سیرتسیرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑسیرت جناب رسول خداؐ

رسول اکرم ‌صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہجرت اور علی علیہ السلام کی جان نثاری

اقتباس از الصحیح من سیرة النبی الاعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ( دوسری جلد)

مؤلف: جناب حجۃ الاسلام والمسلمین سید جعفر مرتضی عاملی
سازش:
قریش کے رؤسا”دار الندوة” میں جمع ہوئے_ اس اجتماع میں بنی عبد الشمس، بنی نوفل، بنی عبدالدار، بنی جمح، بنی سہیم، بنی اسد، اور بنی مخزوم وغیرہ کے رؤسا موجود تھے_انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کی مجلس میں کوئی تہامی شامل نہ ہو کیونکہ تہامیوں کی ہمدردیاں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھیں_انہوں نے اس بات کو بھی مدنظر رکھا کہ ان کے درمیان ہاشمیوں یا ان سے مربوط افراد کا کوئی جاسوس موجود نہ ہو۔ (تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۲۱ اور سیرت حلبی ج ۲ ص ۲۵ نیز رجوع کریں نور الابصار ص ۱۵)
روایات کے مطابق ابلیس بھی نجدی شیخ کی صورت میں ان کے درمیان موجود تھا (تاریخ الامم والملوک ج ۲ ص ۶۸ ، البدایہ والنہایہ ج۳ ص ۱۷۵ نیز تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۲۱ و ۳۲۲)_ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ محمدﷺ کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے_ بعض شرکاء نے آپﷺ کو لوہے میں جکڑ کر قید کرنے کا مشورہ دیا لیکن ان کو یہ خطرہ نظر آیا کہ کہیں آپﷺ کے مددگار آپ کو چھڑا نہ لیں_ پھر یہ تجویز پیش ہوئی کہ آپﷺ کو وطن سے نکال کر کسی اور علاقے میں بھیج دیا جائے لیکن اس میں یہ خامی دیکھی کہ اس سے تو آپﷺ کو اپنے دین کی اشاعت میں مدد مل سکتی ہے_ آخر کار ابوجہل یا شیطان کی تجویز کے مطابق یہ فیصلہ ہوا کہ ہر قبیلے سے ایک مضبوط اور باہمت جوان چن لیا جائے جو اپنی قوم میں شریف النسب، صحیح النسب اور ممتاز ہو_ ان میں سے ہر ایک کوایک ایک شمشیر آبدار تھمائی جائے تاکہ وہ اپنی تلواریں لیکر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ آور ہوں اور مل کر آپﷺ کو قتل کریں_ اس طرح آپﷺ قتل ہوجائیں گے اور آپﷺ کے خون کی ذمہ داری سارے قبائل میں تقسیم ہوجائے گی _ کیونکہ بنی عبد مناف ان سب قبائل کا مقابلہ نہیں کرسکتے نتیجتاً وہ دیت قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں گے جو تمام قبائل مل کر انہیں دیں گے اور یوں معاملہ صاف ہوجائے گا۔
واضح ر ہے کہ ان دس افراد کیلئے جو شرائط رکھی گئیں تھیں ان کا مقصد یہ تھا کہ کوئی قبیلہ دوسرے قبیلے کو اس امرمیں تنہا نہ چھوڑے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہ امر قریش پر ضرب لگانے کیلئے بنی ہاشم کی قوت میں اضافے کا باعث بن سکتا تھا خواہ وہ ضربت کتنی ہی محدود پیمانے پر کیوں نہ ہوتی_
اس کے علاوہ یہ شرائط اس بات کا باعث بنتیں کہ اس جرم کے ارتکاب کیلئے آمادہ ہونے والے زیادہ اطمینان اور شجاعت کے ساتھ اس خطرناک مہم کو انجام دیتے جس میں شک وتردید اور بزدلی کی کوئی گنجائشے باقی نہ رہتی_
بہرحال خدانے وحی کے ذریعے اپنے نبیﷺ کو اس سازش سے باخبر کیا اور یہ آیت نازل فرمائی:
(واذ یمکربک الذین کفروا لیثبتوک او یقتلوک او یخرجوک ویمکرون و یمکر اللہ واللہ خیرالماکرین) (سورہ انفال آیت ۳۰ )
یعنی جب کافروں نے آپﷺ کے خلاف سازش کی تاکہ وہ آپﷺ کو قید کریں یا قتل کریں یا نکال باہر کریں تو وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے_ خدائی مکر کسی دوسرے کی چال کو پوشیدہ طریقہ سے ناکام بنانے والی تدبیر کا نام ہے_
علی علیہ ‌السلام کی نیند اور نبیﷺ کی ہجرت:
مورخین کہتے ہیں کہ جن لوگوں کو قریش نے منتخب کیا تھا وہ رسول اللہﷺ کے دروازے پر جمع ہوئے یعنی بعض روایات کی بنا پر عبد المطلب کے دروازے پر جمع ہوئے۔( بحار ج ۱۹ ص ۷۳ از الخرائج والجرائح) اور گھات لگا کر بیٹھ گئے اور آپکے سونے کا انتظار کرنے لگے وہ افراد یہ تھے: حکم ابن ابی العاص، عقبہ بن ابی معیط، نضر بن حارث، امیہ بن خلف، زمعة بن اسود، ابولہب، ابوجہل، ابوالغیطلہ، طعمہ بن عدی، ابی ابن خلف، خالد بن ولید، عتبہ، شیبہ، حکیم بن حزام، اور حجاج کے بیٹے نبیہ و منبہ۔
( ان کے ناموں کا ذکر السیرة الحلبیة ج ۲ و بحارالانوار ج ۱۹ ص ۷۲ و ۳۱ اور مجمع البیان وغیرہ میں کہیں مکمل طور پر اور کہیں جزوی طور پر ہوا ہے _)
یوں قریش نے اپنے ان پندرہ قبائل میں سے دس یا پندرہ افراد بلکہ اس سے بیشتر کا انتخاب کیا (بنابر اختلاف اقوال) تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوایک ساتھ وار کر کے قتل کر دیں_ ایک ضعیف قول کی بنا پر ان کی تعداد سوتھی لیکن ہماری نظر میں یہ روایت حقیقت سے دور ہے کیونکہ دیگر روایات کی مخالف ہے۔خلاصہ یہ کہ وہ جمع ہوگئے اور اللہ نے اپنے نبیﷺ کو ان کے مکر سے آگاہ فرمایا_
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کو قریش کے منصوبے سے آگاہ فرمانے کے بعد حکم دیا کہ وہ رات کو آپﷺ کے بستر پر سو جائیں_ حضرت علی علیہ السلام نے عرض کیا ”اے اللہ کے رسولﷺ کیا میرے وہاں سونے سے آپﷺ کی جان بچ جائے گی”_
فرمایا ہاں_ یہ سن کر حضرت علی علیہ السلام خوشی سے مسکرائے اور زمین پر سجدہ ریز ہوگئے تاکہ اللہ کا شکرادا کریں_ یوں وہ رسولﷺ اللہ کے بستر پر سوگئے اور آپﷺ کی حضرمی چادر اوڑھ لی_ اس کے بعد رسولﷺ اللہ رات کے پہلے حصے میں خارج ہوئے جبکہ قریش کے افراد گھر کے اردگرد گھات لگائے آپﷺ کے منتظر بیٹھے تھے_
آنحضرتﷺ یہ آیت پڑھتے ہوئے نکلے( وجعلنا من بین ایدیهم سدا ومن خلفهم سدا فاغشیناهم فهم لایبصرون )( سورہ یٰسین آیت ۹ ) یعنی ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کردی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے اب انہیں کچھ نہیں سوجھتا_( امالی شیخ طوسی ج ۲ ص ۸۰_۸۱)
آپﷺ کے دست مبارک میں ایک مشت مٹی تھی_ آپﷺ نے وہ مٹی ان کے سروں پر پھینک دی_ اور ان کے درمیان سے گزرگئے_ اور انہیں احساس تک نہ ہوا پھر آپﷺ نے غار ثور کی راہ لی_
ادھر امیرالمؤمنین علیہ السلام سوئے ہوئے تھے اور حضرت ابوبکر آئے اور کہا :”اے اللہ کے رسول”_ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ سونے والے اللہ کے نبیﷺ ہیں حضرت علی علیہ السلام نے ان سے فرمایا :”رسولﷺ اللہ چاہ میمونہ کی طرف چلے گئے ہیں پس ان کی خدمت میں پہنچ جاؤ”_ چنانچہ حضرت ابوبکر چلے گئے اور حضرتﷺ کے ساتھ غار میں داخل ہوئے ۔
(_ آخری جملوں کیلئے رجوع کریں مناقب خوارزمی حنفی ص ۷۳ و مستدرک الحاکم ج ۳ ص ۱۳۳ و تلخیص مستدرک (ذہبی) حاشیہ کے ساتھ ان دونوں نے اسے صحیح قرار دیا ہے، مسند احمد ج ۱ ص ۳۲۱ و تذکرة الخواص (سبط ابن جوزی) ص ۳۴، شواہدالتنزیل ج ۱ ص ۹۹_۱۰۰،۱۰۱، تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۰۰، تفسیر برہان ج ۱ ص ۲۰۷ ابن صباغ مالکی کی کتاب فصول المہمة ص ۳۰، و نسائی کی خصائص امیرالمومنین مطبوعہ نجف ص ۶۳ و السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۳۵ مجمع الزوائد ج ۹ _ص ۱۲۰ از احمد (اس کے سارے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں سوائے ایک راوی کے جو ثقہ ہے و از طبرانی درکبیر و اوسط_ بحار ج ۱۹ ص ۷۸_۹۳ از طبری و احمد، عیاشی اور کفایة الطالب، فضائل الخمسة ج ۱ ص ۲۳۱، ذخائر العقبی ص ۸۷ اور کفایة الطالب ص ۲۴۳ اس کتاب میں مذکور ہے کہ ابن عساکر نے اسے اربعین طوال میں ذکر کیا ہے_
