خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:142)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک یکم اپریل 2022ء بمطابق 28 شعبان المعظم 1443 ھ)
تحقیق و ترتیب : عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
ہجری قمری سال کا نواں مہینہ رمضان المبارک ہے جس میں طلوع صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک چند امور سے قربت خدا کی نیت سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ مثلاً کھانا پینا اور بعض دوسرے مباح کام ترک کر دیئے جاتے ہیں۔ شرعی زبان میں اس ترک کا نام "روزہ” ہے جو اسلام کی ایک اہم ترین عبادت ہے۔عربی میں روزے کو "صوم” کہتے ہیں اور صوم کا معنی ہے کسی چیز سے رک جانا اور اسے ترک کردینا۔ روزہ فقط اسلام میں ہی واجب نہیں بلکہ تمام ملل و مذاہب میں کسی نہ کسی شکل میں روزہ رکھا جاتا ہے اور تمام الہی ادیان اس کی افادیت کے قائل ہیں۔ البتہ ماہ مبارک رمضان میں روزہ رکھنا اسلام سے ہی مختص ہے۔ اسی لئے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے ماہ مبارک رمضان کو اپنی ایک دعا میں جو صحیفہ سجادیہ میں موجود ہے "شہرالاسلام” یعنی اسلام کا مہینہ قرار دیا ہے۔قرآن مجید میں روزے کے وجوب کے بارے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ﴿البقرۃ:۱۸۳﴾ۙ
اے ایمان والو! تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
روزے کا حکم بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس بات کو بھی ذکر فرمایا کہ یہ صرف تم پر نہیں بلکہ گزشتہ امتوں پر بھی واجب کیا گیا تھا۔ اس میں دو نکتے پوشیدہ ہیں۔
۱۔ روزے کا وجوب انسانی فطرت کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا ہے۔ اگرچہ مختلف ادیان میں تقاضوں کے بدلنے سے شریعتیں بدلتی رہی ہیں، لیکن جو بات انسانی فطرت کے تقاضوں سے مربوط ہو وہ نہیں بدلتی۔ اسی وجہ سے روزہ تمام شریعتوں میں نافذ رہا۔
۲۔ مسلمانوں کی دل جوئی کے لیے کہ روزہ ان پر بار گراں نہ گزرے، کہا گیا کہ یہ صرف تم پرہی نہیں، بلکہ سابقہ امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا۔
تقویٰ اور روزہ: اس آیۂ شریفہ کا آخری جملہ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ بتاتا ہے کہ روزے کا ایک طبعی اور لازمی نتیجہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ یعنی ہر قسم کے خطرات سے بچنا اور انسان کو سب سے زیادہ خطرات اپنی ذاتی خواہشات کی طرف سے لاحق ہوتے ہیں۔
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ ۔۔۔ (۳ آل عمران : ۱۴)
لوگوں کے لیے خواہشات نفس کی رغبت زیب و زینت بنا دی گئی ہے۔۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:
اَعْدَی عَدُوِّکَ نَفْسَکَ الَّتِیْ بَیْنَ جَنْبَیْکَ ۔(بحار الانوار ۶۷ : ۶۴)
تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا وہ نفس ہے جو تیرے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے ۔
