خطبات جمعہرسالاتسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:190)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک24فروری2023ء بمطابق 3شعبان المعظم 1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
فضائل ماہ شعبان/ ولادت امام حسین ؑ
شعبان کا مہینہ بہت عظیم مہینہ ہے اور یہ مہینہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منسوب ہے۔ ماہ شعبان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا مہینہ ہے ، آپ (ص) اس ماہ میں روزے رکھتے اور انہیں ماہ مبارک رمضان کے روزوں سے متصل فرماتے ۔اس سلسلہ میں آنحضرت کا فرمان ہے: شَعبانُ شَهري و رَمَضانُ شَهرُ اللّه ِ فَمَن صامَ شَهري كُنتُ لَهُ شَفيعا يَومَ القِيامَةِ (بحار الأنوار ، ج 97 ، ص 83)
شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان خدا کا مہینہ ہے ، اس ماہ میں روزہ رکھنے والے کی میں قیامت کے دن شفاعت کروں گا
حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: جب ماہ شعبان کا چاند نموردار ہوتا تو امام زین العابدین (علیہ السلام) تمام اصحاب کو جمع کرتے اور فرماتے: اے میرے اصحاب! جانتے ہو کہ یہ کونسا مہینہ ہے؟
یہ شعبان کا مہینہ ہے اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) فرمایا کرتے تھے کہ شعبان میرا مہینہ ہے۔
پس اپنے نبی کی محبت اور تقرب الہی کے لیے اس مہینے میں روزے رکھو ۔ اس خدا کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں مجھ علی بن الحسین کی جان ہے، میں نے اپنے پدر بزرگوار حسین بن علی(علیہما السلام )سے سناہے؛ وہ فرماتے تھے میں نے اپنے والد گرامی امیرالمومنین (علیہ السلام ) سے سنا ہے کہ جو شخص محبت رسول اور تقرب خدا کے لیے شعبان میں روزہ رکھے تو خدائے تعالیٰ اسے اپنا تقرب عطا کرے گا، قیامت کے دن اس کو عزت وحرمت ملے گی اور جنت اس پر واجب ہو جائے گی۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک دوسری میں فرمایا : مَنْ صَامَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ آخِرِ شَعْبَانَ وَ وَصَلَهَا بِشَهْرِ رَمَضَانَ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ صَوْمَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْن‏.(من لا یحضره الفقیه ج 2 ، ص 94 ، ح 1829)
جو کوئی بھی ماہ شعبان کے اخری تین دنوں میں روزے رکھے گا اور اسے ماہ مبارک رمضان سے ملا دے گا خداوند متعال اسے مسلسل دوماہ روزے کا ثواب عطا کرے گا ۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام ) کا ارشاد ہے: ماہ مبارک رمضان کے روزے قیامت کے دن کے لیے ذخیرہ ہیں اور ماہ شعبان کے روزے دشمنوں کے شر کے دور ہونے کے لیے، اور کم ترین جزا، ماہ شعبان میں روزہ رکھنے والے کی یہ ہے کہ اس پر جنت واجب ہو جاتی ہے ۔
حسن بن علی بن فضال کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا (علیہ السلام ) سے سنا ہے، آپ فرماتے ہیں: جو بھی ماہ شعبان میں ۷۰ مرتبہ استغفراللہ کہے تو خداوند متعال اگر کسی کے ستاروں کے برابر بھی گناہ ہوں تو وہ بخش دے گا۔(فضایل ماه رجب ، شعبان رمضان ؛ ص۴۰ )
ماہ شعبان کا ایک بہترین عمل
امام جعفر صادق علیہ السلام سے راوی نے سوال کیا اے (فرزند رسول) ! اس ماہ کا بہترین عمل کیا ہے؟ تو حضرت (ع) نے فرمایا : "صدقہ اور استغفار” اس ماہ کا بہترین عمل ہے ۔
جو شخص ماہ شعبان میں صدقہ دے ، خدا اس صدقے میں اس طرح اضافہ کرتا رہے گا جیسے تم لوگ اونٹنی کے بچے کو پال کر عظیم الجثہ اونٹ بنا دیتے ہو ، چنانچہ قیامت کے روز یہ صدقہ، احد کے پہاڑ کے طرح بڑھ چکا ہوگا ۔
