محافلمناقب امام جعفر صادق عمناقب و فضائل

امام صادق علیہ السلام کی علمی عظمت

مؤلف: محمود حسین حیدری
اسلامی قوانین اور احکام الٰہی کی روح اور بقا کا اصلی راز فکری آزادی ہے۔ بحث و مباحثہ اور احکام الٰہی پر تحقیقات سے افکار اور کمالات کے چشمے پھوٹتے ہیں اور محققین کے لئے مزید علمی دریچیت روشن ہو جاتے ہیں۔ علم و دانش اور دانشمندوں کے افکار سے صحیح استفادہ کی روش امام صادق علیہ السلام کے علمی درسگاہ کی ایک عظیم خصوصیت ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں۔
’’لو علم الناس ما فی طلب العلم لطلبوہ ولو بسفک الدماء‘‘
(اصول کافی، ج،۱ ،ص،۹۸، محمد یعقوبی کلینی ’’کتاب فضل العلم، باب ثواب العالم و المتعلم)
” اگر لوگوں کو حصول علم کے فضائل معوم ہو جائیں تو وہ ضرور علم حاصل کریں گے،چاہے اس کے لئے خون سل بہانا پڑے”۔
امام صادق علیہ السلام کی وسعت علہمی دوسرے مکلاتب فکر کے مقابلے میں امامؑ کے کارنامہ علمی سے واضح ہو جاتی ہے۔ کیونکہ حضرت نے علمی دریا اس طرح بہائے کہ ہر صاحب عقل و منطق آپ کے ادلۂ علمیہ کے سامنے سر بسجو نظر آتا ہے۔ آپ نے مکتب امامت و فقاہت کے علمی و اعتقادی اصول کی تشریح کے ذریعے اسلام کے سچے اعتقادات واضح کئے اور اسلام کی فکری تحریک کو آفات و حوادث سے محفوظ رکھا۔ انحرافات کے حدود کی تعیین اور ایسے اصول پیش کئے جو اسلامی قانون کا منبع قرار پایا۔ آج بھی فقہ اور اصول فقہ میں ڈیڑھ سو سے زیادہ ایسے قواعد موجود ہیں جن دے ہزاروں فقہی مسائل کا استخراج کیا جاتا ہے ان میں زیادہ تر قواعد ایسے ہیں جو امام جعفر صادق علیہ السلام کے ان ارشادات سے مأخوذ ہیں جن کا سلسلہ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہونچا ان قواعد کی کامل تشریح ’’القواعد الافقہیۃ‘‘ کے نام سے چھپنے والی کتاب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
(القواعد الفقہیہ میرزا حسین بجنوردی، والقواعد والفواید، شہید اول)
امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں اسلامی فقہ کی تدوین ہوئی۔ ایسے قواعد فقہی وضع کئے گئے جو ہر زمانہ میں فقہی مشکلات کو برطرف کر سکتے ہیں۔ مثلاً احکام میں قاعدۂ ’’عدم عسر و حرج‘‘ قاعدۂ ’’الضرورات قبیح المحذورات‘‘ قاعدۂ ’’دفع‘‘ وغیرہ۔
اسلامی قوانین میں قاعدۂ فراغ، تجاوز، اوفوا العقود․․․ ان کے علاوہ متعدد قواعد ہیں جن کی قواعد فقہی سے متعلق کتب میں بحث ہوتی ہے۔
علم حدیث و رجال میں امام صادق علیہ السلام نے بخاری و مسلم اور دوسرے اسلامی محدثین سے ایک صدی پہلے حدیث کی صحت کو پرکھنے کے لئے ایک کامل معیار قائم کرتے ہوئے فرمایا: ’’جو حدیث قرآن کے مطابق ہو اسے قبول کرو اور اس پر عمل کرو اور جو قرآن کے خلاف ہو اسے ٹھکرا دو۔
(اصول کافی ج،۱ ص،۲۰۰-۲۰۲، کتاب فضل العلم باب الأخذ بالسنّہ و شواہد الکتاب)
