کربلا اور ستم ناپذیری
تحریر: محمد حسین چمن آبادی
خداوند متعال نے روئے زمین پر بنی نوع انسان کی آفرینش کے ساتھ ہی دارین میں ان کی سعادت کے لیے خوبی ومحبوبی کے مجسم نمونے اور انہی کے صنف سے انبیاء ؑ اور معصومین ؑ کو اپنا وارث بناکر بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو طبقاتی تقسیم کی جکڑ بندیوں، مے خانے اور میکدے کے چکر ،کار فضول و خیال باطل کے جنجال، سود و زیاں سے عاری بتوں کی پرستش ، دشت خود فراموشی کے دلدل، شراب و کباب کے دلدادہ گی، رقابت و جنگی جنون کی دیوانگی اور ان جیسی دیگر بری خصلتوں سے نجات دلا کر الہٰی اقدار، آرام و آسائش، کفایت شعاری و سلیقہ مندی، صبر و تحمل، الفت و محبت، ایثار و فداکاری، غریب پروری و انسان دوستی اور ایک قادر مطلق خدا کی بندگی کی طرف ہدایت کرے۔ہر نبی نے اپنے سماج کے ظلم و ستم کی چکی میں پسے طبقوں کی رہائی کے لیے خون جگر دیکر سینہ زوروں، مکاروں اور ستمگروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ایک طرف صاحب فضل و کمال الہٰی نمائندے لوگوں کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے اپنی پوری طاقت کے ساتھ میدان عمل میں وارد ہوئے ہیں تو دوسری طرف شداد ونمرود، فرعون و ابو لہب شیطانی نمائندے بن کر غرور کے تاج سروں پہ سجائے ان کے آگے سدّ سکندری بنے کھڑے ہیں۔
سرکار انبیاء رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلّم نے اپنی مبارک زندگی ایک منظم اور زیبائی و دلکشی سے سر شار ، عظمت و رفعت کے بے پایان کنار اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے صرف کی، اور اس سماج کو قعر مذلّت سے نکال کر عزت و کرامت کے آسمان ہفتم تک پہنچایا، جس کے باعث عرب کے بدو وقتی طور پر تو آپس میں شیر وشکر ہوگئے۔ گذشتہ قبائلی رسم و رواج کو صحراے عرب میں دفن کر کے اس کی جگہ اسلامی قدروں کو رواج دیا، لیکن جونہی خدا کے نبی ان کے درمیان سے اٹھے ایک بار پھر یہ لوگ اپنی اصلیت کی طرف پلٹ گئے۔رسول خدا ص کے تمام تر تعلیمات کو پس پشت ڈال کر جاہلیت کی عادات و رسومات کو اپنانے لگے۔ خدا اور رسول کے قائم کردہ اسلامی معیار و کسوٹی بدل کر اپنے آبا ء و اجداد کے بنائے ہوئے جعلی کسوٹی کو اس سماج میں نافذ کرنے لگ گئے(المستدرك على الصحيحين:باب مناقب أمير المو منين ح 4556)۔رحمت للعالمین (ص)کی وصیت کو صرف دو ماہ کے اندر فراموش کر کے جامہ خلافت ایک قبیلے کے سرکردہ کے بدن پہ سجانے کے لیے سقیفہ میں سر جوڑ کے بیٹھ گئے(نہج البلاغہ خطبہ 3 )، کیونکہ عصر جاہلیت کی عصبیت دوبارہ اپنے جوبن پر تھی۔یکے بعد دیگرے رسول گرامی اسلام کے خود ساختہ جانشین بنتے چلےگئے یہاں تک کہ خلافت کو ملوکیت میں بدل کرایک نے شراب پی کر مستی کے عالم میں رسول خدا (ص) کی نبوت کو کھیل و تماشا سےتعبیر کیا "لعبت بنو هاشم بالملك فلا خبر جاء ولا وحي نزل "(مع الركب الحسيني من المدينة إلى المدينة ج1، 337)۔ سرکار انبیاء(ص) کی مسند پہ سوار ہو کر شراب پینا، بے جرم و خطا لوگوں کا خون بہانا ، نہایت بے شرمی سے فسق و فجور کا ارتکاب کرنا "یزید رجل فاسق، شارب الخمر، قاتل النفس المحترمة معلن بالفسق”(فرہنگ عاشورا ،ص 434 )۔ امّت مسلمہ کے مشکلات و پریشانیوں سے لا پروا ہوکر بندر بازی میں مصروف رہنا یزید لعین کی زندگی کا معمول بن چکا تھا۔