مزید حضرت نے فرمایا : صدقہ دے اگرچہ وہ نصف خرما ہی کیوں نہ ہو کیوں کہ خدا صدقہ دینے والے کے جسم پر جہنم کی آگ کو حرام کردے گا ۔
نیز ماہ شعبان میں ہر روز ستر مرتبہ اس استغفار کی تاکید کی گئی ہے۔ اَسْتغْفِرُ الله الَّذِیْ لَا اِلَہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہِ ۔
روایاتیں بیانگر ہیں کہ اس ماہ کا بہترین عمل استغفار ہے ، اس مہینے میں ستر70 مرتبہ استغفار کرنا گویا دوسرے مہینوں میں (ستر70,000 ہزار) مرتبہ استغفار کرنے کے برابر ہے ۔)مفاتیح الجنان ، فضائل و اعمال ماہ شعبان)

تاریخی مناسبت: ولادت امام حسین علیہ السلام
ماہ شعبان المعظم ایک عظیم مہینہ ہے۔روایات میں اس مہینے کو رسول اللہ ﷺ سے منسوب کیا گیاہے۔3 شعبان المعظم کو نواسہ رسول ﷺ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہے۔جبکہ 4 شعبان کو حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کی ولادت ہے اور اسی طرح امام زین العابدین علیہ السلام کی ولادت باسعادت بعض روایات میں 5 شعبان اور بعض میں 9 شعبان ذکر ہوئی ہے۔
جب امام حسین علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے آپ کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس لے جایا گیا۔ اور امام حسین علیہ السلام کی ولادت کی آپ کو خوشخبری دی۔آنحضرت نے ایک کان میں آذان اور دوسرے میں اقامت کہی اور سات دن گزرجانے کے بعد عقیقہ کروایا۔ اور اس نومولود کا نام حسین انتخاب کیا۔ اور ماں کو حکم دیا کہ امام حسین کے سر کے بال اتارے جائیں اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ دیں جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا نے اس حکم کی تعمیل کی۔
ایک مرد مؤمن کی نظر میں عظمت امام حسین کی معرفت کیلئے پیغمبؐر عظیم الشان اسلام کی یہی احادیث کافی ہیں جن میں حضؐور سرور کائنات نے ارشاد فرمایا ہے: ”حُسَيْنٌ مِنِّي وَ أَنَا مِنْ حُسَيْن“؛ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔
یعلی بن مرّہ کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلامﷺ نے حسین کو گود میں اٹھا کر فرمایا: ”حُسَيْنٌ مِنِّي وَ أَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْناً حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاط“(مصابیح السنة، ج٢،ص٢٨١)
حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں اور اللہ اسے محبوب رکھتا ہے جو حسین کو محبوب رکھتا ہے اور یاد رکھو! حسین میرے سبطوں میں سے ایک سبط ہے۔
حسین ؑ مجھ سے ہیں کا مطلب تو واضح ہے کہ وہ رسول ﷺ کی اولاد سے اور ان کے نواسے ہیں۔اور میں حسینؑ سے ہوں اس لیے فرمایا کہ میرے دین کی بقاء حسینؑ کی وجہ سے ہوگی۔
امام حسین کے فضائل و مناقب بیان کرنے والی بعض روایات میں اس طرح بھی نقل ہوا ہے پیغمبؐر امام حسن و حسین کو اپنے کاندھوں پر سوار کرکے لوگوں کے سامنے لیکر آتے اور ان کا تعارف کراتے تاکہ لوگ اچھی طرح ان کے مقام و مرتبہ کو پہچان لیں مثلاً: ایک مرتبہ حضوؐر سرورکائنات، سرکار رسالت اس انداز سے گھر سے باہر تشریف لائے کہ دائیں کاندھے پر حسؑن اور بائیں کاندھے پر حسیؑن تھے اور آنحضرتؐ کبھی امام حسن کو پیار کرتے اور کبھی امام حسین کو پیار کرتے اور اسی انداز سے لوگوں کے درمیان آئے اور پھر فرمایا: جس نے انہیں دوست رکھا اس نے مجھے دوست رکھا، جس نے ان سے عداوت کی اس نے مجھ سے عداوت کی۔
اس سلسلہ میں اہل سنت کے بہت سے علماء مثلاً: علامہ حجر عسقلانی وغیرہ نے پیغمبر اسلامﷺ کے امام حسین علیہ السلام سے اس انداز محبت کو نقل کیا ہے۔
روایت ہے کہ جب سرکار رسالت، حضؐور سرورکائنات ﷺنے امام حسین علیہ السلام کو اپنے دوش پر سوار فرمایا تو ایک شخص دیکھ کر کہنے لگا: واہ! کیا سواری ہے!
