سلائیڈرسیرتسیرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ

نہج البلاغہ اور وحدت امت کی ضرورت

مقالہ نگار : حافظ سید محمد شاہ رضوی
نہج البلاغہ اور وحدت امت کی ضرورت
تعارف
مسلمان جن کی ساری آبرو اتحاد و یگانگت میں تھی، ایسے پارہ پارہ ہوئے کہ اصل مسلمانوں کی پہچان مشکل ہوگئی۔ قرآن مجید نے اپنے ماننے والوں کو حکم دیا تھا کہ "واعتتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا و لا تفرقوا"(1) اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور پارہ پارہ نہ ہونا۔
ایک اللہ! ایک رسول اور ایک کتاب کے ماننے والوں کی فرقہ بندی کی کہانی بڑی افسوسناک ہے۔ جیسا کہ علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں کہ:
منفعت ایک ہے اس قوم کی،نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی،ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی ،قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں(2)
آج دشمن اپنی مرضی سے مسلمانوں کے ملکوں کے ملک اور بستیوں کی بستیاں نیست و نابود کرنے میں لگا ہے۔جبکہ تاریخ گواہ ہے! اتحاد اور وحدت امت کی برکت سے دیکھتے ہی دیکھتے تھوڑے عرصے میں اسلام عرب کے تپتے صحراؤں سے یورپ کی منجمد فضاؤں میں پھیل گیا تھا۔
قرآن مجید کی روشنی میں فرقہ پرستی فرعون کی ایجاد ہے۔وہ عوام میں تفرقہ بازی اور گروہ بندی کا بڑا ماہر تھا۔ اس نے اپنی جھوٹی خدائی کو بچانے کے لیے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے۔ عوام کو ٹولیوں میں بانٹ رکھا تھا۔ اس کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا : انّ فرعون علا فی الارض و جعل اھلھا شیعا فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا ۔(3)
آج مسلمانوں کی یہ فرقہ بندیاں اور گروہی اختلافات دراصل فرعونی ذہنیت کی ہی پیداوار ہیں۔لہذا تمام مسلمانوں کو فرقہ پرستی کی لعنت سے بچ کر اتحاد کی چھتری تلے متحد ہونے کی اشد ضرورت ہے۔
وحدت امت کی اہمیت
اتحاد ایک ایسی طاقت ہے جو مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تسبیح کے دانوں کی طرح منظم رکھتی ہے اور مخالفین کی سازشوں کو ناکام بنا دیتی ہے۔ یہ ایک ایسی طاقت ہے جس سے ہر منافق ومشرک ڈرتا ہے اور ان پر بارگراں سے کم نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ مفاد پرست مخالفین اسلام مسلمانوں کے درمیان اختلاف و انتشار کے طلب گار ہوتے ہیں اور ہماری سب سے بڑی طاقت اتحاد کو ثبو تاز کرنے کے در پے ہوتے ہیں۔ تاکہ اس کے ذریعہ ہم پر باآسانی حکمرانی کریں اور ظلم و بربریت کا بازار گرم کریں۔
مولائے کائناتؑ اپنے خطبے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ہر اس کام سے بچو جس کی وجہ سے گزشتہ امتیں تباہ و برباد ہو گئی اور کمزور ہو گئی اور ان کاموں کو انجام دو جس کی وجہ سے ان کو عزت و کامیابی ملی۔جن افعال کی وجہ وہ برباد ہوئے وہ درج ذیل ہیں :دلوں میں کینہ، سینوں میں بغض رکھنا، ایک دوسرے کی مدد سے منہ پھیرنا اور باہمی تعاون سے ہاتھ اٹھا لینا ہیں۔اور جن کاموں کی وجہ سے انہوں نے کامیابی و کامرانی حاصل کی وہ اسباب یہ ہیں: افتراق سے بچنا اور اتفاق و یکجہتی پر قائم رہنا، اسی پر ایک دوسرے کو ابھارنا اور باہم سفارش کرتے رہنا ہے۔(4)
