سلائیڈرسیرتسیرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ

قوموں کے عروج و زوال کے اسباب امیر المومنین علیہ السلام کی نگاہ میں

مقالہ نگار: یونس حکیمی

چکیدہ
یوں تو اللہ نے ہر قوم کے لیے عروج و زوال رکھا ہے اگر دنیا میں دیکھا جائے تو بعض قومیں ایک وقت میں سب سے اعلیٰ و ارفع مانا جاتا تھا لیکن انہی قوموں پر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ ان کو سب سے پست و ذلیل شمار کیا جاتا ہے اسی طرح ایک قوم جن کو سب سے کمزور وضعیف اور ذلیل شمار کیا جاتا تھا وہی قوم ایک وقت میں سب سے باکمال و ترقی یافتہ قوم بن جاتی ہے یہ نشیب و فراز بے جا نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے اسباب و عوامل پوشیدہ ہوتے ہیں جن کی بنا ء پر قومیں عروج و زوال کے منازل سے گزرتی ہے جیسا کہ اسبابِ زوال جہالت، رہبر الٰہی کی نافرمانی، فرقہ بندی، ترک امر بالمعروف، ظلم وجور، معاشی بدحالی، ترک جہاد اورخیانت ہے اسی طرح وہ اسباب جن کی بنا ءپر قومیں عروج کی طرف گامزن ہوتی ہیں تعلیم و تربیت کا شعور، رہبر کی فرمانبرداری، قانون الہٰی کی حکمرانی، باہمی اتفاق اتحاداور عدل و انصاف ہے اگر چہ ان کے علاوہ بہت سارے علل و اسباب ہیں لیکن ہم نے اس مقالے کے حجم کو مد نظر رکھتے ہوئے چند مہم اسباب کو قلمبند کرنے کی کوشش کی ہے۔
کلیدی ا لفاظ: عروج ،زوال، قوم، اسباب
مقدمہ
اللہ تعالیٰ نے کائنات کو خلق فرمانے کے بعد انسان کی زندگی کے لیے کچھ قوانین مقرر فرمائے کہ جن سے فرار ممکن نہیں ہے اور یہ ضابطے اورقوانین افراد سے لے کرخاندانوں، ملکوں،تہذیبوں، حکومتوں اور قوموں تک کے عرو ج وزوال کو شامل ہیں۔
اقوام کاعروج وزوال کس بناء پر ہوتا ہے؟ تہذیب وثقافت کیسے بنتی اور بگڑتی ہے؟سلطنتیں اور حکومتیں کس طرح تاریخ کے نشیب و فراز میں گرفتار ہوتی ہیں؟تاریخ کا مطالعہ حقیقت میں انہی سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ اقوام عالم کے عروج وزوال کی داستانیں تاریخ کے اوراق میں جابجا موجود ہیں۔جن کا تنقیدی اور تحقیقی مطالعہ سے سنن الٰہی کے وہ سنہرے اصول ہمارے ہاتھ لگ سکتے ہیں جواقوام کے عروج وزوال کا سبب بنے ہیں۔چونکہ ہمارا موضوع مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب ؑ سے مربوط ہے اس لئے مولائے کائنات کے کلام میں قوموں کے عروج وزوال کے اسباب سے بحث کریں گے۔یوں تو مولائے کائنات کے کلام میں جابجا اقوام عالم کے عروج و زوال کے بارے میں مطالب بیان ہوئے ہیں لیکن ہم اپنے مقالہ کی گنجائش کو مدنظررکھتے ہوئے چند اسباب کو قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے۔
موضوع میں موجود الفاظ کا تعارف
۱۔قوم سے مراد: قوم اسم جمع ہے۔ قوم کے معنی: انسانوں کا ایک گروہ جو اپنی مخصوص فکر و رسم ورواج یا فرھنگ رکھتی ہو یا انسانوں کا فقط ایک گروہ۔
۲۔عروج۔ یعنی بلندی، پستی سے بلندی کی طرف سفر کرنا۔
۳۔ زوال،، زوال کے معنی ذلت، پستی، یا اپنے مقام و عزت وآبرو کا کھو دینا ہے۔
۴۔ اسباب، اسباب سبب کی جمع ہے سبب کا معنی وجہ اور علت کے ہیں۔
قوموں کے زوال کے اسباب
۱۔ جہالت
قوموں کی پسماندگی اور زوال کا ایک بنیادی سبب جہل اور نادانی ہے۔ قوموں کے زوال میں جہالت کا بہت بڑا کردار ہے۔ جیسا کہ حضرت امیر المومنین ؑ فرماتے ہیں:
إِذَا أَرْذَلَ اللّٰه عَبْداً حَظَرَ عَلَيْه الْعِلْمَ۔
(مفتی، جعفرحسین، نہج البلاغہ، حکمت نمبر،288،امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور )
ترجمہ” جب پروردگار کسی بندہ کو ذلیل کرنا چاہتا ہے تو اسے علم و دانش سے محروم کردیتا ہے۔
وہ قوم جو جاہل ہو، زیورِ علم سے محروم ہو اور خدا وند عالم نے ان سے علم کو چھینا ہو وہ ہر زمانے میں ذلت کی خوفناک وادی میں پڑے رہیں گے جبتک جہالت کو دور نہ کرے تب تک پستی و زوال کے دلدل سے باہر نہیں نکل سکتی۔ آج اگر یورپ اور امریکہ ترقی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں تو اسی جہالت کو دور کرنے کی وجہ سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور مسلمان دن بہ دن ذلت کی طرف جھکے جارہے ہیں تو اس کی بڑی وجہ ان تعلیمات کو چھوڑ دیا ہے جس کا بڑی شدت کے ساتھ قرآن و روایات میں بیان ہوا ہے۔ جس دین میں ” اطلبوا العلم و لو بالصین’‘ اور” طلب العلم فریضة علی کل مسلم و مسلمة ” جیسی تعالیم موجود ہوں آج اسی کے پیروکار عدم علم کی بنیاد پر خود کو غیر اسلامی دنیا کے سامنے حقیر جا ننے پر مجبور ہیں۔پس وہ قوم نابود و برباد ہوگی جو اپنے اندر موجود جہالت کو دور کرنے کی کوشش نہ کریں۔
۲۔ ظلم وجور
تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ گزشتہ بعض قوموں کو اللہ تعالیٰ نے بالکل تباہ و برباد کیا تھا۔ وہ پست اور حقیر ہوچکے تھے یہ ایسے ہی تباہ وبرباد نہیں ہوئے تھے بلکہ اس کے پیچھے بہت ساری وجوہات کار فرما تھیں۔ ان وجوہات میں سے ایک ان امتوں کے حکماء کا ظلم و جور تھا جو لاچار اور کمزوروں پر روا رکھتے تھے۔ چنانچہ کہاجاتاہے کہ حکومت کی حیات کفر کےساتھ ممکن ہے لیکن ظلم کے ساتھ اس کی بقاء ناممکن ہے۔ امیر المومنین مولا علی علیہ السلام کی نظر میں حکومتوں اور امتوں کے زوال میں سب سے اہم کردار ظلم کا ہے جس کی طرف مولا علی علیہ السلام نے بارہا اشارہ کیا جیسا کہ آپؑ  نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
