سلائیڈرمقالات قرآنی

خدا کے وجود کی آفاقی و مشاہداتی نشانیاں

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ اَوَ لَمۡ یَکۡفِ بِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ ( فصلت:53)
ترجمہ: ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ یقینا وہی (اللہ) حق ہے، کیا آپ کے رب کا یہ وصف کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز پر خوب شاہد ہے؟
تفسیر آیات
۱۔ سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ: مکہ میں نہایت نامساعد حالات میں نازل ہونے والی اس آیت میں ایک عظیم اور تابناک مستقبل کی نوید ہے کہ ایک وقت ایسا آنے والا ہے جس میں کائنات آفاق اور کائنات انفس میں ہماری صناعیت، وحدانیت اور قرآن کی صداقت، دین اسلام کی حقانیت کی نشانیاں اس حد تک وضاحت کے ساتھ دکھائی جائیں گی کہ حق کھل کر سامنے آ جائے:
الف۔ کائناتِ آفاق: اس کائنات کے بارے میں عصر نزول قرآن اور اس سے پہلے بطلیموسی نظریہ افلاک کے مطابق اس کائنات، خاص کر اپنے منظومہ شمسی کے بارے میں نظریات سو فیصد اشتباہات پر مبنی تھے۔ اس نظام شمسی کی مرکزی حیثیت کے حامل سورج کو زمین کے تابع ایک سیارہ شمار کیا جاتا تھا۔ چنانچہ انسان پر آفاق کے دروازے کھل رہے ہیں اور کائنات کے اسرار پر آگاہی حاصل ہو رہی ہے۔
اپنے کرۂ ارض کے بارے میں بہت کچھ جاننے لگا ہے: وَ فِی الۡاَرۡضِ اٰیٰتٌ لِّلۡمُوۡقِنِیۡنَ ( ۵۱ ذاریات: ۲۰ (ترجمہ) اور زمین میں اہل یقین کے لیے نشانیاں ہیں۔) کے تحت زمین میں پوشیدہ اسرار قدرت سے پردہ ہٹنا شروع ہوا ہے۔ چار عناصر کی حدود پھلانگ کر بیسیوں عناصر کا کھوج لگایا ہے۔ ان عناصر کی ترتیب و تجزیہ کے رموز سے واقف ہونا شروع ہو گیا ہے۔ حتیٰ نامرئی ذرہ (ایٹم) کے شکم میں جھانک کر دیکھ لیا ہے۔ آفاق بعید ستاروں، کہکشاؤں اور کائنات میں موجود مختلف نظاموں کے بارے میں بہت جاننا شروع ہو گیا ہے تاہم ابھی نظام کائنات کے اصل راز تک رسائی بہت دور ہے۔ ابھی تک اس کائنات پر حاکم مطلوبہ کشش کی توجیہ نہ ہو سکی چونکہ موجودہ کشش اجرام سماوی کو بکھرنے سے محفوظ رکھنے کے لیے ناکافی ہے۔ اس کے لیے ایک بلیک ہول (black-hole) کا نظریہ قائم کیا ہوا ہے جو زیر تحقیق ہے اور خیال ہے کہ اجرام سماوی کو بکھرنے سے محفوظ رکھنے کے لیے لازم کشش میں سے بیس فیصد کشش اس بلیک ہول سے ملنی چاہیے۔خود بلیک ہول کیا چیز ہے؟ یہ ایک تھیوری ہے۔ اس کی حقیقت کا علم نہیں۔ صرف آثار (کشش) سے اس کے موجود ہونے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔
قرآن کا وعدہ ہے وہ وقت آئے گا جس میں آفاق میں موجود آیات الٰہی اس حد تک منکشف ہو جائیں گی کہ قرآنی تعلیمات کی حقانیت واضح ہو جائے۔
ب۔ کائنات انفس: انسان کی ساخت و بافت خود اپنی جگہ، بقول الکسس کاریل (Alexis Carrel) ایک نامعلوم کائنات ہے۔
انسانی تخلیق میں استعمال ہونے والی بنیادی اینٹ سیل (Cell) کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ اس کائنات کا سب سے زیادہ محیر العقول عجوبہ ہے۔ انسانی تخلیق میں سیلز کی حیرت انگیز فعالیت کے بارے میں تشریح کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورہ نساء آیت ۱۱۹۔
کائنات انفس میں اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نشانی حیات ہے جو ایک سربستہ راز اور پراسرار حقیقت ہے۔ انسان نے اس سلسلے میں ایک چھوٹا سا قدم آگے بڑھایا ہے۔
چنانچہ ۲۶،جون ۲۰۰۰ء کو انکشاف کی تاریخ کا ایک اہم ترین دن قرار دیا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ اس روز سینۂ کائنات میں پوشیدہ ایک راز ’’راز حیات‘‘ سے پردہ اٹھ گیا اور انسانی D.N.A میں تین ارب سالموں کی منظم ترتیب کے ذریعے جینیاتی کوڈ کا معمہ حل ہو گیا۔ کہتے ہیں حیات کا راز ان تین ارب سالموں میں پوشیدہ ہے۔ تشریح کے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت ۲۸۔