روزہ ان داخلی خطرات سے بچنے کا اہم ترین وسیلہ ہے۔ کیونکہ روزہ حلال اور مباح چیزوں سے اجتناب کی اہم تربیت ہے۔ انسان جب حلال اور مباح چیزوں سے اجتناب کرنے کا عادی بن جائے تو حرام چیزوں سے اجتناب کرنا اس کے لیے مزید آسان ہوجاتا ہے۔
ماہ مبارک رمضان کی وجہ تسمیہ:
ماہ مبارک رمضان کو "رمضان” کے نام سے کیوں یاد کیا جاتا ہے؟۔ اس سلسلے میں چند اقوال ذکر کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر قول اپنی جگہ ایک دلیل رکھتا ہے لیکن ہم یہاں ان اقوال میں جو وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہے اسی کے ذکر پر اکتفا کریں گے:
۱۔ رمضان "رمض” سے ماخوذ ہے جس کے معنی "دھوپ کی شدت سے پتھر، ریت وغیرہ کے گرم ہونے” کے ہیں۔ اسی لئے جلتی ہوئی زمین کو "رمضا” کہا جاتا ہے اور جب پہلی دفعہ روزے واجب ہوئے تو ماہ مبارک رمضان سخت گرمیوں کے ایام میں پڑا تھا۔ جب روزوں کی وجہ سے گرمیوں کا احساس بڑھا تو اس مہینے کا نام رمضان پڑ گیا۔ یا یہ کہ یہ مہینہ گناہوں کو اس طرح جلاتا ہے جس طرح سورج کی تمازت زمین کی رطوبتوں کو جلا دیتی ہے۔ چنانچہ روایت میں آیا ہے:
"اِنَّمَا سُمِّیَ الرَّمَضَانُ لِاَنَّہٗ یَرْمُضُ الذُّنُوْبَ"۔ (تفسیر نور، جلد 1، صفحہ 370، )
رمضان کو رمضان اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔
۲۔ یہ کہ رمضان "رمضی” سے ماخوذ ہے جس کے معنی "ایسا ابر و باراں ہے جو موسم گرما کے اخیر میں آئے اور گرمی کی تیزی کو دور کر دے”۔ رمضان کا مہینہ بھی گناہوں کے جوش کو کم کرتا ہے اور برائیوں کو دھو ڈالتا ہے۔
۳۔ رمضان کسی دوسرے لفظ سے نہیں لیا گیا بلکہ یہ اللہ تعالی کے مبارک ناموں میں سے ایک نام ہے۔ چونکہ اس مہینے کو خداوند عالم کے ساتھ ایک خصوصی نسبت حاصل ہے لہذا خدا کے ساتھ منسوب ہونے کی وجہ سے رمضان کہلاتا ہے۔ جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:
"َ لَا تَقُولُوا هَذَا رَمَضَانُ وَ لَا ذَهَبَ‏ رَمَضَانُ‏ وَ لَا جَاءَ رَمَضَانُ فَإِنَّ رَمَضَانَ اسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اللَّهِ لَا يَجِي‏ءُ وَ لَا يَذْهَبُ وَ إِنَّمَا يَجِي‏ءُ وَ يَذْهَبُ الزَّائِلُ وَ لَكِنْ قُولُوا شَهْرُ رَمَضان‏”۔ (معاني الأخبار، النص، ص: 315)
یہ نہ کہا کرو کہ یہ رمضان ہے اور رمضان گیا اور رمضان آیا۔ اس لئے کہ رمضان اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور خداوند عالم کہیں آتا جاتا نہیں ہے لہذا کہا کرو ماہ رمضان۔
ماہ رمضان اور خطبہ شعبانیہ
ماہ رمضان المبارک اپنے آپ کو برائیوں اور گناہوں سے پاک کرنے، فضائل و کمالات سے آراستہ ہونے اور رب کریم سے قرب کا ایک بہترین اورمناسب موقع ہے لیکن اس فرصت اور موقع سے صحیح اور مکمل استفادہ کرنا اسی وقت میسر ہے جب انسان اس مہینہ کی عظمت و فضیلت، اس کے احکام و اعمال واجبات و محرمات سے باخبر ہو۔
