خطبات جمعہرسالاتسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:223)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 20 اکتوبر 2023ء بمطابق 04 ربیع الثانی 1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: رزق و روزی میں کمی اور رکاوٹ کے اسباب
کائنات میں موجود ہر رزق لینے والے کا حقیقی رازق اللہ تعالیٰ ہے اور ایسا بہترین رازق ہے کہ مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے ان کے رزق کا بندو بست فرما دیا۔ قرآن میں ارشاد فرمایا:
"وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّہ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ[سورہ ہود، آیت 6]
اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو ۔۔۔
پس انسان کا رازق اللہ ہی ہے لیکن انسان کے لیے اس نے رزق کے وافر اسباب مہیا کر دیئے ہیں اور انسان کی ذمہ داری لگائی ہے کہ وہ رزق تلاش کرے اور اس کے حصول کی کوشش کرتا رہے۔ حتی کہ حصول رزق حلال کی کوشش کو عبادت قرار دیا۔
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "الْكَادُّ عَلَى عِيَالِهِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ[كافى، ج 5، ص 88، ح 1]”، "جو شخص اپنے گھرانہ کے لئے محنت کرے وہ اللہ کی راہ میں مجاہد کی طرح ہے”۔ نیز حضرت علی ابن موسی الرضا (علیہما السلام) فرماتے ہیں: "الَّذِي يَطْلُبُ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ مَا يَكُفُّ بِهِ عِيَالَهُ أَعْظَمُ أَجْراً مِنَ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ[كافى، ج 5، ص 88، ح ۲] "، "جو شخص اللہ عزوجل کے فضل سے ایسا مال طلب کرتا ہے جس سے اس کے گھرانہ کی ضرورت پوری ہوجائے تو اس کا ثواب اللہ عزوجل کی راہ میں مجاہد سے زیادہ بڑا ہے”۔نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں: "مَن طَلَبَ الدُّنيا حَلالاً ؛ اِستِعفافا عَنِ المَسأَلَةِ ، وسَعيا عَلى أهلِهِ ، وتَعَطُّفا عَلى جارِهِ ، لَقِيَ اللّه َ ووَجهُهُ كَالقَمَرِ لَيلَةَ البَدرِ[كافى، ج5، ص78]”، "جو شخص دنیا کو حلال طریقہ سے، لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے شرم کرتے ہوئے اور اپنے گھرانہ کے لئے محنت کرنے کے لئے اور اپنے ہمسایہ کی مدد کرنے کے لئے طلب کرے تو اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح ہوگا”۔ لہذا حلال کمائی کے حصول کی اتنی ترغیب دلائی گئی ہے۔
روزی اور رزق کا کم یا زیادہ ہونا خداوند متعال کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنے علم و حکمت کی بنیاد پر اسے تقسیم کرتا ہے جیسا دنیا سے محبت، انسان کو مختلف غلطیوں کے لئے تیار کردیتی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ "حُبُّ الدنيا رَأسُ كلِّ خطيئةٍ” [ميزان الحكمہ، ج4، ص80]، "دنیا سے محبت ہر گناہ کی جڑ ہے”، جب دنیا سے محبت بڑھنے لگتی ہے تو پھر صرف مکروہات کو انجام دینے اور مستحبات کو ترک کرنے تک بات نہیں رہتی، بلکہ آہستہ آہستہ انسان واجبات کو بھی چھوڑنے لگتا ہے اور حرام کاموں کے ارتکاب سے نہیں ڈرتا، جبکہ وہ بالکل غلط راستے پر جارہا ہے،
حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "لايَشغَلكَ رِزقٌ مَضمونٌ عَن عَمَلٍ مَفروضٍ[بحارالانوار: ج 78 ص 304]”، "ضمانت شدہ رزق تمہیں واجب عمل سے روک نہ لے”۔
کیونکہ رزق اور اس کی مقدار انسان کے لئے مقرر اور ضمانت شدہ ہے، وہ تو انسان کو مل کر ہی رہنا ہے، جس کا ملنا یقینی ہے اس کی خاطر انسان واجب عمل کو نظرانداز کیوں کردے؟! صرف ایک ذہنی وہم اور تخیلاتی افکار کی بنیاد پر کہ اگر اِس وقت میں اپنے کام کو چھوڑ کر مثلاً نماز کی طرف چلا جاوں تو جو کمائی میں نے اِسی وقت میں کرنی ہے وہ پھر حاصل نہیں ہوگی اور جو منفعت مجھے اِس وقت میں ہونی ہے اس سے بے نصیب رہ جاوں گا، جبکہ ہرگز ایسا نہیں ہے، بلکہ اسے اللہ کی اس بات پر یقین نہیں آیا جہاں پر مالک کائنات نے ارشاد فرمایا ہے: "وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّہ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ[سورہ ہود، آیت 6]”، "اور زمین پر چلنے والی کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے جس کا رزق خدا کے ذمہ نہ ہو۔ وہ ہر ایک کے سونپے جانے کی جگہ اور اس کے قرار کی منزل کو جانتا ہے اور سب کچھ کتاب مبین میں محفوظ ہے”۔ بنابریں جب انسان کے رزق کا ذمہ دار، خود اللہ ہے تو پھر انسان کو واجب عمل کے موقع پر رزق کے حصول کے ذرائع کو چھوڑنے پر پریشانی کیوں ہو؟! انسان کو چاہیے کہ اپنے واجبات کو عین وقت پر ادا کرے اور اس وقت پر روزی کمانے کے بارے میں بالکل بے فکر ہو کر واجب کی ادائیگی میں مصروف ہوجائے کیونکہ اگر موذن سے اذان دلوا کر نماز کی طرف بلانے والا اللہ ہی ہے تو رزق دینے والا بھی وہی اللہ ہے جو سورہ ذاریات میں ارشاد فرماتا ہے: "إِنَّ اللَّہ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ[سورہ ذاریات، آیت 58]”، "بیشک رزق دینے والا, صاحبِ قوت اور زبردست، صرف اللہ ہے”۔
نماز کی طرف بلانے والا وہی اللہ ہے جس نے اہل بیت (علیہم السلام) کے ذریعے انسان کو رزق و روزی کمانے کی ترغیب دلائی ہے۔کہ اس نے قرآن میں فرمایا: «إِنَّ رَبَّکَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَشاءُ وَ یَقْدِرُ إِنَّهُ کانَ بِعِبادِهِ خَبیراً بَصیرا؛[اسراء/۳۰] تمہارا پروردگار جس کے لئے چاہتا ہے رزق کو وسیع یا تنگ بنا دیتا ہے وہ اپنے بندوں کے حالات کا خوب جاننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔اس کے باوجود انسان کا بھی رزق کے کم یا زیادہ ہونے میں بہت بڑا کردار ہے، اس لیے کہ بعض اعمال ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے رزق میں برکت پیدا ہوتی ہے اور بعض اعمال ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے رزق میں کمی آتی ہے یا رزق کہ جو اس انسان کے لیے لکھا ہوا ہوتا ہے وہ اس عمل کی وجہ سے رک جاتا ہے۔

 

رزق میں رکاوٹ کے اسباب:
گزشتہ خطبے میں ہم نے رزق میں برکت کے اسباب بیان کیے تھے ۔ آج ہم رزق میں کمی اور رکاوٹ کے اسباب بیان کر رہے ہیں۔
انسان کو زندگی گذارنے کے لئے رزق کا ہونا بہت ضروری ہے، خداوند متعال نے انسان کو رزق دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن اگر انسان کچھ ایسے کاموں کو بجالائے جو انسان کو انسانیت سے گرادیتے ہیں تو خداوند متعال اس کے رزق کو روک دیتا ہے جن میں سے بعض یہ ہیں:
