سیرتسیرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ

حضرت علی علیہ السلام کی عدالت

مؤلف: لیلی عسکری
مقدمہ
عدالت وہ حقیقت ہے جس پر کائنات کا نظام قائم ہے. بڑے بڑے آسمانی سیاروں سے لیکر کائنات کے چھوٹے سے چھوٹے ذرات، سب میں عدالت کار فرما ہے اور اگر یہ عدالت و توازن ذرا سا بگڑ جائے تو نظام ہستی درہم برہم ہو جائے.خود انسان کا وجود اور اس کے بدن کا سسٹم، خدا کے نظام توازن اور تعادل کا بہترین مظہر ہے اور بدن کے اسی متوازن نظام میں خلل پیدا ہو جانے کی صورت میں انواع و اقسام کی مہلک امراض وجود میں آتی ہیں.جب کائنات کا نظام شمسی،نظام قمر ی اور انسان کا جسمانی نظام بغیر توازن اور عدالت کے نہیںچل سکتا تو پھر اتنا بڑا انسانی سماج اور پورا نظام حیات، عدالت و توازن کے بغیر کیسے منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے؟
لہذا پر سکون اور بے خوف و خطر زندگی گزارنے ، اور کمال کی منزلوں کو طے کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسانی سماج اور نظام حیات بھی عدالت اور توازن کے مستحکم ستونوں پر استوار ہو،تاکہ تباہی وبربادی سے محفوظ رہ سکے اور انسانی معاشرے کی اسی ضرورت کے پیش نظر، اللہ تعالی نے انبیاء ومرسلین اور اپنے نمائندوں کو بھیج کر نوع انسانی کے لئے اپنی مخصوص ہدایت وراہنمائی کا انتظام کیا ہے.چنانچہ خدا نے قرآن مجید میں انبیاء و مرسلین کی بعثت کا فلسفہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’ولقد ارسلنا رسلنابالبینات لیقوم الناس با لقسط‘‘
یعنی:ہم نے واضح دلائل کے ساتھ اپنے رسولوںکو بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب و میزان نازل کیا تاکہ انسانی سماج میںعدالت کا قیام ہو(۱)
اسلام کی نظر میں عدالت کا تعلق بین الاقوامی حقوق سے ہے، یعنی اسلام عدالت کا برتاؤ برتنے میں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان تفریق کا قائل نہیں ہے.چنانچہ خدا وند متعال فرماتا ہے:
’’یا ايّهاالذین آمنوا کونوا قوامین للّه شهدئ بالقسط …‘‘
اے صاحبان ایمان! ہمیشہ اللہ کے لئے قیام کرو اور بر بنائے عدالت گواہی دو اور کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کی دشمنی تم کو عدالت کے راستہ سے ہٹادے تم ہمیشہ عدل و انصاف کا برتاؤ کرو کہ عدالت پر ہیزگاری کے زیادہ نزدیک ہے(۲)
عدالت کا مفہوم
لفظ عدالت ظلم کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے اور لغت میں برابری،سچائی ،استقا مت اور حد وسط کے معنی میں آیا ہے.(۳)
قرآن کریم کے عظیم الشان مفسر، علامہ طباطبائی نے عدالت کے بارے میں بہت ہی عمدہ اور مفید وضاحت کی ہے اور وہ یوں کہ :
’’عدالت زندگی کے کسی ایک پہلو تک محدود نہیںہے بلکہ انسانی زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی پہلوؤں پر محیط ہے.عدالت کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام اشیاء اور اشخاص کے درمیان برابر ی اور مساوات کا برتاؤ کیا جائے جو ایک مرتبہ اور منزلت رکھتے ہوں‘‘(۴)
اسلامی تعلیمات میں لفظ عدالت کاتین مقامات پراستعمال ہوتا ہے :
(۱) عدالت الہی
(۲) عدالت ذاتی، جو کہ قضاوت ،نماز جمعہ و جماعت کی امامت وغیرہ کی شرط ہے.
(۳) عدالت اجتماعی، جو کہ سماج اور معاشرہ کے تمام شعبوں کو اپنے اندر شامل کرلیتی ہے.
