سلائیڈرسیرتسیرت امام مھدیؑ

حضرت امام مہدیؑ کی معرفت کی ضرورت

تمام مسلمانوں کے وظائف و تکالیف میں ایک وظیفہ و تکلیف یہ ہے کہ ان کو چاہئے کہ پہلے اپنے زمانے کے امامؑ کو پہچانیں اس کے بعد ان کی اطاعت و پیروی کریں اس وظیفہ و تکلیف کے اہم ترین نقلی دلائل میں سے ایک مشہور و متواتر روایت : ” مَنْ مَاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہِ مَاتَ مَیْتَةً جَاھِلِیَّةً “ہے ۔
اس حدیث کی بنا پر جو لوگ اپنے امام زمانہ کی معرفت کے بغیر مر جائیں وہ ایسے ہیں کہ عہد جاہلیت میں مرے ہیں اور اسلام و آئین اسلام سے کوئی رابطہ و نسبت نہیں رکھتے۔ یہ حدیث نہایت معتبر احادیث میں سے ہے اور شیعہ اور اہلسنت دونوں نے اس کے تواتر پر تصریح کی ہے۔ علماء شیعہ سے شیخ مفید ان افراد میں سے ہیں جو اپنی عظیم کتاب ” الافصاح “ میں لکھتے ہیں: یہ حدیث متواتر طور پر حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے روایت کی گئی ہے۔(۱)
شیخ مفیداسی طرح اپنی ایک دوسری کتاب ” الرسالة الاولیٰ فی الغیبة “ میں تحریر فرماتے ہیں:
یہ حدیث: ” مَنْ مَاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہِ مَاتَ مَیْتَةً جَاھِلِیَّةً “ صحیح روایت ہے اور اہل آثار کا اجماع اس کی گواہی دیتا ہے.(۲)  علماء اہل سنت میں سے سلیمان بن ابراہیم قندوزی حنفی کا نام لے سکتے ہیں کہ جنہوں نے صریحی طور پر لکھا ہے کہ حدیث: ” مَنْ مَاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہِ مَاتَ مَیْتَةً جَاھِلِیَّةً “ پر تمام علماء خاصہ و عامہ کا اتفاق ہے۔ (۳)
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام زمانہ (عج) کی معرفت نہ رکھنے کو شرک و الحاد و کفر کے مرادف قرار دیا ہے ، یہ اس سبب سے ہے کہ انسان جب اپنے حقیقی و واقعی امام کو نہ پہنچانے گا تو وہ صحیح راستے سے بھٹک جائے گا اور صراط مستقیم سے دور ہوجائے گا اور نتیجہ میں جتنا وہ آگے بڑھتا جائے گا اتنا ہی زیادہ مقصد و منزل حق سے دور ہوتا جائے گا۔
پس اس لئے کہ ہم گمراہی کا شکار نہ ہوں اور صراط مستقیم سے ہٹنے نہ پائیں، پہلے مرحلہ میں ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ اپنے زمانہ کے امامؑ کو پہنچانیں، اور ہمارا امام، امام زمانہ حضرت امام مہدی (عج) کے علاوہ کوئی نہیں ہے، حضرت امام مہدیؑ خدا کے اذن و امر سے زندہ ہیں اور تمام لوگوں کے خصوصاً شیعوں کے اور بالاخص علماء و طلاب کے اعمال و افعال کے شاہد و ناظر ہیں۔
افسوس ہے کہ حضرت امام مہدی (عج) کی صحیح معرفت نہ رکھنے اور حضرت کی انفرادی و اجتماعی سیرت سے آشنا نہ ہونے کے باعث ایک گروہ کے اندر غلط فکریں پیدا ہوگئی ہیں اور وہ سب انجانے میں یا جان بوجھ کر حضرت کی ذات پاک پر ایسے ناروا تہمات لگاتے ہیں جو ایک عالم و معمولی انسان کی شان میں بھی جائز نہیں ہے۔ ایک کلی تقسیم بندی کے طور پر ان تہمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ایک حصہ حضرت امام مہدی (عج) کی سیرت اور تشکیل حکومت کی کیفیت کے متعلق ہے اور دوسرا حصہ حضرت کے ظہور اور دنیا پر حاکمیت پانے کے بعد کے زمانہ میں حضرتؑ کی روش حکومت کے متعلق ہے:
حکومت کی تشکیل میں حضرت مہدی (عج) کی روش
افسوس ہے کہ مسلمانوں کی عام ذہنیت یہ ہے کہ حضرت امام مہدی (عج) ایک غضب ناک چہرے کے ساتھ ظہور فرمائیں گے اور تلوار کے ذریعہ نیز اپنے مخالفین کے قتل و خون کے ذریعہ حکومت کی تشکیل اور قدرت کی تحصیل میں کامیاب ہوں گے۔ اس ذہنیت کی جڑ وہ روایات ہیں جو اس انداز سے پائی جاتی ہیں اور کتابوں میں نیز منبروں پر لوگوں کے سامنے بیان کی جاتی ہیں۔ ان روایات میں سے بعض روایتوں کے اعتبار سے حضرت امام مہدی (عج) ظہور کے وقت لوگوں کے ساتھ اتنی سختی و خشونت سے پیش آئیں گے کہ ان کی اکثریت آرزو کرتی ہے کہ کاش ان کو ہرگز نہ دیکھیں، اور ان میں سے بہت سارے لوگ حضرت (عج) کے نسب میں شک کرنے لگتے ہیں اور آپؑ کو آل محمد علیہم السلام سے نہیں سمجھتے۔
جھوٹی روایتیں اور محمد بن علی کوفی
ان روایتوں کی تعداد پچاس سے زیادہ تک پہنچتی ہے، ان میں تقریباً تیس روایتوں کی سند ایک شخص بنام محمد بن علی کوفی تک پہنچتی ہے جو کہ بدنام اور جھوٹا ہے اور تمام علمائے رجال نے اس کی روایتوں کی بے اعتباری کا حکم لگایا ہے، یہ شخص حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانہ میں تھا اور جناب فضل بن شاذان کے معاصرین میں سے ہے، اور فضل بن شاذان بزرگان شیعہ میں سے اور عظیم راوی ہیں کہ ان کی جلالت و قدر و منزلت میں کوئی شک نہیں پایا جاتا۔ یہاں تک کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ان کی تعریف و توصیف میں فرماتے ہیں کہ: انی اغبط اھل الخراسان لمکان الفضل یعنی فضل کے خراسانی ہونے کی وجہ سے میں بھی آرزو رکھتا ہوں کہ اہل خراسان میں سے ہوں۔ اب فضل بن شاذان، محمد بن علی کوفی کے صفات بیان کرتے ہیں:رجل کذّاب “ یہ بہت زیادہ جھوٹا شخص ہے ، اور دوسری جگہ اس طرح اظہار خیال فرمایا ہے کہ: ” کدت اقنت علیہ “ یعنی نزدیک تھا کہ میں قنوت نماز میں اس پر بد دعا کروں۔
اب ہم نمونہ کے طور پر ان چند روایتوں کو پیش کرتے ہیں:
پہلی روایت
وہ روایت ہے کہ جو بحار الانوار کے ایک صفحہ سے زیادہ پر مشتمل ہے، اس روایت میں آیا ہے:
” حضرت مہدی (عج) ظہور کے بعد مسلمانوں کے ایک گروہ کا پیچھا کریں گے، وہ سب بھی بھاگ کر روم کے نصاریٰ کی پناہ لیں گے، نصاریٰ ان سے کہیں گے کہ اگر چاہتے ہو کہ ہم تمہیں پناہ دیں تو تمہیں صلیب گردن میں لٹکانا پڑے گا اور عیسائی ہونا پڑے گا، یہ گروہ امام زمانہ (عج) کے خوف سے عیسائی ہوجائے گا، حضرت (عج) ان بھگوڑے مسلمانوں کو عیسائیوں کے پنجے سے نکالیں گے، ان کے مردوں کو قتل کرڈالیں گے اور ان کی حاملہ عورتوں کے شکم کو چاک کردیں گے۔فیقتل الرجال و یبقر بطون الحبالیٰ
معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت امام مہدی (عج) مرتبہ امامت کے حامل ہیں، اور ہر شخص سے زیادہ احکام اسلام کو جانتے ہیں۔ دین اسلام میں اگر کوئی حاملہ عورت کسی جرم و گناہ کی مرتکب ہو اور اس پر حد جاری کرنا واجب ہو ، مثال کے طور پر اگر زنا کرائے اور چار شاہد عادل اس کے زنا کرانے پر گواہی دیں ( وہ بھی اسلام کے ایسے سخت شرائط کے ساتھ کہ جن کا حصول بہت مشکل ہے، کیونکہ کوئی ہوشیار زنا کو منظر عام میں انجام نہیں دیتا ) لیکن ان سب کے باوجود اگر ثابت ہوگیا کہ کسی حاملہ عورت نے زنا کرایا ہے اور طے ہوجائے کہ اس پر حد جاری کریں تو جب تک یہ عورت حاملہ ہے اس پر حد جاری کرنا حرام ہے، لازم ہے کہ بچہ جننے تک صبر کریں اور اس کے بعد اس پر حد جاری کریں۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت ولی عصر (عج) حاملہ عورت کے شکم کو چاک کریں گے ؟ آیا یہ روایت جھوٹی اور گڑھی ہوئی نہیں ہے !؟
دوسری روایت (۴)
بحار الانوار میں کتاب غیبت نعمانی سے اس سند کے ساتھ ذکر ہوئی ہے:
عن علی بن الحسین (۵) عن محمد العطار عن محمد بن الحسن الرازی (مجھول الہویّة) عن محمد بن علی الکوفی عن البزنطی عن ابن ابی بکیر عن ابیہ عن زرازة عن ابی جعفر علیہ السلام: اٴیسیر (الحجة) بسیرة النبی (ص) ؟ فقال : ” ہیہات انّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سار فی امتہ باللّین و الغائب یسیر بالقتل
زرارہ نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا کہ: ” آیا حضرت امام مہدی (عج) حضرت رسول خداؐ کی سیرت کے مطابق عمل کریں گے؟ تو امامؑ نے فرمایا: ” ہرگز نہیں، حضرت رسول خداؑ نے اپنی امت میں نرمی کی روش اختیار کی حالانکہ حضرت امام مہدیؑ قتل کی روش سے استفادہ کریں گے “ ۔
یہ روایت ایک تو ضعیف السند ہے دوسرے اُن صحیح روایتوں سے تعارض رکھتی ہے جو حضرت امام عصر (عج) کی سیرت کے حضرت رسول اکرمؐ کی سیرت سے شباہت رکھنے کے متعلق پائی جاتی ہیں اور بعد میں بیان کی جائیں گی۔
تیسری روایت
عن محمد بن علی الکوفی عن البزنطی عن العلاء اس سند میں مغیرہ بن سعید بھی آیا ہے، کہ جس کے متعلق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ : ” لعن اللّٰہ المغیرة بن سعید انّہ دسّ فی احادیث ابی کثیراً “ یعنی خدا لعنت کرے مغیرہ ابن سعید پر کہ اس نے میرے بابا کی احادیث میں بہت زیادہ تحریف اور پھیر بدل کیا ہے۔ اس روایت میں بھی پہلی روایتوں کی طرح قتل کی بات ذکر ہوئی ہے اور اس بات کو امامؑ کی طرف نسبت دیتے ہیں کہ: ” سمعت ابا جعفر علیہ السلام یقول : ” لو یعلم الناس ما یصنع الغائب اذا خرج لاٴحب اکثرہم ان لا یروہ مما یقتل الناس
” اگر لوگ جان لیں کہ حضرت امام مہدیؑ ظہور کے بعد کیا کریں گے تو ان میں سے اکثر افراد چاہیں گے کہ حضرت کو نہ دیکھیں کیونکہ وہ لوگوں کو قتل کریں گے ۔ “
ایسی بات کی ایک جھوٹے آدمی کی طرف سے امام معصوم کی طرف نسبت دی گئی ہے اور یہ کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ عقلمند انسان اگر جھوٹے انسان کی بات فلاں مومن کی شراب خواری کے متعلق سنے تو یقین نہ کرے گا اور خود اس بات کو کبھی نقل نہ کرے گا، تو پھر بھلا امام معصومؑ کے متعلق جھوٹی بات کو کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے، اس روایت کے ذیل میں اس طرح آیا ہے کہ:
یقول کثیر من الناس لیس ھٰذا من آل النبی (ص) لو کان لرحم۔یعنی امام زمانہؑ اس قدر قتل کریں گے کہ لوگ کہیں گے وہ آل نبیؑ سے نہیں ہیں، کیونکہ اگر آل نبیؑ سے ہوتے تو رحیم و مہربان ہوتے اور قتل و قتال نہ کرتے۔
چوتھی روایت
اسی روایت کے بعد حدیث نمبر ۱۱۴ ہے:
عن محمد بن علی الکوفی عن لابزنطی عن عاصم بن حمید الحناف عن ابی بصیر قال ابو جعفر علیہ السلام: لیس شانہ الا بالسیف لا یستتیب احداً
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ: ” حضرت امام مہدیؑ کا سرو کار تلوار کے علاوہ کسی اور چیز سے نہیں ہے اور وہ کسی کی توبہ قبول بھی نہ کریں گے “۔ آیا یہ حضرت رسول خداؐ کی سیرت کی شبیہ ہے؟ اہم نکتہ یہ ہے کہ محمد بن علی کذاب اپنی روایتوں کو ثقہ و معتبر افراد کی طرف نسبت دیتا ہے تا کہ اس کی روایتیں لوگ صحیح تصور کریں، جیسا کہ یہاں بھی سلسلہ سند میں ”حناف“ کا نام آیا ہے جو کہ ثقات میں سے ہیں۔
صحیح روایتیں
ایسی روایتوں کے بے اعتبار ہونے کی دوسری دلیل وہ صحیح و معتبر احادیث ہیں جو ان کے مقابل و خلاف مفہوم پر دلالت کرتی ہیں اور واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ حضرت امام ولی عصر (عج) کی حکومتی روش بالکل حضرت رسول خداؐ اور امیر الموٴمنین علیہ السلام کی روش کے مانند ہوگی۔ ان روایتوں کے چند نمونوں کی طرف توجہ فرمائیے:
۱۔ بحار الانوار میں ایک موٴثق و حسن روایت کتاب غیبت نعمانی سے ذکر ہوئی ہے:
عن ابن عقدة عن علی بن الحسن ( ابن فضال ) عن ابیہ عن رفاعة عن عبد اللّٰہ بن عطاء قال : سئلت ابا جعفر الباقر علیہ السلام : ” فقلت اذا قام الحجة بایّ سیرة یسیر فی الناس ؟ فقال علیہ السلام : یھدم ما قبلہ کما صنع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم و یستاٴنف الاسلام جدیداً “ (6)
راوی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کرتا ہے کہ حضرت حجتؑ ظہور کے بعد کون سی سیرت و روش حکومت اپنائیں گے؟ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام جواب دیتے ہیں کہ: ” جس طرح کہ حضرت رسول خداؐ نے بعثت کے بعد وہ تمام چیزیں جو آنحضرتؐ سے پہلے دین کے عنوان سے موجود تھیں جیسے یہودیت، عیسائیت و مجوسیت و غیرہ، ان سب کو بے اعتبار اعلان کردیا، اسی طرح حضرت مہدیؑ بھی ظہور کے بعد جو کچھ بھی دین و اسلام کے نام سے دنیا پر حاکم ہے لیکن دین و اسلام کی بنیاد کے مخالف ہے، ان سب کو مٹادیں گے اور حقیقی اسلام کو دوبارہ برپا کریں گے “۔
حضرت رسول خداؐ نے قرآن مجید کے بقول (7)نرمی اور عدم شدت کے ساتھ اپنی ماقبل چیزوں کو بے اعتبار کیا، رسولؐ کی یہ سیرت مسلمانوں سے مخصوص نہ تھی، حضرت امام زمانہؑ بھی کافروں کے متعلق وہی سیرت اور وہی نرمی و مہربانی اختیار کریں گے جو حضرت رسول خداؐ کی سیرت تھی مسلمانوں کی بات تو الگ ہے۔
۲۔ عن ابن عباس عن النبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم قال : ” التاسع منہم ( من اولاد الحسین علیہ السلام ) من اہل بیتی و مہدی امّتی ، اشبہ الناس بی فی شمائلہ و اقوالہ و افعالہ “۔ (8)