نیز رجوع کریں : الامام علی بن ابیطالب در تاریخ ابن عساکر بہ تحقیق المحمودی ج ۱ ص ۱۸۶ و ۱۹۰ محمودی نے اسے اپنے حاشیے میں احمد بن حنبل کی کتاب الفضائل (حدیث نمبر ۲۹۱) نیز غایة المرام (ص ۶۶) سے طبرانی ج ۳ (ورق نمبر ۱۶۸ ب) کے واسطے سے نقل کیا ہے علاوہ بریں کفایة الطالب کے حاشیے میں ریاض النضرة ج ۲ ص ۲۰۳ سے نقل ہوا ہے_
(رہے آخری جملے تو وہ احادیث و تاریخ کی مختلف کتب میں موجود ہیں_بحار ج ۱۹ ص ۶۱ و امالی شیخ طوسی ج ۲ ص ۸۱ میں مذکور ہے کہ رسولﷺ اللہ نے حضرت ابوبکر اور ہند بن ہالہ کو حکم دیا کہ وہ غار کے راستے میں ایک معینہ مقام پر آپﷺ کا انتظار کریں_ اور بحار ج ۱۹ ص ۷۳ میں الخرائج و الجرائح سے منقول ہے حضور روانہ ہوئے جبکہ وہ آپﷺ کو نہیں دیکھ رہے تھے_ پھر حضرت ابوبکر کو دیکھا جو رات کے وقت آپﷺ کی تلاش میں نکلے تھے_ وہ قریش کے منصوبے سے آگاہ ہوچکے تھے چنانچہ حضورﷺ حضرت ابوبکر کو اپنے ساتھ غار کی طرف لے گئے_
اگر اس بات کو صحیح تسلیم کرلیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر نے نبی کریمﷺ کو ان کے منصوبے سے کیوں آگاہ نہیں کیا؟ مگر یہ کہ کہا جائے وہ آپﷺ کو اطلاع دینے آئے تھے_ اس سے بھی اہم سوال یہ کہ قریش نے حضرت ابوبکر کو اپنے منصوبے سے کیونکر آگاہ کیا جبکہ وہ رسولﷺ اللہ کے ساتھ معمولی سے روابط رکھنے والے سے بھی اس کو چھپانے کی زبردست کوشش کرتے تھے جبکہ دیار بکری وغیرہ کا صریح بیان اس سے قبل گزر چکا ہے_)
کہتے ہیں کہ مشرکین نے حضرت علی علیہ السلام کو پتھر مارنے شروع کئے جس طرح وہ رسولﷺ اللہ کو مارتے تھے_ آپﷺ درد سے تڑپتے اور پیچ وتاب کھاتے رہے_ آپ نے اپنے سر کو کپڑے میں لپیٹ رکھا تھا اورصبح تک اس سے باہر نہ نکالا_ پھر مشرکین ان پر ٹوٹ پڑے_ جب حضرت علی علیہ السلام نے ان کو تلوار سونتے اپنی طرف آتےدیکھا جبکہ خالد بن ولید آگے آگے تھا تو حضرت علی علیہ السلام اس پرجھپٹ پڑے اور اس کے ہاتھ پر مارا خالد بچھڑے کی طرح اوپر نیچے چھلانگیں لگانے اور اونٹ کی طرح بلبلانے لگا_
آپ علیہ السلام نے اس کی تلوار چھین لی اورمشرکین پر حملہ آور ہوئے_ مشرکین چوپایوں کی طرح خوفزدہ ہو کر گھرسے باہر بھاگ نکلے_ پھر انہوں نے غورسے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ تو حضرت علی علیہ السلام ہیں_ وہ بولے” کیا تم علی علیہ السلام ہو؟”_ انہوں نے فرمایا:” ہاں میں علی علیہ السلام ہوں” مشرکین نے کہا: ”ہمیں تم سے کوئی غرض نہ تھی_ یہ بتاؤ کہ تمہارا ساتھی کہاں گیا؟” فرمایا :”مجھے کوئی خبر نہیں”۔( امالی شیخ طوسی ج ۲ ص ۸۲_۸۳)
قریش پیغمبرﷺ کی تلاش میں
قریش نے آپﷺ کے پیچھے اپنے جاسوس چھوڑ دیئےور وہ آپﷺ کے تعاقب میں سخت جان اور تا بعدار سواریوں پر سوار ہوکر نکل کھڑے ہوئے_ وہ آپﷺ کے قدموں کے نشانات دیکھتے گئے_ یہاں تک کہ کھوجی (جو قدموں کے نشانات معلوم کرنے کا ماہر ہوتا ہے) اس جگہ پہنچا جہاں ابوبکر آپﷺ سے ملحق ہوئے تھے_ اس نے مشرکین کو بتایا کہ وہ جس شخص کو تلاش کر رہے ہیں یہاں سے ایک اور شخص بھی اس کے ساتھ ہوگیا ہے_ بہرحال وہ قدموں کے نشانات دیکھتے گئے یہاں تک کہ غار کے دھانے پر پہنچ گئے لیکن اللہ نے انہیں لوٹا دیا کیونکہ مکڑی نے غار کے دھانے پر جالا بن لیا تھا_ اور ایک جنگلی کبوترنے غار کے اندر داخل ہونے کے راستے میں ہی انڈے دے دیئے تھے اور اسی طرح کی دوسری باتیں جو تاریخ میں مذکورہیں_ چنانچہ ان لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیاکہ یہ غار متروکہ ہے اور اس میں کوئی داخل نہیں ہوا وگرنہ مکڑی کا جالاکٹ جاتا اور انڈے ٹوٹ جاتے، اور جنگلی کبوتر بھی غار کے دھانے پر بسیرا نہ کرتا۔
(تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۲۸ ، سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۳۷ اور البدایہ والنہایہ ج۳ ص ۱۸۱ و ۱۸۲)