ہم اس مقالہ میں عدالت کی ابتدائی دو صورتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے فقط تیسری صورت یعنی عدالت اجتماعی کے بارے میں حضرت علی کے اقوال و ارشادات اور آپ کی سیرت طیبہ کا جائزہ لے رہے ہیں.
حضرت علی ؑ کی نظر میں عدالت کی اہمیت
جیسا کہ اوپر کی سطروں سے واضح ہو چکا ہے کہ عدالت وہ عظیم حقیقت ہے جسے نافذ کرنے کے لئے اللہ تعالی نے انبیاء اور مرسلین بھیجے.حضرت علی ؑ عدالت کو ہر شئی پر ترجیح دیتے تھے، چنانچہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا: عدالت افضل ہے یا جود و سخاوت.تو
آپ نے فرمایا : عدالت افضل ہے.
جب کہ ایک سادہ لوح انسان کی نظر میں جود و سخاوت عدالت سے بالاترہے.
اور پھر حضرت علی ؑ نے دلیل یہ دی کہ عدل اس لئے افضل ہے کہ زندگی کے امور اور مسائل کو اپنی جگہوں پر قرار دیتا ہے، جب کہ سخاوت انھیں اپنی جگہوں سے ہٹا دیتی ہے.(۵)
چونکہ عدالت کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ اپنے طبیعی مزاج پر چل رہا ہے اور ہر چیز اپنی صحیح جگہ پر ہے لیکن جودو سخاوت کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ اپنے طبیعی مزاج سے ہٹ گیا ہے ، جس کی وجہ سے یہ ضرورت پیش آئی کہ معاشرہ کے کسی ایک فرد کو اس کے حق سے زیادہ دے کر اس کی ضرورت پوری کی جائے.
آپ نے عدل کی برتری پر دوسر ی دلیل یہ دی :
’’:العدل سائس عام والجود عارض خاص‘‘
یعنی: ’’عدالت ایک عام قانون اور عمومی مدیر ہے جو پورے معاشرہ پر محیط ہوتا ہے؛ جبکہ سخاوت ایک استثنائی صورت حال ہے‘‘نتیجۃً عدل بر تر اور افضل ہے(۶)
آپ عدالت کو ہمیشہ اور ہر حال میں فوقیت دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’فان فی العدل سعۃ...‘‘یعنی:عدل میں وسعت اور لا محدود گنجائش ہے اور جو کوئی عدالت کی وسیع فضا میں بھی تنگی محسوس کرے تو وہ ظلم و نا انصافی کی تنگ فضا میں بدرجہ اولی تنگی گھٹن اور محسوس کرے گا۔(۷)
حضرت علی علیہ السلام عدالت کو ایک فریضہ الہی بلکہ ناموس الہی سمجھتے ہیں اور اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتے کہ انسان کے سامنے ظلم و ستم ہو اور وہ خاموش تماشائی بنا کھڑا دیکھتا رہے؛ بلکہ اس کا فرض ہے کہ حتی الامکان ظلم و ستم کو ختم کرنے اور عدل و انصاف کو عام کرنے کی سعی و کوشش کرے ۔چنانچہ آپ خطبہ شقشقیہ میں فرماتے ہیں:
’’اما والذی فلق...‘‘یعنی :’’گاہ ہو جاؤ ، قسم ہے اس خدا کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور ذی روح کو پیدا کیا ، اگر حاضرین کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کی وجہ سے مجھ پر حجت قائم نہ ہو گئی ہوتی اور اللہ نے علماء سے یہ عہد و پیمان نہ لیا ہوتا کہ وہ ظالم کے ظلم اور مظلوم کی مظلومیت پر خاموش نہ رہیں تو میں خلافت کی رسی کو اس کی گردن پر ڈال کر آج بھی ہنکا دیتا…‘‘۔(۸)