اس سلسلہ کا ایک عظیم الشان منبع و ماخذ خطبۂ شعبانیہ ہے جس میں ان تمام چیزوں کو بطور احسن بیان کیا گیا ہے۔ انسان اس میں غور و فکر کے ذریعہ مذکورہ امور کی معرفت اور شناخت پیدا کر سکتا ہے۔ اس خطبہ کو رسول اکرم حضرت محمد مصطفےٰ نے ماہ شعبان کے آخری دنوں میں مسلمانوں کے سامنے ارشاد فرمایا ہے ۔
اس خطبہ کو شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ’’اخبار عیون الرضا علیہ السلام ‘‘ میں نقل کیا ہے۔ امام علی رضا علیہ السلام نے اپنے آبائے طاہرین سے انھوں نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے اور آپ ؑ نے رسول اکرمﷺ سے نقل فرمایا ہے۔
خطبہ شعبانیہ کے اہم مطالب میں فضائل ماہ رمضان المبارک، اعمال ماہ رمضان المبارک،تقویٰ و پرہیز گاری اور حضرت علی علیہ السلام کا تعارف شامل ہے۔
فضائل ماہ رمضان المبارک میں اس خطبہ کے شروع میں رسول اکرم ﷺنے مومنین کو ماہ رمضان کی آمد کی خوشخبری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: َ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ قَدْ أَقْبَلَ إِلَيْكُمْ‏ شَهْرُ اللَّهِ‏ بِالْبَرَكَةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ
اے لوگو! ماہ خدا تمہاری طرف برکت، رحمت اور مغفرت کے ساتھ آ گیا ہے۔‘‘ آپ ﷺ نے اس مہینہ کو شہراللہ یعنی خدا کا مہنیہ کہا ہے، اگرچہ سارےمہینے خدا ہی کے مہینے ہیں لیکن چونکہ ماہ رمضان کو ایک خاص شرف و فضیلت حاصل ہے اور اس مہینہ میں خدا سے نزدیک ہونے اور عبودیت و اخلاص کے زیور سے آراستہ ہونے کے تمامتر مواقع فراہم ہوتے ہیں اسی لئے روایات میں اس مہینہ کو شہراللہ کہا گیا ہے۔
فضیلت کی بلندی
رسول اعظم ﷺنے ارشاد فرمایا: ِ شَهْرٌ هُوَ عِنْدَ اللَّهِ أَفْضَلُ الشُّهُورِ وَ أَيَّامُهُ أَفْضَلُ الْأَيَّامِ وَ لَيَالِيهِ أَفْضَلُ اللَّيَالِي وَ سَاعَاتُهُ أَفْضَلُ السَّاعَات‏
’’یہ مہینہ خدا کے نزدیک سب سے برتر اور بافضلیت مہینہ ہے، اس کے دن سب سے افضل دن، اس کی راتیں سب سے افضل راتیں اور اس کے اوقات و ساعات سب سے افضل اوقات و ساعات ہیں۔ ‘‘اس کے بعد آپ ﷺنے ایک بہت اہم بات بیان فرمائی کہ اس مہینہ میں مومنین کو خدا کی مہمانی کی دعوت دی گئی ہے اور انھیں کرامت الٰہی کا اہل قرار دیا گیا ہے: شَهْرٌ هُوَ عِنْدَ اللَّهِ أَفْضَلُ الشُّهُورِ وَ أَيَّامُهُ أَفْضَلُ الْأَيَّامِ وَ لَيَالِيهِ أَفْضَلُ اللَّيَالِي وَ سَاعَاتُهُ أَفْضَلُ السَّاعَات‏
یہ ماہ رمضان المبارک کی سب سے برتر اور بالاتر فضیلت ہے اسلئے کہ ایک کریم صاحب خانہ اپنے مہمانوں کی بطور احسن مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی حاجتوں کو روا کرتا ہے۔
نبی کریمﷺ نے اس بے نظیر مہمان نوازی کے بعض جلووں کو اس طرح بیان فرمایا ہے:
1۔ ماہ رمضان میں انسان کی اطاعت و عبادت کے علاوہ اس کے روزمرہ کے غیر اختیاری امور کو بھی عبادت کا درجہ دیا جاتا ہے اور ان پر ثواب لکھا جاتا ہے۔ اس مبارک مہینہ میں مومنین کی سانسوں کو تسبیح اور نیند کو عبادت کا ثواب دیا جاتا ہے ِ: أَنْفَاسُكُمْ فِيهِ تَسْبِيحٌ وَ نَوْمُكُمْ فِيهِ عِبَادَة