پیغمبرﷺ نے فوراً فرمایا: ”نِعمَ الرَّاکب هوَ“(صواعق المحرقہ ، ص١٣٥)
تم نے سواری دیکھی ہے کہ کتنی اچھی ہے ارے سوار بھی تو دیکھو کتنا اچھا ہے!
پیغبراسلام کی یہ حدیث مشہور ہے کہ ”الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة وابوہماخیرمنہما“ حسن اورحسین جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے پدربزرگواران دنوں سے بہترہیں ۔صحابی رسول ﷺ جناب حذیفہ یمانی کابیان ہے کہ میں نے ایک دن سرورکائنات ﷺکوبے انتہا مسرور دیکھ کرپوچھاحضور،افراط مسرت کی کیاوجہ ہے فرمایااے حذیفہ آج ایک ایساملک نازل ہواہے جومیرے پاس اس سے قبل کبھی نہیں ایاتھا اس نے مجھے میرے بچوں کی سرداری جنت پرمبارک دی ہے اورکہاہے کہ”ان فاطمة سیدة نساء اہل الجنة وان الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة“ فاطمة جنت کی عورتوں کی سردارہیں اورحسنین جنت کے مردوں کے سردارہیں (کنزالعمال جلد ۷ ص ۱۰۷ ، تاریخ الخلفاص ۱۲۳ ،اسدالغابہ ص ۱۲ ،اصابہ جلد ۲ ص ۱۲ ،ترمذی شریف ،مطالب السول ص ۲۴۲ ،صواعق محرقہ ص ۱۱۴) ۔
عبادت اورسیرت امام حسینؑ:
جب بھی کانوں سے لفظ حسین(علیہ السلام) کی صدا ٹکراتی ہے تو فورا ان کے تمام چاہنے والوں کے ذہنوں میں ایک خاص تصور آتا ہے، مظلومیت، تین دن کی بھوک و پیاس، بے رحمی سے شہادت کا تصور۔ اور یہ خیال آئے بھی کیوں نہ؟ یقینا آپ کی شہادت کا واقعہ اور منظر اتنا دردناک ہے ہی کہ جب بھی آپ کا نام کوئی انسان سنے تو بنا اس منظر کو یاد کئے اور اس پر آنسو بہائے رہ ہی نہیں سکتا۔ لیکن امام حسین علیہ السلام کی شخصیت صرف آپ کی مظلومیت کے پہلو تک محدود نہیں بلکہ کردار اور اخلاق کے ہر پہلو بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں آپ کی ذات گرامی نمایاں حیثیت رکھتی ہے اور ہم تمام محتاجوں کے لئے مصباح ہدایت اور مشعل راہ ہے۔
انہیں پہلوؤں میں سے ایک عبادت پروردگار عالم کا پہلو ہے کہ اگر اس زاویہ سے امام حسین علیہ السلام کے اقوال اور ان کی زندگی کو دیکھا جائے تو آپؑ کی نظر میں اس عظیم پہلو کی اہمیت و منزلت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
آپؑ کا عبادت پروردگار عالم سے گہرا تعلق ہونے ہی کہ بنا پر ابن اثیر نے ایک مقام پر لکھا: كان الحسين (علیہ السلام) فاضلا كثير الصوم و الصلوة و الحج و الصدقة و افعال الخير جميعها؛ حسین(علیہ السلام) فاضل و عالم شخص تھے، نماز، روزہ، حج۔ صدقہ اور نیک افعال کو کثرت سے انجام دیتے تھے( اسد الغابہ، ج ۲، ص ۲۷)
اب اگر ہم خود امام علیہ السلام کی نظر میں عبادت خداوند عالم کی منزلت کو دیکھنا چاہیں تو آپؑ کی چندایک حدیثوں پر نظر ڈال لیں تو یہی اس پہلو کو روشن کرنے کے لئے کافی ہوگا۔
ایک مقام پر آپ علیہ السلام عبادت کی اقسام کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
