خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:263)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 16 اگست 2024ء بمطابق 10 صفر المظفر 1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: قرآن میں حضرت لقمانؑ کی حکیمانہ نصیحتیں (2)
گزشتہ خطبے میں ہم نے تمہیدی گفتگو کے بعد حضرت لقمان کی پہلی حکمت و نصیحت بیان کی تھی جس میں فرمایا:
وَإِذۡ قَالَ لُقۡمَٰنُ لِابۡنِهِۦ وَهُوَ يَعِظُهُۥ يَٰبُنَيَّ لَا تُشۡرِكۡ بِاللّٰهِۖ إِنَّ الشِّرۡكَ لَظُلۡمٌ عَظِيم
اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے بیٹا! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
آج کی گفتگو میں ہم حضرت لقمان کی دوسری حکمت و نصیحت پر گفتگو کرتے ہیں جس میں انہوں نے فرمایا:
يا بُنَيَّ إِنَّها إِنْ تَكُ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ في‏ صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّماواتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللّٰهُ إِنَّ اللّٰهَ لَطيفٌ خَبيرٌ (سورہ لقمان آیۃ: 16)
اے میرے بیٹے! اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی (اچھی یا بری) چیز کسی پتھر کے اندر یا آسمانوں میں یا زمین میں ہو تو اللہ اسے یقینا نکال لائے گا یقینا اللہ بڑا باریک بین، خوب باخبر ہے۔
اس آیت میں دو اہم مطلب بیان ہو‏‏‏ئے ہیں:
1۔ خداوند متعال کی قدرت کی وسعت اور اس کا تمام جہان پر احاطہ جوکہ خداشناسی میں سے ہے اورخدا کے نظام اور حساب کتاب کو بیان کرتی ہے ۔
2۔ اور خود انسان کے حساب وکتاب کا مسئلہ: یعنی انسان کو خود اپنے اعمال کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور اپنے اعمال کا خود حساب و کتاب کریں اور اپنی کردار و رفتار کو خدا کے احکام کے ساتھ ہم آہنگ کریں اور ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ دنیا اور آخر ت دونوں میں انسان سے سخت حساب ہونا ہے۔ ایک دن اس کو حساب وکتاب کے میزان پر کھڑ ا ہونا پڑے گا اور اپنے کیے ہو‏‏‏ئے اعمال کا نتیجہ اس دنیا میں یا آخرت میں ملنا ہے۔
اس آیت میں خردل کی مثال دی ‏گئی ہے اس سے مرادجڑی بوٹی ہے جسے رائی کہتے ہیں کہ جس کے کالے کالے اور چھوٹے چھوٹے دانے ہوتے ہیں جو مصالحوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں اس آیت میں اس کی مثال دینے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اعمال اگرچہ اس خردل کے مانند چھوٹی ہی کیوں نہ ہوں اس کا بھی حساب ہو گا۔
خداوند عالم کے حساب کا میزان اس طرح سے ہے کہ اگر انسان کے اعمال میں سے ذرہ بھی کسی پتھر کے اندر چھپا ہو‏‏‏ا ہو خدا اس کو بھی اپنے میزان حساب میں حاضر کردے گا۔
حساب و کتاب سے متعلق دیگر قرآنی آیات:
علم خداکی وسعت اور حساب و کتاب کے بارے میں قرآن مجید کی دوسری آیات میں بھی بیان ہوا ہے۔ انہی میں سے ایک سورہ سباء آیت 3 میں یوں بیان ہوا ہے :
لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ فِي السَّماواتِ وَ لا فِي الْأَرْضِ وَ لا أَصْغَرُ مِنْ ذلِكَ وَ لا أَكْبَرُ إِلاَّ في‏ كِتابٍ مُبين‏
آسمانوں اور زمین میں ذرہ برابر بھی (کوئی چیز) اس سے پوشیدہ نہیں ہے اور نہ ذرے سے چھوٹی چیز اور نہ اس سے بڑی مگر یہ کہ سب کچھ کتاب مبین میں ثبت ہے۔
