امام محمد باقر علیہ السلام کے علمی مکتب کی تعلیمات کا پس منظر

حضرت آیۃاللہ العظمیٰ مکارم شیرازی
لقب باقر العلوم علیہ السلام کے مفہوم میں غور وفکر
یقینا امام باقر علیہ السلام نے لقب باقرالعلوم کو اپنے آپ سے مخصوص کیا ہے کیونکہ آپؑ نے مختلف علوم کو واضح کیا ہے اور تمام علوم جیسے تفسیر، عقائد، فقہ اور اخلاق میں اسلامی نظریات کو بیان کیا ہے اور آپؑ نے اس سلسلہ میں اس قدر احادیث بیان کی ہیں کہ فقط محمد بن مسلم نے تیس ہزار حدیث، امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کی ہیں (٢)۔
امام محمد باقر علیہ السلام کی عظیم میراث، اسلامی علوم کی وضاحت
افسوس کہ بہت سی احادیث جو اہل بیت علیہم السلام کا ذخیرہ تھیں، ہم تک نہیں پہنچی ہیں، اگرچہ ان احادیث کو جمع کرنے میں بہت زیادہ زحمت اٹھائی گئی تھی (٣)، لیکن شیعوں کی اکثر احادیث جن کی تعداددسیوں ہزار سے زیادہ ہے، فقط پانچویں اور چھٹے امام یعنی محمد بن علی الباقر اور جعفر بن محمد الصادق علیہما السلام سے نقل ہوئی ہیں اور ان میں سے ایک حصہ آٹھویں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں راہنما ایسے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے تھے جب دشمنوں کا فشار بہت کم تھا اور بنی امیہ و بنی عباس آپس میں جنگ کر رہے تھے، جس کی وجہ سے ان تینوں اماموں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث کو اپنے آباء و اجداد سے نقل کرکے ہم تک منتقل کی ہیں (٤)۔
فقہ شیعہ، امام محمد باقر علیہ السلام کی تعلیمات کی مرہون منت ہے
اگر آج ہماری فقہ کو قیاس کی ضرورت نہیں ہے تو اس کی وجہ یہی احادیث ہیں جو امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام سے نقل ہوئی ہیں اور ہمارے سامنے علم کا دروازہ کھلا ہوا ہے، جبکہ دوسروں کے سامنے ان علوم کا دروازہ بند ہے اور اسی وجہ سے وہ لوگ قیاس اور ظنون کی طرف چلے گئے ہیں۔
لہذا علم کی اس شکوفایی کو امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام کی تعلیمات میں تلاش کرنا چاہیے کیونکہ ہم شیعہ اور اہل تسنن کی جو بھی کتاب کھولتے ہیں اس میں انہی دو اماموں کی احادیث سے روبرو ہوتے ہیں، ان دونوں اماموں نے اصول دین کی بنیادوں کو بہت ہی اچھے طریقہ سے بیان کیا ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام کے علمی مناظرات
امام محمد باقر علیہ السلام نے اسلامی تعلیمات کی ترویج اور شیعی معارف کو وسعت دینے کیلئے دوسرے توحیدی ادیان سے علمی مناظرات انجام دئیے ہیں۔ جیسا کہ تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ جب امام کو شام کے سفر پر مجبور کیا گیا اور آپؑ شام پہنچ گئے اور پھر شہر دمشق سے واپس روانہ ہونے لگے تو لوگوں کے افکار کو بیدار کرنے اور اپنے علم کو آشکار کرنے کا بہت اچھا موقع فراہم ہوا جس کی وجہ سے شام کے لوکوں کے افکار تبدیل ہوگئے (٥)۔
