حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی حیات طیبہ پر ایک نظر (حصہ اول)
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی، امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھوپھی محترمہ ہیں۔آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ہجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔آپ امام موسی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ممتاز شیعہ عالم شیخ عباس قمی اس بارے میں لکھتے ہیں:
امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت سیدہ جلیلہ معظمہ فاطمہ بنت امام موسی کاظم علیہا السلام تھیں جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں۔
آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں امام ہشتم علی رضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔ اگرچہ زمانے نے امام موسی کاظم علیہ السلام کی مسلسل گرفتاریوں اور شہادت کے ذریعے آپ سے باپ کی محبت چھین لی تھی لیکن بڑے بھائی کے شفقت بھرے ہاتھوں نے آپ کے دل پر غم کے بادل نہیں آنے دیئے۔ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے سخت مانوس تھیں،انہیں کے پر مہر دامن میں پرورش پائی اور علم و حکمت اور پاکدامنی اور عصمت کے اس بے کراں خزانے سے بہرہ مند ہوئیں۔آپ کے مزید القاب میں طاہرہ، عابدہ، رضیہ، تقیہ، عالمہ، محدثہ، حمیدہ اور رشیدہ شامل ہیں جو اس عظیم خاتون کے فضائل اور خوبیوں کا ایک گوشہ ظاہر کرتے ہیں۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شیعیان اہل بیت کا ایک گروہ کافی دور سے امام موسی کاظم علیہ السلام کی زیارت کیلئے آیا لیکن آپ شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اس گروہ میں شامل افراد امام علیہ السلام سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتے تھے کہ جو انہوں نے لکھ کر حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کو سونپ دیئے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ان تمام سوالات کے جوابات لکھ کر دوسرے دن انہیں واپس کر دیئے۔واپس جاتے ہوئے اس گروہ کی امام موسی کاظم علیہ السلام سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے اس واقعے کی خبر امام علیہ السلام کو دی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے وہ سوالات اور جوابات دکھاؤ۔ جب امام علیہ السلام نے ان سوالات اور جوابات کو دیکھا تو فرمایا:
” ابوھا فداھا ”
یعنی ایسی بیٹی کا باپ اس کے صدقے جائے۔
200ہجری قمری میں امام علی رضا علیہ السلام کو زبردستی مرو لائے جانے اور تقریباً ایک سال تک اہل بیت کا آپ سے بے خبر رہنے پر حضرت فاطمہ معصومہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اپنے بھائی کی خیریت سے واقفیت کی خاطر آپ 201 ہجری قمری میں مدینہ سے ایران کی طرف روانہ ہو گئیں۔ اس سفر میں آپ کے ساتھ جو پیش آیا اور آپ کے ساتھیوں کے بارے میں تفصیلی معلومات موجود نہیں ہیں لیکن تاریخ میں ذکر ہوا ہے کہ جب آپ ایران کے شہر "ساوہ” پہنچیں تو سخت بیمار ہو گئیں۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ وہ قریب ہی دوسرے شہر "قم” کا رخ کریں۔جب حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے قم آنے کی خبر سعد اشعری کے خاندان تک پہنچی تو انہوں نے آپ کا استقبال کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں میں سے ایک شخص موسی بن خزرج رات کو ہی اس مقصد کیلئے گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ وہ سب سے پہلے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور ان کی اونٹنی کی مہار تھام کر انہیں قم تک لے آیا۔
اہل قم کی طرف سے حضرت معصومہ کا پرتپاک استقبال:
علامہ مجلسی تاریخ قدیم سے نقل کرتے ہیں: صحیح قول یہ ہے کہ جب حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے ساوہ آنے اور ان کے بیمار ہونے کی خبر آل سعد [عرب اشعری شیعہ خاندان] کو ملی تو انہوں نے ساوہ جانے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو اپنے ساتھ قم لانے کا فیصلہ کیا۔ ان میں موسی بن خزرج بن سعد اشعری بھی موجود تھا۔ جب وہ ساوہ پہنچے تو موسی بن خزرج نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے اونٹ کی مہار کو تھام لیا اور قم تک لے آیا۔ وہ انہیں اپنے گھر لے گیا۔ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا تقریباً 16 یا 17 دن تک اس کے گھر میں رہیں اور پھر فوت ہو گئیں۔ چونکہ آپ کا روز شہادت 10 یا 12 ربیع الثانی ہے لہذا یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قم میں آپ 23 ربیع الاول 201 ہجری قمری کو داخل ہوئیں۔ قم کے اکثر لوگ اہل بیت سے محبت کرنے والے تھے لہذا حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے یہاں آنے پر انتہائی خوش ہوئے۔حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا جتنے دن زندہ رہیں اپنے بھائی امام علی رضا علیہ السلام کی جدائی میں روتی رہیں۔ موسی بن خزرج کے گھر میں ایک جگہ عبادت کیلئے مخصوص تھی جہاں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا عبادت کیا کرتی تھیں۔ یہ جگہ آج بھی موجود ہے اور وہاں پر ایک مسجد تعمیر کر دی گئی ہے۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی رحلت اور کفن و دفن:
جس جگہ پر ابھی حضرت معصومہ کی قبر مطہر ہے یہ اس زمانے میں "بابلان” کے نام سے پہچانی جاتی تھی اور موسی بن خزرج کے باغات میں سے ایک باغ پر مشتمل تھی۔ حضرت معصومہ کی وفات کے بعد ان کو غسل دیا گیا اور کفن پہنایا گیا۔ پھر انہیں اسی جگہ لایا گیا جہاں پر ابھی ان کی قبر مطہر ہے۔ آل سعد نے ایک قبر آمادہ کی۔ اس وقت ان میں اختلاف پڑ گیا کہ کون حضرت معصومہ کے بدن اقدس کو اس قبر میں ڈالے گا۔ آخرکار اس بات پر اتفاق ہوا کہ ان میں موجود ایک متقی اور پرہیزگار سید یہ کام کرے گا۔ جب وہ اس سید کو بلانے کیلئے جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ناگہان صحرا میں سے دو سوار آ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے چھپا رکھا تھا۔ وہ آئے اور حضرت معصومہ کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد انہیں دفن کر کے چلے گئے۔
کوئی بھی یہ نہیں جان سکا کہ وہ کون تھے۔ اس کے بعد موسی بن خزرج نے قبر مطہر کے اوپر کپڑے کا ایک چھت بنا دیا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کی صاحبزادی زینب قم تشریف لائیں تو انہوں نے حضرت معصومہ کی قبر پر مزار تعمیر کیا۔ کچھ علماء نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ بانقاب چہروں والے سوار حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی جواد علیہ السلام تھے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ انکی نماز جنازہ اور انکا دفن صرف معصوم ہستی ہی انجام دے سکتی ہے، لیکن کچھ ممتاز ہستیاں اس امر میں معصومین علیہم السلام کے ساتھ شریک ہیں۔ ان میں سے ایک شخصیت حضرت ابو الفضل العباس علمدار علیہ السلام کی ہے۔ حضرت عباس علمدار علیہ السلام کو حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے دفن کیا۔ جب ان کے ساتھیوں نے ان کو مدد کرنے کو کہا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:
"ان معنی یعیننی”
یعنی میرے ساتھ [فرشتگان اور ملکوتیان] ہیں جو میری اس کام میں مدد کر رہے ہیں۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی شخصیت اور خصوصیات:
قم میں باعظمت امامزادگان کی قبور کی تعداد تقریباً 400 ہے۔ ان سب کے درمیان وہ درخشان ستارہ جس کی روشنی سے قم کا آسمان روشن ہے اور وہ چاند جسکی روشنی کی وجہ سے تمام ستارے ماند پڑ گئے ہیں، شفیعہ محشر، کریمہ اہل بیت علیہم السلام، امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی قبر مطہر ہے۔”قاموس الرجال” کے مصنف علامہ حاج محمد تقی تستری لکھتے ہیں:امام موسی کاظم علیہ السلام کے تمام فرزندان میں امام علی رضا علیہ السلام کے علاوہ کوئی بھی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے ہم پلہ نہیں ہے۔عظیم محدث جناب شیخ عباس قمی حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں کے بارے میں لکھتے ہیں:جو معلومات ہم تک پہنچیں ہیں انکے مطابق ان میں سب سے افضل سیدہ جلیلہ معظمہ فاطمہ بنت موسی علیہا السلام ہیں جو معصومہ کے لقب سے معروف ہیں۔آپ کی شخصیت کے بہت سے فضائل میں سے چند کو ذکر کیا جا رہا ہے:
قیامت کے دن وسیع پیمانے پر محبان اہل بیت کی شفاعت:
شفاعت کا بالاترین درجہ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیؐ کے ساتھ مخصوص ہے کہ جس کو قرآن مجید میں "مقام محمود” کا نام دیا گیا ہے۔ اس شفاعت کی وسعت کو "ولسوف یعطیک ربک فترضی” میں بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح پیغمبر اکرمؐ کے خاندان کی دو خواتین کو بھی وسیع پیمانے پر شفاعت کا حق عطا کیا گیا ہے، ایک صدیقہ اطہر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور دوسری شفیعہ روز جزاء حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا ہیں۔حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی وسیع شفاعت کے بارے میں یہ روایت ہی کافی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ محشر کے دن امت محمدی کے گنہگار افراد کی شفاعت آپ سلام اللہ علیہا کے مہریہ میں شامل ہے۔روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی کے موقع پر جبرائیل خداوند کی طرف سے ایک ریشمی تختی لائے جس پر لکھا تھا:”خداوند نے امت محمدی کے گنہگار افراد کی شفاعت کو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مہریہ قرار دیا ہے”۔
