مقالات قرآنی

قبولیت دعا کا الٰہی وعدہ اور اس کے تقاضے

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
"وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِیۡ سَیَدۡخُلُوۡنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیۡنَ” ( غافر : 60)
"اور تمہارا رب فرماتا ہے: مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ از راہ تکبر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں یقینا وہ ذلیل ہو کر عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے”۔
تفسیر آیات
۱۔ ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ: اس آیت مبارکہ میں ایک حکم، ایک وعدہ ہے: ادۡعُوۡنِیۡۤ مجھے پکارو، مجھ سے مانگو ایک حکم ہے۔ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، ایک وعدہ ہے۔ یہ بات اپنی جگہ مسلم اور یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے:
"مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُفْتَحَ بَابَ الدُّعَائِ وَ یُغْلِقَ عَلَیْہِ بَابَ الْاِجَابَۃِ”
"اللہ ایسے نہیں کر سکتا کہ دعا کا دروازہ کھولے اور قبول دعا کا دروازہ بند کر دے”۔(وسائل الشیعۃ ۷: ۲۷)
بات رہ جاتی ہے حکم کی تعمیل کی۔
ادۡعُوۡنِیۡۤ: مجھ سے مانگو۔ اس حکم کی تعمیل قابل توجہ، اہمیت کی حامل اور تقدیر ساز ہے۔ انسان سے دعا صادر ہو جائے، اللہ تعالیٰ کو پکار لے، اپنے معبود سے مانگنے کا عمل وجود میں آ جائے۔ اس تقدیر ساز عمل کا وجود چند عناصر کی ترکیب سے ممکن ہے:
الف۔ دعا خشوع قلب سے ہو، انسان کا پورا وجود سراپا احتیاج بن جائے، طلب اور درخواست کا اظہار پورے وجود سے ہو۔ جس طرح انسان بھوک سے نڈھال ہو جاتا ہے تو اس کا اظہار پورا وجود کرتا اور پورے وجود سے کھانے کی طلب اور درخواست ظاہر ہوتی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اُدۡعُوۡا رَبَّکُمۡ تَضَرُّعًا وَّ خُفۡیَۃً”
(۷ الاعراف:۵۵)
اپنے رب کی بارگاہ میں دعا کرو، عاجزی اور خاموشی کے ساتھ۔
حدیث نبوی ہے:"لَا یَقْبَلُ اللہُ دُعَائَ قَلْبٍ سَاہٍ”( الوسائل۷: ۵۳)
"اللہ تعالیٰ غافل دل کی دعا قبول نہیں کرتا”۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
"اذا اقشعر جلدک و دمعت عیناک و وجل قلبک فدونک دونک فقد قصد قصدک”
(عدۃ الداعی: ۱۶۷)
"اگر دعا کے وقت تجھ پر لرزہ طاری ہو جائے، آنکھیں اشکبار ہوں، دل میں خوف آ جائے تو سمجھ لے تیری حاجت تیرے سامنے ہے۔ تیرا مقصد حاصل ہے”۔
ب۔ معرفت: اس بات کی معرفت کے ساتھ دعا ہونی چاہیے کہ میں کس کی بارگاہ میں دست بدعا ہوں۔
روایت ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال ہوا: کیا وجہ ہے ہم دعائیں کرتے ہیں قبول نہیں ہوتیں؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
"لِاَنَّکُمْ تَدْعُونَ مَنْ لَا تَعْرِفُونَہُ”
(مستدرک الوسائل ۵: ۱۹۱)
"وہ اس لیے کہ تم ایسی ذات کو پکارتے ہو جس کی تم معرفت نہیں رکھتے”۔
دوسری حدیث میں ہے۔
"لَوْ عَرَفْتُمُ اللہَ حَقَّ مَعْرِفَۃِ لَزَالَتِ الْجِبَالُ بِدُعَائِکُمْ” (مستدرک الوسائل ۱۷: ۳۰۱)
"اگر تم اللہ کی اس طرح معرفت حاصل کرو جیسی معرفت کا حق ہے تو تمہاری دعاؤں سے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ سکتا ہے”۔
ج۔ قبولیت کا عقیدہ ہو: دعا کرتے ہوئے اس بات پر اطمینان اور عقیدہ ہونا چاہیے کہ ایسی ذات کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلا رہا ہوں جہاں سے کوئی سوالی خالی ہاتھ واپس نہیں ہوتا۔
حدیث نبوی ہے:"ادْعُوا اللہَ وَ اَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالْاِجَابَۃِ” (مستدرک الوسائل ۵: ۱۹۰)
"اللہ سے اس حال میں دعا کرو کہ قبولیت پر یقین ہو”۔
نیز حدیث میں آیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِی فَلَا یَظُنَّ بِی اِلَّا خَیْراً” (وسائل الشیعۃ ۱۵: ۲۳۱)
"میں اپنے بندے کے گمان کے پاس ہوتا ہوں لہٰذا مجھ سے حسن ظن رکھو”۔
د۔ قانون طبیعت کی خلاف ورزی نہ کرے: اگر ایک شخص اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ قانون فطرت و طبیعت کی خلاف ورزی کر کے دعاکرتا ہے، اس کی دعا قبول نہ ہو گی۔
حدیث نبوی ہے:
"خمسۃ لا یستجاب لہم احدہم رجل مر بحائط مائل و ھو یقبل الیہ و لم یسرع المشی حتی سقط علیہ"(بحار الانوار۔۵:۱۰۵)