اسی نکتہ کی طرف آپؑ  اشارہ فرماتے ہیں کہ تمہارے اوپر لازم ہے کہ آپس میں متحد رہنا اور ایک دوسرے کی اعانت کرنا۔ اور خبردار! ایک دوسرے کی طرف سے پیٹھ پھیرنے اور تعلقات توڑنے سے پرہیز کرنا ۔(5)
اِن الشَّیْطٰنَ یُسَنِّیْ لَكُمْ ۔۔۔ یُعْطِیَكُمْ بِالْجَمَاعَةِ الْفُرْقَةَ۔۔۔
بے شک تمہارے لئے شیطان نے اپنی راہیں آسان کر دی ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ تمہارے دین کی ایک ایک گرہ کھول دے اور تم میں یکجائی کے بجائے پھوٹ ڈلوائے۔ تم اس کے وسوسوں اور جھاڑ پھونک سے منہ موڑے رہو اور نصیحت کی پیشکش کرنے والے کا ہدیہ قبول کرو اور اپنے نفسوں میں اس کی گرہ باندھ لو۔(6)
مقاصد تحقیق
عصر حاضر میں امت مسلمہ کیلئے اتحاد وقت کی ضرورت اور سفینہ نجات ہے۔لہذا اس مقالہ کا مقصد نہج البلاغہ کی روشنی میں وحدت امت کی ضرورت اور اہمیت کو بیان کرنا ہے۔
لغت:
کتاب نور اللغات اور فیروز اللغات میں وحدت کے متعدد معانی بیان کیے گئے ہیں اور وہ مندرجہ ذیل ہیں:
ایک ہونا ، یگانگی، یکتائی ،توحید،یگانہ ہونا ، اکیلاپن۔
اصطلاح: وحدت و اتحاد امت سے مراد مسلمان فرقوں کا آپس میں تعاون اور لڑائی اور تنازعے سے اجتناب کرنا ہے۔ اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ عالم اسلام کو درپیش مسائل کے سلسلے میں ایک ساتھ قدم بڑھانا ۔
اتحا د کے فوائد
1. دنیا کی حکمرانی
حضرت امام علیؑ اتحاد و یگانگت کے فوائد اور افتراق و اختلاف کے نقصانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ غور کرو! کہ جب ان کی جمعیتیں یکجا، خیالات یکسو اور دل یکساں تھے اور ان کے ہاتھ ایک دوسرے کو سہارا دیتے اور تلواریں ایک دوسرے کی معین و مددگار تھیں اور ان کی بصیرتیں تیز اور ارادے متحد تھے تو اس وقت ان کا عالم کیا تھا؟ کیا وہ اطراف زمین میں فرمانروا اور دنیا والوں کی گردنوں پر حکمران نہ تھے؟
2. نشان عبرت
ایک قدم آگے بڑھ کر ارشاد فرماتے ہیں کہ تصویر کا یہ رخ بھی دیکھو کہ جب ان میں پھوٹ پڑ گئی، یکجہتی درہم و برہم ہو گئی، ان کی باتوں اور دلوں میں اختلافات کے شاخسانے پھوٹ نکلے اور وہ مختلف ٹولیوں میں بٹ گئے اور الگ الگ جتھے بن کر ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے لگے تو ان کی نوبت یہ ہو گئی کہ اللہ نے ان سے عزت و بزرگی کا پیراہن اتار لیا اور نعمتیں ان سے چھین لیں اور تمہارے درمیان ان کے واقعات کی حکایتیں عبرت حاصل کرنے والوں کیلئے عبرت بن کر رہ گئیں۔(7)
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پچھلی امتوں کی کامیابی و کامرانی کا راز اتحاد و اتفاق میں کار فرماتھا۔
یہ بات مسلم ہے کہ جب تک مسلمان ایک دوسرے پر رحم اور مہربانی کریں گے توآپس میں اتحاد و اتفاق باقی رہے گا ورنہ بغض وعنادجیسے موذی بیماریوں میں مبتلا ہو گا۔ جیسا کہ امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ اہل ایمان بھائی تین چیزوں کے محتاج ہیں اگر ان کو انجام دیا تو آپس میں محبت و یکجہتی وجود میں آئے گی ورنہ افتراق پیدا ہوگا وہ تین چیزیں یہ ہیں:آپس میں انصاف کرنا ، ایک دوسرے پر مہربانی کرنا، ایک دوسرے سے حسد نہ کرنا۔(8)
