فضائل اھل بیتؑمحافلمناقب و فضائل

خلافت رسول اللہ پر ایک نظر

خلافت کی حقیقت:
خلافت کے لغوی معنی نیابت اور جانشینی کے ہیں۔ اصطلاحاً اس کے متعدد معنے اور کئی ایک شکلیں ہیں۔
خلافت نسلِ انسانی:
حق تعالیٰ کی عطا کردہ قوت اور اس کی حرارت سے منجملہ باختیار اور مجاز ہونے کی بناء پر کائناتِ ارضی پر انسان جو تصرف یا حکومت کرتا ہے۔ اس کو ‘خلافت نسلِ انسانی’ کہہ سکتے ہیں۔ بعض علماء نے اس کا نام ‘خلافتِ قدرت’ رکھا ہے۔ إِنّى جاعِلٌ فِى الأَر‌ضِ خَليفَةً ،ہم زمین میں ایک خلیفہ بنانے والے ہیں۔ میں اسی خلافت کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں مومن اور کافر، نیک اور بد سبھی انسان آجاتے ہیں۔ اور سبھی خلیفہ کہلاتے ہیں۔ اس سے حضرت آدم علیہ السلام کی امامت مراد نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں فساد اور خون ریزی کو ان کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
یہ ظاہر ہے کہ ایک نبی کی طرف اس کا انتساب جائز نہیں ہے۔ اس لئے یہی کہنا پڑے گا کہ اس سے نوعی نیابت مراد ہے۔ یعنی پوری نسل انسانی خلیفہ ہے۔ یہ جعل تکوینی ہے تشریعی نہیں ہے۔ هُوَ الَّذى جَعَلَكُم خَلـٰئِفَ فِى الأَر‌ضِ ۚ فَمَن كَفَرَ‌ فَعَلَيهِ كُفرُ‌هُ…(سورة فاطر٣٩)
وہی ایسا ہے جس نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا، سو جو کوئی کفر کرے گا۔ اسی پر پڑے گا۔
وَيَجعَلُكُم خُلَفاءَ الأَر‌ضِ (یا وہ جو) تم کو زمین میں خلیفہ (صاحب تصرف) بناتا ہے۔
وَاذكُر‌وا إِذ جَعَلَكُم خُلَفاءَ مِن بَعدِ قَومِ نوحٍ. (سورة الاعراف ٦٩… )
(حضرت ہود نے کہا اے بھائیو!) وہ وقت یاد کرو جب اللہ نے تمہیں قوم نوح کے بعد (وارث) بنایا۔
ان تمام آیات میں نسل انسانی کی نیابت اور خلافت مراد ہے کیونکہ جن سے انبیاء خطاب فرما رہے ہیں۔ وہ عموماً کافر ہیں۔ مومن کم ہیں۔ اسی طرح اس آیت کا حال ہے۔
وَهُوَ الَّذى جَعَلَكُم خَلـٰئِفَ الأَر‌ضِ وَرَ‌فَعَ بَعضَكُم فَوقَ بَعضٍ دَرَ‌جـٰتٍ.(سورة الانعام١٦٥ )
اور وہ وہی ہے جس نے تمہیں زمین پر خلیفہ بنایااور تم میں سے ایک کے رتبے دوسرے پر بلند کیے۔
سورہ یونس میں فرمایا:ثُمَّ جَعَلنـٰكُم خَلـٰئِفَ فِى الأَر‌ضِ مِن بَعدِهِم.( سورة يونس١٤)
پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین پر خلیفہ (نائب) بنایا۔
امام ابن کثیر إِنّى جاعِلٌ فِى الأَر‌ضِ خَليفَةً کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔
اس سے مراد مختلف اوقات میں باری باری اقوام عالم کا آنا ہے۔ صرف حضرت آدم مراد نہیں کیونکہ سفکِ دماء ان کی طرف منسوب ہے۔ اس لئے اس سے حضرت آدم مراد نہیں ہو سکتے۔إِنّى جاعِلٌ فِى الأَر‌ضِ خَليفَةً أي قوما يخلف بعضھم بعضًا قرنا بعد قرن وجيلا بعد جيل…. وليس المراد ھھنا بالخليفة اٰدم عليه السلام فقط ….. والظاھرأنه لم يرد اٰدم علينا إذ لو كان ذلك لما حسن قول الملئكة (اتجعل فيھا من يفسد فيھا ويسفك الدماء) فإنھم أرادوا أن من ھذا) الجنس من يقعل ذلك (تفسير ابن كثير)
امام ابن کثیر کا قول قابل قبول نہ بھی ہو تب بھی مندرجہ بالا آیات اسی مضمون میں بالکل واضح ہیں کہ اس خلافت سے مراد بلا استشہاء ‘نسل انسانی’ کی خلافت ہے جن لوگوں نے ان آیات کے الفاظ ‘جاعل یا یجعل’ سے امامت اور سیاسی پیشوائی مراد لی ہے۔ انہوں نے شاید قرآن حکیم کے سیاق و سباق پر توجہ نہیں دی۔
خلافت ابوت:
اس سے مراد آبائی وراثت ہے اور بس۔ یہ دونوں خلافتیں وہ ہیں، جن کا تعلق ہمارے موضوع سے نہیں ہے۔ کیونکہ دونوں کا تعلق پوری نسل انسانی سے ہے۔ جن میں خدا کی زمین پر ان کو قدرت تصرت حاصل ہے۔ اور اس سلسلے میں وہ ابتداءً اور وراثۃ یکے بعد دیگرے نیابت اور خلافت پر متمکن چلے آرہے ہیں۔
خلافت رسالت:
اس سے مراد امامت انبیاء ہے جو حق تعالیٰ کے احکام کی تبلیغ اور تنقید اور اقامتِ دین کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
يـٰداوۥدُ إِنّا جَعَلنـٰكَ خَليفَةً فِى الأَر‌ضِ فَاحكُم بَينَ النّاسِ بِالحَقِّ.(سورة ص ٢٦)
