محافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

حضرت فاطمہ زہرا ء سلام اللہ علیہا کے فضائل قرآن کی روشنی میں

حضرت زہراء سلام اللہ علیھا کی فضیلت کو قر آن کریم کی متعدد آیات میں ذکر کیا ہے کہ انہی آیات میں سے ایک سورہ کو ثر ہے جو قرآن مجید کے ١١٤ سوروں میں سے حجم کے اعتبار سے چھوٹی سورہ شمار ہو نے کے باوجود جامع تر ین سورۃہے
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ا ِنَّا َعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ا ِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الاَبْتَرُ
( اے رسول ) ہم نے تم کو کوثر عطاکیا تم تو اپنے پر ور گار کی نماز پڑھا کر و اور قربانی دیا کر و بے شک تمہارا دشمن بے اولاد رہے گا ۔
علامہ ابن حجر عسقلانی نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے جناب امیر المومنین سے فرمایا: کہ اے علی! تم اور تمہارے شیعہ حوض کو ثر پر سیراب اور نورانی صورت میں ہونگے جب کہ تمہارا دشمن پیاس سے زرد، وہاں سے نکالے جائیں گے۔
صواعق محرقہ
اس روایت کی بناء پر کوثر کا معنی حوض کو ثر ہے نہ حضرت زہراء لیکن با قی تفاسیر میں اس سورہ کے شا ن نزول کو اس طرح بیا ن کیا گیا ہے کہ ابن اسحاق نے لکھا ہے،جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند جناب قاسم جو نو عمری یا نونہالی میں دنیا سے چل بسے تو پیغمبر پریشان ہوئے اور آپ کے دشمنوں میں سے سر سخت دشمن عاص ابن وائل تھا کہنے لگا حضرت محمد اپنے فرزند قاسم کے مر نے کے بعد بے اولاد اور مقطوع النسل رہیں گے کیو نکہ اس زمانہ میں بیٹیوں کو اولاد اور بقاء نسل شمار نہیں کیا جاتا تھا اس وقت خدا نے مشرکین کے اس طعنے کا جواب سورہ کوثر کے ذریعے دیا یعنی آپ پر سورہ کو ثر کو نازل کیا اور کہا کہ آپ کی نسل کبھی بھی منقطع نہیں ہو گی بلکہ آپ کے دشمن ہی بے اولاد اور مقطوع انسل ہو نگے اور آپ کی نسل قیامت تک زہرا ء ؑکے ذریعے باقی رہے گی کہ اسی سے معلوم ہو تا ہے کہ سورہ کوثر حضرت زہراءکی شان میں نازل ہوئی ہے اور جس جگہ میں یہ سورہ نازل ہو ئی ہے وہ مقام آج سعودی عرب میں مسجد کوثر کے نام سے مشہور ہے او ر حجاج اس مسجد کی زیارت کے لئے تشریف لے جا تے ہیں۔
بحار الانوار ج٤٣، زندگا نی فاطمہ زہراء ص ١٢٠
نیز کوثر کے معنی کے بارے میں جناب فخر رازی جو اہل سنت کے مشہور و معروف مفسر ہے ،نے کہا کہ کوثر سے مراد اولاد پیغمبر ہیں کیو نکہ جب مشر کین نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اولا د ذکور نہ ہونے پر طعنے اور عیب جوئی شروع کی تو اللہ تبارک وتعالی نے ان کے جواب میں اس سورہ کو نازل فرمایا ہے لہٰذا اہل بیت علہیم السلام پر بنی امیہ کی طرف سے ڈھائے گئے بے پناہ مظالم کے باوجود پیغمبر اکرم کی نسل سے (امام ) باقر (امام ) صادق (امام ) کاظم اور( امام) رضا علیہم السلام جیسی ہستیا ں وجود میں آئیں۔
تفسیر کبیر ج٣٢ صفحہ ١٢٤
دوسری آیت:
فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ
آل عمران:ا٦
پھر جب تمہارے پاس علم ( قرآن ) آچکا اس کے بعد بھی اگر تم سے کوئی ( نصرانی ) عیسی کے بارے میں مجادلہ کرے تو کہو کہ آو ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنے عورتوں کو بلاو اور ہم اپنی جا نوں کو بلائیں اور تم اپنی جانوں کو اس کے بعد ہم سب مل کر ( خدا کی بارگاہ ) میں گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کر یں ۔