یہ حدیث اہلسنت نے بھی نقل کی ہے کہ:”حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بعد وسیع پیمانے پر شفاعت کرنے میں کوئی خاتون شفیعہ محشر، حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا بنت امام موسی کاظم علیہ السلام کے ہم پلہ نہیں ہے”۔
امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:
"تدخل بشفاعتھا شیعتنا الجنۃ باجمعھم”
یعنی ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعیان بہشت میں داخل ہوں گے۔
عصمت:
اس روایت کے مطابق جو مرحوم سپہر نے کتاب "ناسخ” میں امام علی رضا علیہ السلام سے نقل کی ہے، حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کو امام علی رضا علیہ السلام نے معصومہ کا لقب عطا کیا ہے۔اس روایت کے مطابق امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:
"من زار المعصومۃ بقم کمن زارنی”
یعنی جس نے قم میں معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی۔اس روایت کو مرحوم محلاتی نے بھی نقل کیا ہے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ عصمت چودہ معصومین علیہم السلام تک محدود نہیں ہے بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام اور فرشتے بھی معصوم ہیں اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور بارہ امام علیہم السلام کا "چودہ معصوم” کے طور پر معروف ہو جانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ گناہان کبیرہ اور صغیرہ سے محفوظ ہونے کے علاوہ ترک اولی، جو عصمت کے منافی نہیں ہے، سے بھی مبرا ہیں۔مرحوم مقرم اپنی با ارزش کتابوں "العباس” اور "علی اکبر” میں حضرت ابو الفضل العباس علمدار علیہ السلام اور حضرت علی اکبر علیہ السلام کے معصوم ہونے کے دلائل پیش کرتے ہیں۔ مرحوم نقدی اپنی کتاب "زینب الکبری” میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی عصمت کو ثابت کرتے ہیں۔ اسی طرح "کریمہ اہلبیت” کے مصنف حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی عصمت کے دلائل پیش کرتے ہیں۔ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا اسم مبارک "فاطمہ” ہے اور اپنی زندگی میں انہیں کبھی معصومہ کا لقب نہیں ملا، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا ان کو یہ لقب عطا کرنا، انکی عصمت پر دلیل ہے۔
3۔ فداھا ابوھا:
آیت اللہ سید نصر اللہ مستنبط کتاب "کشف اللئالی” سے نقل فرماتے ہیں کہ ایک دن کچھ شیعیان اہلبیت علیہم السلام مدینہ میں داخل ہوئے۔ ان کے پاس کچھ سوالات تھے جن کا جواب وہ امام موسی کاظم علیہ السلام سے لینا چاہتے تھے۔ امام علیہ السلام کسی کام سے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے سوالات لکھ کر امام علیہ السلام کے گھر دے دیئے کیونکہ وہ جلد واپس جانا چاہتے تھے۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا گھر میں موجود تھیں۔ آپ نے ان سوالات کو پڑھا اور انکے جواب لکھ کر انہیں واپس کر دئیے۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مدینہ سے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ مدینہ سے باہر نکلتے ہوئے اتفاق سے امام موسی کاظم علیہ السلام سے انکی ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ جب امام علیہ السلام نے انکے سوالات اور ان سوالات کے جوابات کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور تین بار کہا:”فداھا ابوھا” یعنی باپ اس پر قربان جائے، چونکہ اس وقت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی عمر بہت کم تھی لہذا یہ واقعہ آپ کے بے مثال علم اور دانائی کو ظاہر کرتا ہے۔
4۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا مزار، مزار حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی تجلی گاہ:
اس سچے خواب کے مطابق جو مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی اپنے والد بزرگوار مرحوم حاج سید محمود مرعشی سے نقل کرتے ہیں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی قبر مطہر اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی گم شدہ قبر کی تجلی گاہ ہے۔ وہ مرحوم اس کوشش میں تھے کہ جس طرح بھی ہو حضرت فاطمہ زہرا کی قبر کی جگہ معلوم کریں۔ اسی مقصد کیلئے انہوں نے ایک چلہ شروع کیا اور چالیس دن تک اسے جاری رکھا۔ چالیسویں دن انہیں حضرت امام باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ امام علیہ السلام نے انہیں فرمایا:
"علیک بکریمۃ اھل البیت”
یعنی تم کریمہ اہلبیت سلام اللہ علیہا کی پناہ حاصل کرو۔انہوں نے امام علیہ السلام سے عرض کی:”جی ہاں، میں نے یہ چلہ اسی لیے کاٹا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی قبر کی جگہ معلوم کر سکوں اور اسکی زیارت کروں”۔امام علیہ السلام نے فرمایا: "میرا مقصود قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی قبر ہے”۔پھر فرمایا: "کچھ مصلحتوں کی وجہ سے خداوند نے یہ ارادہ کیا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی قبر کسی کو معلوم نہ ہو اور چھپی رہے لہذا اس نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی قبر کو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر کی تجلی گاہ قرار دیا ہے۔ وہ عظمت جو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر کیلئے تھی، خداوند نے وہی عظمت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی قبر کو عطا کی ہے تا کہ لوگ حضرت فاطمہ زہرا کی قبر کی زیارت کے ثواب سے محروم نہ رہ جائیں”۔
5۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی پیش گوئی:
امام جعفر صادق علیہ السلام قم کے مقدس ہونے کے بارے میں شہر ری کے اہالی سے ایک مشہور حدیث میں فرماتے ہیں:
میرے فرزندان میں سے ایک خاتون جس کا نام فاطمہ ہو گا اور وہ موسی بن جعفر کی بیٹی ہو گی، قم میں وفات پائے گی، اس کی شفاعت سے تمام شیعیان اہلبیت بہشت میں داخل ہوں گے”۔راوی کہتا ہے: "میں نے یہ حدیث اس وقت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنی تھی جب امام موسی کاظم علیہ السلام بھی ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے”۔امام جعفر صادق علیہ السلام کی قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے بارے میں آپ کے والد ماجد کی ولادت سے پہلے پیش گوئی کرنا انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے عظیم مقام کی عکاسی کرتی ہے۔
6۔ شہر قم کے مقدس ہونے کا راز:
بہت سی احادیث میں قم کے مقدس ہونے کا ذکر ہوا ہے اور یہ کہ اس شہر کی تصویر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو چوتھے آسمان پر دکھائی گئی۔امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے قم کے رہنے والوں پر درود بھیجا اور وہاں پر جبرائیل کے قدموں کے نشان ہونے کی خبر دی ہے۔امام جعفر صادق علیہ السلام نے قم کو اہلبیت علیہم السلام کا گھر کہا ہے اور اسکی مٹی کو پاک و پاکیزہ جانا ہے۔امام موسی کاظم علیہ السلام نے قم کو آل محمد علیہم السلام کا آشیانہ کہا ہے اور خبر دی ہے کہ بہشت کا ایک دروازہ اہالی قم سے مخصوص ہو گا۔امام علی نقی علیہ السلام نے قم کے لوگوں کو "مغفور لھم” یعنی بخشے گئے لوگ سے تعبیر کیا ہے اور امام حسن عسکری علیہ السلام نے قم کے لوگوں کی حسن نیت کو سراہا اور انکی اچھے الفاظ میں تعریف کی ہے۔اسی طرح کی بہت سے احادیث جو ائمہ معصومین علیہم السلام سے ہم تک پہنچیں ہیں اس سرزمین اور وہاں پر رہنے والوں کی عظمت اور فضیلت کو ظاہر کرتی ہیں۔ہمیں سوچنا چاہیے کہ اس عظمت اور فضیلت کا راز کیا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی پیش گوئی والی حدیث اس عظمت اور فضیلت کا راز کھولتی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ فضیلت اور عظمت ریحانہ پیغمبر، کریمہ اہلبیت، خاتون اسلام حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے مبارک پر نور وجود کی وجہ سے ہے۔
7۔ امام علی رضا علیہ السلام کی اکلوتی بہن:
امام موسی کاظم علیہ السلام کی زوجہ گرامی جناب نجمہ خاتون نے دو بچوں کو ہی پالا جن کے نام امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا ہیں۔محمد بن حریر طبری، پانچویں صدی ہجری کے ایک ممتاز شیعہ عالم دین، نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 25 سال تک امام علی رضا علیہ السلام جناب نجمہ خاتون کی اکلوتی اولاد تھے۔ ایک چوتھائی صدی کے انتظار کے بعد سر انجام ایک تابناک ستارہ جناب نجمہ خاتون کے دامن میں طلوع ہوا جو امام علی رضا علیہ السلام کیلئے خوشی کا باعث تھا اور آپ نے اپنے تمام برادرانہ عواطف ان پر نچھاور کر دیئے۔ ان بہن بھائیوں کے درمیان گہری محبت پائی جاتی تھی۔امام موسی کاظم علیہ السلام کے معجزات میں سے ایک واقعہ میں جس میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا کردار بھی ہے، جب نصرانی ان سے پوچھتا ہے کہ آپ کون ہیں تو وہ فرماتی ہیں:
"انا المعصومہ اخت الرضا”
یعنی میں معصومہ امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ ہوں۔اس تعبیر سے ان کے دل میں اپنے بھائی کیلئے پائی جانے والی بے حد محبت کو سمجھا جا سکتا ہے۔
https://alhassanain.org/urdu