سلائیڈرمحافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا رسول خدا ﷺ کے کلام کی روشنی میں

ایک باپ سے زیادہ اپنے فرزند اور اولاد کی تعریف کون بیان کر سکتا ہے؟۔ ایک ایسا باپ جو خود اپنی زندگی میں بے نظیر ہے۔ جس کا قول و عمل اور کردار صداقت کی معراج پر ہے، کبھی بے کار باتوں میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ وہ کائنات کے اسرار و رموز سے آگاہ، علم کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے، جو اولین و آخرین کے سر چشمہ علوم یعنی خدائے وحدہ لا شریک سے ہمیشہ رابطہ میں ہے۔ کتنا اچھا ہو گا کہ حضرت فاطمہ زہرا کی تعریف و توصیف اور منزلت کو اس عظیم المرتبت باپ کی زبانی ذکر کریں جو خود خداوند عالم کے نزدیک کائنات میں سب سے زیادہ عزیز و محبوب ہیں۔
حضرت فاطمہ زہراؑ انسان کامل:
رسول خداؐ سے نقل ہے کہ آپؐ نے فرمایا: مردوں میں سے بہت نے کمال کی بلندی کو حاصل کیا لیکن صنف نسواں میں چار عورتوں کے علاوہ کسی نے بھی انسان کامل کے مقام کو حاصل نہیں کیا۔ان چار خواتین میں ایک آسیہ بنت مزاحم ہمسر فرعون، دوسری حضرت مریم بنت عمران، تیسری خدیجہ بنت خویلد اور چوتھی حضرت فاطمہ زہرا بنت محمد ہیں.(ثعلبی، احمد، الکشف و البیان، (تفسیر ثعلبی)، تحقیق ابو محمد بن عاشور، ج9، ص353، بیروت دار احیاء التراث العربی)
دوسرے لفظوں میں پیغمبر اسلام ان چاروں کو تمام عورتوں کے لیے زندگی کے ہر مرحلہ میں، روز اول سے آنے والی تمام خواتین کے لیے نمونہ عمل کی صورت میں پہچنوا رہے ہیں تا کہ عورتیں اپنی زندگی کے تمام امور میں ان کی پیروی کر کے کمال کی بلندیوں کو حاصل کر سکیں۔
حضرت فاطمہ زہراؑ انسانی شکل میں آسمانی حور ہیں:
پیغمبر اکرم ہر انسان سے بہتر زمین و آسمان کی حقیقتوں سے آگاہ ہیں۔ اسماء بنت عمیس کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ:اے اسماء صحیح معنوں میں فاطمہ زہرا وہ حورِ جنت ہیں جسے خداوند نے انسان کی شکل میں خلق کیا ہے۔
(ابن معازلی شافعی، علی بن محمد؛ مناقب الامام علی بن ابی طالب، ص2961، طبع الثالثہ، بیروت دار الاضواء، حدیث 416.
طبری، محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامۃ، ص148، تحقیق: قسم الدراسات الامامیۃ، قم: موسسۂ بعثت)
ایک دوسرے مقام پر آپؐ فرماتے ہیں کہ:فاطمہ زہرا وہ حور بہشت ہیں جو انسانوں کی شکل میں اس دنیا میں موجود ہیں.
(قندوزی حنفی، شیخ سلیمان؛ ینابیع المودة، تحقیق: علاء الدین اعلمی، ج2، ص218، بیروت: مووسة الاعلمی للمطبوعات)
پیغمبر اسلام کی یہ تعبیر ان تعبیروں میں سے ایک بہترین تعبیر ہے جو شخصیت حضرت فاطمہ زہرا کو اور زیادہ نمایاں کرتی ہے، ان کی عصمت و طہارت اور ہر طرح کے عصیان و خطاء سے پاک ہونے کا اعلان کر رہی ہے کیونکہ حور کا تقاضا ہے کہ وہ جسم و روح کی خوبصورتی اور صداقت و خوشروئی وغیرہ سے مزین ہو ۔ دوسری جہت سے عصمت کی سند بھی ہے یعنی گناہوں سے دوری۔ کیونکہ حور، بہشت کی مخلوق ہے جہاں گناہ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
حضرت فاطمہ زہراؑ بہشت کی خوشبوؤں سے معطر ہیں:
خاتم الانبیاءؐ فرماتے ہیں کہ:جب بھی میں بہشت کا مشتاق ہوتا ہوں تو فاطمہ زہرا کا بوسہ لے لیتا ہوں.
(طبری، محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامة، ص148، تحقیق: قسم الدراسات الامامیۃ، قم: موسسۂ بعثت)
آنحضرتؐ نے یہ حدیث ارشاد فرمانے کے بعد جب بھی جنت کی خوشبو کی آرزو کی تو حضرت فاطمہ زہرا کا بوسہ لیا.