آپ کے علمی مکتب کے مطالعہ سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت کا وسیع علمی و عریض علمی مکتب صرف فقہ و اصول، حدیث و کلام اور اس کے فروعات کی تعلیمی حد تک محدود نہ تھا بلکہ فقہ و حدیث وغیرہ کے پہلو بہ پہلو فلسفہ اور علوم ما وراء طبیعت پر بھی توجہ دی گئی۔ چنانچہ فلسفہ میں آپ کا عقیدہ یہ ہے کہ ’’ہر شئی کی حقیقت اس کی صورت ہے نہ کہ مادہ یا ہر دو۔
(امام صادق علیہ السلام پیشوا و رئیس مذہب ص،۱۰۸)
اسی طرح آپ کے تربیت یافتہ شاگردوں نے مختلف علوم و فنون (جیسے فزکس، کیمیا، الجبرا، اور جومیٹری وغیرہ) میں تبحر اور تخصص پیدا کر کے کتابیں لکھیں۔ جیسے جابر بن حیان کی ’’المیزان‘‘ ’’الرحمۃ‘‘ اور ’’مختار رسائل جابر‘‘ وغیرہ۔
علم کلام میں مفضل بن عمر جعفی نے ’’توحید مفضل‘‘ پیش کی ہے جو اپنے موضوع میں بے نظیر کتاب ہے۔
حدیث شناسی اور فقہ میں زرارہ بن اعین، ابان بن تغلب، جابر جعفی، برید عجلی، ابن ابی یعفور، محمد بن مسلم، ان ابی عمیر، ابو بصیر اسدی، فضیل بن سیارہ معلیٰ بن خنیس، جمیل بن دراج، حمار بن عثمان اور ہشام بن سالم وغیرہ جیسے نامور افراد کی تربیت فرمائی۔
مذہب جعفری سے دفاع کے لئے، فن مناظرہ میں حمران بن اعین شیبانی جیسے مناظر کی تربیت فرمائی۔
(اختیار معرفۃ الرجال (رجال کشی) ص،۱۲۵)
امام جعفر صادق علیہ السلام کے دوسرے بزرگ شاگردوں کے تذکرہ کی اس مختصر مقالہ میں گنجائش نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے شائقین حضرات کتب تراجم و رجال کی طرف رجوع فرمائیں۔
(اختیار معرفۃ الرجال (رجال کشی) ص،۱۲۸، رجال طوسی ص،۱۴۲- ۳۴۲)
مختصر یہ کہ امام صادق علیہ السلام نے اسلام و مسلمین کے مرکز ’’مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں جس یونیورسٹی کی بنا رکھی اس میں ہزاروں کی تعداد میں تشنگان علم، مختلف علوم سے سیراب ہوئے۔
جہاں پر ظلم و بربریت اور آل محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف مسلسل سازشیں ہوں وہاں امام صادق علیہ السلام کا اتنی کثیر تعداد میں شاگردوں کی تربیت کرنا معجزہ اور کرامت سے کم نہیں ہے۔ گویا اپنے جد امجد حضرت محمد مصطفےٰصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح صداقت میں اس قدر مشہور و معروف ہوئے کہ آپ کے زمانہ کے تمام لوگوں نے متفقہ طور پر آپ کو صادق آل محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لقب دیا۔
(امام صادق علیہ السلام پیشوا و رئیس مذہب ص،۳۰)
آفاق عالم نے آپ کی شہرت کا قدم چوما، علمی اور فکری نشستوں میں آپ کو غیر معمولی احترام سے دیکھا جاتا تھا، دوست اور دشمن سبھی آپ کے فضائل کے معترف ہو گئے، سخت سے سخت دشمن بھی آپ کے فضائل و مکارم کا انکار نہیں کر سکے
’’والفضل ما شھدت بہ اعداء‘‘
اور فضیلت وہی ہے جس کی گواہی دشمن دیں۔
حضرت کی علمی شخصیت کے بارے میں دانشمندوں کے اعترافات کا ایک ذخیرہ موجود ہے جس کا ذکر اس مختصر مقالہ میں ممکن نہیں ہے صرف چند اقوال قارئیں کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں تاکہ آپ کی علمی شخصیت اجاگر ہو سکے:
مالکی مذہب کے امام مالک بن انس کہتے ہیں:
’’و لقد کنت أتیٰ جعفر بن محمّد و کان کثر المزاح‘‘
جب میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت با برکت میں حاضر ہوتا تھا تو دیکھتا تھا کہ آپ مزاح فرما رہے ہیں لبوں پہ مسکراہٹ رہتی تھی جب بھی آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیا جاتا تھا آپ کا چہرہ پہلے سبز پھر زرد ہو جاتا تھا۔ اپنی تمام زندگی میں حضرت کو تین حالتوں میں سے کسی حال میں پاتا تھا، یا تا حضرت نماز پڑھتے ہوتے، یا روزہ رکھے ہوتے، یا قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے۔ میں نے عبادت و ریاضت میں اور علم و دانش کے حوالے سے کسی کو امام جعفر صادق علیہ السلام سے بہتر نہیں دیکھا۔
(الامام الصادق علیہ السلام و المذاہب الاربعۃ ج،۱، ص،۵۳، الامام المالک (ابو زہرہ) ص۹۴-۹۵)
اہل سنت کے امام اعظم ابو حنیفہ کہتے ہیں:
’’ما رأیت افقہ من جعفر بن محمّد و انہ اعلم الامۃ‘‘
میں نے امام جعفر بن محمد(صادق علیہ السلام) سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا بے شک آپ امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سب سے زیادہ علم و فضل کے مالک ہیں۔
(تذکرۃ الحفاظ، ذہبی، ج،۱ ص،۱۶۶، الامام الصادق علیہ السلام و المذاہب الاربعۃ، ص،۲۲۴ج،۱، بحوالہ جامع اسانید ابی حنیفہ، ج،۱ ص،۲۲۲؛ والامام ابو حنیفہ (ابو زہرہ) ص،۷۰)
مزید لکھتے ہیں ’’ایک مرتبہ منصور دوانیقی نے مجھ سے کہا:
’’لوگوں کو جعفر بن محمدؑ سے عقیدت ہو گئی ہے کہ لوگ جوق در جوق ان کی خدمت میں شرفیاب ہوتے ہیں اور تم کو یہاں اس لئے لایا ہوں کہ تم جعفر بن محمدؑ سے مناظرہ و مباحثہ کے لئے اپنے کو آمادہ کرو، اور کچھ اہم اور مشکل مسائل تیار کرو مجھے امید ہے کہ جعفر بن محمدؑ تمہارے سوالات کا جواب نہیں دے پائیں گے تو خود بخود لوگوں کی نظروں سے ان کا وقار ختم ہو جائے گا۔ ابو حنیفہ لکھتے ہیں: میں نے منصور کے کہنے پر چالیس اہم اور مشکل مسائل تیار کئے پھر حیرہ کے مقام پر خلیفہ (منصور) کے سامنے حضرت کی خدمت میں پیش کیا تو حضرت نے ہر مسئلہ کے جواب میں فرمایا: اس مسئلے کے بارے میں اہل عراق کا نظریہ یہ ہے، اہل مدینہ کا جواب یہ ہے اور ہم اہل بیت کی نظر میں اس کا جواب یہ ہے۔ یعنی حضرت نے اختلاف اقوال کے تمام موارد ذکر کرتے ہوئے ان مسائل کے ایسے جواب دئے کہ سب کو آپ کی علمی شخصیت کا اعتراف کرنا پڑا اور ابو حنیفہ کو یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا ۔
’’ان اعلم الناس، اعلمہم باختلاف الناس‘‘
(الامام الصادق علیہ السلام و المذاہب الاربعۃ ج،۲ ص،۵۳)
” یعنی سب سے بڑا دانشمند وہ ہے جو لوگوں کے اختلاف آراء کو سب سے زیادہ جانتا ہو”۔
اسی لئے تو وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے ۔