3. امن و امان
معاشرے کی امن و امان اور استحکام وحدت پر موقوف ہے۔ معاشرے کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے کے لیے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری، ایفائے عہد، پارسا لوگوں کی اطاعت، ظالم و سرکش لوگوں سے عداوت و نفرت رکھنا ہوگا تاکہ اس طرح ایک جنت نظیر معاشرہ وجود میں آسکے۔
چونکہ تاریخ کے اوراق گردانی سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ گزشتہ اقوام کی ذلت و خواری ان کے بد ترین اعمال کی وجہ سے ہوئی ہے جن میں سرفہرست فرقہ پرستی دیکھنے کو ملتی ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے امر خداوندی سے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کیا ۔
وَ اَلَّفَ بِهٖ الشَّمْلَ بَیْنَ ذَوِی الْاَرْحَامِ، بَعْدَ الْعَدَاوَةِ الْوَاغِرَةِ فِی الصُّدُوْرِ، وَ الضَّغَآئِنِ الْقَادِحَةِ فِی الْقُلُوْبِ.(9)
اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے ذریعہ بکھرے ہوئے افراد کی شیرازہ بندی کی، سینوں میں بھری ہوئی سخت عداوتوں اور دلوں میں بھڑک اٹھنے والے کینوں کے بعد خویش و اقارب کو آپس میں شیر و شکر کر دیا۔
گویا مولا علی علیہ السلام کی نگاہ میں پیغمبر اکرم ﷺ نے کلمہ توحید کے ذریعے انسانیت کو وحدت امت کا عظیم درس دیا۔
4. اتحاد امت نجات کی ضامن
کسی بھی معاشرہ اور قوم کی ترقی باہمی تعاون اور اتحاد کے بغیر ممکن نہیں بلکہ بشریت کی دوام اور نسل نو کی بقاء کا اساسی اور بنیادی عمل اتحاد اور اتفاق میں ہے کیونکہ اجتماعی زندگی کی بقاء کا اہم راز اتحاد میں ہی ہے۔
اسی مطلب کو قرآن نے واشگاف انداز میں بیان کیا ہے: وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ۔(10) اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں نزاع نہ کرو ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔
آپس میں اختلاف کرنے سے تم ہر میدان میں مغلوب ہو جاؤ گے۔
مولا علیؑ نےاپنے اصحاب کرام کو اس کے اہم نکتے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا :
ہما را دشمن باطل پر ہونے کے باوجود سرخرو اور کامیاب ہے کیونکہ وہ متحد اور متفق ہیں جب تم لوگ حق بجانب ہو کر بھی ناکام اور شکست سے دوچار ہو چونکہ تم لوگ اختلاف کا شکار ہو۔
جب تک قوم اتحاد جیسی نعمت سے مالا مال ہو کوئی دشمن اس پر اپنا سکہ نہیں جما سکتا۔ لہذا دشمنان اسلام کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ مسلمانوں کے مابین تفرقہ ڈال کر امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر سکے۔
وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۔ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔(11)
