مقالات قرآنی

صلہ رحمی از نگاہ قرآن

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
الَّذِیۡنَ یُوۡفُوۡنَ بِعَہۡدِ اللّٰہِ وَ لَا یَنۡقُضُوۡنَ الۡمِیۡثَاقَ وَ الَّذِیۡنَ یَصِلُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ وَ یَخَافُوۡنَ سُوۡٓءَ الۡحِسَابِ وَ الَّذِیۡنَ صَبَرُوا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ رَبِّہِمۡ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡفَقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً وَّ یَدۡرَءُوۡنَ بِالۡحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عُقۡبَی الدَّارِ (الرعد:20-22)
جو اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور پیمان کو نہیں توڑتے۔اور اللہ نے جن رشتوں کو قائم رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں قائم رکھتے ہیں اور اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں اور برے حساب سے بھی خائف رہتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو روزی ہم نے انہیں دی ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ کرتے ہیں اور نیکی کے ذریعے برائی کو دور کرتے ہیں آخرت کا گھر ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے۔
تفسیر آیات
ان آیات میں اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ، صاحبان عقل کے آٹھ اوصاف بیان فرمائے ہیں: ان میں سے ایک صلہ رحمی انجام دینا بھی ہے۔
۲۔ وَ الَّذِیۡنَ یَصِلُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ: وہ ان رشتوں کو قائم رکھتے ہیں جن کو قائم رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ آیت کے اطلاق میں وہ تمام رشتے شامل ہیں جنہیں قائم رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ان میں صلہ رحم شامل ہے اور صلہ ولایت بھی اس کے واضح مصادیق میں سے ہے۔ یعنی صلہ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
"نَزَلَتْ فِی رَحِمِ آلِ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ وَ آلِہِ السَّلَامُ وَ قَدْ تَکُوُنُ فِی قَرَابَتِکَ ثُمَّ قَالَ فَلَا تَکُونَنَّ مِمَّنْ یَقُولُ لِلشُّئیْئِ اِنَّہٗ فِی شِیْئٍ وَاحِدٍ”
( اصول کافی۲: ۱۵۶)
یہ آیت آل محمد علیھم السلام سے صلہ رحمی کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے اور یہ خود تیرے رشتوں کے بارے میں بھی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آیت کو تم ایک ہی مصداق میں بند کرو۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 4 صفحہ 286)
2۔ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا ﴿النساء:۱﴾
اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیے اور اس اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (پرہیز کرو)، بے شک تم پر اللہ نگران ہے۔
اَرۡحَامَ:ر ح م ) رحم کی جمع۔ عورت کا رحم بطور استعارہ قرابت اور رشتہ داری کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ تمام اقرباء ایک رحم سے پیدا ہوتے ہیں۔
وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ: اس آیت میں تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دوبارہ آیاہے لیکن اس کے باوجود تکرار مکرر لازم نہیں آتا۔ کیونکہ آیت کی ابتدا میں مقام ربوبیت کے لحاظ سے تقویٰ کا حکم دیا تھا اور یہاں مقام خالقیت کے نقطہ نظر سے تقویٰ کا حکم ہے۔
آیت کا ربط کچھ اس طرح سے ہے: اس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں نفس واحدہ سے خلق کیا اور عورتوں کو بھی اسی نفس سے خلق فرمایا۔ تمہاری کثرت بھی ایک ہی خاندان سے وجود میں آئی۔ اس تمہید کے بعد فرمایا: اللہ کے بارے میں تقویٰ اختیار کرتے ہوئے حقوق اللہ ادا کرو اور قرابتداروں کے بارے میں تقویٰ اختیار کرتے ہوئے حقوق الناس ادا کیا کرو۔
صلہ رحمی: یعنی رشتہ داروں اور قرابتداروں سے اچھے روابط رکھو۔ ان کے دکھ درد میں شریک رہو۔ اس کی ضد قطع رحمی ہے۔ بنا بر ایں صلہ رحمی کے حکم کا دوسرا رخ یہ ہے کہ رشتہ داروں سے قطع تعلق انتہائی سنگین جرم ہے۔
