حضرت عباس علمدارؑخصوصی اشاعترسالاتسلائیڈرشخصیات

حضرت عباس علیہ السلام کی وفاداری کے چند نمونے

یوں تو حضرت عباسؑ کی پوری زندگی وفا اور وفاداری سے لبریز ہے لیکن حضرت عباس ؑکی یہ وفا داری سانحہ کربلا میں کچھ منفرد انداز میں نکھر کر سامنے آئی دوست ہوں یا دشمن کوئی بھی آپ کی وفا داری کی داد دئے بغیر نہ رہ سکا۔ مندرجہ ذیل سطور میں حضرت عباسؑ کی وفاداری کے چند نمونے پیش کرتے ہیں۔
١۔امان نامے کا ٹھکرانا:
عبیداللہ اوراس کے کارندے اس بات سے آگاہ تھے کہ جب تک حضرت عباسؑ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ہیں ان پر حاوی ہونا نہایت ہی دشوار مسئلہ ہے لہذا یہ چال چلی کہ حضرت عباسؑ کو امام حسین علیہ السلام سے جداکریں اس چال اورحربے کوعملی جامہ پہنانے کے لیے عصرتاسوعا شمرملعون چارہزار فوج کے ہمراه دشت نینوا پہنچا،اورحضرت عباسؑ کو آواز دی لیکن حضرت عباس ؑنے اس کی پکار پر کوٍئی توجہ نہیں دی بلکہ یوں کہوں عباس نامدارؑ نے شمر کو جواب کا لائق ہی نہ سمجھا، جب آقا و مولا امام حسین علیہ السلام نے کہا میرے عزیز بھائی جا و دیکھوشمر آپ سے کیا چاہتا ہے؟ اپنے امامؑ کی اطاعت میں آگے بڑھ کر شمر سے کہا،کہو کیا کہا چاہتے ہو۔شمر نے کہا اے عباس !میں نے ابن زیاد سے تمہیں اور تمھارے بھائیوں کیلئے امان نامہ لے لیا ہے، لہذا آپ اپنے آپ کو حسین ؑسے الگ رکھئے۔شیر خدا کے شیر فرزند بپھر گئے اور طیش میں آکر فرمایا:
تبت یداک و لعن ما جئت به من امانک یا عدو اﷲ، اتأ مرونا ان نترک اخانا وسیدنا الحسین بن فاطمه و ند خل فی طاعت اللعناء و اولاد اللعناء اتومننا و ابن رسول اﷲ لا آمان له
تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیس اور لعنت ہو اس امان نامہ پر اور اس پر کہ جس سے یہ امان نامہ لے کر کے آئے ہو، اے دشمن خداکیا تو ہمیں یہ امرکررہاہے کہ ہم اپنے بھائی ومولا اور فاطمہ (س) کےلخت جگر کو تنای چھوڑ کر لعنت شدگان اور لعنت شدگان کے فرزندوں کی اطاعت کے زمرے میں داخل ہوجائیں(عجیب بات ہے) آیا ہمیں امان دے رہے ہو لیکن فرزند رسول خدا ﷺکے لیے کوئی امان نہیں؟یہ جملات حضرت عباس کی شجاعت اور وفاداری کی واضح دلیل ہے۔
٢۔شب عاشورا کو اعلان وفاداری:
شام عاشورا امام حسین علیہ السلام نے اپنے تمام یار و انصار کو ایک خیمے میں جمع کرکے فرمایا : سب سنو یہ قوم دغل باز،صرف میرے خون کی پیاسی ہے لہذا میں اپنی بیعت تمہاری گردنوں سے اٹھاتا ہوں ،چراغ گل کیے دیتا ہوں۔شب کی تاریکی سے فائدہ اٹھا کر ہر کوئی اپنا اپنا راستہ لےلے ، اور یوں ہر کسی کو بھاگنے کی بہترین فرصت فراہم کی لیکن قربان جائیں حضرت عباسؑ کی وفاداری پر کہ تاریکی کا سکوت توڑ کر سب سے پہلے آپ نے اپنے عہد وفا کو پورا کرنے کا عزم ظاہر کیا ، چنانچہ ارباب تاریخ نے لکھا ہے
فبدألقول العباس بن علی علیه السلام فقال له لم نفعل ذالک؟البقی بعدک؟ لا ارنا اﷲ ذالک ابدا
اس وقت عباسؑ بن علی ؑنے آغاز سخن فرمایا اور امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا،ہم یہ کام کیوں انجام دیں؟کیا اس لیئے کہ آپ کے بعد باقی رہیں (یعنی زندہ رہںا)؟ نہیں، خدا کبھی بھی یہ چیز(آپ کی جدائی ) ہمیں نہ دکھلائے۔