‘پانچ افراد کی دعا قبول نہ ہوگی: ایک وہ شخص جو گرنے والی دیوار کی طرف جا رہا ہو اور گزرنے میں تیزی نہ کرے یہاں تک کہ دیوار اس پر گر جائے”۔
حضر ت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
"اَرْبَعَۃٌ لَا تُسْتَجَابُ لَہُمْ دَعْوَۃٌ۔ رَجُلٌ جَالِسٌ فِی بَیْتِہِ یَقُولُ اللّٰہُمَّ ارْزُقْنِی فَیُقَالُ لَہُ اَ لَمْ آمُرْکَ بِالطَّلَبِ”
(الکافی ۲: ۵۱۶)
چار افراد کی دعا قبول نہ ہو گی۔ ایک وہ جو گھر بیٹھ کر دعا کرتا ہے: اے اللہ! مجھے روزی دے۔ اس سے کہا جائے گا کیا میں نے تجھے روزی کمانے کا حکم نہیں دیا تھا؟
ھ۔ بد عمل نہ ہو: ایک طرف اللہ کے حکم عدولی کو اپنا شیوہ بنایا ہو، دوسری طرف اللہ سے دعا کرتا ہو۔ ایک طرف اللہ سے منہ موڑتا ہو، دوسری طرف اللہ کی طرف رخ کر کے کچھ مانگتا ہو۔ ایسے شخص کی دعا قبول نہ ہو گی۔
حدیث نبوی ہے:”یَا اَبَا ذَرٍّ! مَثَلُ الَّذِی یَدْعُو بِغَیْرِ عَمَلٍ کَمَثَلِ الَّذِی یَرْمِی بِغَیْرِ وَ تَرٍ”
(الوسائل ۷: ۸۴)
"اے ابوذر! جو عمل کے بغیر دعا کرتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو کمان کے بغیر تیراندازی کرنا چاہتا ہے”۔
دوسری حدیث میں آیا ہے:”مَنْ سَرَّہُ اَنْ یُسْتَجَابَ دَعْوَتُہُ فَلْیُطَیِّبْ کَسْبَہُ” (مستدرک الوسائل ۱۳: ۲۷)
"جسے یہ پسند ہو اس کی دعا قبول ہو تو اپنی کمائی کو پاکیزہ رکھے”۔
دعا کی دیگر خصوصیات کے بارے میں تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت ۱۸۶۔
۲۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِیۡ:
جو لوگ از راہ تکبر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں وہ خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ آیت کے اس جملے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دعا کرنا عبادت ہے۔ دعا نہ کرنا، ترک عبادت ہے۔ جیسا کہ احادیث میں آیا ہے:
"الدُّعَا مُخُّ الْعِبَادَۃِ”(وسائل الشیعۃ ۷:۴۷)
"دعا مغز عبادت ہے”۔
دوسری حدیث میں آیا ہے:
"الدُّعَاہُوَ الْعِبَادَۃِ”(الکافی ۲: ۴۶۷)
"دعا ہی عبادت ہے”۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 492)
2۔ "قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ ۚ فَقَدۡ کَذَّبۡتُمۡ فَسَوۡفَ یَکُوۡنُ لِزَامًا”
"کہدیجئے: اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں تو میرا رب تمہاری پرواہ ہی نہ کرتا، اب تم نے تکذیب کی ہے اس لیے (سزا) لازمی ہو گی”۔
(سورہ فرقان آیت 77)
تشریح کلمات
یَعۡبَؤُا:( ع ب ء ) العبء الثقل وزن کو کہتے ہیں۔
تفسیر آیات
۱۔ قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ:
ایک تفسیر یہ ہے: کہدیجیے میرا رب تم کو کوئی وزن نہ دیتا، تمہارا وجود و عدم برابر ہے لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں۔ اس تفسیر کے مطاق انسان کو وزن دینے والی چیز دعا ہے۔نجات کے لیے واحد ذریعہ دعا ہے۔ بندگی سے انسان کو قدر و قیمت ملتی ہے اور دعا سے بندگی ملتی ہے۔
دوسری تفسیر یہ کی گئی ہے کہ دُعَآؤُکُمۡ تمہاری عبادت نہ ہوتی تو تمہارا رب تمہاری پرواہ نہ کرتا۔ تیسری تفسیر یہ: لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ اگر تمہارے رب کی طرف سے دعوۃ الی الحق نہ ہوتی تو تمہاری پرواہ نہ کرتا۔ تمہیں زندگی دی ہے اور زندہ رکھنا چاہتا ہے تو صرف اس لیے کہ تم کو حق کی دعوت پہنچ جائے۔ یہی تمہاری غرض خلقت ہے۔ اسی کے قریب ہے یہ فرمان:
"مَا یَفۡعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمۡ اِنۡ شَکَرۡتُمۡ وَ اٰمَنۡتُمۡ "
(۴ نساء: ۱۴۷)
"اگر تم شکر ادا کرو اور ایمان لے آؤ تو اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا؟”
۲۔ فَقَدۡ کَذَّبۡتُمۡ: لیکن تم نے اس حق کی دعوت کی تکذیب کی ہے۔ اسے ٹھکرا دیا ہے۔ اب تمہارا کوئی وزن نہیں رہا۔ تمہارا وجود و عدم برابر ہے چونکہ تم نے اپنی غرض خلقت کو ٹھکرا دیا ہے۔
یہ تیسری تفسیر ذیل آیت کے ساتھ مربوط ہے لہٰذا میرے نزدیک یہی تفسیر سیاق آیت کے مطابق ہے۔
۳۔ فَسَوۡفَ یَکُوۡنُ لِزَامًا:
اس تکذیب کی وجہ سے تم اللہ کے حتمی قانون کی زد میں آجاتے ہو۔ وہ ہے عذاب ابدی۔ اب عذاب تم پر لازم ہو گیا۔
اہم نکات
۱۔ حق کے داعی کی آواز پہچاننے سے انسان کو اللہ کے نزدیک قیمت مل جاتی ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 6 صفحہ 54)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button