إِنَّا قَدْ أَصْبَحْنَا فِي دَهْرٍ عَنُودٍ وزَمَنٍ كَنُودٍ يُعَدُّ فِيه الْمُحْسِنُ مُسِيئاً – ويَزْدَادُ الظَّالِمُ فِيه عُتُوّاً لَا نَنْتَفِعُ بِمَا عَلِمْنَا ولَا نَسْأَلُ عَمَّا جَهِلْنَا – ولَا نَتَخَوَّفُ قَارِعَةً حَتَّى تَحُلَّ بِنَا۔
(مفتی، جعفرحسین، نہج البلاغہ، خطبہ 32،امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور )
ترجمہ: اے لوگو! ہم ایک ایسے کج رفتار زمانہ اور ناشکر گزار دنیا میں پیدا ہوئے ہیں کہ جس میں نیکو کار کو خطاء کار سمجھا جاتا ہے اور ظالم اپنی سرکشی میں بڑھتا ہی جاتا ہے۔ جن چیزوں کو ہم جانتے ہیں ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور جن چیزوں کو نہیں جانتے انہیں دریافت نہیں کرتے اور جب تک مصیبت آ نہیں جاتی ہم خطرہ محسوس نہیں کرتے۔
نیز آپ فرماتے ہیں:
”واللّٰه لَوْ وَجَدْتُه قَدْ تُزُوِّجَ بِه النِّسَاءُ ومُلِكَ بِه الإِمَاءُ لَرَدَدْتُه – فَإِنَّ فِي الْعَدْلِ سَعَةً – ومَنْ ضَاقَ عَلَيْه الْعَدْلُ فَالْجَوْرُ عَلَيْه أَضْيَقُ”۔
(مفتی جعفرحسین، نہج البلاغہ،، خطبہ نمبر، 15،امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور)
ترجمہ” خدا کی قسم ! اگر مجھے ایسا مال بھی کہیں نظر آتا جو عورتوں کے مہر اور کنیزوں کی خریداری پر صرف کیاجا چکا ہوتا تو اسے بھی واپس پلٹا لیتاچونکہ عدل کی صورت میں تنگی محسوس ہو اُسے ظلم کی صورت میں اور زیادہ تنگی محسوس ہوگی۔
قرآن کا بھی صاف اعلان ہے:
وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرٰٓى اِلَّا وَاَهْلُهَا ظٰلِمُوْنَ۔
(ترجمہ، بلاغ القرآن، 28۔59)
ترجمہ” اور ہم بستیوں کو تباہ کرنے والے نہیں تھے مگر یہ کہ وہاں کے باشندے ظالم ہوئے۔
قرآن کا واضح بیان کرنا اور مولا علی ؑ کا ظلم سے اظہار برات اور اس کو تنگی محسوس کرنا بتاتا ہے کہ امتوں کی ہلاکت کا اہم سبب ظلم وجور ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ظلم و جور کر کے کامیابی حاصل کی ہے۔ اگر ظلم کے ذریعے کچھ حاصل بھی کی ہے تو یہ وقتی ہیں۔ ظلم کے ذریعے حاصل ہونے والی کسی بھی چیز میں دوام نہیں ہوتا۔ ایک نہ ایک دن خدا ظلم کرنے والے کواس طرح زمین بوس کردیتا ہےکہ جس سے نجات ممکن نہیں ہوگی لہٰذا ظلم وہ بدترین عمل ہے جو افراد سے لے کر قوموں تک کو ذلت و رسوائی کے تاریک ترین گَھڑے میں گرا دیتا ہے۔
۳۔اختلاف و تفرقہ
کسی امت یا قوم و ملت کے زوال کا ایک بنیادی عنصر آپس کا اختلاف اور تفرقہ بندی ہے۔ اسلام میں اتحاد اور اتفاق پر بہت زور دیا گیا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے۔
وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا۔ (ترجمہ، بلاغ القرآن 103-4)
اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔
افسوس یہ ہے کہ آج بھی وہی عمل دہرایا جارہے ہے جو گزشتہ اقوام کی پستی کا سبب بنا اور امام علی ؑ اس عمل سے سختی سے روکتے تھے۔ امام ؑکو اس عمل کی وجہ سے بہت درد ہوا کرتا تھا جیسا کہ امامؑ  اسی درد کے حوالے سے تعجب کرتے ہوئے یوں گویا ہے:  يَا عَجَباً عَجَباً واللّٰه يُمِيتُ الْقَلْبَ ويَجْلِبُ الْهَمَّ – مِنَ اجْتِمَاعِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ عَلَى بَاطِلِهِمْ وتَفَرُّقِكُمْ عَنْ حَقِّكُمْ۔
(مفتی جعفرحسین، نہج البلاغہ،، خطبہ نمبر، 27، امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور)
ترجمہ ” العجب العجب !خداکی قسم! ان لوگوں کا باطل پر ایکا کر لینا اور تمہاری جمعیت کا حق سے منتشر ہو جانا دل کو مردہ کر دیتا ہے اور رنج و اندوہ بڑھا دیتا ہے۔
نیز مولا علیؑ فرماتے ہیں۔
واللّٰه لأَظُنُّ أَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ سَيُدَالُونَ مِنْكُمْ بِاجْتِمَاعِهِمْ عَلَى بَاطِلِهِمْ وتَفَرُّقِكُمْ عَنْ حَقِّكُمْ – وبِمَعْصِيَتِكُمْ إِمَامَكُمْ فِي الْحَقِّ وطَاعَتِهِمْ إِمَامَهُمْ فِي الْبَاطِلِ وبِأَدَائِهِمُ الأَمَانَةَ إِلَى صَاحِبِهِمْ وخِيَانَتِكُمْ وبِصَلَاحِهِمْ فِي بِلَادِهِمْ وفَسَادِكُمْ فَلَوِ ائْتَمَنْتُ أَحَدَكُمْ عَلَى قَعْبٍ لَخَشِيتُ أَنْ يَذْهَبَ بِعِلَاقَتِه۔
(مفتی جعفرحسین، نہج البلاغہ، خطبہ نمبر، 25،امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور)
ترجمہ” بخدا میں تو اب ان لوگوں کے متعلق یہ خیال کرنے لگا ہوں کہ وہ عنقریب سلطنت و دولت کو تم سے ہتھیا لیں گے، اس لئے کہ وہ (مرکز) باطل پر متحد و یکجا ہیں اور تم اپنے (مرکز) حق سے پراگندہ و منتشر۔ تم امرِ حق میں اپنے امام کے نافرمان اور وہ باطل میں بھی اپنے امام کے مطیع و فرمانبردار ہیں۔ وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کے ساتھ امانت داری کے فرض کو پورا کرتے ہیں اور تم خیانت کرنے سے نہیں چوکتے۔ وہ اپنے شہروں میں امن بحال رکھتے ہیں اور تم شورشیں برپا کرتے ہو۔ میں اگر تم میں سے کسی کو لکڑی کے ایک پیالے کا بھی امین بناؤں تو یہ ڈر رہتا ہے کہ وہ اس کے کنڈے کو توڑ کر لے جائے گا۔
امام علی ؑ نیز اسی تفرقہ اور اختلاف کو قوم کی نابودی کا ایک سب سے بڑا عامل قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