واقعہ یہ تھا کہ ہشام کے پاس ا مام محمد باقر علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرنے کا کوئی ثبوت نہیں تھا، لہذا وہ امام کے مدینہ واپس جانے پر راضی ہوگیا جیسے ہی امام اپنے فرزند کے ساتھ قصر خلافت سے خارج ہوئے تو ناگاہ راستہ میں ایک مقام پرمجمع کثیرنظرآیا،آپؑ نے تفحص حال کیاتومعلوم ہواکہ نصاری کاایک راہب ہے جوسال میں صرف ایک باراپنے معبدسے نکلتاہے آج اس کے نکلنے کادن ہے حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام اس مجمع میں عوام کے ساتھ جاکربیٹھ گئے، راہب جوانتہائی ضعیف تھا، مقررہ وقت پربرآمدہوا،اوراس نے چاروں طرف نظردوڑانے کے بعدامام علیہ السلام کی طرف مخاطب ہوکرکہا:
١۔ کیا آپؑ ہم میں سے ہیں، فرمایا: میں امت محمدیہ سے ہوں۔
٢۔آپ علماء سے ہیں یاجہلاء میں سے ہیں، فرمایا: میں جاہل نہیں ہوں۔
٣۔ آپ مجھ سے کچھ دریافت کرنے کے لیے آئے ہیں؟ فرمایا: نہیں۔
٤۔ جب کہ آپ عالموں میں سے ہیں کیا؟میں آپ سے کچھ پوچھ سکتاہوں، فرمایا: ضرورپوچھیے۔
یہ سن کر راہب نے سوال کیا:
١۔ شب وروزمیں وہ کونساوقت ہے، جس کاشمارنہ دن میں ہے اورنہ رات میں، فرمایا: وہ سورج کے طلوع سے پہلے کاوقت ہے جس کاشماردن اوررات دونوں میں نہیں، وہ وقت جنت کے اوقات میں سے ہے اورایسامتبرک ہے کہ اس میں بیماروں کوہوش آجاتاہے، دردکوسکون ہوتاہے جورات بھرنہ سوسکے اسے نیندآتی ہے یہ وقت آخرت کی طرف رغبت رکھنے والوں کے لیے خاص الخاص ہے۔
٢۔ آپ کاعقیدہ ہے کہ جنت میں پیشاب وپاخانہ کی ضرروت نہ ہوگی؟ کیا دنیامیں اس کی مثال ہے؟ فرمایابطن مادرمیں جوبچے پرورش پاتے ہیں ان کافضلہ خارج نہیں ہوتا۔
٣۔ مسلمانوں کاعقیدہ ہے کہ کھانے سے بہشت کامیوہ کم نہ ہوگااس کی یہاں کوئی مثال ہے؟ فرمایاہاں ایک چراغ سے لاکھوں چراغ جلائے جاتے ہیں تب بھی پہلے چراغ کی روشنی میں کمی نہیں ہوتی۔
٤۔ وہ کون سے دوبھائی ہیں جوایک ساتھ پیداہوئے اورایک ساتھ مرے لیکن ایک کی عمرپچاس سال کی ہوئی اوردوسرے کی ڈیڑھ سوسال کی، فرمایا”عزیز اورعزیرپیغمبرہیں یہ دونوں دنیامیں ایک ہی روزپیداہوئے اورایک ہی روزمرے پیدائش کے بعدتیس برس تک ساتھ رہے پھرخدانے عزیرنبی کومارڈالا(جس کاذکرقرآن مجیدمیں موجودہے) اورسوبرس کے بعدپھرزندہ فرمایا اس کے بعدوہ اپنے بھائی کے ساتھ اورزندہ رہے اورپھرایک ہی روزدونوں نے انتقال کیا۔
یہ سن کرراہب اپنے ماننے والوں کی طرف متوجہ ہوکرکہنے لگاکہ جب تک یہ شخص شام کے حدودمیں موجودہے میں کسی کے سوال کاجواب نہ دوں گاسب کو چاہیے کہ اسی عالم زمانہ سے سوال کرے اس کے بعدوہ مسلمان ہوگیا۔
یہ بات بہت تیزی سے دمشق میں پھیل گئی اور شام کے لوگ بہت زیادہ خوش ہوگئے، ہشام کو امام باقر علیہ السلام کی افتخار آمیز کامیابی سے خوش ہونا چاہیے تھا لیکن وہ پہلے سے بھی زیادہ امام سے ڈرنے لگا اور اس نے ظاہر سازی کو برقرار رکھنے کیلئے بہت سے ہدایا اور تحائف بھیجے، ساتھ ہی ساتھ حکم دیا کہ آج ہی دمشق سے چلے جائیں (٦)۔
حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی علمی حیثیت
کسی معصوم کی علمی حیثیت پرروشنی ڈالنی بہت دشوارہے، کیونکہ معصوم اورامام زمانہ کوعلم لدنی ہوتاہے، وہ خداکی بارگاہ سے علمی صلاحیتوں سے بھرپورمتولدہوتاہے،حضرت امام محمدباقر علیہ السلام چونکہ امام زمانہ اورمعصوم ازلی تھے اس لیے آپؑ کے علمی کمالات،علمی کارنامے اورآپؑ کی علمی حیثیت کی وضاحت ناممکن ہے تاہم ان واقعات میں سے کچھ پیش خدمت ہے جن پرعلماء رسائی حاصل کرسکے ہیں۔
علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ حضرت کاارشادہے کہ” علمنامنطق الطیرواوتینامن کل شئی ” ہمیں پرندوں تک کی زبان سکھاگئی ہے اورہمیں ہرچیزکاعلم عطاکیاگیاہے۔ (مناقب شہرآشوب جلد٥ ص١١)
روضۃ الصفاء میں ہے کہ ؛خداکی قسم ہم زمین اورآسمان میں خداوندعالم کے خازن علم ہیں اورہم یہ شجرہ نبوت اورمعدن حکمت ہیں، وحی ہمارے یہاں آتی رہی اورفرشتے ہمارے یہاں آتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیاکے ظاہری ارباب اقتدارہم سے جلتے اورحسدکرتے ہیں، لسان الواعظین میں ہے کہ ابومریم عبدالغفار کاکہناہے کہ میں ایک دن حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوکرعرض پردازہواکہ:
١۔ مولاکونسااسلام بہترہےفرمایا جس سے اپنے برادرمومن کوتکلیف نہ پہنچے ٢۔ کونساخلق بہترہے فرمایاصبراورمعاف کردینا ٣۔ کون سامومن کامل ہے فرمایاجس کے اخلاق بہترہوں ٤۔ کون ساجہادبہترہے، فرمایا س میں اپناخون بہہ جائے ٥۔ کونسی نمازبہترہے، فرمایاجس کاقنوت طویل ہو، ٦۔ کون سا صدقہ بہترہے، فرمایاجس سے نافرمانی سے نجات ملے، ٧۔ بادشاہان دنیاکے پاس جانے میں آپ کی کیارائے ہے، فرمایامیں اچھانہیں سمجھتا،
٨۔ پوچھاکیوں؟ فرمایاکہ اس لیے کہ بادشاہوں کے پاس کی آمدورفت سے تین باتیں پیداہوتی ہیں : ١۔ محبت دنیا، ٢۔ فراموشی مرگ، ٣۔ قلت رضائے خدا۔
پوچھاپھرمیں نہ جاؤں، فرمایا میں طلب دنیاسے منع نہیں کرتا، البتہ طلب معاصی سے روکتاہوں۔
علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے اوراس کی شہرت عامہ ہے کہ آپ علم وزہداورشرف میں ساری دنیاسے فوقیت لے گئے ہیں آپ سے علم القرآن، علم الآثار،علم السنن اورہرقسم کے علوم، حکم،آداب وغیرہ کے مظاہرہ میں کوئی نہیں ہوا،بڑے بڑے صحابہ اورنمایاں تابعین،اورعظیم القدرفقہاء آپ کے سامنے زانوئے ادب تہ کرتے رہے آپ کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جابرین عبداللہ انصاری کے ذریعہ سے سلام کہلایاتھا اوراس کی پیشین گوئی فرمائی تھی کہ یہ میرافرزند”باقرالعلوم” ہوگا،علم کی گتھیوں کوسلجھائے گا کہ دنیاحیران رہ جائے گی۔ (اعلام الوری ص١٥٧،علامہ شیخ مفید)