ہمارا شاہد و دلیل لفظ ” افعالہ “ ہے ، یعنی حضرت مہدیؑ کے شمائل و اقوال رسول خداؐ کی شبیہ ہونے کے علاوہ حضرت کے افعال و اعمال بھی حضرت رسولؐ خدا کی شبیہ ہیں۔
۳۔ بحار الانوار (9) میں تقریباً ایک صفحہ بحوالہ اعلام الوریٰ، شیخ طبرسی (10) کا بیان اس روایت کے ذیل میں ذکر کیا گیا ہے کہ جس کا ایک حصہ یہ ہے:اگر حضرت ولی عصرؑ کی حکومت کی کیفیت کے متعلق سوال ہو کہ کس طرح ہوگی؟ آیا شدت و سختی کے ساتھ ہوگی تو اس کا جواب یہ دینا چاہئے کہ: ” فان کان ورد بذالک خبر فھو غیر مقطوع بہ “ حضرت کی حکومت ہرگز شدت و سختی کے ساتھ نہ ہوگی پس اگر کوئی روایت اس سلسلہ ( حضرت کی حکومت میں سختی کے بارے ) میں پائی جائے تو وہ صحیح نہیں ہے، اور ایسی کوئی صحیح روایت وجود نہیں رکھتی کہ حضرت شدت و سختی کے ساتھ عمل کریں گے۔
علامہ طبرسی مشہور محدثین میں سے اور فن حدیث میں معروف تھے، ان تمام روایتوں کو جو اس باب میں وارد ہوئی ہیں اس جملہ ” ان کان ․․․ یعنی اگر ایسی روایتیں پائی جائیں تو وہ صحیح نہیں ہیں “کے ذریعہ غلط اور جھوٹی قرار دیا ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی روایت اس سلسلہ ( حضرت کی حکومت میں شدت یا سختی کے بارے ) میں پائی جائے تو نہ تو اس کا مدلول معتبر ہے اور نہ وہ حجیت رکھتی ہے۔
۴۔ بحار الانوار (11) میں ایک روایت کتاب کافی سے اس عبارت کے ساتھ نقل ہوئی ہے: ” کلینی عن العدة عن البرقی عن ابیہ عن محمد بن یحییٰ عن حماد عن عثمان عن الصادق علیہ السلام : اذا قام الحجة سار بسیرة امیر الموٴمنین علی علیہ السلام
یعنی جس وقت حضرت امام مہدیؑ ظہور فرمائیں گے تو بالکل امیر الموٴمنین علی علیہ السلام کی سیرت پر عمل کریں گے۔
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کیونکہ اس کے راوی ایک دوسرے سے بہتر ہیں اور اس کا متن بھی معصومین علیہم السلام کی سیرت کے موافق ہے۔
ان روایتوں کا مدلول یہ ہے کہ جس وقت حضرت امام مہدیؑ ظہور فرمائیں گے تو تمام لوگ خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے ، بوڑھے ہوں یا جوان ، حضرتؑ سے محبت رکھیں گے اور تہِ دل سے آپؑ کو دوست رکھیں گے، حضرت رسولؐ خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
” میں تم سب کو مہدیؑ کی، جو قریش سے ہوگا، بشارت دیتا ہوں کہ تمام آسمان و زمین کے رہنے والے اس کی خلافت و حکومت سے خوشنود ہوں گے “۔ (12)
جمع روایات
متعارض روایات ( ایک دوسرے کے خلاف روایات ) کے درمیان جمع کے متعلق خود آئمہ علیہم السلام نے ضروری ہدایات دئیے ہیں۔ البتہ دو مخالف روایتیں اس وقت باہم تعارض میں قرار پاتی ہیں جب باب تعارض سے متعلق لازمی شرائط کی حامل ہوں، اس طرح سے کہ اولاً دونوں روایتوں کی سند معتبر ہو ، نہ یہ کہ ایک طرف محمد بن علی کوفی جیسا جھوٹا ہو اور دوسری طرف علی بن ابراہیم اور محمد بن مسلم جیسے ائمہ علیہم السلام کے معتمد اور ثقہ ہوں۔