فَانْظُرُوا إِلَى مَا صَارُوا إِلَيْه فِي آخِرِ أُمُورِهِمْ – حِينَ وَقَعَتِ الْفُرْقَةُ وتَشَتَّتَتِ الأُلْفَةُ – واخْتَلَفَتِ الْكَلِمَةُ والأَفْئِدَةُ – وتَشَعَّبُوا مُخْتَلِفِينَ وتَفَرَّقُوا مُتَحَارِبِينَ – وقَدْ خَلَعَ اللّٰه عَنْهُمْ لِبَاسَ كَرَامَتِه – وسَلَبَهُمْ غَضَارَةَ نِعْمَتِه – وبَقِيَ قَصَصُ أَخْبَارِهِمْ فِيكُمْ – عِبَراً لِلْمُعْتَبِرِينَ۔
(مفتی جعفرحسین، نہج البلاغہ،، خطبہ نمبر، 192،امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور)
ترجمہ ” اور تصویر کا یہ رخ بھی دیکھو کہ جب ان میں پھوٹ پڑ گئی، یکجہتی درہم و برہم ہو گئی، ان کی باتوں اور دلوں میں اختلافات کے شاخسانے پھوٹ نکلے اور وہ مختلف ٹولیوں میں بٹ گئے اور الگ الگ جتھے بن کر ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے لگے تو ان کی نوبت یہ ہو گئی کہ اللہ نے ان سے عزت و بزرگی کا پیراہن اتار لیا اور نعمتوں کی آسائشیں ان سے چھین لیں اور تمہارے درمیان ان کے واقعات کی حکایتیں عبرت حاصل کرنے والوں کیلئے عبرت بن کر رہ گئیں۔
جب تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو امام ؑ کے ان فرامین کی حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ قوموں کے زوال و تنزلی اور بدحالی کے تقدم و تخلف میں آپسی اختلاف و انتشار اور تفرقہ بازی اور باہمی نفرت و عداوت کلیدی رول ادا کرتے ہیں، چاہے کوئی ملت اور قوم حق پر ہی کیوں نہ ہو اگر اس میں تفرقہ بازی ہے تو اس کے نصیب میں زوال ہو گا اور اگر باطل پر ہے لیکن متحد ہے تو ظاہری فتح اس کے حصہ میں آئے گی۔ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ اقوام و ملل کے اندر جب تک اتحاد و اتفاق پایا جاتا رہا تب تک وہ فتح و نصرت اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوتے رہے اور جیسے ہی انہوں نے اتحاد و اتفاق کے دامن کو چھوڑ کر اختلاف و انتشار پھیلانا شروع کیا تو ان کو سخت ترین ہزیمت و شکست اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا نیز ساتھ ہی ساتھ اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کے فقدان کی وجہ سے ان قوموں کا نام صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔
۴۔ حق سے بے تفاوتی
ایک اور عامل جو قوم کے انحلال اور زوال کے عامل میں حساب کیا جا تا ہے حق سے روگردانی اور حق سے بی تفاوت رہنا ہے۔ ایک معاشرے میں جب حق کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے تو وہ معاشرہ آہستہ آہستہ اپنے زوال کے اسباب کو خود ہی فراہم کرتا ہے۔ امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
أَيُّهَا النَّاسُ لَوْ لَمْ تَتَخَاذَلُوا عَنْ نَصْرِ الْحَقِّ – ولَمْ تَهِنُوا عَنْ تَوْهِينِ الْبَاطِلِ – لَمْ يَطْمَعْ فِيكُمْ مَنْ لَيْسَ مِثْلَكُمْ – ولَمْ يَقْوَ مَنْ قَوِيَ عَلَيْكُمْ – لَكِنَّكُمْ تِهْتُمْ مَتَاه بَنِي إِسْرَائِيلَ – ولَعَمْرِي لَيُضَعَّفَنَّ لَكُمُ التِّيه مِنْ بَعْدِي أَضْعَافاً – بِمَا خَلَّفْتُمُ الْحَقَّ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ – وقَطَعْتُمُ الأَدْنَى ووَصَلْتُمُ الأَبْعَدَ”۔
(مفتی، جعفرحسین، نہج البلاغہ، حکمت نمبر، 164، امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور)
ترجمہ ” اے لوگو! اگر تم حق کی نصرت و امداد سے پہلو نہ بچاتے اور باطل کو کمزور کرنے سے کمزوری نہ دکھاتے تو جو تمہارا ہم پایہ نہیں تھا وہ تم پر دانت نہ رکھتا اور جس نے تم پر قابو پا لیا وہ تم پر قابو نہ پاتا لیکن تم تو بنی اسرائیل کی طرح صحرائے تیہ میں بھٹک گئے۔ اور اپنی جان کی قسم! میرے بعد تمہاری سرگردانی و پریشانی کئی گنا بڑھ جائے گی کیونکہ تم نے حق کو پس پشت ڈال دیا ہے اور قریبیوں سے قطع تعلق کر لیا اور دور والوں سے رشتہ جوڑ لیا ہے۔اگر اللہ نے گزشتہ اقوام میں سے کسی کو بربادی و نابودی کی مثال بنا دی ہے تو اس کی وجہ باطل کی حمایت اور حق سے روگردانی و بے تفاوتی ہے جیسا کہ بنی اسرائیل اسی بنا پر ذلت سے دو چار کیا "۔
آج اگر ا مت اسلامیہ ذلت میں گری ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے اس شخص کی نصرت سے سرتابی کی جسے مجسمہ حق قرار دیا گیا تھا اور ان افراد کاساتھ دیا جو سراپا باطل تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چودہ صدیوں سے مسلسل ذلت کا شکار ہے اور اس کی عزت وعظمت لفظی بازیگری کے علاوہ کچھ نہیں رہی ہے۔
امیر المومنینؑ نے ہمیں کامیابی اور ناکامی کا ایک معیار عطا فرمایا ہے کہ حق کی نصرت کرنے اور باطل کو کمزور بنانے میں ہی ہر قوم، ہرقبیلہ اور ہر امت کی کامیابی اور عزت ہے ورنہ ذلت و خواری اورپستی کے علاوہ کچھ نہیں۔
پس حق کاساتھ دینا کامیابی کا سبب اور حق سے بے تفاوتی کرنا زوال اور پستی کی علامت ہے۔
۵۔حق کا روکنا اور رشوت
إِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، أَنَّهُمْ مَنَعُوا النَّاسَ الْحَقَّ فَاشْتَرَوْه وأَخَذُوهُمْ بِالْبَاطِلِ فَاقْتَدَوْه۔
(مفتی، جعفرحسین، نہج البلاغہ، مکتوب 79، امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور )
ترجمہ: اگلے لوگوں کو اس بات نے تباہ کیا کہ انہوں نے لوگوں کے حق روک لئے تو انہوں نے (رشوتیں دے دے کر) اسے خریدا،اور انہیں باطل کا پابند بنایا تو وہ ان کے پیچھے انہی راستوں پر چل کھڑے ہوئے۔
