سلائیڈرمحافلمقالات قرآنیمناقب امیر المومنین عمناقب و فضائل

شب ہجرت امام علی علیہ السلام کی جانثاری کا تذکرہ

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡرِیۡ نَفۡسَہُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ رَءُوۡفٌۢ بِالۡعِبَادِ﴿ بقرہ:۲۰۷﴾

اور انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کی رضاجوئی میں اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں پر بہت مہربان ہے۔
تفسیرآیات
یہ ایک ایسی ہستی کا نمونہ ہے جو اس رفیع مقام پر فائز ہے جہاں تک رسائی حاصل کرنا ہرکسی کے بس میں نہیں ہے۔ یہ اعلیٰ مقام رضائے رب کا مقام ہے اور اللہ کی رضا کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا انسانی معراج کا آخری درجہ ہے۔ کیونکہ جب وہ رضائے خدا میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے تو گویا اپنی خودی کو مرضات خدا میں فنا کر دیتا ہے، لہٰذا اس کا پورا وجود رضائے الہٰی میں ڈھل جاتا ہے:
وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ۔۔۔ {۹ توبہ : ۷۲}
اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو ان سب سے بڑھ کر ہے۔
بنابریں وہ جان بھی بڑی باعظمت ہے جو اس عظیم چیز پر قربان ہو جاتی ہے۔
اس آیت کی شان نزول کے حوالے سے لکھتے ہیں: یہ ایک صحابی رسول(ص) صہیب رومی کی شان میں نازل ہوئی، جس نے اپنا سارا مال دے کر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ جب کہ آیت کا مضمون جانی قربانی کے بارے میں ہے ، مالی قربانی کے بارے میں نہیں۔ آیت کے مضمون اور شان نزول کے درمیان اس تضاد کے باوجود مفسرین کے ایک معتدبہ گروہ نے اسی روایت پر اعتماد کیا ہے اور ان روایات کو یکسر نظر انداز کیا ہے جو مضمون آیت کے عین مطابق ہیں، یعنی یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی۔ جب آپ (ع) ہجرت کی رات رسول اکرم (ص) کے بستر پر سوئے اور اللہ کی رضا جوئی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہونے والی اس آیت کے راوی درج ذیل شخصیات ہیں:
۱۔ ابن عباس
ملاحظہ ہو شواھد التنزیل ۱ : ۱۲۷ ۔ امالی طوسی ص ۴۴۶
۲۔ انس بن مالک
ملاحظہ ہو امالی طوسی ص ۴۴۶
۳۔ ابو سعید خدری
ملاحظہ ہو شواھد التنزیل ۱ : ۱۲۳ ۔ الارشاد ۲ : ۲۲۴
۴۔ الامام علی بن الحسین علیہما السلام
ملاحظہ ہو شواھد التنزیل ۱ : ۱۳۰
۵۔ خدیجۃ الکبری
ملاحظہ ہو ینابیع المودۃ ص ۹۲
۶۔ سدی
ملاحظہ ہو شواھد التنزیل ۱: ۱۲۹
۷۔ الامام الحسن علیہ السلام
ملاحظہ ہو تذکرۃ السبط ص ۱۱۵۔ شرح نہج البلاغۃ ۲ : ۱۰۳
ابو جعفر اسکافی راوی ہے کہ معاویہ نے سمرۃ بن جندب کو ایک لاکھ کی پیشکش کی کہ آیہ وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یُّعۡجِبُکَ ۔۔۔، علی (ع) کی مذمت میں اور آیہ وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡرِیۡ نَفۡسَہُ ۔۔۔، ابن ملجم کی شان میں نازل ہونے کی روایت جعل کی جائے۔ سمرۃ نے انکار کیا۔ دو لاکھ کیا گیا۔ انکار کیا۔ تین لاکھ پر بھی انکار کیا۔ آخر میں چار لاکھ کرنے پر راضی ہو گیا اور روایت جعل کی۔ ملاحظہ ہو شرح نہج البلاغۃ ۴ : ۷۲۔
الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 535