سائنسدان فرانسس کولنز (Francis Collins) کہتے ہیں:
سائنسداں اس بات کے اہل نہیں ہیں کہ وہ ’’ حیات ‘‘ کو سمجھ سکیں۔ (روزنامہ جنگ تحریر لی سلور ، ترجمہ این ایچ تمکین )
۲۔ اَوَ لَمۡ یَکۡفِ بِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ: یہ وعدہ اس علم و شہود کی بنیاد پر ہے کہ کائنات کی ہر چیز کسی زمانے کی قید کے بغیر اس کے سامنے ہے۔
مفسرین کا یہ نظریہ کہ آفاق و انفس میں اللہ کی نشانیوں سے مراد فتوحات اسلامیہ ہیں، دو اعتبار سے ظہور قرآن کے خلاف ہے:
اول یہ کہ فتوحات کے لیے ’’اللہ کی نشانیاں‘‘ کی تعبیر قرآن میں استعمال نہیں ہوئی۔ فتوحات کے لیے فتح ونصرت اور تائید کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
دوم یہ کہ اَنۡفُسِہِمۡ سے مراد قریبی علاقے لیتے ہیں جو خلاف ظاہر بلکہ خلاف نص ہے۔ چونکہ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ میں انفس سے مراد قریبی علاقے لیا جائے، بعید از فہم ہے۔
واضح رہے انسان کی علمی پیشرفت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے وجود کے انکار میں وہ زور نہیں رہا جو سائنسی دور کی ابتدا میں تھا۔ حتیٰ قیامت اور حیات بعدالموت کا مسئلہ بھی سائنس کی روشی میں حل ہو رہا ہے۔(الکوثر فی تفسیر القران جلد 8 صفحہ 45)
نعمات سماو ی و ارضی میں پنہاں نشانیاں
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً لَّکُمۡ مِّنۡہُ شَرَابٌ وَّ مِنۡہُ شَجَرٌ فِیۡہِ تُسِیۡمُوۡنَیُنۡۢبِتُ لَکُمۡ بِہِ الزَّرۡعَ وَ الزَّیۡتُوۡنَ وَ النَّخِیۡلَ وَ الۡاَعۡنَابَ وَ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ( النحل؛10-11)
ترجمہ: وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا جس سے تمہیں پینے کو ملتا ہے اور اس سے درخت اگتے ہیں جن میں تم جانور چراتے ہو۔ جس سے وہ تمہارے لیے کھیتیاں، زیتون کھجور، انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے، غور و فکر سے کام لینے والوں کے لیے ان چیزوں میں یقینا نشانی ہے۔
تشریح کلمات
تُسِیۡمُوۡنَ🙁 س و م ) السوم کے معنی کسی چیز کی طلب میں جانے کے ہیں۔ پس اس کا مفہوم دو اجزاء سے مرکب ہے۔ طلب اور جانا۔ سَامَتِ الْاِبِل ۔ اونٹ چراگاہ میں چرنے کے لیے چلے گئے۔
تفسیر آیات
۱۔ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ: مذکورہ پھلوں کی فراہمی اہل فکر کو بتاتی ہے کہ یہ اندھے اتفاق اور ناداں ، بے شعور طبیعت کا کام نہیں ہے بلکہ ان چیزوں کی فراہمی کے پیچھے ایک شعور، ارادہ کارفرما ہے۔ ورنہ آسمان سے برسنے والاپانی، انسان اور روئے زمین پر موجود باقی چیزوں کے لیے مفید و مناسب نہ ہوتا۔ زمین سے اُگنے والی چیزوں کا انسان اور باقی جانوروں کے مزاج اور طبیعت کے عین مطابق اور مفید ہونا بھی ضروری نہ تھا۔ لہٰذا ان مختلف چیزوں کا ایک دوسرے کے لیے ضروری ہونا اور باہم موافق طبع ہونا بتاتا ہے کہ ان چیزوں کی تخلیق کے پیچھے ایک حکیمانہ ذہن کارفرما ہے جو اس نظام کی تدبیر کر رہا ہے۔
۲۔ یُنۡۢبِتُ لَکُمۡ بِہِ الزَّرۡعَ: کھیتی کی افادیت اور زیتون، کھجور اور انگور کے انسانی جسم کی ساخت و بافت کے ساتھ نہایت سازگار ہونے کی وجہ سے ممکن ہے ان کا خاص طور پر ذکر کیا ہو۔
۳۔ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً: ان چیزوں میں صاحبان فکر کے لیے دلیل موجود ہے کہ انسان کی تدبیر اللہ کے ہاتھ میں۔ مشرکین کے نزدیک بھی خالق اللہ ہے۔ اللہ نے انسان کی تدبیر حیات کے لیے درج بالا چیزیں خلق فرمائیں تو تدبیر، خلق سے جدا چیز نہیں ہے۔
اہم نکات
۱۔ آیات الٰہی سے استفادہ کرنے کے لیے غور و فکر شرط ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 4 صفحہ 403)
قانون جاذبہ و دافعہ: وجود خدا پر بہترین دلیل
