محافلمناقب امام موسیٰ کاظم عمناقب و فضائل

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی حیات طیبہ کا مختصر تعارف

25رجب المرجب یوم شہادت باب الحوائج امام موسی کاظم علیہ السلام ہمارے ساتویں امام ہیں آپ کے القاب : كاظم، صالح، صابر، امين اور عبدصالح ہیں اور "باب الحوائج” کے نام سے زیادہ یاد کۓ جاتے ہیں، آنحضرت کی کنیپ: ابوابراہيم، ابوالحسن اول، ابوالحسن ماضي، ابوعلي اور ابواسماعيل ہیں۔
(الارشاد ،ص 559؛ منتہي الآمال ،ج2، ص 181؛ القاب الرسول و عترتہ، ص 62)
امام موسی کاظم علیہ السلام 7 صفر سن 128 یا 129 ھ کو مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے درمیاں ” ابوا” نام کے گاوں میں پیدا ہوے ، آپ کی والدہ ماجدہ کا نام ” حمیدہ بریریہ” ہے جو کہ حمیدہ مصفا کے نام سے معروف تھیں، امام جعفر صادق (ع) کی شہادت کے بعد 20 سال کی عمر میں منصب امامت پر فائز ہوے۔
(المستجاد، ص 182)
آنحضرت نے اپنے دور امامت میں چار بنی عباسی خلیفوں(منصور دوانقي، مہدي، ہادي و ہارون الرشيد) کے ہمعصر تھے،
امام (ع) ہر خلیفہ کے طرف سے عتاب اور رنج کا شکار رہے اور کئ‌ مرتبہ انکی طرف سے گرفتار کرکے قیدی بنائے گئے، ہارون رشید کے زمانے میں شوال سن 179 ھ سے شہادت تک بعنی سن 183 ھ تک زندان میں قید رہے۔
(اصحاب الامام الصادق(ع) ، ج3، ص 317؛ الارشاد، ص 579؛ المستجاد، ص 189؛ وقايع الايام ،ص 322)
ہارون رشید ( پانچواں عباسی خلیفہ) کی اہل بیت اطہار کے ساتھ شدید دشمنی ناقابل انکار تھی، اولاد فاطمہ زہراء(س) اور زریت علی(‌‌‌ع) پر مظالم ڈھانے میں کوئی کمی نہ کی،وہ چونکہ عباسی حاکموں میں سے زیادہ جنایت کار اور ظالم تھا،لوگوں کا امام موسی کاظم (ع) کے نسبت احترام اور امام کا معنوی مقام دیکھنا برداشت نہیں ہوتا اور اس سے بہت پریشان رہتا تھا،
آخر کار سن 179 ھ کو رمضان کے مہینے میں عمرہ کرنے کیلئے مکہ میں داخل ہواور وہاں سے مدینہ چلا گیا اور امام موسی کا‎ظم (ع) کو گرفتار کرکے قید خانے میں ڈالنے کا حکم صادر کیا، اس وقت اما موسی کاظم (ع) اپنے جد گرامی رسول خدا کے روضے میں نماز و دعا میں مشغول تھے اور وہی پر ھارون رشید کے سپاہیوں نے امام (ع) کو گرفتار کرکے ھارون کے پاس لے گئے۔
ہارون رشید نے حکم دیا کہ امام موسی کاظم کو ہتھ کڑیاں اور بیڈیاں تہنا کر عراق کے زندان میں منتقل کیا جائےاور لوگوں کی مخالفت سے بچنے اور انکو گمراہ کرنے کیلۓ دو محمل بنائے گئے ایک کو بغداد کی طرف اور دوسرے کو بصرہ کی طرف روانہ کیا گیا،امام (ع) کو بصرہ میں رکھا گیا ہارون کے سپاہیوں نے 7 ذالحجہ سن 179 ھ کو بصرہ میں امام (ع) کو ہارون رشید کے چچیرے بھائی عیسی بن جعفر بن منصور دوانقی کے تحویل میں دے دیا اور اس نے آنحضرت کو اپنے گھر کے ایک کمرے میں قیدی بنائے رکھااور پہلے پہلے امام کے ساتھ نہایت سختی کی ساتھ رفتار کرتا تھا مگر اور جب امام (ع) کی عبادت اور راز و نیاز کا حال مشاھدہ کیا تو امام کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آنے لگا اور ہارون کو لکھا کہ امام کو اس کے گھر سے نکال لیں اگر ایسا نہ کیا تو میں امام کو آزاد کر لوں گا ہارون نے مجبور ہو کر امام کو وہاں سے نکالنے اور بغداد میں فضل بن ربیع کے قید خانے میں رکہنے کا حکم صادر کیا، جس دوران امام کو فضل بن ربیع کے قید خانے میں تھے ہارون نے اسے امام کو شہید کرنے کو کہا مگر اس وہ ایسا کرنے سے کتراتا رہا۔