وَ اِذۡ یَمۡکُرُ بِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِیُثۡبِتُوۡکَ اَوۡ یَقۡتُلُوۡکَ اَوۡ یُخۡرِجُوۡکَ ؕ وَ یَمۡکُرُوۡنَ وَ یَمۡکُرُ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ﴿۳۰﴾
۳۰۔ اور (وہ وقت یاد کریں) جب یہ کفار آپ کے خلاف تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں یا آپ کو قتل کر دیں یا آپ کو نکال دیں وہ اپنی چال سوچ رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔
تفسیر آیات
یہ آیت اسلامی تاریخ کے عظیم واقعہ ہجرت کے بارے میں ہے۔
مکہ کے سرداروں نے دار الندوہ میں جمع ہو کر رسالتمآب (ص) کو قید یا جلا وطن یا قتل کرنے کی تدبیروں پر غور کیا۔ آخر میں ابو جہل کی اس تجویز پر اتفاق ہوا کہ تمام قبیلوں میں سے ایک ایک فرد کا انتخاب کیا جائے اور یہ سب مل کر دفعتاً محمدؐ پر ٹوٹ پڑیں اور انہیں قتل کر دیں۔ اس طرح بنو عبد مناف سب قبیلوں سے انتقام لینے پر قادر نہ ہوں گے اور خون بہا لینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ چنانچہ اس کام کے لیے افراد کا انتخاب ہو گیا اور وقت کا بھی تعین ہو گیا اور قاتلوں کا گروہ اپنے مقررہ وقت پر مقررہ جگہ پر پہنچ بھی گیا۔ ادھر جبریل امین نے رسول اللہؐ سے کہا: آج کی رات آپ اپنے بستر پر نہ سوئیں اور اپنی جگہ علی بن ابی طالب علیہ السلام کو سلائیں۔ چنانچہ رسول اللہؐ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:
نم علی فراشی و اتشح ببردی ہذہ الحضرمی الاخضر فنم فیہ ۔ (شواہد التنزیل ۱: ۲۷۹۔ روح المعانی ذیل آیت)
میرے بستر پر سو جاؤ اور میرا حضرمی سبز لحاف اوڑھ لو اور اس میں سو جاؤ۔
رسول اللہؐ ان کی آنکھوں میں خاک جھونک کر نکل گئے۔ اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام نے بستر رسولؐ پر سونے اور ان پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت حاصل ہونے پر ان لفظوں سے اظہار افتخار کیا:
وقیتُ بنفسی خیر من وطیٔ الحصی
و من طاف بالبیت العتیق و بالحجر
رسول اللہ خاف ان یمکروا بہ
فنجاہ ذوا الطول الا لہ من المکر
و بات رسول اللہ فی الغار آمنا
موقی و فی حفظ الالہ و فی ستر
وبت اراعیھم وما یثبتوننی
و قد وطنت نفسی علی القتل والأسر
(شواہد التنزیل ۱:۱۳۱۔ روح المعانی ذیل آیت)
میں نے اس ہستی پر جان کا نذرانہ پیش کیا جوروئے زمین پر چلنے والوں اور کعبہ و حجر کے طواف کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔ رسول اللہؐ کو جب کفار کا خطرہ لاحق ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو کافروں کے مکر و فریب سے نجات دی اور رسول اللہؐ غار میں امن و سلامتی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہے اور میں نے کافروں کی تاک میں رات گزاری اور قتل و اسیری کے لیے اپنے آپ کو آمادہ رکھا۔
بستر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حضرت علی علیہ السلام کے سونے کی حدیث کے بارے میں ملاحظہ ہو مسند احمد بن حنبل ۱: ۳۳۱ ط مصر۔ تفسیر طبری۔ مستدرک حاکم وغیرہ ۔
اہم نکات
۱۔ توکل بر خدا کر کے اس کی تدبیر کے تحت داخل ہونے کی صورت میں دشمن کی ہر چال سے انسان محفوظ رہتا ہے: وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ ۔
الکوثر فی تفسیر القران جلد 3 صفحہ 380

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button