ان دونوں کے درمیان مقایسہ عقلاً و شرعاً جائز نہیں ہے۔ پس ہم اسے پہلے ہی زینے پر جو کہ سند کی بحث ہے مشکل رکھتے ہیں، کیونکہ جو روایتیں محمد بن علی کوفی سے نقل ہوئی ہیں، وہ امام زمانہؑ کو معاذ اللہ ایک قاتل و آدم کش کی صورت میں پیش کرتی ہیں کہ ان کے زمانے میں فتنہ و فساد ہوں گے اور فقہاء کہتے ہیں کہ حتیٰ شرعی احکام اگر فتنہ و فساد کے باعث ہوں تو ساقط ہوجاتے ہیں اور پھر واجب نہیں رہ جاتے، تو بھلا کیسے حضرت امام زمانہؑ جو کہ خود دین و احکام دین کے صاحب و مالک ہیں، فتنہ و فساد اور حرج و مرج کے باعث ہوں گے؟
پس اس پہلے ہی مرحلہ میں تعارض کی بحث منتفی و ختم ہوجاتی ہے اس لئے کہ ایک جھوٹا شخص بزرگان حدیث و ثقہ کے معارض نہیں ہوسکتا اور ان سے ٹکر نہیں لے سکتا۔
سند صحیح ہونے کے فرض کی بناپر اس مرحلہ سے آگے بڑھیں گے تو دو متعارض روایتوں کے درمیان ترجیح کے ملاحظہ کی باری آئے گی، اس مرحلہ میں ان دونوں روایتوں کو دوسری صحیح روایتوں سے اور سنت و سیرت و کتاب ( قرآن ) سے مقایسہ کیا جائے گا اور ان دونوں میں سے جو ان کے موافق ہوگی وہ معتبر ہوگی۔ اس جہت سے بھی جو روایتیں امام زمانہ (عج) کی سیرت حضرت رسولؐ خدا اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی سیرت سے مشابہت کو بیان کرتی ہیں، وہ رجحان و ترجیح کی حامل ہیں، کیونکہ وہ روایتیں معصومین علیہم السلام کی سیرت کے موافق ہیں اور سچے قرائن زیادہ رکھتی ہیں۔ اس مرحلہ کے بعد بالفرض اگر دونوں روایتیں کتاب و سیرت کے مطابق ہوں اور اصطلاح میں ” متکافی “ ہوں، تو نوبت دلالت و ظہور تک پہنچے گی کہ آیا دونوں روایتیں ظہور و دلالت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے مساوی ہیں یا نہیں؟
اس مرحلہ میں اگر متعارض روایتوں میں سے ایک دلالت کے لحاظ سے زیادہ صریح اور واضح ہوگی، تو ہم اسی کو اختیار کریں گے، اور اس صورت میں دلالت کے اعتبار سے بھی دونوں روایتیں یکساں ہوں تو پھر تساقط کی نوبت آجائے گی اور دونوں روایتیں اعتبار سے گرجائیں گی، گویا اصلاً کوئی روایت وارد ہی نہیں ہوئی ہے۔ تعارض کے باب میں یہی فقہی مبنی و اصول ہے۔

(۱)۔ الافصاح،ص/۳۸
(۲)۔ مصنفات الشیخ المفید ،ج/۷ص/۱۲
(۳)۔ ینابیع المودة ،ج/۳ص/۴۵۶
(۴)۔ بحار الانوار : ج/۵۲، ص/۳۵۳، حدیث ۱۰۹
(۵)۔ شیخ صدوق کے والد بزرگوار
(6) ۔ بحار الانوار : ج/۵۲، ص/ ۳۵۳ ، ح/ ۱۱۲ ، طبع بیروت
(7) ۔ آل عمران /۱۵۹
(8) ۔ بحار الانوار : ج/۵۲ ، ص/۳۷۹، ح/۱۸۷
(9) ۔ بحار الانوار : ج/۵۲ ، ص/۳۷۹، ح/۱۸۷
(10) ۔ امین الدین ، امین الاسلام ابو علی فضل بن حسن بن فضل (۵۴۸ق) شیعہ فقیہ ، محدث ، مفسر اور لغوی ہیں ، آپ شیخ طبرسی کے نام سے مشہور ہیں ، نیز چھٹی صدی ہجری میں عظیم علماء شیعہ میں سے ہیں کہ آپ خود اور آپ کے بیٹے حسن بن فضل صاحب مکارم الاخلاق اور آپ کے پوتے علی بن حسن صاحب مشکاة الانوار یہ تمام حضرات علماء بزرگ میں سے ہیں، روضات الجنات ، ج/۵ ، ص/۳۴۲ ؛ طبقات اعلام الشیعہ قرن ۶، ص۲۱۶ و ۲۱۷۔
(11) ۔ بحار الانوار : ج/۴۷، ص/۵۴
(12) ۔ ینابیع المودة : ص/۴۳۱ ، اثبات الھداة : ج/۲، ص/۵۲۴
https://erfan.ir/urdu/17185.html

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button