عام لوگوں کی نظر میں حکومت کا مقصد اقتدار ، عیش و عشرت اور لذت طلبی ہے لیکن نمائندگان پروردگار کی نظر میںحکومت کا مقصد ،معاشرہ میں عدل و انصاف کا قیام،ظلم و جور کا خاتمہ اور دنیا و آخرت میں نوع انسانی کی کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار کرنا ہے۔
ایک مرتبہ ابن عباس ،حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت آپعلیہ السلام اپنا پھٹا پرانا جوتا سی رہے تھے ، آپ علیہ السلام نے ابن عباس سے پوچھا:
’’ اس جوتے کی کیا قیمت ہوگی‘‘؟انھوں نے کہا :کچھ نہیں! تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:’’میری نظر میں اس حکومت و ریاست کی قدر و قیمت اس جوتے سے بھی کمتر ہے علیہ السلام مگر یہ کہ حکومت کے ذریعے میں عدالت کو نافذ کرسکوں ،حق کو قائم کر سکوں اور باطل کومٹا سکوں۔(۹)
حضرت علی علیہ السلام نے عدالت کو اتنی اہمیت دی اور اس طرح عدالت کو اپنی زندگی میں سمو لیا کہ عدالت آپ کی شخصیت کا ایسا حصہ بن گئی کہ جب بھی آپ علیہ السلام کا تذکرہ ہوتا ہے، بلا فاصلہ ذہن ،عدالت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اسی طرح جب کبھی عدالت کا ذکر ہوتا ہے تو وہ عادل امام علیہ السلام بے ساختہ یاد آجاتا ہے ، جس نے اعلان بھی کیا تھا اور اپنے عمل سے ثابت بھی کیا تھا کہ:
واللہ !اگر مجھے سات اقلیم اس شرط پر دیئے جائیں کہ میں ایک چیونٹی کے منھ سے جو کا ایک چھلکا چھین لوں تو میں انہیں ٹھوکرمار سکتا ہوں، لیکن اس حد تک بھی بے عدالتی اور ظلم نہیں کر سکتا‘‘۔(۱۰)
آپ کی عدالت اتنی مشہور ہوئی کہ دین و مذہب کی حدوں سے گزر کر ھما گیر شکل اختیار کر گئی ۔اور آج دنیا کا ہر مفکر اور دانشور ، خواہ وہ کسی بھی ملت و مذہب سے تعلق رکھتا ہو ،آپ کی عدالت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو اپنا شرف سمجھتا ہے۔چنانچہ جا رج جرداق نام کے ایک مسیحی دانشور نے آپ کی عدالت کے موضوع پر 5جلدوںپر مشتمل’’ صوت العدالۃ الانسانیہ‘‘ نام کی کتاب بھی تالیف کردی جو دنیا کی مختلف مشہور زبانوں میںترجمہ بھی ہوچکی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ذا تی ز ندگی سے لے کر اجتماعی،سماجی اور حکومتی زندگی کے ہر پہلو میں مکمل طور پر عدالت کو نافذ کیا۔اور بدیہی ہے کہ ان سارے موارد کی جمع آوری، اس مقالہ میں ہر گز نہیں ہو سکتی ، لہذا ذیل کی سطروں میں ہم حکومتی اور اجتماعی مسائل میں بعض عناوین کے تحت آپ کی عدالت کے کچھ نمونے نھج البلاغہ کے تناظر میں پیش کر رہے ہیں:
قانون سازی اور قانون کے نفاذ میں عدالت
حضرت علی علیہ السلام نے اپنی حکومت کے لئے جو قوانین مرتب کئے تھے وہ من و عن وہی قوانین تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی حکومت کے لئے معین فرمائے تھے، چنانچہ حضرت علی علیہ السلام کی عدالت کے بارے میں پیغمبر اسلام(ص) کا ارشادہے:
’’کفّی و کفّ علی فی العدل سواء ‘‘
یعنی :عدالت میں میرا اور علی کا ہاتھ بالکل برابر ہے ۔(۱۱)
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام مالی اور دیگر مادی حتی معنوی مسائل میں سارے انسانوں کو ایک ہی خانہ میں جگہ نہیں دیتا اور اس مسئلہ میں اسلام مارکسزم کا شدید مخالف ہے ؛لیکن جہاں قانون کا مسئلہ ہوتا ہے وہاں اسلام، عالم وجاہل،غریب و امیر،دوست و دشمن سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے۔حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:
’’علیک بالعدل فی الصدیق والعدو‘‘
یعنی :دوست اور دشمن دونوں کے ساتھ عدالت سے پیش آؤ۔(۱۲)
آپ علیہ السلام نے ایک نافرمان عامل کی تنبیہ کرتے ہوئے ایک خط میں فرمایا:
’’واللّه لو ان الحسن والحسین...‘‘یعنی: واللہ اگر حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام نے بھی یہ کام کیا ہوتا، تو ان کے لئے بھی میرے پاس کسی نرمی کا امکان نہیں تھا اور نہ وہ میرے ارادہ پر قابو پاسکتے تھے جب تک کہ ان سے حق کو حاصل نہ کر لیتا اور ان کے ظلم کے آثار کو مٹا نہ دیتا۔(۱۳)
آپ علیہ السلام قانون کے نفاذ میں کسی مروت ، خاندان پرستی اور تعلقات کے قائل نہیں تھے چنانچہ جناب عقیل علیہ السلام نے جو کہ آپ کے سگے بھائی تھے، جب آپ سے اپنا قرض ادا کرنے کے لئے بیت المال سے کچھ اضافی رقم کا مطالبہ کیا تو آپ نے نہایت سختی سے انکار کر دیا ۔(۱۴)
آج کی حکو متوں کو حضرت علی علیہ السلام کی سیرت کو اپنا کر ایسے قوانین بنانا چاہیں جن میں صرف حکمرانوں کا نہیں بلکہ پوری قوم کا فائدہ ہو اور دنیا کو چاہئے کہ ملکی اور عدالتی قوانین کے نفاذ میں تفریق کی قائل نہ ہو ۔
گورنر کے انتخاب میں عدالت
آج کی دنیا میں حکومت کے نمائندوں اور اراکین کے انتخاب، نیز عہدوںاور منصبوں کی تقسیم میں مکر و فریب ،رشوت ،چرب زبانی ، ما ل و دولت کی فراوانی ، تعلقا ت اور سب سے بڑھ، کر اپنے ذاتی منافع کو پیش نظر رکھا جاتا ہے، مگر جس چیز پر بالکل توجہ نہیں دی جاتی وہ انسان کی معنویت ،صداقت،عدالت اور لیاقت و صلاحیت ہے .لیکن علوی حکو مت میں معاملہ بالکل برعکس تھا. وہاں کسی بھی چیز پر توجہ نہیں دی جاتی تھی؛ سوائے عدالت ،معنویت اور لیاقت و صلاحیت کے .حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اور پرائے کے امتیاز کو ختم کرکے جو شخص جس عہدہ کی صلاحیت رکھتا تھا وہ عہدہ اس کے سپرد کردیاچنانچہ آپ کے۵۱گورنروں کی فہرست پر جب نظر ڈالی جاتی ہے تو اس میں مہاجر و انصار،یمنی،نزاری ،ہاشمی ، غیرہاشمی،عراقی،حجازی اور پیر وجوان سب نظر آتے ہیں ،جو چیز آپ سے پہلے کی حکومتوں میں بے نام و نشان تھی۔