’’میں نے جعفر بن محمد صادق علیہ السلام سے بڑا کوئی فقیہ نہیں دیکھا۔
(الامام الصادق علیہ السلام(ابو زہرہ) ص،۲۲۴، الامام ابو حنیفہ (ابو زہرہ) ص،۷۰)
سفیان ثوری (جو اپنے زمانہ کے مشہور فقہاء میں سے ایک ہیں اور اہل سنت کے یہاں علم و زہد و پرہیزکاری کے حوالے سے بہت مشہور ہیں) نے بھی امام جعفر صادق علیہ السلام کی شاگردی اور آپ سے علمی اور اخلاقی میدان میں کسب فیض کیا ہے ۔
(تذکرۃ الحفاظ ج،۱ ص۱۹۷)
اور امام صادق علیہ السلام سے حدیثیں بھی نقل کی ہیں۔
(ادوار فقہ ج،۳ ص،۵۷۶)
عمر بن مقدام کہتے ہیں کہ
’’جب بھی جعفر بن محمدؑ کو دیکھتا تھا تو مجھے یقین ہو جاتا تھا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل سے ہیں”۔
) تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی ج،۲ ص،۸۸)
ابن حجر ہیثمی، امام کی علمی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’یحییٰ بن سعید بن جریح، امام مالک، سفیان ثوری، امام ابو حنیفہ اور ایوب فقیہ جیسی شخصیتوں نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں”۔
(الصواعق المحرقہ ابن حجر ھیثمی ص،۱۰۲)
جاحظ، تیسری صدی کے نامور علما میں جن کا شمار ہوتا ہے لکھتے ہیں ’’امام صادق علیہ السلام ایک ایسی علمی شخصیت تھی جن کے علم و فقاہت کا چرچا پوری دنیا میں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ اور سفیان ثوری آپ کے شاگردوں میں سے تھے جو آپ کی عظمت علمی کے بیان کے لئے کافی ہے۔
(رسائل الجاحظ ص،۱۰۶،الامام الصادق علیہ السلام و المذاہب الاربعۃ ج،۱ ص،۵۵، الامام الصادق علیہ السلام (ابو زہرہ ص،۳۶)
ابو زہرہ، ’’الامام الصادق علیہ السلام‘‘ میں لکھتے ہیں ۔
’’علماء اسلام باوجودیکہ مختلف نظریات اور مکاتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک دوسرے سے اختلاف رأی رکھنے کے باوجود امام صادق علیہ السلام کے علمی مقام و عظمت اور بزرگی کے بارے میں اتفاق نظر رکھتے ہیں”۔
(الامام الصادق علیہ السلام (ابو زہرہ) ص،۶۶)
قاہرہ یونیورسٹی، میں شعبہ ادبیات کے پروفیسر ڈاکٹر حامد حنفی، عراقی دانشمند اسد حیدری کی کتاب ’’الامام اصادق علیہ السلام والمذاہب الاربعۃ‘‘ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں ’’بیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا کہ میں تاریخ فقہ و علوم اسلامی میں محقق کی حیثیت رکھتا ہوں ار زمانۂ تحقیق سے نسل نبوت کی پاک و پاکیزہ اور با کرامت اور علمی شخصیت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھے بے حد متأثر کیا۔ میرا عقیدہ ہے حضرت ترقی پسند رہبروں میں سے تھے اور آپ اسلامی علوم کے موجد اور سب سے ذمہ دار مفکر ہیں جو ہمیشہ شیعہ اور سنی دانشمندوں کا مرکز رہے ہیں اور رہیں گے۔
(الامام الصادق علیہ السلام و المذاہب الاربعۃ ،ج،۲ ص،۵۳)