اس آیت کے ذیل میں علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ فرماتے ہیں کہ جب یہ حکم آتا ہے کہ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو تو فوراً ذہنوں میں ایک خطرے کا احساس ہوتا ہے کہ کوئی سیلاب آنے والا ہے، غرق ہونے کا خطرہ ہے، کوئی طوفان آنے والا ہے کہ اس امت کی کشتی کا شیرازہ بکھرنے والا ہے، کوئی آندھی آنے والی ہے جو اس انجمن کو منتشر کر دے۔ اللہ کی رسی کو تھام لو، وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا سے پتہ چلا کہ فرقہ پرستی کس قسم کا سیلاب ہے، کس قدر خطرناک طوفان اور کتنی مہلک آندھی ہے۔(12)
مولا علیؑ ایک مقام پر وحدت کے بارے میں یوں ارشاد فرماتے ہیں:
اوصِيكَ بِتَقْوَى اللّٰهِ اَیْ بُنیَّ ـ وَ لُزُوْمِ اَمْرِهٖ، وَ عِمَارَةِ قَلْبِكَ بِذِكْرِهٖ، وَ الِاعْتِصَامِ بِحَبْلِه (13)
ا س مکتوب میں ہمیں جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر اس امر کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے کہ باہمی انتشار و تفرقہ سے احتراز کرکے از سر نو اپنی شیرازہ بندی کی تدبیر کریں کہ یہی عافیت اور سلامتی کا راستہ ہے۔ تاریخی مشاہدے کی بات ہے کہ باہمی اختلاف اور نزاع کے نتیجہ میں قوموں کا وقار مجروح اور رعب و دبدبہ ختم ہوا ہے اور دشمنوں کی نظر میں اسکی حیثیت بالکل گری ہے۔
اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔(14)
اس آیت کریمہ میں اقامہ دین کے لیے قانون پر عمل کرنے اور اختلاف و تفرقے کا شکار نہ ہونے کا حکم ہے۔
پیغمبر اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد حضرت امام علیؑ نے اتحاد اسلامی کی خاطر گوشہ نشینی اختیار کی۔آپؑ  کی خلافت کے دور میں جب طلحہ و زبیر نے بیعت شکنی کی اور اندرونی فسادات کی داغ بیل رکھی، اس وقت آپؑ یہ فرماتے ہیں: میں نے تو مسلمانوں کے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے مسلمہ حق سے بھی چشم پوشی کی لیکن ان لوگوں نے اس کے با وجود خوشی اور رغبت سے میری بیعت توڑ ڈالی اور مسلمانوں میں اختلاف پیدا کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کیا۔(15)
مولائے کائناتؑ کو کس قدر مملکت اسلامی کی سلامتی عزیز تھی اس کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے جب ابولہب کے بیٹے نے آپؑ کی فضیلت اور آپ کے مخالفین کی مذمت میں کچھ اشعار کہے تو آپؑ نے اس قسم کے اشعار گوئی سے جو حقیقت میں ایک قسم کی اشتعال انگیزی اور نعرہ بازی تھی، منع کرتے ہوئے فرمایا ” سلامۃ الدین احب الینا من غیرہ ۔ ہمارے لئے اسلام کی سلامتی اور اصولوں کی بقا تمام دوسری چیزوں کے مقابلے میں زیادہ عزیز اور زیادہ اہم ہے۔
ایک مقام پر مولا علیؑ نے ابو سفیان کو مخاطب کرکے فرمایا جب وہ امامؑ کی خدمت میں آیا اور چاہا کہ امامؑ کی حمایت کے بہانے فتنہ برپا کردے تو اس وقت آپ نے فرمایا :شُقُّوْا اَمْوَاجَ الْفِتَنِ بِسُفُنِ النَّجَاةِ، وَ عَرِّجُوْا عَنْ طَرِيْقِ الْـمُنَافَرَةِ ، وَ ضَعُوْا عَنْ تِيْجَانِ الْـمُفَاخَرَةِ.
فتنہ و فساد کی موجوں کو نجات کی کشتیوں سے چیر کر اپنے کو نکال لے جاؤ، تفرقہ و انتشار کی راہوں سے اپنا رخ موڑ لو، فخر و مباہات کے تاج اتار ڈالو۔(16)