حق سے روکنا اور رشوت انسانی سوسائٹی کا ایسا بدترین اور مہلک مرض ہے جو سماج کی رگوں میں زہریلے خون کی طرح سرایت کرکے پورے نظام انسانیت کو کھوکھلا اور تباہ کردیتا ہے۔ حق سے روکنا اور رشوت ظالم کی مدد کرتی ہے اور مظلوم کو جبر و ظلم برداشت کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ان کے ذریعے ہی گواہ، وکیل اور حاکم حق کو ناحق اور ناحق کو حق ثابت کرتے ہیں اور یہ دونوں قومی امانت میں سب سے بڑی خیانت ہے۔
پس جس قوم کے اندر دوسروں کے حقوق روک لیے جاتے ہو اوررشوت کا بازار گرم ہو وہ قوم ہمیشہ پسماندہ رہے گی۔
۶۔ترک جہاد
جہاد کا ترک کرنا بھی امتوں کے زوال کا ایک اہم سبب ہے۔ مولا علی ؑ نے متعدد مقامات پر مسلمانوں کی سرزنش صرف اس بات پر کی کہ انہوں نے جہاد جیسے عظیم فریضہ کوترک کردیا تھا جس کے چند نمونے بطور شواہد پیش کر رہے ہیں۔
مَنْ تَرَكَه رَغْبَةً عَنْه أَلْبَسَه اللّٰه ثَوْبَ الذُّلِّ وشَمِلَه الْبَلَاءُ۔
(مفتی، جعفرحسین، نہج البلاغہ، خطبہ 27،امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور)
جو اس (جہاد) سے پہلو بچاتے ہوئے اسے چھوڑ دیتاہے خدا اسے ذلت وخواری کا لباس پہناتا اور مصیبت وابتلاء کی ردا اوڑھا دیتاہے۔
يَا أَشْبَاه الرِّجَالِ ولَا رِجَالَ، لُومُ الأَطْفَالِ وعُقُولُ رَبَّاتِ الْحِجَالِ لَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَرَكُمْ ولَمْ أَعْرِفْكُمْ مَعْرِفَةً – واللّٰه جَرَّتْ نَدَماً وأَعْقَبَتْ سَدَماً قَاتَلَكُمُ اللّٰه۔
(مفتی جعفرحسین، نہج البلاغہ، خطبہ نمبر، 27، امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور)
ترجمہ: اے مردوں کی شکل صورت میں نامردو!تمہاری عقلیں بچوں کی سی اور تمہاری سمجھ حجلہ نشین عورتوں کے مانند ہے۔ میں تو یہی چاہتاتھا کہ نہ تم کو دیکھتا، نہ تم سے جان پہچان ہوتی۔ ایسی شناسائی جو ندامت کا سبب اوررنج واندوہ کا باعث بنی ہے۔ اللہ تمہیں مارے گا۔
اگر امتیں جہاد سے غافل ہوجائے۔ اپنے دشمن کو نہ پہچانے یا لڑنے کی صلاحیت کھو دے تو اللہ انہیں ذلت و خواری کا لباس پہناتا ہے چونکہ یہ جہاد وسیلہ ہے کہ امتوں پے آنے اولے مصائب و مشکلات کا دفاع کرے کسی اور کو اپنے اوپر غالب آنے نہ دے۔ دین اسلام میں اس کی بہت تاکید کی ہے اور جہاد کرتے ہوئے شہید ہونے والوں کو بڑی فضیلت سے نوازا ہے جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕبَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡن (154 ترجمہ۔ بلاغ القرآن، 2)
۱ور جو لوگ راہ خدا میں مارے جاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، مگر تم (ان کی زندگی کا) ادراک نہیں رکھتے۔
امام علیؑ نیز ارشاد فرماتے ہیں کہ:
إنَّ الجِهادَ بابٌ مِن أبوابِ الجَنَّةِ فَتَحَهُ اللّٰهُ لِخاصَّةِ أوليائِهِ۔
(مفتی، جعفرحسین نہج البلاغہ، خطبہ،27، امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور)
جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جسے اللہ نے اپنے خاص دوستوں کے لئے کھولا ہے۔
لہٰذا کسی امت کے نزدیک اگر جہاد کی اہمیت نہیں ہے تو ان کے پاس عزت و وقار کا لباس بھی نہیں ہیں۔ وہ ذلت و رسوائی اور غلامی کی زندگی گزارنے پے مجبور ہوں گے۔
۷۔ لمبی آرزوئیں
ایک اور عامل جو ایک قوم کی تباہی کا سبب بنتا ہے وہ اس قوم سے وابستہ افراد کی لمبی لمبی آرزوئیں ہیں۔
امام علی علیہ السلام نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
وإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِطُولِ آمَالِهِمْ وتَغَيُّبِ آجَالِهِمْ – حَتَّى نَزَلَ بِهِمُ الْمَوْعُودُ الَّذِي تُرَدُّ عَنْه الْمَعْذِرَةُ – وتُرْفَعُ عَنْه التَّوْبَةُ وتَحُلُّ مَعَه الْقَارِعَةُ والنِّقْمَةُ۔
(مفتی، جعفرحسین نہج البلاغہ، خطبہ،145، امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور)
ترجمہ: تم سے پہلے والے لوگوں کی تباہی کا سبب یہ ہے کہ وہ امیدوں کا دامن پھیلاتے رہے اور موت کو نظروں سے اوجھل سمجھتے رہے یہاں تک کہ جب وعدہ کی ہوئی (موت) آگئی تو ان کی معذرت کو ٹھکرا دیا گیا اور توبہ اٹھا لی گئی اور مصیبت و بلا ان پر ٹوٹ پڑی۔ لمبی آروزئیں غفلت کا سبب ہیں۔
تفسیر نمونہ جلد نمبر 11 سورہ حجر آیت نمبر 6 سے 8 تک کی تفسیر کے ذیل میں بیان کیا گیا ہے کہ ا س میں شک نہیں کہ امید وآرزو یا عربوں کی تعبیر میں ” امل “ انسان کے چرخ حیات کی حرکت کا عامل ہے یہاں تک کہ اگر اسے اہل دنیا کے دلوں سے صرف ایک دن کے لئے اٹھالے تو نظامِ زندگی درہم برہم ہو جائے اوربہت کم افراد میں فعالیت، سعی و کوشش اور جوش ِ عمل پیدا ہو۔
ایک مشہور حدیث کہ جو نہج البلاغہ میں حضرت علی (علیہ السلام) سے منقول ہے وہ بھی اس حقیقت کو وضاحت سے بیان کرتی ہے:
ایُّهَا النَّاسُ! اِنَّ اَخْوَفَ مَاۤ اَخَافُ عَلَیْكُمُ اثْنَانِ: اتِّبَاعُ الْهَوٰی، وَ طُوْلُ الْاَمَلِ، فَاَمَّا اتِّبَاعُ الْهَوٰی فَیَصُدُّ عَنِ الْحَقِّ، وَ اَمَّا طُوْلُ الْاَمَلِ فَیُنْسِی الْاٰخِرَةَ۔
(مفتی، جعفرحسین نہج البلاغہ، خطبہ،42،امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور)