٣۔نہر فرات پر وفاداری کی انتہا:
جب اکبر شہید ہوئے کئی بار حضرت عباس ؑنے امام حسین علیہ السلام سے جنگ کی اجازت چاہی ہر بار امام علیہ السلام نے یہ کہہ کر کہ تو میرے فوج کا علمدار ہے اگر تو جائے گا تو میری فوج کا کیا بنے گا؟ میرا خیال ہے شاید امام علیہ السلام عباس کو کچھ دیر اور اپنےدرمیان روکنا چاہتے تھے چونکہ امام علیہ السلام جانتے تھے خیام حسینی میں موجود مخدرات عصمت و طہارتؑ اور چھو ٹے معصوم بچوں کی ڈھارس عباسؑ تھے جب تک عباسؑ زندہ تھے ؛ ان کی امیدیں بھی زندہ تھیں۔ جب حضرت عباسؑ کا اصرار بڑھا تو امام علیہ السلام نے یہ کہکر کہ خیموں میں چھوٹے بچے تشنہ لب ہیں ان کے لئے کچھ پانی کا بندوبست کرو۔ حضرت عباس ؑنے اپنے بھائی حسین ؑکے ماتھے کو چوما اور نہر فرات کی طرف بڑھے فوج اشقیا کی صفوں کو چیرتےہوئے نہر فرات تک پہنچے ، مشکیزہ کو پانی سے بھرا خود بھی تو پیاسے تھے ایک چلو پانی کالیا اور پینےکاارادہ کیا ،
فذکر عطش الحسین علیه السلام و من معه فرقی الماء
ایک دفعہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھ موجود افراد(چھوٹے چھوٹے بچوں) کی پیاس یاد آئی ۔ پانی کو نہر فرات میں پھینک دیااور اپنے نفس سے یوں مخاطب ہوئے:
یا نفس من بعد الحسین هونی و بعدہ لا کنت ان تکونی وهذا الحسین وارد المنون وتشربین باردالمعین ، تاﷲ ما هذا فعال دینی
اے نفس حسینؑ کے بعد ذلت و خواری تر ی نصیب ہو’ حسینؑ کے بعد زندہ رہنے کیلئے تو باقی نہ رہے۔حسین علیہ السلام (تشنگی کی وجہ سے) موت کے دہانے پرجا پہنچے ہیں اور تو ٹھنڈا پانی پی رہاہے ، خدا کی قسم یہ کام عباس کے دین اور آئین(وفا) میں شامل نہیں، پھر ایک نعرہ لگاتے ہوئے فرمایا:
واﷲ لا اذوق الماء وسیدی الحسین عطشانا
اﷲ کی قسم میں پانی نہیں پیتا در حالیکہ میرے آقا حسین علیہ السلام پیاسے ہیں ایک فارسی شاعر نے زبان عباس ؑکو یوں رقم کیا ہے۔
عباس بی وفا تو نبودی کنون چہ شد نوشی تو آب ماندہ حسینیت در انتظار
وفاداری عباسؑ پر دشمن کا اعتراف:
حضرت عباسؑ کی وفاداری اتنی عظیم تھی کہ دشمن بھی اس پر اعتراف کرنے لگا’ اور ان کا پلید ترین دشمن بھی اس سے انکار نہیں کرسکا۔ چنانچہ جب وسائل غارت شدہ کو شام میں یزید کے پاس لے جایا گیا ان وسائل میں ایک بڑا علم بھی تھا جسکا کوئی بھی حصہ تیروں اور تلواروں کے زخموں سے خالی نہیں تھا لیکن اس علم کا دستگیرہ (قبضہ) بالکل سالم تھا، یزید نےپوچھا اس علم کو کون اٹھاتا تھا؟ کہا گیا یہ علم ’عباس بن علی کا ہے۔ یزید تعجب سے تین بار اس علم کی تعظیم میں کھڑے ہوکر بیٹھا اور کہا
انظروا الی هذا العلم فانه لم یسلم من الطعن و الضرب الا مقبض الید التی تحمله
اس علم کو دیکھیے نیزوں اور تلوار کی چوٹوں سے اس کا کوئی حصہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا، سوائے دستگیرہ کے کہ جس کو علمدار اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر اٹھاتے تھے۔ (یعنی صرف قبضہ علم ضربات سے محفوظ رہا ہے) قبضہ علم کا سالم رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ علمدار نے تیروں ، نیزوں اور تلواروں کی تمام ضربات کو جو ہاتھوں پر آتے تھے تحمل کیا ہے اور علم کو گرنے نہ دیاہے۔ تب یزید نے کہا