ستم بالائے ستم یہ کہ امّت مسلمہ اس کا اسلام کے ساتھ مزاق اور احکامات الہٰی کی پامالی کو تحمل مزاجی کے ساتھ قبول کر رہے تھے۔ رسول خدا(ص) کے پروردہ بزرگ صحابہ میں سے کسی میں یہ جرات نہ تھی کہ وہ یزید لعین کے کسی بھی فعل قبیح پرانگشت اعتراض بلند کر سکے۔ امّت کےتمام اہل حل و عقد پر موت کی سی کیفیت طاری تھی،اگر یہ سلسلہ جاری رہتا تو وہ دن دور نہ تھا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور اسلام کا کوئی نام لیوا تک نہ ہوتا۔ اسی ناگفتہ بہ حالت کی طرف امام حسین علیہ السلام اشارہ فرماتے ہیں إنا لله وإنا إليه راجعون وعلى الإسلام السّلام إذ قد بليت الأمة براع مثل يزيد (ترجمہ مقتل لہوف، ص 78 )۔اگر امّت کا وارث تاج و تخت یزید جیسا پلید انسان بنے تو اسلام پر فاتحہ ہی پڑھا جاسکتا ہے کیونکہ اب اسلام اور مسلمین کو کسی بیرونی دشمن کا سامنا کرنے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ یزید سے بڑا اسلام کا کوئی عدو نہیں کہ جو اسلام پر کاری ضرب لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا ۔ہر طرف خوف و دہشت کا ماحول رائج ہونے کے باعث بزرگان دین و ملّت کسی مرد حر کے لیے ترس رہے تھے۔ موت سے خوف کا یہ عالم تھا کہ امام حسین علیہ السلام کے قریبی رشتہ دار اور آپ سے بہت پیار کرنے والے لوگ جیسے عبد اللہ بن جعفرطیارؒ، عبد اللہ بن عباسؒ، محمد حنفیہؒ اور عبداللہ بن عمروؒ غیرہ نے آپ کو نصیحت کرتے ہوئے عراق کی طرف مخدرات و عصمت کے ساتھ عازم سفر ہونے سے واضح الفاظ میں منع کیا(مقتل الحسین علیہ السلام ، ابو مخنف: ص 64، اللہوف فی قتلی الطفوف، ابن طاووس ص 22 )۔ عبید اللہ بن حر جعفی کی طرف امام حسین علیہ السلام نے اپنا نمائندہ بھیج کر اسے اپنے پاس بلایا تو اس کے جواب سے اس وقت کے لوگوں پر موت کے خوف کا بخوبی اندازہ لگاسکتےہیں، کہا "إنا لله وإنا إليه راجعون”اللہ کی قسم ! میں نے کوفہ سے خروج ہی اس لیے کیا کہ امام حسین علیہ السلام مجھے وہاں پہ نہ دیکھے اور میرا امام سے آمنا سامنا نہ ہو ، امام علیہ السلام نے اسے جواب دیتے ہوئے فرمایا” اگر میری نصرت نہیں کرتے ہو تو میرے قاتلین میں سے نہ بنو” (مقتل الحسین علیہ السلام ، ابو مخنف: ص 91- 92)۔امام علیہ السلام نے دوران سفر بصرہ کے چھ برجستہ شیعہ زعماء کی طرف خط دے کر اپنا سفیر روانہ کیا تو ان میں سے کسی نے بھی نہ صرف مثبت جواب نہ دیا بلکہ منذر بن جارود نے سفیر امام کو رات کے وقت عبید اللہ بن زیاد کے سامنے پیش کردیا اور اسے نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا(مقتل الحسین علیہ السلام ، ابو مخنف: ص 25-26) اور سب سے مضحکہ خیز بات یہ کہ امّت مسلمہ کی اخلاقی تنزلی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی اور اس پر بیّن دلیل فرزدق کا یہ قول ہے جسے اس نے امام حسین علیہ السلام سے ملاقات کے وقت بیان کیا تھا"قلوبهم معك وسيوفهم عليك” (موسوعۃ عاشورا ،ص 349)۔ان کے عواطف اور احساسات امام ؑ کے ساتھ جبکہ ان کی تلواریں آپؑ اور آپ ؑکے اہل بیت علیہم السلام کے خون سے رنگین کرنے کے لیے بیتاب تھے۔