اے لوگو! مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ دو باتوں کا ڈر ہے: ایک خواہشوں کی پیروی اور دوسرے امیدوں کا پھیلاؤ۔ خواہشوں کی پیروی وہ چیز ہے جو حق سے روک دیتی ہے اور امیدوں کا پھیلاؤ آخرت کو بھلا دیتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ کتنے ہی باصلاحیت اور لائق افراد ہیں کہ جوآرزوئے درازکے دا م میں گرفتاری کے زیر اثر ضعیف اور مسخ شدہ وجود بن چکے ہیں کہ جس کی وجہ سے نہ صرف وہ اپنے معاشرے کے لئے مفید نہیں رہے بلکہ اپنے ذاتی مفادات بھی پامال کر چکے ہیں اور ہر قسم کی ترقی اور کمال سے محروم ہو گئے ہیں۔ جیسا کہ دعائے کمیل میں ہے:
وحبسنی عن نفعی بعد املی۔
طویل آرزو نے مجھے اپنے حقیقت ِ منافع سے محروم کردیا ہے۔
اصولی طور پر آرزو جب حد سے گذر جاتی ہے تو ہمیشہ انسانوں کو رنج و تعب میں مبتلا کردیتی ہے پھر وہ رات دن کو کوشش کرتا ہے اور اپنے گمان میں سعادت و خوشحالی کی طرف جارہا ہوتا ہے حالنکہ اسے بد بختی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
۸۔ہوائے نفس کا تابع ہونا
قَدِ اصْطَلَحْتُمْ عَلَى الْغِلِّ فِيمَا بَيْنَكُمْ – ونَبَتَ الْمَرْعَى عَلَى دِمَنِكُمْ – وتَصَافَيْتُمْ عَلَى حُبِّ الآمَالِ – وتَعَادَيْتُمْ فِي كَسْبِ الأَمْوَالِ – لَقَدِ اسْتَهَامَ بِكُمُ الْخَبِيثُ وتَاه بِكُمُ الْغُرُورُ – واللّٰه الْمُسْتَعَانُ عَلَى نَفْسِي وأَنْفُسِكُمْ۔
(مفتی، جعفرحسین نہج البلاغہ، خطبہ،131،امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور )
ترجمہ ” (مگر) تم نے دلی کدورتوں اور گھورے پر اُگے ہوئے سبزہ کی خواہش پر ایکا کر لیا ہے۔ امیدوں کی چاہت پر تو تم میں صلح صفائی ہے اور مال کے کمانے پر ایک دوسرے سے دشمنی رکھتے ہو۔ تمہیں (شیطان ) خبیث نے بھٹکا دیا ہے اور فریبوں نے تمہیں بہکا رکھا ہے۔ میرے اور تمہارے نفسوں کے مقابل میں اللہ ہی مدد گار ہے۔
یہاں پر بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جس قوم کے دلوں میں کینہ و حسد نے جگہ بنالی ہو، اگر لوگوں کو ایک دوسرے سے امیدیں نہ ہوتیں تو ایک دوسرے سے ہم آہنگی نہ کرتے، اور مال کی لالچ میں جس قوم کے افراد ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں وہ قوم کیا پنپ سکتی ہے؟ کیا اسکی ترقی کا بھی کوئی راستہ ہے۔
یہ وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے امتوں پر زوال آتاہے۔ اس کے علاوہ دوسرے اسباب بھی ہیں جیسے دنیا پرستی، فقر وتنگ دستی اور خیانت وغیرہ مگر ان کا تذکرہ اس مختصر مقالہ میں ممکن نہیں ہے۔

قوموں کے عروج کے اسباب
۱۔تعلیم
زیورِ تعلیم سے آراستہ معاشرے قوموں کی ترقی اور استحکام کے ضامن ہوا کرتے ہیں۔ تعلیم کی راہ میں خرچ کیا جانے والا سر مایہ وہ سرمایہ ہوتا ہے جو کہ آنے والے وقتوں میں ملک و قوم کی سر بلندی اور ترقی کا باعث بن جاتا ہے۔ زندہ قومیں تعلیم کے تسلسل کو ہر صورت برقرار رکھا کرتی ہیں اور اس سلسلے میں کبھی بھی غفلت سے کام نہیں لیا کرتیں کیونکہ وہ بخوبی جانتی ہیں کہ اگر آج اپنے معاشرے کو تعلیم فراہم نہ کی گئی تو آنے والے وقتوں میں اپنے وجود کو برقرار رکھنا نا ممکن ہوجائے گا۔ یورپ، امریکہ اور دیگر دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی تمام تر ترقی تعلیم ہی کی بدولت ہے۔ تعلیم قوموں کو زندگی بلکہ حیات ابدی عطا کرتی ہے۔اسی وجہ سے مولا علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
یَا كُمَیْلُ! هَلَكَ خُزَّانُ الْاَمْوَالِ وَ هُمْ اَحْیَآءٌ، وَ الْعُلَمَآءُ بَاقُوْنَ مَا بَقِیَ الدَّهْرُ: اَعْیَانُهُمْ مَفْقُوْدَةٌ، وَ اَمْثَالُهُمْ فِی الْقُلُوْبِ مسَوْجُوْدَةٌ۔
(مفتی، جعفرحسین نہج البلاغہ، حکمت،147،امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور)
ترجمہ "اے کمیل مال اکھٹا کرنے والے زندہ ہونے کے باوجود مردہ رہتے ہیں اور علم حاصل کرنے والے رہتی دنیا تک باقی رہتے ہیں۔بے شک ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں مگر ان کی صورتیں دلوں میں رہتی ہے۔
اِكْتَسِبُوا اَلْعِلْمَ يُكْسِبْكُمُ اَلْحَيَاةَ (غرر الحکم و درر الکلم , الجزء۱الاول, الصفحة۱۵۰ )
ترجمہ "تم علم حاصل کرو علم تمھیں زندگی عطا کرے۔
اسلام میں تعلیم حاصل کرنا فرض کیا گیا ہے۔آج کے اس پر آشوب اور تیز ترین دور میں تعلیم کی ضرورت بہت اہمیت کا حامل ہے چاہے زمانہ کتنا ہی ترقی کرلے۔ آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے، ایٹمی ترقی کا دور ہے، سائنس اور صنعتی ترقی کا دور ہے مگر اسکولوں میں بنیادی عصری تعلیم، ٹیکنیکل تعلیم،انجینئرنگ، وکالت، ڈاکٹری اور مختلف جدید علوم حاصل کرنا آج کے دور کا لازمی تقاضہ ہے۔
مسلمان کبھی جدید تعلیم سے دور نہیں رہے بلکہ جدید زمانے کے جتنے بھی علوم ہیں زیادہ تر ان کے بانی مسلمان ہی ہیں۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم و تربیت میں معراج پاکر دین و دنیا میں سربلندی اور ترقی حاصل کی ہے لیکن جب بھی مسلمان علم اور تعلیم سے دور ہوئے وہ غلام بنالیے گئے یا پھر جب بھی انہوں نے تعلیم کے مواقع سے خود کو محروم کیا وہ بحیثیت قوم اپنی شناخت کھو بیٹھےلہٰذا اگر ہم چاہتے ہے کہ اپنی شناخت کو واپس حاصل کرے اور ترقی کے بام ِ عروج تک جا پہنچے تو اس کا راہ حل تعلیم کے میدان جدو جہد کرنی ہوگی چونکہ تعلیم قوموں کو ابدی حیات اور بلندی عطا کرتی ہے۔