) حسن بن وشاء، ایک مشہور اسلامی متکلم اور فلسفی کہتے ہیں: میں نے اس مسجد کوفہ میں نو سو سے زیادہ ایسے اساتذہ دیکھے ہیں جو کہا کرتے تھے ’’حدثنی جعفر بن محمدؑ‘‘ہم سے جعفر بن محمدؑ نے حدیث بیان کی ہے۔
(الملل و النحل ،ج،۱ ص،۱۳۲ بحوالۂ تاریخ کوفہ)
قاموس الاعلام، کے مؤلف ’’امسترش‘‘ دائرہ المعارف نامی کتاب میں لکھتے ہیں:
جعفر بن محمدؑ شیعوں کے بارہ اماموں میں سے ایک ہیں آپ امام محمد باقرؑ کے سب سے بڑے فرزند تھے علم و فضل میں یگانۂ زمان تھے آپ کے درس میں امام ابو حنیفہ نے زانوئے ادب تہہکیا اور آپ کے ظاہری اور باطنی علوم سے فیض حاصل کیا امام جعفر صادق علیہ السلام علم الجبرا و کیمیا اور ان کے علاوہ دوسرے علوم میں بھی تبحر رکھتے تھے جن وگوں نے آپ کی صحبت سے کسب فیض کیا ہے ان میں ’’الجبرا‘‘ کے مشہور ماہر جابر بن حیان بھی تھے۔
(دائرۃ المعارف ج،۳ ص،۱۸۲۱)
فرید و جدی، لکھتے ہیں:
امام جعفر صادق علیہ السلام کا خانۂ علم و دانش روزانہ عظیم دانشوروں سے پر رہتا تھا علماء اور دانشمند حضرات آپ سے حدیث، تفسیر، فلسفہ و علوم کلام کا درس حاصل کرتے تھے اکثر اوقات ان کی تعداد دو ہزار ہوتی تھی اور بعض اوقات چار ہزار مشہور علماء آپ کے درس میں شرکت کرتے تھے۔
(دائرۃ المعارف ، ج،۳ ص،۱۰۹)
بطرس بستانی، کا بیان ہے کہ
’’امام جعفر صادق علیہ السلام سادات اور بزرگان اہل بیتؑ میں سے تھے۔ راست گوئی کی وجہ سے آپ کا لقب صادق قرار پایا۔ ان کا فضل و شرف بہت عظیم ہے۔ علم کیمیا اور جبر میں آپ کے خاص نظریات ہیں۔ آپ کے مشہور شاگرد جابر بن حیان نے ایک کتاب لکھی ہے جو ایک ہزار صفحات پر مشتمل تھی۔
(دائرۃ المعارف، ج،۶ ص،۴۶۸)
(منصور دوانیقی، جو امام کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھا لیکن اسے بھی اعتراف ہے کہ امام صادق علیہ السلام خیر و برکات اور نیکیوں کے ویسے ہی پیشرو تھے جس طرح قرآن نے فرمایا ہے۔
(تاریخ یعقوبی، ج،۳ ص، ۱۱۷)
شیخ مفید، لکھتے ہیں ’’امام جعفر صادق علیہ السلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پر وقار اور با عظمت فرزندوں میں سے تھے آپ کے مانند کسی دوسرے سے اس قدر علوم و آثار و احادیث نقل نہیں ہوئے۔ آپ سے جن لوگوں نے حدیث نقل کی ہے ان کی تعداد چار ہزار افراد بتائی جاتی ہے۔
(الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی عبادہ، ج،۲ص،۱۷۹ ، الامام الصادق علیہ السلام و المذاہب الاربعۃ ج،۱ ص،۶۹)
حضرت کے بارے میں دانشمندوں کے تمام اقوال نقل کرنے کیل لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ہم اسی مقدار پر اکتفاء کرتے ہیں۔
پوری بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام جیسی علمی شخصیت نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں یہ خطور ہوا کہ علم و عمل اور فقہ و فقاہت میں ان سے بڑا بھی ہوگا۔
Source: http://alhassanain.org/urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button