علامہ شبلنجی فرماتے ہیں کہ علم دین، علم احادیث،علم سنن اورتفسیرقرآن وعلم السیرت وعلوم وفنون، ادب وغیرہ کے ذخیرے جس قدرامام محمدباقرعلیہ السلام سے ظاہرہوئے اتنے امام حسینؑ اورامام حسین کی اولادمیں سے کسی سے ظاہرنہیں ہوئے۔ (کتاب الارشاد ص٢٨٦،نورالابصار ص١٣١،ارجح المطالب ص٤٤٧۔)
علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کے علمی فیوض وبرکات اورکمالات واحسانات سے اس شخص کے علاوہ جس کی بصیرت زائل ہوگئی ہو، جس کادماغ خراب ہوگیاہواورجس کی طینت وطبیعت فاسدہوگئی ہو،کوئی شخص انکارنہیں کرسکتا،اسی وجہ سے آپ کے بارے میں کہاجاتاہے کہ آپ ”باقرالعلوم” علم کے پھیلانے والے اورجامع العلوم ہیں، آپ کادل صاف، علم وعمل روشن وتابندہ نفس پاک اورخلقت شریف تھی، آپ کے کل اوقات اطاعت خداوندی میں بسرہوتے تھے۔
عارفوں کے قلوب میں آپ کے آثارراسخ اورگہرے نشانات نمایاں ہوگئے تھے، جن کے بیان کرنے سے وصف کرنے والوں کی زبانیں گونگی اورعاجزوماندہ ہیں آپ کے ہدایات وکلمات اس کثرت سے ہیں کہ ان کااحصاء اس کتاب میں ناممکن ہے۔(صواعق محرقہ ص١٢٠)
علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ امام محمدباقرعلامہ زمان اور سردار کبیرالشان تھے آپ علوم میں بڑے تبحر اور وسیع الاطلاق تھے۔ (وفیات الاعیان جلد١ ص٤٥٠) علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ آپ بنی ہاشم کے سردار اور متبحر علمی کی وجہ سے باقر مشہور تھے آپ علم کی تہ تک پہنچ گئے تھے، اور آپ نے اس کے وقائق کواچھی طرح سمجھ لیاتھا۔(تذکرةالحفاظ جلد١ص١١١)
علامہ شبراوی لکھتے ہیں کہ امام محمدباقرکے علمی تذکرے دنیامیں مشہور ہوئے اورآپ کی مدح و ثناء میں بکثرت شعر لکھے گئے، مالک جہنی نے یہ تین شعر لکھے ہیں: جب لوگ قرآن مجید کا علم حاصل کرناچاہیں تو پورا قبیلہ قریش اس کے بتانے سے عاجزرہے گا،کیونکہ وہ خود محتاج ہے اور اگر فرزند رسول امام محمد باقر کے منہ سے کوئی بات نکل جائے تو بے حد و حساب مسائل و تحقیقات کے ذخیرے مہیا کردیں گے یہ حضرات وہ ستارے ہیں جو ہر قسم کی تاریکیون میں چلنے والوں کے لیے چمکتے ہیں اور ان کے انوار سے لوگ راستے پاتے ہیں۔ (الاتحاف ص٥٢،وتاریخ الائمہ ص٤١٣)
علامہ ابن شہرآشوب کابیان ہے کہ صرف ایک راوی محمدبن مسلم نے آپ سے تیس ہزارحدیثیں روایت کی ہیں۔ (مناقب جلد٥ ص١١)
آپ کے بعض علمی ہدایات وارشادات
علامہ محمدبن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ جابرجعفی کابیان ہے کہ میں ایک دن حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام سے ملاتوآپؑ نے فرمایا: اے جابرمیں دنیاسے بالکل بے فکر ہوں کیونکہ جس کے دل میں دین خالص ہو وہ دنیا کو کچھ نہیں سمجھتا، اورتمہیں معلوم ہوناچاہئے کہ دنیاچھوڑی ہوئی سواری اتارا ہوا کپڑا اور استعمال کی ہوئی عورت ہے، مومن دنیاکی بقاسے مطمئن نہیں ہوتا اوراس کی دیکھی ہوئی چیزوں کی وجہ سے نورخدااس سے پوشیدہ نہیں ہوتا مومن کوتقوی اختیارکرناچاہئے کہ وہ ہروقت اسے متنبہ اوربیدارکھتاہے سنودنیاایک سرائے فانی ہے "نزلت بہ وارتحلت منہ” اس میں آناجانالگارہتاہے آج آئے اورکل گئے اوردنیاایک خواب ہے جوکمال کے ماننددیکھی جاتی ہے اورجب جاگ اٹھے توکچھ نہیں …