۲۔حق کی طرف داری
قوموں کی سر بلندی اسی میں ہے کہ وہ حق کی حمایت کرے اور باطل سے روگردانی کرے اگر حق کی حمایت نہ کرے تو اس صورت میں بربادی و نابودی کی کھائی میں گر جانا ان کا مقدر بن جاتا ہے وہ پھر کبھی نجات نہیں پا سکتے جیسا کہ امام علیؑ  کا فرمان ہے:
أَيُّهَا النَّاسُ لَوْ لَمْ تَتَخَاذَلُوا عَنْ نَصْرِ الْحَقِّ – ولَمْ تَهِنُوا عَنْ تَوْهِينِ الْبَاطِلِ – لَمْ يَطْمَعْ فِيكُمْ مَنْ لَيْسَ مِثْلَكُمْ – ولَمْ يَقْوَ مَنْ قَوِيَ عَلَيْكُمْ – لَكِنَّكُمْ تِهْتُمْ مَتَاه بَنِي إِسْرَائِيلَ – ولَعَمْرِي لَيُضَعَّفَنَّ لَكُمُ التِّيه مِنْ بَعْدِي أَضْعَافاً – بِمَا خَلَّفْتُمُ الْحَقَّ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ – وقَطَعْتُمُ الأَدْنَى ووَصَلْتُمُ الأَبْعَدَ۔
(مفتی، جعفرحسین، نہج البلاغہ، خطبہ نمبر، 164، امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور)
ترجمہ” اے لوگو! اگر تم حق کی نصرت و امداد سے پہلو نہ بچاتے اور باطل کو کمزور کرنے سے کمزوری نہ دکھاتے تو جو تمہارا ہم پایہ نہیں تھا وہ تم پر دانت نہ رکھتا اور جس نے تم پر قابو پا لیا وہ تم پر قابو نہ پاتا لیکن تم تو بنی اسرائیل کی طرح صحرائے تیہ میں بھٹک گئے۔ اور اپنی جان کی قسم! میرے بعد تمہاری سرگردانی و پریشانی کئی گنا بڑھ جائے گی کیونکہ تم نے حق کو پس پشت ڈال دیا ہے اور قریبیوں سے قطع تعلق کر لیا اور دور والوں سے رشتہ جوڑ لیا ہے۔
مذکورہ حدیث سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہےکہ لوگ اگر حق کی طرف داری کریں، حق کا ساتھ دیں اور اس کی مدد و نصرت کریں تو وہ ہمیشہ سربلند رہتے ہیں لیکن اگر حق کی مدد نہ کرے، حق کی حمایت نہ کرے تو دوسرے لوگ ہم پر مسلط ہونگے اور ہمیں صفحہ ہستی سے مٹا دینگے لہٰذا زندہ و جاوید رہنے کے لیے حق کی حمایت کرنی ہوگی اس کے بغیر عروج و بلندی ملنا ممکن نہیں ہے۔
۳۔نمائندہ الٰہی کی اطاعت
کسی بھی قوم کا عروج اس وقت ممکن ہے جب وہ نمائندہ الہٰی کی پیروی کرے چونکہ وہ ہر لحاظ سے کامل و اکمل ہوتے ہیں ان کو قوم کی ترقی اورعروج کے لیے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہیں۔ وہ ہمیشہ یہی چاہتے ہیں کہ قوم تاریکی سے نکل کر روشنی کی طرف آئے قوم ذلت و پستی میں نہ رہے لہٰذا کیوں نہ ایسے رہنما کی پیروی کرے جو ہر وقت قوم کی بھلائی کو مد نظر رکھتے ہیں۔ اللہ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بیجھے ان میں سے سب سے اعلیٰ رہبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے۔ آپؐ نے اپنے بعد اپنی عترت اور اہل بیت علیہم السلام کو امت اسلامی کے لئے رہبر کے عنوان سے متعارف کرایا اور حدیث ثقلین میں انہیں قرآن کے برابر قرار دیا اور فرمایا کہ میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک قرآن ہے اور دوسری میر ی عترت۔ ان کی اطاعت کے سلسلے میں ان سے آگے نکل جانا یا پیچھے رہ جانا دونوں ناقابل تلافی ہیں اور شاہراہ ہدایت سے منحرف ہونے کا سبب بنتا ہے جیسا کہ امام علی ؑ ارشاد فرماتے ہیں:
انْظُرُوا إَهلَ‏ بَيتِ‏ نَبِيِّكُمْ‏ فَالْزَمُوا سَمْتَهُمْ‏ وَ اتَّبِعُوا إَثَرَهُمْ فَلَنْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ هُدًى وَ لَنْ يُعِيدُوكُمْ فِي رَدًى فَإِنْ لَبَدُوا فَالْبُدُوا وَ إِنْ نَهَضُوا فَانْهَضُوا وَ لَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَضِلُّوا وَ لَا تَتَإَخَّرُوا عَنْهُمْ فَتَهلِكُو۔
(مفتی، جعفرحسین نہج البلاغہ خطبہ،95،امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور)
ترجمہ” اپنے نبی ؐ کے اہل بیت کو دیکھو، ان کی سیرت پر چلو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو۔ اور نہ گمراہی اور ہلاکت کی طرف پلٹائیں گے۔ اگروہ کہیں ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر وہ اٹھیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو۔ ان سے آگے نہ بڑھو۔۔۔ ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے، اور نہ (انہیں چھوڑ کر) پیچھے رہ جاؤ، ورنہ تباہ ہو جاؤ گے۔
۴۔قانون الہٰی کی حکمرانی
کسی بھی قوم و ملت کی ترقی و خوشحالی اس بات سے مربوط ہے کہ وہ اپنے معاشرے میں قانون الہٰی کی بالادستی قائم رکھے یعنی کسی بھی شخص کو یہ حق نہ پہنچے کہ وہ اپنے نفع کی خاطر یا نقصان سے بچنے کے لئے قانون کو پاؤں تلے روند ڈالے اگر ایسا ہوا تو اس معاشرے کو زوال سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
باایں معنی کوئی بھی معاشرہ تبھی عروج پا سکتا ہے جب اس میں قانون کی حکمرانی ہو، حق دار کو اس کا حق ملے، مجرم کو اس کے جرم کی سزا ملے، امن و امان قائم ہوگویا اس معاشرے کا نظام مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق چلتا ہو، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ایک مقام پر فرماتے ہیں:
اللّٰهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ – أَنَّه لَمْ يَكُنِ الَّذِي كَانَ مِنَّا مُنَافَسَةً فِي سُلْطَانٍ – ولَا الْتِمَاسَ شَيْءٍ مِنْ فُضُولِ الْحُطَامِ – ولَكِنْ لِنَرِدَ الْمَعَالِمَ مِنْ دِينِكَ ونُظْهِرَ الإِصْلَاحَ فِي بِلَادِكَ – فَيَأْمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبَادِكَ – وتُقَامَ الْمُعَطَّلَةُ مِنْ حُدُودِكَ۔