اس آیہ شریفہ کے بارے میں جناب فرمان علی نجفی اعلی اللہ مقامہ نے یوں تفسیر کی ہے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں نجران کے نصاریٰ کو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لاکھ سمجھایا کہ ان کو خدا کا بیٹا نہ کہو حضرت آدم کی مثال بھی دی مگر ان لوگوں نے ایک بھی نہ سنی آخر آپ نے حکم خدا سے مباہلہ کی دعوت دی اور یہ قول آپس میں قرار ہوا کہ فلاں جگہ فلاں وقت میں ہم اور تم اپنے اپنے بیٹوں عورتوں اور نفسوں کو لے کر جمع ہوں اور ہر ایک دوسرے پر لعنت کر یں اور خدا سے عذاب کا خوا ستگار ہوں جس دن یہ مبا ہلہ ہونے والا تھا اصحاب، ابن سنور کے در دولت پر اس امید میں جمع ہو ئے شاید آپ ہمراہ لے جائیں۔مگر آپ نے اول صبح حضرت سلمان کو ایک سرخ کمبل اور چار لکڑیاں دے کر اس میدان میں ایک چھوٹا سا خیمہ نصب کرنے کیلئے روانہ کیا اور خود اس شان سے برآمد ہوئے کہ امام حسین گود میں لیا اور امام حسن کا ہاتھ تھاما اور جناب سیدہ آپ کے پیچھے اور حضرت علیؑ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی جناب فاطمہ کے پیچھے نکلے گویا اپنے بیٹوں کی جگہ نو اسوں کو اور عورتوں کی جگہ اپنی صاحبزادی جناب زہراء ؑکو اور اپنی جان کی جگہ حضرت علیؑ کو لیا اور دعا کی۔
خدا وندا! ہر نبی کے اہل بیت ہوتے ہیں یہ میرے اہل بیت ہیں ان کو ہر برائی سے دور اور پاک وپاکیزہ رکھ ۔
جب آپ اس شان سے میدان میں پہنچے تو نصاریٰ کا سر دار عاقب دیکھ کرکہنے لگا کہ خدا کی قسم میں ایسے نورانی چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹ جانے کو کہیں گے تو یقیناً ہٹ جائے گالہٰذا خیر اسی میں ہے کہ مباہلہ سے ہاتھ اٹھاو،ورنہ قیامت تک نسل نصاریٰ میں سے ایک بھی نہ بچے گا آخر ان لوگوں نے جزیہ دینا قبول کیا تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:واللہ اگر یہ لوگ مباہلہ کرتے تو خدا ان کو بندر اور سور کی صورت میں مسخ کرتا اور یہ میدان آگ بن جاتی اور نجران کا ایک فرد بھی نہ بچتا ، یہ حضرت علی کی اعلیٰ فضیلت اور حضرت زہر اء سلام اللہ علیہا کی شان میں کافی ہے۔
تفسیر فرمان علی نجفی ص ٧٨
اگرچہ انہوں نے تفسیر بیضاوی جلد اول سے اس بات کو نقل کرکے ان کا نظریہ حضرت علی کی فضیلت کے بارے میں ذکر کیا ہے لیکن آیہ شریفہ پورے اہل بیت علیہم السلام کی فضیلت بیان کرتی ہے لہٰذا حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی فضیلت بیان کرنے میں آیہ شریفہ کافی ہے۔مرحوم علامہ سید عبد الحسین شرف الدین نے لکھا ہے کہ پورے اہل قبلہ حتی خوارج اس بات کے معترف ہیں کہ حضرت پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مباہلہ کے وقت خواتین میں سے صرف جناب سیدۃؑ، احباب میں سے صرف آپ کے دو نوں نواسے حسن وحسین علیہما السلام، جانوں میں سے صرف حضرت علی علیہ السلام کو لے کر میدان میں گئے تھے کوئی اور شخص اس مباہلہ میں شریک نہ تھا۔
صحیح مسلم ج٧ مسند احمد، سنن ترمذی ٤
تیسری آیت:
آپ کی فضیلت بیان کرنے والی آیت میں سے آیت مودة ہے ارشاد ہوتا ہے: قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی
شوریٰ آیت ٢٣
(اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تم کہہ دو کہ میں اس (تبلیغ) رسالت کا اپنی قرابت داروں (اہل بیت) کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا ۔اس آیت شریفہ کی تفسیر کے بارے میں جناب فرمان علی نجفی اعلی اللہ مقامہ نے فرمایا:انصار اپنے ایک بڑے جلسہ میں اپنا فخر ومباہات کررہے تھے کہ ہم نے یہ کیا اور وہ کیا، جب ان کی باتیں ناز کی حد سے بھی گزری توابن عباس سے نہ رہا گیا اور بے ساختہ بول پڑے کہ تم لوگوں کو فضیلت صحیح، مگر ہم لوگوں پر ترجیح نہیں ہوسکتی،اس مناظرہ کی خبر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچی تو آپ خود ان کے مجمع میں تشریف لائے اور فرمایا:
اے گروہ انصار !کیا تم ذلیل نہ تھے کہ خدا وند نے ہماری بدولت تمہیں معزز کیا سب نے عرض کیا: بے شک
پھر فرمایا کیا تم لوگ گمراہ نہ تھے تو خدا نے میری وجہ سے تمہاری ہدایت کی عرض کیا یقینا پھر فرمایا: تو کیا تم لوگ میرے مقابل میں جواب نہیں دیتے وہ بولتے گیا آپ نے فرمایا:کیا تم یہ نہیں کہتے ہو کہ تمہاری قوم نے جھٹلایا تو ہم نے تصدیق کی تمہاری قوم نے تم کو ذلیل کیا تو ہم نے مدد کی اس قسم کی باتیں فرماتے جاتے تھے یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے زانوں کے بل بیٹھے اور عاجز ی کے ساتھ عرض کرنے لگے ہمارے مال اور جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ سب خدا اور رسول کا ہے یہی باتیں ہور ہی تھی اتنے میں یہ آیت شریفہ نازل ہو ئی اس کے بعد آپ نے فرمایا:جو شخص آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوستی پر مر جا ئے وہ شہید مرتا ہے جو آل محمد کی دوستی پر مرے وہ مغفورہے، جو آل محمد کی دوستی پر مرے وہ توبہ کرکے مرا ،جوآل محمد کی دوستی پر مرے وہ کامل الا یمان مرا، جو آل محمد کی دوستی پر مرا اس کو ملک الموت اور منکر و نکیر بہشت کی خوشخبری دیتے ہیں، جو آل محمد کی دوستی پر مرا وہ بہشت میں اس طرح بھیجا جا ئے گا جیسے دلہن اپنے شو ہر کے گھر ،جو آل محمد کی دوستی پر مرا وہ سنت اور جماعت کے طریقہ پر مرا جو آل محمد کی دشمنی پر مرا قیا مت میں اس کی پیشا نی پر لکھا ہوگا کہ یہ خدا کی رحمت سے مایوس ہے جو آل محمد کی دشمنی پر مرا وہ کافر ہے جو آل محمد کی دشمنی پر مرا وہ بہشت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا۔
اس وقت کسی نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کی محبت کو خدا نے واجب کیا ہے وہ کون ہیں؟
فرمایا :علی وفاطمہ اور ان کے بیٹے حسن اور حسین ۔پھر فرمایا :جو شخص میرے اہل بیت پر ظلم کر ے اور مجھے میری عترت کے بارے میں اذیت دے اس پر بہشت حرام ہے اسی مطلب کو علامہ زمخشری نے ،احمد حنبل نے مسند احمد میں اور صا حب در منثور نے در منثور میں بھی نقل کیا ہے۔
تفسیر فرمان علی نجفی ،صحیح بخاری ،در منثور ،مسند احمد
چوتھی آیت:
فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ
بقرہ آیت ٣٧
پھر آدم نے اپنے پرور گادر سے ( معذرت کے ) چند الفاظ سیکھے پس خدا نے ( ان الفاظ کی برکت سے ) آدم کی تو بہ قبول کر لی بے شک وہ بڑا معاف کر نے والا مہربان ہے ۔
اس آیہ شریفہ کی تفسیر کے بارے میں اہل سنت میں سے جناب ابن مغازلی نے ابن عباس سے روایت کی ہے:سُئِلَ النبی صلی اللہ وآلہ وسلم عَنِ الکلمات التی تلقی آدم من ربہ فتاب علیہ قال سَئَلَہُ بحق محمّد وعلی وفاطمة والحسن والحسین الا تبت علیّ فتاب علیہ
در منثور ، ینا بیع المودة، منا قب ابن مفازلی
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پو چھا گیا کہ وہ کلمات کہ جن کی برکت سے خدا نے حضرت آدم کی توبہ قبول کی ہے وہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ پنجتن پاک ہیں یعنی محمد، علی ، فاطمہ ، وحسن ،حسین کہ حضرت آدم نے ان کی برکت سے توبہ کی تو خدا نے ان کی تو بہ کو قبول فرمایا ۔
پانچویں آیت:
اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا
الاحزاب:٣٣
(اے پیغمبر کے) اہل البیت خدا بس یہ چا ہتا ہے کہ تم کو ہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جیسا پاک وپاکیزہ رہنے کا حق ہے ویسےپاک وپاکیزہ رکھے ۔