جوخوشحالی میں ساتھ دے اورتنگ دستی میں دوررہے، وہ تمہارابھائی اوردوست نہیں ہے۔ (مطالب السؤل ص٢٧٢)
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام نے فرمایاکہ جب کوئی نعمت ملے توکہوالحمدللہ اورجب کوئی تکلیف پہنچے تو کہو "لاحول ولاقوة الاباللّٰہ” اورجب روزی تنگ ہوتوکہواستغفراللّٰہ۔
امام محمد باقر علیہ السلام کے علمی مکتب میں شیعوں کی اہم خصوصیات
امام محمد باقر علیہ السلام ایک روایت میں فرماتے ہیں: قال الامام الباقر علیہ السلام: قال الامام الباقر عليه السلام: «يَا مُيَسِّرُ أَلَا اخْبِرُكَ بِشِيعَتِنَا قُلْتُ: بَلى جُعِلْتُ فِداكَ قَالَ: إِنَّهُمْ حُصُونٌ حَصِينَةٌ و صُدُورٌ أمِيْنَةٌ وَ أَحْلَامٌ وَزِيْنَةٌ لَيْسُوا بالمَذِيعِ البَذِرِ وَلَا بِالجُفَاتِ المُرَاعِيْنَ رُهْبَانٌ بِالْلَيلِ اسُدٌ بِالْنَهارِ” (٧)۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: اے میسر (٨) کیا میں تمہارے سامنے شیعوں کی خصوصیات بیان کروں، میسر کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان ہوجائوں بیان فرمائیے، امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ محکم قلعے، امانتدار سینے اور صاحبان عقل ہیں (٩)۔ یہ لوگوں کے درمیان غلط باتیں شائع نہیں کرتے، رازوں کو فاش نہیں کرتے، خشک و خشن اور نقصان پہنچانے والے نہیں ہیں، یہ رات میں عبادت اور دن میں شیر ہیں۔
یہ حدیث بہت مختصر ہے جس میں شیعوں کے سات صفات بیان ہوئے ہیں اور اس میں بہت سارے مطالب پوشیدہ ہیں۔
١۔ محکم قلعے
دشمنوں کے مقابلہ میں شیعوں کو محکم اور مستدل ہونا چاہئے، آج کے زمانہ میں جب دنیا کی تہذیبی اور ثقافتی حالت بہت خراب ہوگئی ہے اور ہماری جوان نسل پریشان ہے، کیا ہم نے ایسا راستہ اختیار کیا ہے جس سے اپنے جوانوں کو قوی کرسکیں؟ اگر ہم جراثیم کو ختم نہیں کرسکتے تو اپنے آپ کو قوی کرنا چاہئے۔
٢۔ امانتدار، ٣۔ عاقل اور ٤۔ راز دار
ائمہ علیہم السلام کے زمانہ میں آپ کو ایک اہم شکایت یہ تھی کہ بعض شیعہ ہمارے رازوں کو فاش کرتے ہیں۔ راز سے مراد وہ مقام مرتبہ ہے جو ائمہ علیہم السلام کو ہے جیسے علم غیب، قیامت کے روز شفاعت، علوم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے امانتدار، شیعوں کے اعمال کے شاہد و ناظر اور معجزات۔ یہ ایسے مسائل تھے جن کو عام لوگ اور دشمن درک کرنے پرقادر نہیں تھے، لیکن بعض سادہ لوح شیعہ جس جگہ بھی بیٹھتے تھے، سب چیزیں بیان کردیتے تھے (١٠) اور اس کی وجہ سے اختلاف اور عداوت ایجاد ہوتی تھی، اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے فرمایا: ہمارے شیعوں کے سینوں میں امانتیں پوشیدہ ہیں، وہ جو باتیں بیان کرتے ہیں ان کی وجہ سے اختلاف ایجاد نہیں ہوتا (١١)۔