اسلام اللہ تعا لیٰ کی ایک عظیم نعمت اور رحمت ہے۔ یہ رحمت فرد، امت اور معاشرے سب کو یکساں شامل ہے۔ـ اسلام کے جامع نظام حیات میں کوئی ایسا گوشہ نہیں ملتا جسے اس کا مناسب مقام نہ ملا ہو۔ نہایت قابل توجہ بات ہے کہ صلہ رحمی کو اللہ تعالیٰ نے یہ مقام اور اہمیت دی ہے کہ خود اپنی ذات کا تقویٰ اختیار کرنے کے حکم کے فوراً بعد صلہ رحمی کا حکم صادر فرمایا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک تمام انسانوں کے عمومی تعلقات اور قریبی رشتہ داروں کے خصوصی تعلقات کو کس قدر اہمیت حاصل ہے۔
۔ تقوائے الٰہی کے ساتھ صلہ رحمی کا ذکر اس کی اہمیت کی واضح دلیل ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 240)
فَاٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ وَ الۡمِسۡکِیۡنَ وَ ابۡنَ‌السَّبِیۡلِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَ اللّٰہِ ۫ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿روم: ۳۸﴾
پس تم قریبی رشتہ داروں کو اور مسکین اور مسافر کو ان کا حق دے دو، یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ کی رضامندی چاہتے ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
تفسیر آیات
۱۔ فَاٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ: قریبی رشتہ دار کو اس کا حق دے دیں۔ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے۔ حَقَّہٗ سے ظاہر ہوتا ہے قریبی ترین رشتہ داروں کا حق پہلے سے متعین ہے۔ اسی طرح مساکین اور مسافر کا بھی حق معین ہے۔
مجمع البیان میں ابو سعید خدری سے روایت ہے:
لما نزلت ھذہ الایۃ علی النبی اعطی فاطمۃ فدکا و سلمھا الیھا ۔
جب یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی تو فاطمہ سلام اللہ علیہا کو فدک عنایت فرمایا اور ان کے سپرد فرمایا۔
شواھد التنزیل میں اس آیت کے ذیل میں ابن عباس سے روایت ہے:
لما نزل فَاٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمۃ و اعطاھا فدکاً و ذلک لصلۃ القرابۃ ۔
جب آیت فَاٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلایا اور قرابتی رشتے کی بنا پر انہیں فدک عطا فرمایا ۔
حضرت امام محمد باقر و حضرت امام صادق علیہما السلام سے بھی یہی روایت ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۃ بنی اسرائیل آیت ۲۶۔
اگر اس آیت کو مدنی قرار دیتے ہیں تو یہاں مراد خمس ہے۔ چنانچہ مضمون آیت اور روایت دونوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ سورہ مکی ہے تاہم یہ آیت اور آنے والی آیت جس میں ربا اور زکوۃ کا ذکر ہے مدنی ہیں لیکن اگر یہ آیت مکی ہے تو اس صورت میں قرابتداروں کا ان کا حق دے دو سے مراد ہر قسم کا احسان ہے نیز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ رسالتماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے حوالے کرتے ہوئے اس آیت کی تلاوت فرمائی ہو۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 6 صفحہ 363)
وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ﴿ۙالنساء: ۳۶﴾
اور تم لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک قرار نہ دو اور ماں باپ، قریب ترین رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب ترین رشتہ دار پڑوسی، اجنبی پڑوسی، پاس بیٹھنے والے رفیقوں، مسافروں اور جو (غلام و کنیز) تمہارے قبضے میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو، بے شک اللہ کو غرور کرنے والا، (اپنی بڑائی پر) فخر کرنے والا پسند نہیں۔
تشریح کلمات
الۡجُنُبِ:اجنبی۔
مُخۡتَال:غرور و تکبر کرنے والا۔
تفسیر آیات
اس آیۂ کریمہ میں گیارہ نکا ت پر مشتمل تعلیمات ہیں:
i۔ سب سے پہلے تصور کائنات کے بارے میں اپنا مؤقف درست کرو اور اس کائنات میں خدائے واحد کی عبودیت کو تسلیم کر کے ہر قسم کے شرک سے اجتناب کرو۔