شا ن نزول:اہل سنت نے روایات متواترہ کے ساتھ اس آیہ شریفہ کی شان نزول کے بارے میں اس طرح ذکرکیا ہے کہ یہ آیہ شریفہ جناب ام سلمہ کے گھر نازل ہوئی ہے جس وقت جناب ام سلمہ کے گھر میں حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام حضرت فاطمہ زہراءعلیہا السلام اور حسن وحسین علیہما السلام کے سا تھ باقی خاندان بھی تشریف فرما تھے لیکن جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی عبا کو گھر کے کسی گو شے میں بچھایا اور پنجتن پاک کو باقی خاندان سے الگ کر کے فرمایا خدا یا: یہ میرے اہل بیت ہیں ان پر درودو سلام ہو پھر آیہ شریفہ نازل ہوئی لیکن جب حضرت ام سلمہ عبا کے قریب آنے کی خواہش کی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو منع فرمایا اور کہا اے ام سلمہ تم خیر پر ہو لیکن زیر عبا آنے کی اجازت نہیں ہے۔اس مطلب کو جناب احمد ابن حنبل نے مسند میں صحیح ترمذی اور خصائص النسائی نے ذکر فرمایا ہے اور آیہ تطہیر نازل ہو نے کے بعد چھ ما ہ تک ہر روز جناب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کی نما ز کے وقت در حضرت زہراء پر تشریف لے جا تے تھے اور فرماتے تھے:اے میرے اہل بیت! نماز۔ اے میرے اہل بیت! نماز۔ کیونکہ خدا نے ہی ارادہ کیا ہے کہ میرے خاندان میں سے تم کو ہر ناپاکی سے دوررکھے اور ہمیشہ پاک وپاکیزہ قرار دیا ہے۔
زند گانی حضرت فاطمہ زہرا ص ٢٢٥، مسند احمد، خصائص النسائی
چھٹی آیت:
وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَاسِیرًا اِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡہِ اللّٰہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّ لَا شُکُوۡرًا
الانسان ٨،٩
اوروہ اس کی محبت میں محتاج ،یتیم اور اسیروں کو کھانا کھلاتے ہیں ہم نہ تم سے بدلے کے خواستگار ہیں اور نہ شکر گزاری کے۔
جناب زمخشری اہل سنت کے معروف مفسرین میں سے شمار کیا جا تا ہے انہوں نے اپنے تفسیر الکشاف میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت امام حسن وحسین علیہما السلام مریض ہو گئے تھے اتنے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چند اصحاب کے ساتھ ان کی عیادت کو تشریف لے گئے اور آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: اگر بچوں کی تندرستی اور شفا یابی کے لئے نذر ما نگے تو کتنا بہتر ہے ۔اتنے میں حضرت علی اور حضرت زہراء اور ان کی خادمہ فضہ تینوں نے نذر مانگی کہ اگر حسنین کی بیماری ٹھیک ہو جائے، تو ہم تین دن روزہ رکھیں گے۔ جب حسنین ٹھیک ہو گئے تو حضرت علی علیہ السلام اور حضرت زہراء سلام اللہ علیہا وفضہ نے روزہ رکھنا شروع کیا لیکن افطار ی کیلئے کو ئی چیز نہ تھی لہٰذا حضرت علی علیہ السلام نے ایک یہودی سے تین صاع گندم قرض لے کر دو لت سرا میں آئے اور حضرت زہراءکے حوالہ کیا ۔جناب زہراء نے ایک صا ع گندم سے روٹی تیار کی اور افطاری کے لئے دستر خوان پر لا کر رکھی، اتنے میں سائل کی طرف سے ندا آئی:اے خاندان نبوت درودو سلام آپ پر ہو میں ایک مسکین ہوں میرے پاس کھا نے کی کو ئی چیز نہیں ہے میر ی مدد کرنا خدا آپ کو جنت کی غذا نصیب فرمائے۔اتنے میں کھا نا مسکین کو دیا حضرت فضہ نے بھی ان کی پیروی کی اور اس دن کھا نے کے بغیر پا نی سے افطار کر کے رات گزاری پھر جب دوسرے دن روزہ رکھا افطار کا وقت آپہنچا حضرت زہرا نے دسترخوان پر روٹی رکھی افطار کے منتظر تھے اتنے میں یتیم کی آواز آئی:اے اہل بیت پیغمبر میں یتیم ہوں میر ے پاس کھا نے کی کو ئی چیز نہیں ہے میر ی مدد کر یں۔