ان سے بدتر وہ غلو کرنے والے ہیں جو ہمارے زمانہ میں پیدا ہوگئے ہیں جو ولایت کے بہانہ سے کفر اور غلط تعبیریں ہمارے (اہل بیت علیہم السلام ) کے بارے میں بیان کرتے ہیں جن سے ائمہ ہرگز راضی نہیں ہیں، ہمیں ان غلو کرنے والوں سے ہشیار رہنے کی ضرورت ہے، ان گروہ میں دو عیب پائے جاتے ہیں، ایک عیب یہ ہے کہ اپنے آپ کو نابود کررہے ہیں، یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم خدا کے صفات کو ائمہ علیہم السلام یا حضرت زینب علیہا السلام یا شہدائے کربلا کیلئے بیان کریں گے تو یہ عین ولایت ہے اور ان کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ ہمارا زمانہ میڈیا اور شوشل میڈیا کا ہے، اگر آج صبح کوئی خبر صادر ہوتی ہے، ایک گھنٹہ بعد پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے، یہ ان غلو آمیز کلمات اور غلط باتوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتشر کرتے ہیں اور شیعوں کے دامن پر بہت بڑا داغ لگاتے ہیں، یہ شیعوں کو کافر کہلواتے ہیں اور پھر وہ شیعوں کو قتل کرنا شروع کردیتے ہیں، یہ نادان لوگ نہیں جانتے کہ ان کی باتوں سے دوسری جگہ پر شیعوں کا قتل عام ہوتا ہے۔
افسوس ان نادان اور جاہل انسانوں پر، افسوس ہے اس زمانہ پر جب جاہل، بے خبر اور نادان لوگوں کے ہاتھوں میں مجالس کی مہار آجائے، ہمیں مجالس کے افتخارات ان جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں دینا چاہئے (١٢)۔
٥۔ محبت
شیعہ شدت پسند نہیں ہیں، بلکہ مہر و محبت اور حسن سلوک سے کام لیتے ہیں، شیعوں میں علی بن ابی طالب اور تمام ائمہ ہدی کی روح پائی جاتی ہے، یہاں تک کہ یہ اپنے دشمنوں سے بھی محبت سے کام لیتے ہیں (١٣)۔
٦ و ٧۔ راتوں میں بیدار اور شجاع ہیں
شیعہ ریا کار نہیں ہیں اور ان میں دو مختلف حالتیں جمع ہوگئی ہیں، اگر کوئی ان کی راتوں کی عبادت کو دیکھے تو سمجھیں گے کہ یہ زاہد دنیا ہیں اور امور زندگی میں ضعیف ہیں، لیکن دن میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ اجتماعی میدان میں شیروں کی طرح حاضر ہوتے ہیں۔
امام علیہ السلام نے اپنی اس حدیث میں شیعوں کو صاحبان عقل اور وزین اشخاص بیان کئے ہیں، لہذا معظم لہ نے اپنے نظریات میں شیعوں کو پانچ قسموں میں تقسیم کیا ہے:
١۔ جغرافیائی شیعہ
جو لوگ شیعہ نشین ملک میں پیدا ہوتے ہیں اور مردم شماری کے لحاظ س وہ اس ملک کے لوگ شمار ہوتے ہیں۔
٢۔ میراث کے لحاظ سے شیعہ
جن کے ماں اور باپ شیعہ تھے اور اپنے شیعہ والدین کی آغوش میں پروان چڑھے ہیں (١٤)۔
٣۔ لفظی شیعہ
جو زبان سے کہتے ہیں کہ ہم علی بن ابی طالب کے شیعہ ہیں، لیکن عمل میں وہ کچھ بھی نہیں ہیں (١٥)۔