اے داؤد! ہم نے آپ کو زمین پر خلیفہ بنایا ہے۔ سو لوگوں کے مابین حق کے مطابق فیصلہ (کیا) کریں۔
انبیاء کا تعلق اسی خلافت سے ہے۔ رب بہ راہِ راست ان کی تقرری فرماتا ہے اور ان کی حفاظت خود کرتا ہے اس لئے وہ معصوم رہتے ہیں ان پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے۔ ان کے ارشادات سے انحراف معصیت اور کافری تصور کیا جاتا ہے۔
خلافت آئمہ معصومینؑ:
رسول اکرمؐ کے بعد حقیقی خلفاءبارہ امام ہیں جن میں اول امام علی علیہ السلام اور آخری امام زمانہ علیہ السلام ہیں اور یہ سارے خلفاء منصوص من اللہ ہیں اور معصوم ہیں ۔اور ان کی امامت و خلافت پر نصوص صریحہ موجود ہیں جیسا کہ امام اول علیہ السلام کے بارے میں ہے: ”انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی(صحیح مسلم ج۷ص ۱۲۰، اس حدیث کی سند اور منابع کے سلسلہ میں کتاب الغدیر جلد اول ص۴۸تا ۴۹ وج۳ص ۱۷۲تا ۱۷۶)
اے علی تم میں اور مجھ میں وہی نسبت ہے جو جناب ھارون اور جناب موسیٰ کے درمیان تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
حضرت علی علیہ السلام خلیفہ رسول ہیں ، جیسا کہ جناب ھارون جناب موسیٰ کے خلیفہ تھے: وَقَالَ مُوْسٰی لِاَخِیْہِ ہَارُوْنَ اخْلُفْنِی فِیْ قَوْمِی (سورہ اعراف آیت۲ ۱۴) (اورچلتے وقت ) موسی نے اپنے بھائی ھارون سے کہا کہ تم میری قوم میں میرے جانشین ہو“
امامت نبوت سے مشتق ہے کیونکہ حدیث میں ضمیر ”انتَ“ امامت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور لفظ ”منّی“ نبوت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور یہاں پر حرف ”جر “نشو ونمو اور وجود کے معنی میں ہے اور یہ نشو ونما اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ دونوں درجہ میں برابر ہیں تب ہی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرق کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:
الا انہ لا نبی بعدی“ (مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں)
اور جب جناب موسیٰ نے خدوندعالم سے درخواست کی کہ ان کے اھل سے ان کا وزیر معین کردے (جیسا کہ مذکورہ آیت بیان کرتی ہے) تو یہ درخواستِ جناب موسیٰ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ نبی کی خلافت ووزارت خدا کے حکم سے ہوتی ہے لوگوں کے انتخاب اور اختیار سے نہیں۔
قارئین کرام ! جب ہم ”حدیث منزلت“ کے بارے میں غور وفکر کرتے ہیں تو یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سب کچھ فقط حضرت علی علیہ السلام کے اکرام اور تجلیل کی غرض سے نہیں بیان کیا بلکہ اس کے پسِ پردہ ایک بہت اہم مقصد تھا اور وہ یہ کہ آپ امت کو اس بات پر متوجہ کرنا چاہتے تھے کہ نبی اپنے بعد حکومت کی ریاست اور کشتی اسلام کی مھار کس کے ہاتھ میں دے کر جارہے ہیں۔
اور جیسا کہ یہ حدیث شریفہ اشارہ کرتی ہے کہ حضرت علی ؑ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شریک ہیں لیکن یہ شرکت کسی تجارت، صنعت او رزراعت میں نہیں ہے بلکہ آپ کی شرکت دین اور اسلام میں ہے اور اسلام میں پیش آنے والی تمام زحمتوں کو برداشت کیا اور دین کی اہم ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کی،اور چونکہ ایک معمولی انسان شرکت کے حدود کو آسانی سے نہیں سمجھ سکتا (خصوصاً جبکہ یہ بھی معلوم ہو کہ جناب ھارون نبی بھی تھے) اسی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حدیث منزلت میں ایسی قید لگادی تاکہ اشکال نہ ہونے پائے اور اس شرکت کی حدود بھی معین کردی اسی وجہ سے مطلق طور پر نبوت کی نفی کردی اور نبوت کو شرکت کے حدود سے نکالتے ہوئے فرمایا:
” میرے بعد کوئی نبی نہیں“
اور شاید اس حدیث کے معنی اس وقت مزید روشن ہوجائیں جب یہ معلوم ہو کہ حدیث منزلت کو رسول اسلام نے اس وقت بیان فرمایا جب آپؐ مدینہ منورہ سے ”جنگ تبوک“ میں جارہے تھے اس وقت نائب اور قائم مقام بنایا ۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button