اس دن کی افطار ی کو یتیم کے حوالہ کر دیا تیسرے دن روزہ رکھا افطا ری کے لئے دسترخوان پر بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں آواز آئی:میں ایک اسیر ہوں میری مدد کریں افطاری کو اسیر کے حوالہ کر دیا پھر پانی سے افطار کر کے سوئے لیکن جب چو تھے دن کی صبح ہو ئی تو حضرت علی ،امام حسن وحسین علیہم السلام کو لے کر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی بھوک کی حالت دیکھ کر حیران ہو ئے اور حسنین کو لے کر حضرت زہراء کے دیدار کو آئے دیکھا کہ حضرت زہراء محراب عبادت میں خدا سے راز ونیاز کر رہی ہیں جب کہ بھوک کی وجہ سے آپ کی حالت بھی معمول پر نہ تھی لہٰذا پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پریشان ہوئے اتنے میں جبرئیل آئے اور کہا اے پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے ایسے فدا کار اہل بیت ہو نے کی خاطر خدا نے تجھے سورہ ہل اتٰی کو ہد یہ فرمایا ہے کہ اس کو لے لیں لہٰذا حضرت زہراء کی فضیلت ثابت کر نے میں یہی روایت کا فی ہے کہ جو شیعہ معتبر مفسرین میں سے صا حب مجمع البیان صاحب المیزان اور اہل سنت کے معروف تفا سیر میں سے درمنثور وغیرہ میں نقل کیا گیا ہے ۔
مجمع البیان ج١٠، المیزان ج٣٠، در منثور،الکشاف ج٤
ساتویں آیت:
مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ، بَیْنَہُمَا بَرْزَخ لاَیَبْغِیَان
الرحمٰن:١٩،٢٠
خدا نے دو در یا بہا ئے جو با ہم مل جا تے ہیں دونوں کے در میان ایک حد فاصل ہے جس سے تجاوز نہیں کرتے۔
در منثور جلد ٦ تفسیر فرمان علی نجفی
اگر چہ اس آیہ شریفہ کی تفسیر کے متعلق مفسرین کے مابین اختلاف ہے لیکن علامہ ابن مردویہ نے ابن عباس اور انس ابن مالک سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :دو در یا سے مراد حضرت علی علیہ السلام اور فاطمہ(س) ہیں جب کہ حد فاصل سے مراد ان کے دو فرزند حسن اور حسین علیہما السلام ہیں۔اس تفسیر کی بنا پر یہ آیہ شریفہ حضرت زہرا کی فضیلت پر بہترین دلیل ہے۔
آٹھویں آیت:
وَلَسَوْفَ یُعْطِیکَ رَبُّکَ فَتَرْضی
الضحٰی:٥
اور تمہارا پرور دگار عنقریب اس قدر عطا کرے گا کہ تم خو ش ہو جاو ۔اس آیہ شریفہ کے شا ن نزول کو اہل تسنن کے معروف ومشہور محققین میں سے جناب عسکری اور ابن لال وابن تجار اور ابن مردویہ نے جا بر ابن عبداللہ انصاری سے روایت کی ہے کہ ایک مر تبہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب فاطمہ کے گھر تشریف لائے تو دیکھا جناب زہراء چکی چلا رہی ہیں اور ان کے بدن پراونٹ کی کھال سے بنی ہوئی ایک چادر زیب تن ہے تو آپ نے فرمایا اے فاطمہ آخرت کی نعمتوں کے واسطے دنیا کی تلخی چکھو اور جلدی کرو۔اس وقت خدا نے یہ آیہ نازل فرمائی۔
در منشور جلد ٦ ،ص ٣٣٣، تفسیر فرمان علی نجفی
اس روایت کی بناء پر آیہ شریفہ سے حضرت زہراءسلام اللہ علیہا کی فضیلت اور عظمت بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ لہذا مذکورہ آیات کی تفسیر شان نزول اور دیگر قرائن وشواہد سے واضح ہو جا تا ہے کہ زہراءسلام اللہ علیہا کا ئنات کی تمام خواتین سے افضل ہیں اگر چہ کچھ روایات منقول ہیں کہ جن سے استفادہ ہو تا ہے کہ تمام خواتین سے افضل چار خواتین ہیں:
حضرت خدیجہ، حضرت مر یم ،حضرت آسیہ، حضرت زہرا ء
لیکن آیات سابقہ اور وہ روایات جو زہراءسلام علیھا کی عظمت پر دلالت کر تی ہے ان کی روشنی میں بلاشک و تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت زہراء ان بافضیلت خواتین میں سے افضل ترین ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://shiastudies.com/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button