ii۔ خدائے واحد کی پرستش کے بعد والدین پر احسان اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ قرآن کی متعدد آیات میں توحید کے بعد والدین پر احسان کا ذکر ملتا ہے۔ اگر چہ والدین کو بھی حکم ہے کہ وہ اولاد پر احسان کریں، لیکن والدین اولاد کے ساتھ از روئے جبلت محبت کرتے ہیں۔ اولاد چونکہ آنے والی نسل کا تسلسل ہے، اس کے لیے قدرت نے فطرت ہی میں تقاضے پورے کیے ہیں کہ والدین اولاد پر ہر صورت میں احسان ہی کریں گے۔ والدین تو اس دنیا سے کوچ کرنے کی طرف رخ کیے ہوئے ہوتے ہیں، لہٰذا طبعاً ان کی بقا اور ان کا وجود اولاد کے لیے اس قدر عزیز نہیں ہوتا جس قدر والدین کے لیے اولاد کی بقا اور وجود عزیز ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کمی کو اللہ تعالیٰ قانون کے ذریعے پورا کرنے کے لیے والدین پر احسان کی تاکید فرماتا ہے۔
iii۔ قرابتداروں پر احسان کے سلسلے میں بھی متعددآیات میں تاکید ہے اور احادیث میں صلۂ رحمی کے عنوان سے بے شمار احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں قرابتدار وں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں۔
iv۔ یتیموں پر احسان کے فضائل بھی بے شمار ہیں۔ اس کے لیے اتنا کافی ہے کہ یتیم کی کفالت کرنے والے جنت میں حضور اکرم (ص) کے جوار میں ہوں گے۔
v۔ مساکین، حاجتمندوں کی فریاد رسی کرنا فطرتاً ایک احسن عمل ہے، جس کے انجام دینے سے انسان داخلی طور پر کیف و سرور کا احساس کرتا ہے۔ اگرچہ یہ اللہ کی طرف سے بھی مطلوب ہے نیز اس میں رضائے رب بھی ہو تو یہ عمل اور زیادہ موجب کیف و سرور ہو گا۔
vi۔ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی: اس سے بعض نے قریبی رشتہ دار ہمسایہ مراد لیاہے اور بعض کے نزدیک قریبی ہمسایہ مراد ہے اور یہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ اول تو رشتے داروں پر احسان کا ذکر پہلے آگیا ہے۔ ثانیاً اس کے بعد دور کے ہمسایوں کا ذکر آیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے قریبی ہمسائے مراد ہیں۔
vii۔ وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ: اجنبی ، یعنی دور کے ہمسایے پر احسان کرو۔ روایات کے مطابق چالیس ہاتھ کے فاصلے تک ہمسائے کے حقوق آئے ہیں اور بعض روایات کے مطابق چالیس گھروں تک کا ذکر ہے۔ شاید دور کے ہمسایوں کی حدبندی چالیس گھروں تک ہو۔
viii۔ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ: یعنی ہم نشین، ساتھی، رفیق، خواہ رفیق راہ ہو یا رفیق کار۔
ix۔ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ: راہ ماندہ مسافر۔ خواہ اپنے وطن میں مالدار اور بے نیاز ہی کیوں نہ ہو۔
x۔ اپنے زیر قبضہ غلاموں اور کنیزوں پر نیکی کرنے کا حکم ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کریں۔ اس میں نوکر اور اپنے ماتحت افراد بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ لوگ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ ہم نشینوں میں شامل ہو جائیں۔
xi۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ: اس کے بعد تکبر و غرور کے ذکر سے پتہ چلتا ہے کہ متواضع اور منکسر المزاج انسان ہی منبع خیر و برکات ہوتے ہیں اور متکبر لوگوں کا معاشرے میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ اس لیے تکبر کی مذمت میں بے شمار احادیث موجود ہیں۔
احادیث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے:
وما زال جبرئیل یوصینی بالجار حتی ظننت ثیورثہ ۔
جبرئیل نے مجھ سے ہمسایوں کے بارے میں اس وقت سفارش کی کہ مجھے ان کے وارث بننے کا گمان ہونے لگا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
صِلَۃُ الرَّحِمِ وَحُسْنُ الْجِوَارِ یَعْمُرَانِ الدِّیَارَ وَ یَزِیْدَانِ فِی الْاَعْمَارِ ۔ (الامالی للصدوق المجلس ۷۷۔ صحیح البخاری کتاب الادب ۷: ۷۸)
صلہ رحمی اور اچھی ہمسائیگی سے گھر آباد اور عمریں دراز ہوتی ہیں۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 312)

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button