1۔ خداوند متعال سے منہ موڑنا: قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے: وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا وَّ نَحۡشُرُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اَعۡمٰی ۔ اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی اور بروز قیامت ہم اسے اندھا محشور کریں گے۔ [سورۂ طه، آیت:۱۲۴]۔
2۔ جھوٹ بولنا: رسول خدا(صلی‌الله‌ علیه‌ و‌ آله و سلم) ارشاد فرمارہے ہیں: جھوٹ بولنے سے رزق میں کمی آتی ہے [نهج الفصاحه، ص:۳۷۳]۔
۳۔ خیانت: امام علی(علیہ السلام) ارشاد فرمارہے ہیں: خیانت فقر کی جڑ ہے [تحف العقول، ص:۲۲۱]
۴۔ زنا: رسول خدا(صلی‌ الله‌ علیه‌ و‌ آله و سلم) ارشاد فرمارہے ہیں: فِى الزِّنا سِتُّ خِصالٍ: ثَلاثٌ مِنها فِى الدُّنیا وَ ثلاثٌ فِى الآخِرَهِ، فَاَمّا الَّتى فِى الدُّنیا فَیَذهَبُ بِالبَهاءِ وَ یُعَجِّلُ الفَناءَ وَ یَقطَعُ الرِّزقَ
زنا کے چھ نقصانات ہیں ۔ تین کا تعلق دنیا سے اور تین آخرت سے متعلق ہیں۔ جن کا تعلق دنیا سے ہے ان میں ایک یہ کہ بندے کی عزت و وقار میں کمی آجاتی ہے، دوسرا موت کو نزدیک کرتا ہے اور تیسرا یہ کہ زنا کرنے سے رزق بند ہو جاتا ہے [الخصال، ج:۱، ص:۳۲۱]
۵۔ بےصبری: امام علی(علیہ السلام) ارشاد فرمارہے ہیں: إِنَّ العَبدَ لَیَحرُمُ نَفسَهُ الرِّزقَ الحَلالَ بِتَرکِ الصَّبرِ، وَ لا یُزادُ عَلى ما قُدِّرَ لَهُ (شرح نهح البلاغه ابن ابی الحدید معتزلی، ج:۳، ص:۱۶۱)
بندہ بے صبری کرکے خود کو رزق حلال سے محروم کر دیتا ہے جبکہ جو رزق مقرر ہوچکا ہے سے زیادہ اسے ملتا نہیں۔(یعنی رزق کے حصول کے لیے جائز کوششیں جاری رکھے اور بے صبری کرتے ہوئے ناجائز زرائع سے رزق حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے)
۶۔ بد اخلاقی : امام علی(علیہ السلام) ارشاد فرمارہے ہیں: مَنْ ساءَ خُلْقُهُ ضاقَ رِزْقُهُ
جو بھی بد اخلاق ہو گا اس کی روزی کا دائرہ تنگ ہوتا چلا جائے گا (تصنیف غرر الحکم ، ص:۲۶۴)
۷۔ مکڑی کا جال : امام علی(علیہ السلام) ارشاد فرمارہے ہیں: تَرْکُ نَسْجِ الْعَنْکَبُوتِ فِی الْبَیْتِ یُورِثُ الْفَقْرَ جس گھر میں مکڑی کا جال ہو گا وہ گھر فقر میں ڈوب جائے گا (بحار الأنوار، ج‏:۷۳، ص:۱۷۶)
۸۔ نظم و ضبط کی کمی: امام علی(علیہ السلام) ارشاد فرمارہے ہیں: تَرْکُ التَّقْدِیرِ فِی الْمَعِیشَهِ یُورِثُ الْفَقْرَ زندگی میں نظم نہ ہونے کی وجہ سے بھی فقر آتا ہے (بحار الأنوار، ج‏:۷۳، ص:۳۱۴)
۹۔ قطع رحم : امام علی(علیہ السلام) ارشاد فرمارہے ہیں: قَطِیعَهُ الرَّحِمِ تُورِثُ الْفَقْرَ «قطع رحمی (رشتہ داروں سے تعلق توڑنا)سے فقر پیش آتا ہے (بحار الأنوار، ج‏:۷۳، ص:۳۱۴)
۱۰۔ جھوٹی قسم کھانے سے: امام صادق(علیہ السلام) ارشاد فرمارہے ہیں: الْیَمِینُ الْکَاذِبَهُ تُورِثُ الْعَقِبَ الْفَقْرَ جھوٹی قسم کھانے سے انسان خود کو اور اپنی آل کو فقر میں مبتلا کر دیتا ہے (ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، ص:۲۲۶)
۱۱۔ ہر دن کا گناہ: رسول خدا(صلی‌الله‌ علیه‌ و‌ آله و سلم) ارشاد فرمارہے ہیں: إِنَّ العَبْدَ لَیُحْرَمُ الرِّزْقَ بِالذَّنْبِ یُصیبُه جس دن انسان گناہ کرتا ہے تو خود کو اس دن کی روزی سے محروم کر دیتا ہے [نهج الفصاحه، ص:۴۸۶]