اَللّٰہُ الَّذِیۡ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ یَّجۡرِیۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ یُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّکُمۡ تُوۡقِنُوۡنَ﴿الرعد:۲﴾
اللہ وہ ذات ہے جس نے آسمانوں کو تمہیں نظر آنے والے ستونوں کے بغیر بلند کیا پھر اس نے عرش پر سلطنت استوار کی اور سورج اور چاند کو مسخر کیا، ان میں سے ہر ایک مقررہ مدت کے لیے چل رہا ہے، وہی امور کی تدبیر کرتا ہے وہی نشانیوں کو تفصیل سے بیان کرتا ہے شاید تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔
تفسیر آیت؛
اس آیہ شریفہ میں چند ایسے شواہد کا ذکر ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق کے پیچھے ایک شعور کار فرما ہے جس سے اس کائنات کی تدبیر ہو رہی ہے۔
۱۔ اَللّٰہُ الَّذِیۡ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ: آسمانوں کو نامرئی اور غیر محسوس ستونوں پر قائم کیا ہے۔ ستونوں کی نفی نہیں ہے بلکہ روئیت کی نفی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آسمان غیر مرئی ستونوں پر قائم ہے۔ اب تک کے فہم کے مطابق یہ ستون جاذبہ و دافعہ میں توازن ہیں۔ اجرام فلکی دو چیزوں پر قائم ہیں: ایک ان کا حجم مادی اور اجرام کی کشش اور دوسری ان کی حرکت۔ حرکت کی وجہ سے مرکز سے دور ہو جاتے ہیں اور حجم مادی کی وجہ سے جذب و کشش وجود میں آتی ہے۔ ان دونوں میں توازن وہ غیر مرئی ستون ہیں جن پر اجرام فلکی قائم ہیں۔ لہٰذا آسمان سے مراد اجرام فلکی ہی ہوسکتے ہیں۔
اس آیت کی دوسری تفسیر یہ بیان کی گئی ہے: بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا کا مطلب یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو کہ اللہ نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے اٹھایا ہے۔ یہ تفسیر قابل قبول اس لیے نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام کائناتی نظام کو اسباب و علل پر قائم رکھا ہے۔ اگر یہ ستون جاذبہ و دافعہ نہیں ہیں تو یہاں کوئی اور اسباب ہیں جن کے ذریعے کائنات کو مربوط رکھا ہے۔
۲۔ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ: آسمانوں کو غیر مرئی ستونوں پر استوار کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ عرش اقتدار و سلطنت عالم پر متمکن ہوا۔ عرش سلطنت پر متمکن ہونے کے بارے میں تفصیل ملاحظہ ہو سورہ اعراف آیت ۵۴۔
۳۔ کُلٌّ یَّجۡرِیۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی: سورج، چاند اور دیگر اجرام فلکی سب جاری و ساری ہیں۔ کائنات میں کوئی ایسا کرہ نہیں جو ساکن ہو۔ کُلٌّ یَّجۡرِیۡ سب کے سب حرکت میں ہیں۔ البتہ ان کی یہ حرکت دائمی نہیں، ایک معین مدت کے لیے ہے۔ جیسا کہ ان اجرام کی ایک ابتدا تھی، انتہا بھی ہے۔
۴۔ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ: اس غیر محدود لامتناہی کائنات اور ان میں موجود ہر چیز کو ایک نظم و انضباط کے تحت چلانا کیا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ان تدبیروں کے پیچھے ایک شعور اور ارادہ کارفرما ہے۔ ان سب کا مدبر اللہ کی ذات ہے۔
۵۔ یُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ: تدبیر کائنات کی نشانیوں کو اس طرح واضح کیا ہے کہ کوئی ابہام رہ نہ جائے بلکہ حق و نا حق میں تمیز ہو جائے۔ چشم بینا رکھنے والوں کے لیے یہ بات کافی ہے کہ اس کائنات کو اللہ نے خلق کیا ہے اور اللہ ہی اس کی تدبیر کر رہا ہے۔
اہم نکات
۱۔ توازن اور تعادل ہی وہ ستون ہیں جن پر کائنات قائم ہے: بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا ۔۔۔۔
۲۔ کائنات کی ہر شیء حرکت میں ہے: کُلٌّ یَّجۡرِیۡ ۔۔۔۔
۳۔ تدبیر کائنات پر نشانیاں ایسی ہیں جن سے یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ اللہ ہی مدبّر کائنات ہے: تُوۡقِنُوۡنَ ۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 4 صفحہ 266)