ادھر امیرالمؤمنین علیہ السلام نے رات تک انتظار فرمایااور پھر رات کی تاریکی میں ہند ابن ابی ہالہ کو ساتھ لیکر چلے گئے یہاں تک کہ رسولﷺ اللہ کے پاس غار میں داخل ہوگئے_ پھر رسولﷺ خدا نے ہند کو حکم دیا کہ وہ آپﷺ اورآپﷺ کے ساتھی کیلئے دو اونٹ خرید کرلائے_
اس وقت حضرت ابوبکر نے کہا :”اے اللہ کے رسولﷺ میں نے اپنے اور آپﷺ کیلئے دو سواریوں کا بندوبست کر رکھا ہے آپ انہیں ساتھ لیکر یثرب کا سفر کیجئے”_
آپﷺ نے فرمایا:” قیمت اداکئے بغیرمجھے ان دونوں کی ضرورت ہے نہ ان میں سے ایک کی”_
ابوبکر نے عرض کیا :”پس آپ قیمت دیکر ان کو لیجئے”_آپ کے حکم سے حضرت علی علیہ السلام نے حضرت ابوبکر کو قیمت ادا کردی۔ (بحارالانوار ج۱۹ ص ۶۲ ، امالی شیخ طوسی ج ۲ ص ۸۳ ، آپﷺ کا حضرت ابوبکر سے قیمت ادا کئے بغیر سواریوں کا نہ لینے کا واقعہ سیرت النبیﷺ پر لکھی جانے والی تقریباً تمام کتابوں میں ملے گا_ نیز مراجعہ ہو : وفاء الوفاء ج۱ ص ۲۳۷)
اس کے بعد رسولﷺ اللہ نے حضرت علی علیہ السلام کو آپﷺ کی ذمہ داریاں نبھانے اور آپﷺ کی امانتیں ادا کرنے کی نصیحت کی کیونکہ قریش اور حج کے ایام میں مکہ آنے والے عرب حجاج اپنا مال و متاع رسولﷺ اللہ کے پاس بطور امانت رکھتے تھے_ آنحضرتﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ صبح و شام مکے میں پکار پکار کر یہ اعلان کریں ”جس کسی کی کوئی امانت محمدﷺ کے پاس ہو وہ آکر ہم سے وصول کرے”_ آنحضرتﷺ نے اس وقت یعنی جب آپﷺ کا تعاقب ختم ہوچکا تو حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:”یا علی علیہ السلام وہ لوگ آپ کے خلاف کوئی ایسی حرکت نہ کرپائیں گے جو آپ کو ناپسند ہویہاں تک کہ آپ میرے پاس پہنچ جائیں گے_ پس میری امانتیں کھلے عام ادا کرو، میں اپنی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا کو آپ کے حوالے کرتا ہوں اور آپ دونوں کواللہ کے حوالے کرتا ہوں اور اس سے آپﷺ دونوں کی حفاظت کا طلبگار ہوں”_
رسولﷺ اللہ تین دن غار کے اندر گزارنے کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔
(امالی شیخ طوسی ج ۲ ص ۸۱_۸۲ و البحار ج ۱۹ ص ۶۱_۶۲)
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے رسولﷺ اللہ کے بستر پر جورات گزاری اس کا تذکرہ آپ علیہ السلام نے یوں کیا ہے_
وقیت بنفسی خیر من وطا الحصا—- ومن طاف بالبیت العتیق وبالحجر
محمد لما خاف ان یمکروا به—- فوقاه ربی ذوالجلال من المکر
وبت اراعیهم متی ینشروننی—- وقد وطنت نفسی علی القتل والاسر
وبات رسولﷺ الله فی الغار آمنا—- هناک وفی حفظ الاله وفی ستر
اقام ثلاثا ثم زمت قلائص—- قلا ئص یفرین الحصا ایما یفری
اشعار کاترجمہ:
میں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے اس شخص کی حفاظت کی جوزمین پر چلنے والوں اور کعبہ و حجر اسود کا طواف کرنے والوں میں سب سے بہتر تھا_ جب محمدﷺ کو دشمنوں کی چال سے خطرہ محسوس ہوا تو خدانے آپﷺ کو ان کے مکر سے محفوظ رکھا_ میں نے رات اس انتظار میں گزاری کہ وہ کب مجھے قتل کر دیں گے_ میں نےاپنے نفس کو قتل یا اسیر ہونے کیلئے آمادہ کر رکھا تھا_ رسولﷺ اللہ نے غار میں امن وسکون کے ساتھ اور خدا کی پناہ میں رات گزاری، آپﷺ نے غار میں تین دن گزارے پھر جوان اونٹوں پر سفر شروع ہوا_ یہ اونٹ ریگزاروں کو اس طرح طے کر رہے تھے جو دیکھنے کے قابل تھا_
جذبہ قربانی کے بے مثال نمونے
علامہ سید ہاشم معروف الحسنی کہتے ہیں ”جان نثاری وقربانی کی تاریخ کا عمدہ ترین قصہ یہیں سے شروع ہوتا ہے_ ٹھیک ہے کہ بہادر اور سورما لوگ دشمن کے سامنے جنگوں میں ڈٹ جاتے ہیں اور اپنے ہاں موجود اسلحے اور سامان جنگ کے ساتھ اپنے حامیوں اور مدد گاروں کے جھرمٹ میں لڑتے ہیں_ کبھی میدان جنگ ہی ان کو ثابت قدم رہنے پر مجبور کرتا ہے، اور وہ بھی اکیلے نہیں، لیکن کسی انسان کا اپنی مرضی اور خوشی سے کسی اسلحے یا سامان کے بغیر موت کے مقابلے میں یوں جانا گویا وہ کسی نرم ونازک بدن والی خوبرو عورت سے