اس جملے میں تناقض کے آٹھ کے آٹھ شرائط موجود ہیں لیکن پھر بھی تناقض نہیں ، کیونکہ یہ شرائط ان لوگوں کے لیے ہیں جو اپنے ارادوں کے خود مالک ہوں لیکن ان کے عزم و ارادوں کے مالک یزید لعین،عبید اللہ بن زیاد ، عمر سعد اور شمر ملعون وغیرہ تھے۔ان لوگوں کو بخوبی علم تھا کہ یہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلّم کی اولاد ہیں، اسی لیے قتل بھی کر رہے ہیں ساتھ ساتھ گریہ و زاری کرتے جاتے تھے(مقتل ابو مخنف ازدی، ص 203) کیونکہ صرف رونا اور اپنے عواطف و احساسات کا اظہار ، ماتم داری، سینہ کوبی، زنجیر زنی اور جلوس نکالنا فی نفسہ عباد ت ہونے کے باوجود اس بات کی ضامن نہیں کہ ہم حقیقی مؤمن بھی ہو بلکہ ممکن ہے ان سب اعمال کے بعد بھی ہم امام حسین علیہ السلام کے اہداف اور مقاصد کےبالواسطہ یا بلاواسطہ خلاف چل رہے ہوں۔اہل کوفہ کی طرح ہمارے (قلوب)احساسات حسین ع حسین ع کر رہے ہوں جبکہ کردار و رفتار آپ علیہ السلام کے مقدس مشن و مقصد کو پامال کرنے میں مصروف ہو۔
امام حسین علیہ السلام نے تا قیام قیامت آنے والی نسلوں کو ظلم و ستم کی چنگل سے نجات دلانے کے لیے یکہ و تنہا تپتی صحرا میں نعرہ بلند کیا"أيّها الناس إنّ رسول الله (ص ) قال: من رأی سلطاناً جائرا ً مستحلا ًلحرام الله ناكثاً عهده مخالفا لسنّة رسول الله يعمل فی عباد الله بالإثم و العدوان فلم يغيّر عليه بفعل و لا قول كان حقا علی الله أن يدخله مدخله”(مقتل خوارزمی ، ج 1، ص 237)۔اے لوگو! رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے:جس نے بھی ایسے زورگو سلطان کو دیکھا جو حرام خداکو حلال میں بدل دے، عہد الہٰی کو پامال کر ے،سنت و قوانین رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی مخالفت کرے، اور بندگان خدا کے درمیان معصیت اور دشمنی سے کام لے، ایسی حالت میں اگر اپنے فعل اور بات کے ذریعے سے اس کو نہ روکے تو اللہ تعالیٰ کو حق بنتا ہے کہ اس شخص کا ٹھکانہ اسی ظالم کے ساتھ قرار دے۔پس جب بھی کسی معاشرے میں ظالم سینہ زوری اور من مانی کا بازار گرم کرے، حق اور حلال کی جگہ پارٹی ، قوم، لسان اور علاقائیت کے بتوں کی پرستش شروع کردے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے فرامین اور ارشادات کی حرمت شکنی کرے تو مومنین پر فرض ہے کہ ان کے آگے سینہ تان کے کھڑے ہو کر اپنے دل سے نفرت، زبان سے نہی اور آخر میں قوت بازو کے ذریعے انہیں روکے، اگر ان کو نہ روکا تو خداوند متعال بروز قیامت مومنوں کو بھی انہی ستمگروں کے ساتھ جہنم میں پھینک دے گا۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا: ألا ترون أن الحق لا يعمل به، وأن الباطل لا يتناهی عنه ليرغب المؤمن في لقاء الله محقاً ( بحار الانوار، ج 78، ص 116)۔خبر دار ہوجاؤ! کیا تم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا، اور باطل سے منع کرنے والا نہیں، پس مومن دیدار خداکے طالب ہونے کا حقدار ہے۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں: فإنی لا أری الموت إلا سعادةً و الحياة مع الظالمين إلا برماً (تحف العقول ، ص 245 )۔بلا تردید میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو تنگی کے سوا کچھ نہیں دیکھتا۔کربلا سے یہ درس ملتا ہے کہ کسی صورت میں ظالم کے سامنے سرنڈر نہیں کرنا، اگر ان کو اپنے زور بازو سے روکنے کی سکت نہیں رکھتے تو ان فاسق و فاجر لوگوں کے ساتھ زندگی کرنے سے ان سے مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرنا سعادت ہے۔