(امینی نجفی، عبد الحسین احمد، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب؛ تحقیق: مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیۃ، ج3، ص33، قم: مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیة)
حضرت فاطمہ زہرا مظھر کمال حسن و نیکی:
پیغمبر خداؐ حضرت فاطمہ زہرا کی شخصیت کو پہچنواتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: اگر تمام طرح کی نیکیوں اور حسن و جمال کو کسی ایک پیکر میں دیکھا جائے تو یقینا وہ صرف حضرت فاطمہ زہرا کا وجود مطہر ہے جس میں دونوں چیزیں بطور کامل موجود ہیں۔ میری بیٹی فاطمہ زہرا لوگوں میں کرامت و شرافت کے اعتبار سے سب سے بہتر ہے.
(ابن احمد مکی، موفق؛ مقتل الحسین خوارزمی، تحقیق: محمد سماوی، ج1، ص100، قم: انوار الھدیٰ)
(جوینی خراسانی، ابراہیم بن محمد، فرائد السمطین، تحقیق: محمد باقر محمودی، ج2، ص68، بیروت: موسسۃ المحمودی للطباعۃ و النشر)
پیغمبر خداؐ کی یہ حدیث حضرت فاطمہ زہراؑ کے بے شمار کمالات کو بیان کر رہی ہے۔ یعنی حضرت فاطمہ زہرا میں ہر طرح کی نیکی و خوبی، اخلاق و تواضع، خوش خلقی و ہمدردی اور کمالات انسانی کے تمام مدارج پائے جاتے ہیں۔ ہر وہ چیز جو دین اسلام کے کمال کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے، آپ میں موجود ہے۔
حضرت فاطمہ زہراؑ ہدایت کا چمکتا ہوا ستارہ:
رسول اسلامؐ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ:سورج کے سراغ میں رہو، جب سورج غروب ہو جائے تو شب میں چاند کے سراغ میں رہو، جب چاند ڈوب جائے تو زہرہ ستارہ کے سراغ میں رہو، اور جب زہرہ بھی دکھائی نہ دے (چھپ جائے ) تو فرقدین کے سراغ میں رہو۔ اصحاب نے پوچھا: اللہ کے رسول! سورج سے مراد کون ہے؟ فرمایا: میں۔ انہوں نے پوچھا: چاند سے مراد ؟ فرمایا: علی، عرض کیا: زہرہ سے مراد کون ہے؟ فرمایا : حضرت فاطمہ زہرا۔ پھر پوچھا: فرقدین سے مراد کون ہے؟ فرمایا حسن و حسین.
(جوینی خراسانی، ابراہیم بن محمد، فرائد السمطین، تحقیق: محمد باقر محمودی، ج2، ص17،حدیث 361، بیروت: موسسة المحمودی للطباعة و النشر)
(حسکانی، حاکم؛ شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق: محمد باقر محمودی، ج1، ص59، حدیث91، بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات، ١٩١٣ق)
حضرت فاطمہ زہرا رسول خداؐ کی پارہ تن:
اس سلسلے میں رسول خداؐ سے بہت زیادہ احادیث نقل ہوئی ہیں جو اس مضمون کو بیان کرتی ہیں کہ حضرت فاطمہ زہراؑ رسول خداؐ کے جسم کا ایک ٹکرا ہیں، جس نے بھی فاطمہ زہراؑ کو اذیت پہنچائی اس نے رسولؐ کو اذیت پہنچائی ہے اور جس نے فاطمہ زہراؑ کو خوشحال کیا تو اس نے رسول خدا کو خوش حال کیا.
(مسلم بن الحجاج القشیری، صحیح مسلم، ص993، حدیث 2449)
(بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ص684، حدیث 3767، گردآوری: محمد محمود، طبع الثانیہ، بیروت: دار الکتب العلمیة)
(ترمذی، محمد بن عیسیٰ بن سورہ، سنن الترمذی؛ ص1006، حدیث 3876، بیروت: دار احیاء التراث العربی)
(سیوطی، جلال الدین، الثغور الباسمة فی فضائل السیدة فاطمة، ص45، تحقیق: محمد سعید الطریحی، بیروت: دار العلوم)
(ابن حجر عسقلانی، الاصابة فی تمییز الصحابة، تحقیق: عادل احمد عبد الموجود، ج8، ص265، بیروت: دار الکتب العلمیة)
یہ تمام حدیثیں اس بات پر دلالت کر رہی ہیں کہ رسول خداؐ کو کس حد تک حضرت فاطمہ زہراؑ سے قلبی و عاطفی لگاؤ تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ خداوند کی وہ فرمانبردار کنیز ہیں جو خدا ا و ر رسول خداؐ کی اطاعت گزاری میں اس قدر مستحکم و خالص ہیں کہ ایک قدم بھی حق کے راستے سے دور نہیں ہیں۔ اطاعت و پیروی کے اس درجے پر فائز ہے کہ ان کی خوشنودی و رضا، رسول کی رضا ہے اور ان کا غضب رسول کا غضب ہے۔اسی وجہ سے رسول اللؐہ نے فاطمہ زہراؑ کو پارہ تن سے تعبیر کیا ہے یعنی فاطمہ زہراؑ رسولؐ کے جسم کا ایک ٹکڑا ہیں۔ حضرت فاطمہ زہراؑ کی اذیت کو اپنی اذیت اور ان کی خوشی کو اپنی خوشی بتا کر مسلمانوں کو پہچنوانا چاہتے ہیں تا کہ لوگ ان کی عظمت و منزلت سے آگاہ ہو جائیں۔
حضرت فاطمہ زہراؑ قلب رسولؐ کی خوشحالی کا سبب:
پیغمبر خداؐ نے فرمایا ہے کہ:فاطمہ زہرا  میرے قلب کی فرحت و خوشی ہے، اس کے فرزند میوہ قلب، شوہر میری آنکھوں کا نور اور آئمہ طاھرین خدا کے امین ہیں، یہ خالق و مخلوق کے درمیان وہ واسطہ ہیں کہ جو انسان کو خدا سے جوڑتا ہے۔ جو بھی ان سے متمسک رہے گا نجات پائے گا۔ اور جو بھی ان سے دوری اختیار کرے گا وہ گمراہ ہو جائے گا.