اگر انسان اپنی زندگی سے ان چیزوں کو دور نہیں کریگا تو اس کی زندگی میں کبھی بھی برکت نہیں ہوسکتی، اگر کسی کے پاس بظاہر ظاہری رزق بھی ہو تب بھی وہ اسن کاموں کو انجام دیتے ہوئے کبھی بھی خوشی ساتھ زندگی نہیں گذار سکتا۔
آج کی دنیا میں ہر کوئی اس بات کی فکر میں لگا ہوا ہےکہ وہ اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ کیسے بھرے، اور اس بات کی فکر میں ہے کہ اس کی عمر کس طرح سے طولانی ہو سکتی ہے، اس کے جواب میں امام باقر(علیہ السلام) کی یہ حدیث ہے جس میں امام(علیہ السلام) فرمارہے ہیں: مَنْ‏ سَرَّهُ‏ أَنْ‏ يُمَدَّ لَهُ‏ فِي‏ عُمُرِهِ‏ وَ يُبْسَطَ لَهُ‏ فِي‏ رِزْقِهِ‏ فَلْيَصِلْ‏ أَبَوَيْهِ‏ فَإِنَ‏ صِلَتَهُمَا مِنْ‏ طَاعَةِ اللَّه‏؛ جو کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کی عمر اور رزق میں اضافہ ہو اسے چاہئے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ صلہ رحمی کرے، ان کے ساتھ صلہ رحمی کرنا اللہ کی اطاعت کرنا ہے (بحار الانوار، ج۷۱، ص۸۵)

 

رسالۃ الحقوق
امام زین العابدین کے بیان کردہ رسالۃ الحقوق کے سلسلے میں آج ہم شکم یعنی پیٹ کا حق بیان کریں گے۔
شکم کا حق:
وَ أَمَّا حَقُّ بَطْنِكَ فَأَنْ لَا تَجْعَلَہُ وِعَاءً لِقَلِيلٍ مِنَ الْحَرَامِ وَ لَا لِكَثِيرٍ
تمہارے شکم(پیٹ) کا حق یہ ہے کہ اسے قلیل و کثیر حرام کا ظرف نہ بناو
وَ أَنْ تَقْتَصِدَ لَہُ فِي الْحَلَالِ وَ لَا تُخْرِجَہُ مِنْ حَدِّ التَّقْوِيَةِ إِلَى حَدِّ التَّہْوِينِ وَ ذَہَابِ الْمُرُوَّةِ
بلکہ حلال میں سے بھی اس کے اندازہ کے مطابق دو اسے تقویت کی حد سے نکال کر شکم سیری اور بے مروتی کی حد تک نہ پہنچاؤ
فَإِنَّ الشِّبَعَ الْمُنْتَہِيَ بِصَاحِبِہِ إِلَى التُّخَمِ مَكْسَلَةٌ وَ مَثْبَطَةٌ وَ مَقْطَعَةٌ عَنْ كُلِّ بِرٍّ وَ كَرَمٍ
کیونکہ شکم سیری سستی کا باعث ہوتی ہے اور ہرنیک و مستحسن کام کی انجام دہی سےانسان کو روکتی ہے،
وَ إِنَّ الرأي [الرِّيَّ الْمُنْتَہِيَ بِصَاحِبِہِ إِلَى السُّكْرِ مَسْخَفَةٌ وَ مَجْہَلَةٌ وَ مَذْہَبَةٌ لِلْمُرُوَّةِ
کیونکہ جو مشروب اپنے پینے والے کو مست کر دے وہ اس کی سبکی، نادانی اور بے مرورتی کا سبب ہوتا ہے۔

 

مذمتی قرارداد:
7 اکتوبر سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑی ہوئی ہے جس میں غاصب صیہونی حکومت کی جانب سے فلسطینی مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس جنگ میں ظلم کی انتہاء چند دن پہلے ہوئی ہے جب اسرائیل نے غزہ کے ایک ہسپتال پر فضائی حملہ کیا جس میں اب ایک ہزار سے زائد بے گناہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔
اس حملہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اس حملہ نے انسانیت کو شرمسار کردیا ، یہودیوں خصوصا صیہونیوں کا فلسطینی شہریوں کے ساتھ ظالمانہ اور انسانیت سے عاری رویہ آج تمام دنیا کے سامنے ہے یہ وحشی درندے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں ، خواتین ، نہتے شہریوں ، صحافیوں ، رضا کار افراد ، اسپتال ، گھروں ، رفاہ عامہ کے مراکز پر وحشیانہ حملے کرکے بربریت کی تاریخ رقم کر