اس کے برعکس آپ کی نگاہ ولید ،مروان ،عمر وعاص اور طلحہ و زبیر جیسے مشہور اور سرکردہ افراد پر نہیں ٹکتی ، چونکہ ان کے اندر وہ تقوی اور صلاحیت موجود نہیں تھی جو ایک اسلامی مملکت کے حاکم اور عامل میں ہونا چاہیئے. اگرچہ فقط طلحہ اور زبیر کو ان کی خواہش کے مطابق کوفہ اور بصرہ کاحاکم نہ بنانے کی وجہ سے آپ کو طرح طرح کی مشکلات ،منجملہ جنگ جمل اور اس سے پہلے جنگ بصرہ(جمل صغری) کا سامنا کرنا پڑا۔
آپ علیہ السلام نے دنیاوی سیاست دانوں کے برعکس، کسی بھی حال میں بڑی سے بڑی مادی منفعت اور سیاست کے بدلے عدالت کا سودا نہیں کیا ،اور خلافت ملتے ہی تمام ظالم اور نا اہل گورنروں منجملہ معاویہ جیسے طاقتور اور بانفوذ ،گورنر کو معزول کر دیا کیونکہ جب آپ سے لوگوں نے کہا فی الحال معاویہ کو معزول نہ کیجئے ،ابھی آپ کی حکومت مستحکم نہیں ہوئی ہے.اور وہ بغاوت کرکے آپ کی حکومت کے لئے خطرہ بن جائے گا. جب حکومت کے ستون مستحکم ہو جائیں تو آپ بآسانی اس کو معزول کر دیجئے گا. تو آ پ نے یہ کہ کر لوگوں کو خاموش کردیا کہ:’’ میں ایک لمحہ کے لئے بھی ظلم و ستم کو برداشت نہیں کر سکتا ‘‘
اور تقریباً اسی سے مشابہ ایک دوسرے موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا :
’’اتامرونی ان اطلب النصر بالجور…‘‘یعنی:کیا تم لوگ مجھے مشورہ دے رہے ہو کہ میں ظلم و جور کے سہارے فتح و کا میابی حاصل کروں . . . ( ۱۵ )
اور اس جملہ کے ذریعے آپ نے اس نظریہ پر خط بطلان کھینچ دیا جو کہتا ہے کی بلند اور نیک مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اچھے برے ہر قسم کے وسائل کا سہارا لیا جاسکتا ہے ۔
بیت المال اور مالی وسائل کی تقسیم میں عدالت
رسول اللہ (ص) عرب و عجم اور سیاہ و سفید کی تفریق کے بغیر سارے مسلمانوں کو بیت المال سے برابر کا حق دیا کرتے تھے۔ لیکن رسول اللہ (ص) کے بعد کی حکومتوں نے آپ کی سیرت کے بر خلاف بیت المال اور مال غنیمت کی تقسیم میں رنگ و نسل اور ذات پات کو معیار بنا لیا .لیکن حکومت ملتے ہی حضرت علی علیہ السلام نے اس غلط اور غیر اسلامی سیرت کی مخالفت کی اور دوبارہ سیرت رسول (ص) کا احیاء فرمایا اور عرب و عجم ، سیاہ و سفید اور مہاجر و انصار کی تفریق ختم کر دی ، جس کے نتیجے میں اہل باطل کی ایک بڑی تعداد آپ کی مخالف ہو گئی (۱۶)
جب آپ علیہ السلام نے خلیفہ سوم کی بد عنوانیوں کی مخالفت کی تو کچھ لوگوں نے کہا جو ہو گیا؛ سو ہو گیا تو اما م علیہ السلام نے فرمایا :
’’والله لو وجد ته قد تزوج به النساء ...‘‘یعنی: خدا کی قسم !اگر میں مسلمانوں کے عمومی اموال اس حالت میں پاتا کہ اسے عورت کا مہر بنا دیا گیا ہے یا کنیز کی قیمت کے طور پر دیا گیا ہے تو اسے بھی واپس کرا دیتا …‘‘ (۱۷)
آپ علیہ السلام بیت المال کومال خدا اور مسلمانوں کا حق سمجھتے تھے .آپ نے کبھی بھی بیت المال کو اپنے ذاتی منافع کے لئے استعمال نہیں کیا اور نہ ہی اپنے کسی عامل کی طرف سے بیت المال میں خیانت اور اسراف کو برداشت کیا .