إِنّ قَوْماً عَبَدُوا اللّهَ رَغْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ التّجّارِ وَ إِنّ قَوْمَاً عَبَدُوا اللّهَ رَهْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الْعَبِيدِ وَ إِنّ قَوْمَاً عَبَدُوا اللّهَ شُكْراً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الاَحْرَارِ وَ هِىَ اَفْضَلُ الْعِبَادَةِ
کچھ لوگوں نے (بہشت کی) آرزو میں خدا کی عبادت کی، یہ تاجروں کی عبادت ہے۔ ایک گروہ نے خدا کی عبادت اس سے خوف کی بنا پر کی، یہ غلاموں کی عبادت ہے۔ اور ایک گروہ نے خدا کے شکریہ کے لئے اس کی عبادت کی، یہ عبادت، آزاد افراد کی عبادت ہے اور سب سے برتر عبادت ہے(تحف العقول، صفحہ ۲۴۶)
جب ہم اس حدیث پر غور کرتے ہیں تو سب کم چیز جو ہم سمجھ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس قول کے ذریعہ امام علیہ السلام نے لوگوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ دیکھو تاجروں اور غلاموں کی عبادت کی منزل سے گزر کر اپنی عبادت کے معیار کو بلند کرتے ہوئے آزاد انسانوں کی عبادت کے مرحلہ تک پہونچاؤ یعنی محض جنت کی خواہش یا اللہ کے ڈر سے اس کی عبادت کو انجام مت دو بلکہ اس کو لائق عبادت سمجھتے ہوئے، اس کی عبادت کا شوق اپنے اندر ایجاد کرو اور پھر اس کی عبادت کرو۔اور جب انسان اپنے آپ کو اس منزل تک پہونچا کر خدا کی عبادت کرے گا تو دنیا و آخرت کی تمام اچھائیاں اس کے شامل ہونگی کیونکہ خود امام حسین علیہ السلام کا اس بارے میں ارشاد ہے:
مَنْ عَبَدَاللهَ حَقَّ عِبادَتِهِ، آتاهُ اللهُ فَوْقَ أمانیهِ وَ كِفایَتِهِ ؛ جو شخص، خدا کی عبادت اس طرح سے کرے جس طرح سے کرنے کا حق ہے تو خداوند عالم اس کی آرزو اور خواہشوں سے زیادہ اسے عطا کرتا ہے( تنبیہ الخواطر، ج۲، ص ۱۰۸)
اول وقت کی نماز اور سیرت امام حسین ؑ:
اگر ہم امام حسین علیہ السلام کی حیات طیبہ کے محض آخری لمحات پر ہی توجہ دیں تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ بروقت اور اول وقت پر نماز کی ادائیگی کی کتنی اہمیت ہے، روز عاشورا ہے، جنگ، پیاس، زخم، دکھ، درد، تکلیف اہل حرم اور بچوں کی پریشانیوں کی فکر کا ماحول ہے پھر بھی ایسے وقت میں امام حسین علیہ السلام نے نہ صرف یہ کہ نماز کو اہمیت دی اور اسے ادا کیا بلکہ نماز کو اس کے وقت کے ساتھ اہمیت دی اور اس کو بروقت ادا کرنے کا اہتمام کیا، ایک ایسا وقت جب لوگ اپنے حواس کھو بیٹھتے ہیں، ایسے ماحول میں امام حسین علیہ السلام نے اپنے جانباز صحابیوں کے ساتھ کربلا کے تپتے صحرا میں بروقت نماز کا اہتمام کر کے تاقیامت اپنے چاہنے والوں کو درس دے گئے کہ کتنا بھی سخت وقت پڑے انسان پر مگر اسے کوشش کرنا چاہئے کہ عبادت پروردگار کو اس کے صحیح اور فضیلت کے وقت پر ادا کرے۔