2۔ نیک اعمال اسی وقت انسان کے معنوی ارتقائ کا باعث بن سکتے ہیں جب وہ بارگار خداوندی میں قبول کر لئے جائیں لیکن بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اعمال مختلف آفات کی بنا پر شرف قبولیت سے محروم رہ جاتے ہیں، مگر یہ کہ فضل و کرم پروردگار ان کی قبولیت کا باعث بن جائے۔ ماہ رمضان میں یہ فضل و کرم مومنین کے شامل حال ہوتا ہے اور ان کے اعمال مقبول بارگاہ الٰہی قرار پاتے ہیں: وَ عَمَلُكُمْ فِيهِ مَقْبُول‏
3۔ ماہ رمضان میں خداوند عالم اپنے مہمانوں کی حاجتوں کو بر لاتا ہے اور ان کی دعاؤں کو مستجاب کرتا ہےٌ
وَ دُعَاؤُكُمْ فِيهِ مُسْتَجَابٌ
4۔ پروردگار عالم نے ہر نیک عمل کے لئے ایک خاص مقدار میں ثواب معین کر رکھا ہے ۔ لیکن ماہ رمضان میں یہ ثواب کئی گنا ہو جاتے ہیں ۔ نبی اکرمﷺ اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جو شخص اس مہینہ میں کسی مومن روزہ دار کو افطاری دے گا، پروردگار اسے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب دے گا اور اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دے گا ۔ جو شخص اس مہینہ میں ایک واجبی نماز ادا کرے گا خدا وندعالم اسے ستر واجبی نمازوں کا ثواب عطا فرمائے گا اور جو شخص ایک آیت قرآن کی تلاوت کرے گا اسے ایک قرآن ختم کرنے کا ثواب دے گا۔ أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ فَطَّرَ مِنْكُمْ صَائِماً مُؤْمِناً فِي هَذَا الشَّهْرِ كَانَ لَهُ بِذَلِكَ عِنْدَ اللَّهِ عِتْقُ نَسَمَةٍ وَ مَغْفِرَةٌ لِمَا مَضَى مِنْ ذُنُوبِه‏
5۔ ماہ رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے: ِ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ أَبْوَابَ الْجِنَانِ فِي هَذَا الشَّهْرِ مُفَتَّحَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّكُمْ أَنْ لَا يُغَلِّقَهَا عَلَيْكُمْ وَ أَبْوَابَ النِّيرَانِ مُغَلَّقَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّكُمْ أَنْ لَا يُفَتِّحَهَا عَلَيْكُمْ وَ الشَّيَاطِينَ مَغْلُولَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّكُمْ أَنْ لَا يُسَلِّطَهَا اے لوگو اس ماہ میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں پس اللہ سے دعا کرو کہ وہ کبھی تم پر بند نہ کرے اور جہنم کے دروزے بندکر دیے جاتے ہیں پس اللہ سے دعا کرو کہ وہ کبھی تم پر نہ کھولے اور اس ماہ میں شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں پس اللہ سے دعا کرو کہ ان کو تم پر مسلط نہ کرے۔
ماہ رمضان میں کرنے کے کام:
اعمال ماہ رمضان المبارک اگرچہ ماہ رمضان میں تمام انسانوں کو خدائی مہمانی کی دعوت دی گئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب کے سب خدا کے مہمان ہیں بلکہ صرف وہی افراد خدا کے مہمان بن سکتے ہیں جنھوں نے خالص و صحیح نیت اور نیک و پسندیدہ اعمال کے ساتھ اس دعوت الٰہی پر لبیک کہا ہے اور اس عظیم مہمانی میں داخل ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ جس طرح میزبان پر لازم ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کی اچھی طرح مہمان نوازی کرے اسی طرح مہمانوں کے اوپر بھی میزبان کے سلسلہ میں کچھ ذمہ داریاں ہیں کہ ان کا برتاؤ بھی میزبان کے شایان شان ہوں۔ اس مہینے میں روزہ داروں کے حالات، عادات و اطوار اور رفتار و کردار دوسرے مہینوں سے الگ ہوں اور انھیں مندرجہ ذیل اعمال کو مزید اخلاص اور توجہ کے ساتھ انجام دینا چاہئے:
1۔ تلاوت قرآن کریم
اس خطبہ میں رسول اعظم نے حکم روزہ کے بعد جس چیز کی زیادہ تاکید فرمائی ہے وہ تلاوت قرآن کریم ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا: وَ مَنْ تَلَا فِيهِ آيَةً مِنَ الْقُرْآنِ كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِي غَيْرِهِ مِنَ الشُّهُور
جس نے اس مہینے میں ایک آیت قرآن کی تلاوت کی اس کے لیےباقی مہینوں میں کیے گئے ایک ختم قرآن کے برابر اجر ہے۔
ماہ رمضان میں قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی آیات میں تدبر و تفکر کو ایک خاص اہمیت اور فضیلت حاصل ہے، اس لئے کہ یہ مہینہ نزول قرآن کا مہینہ ہے اور شاید ماہ رمضان کی فضیلت کا ایک اہم سبب یہی ہے کہ اس مہینہ میں قرآن نازل ہوا ہے جیسا کہ پروردگار نے ارشاد فرمایا: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی ٲُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِنْاالْہُدَی وَالْفُرْقَان۔سورۂ بقرہ،آیت581
’’ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں۔‘‘
اگرچہ اس مہینہ میں تلاوت قرآن کا بہت ثواب ہے لیکن تلاوت ،اس کتاب سے استفادہ کا پہلا اور ادنیٰ مرحلہ ہے۔ مومنین کو صرف اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ انھیں اس بات کی پوری کوشش کرنا چاہئے کہ قرآنی مفاہیم و تعلیمات سے زیادہ سے زیادہ روشناس ہوں اور اس میں تدبر کر کے قرآنی احکام و تعلیمات کو اپنی زندگی میں جاری کریں اور اس کی نورانی آیات پر عمل کر کے اپنی دنیاوی اور اخروی زندگی کو منور کریں۔ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:
وَ مَنْ جَعَلَهُ أَمَامَهُ‏ قَادَهُ‏ إِلَى الْجَنَّةِ وَ مَنْ جَعَلَهُ خَلْفَهُ سَاقَهُ إِلَى النَّار (الکافی، ج۲،ص۵۹۹)
’’ جو شخص قرآن کو آگے رکھے گا اور زندگی میں اس کی پیروی کرے گا قرآن ، قیامت میں اسے جنت کی طرف رہنمائی کرے گا اور جو قرآن کو پس پشت ڈال دے گا اور اس کے دستورات سے لاپرواہی کرے گا قرآن اسے جہنم میں دھکیل دے گا۔‘‘
۲۔ دوسروں کے ساتھ نیکی
انسان جتنا اپنے معبود سے نزدیک ہو گا اور اس کا رابطہ اپنے رب سے جتنا مضبوط ہو گا وہ اتنا ہی بندگان خدا کے ساتھ مہربان ہو گا اور ان کی حاجتیں پوری کرنے کی کوشش کرے گا۔ رسول اکرمﷺ جو خدا کے سب سے مقرب بندہ ہیں، قرآن نے انھیں عالمین کے لئے رحمت قرار دیا ہے: (سورۂ انبیا، آیت711) اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا: مَنْ أَصْبَحَ لَا يَهْتَمُّ بِأُمُورِ الْمُسْلِمِينَ‏ فَلَيْسَ مِنْهُم‏ کہ جس نے اس حال میں صبح کی کہ وہ مسلمانوں کے امور سے آگاہ نہ ہو تو وہ مسلم نہیں ہے۔