نہج البلاغہ کے مختلف خطبات اور مکتوبات اس بات پر گواہ ہیں کہ امیر المومنین علیہ السلام نے بیت المال میں معمولی خیانت کرنے والوں کی شدیدتنبیہ و سرزنش کی ہے اور بہت سے گورنروں کو اس خطا پر معزول بھی کیا ہے۔
قضاوت میں عدالت
آپ کی عدالت اس سلسلے میں شہرہ آفاق ہے اور اس موضوع پر بہت سی مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں. ہم ذیل کی سطروں میں فقط دو تین نمونوں کے ذکر کرنے پر اکتفائ کر رہے ہیں:
الف: ایک مرتبہ ایک شخص نے خلیفئہ دوم کے دربار میں حضرت علیعلیہ السلام کے خلاف شکایت کی ، حضرت علی علیہ السلام اس شخص کے ساتھ خلیفہ دوم کے دربار میں پہنچے تو خلیفہ نے کہا: اے ابو الحسن! آپ اپنے مدّعی کے ساتھ بیٹھ گئے جب مقدمہ کا فیصلہ ہو چکا تو خلیفہ نے حضرت علی علیہ السلام کے چہرے پر ناراضگی کے آثار دیکھ کر اس کا سبب پوچھا ، آپ علیہ السلام نے فرمایا:
’’ تم نے گفتگو کے دوران میرے مدّعی کو نام لے کر بلایا مگر مجھے کنیت کے ساتھ بلایا حالانکہ عدل و انصاف کا تقاضا یہ تھا کی تم مجھے بھی نام لے کر بلاتے ‘‘(۱۸)
ب: حضرت علی علیہ السلام نے اپنے مشہور صحابی ابو الاسود دوئلی کو ایک جگہ قاضی بنایا اور پھر کچھ ہی عرصے کے بعد معزول کر دیا تو انہوں نے پوچھا : یا امیر المومنین میں نے نہ تو کوئی خیانت کی اور نہ ہی کسی طرح کی نا انصافی اور ظلم ، پھر آپ نے مجھے کیوں معزول کر دیا ؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:
’’ میں نے دیکھا کی تمہاری آواز مدعی کی آواز سے بلند ہو جاتی ہے. لہذا تمہیں معزول کر دیا‘‘(۱۹)
حضرت علی علیہ السلام نے فیصلہ، قضاوت اور حدودالہی کے نفاذ میں اپنے پرائے، دوست و دشمن، غلام و آقا، عرب و عجم سب کو ایک نگاہ سے دیکھا. چنانچہ تاریخ میں ایسے بہت سے شواہد ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حکم الہی کی مخالفت اور جرم کے مرتکب ہونے کی صورت میں اپنے قریبی ترین چاہنے والوں پر بھی حدود الہی کو جاری کیا ۔ چنانچہ نجاشی نام کے آپ کے ایک قریبی چاہنے والے نے ،جو بہت بڑے شاعر تھے اور ہمیشہ آپ کی حمایت میں اشعار کہا کرتے تھے، شراب پی لی. تو آپ نے اس پر بھی شراب پینے کی حد جاری کردی اور جب اس کے قبیلہ والوںنے اعتراض کیا تو فرمایا:
’’ اے بنی نہد کے بھائیو!نجاشی بھی امت مسلمہ کا ایک فرد ہے. لہذا ہم نے کفارہ کے طور پر اس پر بھی شریعت کی حد جاری کی ہے …‘‘(۲۰)
اسیروں اور مجرموں کے ساتھ عدالت
آج عدالت کے علمبردار اور حقوق انسانی کاڈھنڈورا پیٹنے والے کس طرح سے عدالت اور حقوق انسانی کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، یہ کسی بھی صاحب عقل و شعور سے پوشیدہ نہیں ہے ۔آج امریکہ ،یورپ اور دیگر ممالک میں اسیروں اور مجرموں کے ساتھ جو برتاو کیا جاتا ہے اس کی معمولی مثالیں گوانٹا نامو اور عراق میں ابو غریب اور دیگر امریکی جیلوں سے ملنے والی کچھ سنسنی خیز خبریں ہیں جنہیں سن کر ہر انسان کا بدن لرز جاتا ہے اور دل دہل جاتا ہے. ایک طرف قیدیوں کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے اور دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام ا پنے قاتل کے سامنے دودھ کا پیالہ پیش کر رہے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ عدالت کے تشنہ انسان کو صرف اسلام ہی کے چشمہ زلال اور سر چشمہ حیات سے سیرابی حاصل ہو سکتی ہے ۔