قرآن مجید میں لفظ” حساب” مختلف شکلوں میں تقریبا 47 مرتبہ ذکر ہوا ہے انہی میں سے آٹھ آیتوں میں” سریع الحساب” کا لفظ ذکر ہوا ہے یعنی خداوند عالم بہت تیزی سے حساب لینے والا ہے۔ اس کے حساب میں سستی یا دیر کا تصور نہیں ہے۔ اور اسی طرح سے پانچ آیتوں میں قیامت کے دن کو "یوم الحساب” کہا گیا ہے جو قیامت کے مشہور ترین ناموں میں سے ہے۔
اور اصل میں قیامت اس لئے ہے کہ سورہ انبیاء آیت 47 میں ارشاد ہوا:
وَ نَضَعُ الْمَوازينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيامَةِ فَلا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئاً وَ إِنْ كانَ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنا بِها وَ كَفى‏ بِنا حاسِبين
اور ہم قیامت کے دن عدل کا ترازو قائم کریں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا اور اگر رائی کے دانے برابر بھی (کسی کا عمل) ہوا تو ہم اسے اس کے لیے حاضر کر دیں گے اور حساب کرنے کے لیے ہم ہی کافی ہیں۔
حساب و کتاب سے متعلق احادیث:
پیغمبر اسلام اور ا‏‏‏ئمہ معصومین کی روایات میں حساب و کتاب کے بارے میں بہت ساری روایات نقل ہو‏‏‏ئی ہیں جن میں سے کچھ ہم بیان کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
حَاسِبُوا أَنْفُسَكُمْ‏ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا(بحارالانوار، ج‏70، ص‏73)
اس سے پہلے کہ تم سے حساب لیا جا‏‏‏ئے اپنا حساب وکتاب کرو ۔
امام علی علیہ السلام نے فرمایا :
قَيِّدُوا أَنْفُسَكُمْ‏ بِالْمُحَاسَبَة
حساب و کتاب کے ذریعے سے اپنے اوپر کنٹرول کرو ۔ (غرر الحکم، میزان الحکمۃ)
نیز نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
أَكْيَسُ‏ الْكَيِّسِينَ‏ مَنْ حَاسَبَ نَفْسَهُ،
چالاک ترین انسان وہ ہے جو اپنا حساب و کتاب خود کرتاہے۔(بحار، ج‏70، ص‏70)
اور امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
حَقٌ‏ عَلَى‏ كُلِ‏ مُسْلِمٍ‏ يَعْرِفُنَا أَنْ يَعْرِضَ عَمَلَهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَ لَيْلَةٍ عَلَى نَفْسِهِ فَيَكُونَ مُحَاسِبَ نَفْسِهِ
ہر وہ مسلمان جو ہماری معرفت رکھتا ہے اور ہماری امامت کو قبول کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ ہر صبح و شام اپنا حساب و کتاب کرے
فَإِنْ رَأَى حَسَنَةً اسْتَزَادَ مِنْهَا وَ إِنْ رَأَى سَيِّئَةً اسْتَغْفَرَ مِنْهَا لِئَلَّا يَخْزَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ 
اگر اپنے اعمال میں نیکی پا‏‏‏ئے تو اس میں مزید اضافہ کرنے کی کوشش کرے اور اگر اپنے اعمال میں گناہ پا‏‏‏ئے تو استغفار اور توبہ کیا کرے تاکہ کل قیامت کے دن رسوا نہ ہو جا‏‏‏ئے۔(بحار، ج‏78، ص‏279)
روایات میں جو مختلف مسا‏‏‏ئل ذکر ہو‏‏‏ئے ہیں ان میں سے ایک مسئلہ انسان کے اعمال کا پیغمبر اسلام اور ا‏‏‏ئمہ معصومین کے سامنے پیش ہونے کا ہے اور یہ موضوع بھی اسی حساب و کتاب کو بیان کرتا ہے اس طرح سے کہ پورے ہفتے میں ہمارے اعمال کئی مرتبہ پیغمبر اور ا‏‏‏ئمہ معصومین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اسی موضوع کے بارےمیں اصول کافی میں تقریبا چھ روایتیں آ‏‏‏ئی ہیں انہی میں سے پہلی روایت امام صادق سے نقل ہو‏‏‏ئی ہے:
تُعْرَضُ‏ الْأَعْمَالُ‏ عَلَى‏ رَسُولِ‏ اللّٰهِ‏ ص أَعْمَالُ الْعِبَادِ كُلَّ صَبَاحٍ أَبْرَارُهَا وَ فُجَّارُهَا فَاحْذَرُوهَا
نیکو کار اور فاسق لوگوں کے اعمال ہر صبح اور شام کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش ہوتے ہیں لہذا اپنے برے کردار سے بچو۔
اور یہ بات حق ہے کیونکہ قرآن میں نبی کریم ﷺ کو گواہ کہا گیا ہے اور گواہی وہی دے سکتا ہے جس نے عمل ہوتا ہوا دیکھا ہو اور رسول خدا ﷺ ہمارے اعمال دیکھتے ہیں اس پر قرآن مجید کی سورہ توبہ کی آیت 105 میں واضح کہا گیا ہے کہ:
وَقُلِ اعۡمَلُواْ فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمۡ وَرَسُولُهُۥ وَالۡمُؤۡمِنُونَۖ وَسَتُرَدُّونَ إِلَىٰ عَٰلِمِ الۡغَيۡبِ وَالشَّهَٰدَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمۡ تَعۡمَلُونَ
اور کہدیجیے: لوگو! عمل کرو کہ تمہارے عمل کو عنقریب اللہ اور اس کا رسول اور مومنین دیکھیں گے اور پھر جلد ہی تمہیں غیب و شہود کے جاننے والے کی طرف پلٹا دیا جائے گا پھر وہ تمہیں بتا د ے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔
اور اسی طرح اعمال کے ا‏‏‏ئمہ معصومین کے سامنے پیش ہونے کے بارےمیں بھی کئی روایات ذکر ہو‏‏‏ئیں ہیں۔

محاسبہ کرنے کی تلقین:
احادیث میں انسان کو روزانہ خود اپنا محاسبہ یعنی حساب کتاب کرنے کی تلقین کی گئی ہے،اس طرح کہ صبح ہو تو وہ اپنے آپ کے ساتھ طے کرے کہ آج کوئی گناہ نہیں کروں گا اور پھر سارا دن اس کی پابندی کی کوشش کرے اور رات کو سونے سے پہلے دن کے سب اعمال کا حساب کرے اگر ان میں کوئی نیکی ہو تو اس پر شکر کرے اور اس میں اضافے کی کوشش کرے اور اگر کوئی گناہ ہو تو اس پر اللہ سے مغفرت کرے اور آئندہ وہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرے۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
ثَمَرَةُ الْمُحَاسَبَةِ إِصْلَاحُ النَّفْسِ.
محاسبہ کرنے کا نتیجہ انسان کی روح اور نفس کی اصلاح ہے۔ (میزان الحكمة ، ج‏2، ص‏409)
دواصلاحی واقعے:
پہلا واقعہ:
شیخ عباس قمی نے شیخ بہا‏‏‏‏‏‏ئی سے نقل کیا ہے کہ ” ثوبہ بن صمۃ ” نام کا ایک شخص ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتا تھا وہ ایک دن اپنا محاسبہ کرتے ہو‏‏‏ئے کہنے لگا کہ ساٹھ سال کی عمر گزر گئی جو اکیس ہزار پانچسو دن بن جاتے ہیں اگر میں ہر دن ایک گناہ انجام دیتا تو میرے اکیس ہزار پانچسو گناہ بن جاتے اور اس وقت میں خدا کو کیا جواب دیتا لہذا وہ اپنے اس حساب کتاب سے غمگین ہو کر زمین پر گر جاتے ہیں اور اسی حالت میں ہی اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔( سفینة البحار، ج‏1، ص‏488)

دوسرا واقعہ:
اسی طرح سے نقل کرتے ہیں کہ ” احمد بن ابی الجواری”  جو کہ پرہیز گاری میں بہت ہی مشہور و معروف تھے۔اس کا ایک استاد "ابو سلیمان دارانی” تھا اس کے مرنے کے ایک سال بعد اسکو خواب میں دیکھا اور احوال پرسی کرنے کے بعد اس سے کہنے لگا اے استاد آپ کے مرنے کے بعد خداوند عالم نے آپ سے کیسا سلوک کیا؟ تو ابو سلیمان نے اس کے جواب میں کہا اے احمد ! میں ایک دن دمشق میں باب الصغیر کے کنارے سے گزر رہا تھا ایک بوڑ ھے کو دیکھا جو اونٹ پر لکڑیاں لادھے ہوا تھا میں نے اس کے اونٹ سے لکڑی کا ایک چھوٹا سا تنکا اٹھایا لیکن ابھی مجھے معلوم نہیں کہ میں نے اس کو خلال کے طور پر استعمال کیا تھا یا اسے پھینک دیا تھا؟ جب سے میں مرا ہوں ابھی تک اسی عذاب میں گرفتار ہوں کہ میں نے اجازت کے بغیر وہ لکڑی کیوں اٹھا‏‏‏ئی؟ اور میں ابھی اسی کا حساب دے رہا ہوں۔ (سفینة البحار ، ص‏250)
اس عجیب واقعہ کونقل کرنے کے بعد محدث قمی فرماتے ہیں قرآن مجید کی آیات اس واقعہ کی تصدیق کرتی ہیں جیسا کہ خداوند متعال نے حضرت لقمان کے قول کونقل کرتے ہو‏‏‏ئے فرمایا (اور یہی آیت آج ہمارا موضوع ہے):
يا بُنَيَّ إِنَّها إِنْ تَكُ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ في‏ صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّماواتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللّٰهُ إِنَّ اللّٰهَ لَطيفٌ خَبيرٌ
اے میرے بیٹے! اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی (اچھی یا بری) چیز کسی پتھر کے اندر یا آسمانوں میں یا زمین میں ہو تو اللہ اسے یقینا نکال لائے گا یقینا اللہ بڑا باریک بین، خوب باخبر ہے۔
اس بات کی تصدیق امام جعفر صادقؑ  کا یہ قول کرتا ہے کہ فرمایا:
اتَّقُوا الْمُحَقَّرَاتِ‏ مِنَ الذُّنُوبِ فَإِنَّهَا لَا تُغْفَر; چھوٹے چھوٹے گناہوں سے پرہیز کرو اور ان کو کبھی بھی چھوٹا نہیں سمجھو کیونکہ (ان کے انجام دینے والے جب تک توبہ نہیں کریں گے) بخشے نہیں جائیں گے۔
امام علیہ السلام کے ایک شاگرد ” زید بن شحام”  کا کہنا ہے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا چھوٹے گناہ سے مراد کیا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا:
الرَّجُلُ‏ يُذْنِبُ‏ الذَّنْبَ‏ فَيَقُولُ طُوبَى لِي لَوْ لَمْ يَكُنْ لِي غَيْرُ ذَلِكَ
ایک شخص گناہ انجام دے اور اس پر فخر کرے کہ میرا صرف اسی کے علاوہ کو‏‏‏ئی اور گناہ نہیں ہے۔( صول كافی، ج‏2، ص‏287)
رسول اللہ ﷺ کا اصحاب کو حساب کتاب مثال سے سمجھانا:
امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اسلام اپنے شاگردوں اور مسلمانوں کو حساب و کتاب سمجھانے کے لئے ایک دن اپنے اصحاب کے ساتھ کسی سفرپر گئے اور جب ایک صحرا میں ٹھہرنے لگے تو پیغمبر اسلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ جاکر کو‏‏‏ئی لکڑیاں جمع کرو تاکہ کھانے کا بندوبست کریں تو اصحاب نے کہا یا رسول اللہ اس صحرا و بیابان میں کہاں سے لکڑی آ‏‏‏ئے گی؟ تو پیغمبر نے کہا جو ملے وہ لے کر آو تو اصحاب چلے گئے اور لکڑیاں لے کر آ‏‏‏ئے اور جب ان سب کو جمع کیا تو لکڑیوں کا ایک ڈھیر بن گیا تو پبغمبر نے اصحاب کو کہا:
هَكَذَا تَجْتَمِعُ‏ الذُّنُوب‏; انسان کے گناہ بھی اسی طرح سے جمع ہو جا‏‏‏ئیں گے۔
اس کے بعد فرمایا کہ ایسے چھوٹے چھوٹے گناہ جو آپ کی نظر میں بہت ہی حقیر اور چھوٹے ہیں ان سے بچو ! چونکہ ان چھوٹے گناہوں کا بھی حساب ہے اور جب یہ جمع ہونگے تو گناہوں کا ایک ڈھیر بن جا‏‏‏ئے گا۔(اصول کافی ، ص‏288)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان حکمتوں اور نصیحتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button