رہے ہیں اور سب سے تعجب آخیز بات یہ ہے کہ دنیا تماشائی بن کر نظارہ کر رہی ہے ، حقوق انسانی کے نعرے لگانے والے اداروں کے منہ پر تالے لگ گئے ہیں ، حیوانات پر ظلم کے خلاف دنیا کو سر پر اٹھا لینے والے ، انسانوں کے قتل عام پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ، پوی فلسطینی قوم کی نسل کشی ہو رہی ہے ، بچے بلک رہے ہیں مائیں تڑپ رہی ہیں بیوائیں سسک رہی ہیں ، ان قیامت خیز مناظر کو دیکھنے کے بعد بھی بعض حیوان صفت انسان ، پستی میں گرے ہوئے انسان ، ان اسرائیلی درندوں کی حمایت کر رہے ہیں اور امریکا و یورپ جیسے مکار خبیث ان کی سرپرستی اور پشت پناہی کر رہے ہیں ، قرآن کا پیغام ہے کہ ظالم عنقریب جان لیں گے کہ ان کا انجام کیا ہوگا ۔ سیعلمون الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون
ہم اپنے فلسطینی مسلمانوں پر صیہونیوں کے ظالمانہ حملوں کی مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہہ کرتے ہیں کہ عالمی فورمز پر اس مسئلے پر احتجاج کریں اور فسلطینی مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کریں۔
اس سلسلے میں مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی حسینی سیستانی دام ظلہ کا مذمتی پیغام پیش کرتے ہیں، آپ فرماتے ہیں:”آج کل غزہ کی پٹی شدید حملوں اور مسلسل بمباری کی زد میں ہے جس کی مثال کم ملتی ہے۔ جس کے نتیجے میں اب تک چھے ہزار سے زائد بے گناہ شہری جاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں ، بڑی تعداد میں لوگ بے گھر اور وسیع پیمانے پر رہائشی علاقے تباہ ہوگئے ہیں ؛ اس بمباری نے مختلف علاقوں کو اس طرح نشانہ بنایا ہے کہ لوگوں کے پاس پناہ لینے کے لیے کوئی محفوظ مقام باقی نہیں بچا ہے۔اسی دوران صہیونی فوج نے غزہ کا مکمل اور دم کھٹادینے والا محاصرہ کر رکھا ہے اور پانی، غذائی اجناس اور دوائیوں سمیت ضروریات زندگی کی فراہمی بند کردی ہے۔جس سے بے گناہ عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں گویا اپنے ان اقدامات سے حالیہ دنوں میں ہونے والی بڑی اور ذلت آمیز شکست کا بدلہ لینے کے در پے ہے۔یہ اقدامات دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہورہے ہیں لیکن کوئی روکنے والا نہیں ہے بلکہ کچھ عناصر ان مجرمانہ کاروائیوں کی حمایت کررہے ہیں اور دفاع کے نام پر اس کا جواز فراہم کر رہے ہیں!
عالمی برادری کو چاہئیے کہ اس خوفناک ظلم و بربریت کے خلاف کھڑی ہوجائے اور غاصب صہیونی فوجوں کو فلسطینی مظلوم عوام پر مزید ظلم کرنے سے روکے۔
فلسطین کےعزیز عوام کے اس ستر سالہ المیہ کا خاتمہ صرف فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق کے حصول سے ہی ممکن ہے اور مقبوضہ زمینوں سے غاصبانہ قبضے کا خاتمہ ہی اس خطے میں امن و امان کے قیام کا واحد راستہ ہے ورنہ جارحین کے خلاف مزاحمت جاری رہے گی اور تشدد کا سلسلہ مزید معصوم جانوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کا سبب بنے گا۔”
و لا حول و لا قوة الا بالله العلي العظيم
(۲۵- ربیع الاول – ۱۴۴۵ -) مطابق (۲۰۲۳/۱۰/۱۱ م)
دفتر آقائے سیستانی (مدظلہ العالی) ـ نجف اشرف

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button