بر وقت نماز پڑھنے یا نماز کے وقت کی پابندی کرنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ شیطان اس شخص سے پریشان رہتا ہے، اس بات کی طرف امام حسین علیہ السلام سے مروی، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: لا یَزالُ الشَّیطانُ ذَعِرًا مِنَ المُؤمِنِ ما حافَظَ عَلَی الصَّلواتِ الخَمسِ، فَإِذا ضَیَّعَهُنَّ تَجَرَّأَ عَلَیهِ فَأَدخَلَهُ فِی العَظائِمِ؛ جب تک مومن اپنی پانچوں وقت کی نماز کے اوقات کی پابندی کرتا ہے، شیطان اس سے خوفزدہ اور پریشان رہتا ہے اور جیسے ہی وہ شخص اس (پابندی) کو تباہ و بربادکر دیتا ہے، شیطان کو اس پر جرئت حاصل ہو جاتی ہے اور وہ اسے گناہان کبیرہ کا مرتکب کروا دیتا ہے(کافی، ج ۳، ص ۲۶۹، ح ۸)
امام حسین علیہ السلام کے عمل اور مذکورہ حدیث سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے نماز کے اوقات کی پابندی ، نماز کی اہمیت اور فضیلت کو چارچاند لگا دیتی ہے، اور معصومین علیہم السلام کی اس سیرت پر عمل کر کے انسان اپنے کو کمال کی منزل تک پہونچانے میں کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی چند احادیث:
بُكَاءُ الْعُيُونِ وَ خَشْيَةُ الْقُلُوبِ رَحْمَةٌ مِنَ اللّهِ ۔ (مستدرك الوسائل، ج ۱۱ ص ۲۴۵ ح۳۵)
امام حسين (ع)نےفرمایا:.آنکھوں کارونااوردل کاخوفزدہ ہونارحمت الہی کی علامت ہے ۔

• وَ اللّهِ الْبَلاَءُ وَ الْفَقْرُ وَ الْقَتْلُ اَسْرَعُ إِلَى مَنْ اَحَبّنَا مِنْ رَكْضِ الْبَرَاذِينِ، وَ مِنَ السّيْلِ إِلىَ صِمْرِهِ .
امام حسين (ع) نےفرمایا: خداکی قسم بلا فقر وتنگدستی اورقتل ہمارے چاہنے والوں کی طرف تیزدوڑنے والے گھوڑوں اورسیلاب کے پانی سے بھی زیادہ تیز رفتار کے ساتھ آتے ہیں. (بحار الانوار، ج ۶۴ ص ۲۴۹ ح۸۵)

• اَيّهَا النّاسُ! إِنّ اللّهَ جَلّ ذِكْرُهُ مَا خَلَقَ الْعِبَادَ إِلاّ لِيَعْرِفُوهُ، فَإِذَا عَرَفُوهُ عَبَدُوهُ فَإِذَا عَبَدُوهُ اسْتَغْنَوْا بِعِبَادَتِهِ عَنْ عِبَادَةِ مَا سِوَاهُ ۔
امام حسين (ع) فرمایا: اے لوگو! خداوندعالم نےبندوں کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ اس کی معرفت حاصل کریں اور جب معرفت حاصل کرلیں تو اس کی عبادت کریں جب اس کے عبادت گذار ہوجائیں گےتو اس کے علاوہ اس کےغیر کی عبادت سےبےنیاز ہو جائیں گے ۔(بحار الانوار، ج ۵ ص ۳۱۲ ح۱)

• إِنّ شِيعَتَنَا مَنْ سَلِمَتْ قُلُوبُهمْ مِنْ كُلّ غِشّ وَغَلّ وَدَغَلٍ . ( بحار الانوار، ج ۶۵ ص ۱۵۶ ح۱۰)
امام حسين (ع) فرمایا: ہمارے شیعہ وہ ہیں جن کے دل ہر طرح کے مکروفریب سے پاک ہوں ۔

• مَنْ طَلَبَ رِضَى النّاسِ بِسَخَطِ اللّهِ وَكَلَهُ اللّهُ إِلىَ النّاسِ .
امام حسين (ع) نے فرمایا: «جو لوگوں کو راضی کرنے کے لئے خدا کو ناراض کرے خدا اسے لوگوں کے ہی حوالہ کردیتا ہے ۔ (بحار الانوار، ج ۷۵ ص ۱۲۶ ح۸)

• خَمْسٌ مَنْ لَمْ تَكُنْ فِيهِ لَمْ يَكُنْ فِيهِ كَثِيرُ مُسْتَمْتِعٍ: اَلْعَقْلُ، وَ الدّينُ وَ الاَدَبُ، وَ الْحَيَاءُ وَ حُسْنُ الْخُلْقِ .
امام حسين (ع) نے فرمایا: جس میں پانچ چيزیں نہ ہوں اس میں کوئی خیر نہیں پایا جائے گا عقل، دين، ادب، حيا اور خوش‏ اخلاقی .(حياة الامام الحسين(ع)، ج ۱ ص۱۸۱)

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button