معانقہ کیلئے نکلا ہو اور ایسے بستر پر سونا جو خطرات میں گھرا ہوا ہو_ حالانکہ ایمان، خدا پر توکل اوراپنے رہبر کی سلامتی کی آرزو کے علاوہ اس کے ہمراہ کچھ بھی نہ ہوجیساکہ حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ علیہ السلام کے ابن عم حضرت محمدﷺ نے آپ کو اپنے بستر پر رات گزارنے کیلئے کہا تاکہ وہ خود قریش کی سازشوں سے بچنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ وہ بات ہے جس کی مثال بہادری اور مردانگی کی تاریخ میں نہیں ملتی اور عقیدہ و ایمان کی راہ میں لڑی جانے والی جنگوں میں کسی نے اس کا ثبوت نہیں دیا_ پھر کہتے ہیں کہ شب ہجرت علی علیہ السلام کا سونا پہلا واقعہ نہ تھا_ شعب ابوطالب میں محاصرے کے دوران بھی ابوطالب علیہ السلام علی علیہ السلام کو بستر رسولﷺ پر سلایا کرتے تھے تاکہ اگر کوئی قاتلانہ اقدام ہو تو نبیﷺ کی بجائے علی علیہ السلام کو نقصان ہو_ انہوں نے اس کام سے کبھی بھی گریز نہ کیا بلکہ وہ برضا و رغبت ایسا کرتے تھے_( سیرت المصطفی ص ۲۵۲_۲۵۰)
بستر رسولﷺ پر سونا اور مسئلہ خلافت
یہاں تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جس کا ناصبی اور علی علیہ السلام و محبان علی علیہ السلام کا دشمن ہونا مشہور ہے، یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ شب ہجرت حضرت علی علیہ السلام کا بستر رسولﷺ پر سونا ان کی خلافت کا واضح اشارہ ہے_ چنانچہ وہ کہتا ہے:
”شب ہجرت حضرت علی علیہ السلام کے اس اقدام کو بعد میں ان کی زندگی میں پیش آنے والے حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو دیکھنے والے کو اس بات کے واضح اشارات ملتے ہیں کہ اس رات جس منصوبے پر عمل ہوا وہ حضرت علی علیہ السلام کے حوالے سے کوئی اتفاقی یا عارضی بات نہ تھی بلکہ اس کے پیچھے خاص آثار ونتائج کی حامل حکمت کارفرما تھی_ بنابریں ہم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ:
کیا رسولﷺ اللہ کا اس رات حضرت علی علیہ السلام کو اپنی شخصیت کے روپ میں پیش کرنا اس بات کا اشارہ نہیں کہ آنحضرتﷺ اور حضرت علی علیہ السلام کے درمیان ایک قسم کی یگانگت موجود ہے جو ان دونوں کے درمیان موجود رشتہ داری والی یگانگت سے ما وراء ہے_ کیا ہم یہاں سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے کہ رسولﷺ اللہ کے بعد حضرت علی علیہ السلام ہی وہ ہستی ہیں جو آپﷺ کی مسند پر بیٹھنے کے لئے آمادگی رکھتے ہیں اور یہ کہ آپ ہی رسولﷺ اللہ کی نمائندگی کرنے والے اور آپ کے قائم مقام ہیں_ میرا خیال ہے کہ کسی نے ہم سے قبل مذکورہ واقعے کا اس زاویے سے جائزہ نہیں لیا یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام کے شیعوں نے بھی اس نکتے کو ہماری طرح نہیں سمجھا” ۔( عبدالکریم خطیب کی کتاب علی ابن ابیطالب ص ۱۰۵ کی طرف رجوع کریں )
قریش اور علی علیہ السلام :
۱_آخر میں ہم اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ قریش نے حضرت علی علیہ السلام پر اپنے چچا زاد بھائی کی جگہ بتانے کے سلسلے میں زورنہیں دیا اور اصرار سے کام نہیں لیا، اس کی وجہ بس یہی تھی کہ وہ اس کام کوبے فائدہ سمجھتے تھے کیونکہ جو شخص اس حدتک مخلص ہو اوراس طرح کی بے مثال اور تاریخی قربانی دے وہ ان کے سامنے ہرگز اپناراز فاش نہیں کرسکتا تھا _اس راز کی حفاظت کیلئے تو اس نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا_ اسی لئے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی علیہ السلام کو چھوڑ دیا اور مایوسی کے عالم میں وہاں سے چلے گئے۔
( رجوع کریں حیات امیرالمومنین مصنفہ محمد صادق صدر ص ۱۰۶_۱۰۵)