لہٰذا اسلام میں ایسی گوشہ نشینی جائز نہیں جو دیگر مسلمانوں کے امور سے بے توجہی اور لاپرواہی کا سبب بنے۔
رسول اکرمﷺ نے اس خطبہ میں دوسروں کے ساتھ نیکی اور احسان کے مختلف مصادیق کی طرف توجہ اور تاکید فرمائی ہے؛ جیسے فقرا و مساکین کی مالی امداد، بڑوں کا احترام و اکرام اور چھوٹوں کے ساتھ مہربانی، رشتہ داروں سے صلہ رحم، یتیموں کے ساتھ شفقت و مہربانی، مومن روزہ دارکو افطاری دینا اور دوسروں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا: ُ وَ تَصَدَّقُوا عَلَى فُقَرَائِكُمْ وَ مَسَاكِينِكُمْ وَ وَقِّرُوا كِبَارَكُمْ وَ ارْحَمُوا صِغَارَكُمْ وَ صِلُوا أَرْحَامَكُمْ وَ احْفَظُوا أَلْسِنَتَكُمْ وَ غُضُّوا عَمَّا لَا يَحِلُّ النَّظَرُ إِلَيْهِ أَبْصَارَكُمْ وَ عَمَّا لَا يَحِلُّ الِاسْتِمَاعُ إِلَيْهِ أَسْمَاعَكُمْ وَ تَحَنَّنُوا عَلَى أَيْتَامِ النَّاسِ يُتَحَنَّنْ عَلَى أَيْتَامِكُم‏
اور اپنے غریبوں کو صدقہ دو ،بڑوں کا احترام کرو اور چھوٹوں پر رحم کرو اور رشتہ داروں سے تعلق جوڑو اور اپنی زبانوں کی حفاظت کرو اور جن چیزوں کی طرف دیکھنا حلال نہیں ان سے نظریں پھیر لو اور جن چیزوں کا سننا حلال نہیں ان سے کانوں کو پھیر لو اور لوگوں کے یتیموں کے ساتھ شفقت کرو تاکہ تمہارے یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔
۳۔ خدا اور اولیائے خدا سے قریبی رابطہ
ماہ رمضان، پروردگار اور خاصان و مقربان درگار الٰہی سے قریب ہونے اور ان سے رابطہ کو مضبوط و مستحکم کرنے کا بہترین موقع ہے۔ رسول خدا نے اس خطبہ میں مومنین کو توبہ و استغفار کی دعوت دی ہے تاکہ وہ گذشتہ گناہوں سے پاک و پاکیزہ ہو کر خدا سے رابطہ برقرار کر سکیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وَ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ مِنْ ذُنُوبِكُم‏۔۔۔إِنَّ أَنْفُسَكُمْ مَرْهُونَةٌ بِأَعْمَالِكُمْ فَكُفُّوهَا بِاسْتِغْفَارِكُمْ وَ ظُهُورُكُمْ ثَقِيلَةٌ مِنْ أَوْزَارِكُمْ فَخَفِّفُوا عَنْهَا بِطُولِ سُجُودِكُم‏ وَ مَنْ تَطَوَّعَ فِيهِ‏بِصَلَاةٍ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بَرَاءَةً مِنَ النَّار
بارگاہ خدا میں اپنے گناہوں سے توبہ کرو۔ تمہاری جانیں تمہارے اعمال کی قیدی ہیں انھیں استغفار کے ذریعہ آزاد کراؤ۔ تمہاری پیٹھ گناہوں کے بوجھ سے سنگین ہو گئی ہیں انھیں طولانی سجدوں کے ذریعہ ہلکا کرو… جو شخص بھی اس مہینہ میں نماز فافلہ ادا کرے گا خدا اس کے لئے آتش جہنم سے برائت نامہ لکھ دے گا۔
نیز رسول اعظمﷺ اور ہادی امت سے اپنا رابطہ مضبوط و مستحکم رکھنے اور اس رابطہ کی برکتوں سے بہرہ مند ہونے کے لئے آپ نے صاحبان ایمان کو اپنے اوپر زیادہ سے زیادہ درود و صلوات بھیجنے کی تاکید و ترغیب فرمائی: ِ وَ مَنْ أَكْثَرَ فِيهِ مِنَ الصَّلَوَاتِ عَلَيَّ ثَقَّلَ اللَّهُ مِيزَانَهُ يَوْمَ تَخِفُّ الْمَوَازِين‏
