنا ئیں اور زمین کا وارث قرار دے دیں،اور انہیں روئے زمین کا اقتدار دیں ۔“

دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے :

 وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ اٴَنَّ الْاٴَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِی الصَّالِحُونَ

” اور ہم نے ذکر کے بعد زبورمیں لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔“یا ارشاد باری تعالی ہے لَاٴَغْلِبَنَّ اٴَنَا وَرُسُلِی

” بیشک میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے۔‘ یاارشاد ہوتا ہے

 وَلَیَنصُرَنَّ اللهُ مَنْ یَنصُرُه

” اور اللہ اپنے مددگار وں کی یقینا مدد کرے گا۔“

۳ ۔روئے زمین پر مسلمانوں کی حکومت کاشعور:

یہ بشریت کی قیادت یعنی امامت کی گواہی ہوگی چنانچہ خداوندعالم کا ارشادہے

 وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ اٴُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُهَدَاء عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَهِیدًا

” ہم نے تم کو درمیانی امت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو اور پیغمبر تمہارے اعمال کے گواہ رہیں۔“

۴ ۔حیات بشری میں اس دین کے عملی ہونے کاشعور:

تبلیغ کے ذریعہ فتنہ وفساداور موانع کے خاتمہ کاجذبہ جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ہے:

 وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّی لاَتَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ لِلَّه

” اور ان سے اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک سارا فتنہ ختم نہ ہوجائے اور دین صرف اللہ کا رہ جائے۔“

۵ ۔تاریخ اور سماج پر حاکم سنت الٰہیہ کا شعور :

ان سنتوں کے ضمن میں تیاری، تمہید اور حرکت و عمل کی ضرورت نیز ان کی خلاف ورزی کا محال ہونا اسی لئے خدا وندعالم نے مسلمانوں کو اس فیصلہ کن جنگ کی تیاری کا حکم دیا ہے:

 وَاٴَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّة

امید ورزو:

اگر بندہ خدا وندعالم کی قوت وطاقت ، سلطنت اور وعدوں سے لولگائے تو نہ یہ امید فنا ہو سکتی ہے اور نہ ہی ایسا امید وار ناکام ونامراد ہو سکتاہے اور اس رزو اور امید کے سہارے ہی ایک مسلمان اپنی رسی کو خداکی رسی اور اپنی طاقت کو خدا ئی طاقت میں ضم کر دیتاہے اور جو شخص اپنی رسی کو خدائی رسی سے باندھ لے تو پھر اس کی قوت وطاقت اور سلطنت ختم نہیں ہوسکتی ہے۔

استقامت:

رزو کا نتیجہ استقامت وپائیداری ہے:بالکل اسی طرح جیسے کوئی ڈوبتا ہو ا انسان بچانے والے کسی فرد کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھتا ہے تو پھر پانی کی موجوں کا مقابلہ شروع کر دیتاہے اور اس مقابلہ کے لئے اس کے اعضائے بدن اورعضلات کے اندر ناقابل تصور حد تک قوت اور طاقت پیدا ہوجاتی ہے۔

حرکت:

حرکت کا ہی دوسرا نام امربالمعروف اور نہی عن المنکر نیز خدا کی طرف دعوت دینا ظہور امام اور پ کی عالمی حکومت کے لئے حالات فراہم کرنا نیز ایسی مومن جماعت کومادہ اور تیار کرنے کانام ہے جو شعور وادراک ایمان وتقویٰ اور نظم وضبط اور قوت وطاقت کے میدان میں امام کی مددکی اہل ہو اور اس کے اندر پ کے ظہورکی تیاری کرنے کی صلاحیت موجود ہو جیسا کہ ل عمران کی ۱۰۴ ویں یت میں اشارہ موجود ہے:”اور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی دعوت دے،نیکیوں کاحکم دے،برائیوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات یافتہ ہیں۔“

ظہور امام کے لئے دعا

اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں ہے کہ عمل اور تحریک نیز امربالمعروف ونہی عن المنکر کے ساتھ ظہور کی دعاکرنا ظہور امام کے قریب ہونے کا ایک بہتر ین ذریعہ ہے۔جیسا کہ ظہور امام کے سلسلہ میں کثرت کے ساتھ دعا ئیں واردہوئی ہیں نیزروایتوں میں انتظار کا ثواب بھی بیان کیا گیا ہے ان ہی میں سے ایک یہ دعا بھی ہے جوعام طور سے مومنین کی زبانوں پر رہت ی ہے:

”اللّهم کن لولیک الحجّة ابن الحسن،صلواتک علیه وعلیٰ بائه فی هذه الساعة وفی کلّ ساعة،ولیّاًوحافظاً،وقائداًوناصراً ودلیلاً وعیناً،حتّیٰ تسکنه اٴرضک طوعاًوتمتعه فیها طویلاً “

(مفاتیح الجنان اعمال شب۲۳ رمضان)

خدایااپنے ولی حضرت حجةبن الحسن علیہ السلام پرتیرا سلام و درود ان پر اور ان کے بائے طاہرین پر، ان کے لیے اس ساعت میں اورہر سا عت میں سر پرست محافظ پیشوا ، مدد گار رہنما اور نگراں ہو جا،تا کہ انہیں اپنی زمین میں سکون کے ساتھ سکونت عطا کر اور انہیں ایک طویل مدت تک راحت عنا یت فرما۔

شکوہ ودعا

امام زمانہ  علیہ السلام سے منقول دعائے افتتاح میں ہم یہ شکوہ کرتے ہیں اور پھر ہماری زبان پر یہ شیریں جملات جاتے ہیں:

”اللّهم انّانشکوااِلیک فقد نبیّنا، وغیبة ولیّنا،وکثرة عدوّنا،وقلة عددنا،وشدّه الفتن بنا،وتظاهر الزمان علینا اللّهم انّا نرغب الیک فی دولة کریمة تعزبهاالا سلام واٴهله وتذلّ بها النّفاق واٴهله وتجعلنا فیها من الدعاة الیٰ طاعتک والقادة الی سبیلک،وترزقنابهاکرامة الدنیا والآخرة “

(مفاتیح الجنان، دعائے افتتاح)

”خدا یا!ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں اس با عظمت حکومت کا جس سے اسلام اور اہل اسلام کوعزت ملے اور نفاق اور اہل نفاق کوذلت نصیب ہو ہمیں اس حکومت میں اپنی اطاعت کا طر فداراور اپنے راستے کا قا ئدبنا دے اور اس کے ذریعہ ہمیں دنیا اور اخرت کی کرامت  عنا یت فرماخدایا !ہم تجھ سے فریاد کرتے ہیں کہ نبی دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں،امام پردہ غیب میں ہیں ۔دشمنوں کی کثرت ہے اور ہماری تعداد کی قلت ہے ۔فتنوں کا زور ہے اور زمانہ نے ہمارے خلاف اتحاد کر لیا ہے۔ً“

(اقتباس از " انتظار کا صحیح مفہوم”)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button