۲_پیغمبر اکرمﷺ کے بارے میں علی علیہ السلام کا طرزعمل انسانیت کااعلی ترین نمونہ تھا_انہوں نے لوگوں کو اخلاص وقربانی کے مفہوم اورایمان کی حقیقت سے روشناس کرایاکیونکہ وہ اپنی شہادت کو ہر صورت میں قطعی دیکھ رہے تھے_ ان کے خیال میں وہ یا تو اس لئے قتل ہوجاتے کیونکہ مشرکین انہیں رسولﷺ سمجھ رہے تھے یا پھر رسول اللہ ﷺ ، (جنہوں نے قریش کے باطل نظریات کو جھٹلایا تھا، ان کے معبودوں کی عیب جوئی کی تھی اور ان کی صفوں کو پراکندہ کر دیا تھا) کو بچانے کے جرم میں بطور انتقام قتل کردیئے جاتے_ قریش اس بات سے بھی آگاہ تھے کہ رسول اللہ ﷺ علی علیہ السلام کو کس قدر چاہتے ہیں اور آنحضرتﷺ کے ہاں ان کا کیا مقام ہے_ ان کا قتل حضورﷺ کے چچازاد بھائی اور آپﷺ پر جان نچھاور کرنے والے مخلص انسان کا قتل تھا۔( رجوع کریں حیات امیرالمومنین ص ۱۰۷ اور ۱۰۸ )اور حقیقت کے واضح ہونے کے بعد ان کا حضرت علی علیہ السلام کو چھوڑ دینا یا تو خوف کے سبب تھا کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ حضرت علیہ السلام نے خالد بن ولید کا کیا حشر کیا تھا _ اور یا اس وجہ سے تھا کہ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ پہلے اپنے اصلی اور اہم دشمن کا کام تمام کردیں، ان کو ختم کرنے کے لئے ابھی وقت بہت ہے_
قریش اور شب ہجرت علی علیہ السلام کا کارنامہ
کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”ہجرت کی رات حضرت علی علیہ السلام نے قریش کو جو کھلا چیلنج دیا اور ان کو جس طرح ذلیل کیا، نیز اس کے بعد تین دن تک جس طرح ان کے درمیان چلتے پھرتے رہے ،اس داغ کو قریش کبھی بھی نہ بھلا سکتے تھے_
اگر اس دن ان کو قتل کرنے میں قریش کو ایسے فتنے کا خطرہ محسوس نہ ہوتا جو ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیتا اور دوسری طرف سے وہ یہ دیکھ لیتے کہ اس طرح وہ محمدﷺ کے بارے میں اپنے مقصد کو بھی حاصل نہیں کرسکیں گے تو وہ انہیں قتل کر کے ضرور دل کی بھڑاس نکال لیتے _یوں وہاں قریش ان سے دست بردار ہوئے لیکن بعد میں ان کا حساب چکانے کیلئے روز شماری کرنے لگے”_
(علی ابن ابیطالب (از عبدالکریم خطیب) ص ۱۰۶)
جی ہاں درحقیقت یہ ایک سخت حساب تھا جو حضرت علی علیہ السلام کو چکانا تھا_ خصوصاً اس بات کے پیش نظر کہ انہوں نے بعد میں ان کے بزرگوں اور سرداروں کو خاک مذلت میں ملادیا تھا اور اپنے چچازاد بھائی کے شمشیرزن بازو کی حیثیت سے بوقت ضرورت کبھی یہاں اور کبھی وہاں متکبر اور جابر لوگوں پر کاری ضرب لگاتے رہے تھے_ قریش نے حضرت علی علیہ السلام سے مذکورہ سخت حساب چکانے کا سلسلہ رسولﷺ کی وفات کے فوراً بعدہی شروع کردیا، یہاں تک کہ آپﷺ کے غسل وکفن اور دفن سے بھی پہلے_
موازنہ
امیرالمومنین علیہ السلام کے بستر رسولﷺ پر رات گزارنے کے نتیجے میں قریش نے یہ موقع گنوادیا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جو سازش تیار کی تھی وہ ناکامی سے دوچار ہوئی_ اس کے علاوہ اس عمل سے دین اسلام کی بنیادیں مضبوط ہوئیں اور کلمہ حق کو فروغ حاصل ہوا_
اس واقعے کا ذبح اسماعیل علیہ السلام پر قیاس کرنا صحیح بات نہیں ہے کیونکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے تو ایک مہربان اور شفیق باپ کے آگے سرتسلیم خم کیا لیکن حضرت علی علیہ السلام نے اپنی جان ان دشمنوں کے حوالے کردی جو ان پر رحم نہ کرتے اور جن کے دل کی بھڑاس ان کا خون بہائے بغیر نہیں نکل سکتی تھی_ نیز ان کا غصّہ جان لیوا شماتت، سخت ترین تشدد اور ایذاء رسانی کے بغیر نہ نکل سکتا تھا_
اسکافی نے جاحظ کی تصنیف عثمانیہ کے جواب میں اس واقعے پر تبصرہ کیا ہے_ (اس کا کلام شرح نہج
البلاغہ معتزلی کی تیرہویں جلد میں مرقوم ہے)_ وہاں رجوع کریں اگر ہم اس نکتے کی تشریح کرنے بیٹھیں تو ہماری بحث طولانی ہوجائے گی_
ارادہ الہی
کیا یہ ممکن نہ تھا کہ اللہ اپنے رسولﷺ کی مدد کچھ اس طرح سے فرماتا کہ رسولﷺ اللہ غار میں چھپنے پر مجبور نہ ہوتے اور نہ حضرت علی علیہ السلام کو آپﷺ کے بستر پر سونا پڑتا_ وہ یوں کہ اللہ اپنی قدرت کی واضح نشانیوں اور حیرت انگیز معجزات کے ذریعے آپﷺ کی مدد کرتا_