(مفتی، جعفرحسین نہج البلاغہ،خطبہ 129، امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور)
ترجمہ "بار الٰہا ! تو خوب جانتا ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہم سے (جنگ و پیکار کی صورت میں) ظاہر ہوا اِس لئے نہیں تھا کہ ہمیں تسلط و اقتدار کی خواہش تھی یا مال دنیا کی طلب تھی بلکہ یہ اس لئے تھا کہ ہم دین کے نشانات کو (پھر ان کی جگہ پر) پلٹائیں اور تیرے شہروں میں امن و بہبودی کی صورت پیدا کریں تاکہ تیرے ستم رسیدہ بندوں کو کوئی کھٹکا نہ رہے اور تیرے وہ احکام (پھر سے) جاری ہو جائیں جنہیں بیکار بنا دیا گیا ہے۔”
جناب مالک اشتر رضی اللہ تعالی عنہ کو لکھے گئے عہد نامے میں قانون الہٰی کے اجراء کی سخت تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مثالی معاشرے میں سعادت مند زندگی کے حصول کے لئے قانون الہٰی کا نفاذ ضروری ہے وگرنہ معاشرہ بربادی کی دلدل میں گرجائے گا، ملاحظہ ہو:
أَمَرَه بِتَقْوَى اللّٰه وإِيْثَارِ طَاعَتِه – واتِّبَاعِ مَا أَمَرَ بِه فِي كِتَابِه مِنْ فَرَائِضِه وسُنَنِه – الَّتِي لَا يَسْعَدُ أَحَدٌ إِلَّا بِاتِّبَاعِهَا ولَا يَشْقَى إِلَّا مَعَ جُحُودِهَا وإِضَاعَتِهَا۔
(مفتی، جعفرحسین نہج البلاغہ، مکتوب 53،امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور)
ترجمہ ” انہیں حکم ہے کہ اللہ کا خوف کریں، اس کی اطاعت کو مقدم سمجھیں اور جن فرائض و سنن کا اس نے اپنی کتاب میں حکم دیا ہے، ان کا اتباع کریں کہ انہی کی پیروی سے سعادت اور انہی کے ٹھکرانے اور برباد کرنے سے بدبختی دامن گیر ہوتی ہے۔”
واضح رہے کہ معاشرے میں قانون الہٰی کی بالا دستی قائم کرنا ہر ایک کے بس میں نہیں ہے۔یہ فریضہ صرف وہی انجام دے سکتا ہے جو مومن، متقی، شجاع اور دیگر صفات حسنہ سے متصف ہو اور یہ فقط نمائندہ الہٰی ہو سکتا ہے۔اس سلسلے میں امیر المومنین فرماتے ہیں:
لَا يُقِيمُ أَمْرَ اللّٰه سُبْحَانَه إِلَّا مَنْ لَا يُصَانِعُ – ولَا يُضَارِعُ ولَا يَتَّبِعُ الْمَطَامِعَ۔
(مفتی، جعفرحسین نہج البلاغہ،مکتوب 110، امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور)
ترجمہ "حکم خدا کا نفاذ وہی کر سکتا ہے جو (حق کے معاملہ میں) نرمی نہ برتے، عجز و کمزوری کا اظہار نہ کرے اور حرص و طمع کے پیچھے نہ لگ جائے۔”
مولائے کائنات کے ان اقوالِ زرین سے ثابت ہوتا ہیں کہ قوموں کی بالادستی کے لیے قانونِ الہٰی کی بالادستی ہونا ضروری ہے۔
۵۔عدل و انصاف کا قیام
عدل و انصاف کی فراہمی انسانی معاشرے کی ایک اہم ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو امن و سکون مل سکے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء و مرسلین علیہم السلام کو اس لیے مبعوث فرمایا تاکہ وہ سماج میں عدل و انصاف قائم کریں۔ یہ اور بات ہے کہ مفاد پرست لوگوں نے انہیں ایسا کرنے نہیں دیا۔
چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
” لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ۔”
(بلاغ القرآن:25:57)
ترجمہ: بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔۔۔”
امام زمانہ عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا ظہور بھی ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینے کے لیے ہوگا۔الغرض معاشرے میں عدل و انصاف کی فراہمی امام عالی مقام کے ظہور کا ہدف ِ نہائی ہے۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام خراج کی وصولی پر متعین عاملوں کے نام تحریر کیے گئے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
” واعْلَمُوا أَنَّ مَا كُلِّفْتُمْ بِه يَسِيرٌ وأَنَّ ثَوَابَه كَثِيرٌ ولَوْ لَمْ يَكُنْ فِيمَا نَهَى اللّٰه عَنْه مِنَ الْبَغْيِ والْعُدْوَانِ عِقَابٌ يُخَافُ لَكَانَ فِي ثَوَابِ اجْتِنَابِه مَا لَا عُذْرَ فِي تَرْكِ طَلَبِه فَأَنْصِفُوا النَّاس”
(مفتی،جعفرحسین، نہج البلاغہ، مکتوب، 51، امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور )
ترجمہ "تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو فرائض تم پرعائد کئے گئے ہیں، وہ کم ہیں اور ان کا ثواب زیادہ ہے۔خدا نے ظلم و سرکشی سے جو روکا ہے اس پر سزا کا خوف نہ بھی ہوتا جب بھی اس سے بچنے کا ثواب ایسا ہے کہ اس کی طلب سے بے نیاز ہونے میں کوئی عذر نہیں کیا جا سکتا لہٰذا لوگوں سے عدل و انصاف سے پیش آؤ۔
جناب مالک اشتر رضی اللہ تعالی عنہ کے نام لکھے گئے مکتوب میں فرماتے ہیں۔
"ولْيَكُنْ أَحَبَّ الأُمُورِ إِلَيْكَأَوْسَطُهَا فِي الْحَقِّ – وأَعَمُّهَا فِي الْعَدْلِ وأَجْمَعُهَا لِرِضَى الرَّعِيَّةِ – فَإِنَّ سُخْطَ الْعَامَّةِ يُجْحِفُ بِرِضَى الْخَاصَّةِ – وإِنَّ سُخْطَ الْخَاصَّةِ يُغْتَفَرُ مَعَ رِضَى الْعَامَّةِ۔۔۔وتَبَجُّحِكَ بِاسْتِفَاضَةِ الْعَدْلِ فِيهِمْ – مُعْتَمِداً فَضْلَ قُوَّتِهِمْ – بِمَا ذَخَرْتَ عِنْدَهُمْ مِنْ إِجْمَامِكَ لَهُمْ – والثِّقَةَ مِنْهُمْ بِمَا عَوَّدْتَهُمْ مِنْ عَدْلِكَ عَلَيْهِمْ ورِفْقِكَ بِهِمْ۔”