٤۔ سطحی شیعہ
وہ شیعہ جن کے اعمال بہت نیچے ہیں اور وہ شیعوں کی گہرائی تک نہیں پہنچے ہیں، شیعوں سے انہوں نے عزاداری، توسلات اور اسی طرح کی چیزیں حاصل کی ہیں، کہاں سے معلوم کہ یہ شیعہ ہیں؟ کیا اس وجہ سے کہ وہ ایام محرم میں سینہ زنی کرتے ہیں، مجلسوں میں شریک ہوتے ہیں اور شیعوں کی مسجدوں میں جاتے ہیں؟ البتہ ہمارا قصد یہ نہیں ہے کہ ہم ان کاموں کو کم اہمیت بتائیں، لیکن شیعوں کا یہ گروہ فقط اسی کو سمجھا ہے، لیکن رھبان باللیل، اسد بالنھار، احلام وزینة و صدور امینة ” جیسے صفات ان کے پاس سے بھی نہیں گزرے ہیں (١٦)۔
٥۔ واقعی شیعہ، اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کو حاصل کرنے والے ہیں
حقیقی شیعہ وہ ہیں جو الہی معارف اور اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات سے آشنا ہیں اور ان کے صفات وہ ہیں جو اس روایت میں بیان ہوئے ہیں (١٧)۔
اہل تسنن کے بزرگ علماء بھی امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے اصحاب اور شاگردوں کے شاگرد ہیں جیسے ابواسحاق، ابراہیم بن محمد بن ابویحیی وغیرہ اور وہ جو ہمیشہ تعصب سے بہت دور رہے ہیں جیسے شافعی، ابن صبھانی اور دیگر علماء (١٨ و ١٩)۔
منابع و مآخذ:
تنظیم و ترتیب اور تحقیق ایه اللہ العظمی مکارم شیرازی کے دفتر کی سایٹ کی طرف سے اہل قلم کی ایک جماعت
دفتر حضرت ایه اللہ العظمی مکارم شیرازی دام ظلہ www.makarem.ir
حوالہ جات:
٢۔ فقہ کے درس خارج میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان (٢٢/٨/١٣٨٩)۔
٣۔ گزشتہ حوالہ۔
٤۔ اعتقاد ما، صفحہ ١٢٢۔
٥۔ شام میں عیسائی اسقف کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام کے مناظرہ سے متعلق آیة اللہ العظمی مکارم کی مکتوب روایت (٢١/٧/٩٢)۔
٦۔ شام میں عیسائی اسقف کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام کے مناظرہ سے متعلق آیة اللہ العظمی مکارم کی مکتوب روایت (٢١/٧/٩٢)۔
٧۔ بحار الانوار، جلد ٦٥، صفحہ ١٨٠۔
٨۔ ” میسر بن عبدالعزیز”، امام محمد باقر علیہ السلام کے صحابی تھے جن کی رجالی کتابوں میں بھی توصیف بیان ہوئی ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے ان کے بارے میں ایک جملہ ارشاد فرمایا ہے جو میسر کے حالات میں ذکر ہوا ہے، امام فرماتے ہیں: ائے میسر کئی مرتبہ تمہاری موت آئی لیکن خداوندعالم نے تمہاری موت کو آگے بڑھا دیا، کیونکہ تم نے صلہ رحم کیا تھا اور ان کی مشکلات کو حل کردیا تھا۔
٩۔ مشکات ہدایت، صفحہ ١٥۔
١٠۔ مشکات ہدایت، صفحہ١٦۔
١١۔ گزشتہ حوالہ۔
١٢۔ مشکات ہدایت، صفحہ ١٧۔
١٣۔ مشکات ہدایت، صفحہ ١٧۔
١٤۔ مشکات ہدایت، صفحہ ١٨۔
١٥۔ مشکات ہدایت، صفحہ١٩۔
١٦۔ مشکات ہدایت، صفحہ١٩۔
١٧۔ گزشتہ حوالہ۔
١٨۔ رجال نجاشی، جلد ١، صفحہ ٨٥۔
١٩۔ دایرة المعارف فقہ مقارن، جلد ١، صفحہ ٢٤٢۔