ہارون نے امام کو فضل بن ربیع کے قید خانے سے نکلواکر فضل بن یحیی برمکی کے گھر میں قیدی بنائے رکھنے اور امام کو شہید کرنے کو کہا لیکن اس نے بھی ایسا کرنے کی جرئت نہ کی بلکہ امام کے نسبت زیادہ سے زیاردہ احترام اور اکرام کرنے لگا ،ہارون فضل کے ایسے رفتار سے اس پر خفا ہوا اور حکم دیا کہ فضل کو سو کوڑے مار کر تمام عہدوں سے برکنار کیا جا‎ۓ اور امام موسی کاظم علیہ السلام کو سندی بن شاہک کے زندان میں منتقل کیا گیا اور وہاں پر اس نے امام پر شکنجہ اور اذیت کی کاروائیاں کرتا رہا،اور کی دنوں کے اذیت اور آزار کے بعد ہارون کے حکم سے امام کو خرمے میں زہر ملا کر 25 رجب سن 183 ھ کو شہید کیا گیا۔
امام موسی کاظم علیہ السلام کو شہید کرنے کے بعد سندی بن شاہک نے بغداد کے بزرگوں قاضیوں اور فقہا کو فریب کارانہ انداز میں بلا کر امام کا جسد مبارک دکہا کر کہا کہ آپ مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ امام پر کسی قسم کی ذیادتی نہیں ہوئی ہے بلکہ طبیعی طور آنحضرت کی موت واقع ہوئی ہے اور امام کے پیکر پاک کو بغداد کے پل پر رکھ کر آواز دیتا تھاکہ لوگوں دیکھو یہ ہے موسی ابن جعفر دنیا سے کوچ کر گیا ہے
` شیخ مفید امام موسی کا‎ظم علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں لکھا ہے:
و كان ابوالحسن موسي(ع)، اعبد اھل زمانه، و افقھم، و اسخاھم كفّاً و اكرمھم نفسا
(الارشاد، ص 575)
یعنی: ابوالحسن امام موسی کاظم (ع) اپنے زمانے میں کے تمام لوگوں سے زیادہ پارسا ،دانا ، سخاوت مند اور محترم تھے۔
اسی طرح دوسری جگہ لکھتے ہیں :
و قد روي الناس عن ابي الحسن موسي(ع) فاكثروا، و كان افقه اھل زمانہ حسب ما قدمناہ و احفظھم لكتاب الله، و احسنهم صوتا بالقرآن، و كان اذا قرا يحزن، و يبكي السامعون لتلاوته و كان الناس بالمدينه يسمون زين المتهجدين، و سمي بالكاظم لما كظمه من الغيظ و صبر عليهمن فعل الظالمين به ، حتي مضي(ع) قتيلا في حبسهم و وثاقهم
(الارشاد ، ص 579)
یعنی: لوگوں ( یعنی اہل سنت علماء) نے ابوالحسن امام موسی کاظم(ع) سے کافی روایتیں نقل کی ہیں اور جس طرح پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ آنحضرت کو قرآن کے نسبت اپنے زمانے کا سب سے دانا اور اعلم سمجھتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ قرآن کی تلاوت دلنوا صدا میں کرتے اور تلاوت کے دوران روتے اور حاضرین پر بھی رقت طاری ہو جاتی تھی۔
مدینہ کے لوگ حضرت کو عابدوں اور شب زندہ داروں کی زینت کے نام سے یاد کرتے تھے، چونکہ آنحضرت ہمیشہ اپنا غصہ پی جاتے اور ستمگروں کے مقابلے میں بردباری سے کام لیتے تھے اس لئے کاظم کہلاتے تھے آخرکار قید خانے میں شہید کیے گئے۔
(القاب الرسول و عترتہ، ص63)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button