(مفتی،جعفرحسین، نہج البلاغہ، مکتوب، 53، امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور)
ترجمہ:تمہیں سب طریقوں سے زیادہ وہ طریقہ پسند ہونا چاہیے جو حق کے اعتبار سے بہترین، انصاف کے لحاظ سے سب کو شامل اور رعایا کے زیادہ سے زیادہ افراد کی مرضی کے مطابق ہو، کیونکہ عوام کی ناراضگی خواص کی رضا مندی کو بے اثر بنا دیتی ہے، اور خواص کی ناراضگی عوام کی رضامندی کے ہوتے ہوئے نظر انداز کی جا سکتی ہے۔۔۔ اورعدل و انصاف کے پھیل جانے سے مسرت بھی حاصل ہوگی پھر ان کی راحت و رفاہیت اور عدل و انصاف ‘ نرمی و سہولت کی بنا ءپر جواعتماد حاصل کیا ہے اس سے ایک اضافی طاقت بھی حاصل ہوگی جو بوقت ضرورت کام آسکتی ہے۔
۶۔اتحاد و اتفاق
انسانی معاشرے میں اتحاد و اتفاق کی بڑی اہمیت ہے اس کی وجہ سے قومیں ترقی و تکامل کی بلندیوں کو چھو سکتی ہیں لیکن اگر لوگ مختلف گروہوں اور فرقوں میں بٹ گئے تو ان کی ہوا اکھڑ جاتی ہے۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
” وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا۔”(ترجمہ: بلاغ القرآن 4۔59)
اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
” وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیۡ مُسۡتَقِیۡمًا فَاتَّبِعُوۡہُ ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمۡ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ ؕ ذٰلِکُمۡ وَصّٰکُمۡ بِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ”۔ (ترجمہ: بلاغ القرآن 6-153)”
ترجمہ "اور یہی میرا سیدھا راستہ ہے اسی پر چلو اور مختلف راستوں پر نہ چلو ورنہ یہ تمہیں اللہ کے راستے سے ہٹا کر پراگندہ کر دیں گے، اللہ نے تمہیں یہ ہدایات (اس لیے) دی ہیں تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔”
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اتحاد و اتفاق کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
َفإِنَّ يَدَ اللّٰه مَعَ الْجَمَاعَةِ – وإِيَّاكُمْ والْفُرْقَةََإِنَّ الشَّاذَّ مِنَ النَّاسِ لِلشَّيْطَانِ َمَا أَنَّ الشَّاذَّ مِنَ الْغَنَمِ لِلذِّئْبِ۔
(مفتی،جعفرحسین، نہج البلاغہ، خطبہ 125، امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور)
ترجمہ "بے شک اللہ کا ہاتھ اتفاق و اتحاد رکھنے والوں پر ہے اور تفرقہ و انتشار سے باز آ جاؤ اس لئے کہ جماعت سے الگ ہو جانے والا شیطان کے حصہ میں چلا جاتا ہے جس طرح گلہ سے کٹ جانے والی بھیڑ بھیڑیے کو مل جاتی ہے۔”
۷۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر
دینِ مبینِ  اسلام جہاں ہر مسلمان کو یہ تلقین کرتا ہے کہ وہ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کو صحیح اسلامی خطوط پر استوار کرے وہی اسے یہ تعلیم بھی دیتا ہے کہ وہ اپنے معاشرے میں موجود دیگر افراد کو بھی ہمیشہ اچھے کاموں کی طرف بلاتا رہے اور برے کاموں سے دوری اختیار کرنے کی تلقین کرتا رہے۔اس فریضے کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر اسلامی تعلیمات کا ایک اہم حصہ ہے۔یہ اسلامی معاشرے کی قوت جاذبہ اور قوت دافعہ ہے یعنی اچھی چیزوں کو اپنے اندر جذب کر لینا اور بری چیزوں کو دور کر لینا ایک مثالی معاشرے کی پہچان ہے۔ کوئی بھی قوم و ملت اس وقت تک کامیابیوں کی طرف نہیں جا سکتی جب تک وہ اس اہم فریضے کو انجام نہ دے۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ومَا أَعْمَالُ الْبِرِّ كُلُّهَا والْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللّٰه – عِنْدَ الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ – إِلَّا كَنَفْثَةٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ – وإِنَّ الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ – لَا يُقَرِّبَانِ مِنْ أَجَلٍ ولَا يَنْقُصَانِ مِنْ رِزْقٍ – وأَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ كُلِّه كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ إِمَامٍ جَائِرٍ۔
(مفتی،جعفرحسین، نہج البلاغہ،حکمت،374، امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، اندرون موچی دروازہ لاہور)
"تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمام اعمالِ خیر اور جہاد فی سبیل اللہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلہ میں ایسے ہیں جیسے گہرے دریا میں لعاب دہن کے ریزے ہوں، یہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ایسا نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے موت قبل از وقت آ جائے، یا رزق معین میں کمی ہو جائے۔”
خلاصہ
اقوام کا عروج و زوال علل و اسباب کے مطابق ہوتا ہے، اس وقت قوم ذلت و پستی کی طرف جاتی ہے جب اس قوم کے اند ر جہالت، رہبر الٰہی کی نافرمانی، فرقہ بندی، ترک امر بالمعروف، ظلم وجور، معاشی بدحالی، ترک جہاد اورخیانت، جیسی اخلاق ِرزیلہ موجود ہو۔
اس زوال سے نکلنے کے لئے عروج پانے کے لیے بھی اللہ نے کچھ معیارات قائم کیے ہے۔ ان میں سے بعض یہ ہے کہ قوموں میں تعلیم و تربیت کا شعور، رہبر کی فرمانبرداری، قانون الٰہی کی حکمرانی، باہمی اتفاق اتحاد، عدل و انصاف، اورحق کی حمایت ہو۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button