جو شخص اس مہینے میں میرے اوپر زیادہ سے زیادہ صلوات بھیجے گا خداوند عالم اس کے میزان اعمال کو اس دن سنگین کر دے گا جب بہت سے لوگوں کے میزان اعمال کم ہوں گے۔
پس ضروری ہے کہ ماہ رمضان میں انسان زیادہ سے زیادہ آخرت کے لیے ذخیرہ تیار کرےتلاوت قرآن،قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنا ،تدبر قرآن کی عادت اپنائے۔ اسی طرح اپنے اردگرد موجود انسانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے، اپنے گھر والوں اور اہل علاقہ کے ساتھ حسن اخلاق اور حسن کردار کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اپنا کردار سنوارے اپنا اخلاق اچھا بنائے ، لوگوں کے لیے افطاری کا انتظام کرےاور اسی طرح اپنے مرحومین کے لیے بھی نیک اعمال انجام دیتا رہے۔

خطبہ شعبانیہ کے حوالہ جات:
(الأمالي( للصدوق)، النص، ص: 93، عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج‏1، ص: 295، إقبال الأعمال (ط – القديمة)، ج‏1، ص: 2، وسائل الشيعة، ج‏10، ص: 313،بحار الأنوار (ط – بيروت)، ج‏93، ص: 356)

فقہی مسائل
ماہ رمضان میں عام طور پر جو مسائل پیش آتے ہیں اور سوال پوچھے جاتے ہیں ان میں سے چند احکام یہاں بیان کیے جارہے ہیں:
٭ جو شخص کسی شرعی عذر کے بغیر جان بوجھ کر روزہ نہ رکھے یا اپنا روزہ توڑ دے تو اس پر قضا اور کفارہ دونوں واجب ہوجاتے ہیں۔روز کا کفارہ ایک غلام آزاد کرنا یا ساٹھ روزے مسلسل رکھنا یا ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلانا ہے۔
٭ اگر روزہ دار غلطی سے کوئی چیز کھا لے یا پی لے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوتا۔
٭ انجکش یا ٹیکہ لگوانے سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔
٭ اگر روزہ دار دانتوں کی ریخوں میں پھنسی ہوئی کوئی چیز جان بوجھ کر نگل لے تو اس کا روزہ باطل ہوجاتا ہے۔
٭ منہ کا پانی نگلنے سے روزہ باطل نہیں ہوتا خواہ ترشی وغیرہ کے تصور سے ہی منہ میں پانی بھر آیا ہو۔
٭ سر اور سینے کا بلغم جب تک منہ کے اندر والے حصے تک نہ پہنچے اسے نگلنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر وہ منہ میں آجائے تو احتیاط واجب کے طور پر ضروری ہے کہ اسے تھوک دے۔
٭ احتیاط واجب کی بناء پر ضروری ہے کہ روزہ دار سگریٹ اور تمباکو وغیرہ کا دھواں بھی حلق تک نہ پہنچائے۔
٭ اگر روزہ دار جان بوجھ کر قے (الٹی)کرے تو اگرچہ وہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہو اس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے لیکن اگر سہواً یا بے اختیار ہو کر قے کرے تو کوئی حرج نہیں۔
٭ اگر روزہ دار ڈکار لے اور کوئی چیز اس کے حلق یا منہ میں آجائے تو ضروری ہے کہ اسےباہر اگل دے اور اگر وہ چیز بے اختیار پیٹ میں چلی جائے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
٭ روزہ دار کا آنکھ میں دوا ڈالنا اور سرمہ لگانا جب کہ اس کا مزہ یا بو حلق میں پہنچے یہ مکروہ ہے۔(توضیح المسائل آیۃ اللہ سیستانی مد ظلہ)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button