اس دور کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوے فرماتے ہیں:و أنتم أعظم الناس مصيبة لما غلبتم عليه من منازل العلماء لو كنتم تشعرون ذلك بأن مجاري الأمور والأحكام علی أيدی العلماء بالله الأمناء علی حلاله وحرامه فأنتم المسلوبون تلك المنزلة و ما سلبتم ذلك إلا بتفرقكم عن الحق و اختلافكم فی السنة بعد البينة الواضحة، و لو صبرتم علی الأذی و تحملتم المؤونة فی ذات الله، كانت أمور الله عليكم ترد و عنكم تصدر و إليكم ترجع، ولكنكم مكنتم الظلمة من منزلتكم، واسلمتم أمور الله في أيديهم يعملون بالشبهات، ويسيرون في الشهوات،سلطهم علی ذلك فراركم من الموت، و إعجابكم بالحياة التي هي مفارقتكم(تحف العقول ، ص 238) تمہاری مصیبت و گرفتاری تمام لوگوں سے بیشتر ہے کیونکہ اگر تم علماء کے مقام و مرتبے کو جان لیتے کہ جو تم سے چھین چکے ہیں۔ امور اور احکام کے اجرا خدا شناس علماء کے ہاتھوں میں ہونا چاہیئےکہ جو حلال و حرام سے آگاہ ہوں،لیکن یہ مقام و منزلت تم سے ہڑپ کر لی ہےکیونکہ تم نے حق سے کنارہ کشی کی تھی اور روشن دلیل کے با وجود سنت ِپیغمبرمیں پھوٹ ڈالے تھے۔اگرتم آزار و اذیت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے صبر و استقامت کی راہ اپناتےاور راہ خدا میں رنج و سختی برداشت کرتے تو الہٰی امور تمہارے ہاتھوں میں ہوتے اور ان کے منشأ و مرجع تم ہوتے لیکن تم نے ظالموں کو اپنے مقام پر مسلط اور الہٰی امور ان کو تفویض کی،حالانکہ وہ شبہات پر عمل كرتے ہیں اور شہوت رانی کو اپنا پیشہ قراردے چکے ہیں اورجو چیز ستمگروں کی قدرت کا موجب بنی وہ تم لوگوں کا موت سے فرار اور ناپائیدار زندگی جو تم سے جدا ہونے والی ہے سے محبت ہے۔اس حدیث میں مولا امام حسین علیہ السلام ایک قاعدہ کلیہ اور سنّت الہٰی بیان فرماتے ہیں کہ جب بھی کوئی سماج علماء اور دین شناس لوگوں کے قریب کرے، آپس میں دست و گریبان ہونے ے بجائے رنج و الم کا مقابلہ کرتے ہوئے استقامت کی راہ اپنائے تو دنیا کے لئے نمونہ اور مثال بن سکتا ہے لیکن اگر اس معاشرے کے لوگ اپنے زمام امور اور حکومت کا حق خدا ناشناس لوگوں کے سپرد کر ے اور پھر انکی سرنگونی کی دعا کرے ، موت سے سہم کر اور دو روزہ دنیوی زندگی کی محبت میں اپنے بلوں میں چھپ جائیں تو اس معاشرے میں شبہات، رشوت خوری، شہوت رانی، حق تلفی، رقص و سرود کی محفلیں اور چوری کا بازار گرم ہوگا پھرایسی صورت میں وعلی الاسلام السلام کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
امام علیہ السلام قرآن کریم سے بنی اسرائیل کی داستان نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :لعن الذین كفروا من بنی إسرائیل – إلی قوله – لبئس ما كانوا یفعلون (المائدہ ، 79 – 78) و إنما عاب الله ذلك عليهم لأنهم كانوا يرون من الظلمة الذين بين أظهرهم المنكر و الفساد فلا ينهونهم عن ذلك رغبة فيما كانوا ينالون منهم، ورهبة مما حذرون، و الله قول : فلا تخشوا الناس و اخشون (المائدہ، 44 )و قال :ألمؤمنون و المؤمنات بعضهم أولياء بعض يأمرون بالمعروف و ينهون عن المنكر(التوبہ، 71 ).
