محافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کے معنوی کمالات

جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کو خداوندعالم نے بہتی زیادہ کمالات سے نوازا تھا ان میں چند ایک درج ذیل ہیں۔
۱۔ ان کمالات میں سب سے واضح اور روشن آپ کا محدثہ ہونا ہےکہ آپ ملائکہ سے ہمکلام ہوتی تھیں اور ملائکہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتےتھے امر و نہی اور آیات قرآن کمی وحی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تمام ہوگئی تھی لیکن دیگر معاملات کی وحی اوراس کے الہام کا سلسلہ برابر جاری تھا جس طرح کہ قرآن مجید نے مادر موسیٰ اور جناب مریم کو منزل وحی قرار دیا ہے اور ان کے ملائکہ سے ہمکلام ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔
صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا کے محدثہ ہونے کا امتیاز یہ ہے کہ آپ ان تمام الہامات کو طرح جمع کرلیا کہ ایک صحیفہ تیار ہوگیا جسے مصحف فاطمہ سلام اللہ علیھا سےتعبیر کیا جاتا ہے اور اس کے بارے میں امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔
یہ صحیفہ حجم اور ضخامت کے اعتبار سےاس قرآن کا تین گنا ہے لیکن اس میں قرآن کے مطالب و معارف کا تکرار نہیں بلکہ ان تمام معاملات کا تذکرہ ہے جن کی ضرورت عالم انسان کو ہوسکتی ہے اور ان تمام حادثات اور حکومتوں کا تذکرہ ہے جو قیامت تک قائم ہونے والی ہیں۔
اس مقام پر یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ کوئی دوسرا قرآن ہے جس پر کسی قوم یا مذہب نے اعتماد کیا ہے۔ قرآن ایک ہی ہے جس کا شریک و سہی اہلبیت علیہم السلام کو قرار دیا ہے ۔یہ ایک صحیفہ ہے جسے لغوی اعتبارسے مصحف قرار دیا گیا ہے کہ مصحف لغوی اعتبار سے رسائل و کلمات کا نام ہے قرآن مجید کو اصطلاحا مصحف کہتےہیں ورنہ یہ لفظ بلکل عام ہےجس کا اطلاق ہر صحیفہ اور کتاب پر ہو سکتا ہے۔
وحی کا اطلاق بھی قرآن مجید نے مختلف مقامات پر القاء اور الہام کے معنیٰ پر کیا ہے اور اس کا کوئی اختصاص آیات قرآن یا احکام شریعت سے نہیں ہے۔ اس کا استعمال شہد کی مکھی کے بارےمیں بھی ہوا ہے بشرتو پھر بشرہے اور پھراگربشربھی خیر البشرہو اور اس کا مرتبہ تمام عالم بشریت سے بالا تر ہو۔
۲۔ طہارت:
مالک کائنات نے صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا کو تطہیر کا مرکز قرار دیا ہے اور آیت تطہیر کے نزول کے لیے ان کےگھر اور ان کی چادرکا انتخاب کیا ہے جس کا شمار بےشمار محدثین اور مفسرین نے کیا ہے اور حدیث کساء میں اس واقعے کی مفصل تشریح موجودہے۔
انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت لیطھرکم تطھیرا
۳۔صداقت:
فقل تعالوا ندع ابناءنا و ابناءکم و نساءنا و نساءکم وانفسنا و انفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنت اللہ علی الکاذبین
میدان مباہلہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقائد کی حقانیت، قرآن کی عظمت اور اپنی صداقت کے گواہ لے کرنکلے تو خواتین میں صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا کے علاوہ کوئی نہ تھا جو اس بات کی علامت ہے کہ مردوں میں چار بیک وقت ایک جیسی صداقت کے حامل ہوسکتےہیں لیکن صنف خواتین صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا کےعلاوہہ کوئی ایسا نہیں تھا۔جسے رسالت کا گواہ بنا کر پیش کیا جا سکتے۔اور یہ اس امر کی دلیل ہے کہ صدیقہ طاہرہ تن و تنہا بھی رسالت کی گواہی کے لیےکافی ہیں تو ان سے کسی معاملے میں گواہی طلب کرنا قرآن مجید سے تغافل یا مقابلہ کے مرادف ہے۔
۴۔ شجاعت:
شجاعت کی دو قسمیں ہیں۔ ایک شجاعت اظہار قوت قلب و جگرسے ہوتا ہے جو عام طور سے خطرات کی منزل اور میدانوں میں سامنے آتی ہے اور ایک شجاعت کا اظہار زور زبان سے ہوتا ہے جہاں سلطان جابر کےسامنے کلمہ حق کا اعلان کیا جاتا ہے۔مالک کائنات نےصدیقہ طاہر ہ سلام اللہ علیھا کو دونوں طرح کی شجاعت سے نوازا تھا۔
قوت قلب و جگرکے اعتبارسے وہ منظر بھی قابل دید تھا جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سارا گھر نرغہ کفار و مشرکین میں گھرا ہوا تھا اور آپ ہجرت کرکےمدینے کی طرف تشریف لے جارہے تھے۔ خانہ رسالت میں ایک طرف شیرخدا علی مرتضیٰ علیہ السلام بستر رسالت پراستراحت فرماہےتھے دوسری طرف صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا نہایت کمسنی کےعالم میں اس محاصرہ کا مقابلہ کررہی تھیں اور آپ پر کسی طرح کا خوف و ہراس نہیں تھا جب کہ انہیں کفار کے خوف سے بڑے بڑے بہادرافراد حزین و خوف میں مبتلا ہوگئےتھے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
خود میدان احد میں شجاعت کا منظر دیکھنے میں آیا کہ جہاں کفارو مشرکین کے خوف سے سپاہیان اسلام نے میدان چھوڑ دیا تھا لیکن جناب صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا جناب صفیہ کے ہمراہ میدان کی طرف آئیں اور جناب ہمزہ علیہ السلام کے لاشے پر گریہ کیا اور اپنے زخمی باپ کا علاج بھی کیا۔
احد کی جنگ کا نقشہ دیکھنے والے اورقرآن مجید اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرار کی داستان پڑھنے والے صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا کی اس قوت قلب و جگر کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں اور انہیں احساس ہوسکتا ہے کہ قیامت خیز موقع پر میدان جہاد کی طرف قدم بڑھاناکس ہمت اور طاقت کاکام ہے۔
ادبی شجاعت کےلیے جناب صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا کا وہ قیامت خیز خطبہ ہی کافی ہے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اپنے حق کےاثبات کے دربار خلافت آئیں اور وہ تاریخ ساز خطبہ ارشادفرمایا جس نے اہل دربار کے دل ہلا دیے اور حاکم وقت کو آنسو بہانے پرمجبور کردیا۔ تاریخ میں اس خطبہ کےمتعلقات کا تفصیلی ذکرموجود ہے اور اس تذکرہ شجاعت و ہمت کا مکمل اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اس خطبہ میں اسلامی احکام کے علل و اسباب، آیات قرآنی سے استدلال، انصار و مہاجرین کی غیرت کو چیلنج اپنے حق کے اثبات اور عورتوں کےحقوق سے دفاع کے بارےمیں جن حقائق معارف کا تذکرہ کیا گیا ان کا ہوش پر سکون حالات میں بھی نہیں رہ جاتا ہے چہ جائیکہ ایسے سنگین حالات میں اور اور ایسے سخت ترین ترین ماحول میں ایسا خطبہ ایک خاتون کی زندگی کا وہ شاہکارہے جسے معجزہ کرامت سے کم درجہ نہیں دیا جاسکتاہے۔
(نقوش عصمت سے اقتباس)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button