(ابن احمد مکی، موفق؛ مقتل الحسین خوارزمی، تحقیق: محمد سماوی، ج1، ص99، حدیث21، قم: انوار الھدیٰ)
فرمان رسولؐ کے مطابق حضرت فاطمہ زہراؑ کا پورا وجود رسول اسلامؐ کی خوشحالی کا سبب ہے.( البتہ یہ حدیث ایک جہت سے حدیث ثقلین کی تفسیر بھی بیان کر رہی ہے جو اہل علم و عمل کے لئے قابل فکر ہے ۔)
حضرت فاطمہ زہراؑ ایک بے نظیر انسان:
حضرت فاطمہ زہراؑ کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ہے کہ اس کائنات میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی جیسا کہ خود پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا ہے کہ:
اگر علیؑ نہ ہوتے تو فاطمہ زہراؑ کا کوئی کفو نہیں تھا۔
(ابن احمد مکی، موفق؛ مقتل الحسین خوارزمی، تحقیق: محمد سماوی، ج1، ص107، حدیث38، قم: انوار الھدیٰ)
(جوینی خراسانی، ابراہیم بن محمد، فرائد السمطین، تحقیق: محمد باقر محمودی، ج2، ص68، بیروت: موسسة المحمودی للطباعة و النشر)

حضرت فاطمہ زہراؑ کی ناراضگی خداوند کی ناراضگی:
رسول اکرمؐ نے متعدد مرتبہ فرمایا ہے کہ: خدا بھی اس وقت ناراض ہوتا ہے جب فاطمہ زہرا ناراض ہوتی ہیں اور راضی ہوتا ہے، جب فاطمہ زہرا راضی ہوتی ہیں.
(جوینی خراسانی، ابراہیم بن محمد، فرائد السمطین، تحقیق: محمد باقر محمودی، ج2، ص46، حدیث378، بیروت: موسسة المحمودی للطباعة و النشر)
(حاکم نیشاپوری، المستدرک الصحیحین، تحقیق: یوسف مرعشی، ج3، ص153، بیروت: دار المعرفۃ)
(اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة فی معرفۃ الائمۃ، ج2، ص93، بیروت: دار الکتاب الاسلامی)
ایک دوسری حدیث میں امیر المومنین علیؑ سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا نے فاطمہ زہراؑ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
خداوند تمہارے غضب کے سبب غضبناک ہوتا ہے اور تمہاری خوشی سے خوش ہوتا ہے.
(ابن معازلی شافعی، علی بن محمد؛ مناقب الامام علی بن ابی طالب، ص285، حدیث401، طبع الثالثہ، بیروت دار الاضوائ، حدیث 416)
(حاکم نیشاپوری، المستدرک الصحیحین، تحقیق: یوسف مرعشی، ج10، ص116، بیروت: دار المعرفة)
(قندوزی، حنفی، شیخ سلیمان؛ ینابیع المودة، تحقیق: علاء الدین اعلمی، ج1، ص204، بیروت: مووسة الاعلمی للمطبوعات)
(طبری، محمد بن جریر بن رستم (صغیر)؛ دلائل الامامة، ص146، تحقیق: قسم الدراسات الامامیة، قم: موسسۂ بعثت)
(ابن حجر عسقلانی، الاصابة فی تمییز الصحابة، تحقیق: عادل احمد عبد الموجود، ج8، ص266، بیروت: دار الکتب العلمیة)
(ابن اثیر جزری، اسد الغابة فی معرفة الصحابة، ج6، ص227، بیروت: دار الفکر)
(ابن جوزی، سبط، تذکرة الخواص، ص279، بیروت: موسسة اھل بیت)
https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=659

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button