(تحف العقول ، ص 237)
ترجمہ:بنی اسرائیل میں سے جو لوگ کافر ہوئے ان پر(داؤد اور عیسی بن مریم کی زبانی) لعنت ہوئی ،یہاں تک کہ فرماتے ہیں: ” کتنے برے کام انجام دیتے تھے اسی خاطراللہ تعالیٰ نے ان کی عیب جوئی کی کیونکہ ان کے سامنے ظالم ناروا اعمال اور فساد پھیلاتے اور یہ انہیں اس سے منع نہیں کرتےتھےکیونکہ ستمگروں کی طرف سےملنے والے مال کا طمع رکھتےاور اعتراض کی عاقبت سے خوف کھاتے تھے۔اللہ تعالیٰ کے فرمان کے باوجود کہ اس میں فرماتے ہیں : ” لوگوں سے نہ ڈرو، مجھ سے ڈرو”، اور فرمایا: ” مومن مرد و زن ایک دوسرے کے دوست ہیں، کہ نیکی کا امر اور بدی سے نہی کرتے ہیں "۔ان کے سامنے ظالم فساد اور برائی بغیر کسی روک ٹوک کے کرتےتھے، فعل قبیح انجام دیتے ہوئے ان کو کسی قسم کا خوف وخطر محسوس نہیں ہوتے کیونکہ ان کے آگے امر بہ معروف اور نہی از منکر کے فریضے کو بجالانے والا کوئی نہ تھا۔کاسہ لیسی کی عادت نے ان کے منہ پر مہر سکوت کا ٹھپہ مارا تھا۔ظالم و جابر حکمرانوں کی من پسندی، اقربا ء پروری، دین اور دینداری کی توہین، چاردیواری کے تقدس کی پامالی، دینی اور مذہبی رسومات پر بے جا قدغن، شراب و کباب کی محافل اور سیر و تفریح کے نام پر فحاشی و عریانی کے بین الاقوامی رنگ و روغن، تہذیب و ثقافت کی غلط تشریح کر کے متدین نوجوانوں کے عقیدے پر شب خون، پرائیویٹ تعلیم کے بہانے لوٹنے والے تاجروں، ڈاکٹروں کے روپ میں انسانی جانوں کے سوداگروں، عوام کے ٹیکسز پر عیاشی کرنے والے دنیا پرستوں کے رو برو کلمہ حق کہنےوالا کوئی نہ تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے انہی باطل قوتوں کے خلاف حق کا نعرہ بلند کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔اب اگر سید الشہدا علیہ السلام کی عزاداری، زیارت مقامات مقدسہ ، پیادہ روی اربعین ، نذر و نیاز، سبیل حضرت علی اصغر علیہ السلام، مجالس و محافل ، ماتمی جلوس، سینہ زنی وغیرہ انسان کو ظلم ستیزی، باطل افکار و نظریات کے خلاف پیکار، مظلوم کی صدائے ھل من ناصر پر لبیک کہنے، ستمگروں اور فرعون و نمرود، ابو لہب و ابو سفیان، یزید و ابن زیادِ زمان سے پنجہ آزمائی کے لیے آمادہ نہ کر سکے تو وہ لوگ کم از کم حسینی ع و زینبی ع اور صاحب الزمان ع کے لشکر کا سپاہی ہونے کا دعویٰ چھوڑ دے۔