ابن ابی الحدید خطبہ 215 کے ضمن میں یہ واقعہ نقل کرتے ہیں جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا مولا علی علیہ السلام سے قیام کا مطالبہ فرما رہی تھیں۔اسی دوران مؤزن نے گلدستہ آذان سے آواز یوں بلند کی اشہد ان محمدا رسول اللّٰہ۔ مولا علیؑ نے سید ہ زہراؑ سے فرمایا : کیا آپ چاہتی ہیں کہ یہ صدا خاموش ہو جائے؟فرمایا: نہیں! فرمایا :میری مراد بھی سوائے اس کے کچھ نہیں۔(17)
اتحاد امت کے ثمرات اور اختلاف امت کے نقصانات:
اسلامی معاشرے میں حاکم کا مقام مثال تسبیح کے دانوں کی طرح ہے۔ حاکم اپنی رعایا کو (تسبیح کے دانوں کی طرح)منظم رکھتا ہے۔ اگر ان کے درمیان تعلق ختم ہو جائیں تو تسبیح کے تمام دانے بکھر جائیں گے کہ اس طرح سے وہ بےترتیب ہو جائے گا اور ہرگز جمع نہیں ہو پائے گا۔ جس قوم میں امام اور رہبر کی اطاعت نہیں ہوتی اس قوم کے زوال میں دیر نہیں لگتی۔ جس طرح مولائے کائناتؑ نے فرمایا : وَاللّٰهِ! لَاَظُنُّ اَنَّ هٰٓؤُلَآءِ الْقَوْمَ سَیُدَالُوْنَ مِنْكُمْ بِاجْتِمَاعِهِمْ عَلٰى بَاطِلِهِمْ، وَ تَفَرُّقِكُمْ عَنْ حَقِّكُم۔۔۔بخدا! میں تو اب ان لوگوں کے متعلق یہ خیال کرنے لگا ہوں کہ وہ عنقریب سلطنت و دولت کو تم سے ہتھیا لیں گے، اس لئے کہ وہ (مرکز) باطل پر متحدہیں اور تم اپنے (مرکز) حق سے پراگندہ و منتشر۔ تم امرِ حق میں اپنے امام کی نافرمانی کرتے ہو جبکہ وہ باطل میں بھی اپنے امام کے مطیع و فرمانبردار ہیں۔(18)
مولائے کائناتؑ نےاس خطبہ میں ستم گر گروہ کے مسلط ہونے کے اسباب کو بیان کیا ہے اور اس کے متعلق چار اہم موضوع کو جو ہمیشہ کامیابی کے راز ہوتے ہیں، کی طرف اشارہ کیا ۔
سب سے پہلے فرماتے ہیں : بِاجْتِمَاعِهِمْ عَلٰى بَاطِلِهِمْ، وَ تَفَرُّقِكُمْ عَنْ حَقِّكُمْ
تکلیف کی بات ہے کہ اہل حق اتحاد کاعلمبردار ہونے کے باوجود منتشر ہیں جبکہ اہل باطل انتشار کا سر چشمہ ہوتے ہوئے بھی متحد ہے۔ جی ہاں ! تمام اجتماعی کاموں کی کامیابی کیلئے سب سے پہلے وحدت اور اتفاق کا ہونا ناگزیر ہے۔ اس کے برخلاف انتشار و اختلاف زہر قاتل ہے۔
دوسری بات یہ ہے : ” وَ بِمَعْصِیَتِكُمْ اِمَامَكُمْ فِی الْحَقِّ، وَ طَاعَتِهِمْ اِمَامَهُمْ فِی الْبَاطِلِ
اتحاد ہر وقت کامیابی کا ضامن ہے۔ بالخصوص اس وقت حق والے متحد ہوں۔مگر تم حق بات پر پیشوا کی اطاعت نہیں کرتے ہو، حالانکہ وہ باطل پر ہوتے ہوئے اپنے پیشوا کے فرمانبردار ہیں۔
تیسری بات یہ ہے: وَ بِاَدَآئِهِمُ الْاَمَانَةَ اِلٰى صَاحِبِهِمْ وَ خِیَانَتِكُمْ
وہ اپنے رہنما کی نسبت امانت دار ہیں، اس کے برعکس تم خیانت کرتے ہو،
چوتھی بات یہ ہے: و بِصَلَاحِهِمْ فِیْ بِلَادِهِمْ وَ فَسَادِكُم
وہ لوگ اپنے شہروں کی اصلاح کے لئے کوشش کرتے ہیں مگر تم لوگ فساد و ا ختلاف میں مشغول ہو۔
بنابر این !حق کمزور اور مفسد طرفداروں کی وجہ سے کمزور ہوتا ہے اور باطل اپنے طرفداروں  کی اتحاد سے طاقتور ہوتا ہے۔(19)
دوسرے مقام پر آپؑ یوں ارشاد فرماتے ہیں :اِنّ یَد اللّٰهِ عَلَی الْجَمَاعَةِ، وَ اِیَّاكُمْ وَ الْفُرْقَةَ! فَاِنَّ الشَّاذ مِنَ النَّاسِ لِلشَّیْطٰنِ، كَماۤ اَنَّ الشَّاذَّ مِنَ الْغَنَمِ لِلذِّئْبِ.