اس کا جواب منفی ہے کیونکہ خدا کی منشا یہ ہے کہ سارے امور حسب معمول اور طبیعی اسباب کے مطابق انجام پائیں (ہاں انسان کی طاقت سے باہر معاملات میں اس کی رہنمائی اور عنایات شامل حال ہوں) تاکہ یہ ہم سب کیلئے بھی نمونہ عمل اور مفید درس ثابت ہوں_ ہم بھی دین وعقیدے کی راہ میں جدوجہد کریں اور آسمانی معجزات کے منتظر نہ رہیں_ اسی صورت میں اللہ کا وعدہ (لینصرن اللہ من ینصرہ) اور( ان تنصروا الله ینصرکم ) عملی شکل اختیار کرے گا_
مصلحت اندیشی اور حقیقت
مشرکین مکہ ایک عجیب تضاد کا شکار ہوئے وہ یہ کہ ایک طرف تو رسولﷺ اللہ کو جھٹلاتے اور آپﷺ پر تہمتیں لگاتے تھے یہاں تک کہ آپﷺ کو مجنون، ساحر، شاعر اور کاہن کہہ کر پکارتے تھے_ لیکن دوسری طرف اپنے اموال اور اپنی امانات آپﷺ کے سپرد کرتے تھے اور آپﷺ کو معتمد اور امین سمجھتے تھے یہاں تک کہ آپﷺ اپنے چچازاد بھائی (علی علیہ السلام ) کو مکہ چھوڑ جانے پر مجبور ہوئے کہ وہ تین دن تک اعلان عام کرتے رہیں تا کہ لوگ آکر اپنی امانتیں واپس لے جائیں_ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرتﷺ کی دعوت پر ان کا ایمان نہ لانا ہٹ دھرمی اور تکبر و عناد کے باعث تھا، نہ اس لئے کہ وہ آپﷺ کے پیغام کو دلی طور پر غلط سمجھتے تھے ارشاد
الہی ہے:( وجحدوا بها واستیقنتها انفسهم )( سورہ نمل آیت ۱۴)
یعنی انہوں نے آیات الہی کا انکار کیا جبکہ قلبی طورپراس کو مانتے تھے_ بالفاظ دیگر وہ رسولﷺ اللہ کی دعوت کے اس لئے منکر تھے کہ وہ بزعم خود اس طرح سے اپنے ذاتی مفادات اور مستقبل کی حفاظت کرنا چاہتے تھے یا اس لئے کہ وہ اپنے آباء و اجداد کی اندھی تقلید کرنے کے خواہشمند تھے یا اپنی امتیازی حیثیت اور مراعات کی حفاظت کے طالب تھے یا حسد اور دیگر وجوہات کی بنا پر ایسا کررہے تھے_
حضرت علی علیہ السلام کو ان حساس اور خطرناک حالات میں لوگوں کی امانتیں لوٹانے کیلئے مکے میں چھوڑ جانا ایک ایسے انسان کامل کا بہترین نمونہ پیش کرتا ہے جو اپنے اصولوں پر کاربند اور اپنے نظریات کا پاسبان ہو _ایسا کامل انسان جو خدا کے معین کردہ راستے سے بال برابر بھی منحرف نہ ہوتا ہو اور بہانوں کی تلاش میں نہ پھرتا ہو_ بلکہ وہ اپنے عظیم اصولوں اور مقاصد کیلئے جیتا ہو اور اصولوں کو ذاتی مفادات کے حصول کا ذریعہ قرار نہ دیتا ہو_
ہاں وہ آپﷺ کو امین کہہ کر پکارتے تھے اور یہ آپﷺ کی واضح ترین صفات میں سے ایک صفت تھی حتی بعثت سے پہلے بھی_ یہی امین ہیں جو اب ان کی امانتیں واپس کررہے ہیں جبکہ وہ ان کے خون کے درپے ہیں لیکن یہ بات آپﷺ کو لوگوں کی امانتوں کا خیال رکھنے سے نہیں روکتی خواہ وہ اچھے ہوں یا برے_ اگر آپﷺ ان کی امانتیں واپس نہ کرتے تو آپﷺ کو پورا پورا بہانہ حاصل تھا_
ایک محقق کا کہنا ہے کہ اس عظیم صفت کی کوئی خاص اہمیت اہلسنت کی احادیث کے اندر دیکھنے میں نہیں آتی حالانکہ یہ صفت (حضورﷺ کی امانتداری) انسانیت کی بنیاد ہے_ بالکل اسی طرح جس طرح رسولﷺ اللہ کی وفات کے بعد سے احادیث ”حکمت” خلفاء کی خواہش پر عمداً محو کی گئیں_ وگرنہ وہ چیز کہاں گئی جس کے بارے میں خدانے سات آیتوں میں یہ خبردی ہے کہ رسولﷺ کی ذمہ داری لوگوں کو کتاب وحکمت کی تعلیم دینا ہے_ ہم جانتے ہیں کہ آپﷺ نے لوگوں کو کتاب کی تعلیم دی جس کی خدانے حفاظت کی اور اب تک باقی ہے_( انا نحن نزلنا الذکر وانا له لحافظون )( سورہ حجر آیت ۹ )یعنی ہم نے ہی قرآن نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں_
لیکن ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ وہ حکمت کہاں گئی جو آپﷺ نے امت کو سکھائی؟ ہم دیکھتے ہیں کہ علماء و محدثین کے نزدیک ان میں سے فقط تقریباً پانچ سو کے لگ بھگ احادیث رہ گئی ہیں وہ بھی فقہ احکام، اخلاق اور حکمت سب کے بشمول _ ان میں سے کتنی احادیث فقط حکمت سے مربوط ہیں اس کا حشر آپ کے سامنے ہے_( مناقب شافعی ج۱ ص ۴۱۹ نیز عن الوحی المحمدی ص ۲۴۳)