خلق وتدبیر کا مالک کون؟؟
قُلۡ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اَمَّنۡ یَّمۡلِکُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ مَنۡ یُّخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ یُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ وَ مَنۡ یُّدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ اللّٰہُ ۚ فَقُلۡ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ( یونس:11)
کہدیجئے: تمہیں آسمان اور زمین سے رزق کون دیتا ہے؟سماعت اور بصارت کا مالک کون ہے؟ اور کون ہے جو بے جان سے جاندار کو پیدا کرتا ہے اور جاندار سے بے جان کو پیدا کرتا ہے؟ اور کون امور (عالم ) کی تدبیر کر رہا ہے؟ پس وہ کہیں گے: اللہ، پس کہدیجئے: تو پھر تم بچتے کیوں نہیں ہو؟
تفسیر آیات
مشرکین کے اپنے مسلمات کے ساتھ استدلال ہے کہ تم خود قبول کرتے ہو:
۱۔ آسمان اور زمین سے رزق دینے والا اللہ ہے۔ آسمان کا ذکر پہلے آیا ہے۔ شاید اس لحاظ سے کہ انسانی ضروریات اور روزی کا اکثر حصہ آسمان کی طرف سے ہے پھر زمین کا نمبر آتا ہے اور تم خود مانتے ہو کہ کون تمہارے سمع وبصر کا مالک ہے۔ آج کی جاہلیت کو بہتر پتہ چلا ہے کہ سمع و بصر کی خلقت ایسی نہیں ہے کہ ایک چیز سے دوسری چیز اتفاقاً جڑ گئی تو سماعت اور بصارت کی قوت وجود میں آگئی بلکہ ان کی خلقت کے اندر تہ بہ تہ پیچیدگیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی خلقت کے پیچھے ایک باشعور ذات کا ارادہ کار فرما ہے۔
۲۔ وَ مَنۡ یُّخۡرِجُ الۡحَیَّ: آیت کے مخاطب مشرکین ہیں جو اس بات کو مانتے تھے کہ اللہ ہی بے جان سے جاندار اور جاندار سے بے جان پیدا کرتا ہے۔ جدید جاہلیت کو تو بہتر علم ہے کہ مردہ مادہ سے حیات پیدا کرنا اللہ ہی کا کام ہو سکتا ہے کیونکہ آج تک اس کی کوئی دوسری توجیہ سامنے نہیں آئی۔ اگر کوئی دوسری توجیہ سامنے آتی بھی ہے تو وہ اس راز کا انکشاف ہو گا کہ اللہ کس طرح مردہ مادہ سے حیات پیدا کرتا ہے اور حیات سے مردہ مواد پیدا کرنا بھی اسی کا کام ہے۔
۳۔ وَ مَنۡ یُّدَبِّرُ الۡاَمۡرَ: کائنات کے تمام امور کی تدبیر کون کرتا ہے؟
۴۔ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ اللّٰہُ: مشرکین اس کے جواب میں کہیں گے: اللہ ان امور کی تدبیر کرتا ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشرکین اپنے معبودوں کو رازق اور مدبر سمجھتے ہیں۔ وہ جواب میں کیسے کہتے ہیں : اللہ رازق اور مدبر ہے؟
اس کی ایک توجیہ یہ ہے کہ مشرکین بھی منتہائے تدبیر اللہ تک پہنچا دیتے ہیں۔ اپنے معبودوں کی پوجا اللہ سے تقرب حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں :
مَا نَعۡبُدُہُمۡ اِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی اللّٰہِ زُلۡفٰی ۔۔ (۳۹ زمر: ۳)
ہم انہیں صرف اس لیے پوجتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کا مقرب بنا دیں۔
دوسری توجیہ شیخ طوسیؒ کی عبارت میں ہے:
و لیس جواب ذلک لمن انصف ولم یکابر الا ان یقول: اللّٰہ الفاعل لجمیع ذلک ۔ ( التبیان۔ ذیل آیہ)
انصاف کرنے اور زور گوئی نہ کرنے والوں کا جواب یہی ہے: اللہ ہی ان امور کا انجام دینے والا ہے۔
مع ذلک انی اعترف بانی لھم افہم الآیۃ حق الفہم ۔
اہم نکات
۱۔ اللہ کے رازق، مالک، محی اور مدبر ہونے پر ایمان کا لازمہ خوف خدا ہے: اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ۔۔۔
۲۔ انسانی ادراکات بھی اللہ کی ملکیت ہیں : مَّنۡ یَّمۡلِکُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ ۔۔۔۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 4 صفحہ 37)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button