اللہ کا ہاتھ اتفاق و اتحاد رکھنے والوں پر ہے اور تفرقہ و انتشار سے باز آ جاؤ اس لئے کہ جماعت سے الگ ہو جانے والا شیطان کے حصہ میں چلا جاتا ہے، جس طرح گلہ سے کٹ جانے والی بھیڑ بھیڑیے کو مل جاتی ہے۔(20)
اتحاد و اتفاق سے رضائے الہی حاصل ہوتا ہے جبکہ اختلاف سے شیطان خوش ہوتا ہے۔
اتحاد سے ہی فتح ممکن
مولا علیؑ نے ایک مختصر اور جامع خطبے میں اقوام کی کامیابی اور شکست کے راز کو بیان فرمایا ہے جو کسی قوم کے ساتھ خاص نہیں بلکہ قیام قیامت تک پوری انسانیت اس سے استفادہ کر سکتی ہے۔اوائل اسلام میں مسلمانوں کی اپنے دشمنوں پر فتح و نصرت کی ایک وجہ اتحاد و اتفاق ہے۔
تاریخ میں ایسے گروہ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جوقلیل تعداد میں ہونے کے باوجود اپنے اتفاق و اتحاد کی بدولت کثیر جماعت پر غالب آجاتے ہیں ۔ کم من فئۃ قلیلہ غلبت فئۃ کثیرۃ۔(21)
قرآن مجید مسلمانوں کی وحدت کلمہ کو پیغمبر اسلامﷺ کے معجزوں میں قرار دیتا ہے۔ جیسے ارشاد باری تعالی ہے:
ھوَ الَّذِیۡۤ اَیَّدَکَ بِنَصۡرِہٖ وَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ اَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ لَوۡ اَنۡفَقۡتَ مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا مَّاۤ اَلَّفۡتَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیۡنَہُمۡ(22)
وہی تو ہے جس نے اپنی نصرت اور مومنین کے ذریعے آپ کو قوت بخشی ہے۔ اور اللہ نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کی ہے، اگر آپ روئے زمین کی ساری دولت خرچ کرتے تو بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہیں کر سکتے تھے لیکن اللہ نے ان (کے دلوں)کو جوڑ دیا۔ اور مسلمانوں کی وحدت کو ایک نعمت الہی قرار دیا ہے:وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا۔(23)
اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔
جبکہ انتشار و اختلاف کو زمینی و آسمانی عذاب کی طرح قرار دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ھوَ الۡقَادِرُ عَلٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَ عَلَیۡکُمۡ عَذَابًا مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ اَوۡ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِکُمۡ اَوۡ یَلۡبِسَکُمۡ شِیَعًا وَّ یُذِیۡقَ بَعۡضَکُمۡ بَاۡسَ بَعۡض۔سورہ انعام 65
اللہ تعالی اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ تمہارے اوپر سے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے تم پر کوئی عذاب بھیج دے یا تمہیں فرقوں میں الجھا کر ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے۔(24)
خلاصہ
ملت اسلامیہ کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنے کا ایک مؤثر ترین طریقہ اتحاد ہے۔اتحاد ایک ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں نہج البلاغہ میں جابجا کلمات ملتے ہیں۔ جیسا کہ مولا علیؑ کے خطبات کی روشنی میں گزشتہ اقوام کی کامیابی اور انحطاط کا دار و مدار اتحاد و اتفاق اور اختلاف پر منحصر ہے۔ آپؑ کی نگاہ میں جب تک مسلمان متحد رہیں، اقوامِ عالم میں انکی بالادستی اور حکمرانی رہی لیکن تفرقہ بازی کی وجہ سے مغلوب ہوتے رہیں، وقار و بزرگی ختم ہوتی رہی اور نعمتیں ان سے سلب کر لی گئی۔لہذا اسلام دشمن عناصر کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈال کر وحدتِ امت کو پاش پاش کر کے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیں۔ سو !اب امت محمدیؐ کو تعصب کی عینک اتار کر مرکزِ اتحاد” اسلام “کی پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی بےحد ضرورت ہے۔ گویا !کسی بھی ملت کی بقاءاور بنیاد وحدت پر ہے اور اسی میں ہی قوموں کی نجات مضمر ہے۔

حوالہ جات

1) سورہ آل عمران :103
2) علامہ اقبال،بانگ درا
3) سورہ قصص :4
4) نہج البلاغہ، مفتی ،خطبہ 190ص 399
5) نہج البلاغہ مفتی ، مکتوب 47 ، ص546
6) نہج البلاغہ،سید زیشان حیدر ، خطبہ 122
7) نہج البلاغہ مفتی ،خطبہ 190ص400
8) علامہ مجلسی بحا ر الانوار، ج 75 ص236
9) نہج البلاغہ مفتی ، خطبہ 228
10) سورہ انفال‎46
11) آل عمران‎ سور :ہ103
12) شیخ محسن علی ،بلاغ القرآن ،ص88
13) نہج البلاغہ مفتی ، مکتوب31
14)سورہ شوری 13
15)نہج البلاغہ کی دنیا ،شھید مطھری، ص180
16) نہج البلاغہ مفتی خ 72 ،ص 150
17) نہج البلاغہ کی سیر ، شہید مطہری ، ص 259
18)نہج البلاغہ مفتی ،خطبہ 25
19) آیت اللہ ناصر مکارم ،کلام امیر المومنین علیؑ ج 2ص 104
20) نہج البلاغہ مفتی ،خ 125
21) سورہ بقرہ: 249
22)سورہ انفال: 62،63
23) 103 عمران آل سورہ
24)آیت اللہ ناصر مکارم ،کلام امیر المومنین علیؑ ج ، دوم 107/108

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button