البتہ ہم آئمہ معصومین علیہ السلام کی احادیث میں کثیر مقدار میں حکمت کی باتیں پاتے ہیں_ ان کی ایک بڑی تعداد امانت اور صداقت کے متعلق ہے_ انہوں نے امانت کو عملی اخلاق کا بنیادی محور قرار دیا ہے اور اسے زبردست اہمیت دی ہے_
درس ہجرت
ہجرت کا واقعہ ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ مسلمانوں پرایک دوسرے کی مدد واجب ہے_ نیز نسلی تعصبات سے مکمل طور پر مبرا ہوکر اغیار کے مقابلے میں متحد ہونا بھی ضروری ہے_ اور یہ کہ ان کے باہمی تعاون والفت اور آپس کی رحمدلی و ہمدردی کی بنیاد دین اور عقیدہ ہو نہ کہ نسلی و خاندانی تعلقات یا مفادات پر مبنی روابط وغیرہ_
علاوہ ازیں واقعہ ہجرت ہمیں حسن تدبیر، باریک بینی اور صحیح منصوبہ بندی کا بھی درس دیتا ہے جسے رسولﷺ اللہ نے پیش نظر رکھاکیونکہ جب آپﷺ کے گھر کا محاصرہ کرنے والوں کو کسی نے آکر یہ خبر دی کہ آپﷺ گھرسے نکل گئے ہیں تو اس وقت جس چیزنے ان کو حضورﷺ کی بستر پر موجودگی کے بارے میں مطمئن رکھا وہ علی علیہ السلام کا بستر رسولﷺ پر رات گزارنا تھا۔
( تاریخ طبری ج ۲ ص ۱۰۰ )
روایت ہے کہ اللہ تعالی نے جبرئیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام سے کہا میں نے تم دونوں کو ایک دوسرے کا بھائی قراردیا_ اور ایک کی عمر دوسرے سے زیادہ قرار دی اب تم دونوں میں سے کون ہے جو اپنے ساتھی کو اپنے اوپر ترجیح دے تاکہ وہ زیادہ زندہ رہے؟ جواباً ان دونوں نے زندہ رہنے، کی خواہش کی_ اس وقت پروردگارعالم نے ان سے فرمایا کیا تم دونوں علی ابن ابیطالب علیہ‌السلام جیسے نہیں بن سکتے؟ میں نے اس کے اور محمد ﷺ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا_ پس وہ اس پر اپنی جان قربان کرنے کیلئے اس کے بستر پر سوگیا اور اس کی زندگی کو اپنی زندگی پر ترجیح دی ہے اب تم دونوں زمین پر اترجاؤ اور دشمنوں سے اس کی حفاظت کرو_ چنانچہ وہ دونوں زمین پر اترآئے_ جبرئیل علیہ ‌السلام ان کے سرکی جانب اور میکائیل ان کے پیروں کی طرف، جبرئیل علیہ السلام یہ پکار رہے تھے ”شاباش ہو آپ جیسے افراد پر یا علی علیہ‌السلام ابن ابیطالب _اللہ تمہاری وجہ سے فرشتوں کے سامنے فخر ومباہات کرتا ہے_ اس وقت اللہ کی جانب سے یہ آیت نازل ہوئی:
( ومن الناس من یشری نفسه ابتغاء مرضات الله ، والله رؤوف بالعباد )
( سورہ بقرہ آیت ۲۰۷ اور روایت کیلئے رجوع کریں اسد الغابة ج ۴ ص ۲۵ و المستجاد (تنوخی) ص ۱۰ و ثمرات الاوراق ص ۳۰۳ و تفسیر البرہان ج ۱ ص ۲۰۷ و احیاء العلوم ج ۳ ص ۲۵۸ و تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۳۹ و کفایة الطالب ص ۲۳۹ و شواہد التنزیل ج ۱ _ص ۹۷ و نور الابصار ص ۸۶ و فصول المہمة (ابن صباغ مالکی) ص ۳۱ و تذکرة الخواص ص ۳۵ از ثعلبی و تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۲۵ اور ۳۲۶، بحار ج ۱۹ ص ۳۹ و ۶۴ اور ۸۰ ثعلبی سے کنز الفوائد سے نیز از فضائل احمد ص ۱۲۴_۱۲۵، از الروضة ص ۱۱۹، المناقب خوارزمی ص ۷۴، ینابیع المودّة ص ۹۲ از ابن عقبہ ، نیز حبیب السیر ج۲ ص ۱۱ میں کہا گیا ہے کہ یہ واقعہ تاریخ اور سیرت کی اکثر کتابوں میں مذکور ہے _)
لوگوں میں و ہ بھی ہے جو رضائے الہی کی طلب میں اپنی جان کا سودا کرتا ہے_ ایسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے_
اسکافی کہتے ہیں کہ: تمام مفسرین نے روایت کی ہے کہ( ومن الناس من یشری نفسه ابتغاء مرضات الله ) والی آیت شب ہجرت حضرت علی علیہ‌السلام کے بستر (رسول ﷺ ) پر سونے کے بارے میں اتری ہے۔( رجوع کریں شرح نہج البلاغة ج ۱۳ ص ۲۶۲)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button