بیت اللعن یا عباس هکذایکون وفاء الاخ لاخیه
اے عباس لعن اور ملامت (ننگ و عار)کو اپنے سے کوسوں دور کردیا (یعنی لعن اور ملامت تجھے پر نہیں ججتی ہے)بے شک بھائی کی بھائی سے وفاداری ایسی ہی ہونی چاہیے‌۔
ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔
پنج امامی کہ تو را دیدہ اند دست علم گیر تو بوسیدہ اند
چشم خداوند چو دست تو دید بوسہ زد و اشک زچشمش چکید
اے عباس تجھ کو پانچ اماموں ؑنے دیکھا ہے اور علم اٹھانے والے تیرے بازووں کا بوسہ لیتے ہیں۔عین اﷲ (حضرت علیؑ) نے جب قنداقے کو اٹھایا اور تربے بازووں پر انکی نظر لگی تو انکھیں آنسووں سے نمناک ہوئیں۔
حضرت عباس کی وفاداری ائمہ علیہم السلام کی نگاہ میں:
ائمہ معصومین علیہم السلام نے حضرت عباس علیہ اسلام کے متعلق بہت کچھ بیان فرمایا ہے اور معصوم کی زبان سے نکلی ہوئی بات مبالغہ آرائی اور غیر حقیقت پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ قول معصوم حقیقت کو بیان کرتا ہے ۔ ذیل میں چند ایک نمونے بطور مختصر بیان کرتے ہیں؛
١۔امام زین العابدین علیہ السلام خود کربلا میں موجود تھے امام حسینؑ اور ان کے یارو انصار کی شہادت کے بعد مخدرات عصمت اور ننےمنے بچوں کو کوفے اور شام کے بازاروں اور درباروں میں سہارا دیا ۔ آپ ہی تو کربلا میں اپنے چچا عباس کی وفا داریوں کے چشم دیدہ گواہ تھے۔آپ علیہ السلام حضرت عباسؑ کی وفا کے بارے میں یوں ارشاد فرماتے ہیں:
رحم اﷲ عمی العباس فلقد آثر وابلی وفدی اخاہ بنفسه حتی قطعت یداهٰ
خدا رحمت کرے میرے چچا عباسؑ پر کہ جنہوں نے حقیقی طور پر ایثار ، جانبازی اور وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بھائی کی خاطر اپنی جان فدا کی اور اپنے دونوں بازووں کو ان کے راہ میں کٹوایا۔
٢۔امام صادق علیہ السلام حضرت عباسؑ کی وفاداری اور فداکاری کو بیان کرتے ہوئے یوں ارشاد فرماتے ہیں۔
اشهد لقد نصحت ﷲ و لرسوله ولا خیک فنعم الاخ المواسی
میں شھادت دیتا ہوں کہ تو نے خدا، اس کے رسول ﷺاور اپنے بھائی کے ساتھ بہترین نیکی اور خیر خواھی کی، پس آپ (اے عباسؑ)کس قدر اچھا فداکار اور وفادار بھائی تھے۔
٣۔حضرت عباس علیہ السلام کی فداکاری اور وفاداری کا تذکرہ امام زمانہ (عج اﷲتعالی فرجه الشریف)نے زیارت ناحیہ مقدسہ کے اندریوں بیان کیا ہے:
السلام علی ابی الفضل العباس المواسی اخاه بنفسه
میرا سلام ہو ابولفضل العباس ؑپر کہ جنہوں نے اپنے بھائی کے لیے اپنی جان کی قربانی پیش کرکے ایثار اور وفاداری کا اعلی مظاہرہ کیا۔
ان تمام باتوں سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حضرت عباسؑ کی ذات ،وفاء اور وفاداری کی عظیم درسگاہ ہے۔ جس کو بھی درس وفالینا ہو اسے چا ہیے کہ درسگاہ حضرت عباسؑ کے در پر سر تسلیم خم کرے اور اپنی جھولی پھیلاے جس نے بھی ایسا کیا اس نے ضرور اپنی مرادلے لی۔
https://erfan.ir/urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button