حضرت علی علیہ السلام نے اپنے قاتل کے بارے میں جو وصیتیں کی ہیں وہ در حقیقت منشور انسانیت ہیں. آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :’’دیکھو اگر میں اس ضربت سے جانبر نہ ہو سکا تو میرے قاتل کو ایک ہی ضربت لگانا؛اس لئے کہ ایک ضربت کی سزا اور قصاص ایک ہی ضربت ہے اور دیکھو میرے قاتل کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کرنا کیونکہ میں نے سرکار دوعالم سے سنا ہے کہ خبر دار! کاٹنے والے کتے کو بھی مثلہ نہ کرنا (اس کے بدن کے اعضاء نہ کاٹنا) ۔‘‘(۲۱)
مذہبی اقلیتوں کے ساتھ عدالت
تاریخ شاہد ہے کہ مذہبی اقلیتوں، مثلا اسلامی مملکت میں رہنے والے عیسائیوں اور یہودیوں وغیرہ کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کا زمانہ ان کی پوری تاریخ کا سب سے سنہرا اور پر امن دور ہے. اور ا ن کے علماء اور مفکرین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام اپنے گورنروں کو غیر مسلموں کے حقوق اور ان کے احترام کے بارے میں خصوصی تاکید کیا کرتے تھے. جس کی ایک مثال مالک اشتر کا عہدنامہ ہے. بطور مثال ،صرف ایک جملہ ملاحظہ ہو :
’’سارے لوگ تمہار ے بھائی ہیں ، کچھ دینی اور کچھ انسانی اعتبار سے ، لہذا تمہیں سب کے حقوق کالحاظ رکھنا ہو گا …‘‘(۲۲)
تاریخ میں یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ آپ نے ایک پریشان حال بوڑھے عیسائی کو دیکھ کر مسلمانوں کی سخت توبیخ کی اور پھر بیت المال سے اس کے لئے ماہانہ وظیفہ معین کر دیا۔اور معاویہ کے لشکر نے جب ’’ انبار‘‘ پر حملہ کیا اور اس کے ایک سپاہی نے ایک کافر ذمی عورت کا پازیب اور گوشوارہ چھین لیا تو آپعلیہ السلام نے مسلمانوں کو جمع کر کے ایک خطبہ دیا اور فرمایا :
’’اس دردناک اور شرمناک واقعہ پر اگر کوئی مسلمان افسوس کرتے ہوئے مر جائے تو وہ قابل ملامت نہیں ہے ‘‘۔(۲۳)
کیا آج دنیا میں عدالت کا نعرہ بلند کرنے والی حکومتوں میں مسلم اقلیتیں بھی پر امن اور محفوظ ہیں؟!!
میں اپنے مقالے کو شاعر کے اس شعر پر ختم کر رہی ہوں :
صلّی الاله علی جسم تضمنه قبر
فاصبح فیه العدل مدفوناً
’’ خدا کا درود و سلام ہو اس جسم اطہر پر جس کے دفن ہونے کے ساتھ عدالت بھی دفن ہو گئی۔‘‘
حوالہ جات


1۔ قرآن مجید ،سورہ حدید 25
2۔ قرآن مجید ،سورہ مائدہ8
3۔لسان العرب ج9، ص83
4۔ علامہ طباطبائی ،تفسیر المیزان ،ج12،ص454
5۔نہج البلاغہ ،حکمت 437
6۔ نہج البلاغہ حکمت 437
7۔نہج البلاغہ خطبہ 15
8۔ نہج البلاغہ خطبہ 3
9۔نہج البلاغہ خطبہ 33
10۔ نہج البلاغہ خطبہ 234
11۔ابن المغازلی مناقب علی ابن ابی طالب ص
129 12?غرر الحکم ،ج3،ص294
13۔ نہج البلاغہ مکتوب 41
14۔نہج البلاغہ خطبہ 222
15۔نہج البلاغہ خطبہ 124
16۔ ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ ،ج7 ،ص36
17۔ نہج البلاغہ خطبہ 15
18۔ ابن ابی الحدید ، شرح نہج البلاغہ ،ج17،ص65
19۔ نوری ، مستدرک الوسائل ،ج3،ص197
20۔ مناقب ابن شہر آشوب ،ج2،ص 147
21۔نہج البلاغہ ،وصیت 47
22۔ نہج البلاغہ ،عہد نامہ مالک اشتر
23۔ نہج البلاغہ خطبہ 27

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button