قرآن و اہل بیتؑ کا باہمی تعلق (حدیث ثقلین کی روشنی میں) حصہ سوم

فاضل جامعۃ الکوثر ثاقب علی ساقی
باب سوم
اہمیت قرآ ن از نظر روایات
رسول اللہ ؐ کی احادیث ا ور آئمہ اہل بیتؑ سے مروی روایات میں خصوصیت کے ساتھ قرآن مجید کی اہمیت بیان ہوئی ہے۔رسالت مآبؐ سے منقول احادیث میں قرآن مجید کے ساتھ تمسک کو مسلمانوں کیلئے لازمی قرا ر دیا گیا ہے ا ور بعض روایات میں قرآن مجید کو حبل اللہ متعارف کیا گیا ہے۔اسی طرح آئمہ اہل بیتؑ نے بھی یہا ں تک قرآن مجید کو اہمیت دی ہے کہ ہماری طرف سے ایسی کو ئی روایت قبول نہ کی جائے جو مخالف قرآن ہو، جیسے کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: فما جاءکم عنی من حدیث وافق کتاب اللہ فھو حدیثی،و ما خالف کتاب اللہ فلیس من حدیثی۔ (1)
(جو بھی ہماری طرف سے تم تک پہنچے اوروہ کتاب اللہ کے موافق ہو تو وہ ہماری حدیث ہے اور اگر مخالف کتاب ہے تو وہ ہماری حدیث نہیں ہے۔)
اسی طرح آئمہ اہل بیتؑ نےاپنےشیعوں کی علامات میں سے قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت کو قرا ر دیا ہے ا ور قرآن کو اپنا محور قرا ر دینے کی تاکید فرمائی ہے۔یوں تو قرآن مجید سے متعلق روایات کی تعداد بہت زیادہ ہیں لیکن یہاں اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف پانچ روایات کا ذکر کرتے ہیں۔
پہلی روایت
حضرت امام صادقؑ اپنے آباء و اجد ا د کے سلسلہ سند سے اپنے جد امجد رسول اللہؐ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ا رشاد فرمایا:
فَإِذَا الْتَبَسَتْ عَلَیْکُمُ الْفِتَنُ کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ فَعَلَیْکُمْ بِالْقُرْآنِ (2) (جب فتنے رات کے تاریکیوں کی طرح تم پر چھا جائیں تو قرآن مجید کو اپنا ؤ۔)
اس روایت میں رسالت مآبؐ نے بالکل وا شگاف الفا ظ میں مسلمانوں کو متوجہ کیا ہے کہ تمہا رے مسائل اورمشکلات کا حل قرآن مجید میں ہے ا ور جب بھی مشکلات میں گرفتار ہو جائیں تو قرآن مجید میں حل تلاش کریں۔لیکن مجھے اس بات پر بہت تعجب ہے کہ آج کل نہ صرف مسلمان قرآن مجید سے دور ہو چکے ہیں بلکہ اپنے تمام مسائل کے حل میں اپنے کو استبدادی قوتوں کا محتاج سمجھتے ہیں ا ور قرآن کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ا ور ان استبدادی قوتوں نے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ بھی سبق آموز اوربہت ہی حیرا ن کن ہے۔ ہر میدان میں مسلمان رہنمائوں اور ماہرین کی کوشش ہوتی ہے کہ مغربی استعمار کی پیروی کی جائے،حتی کہ علم اخلاق پر لکھی جانے والی بعض کتابوں میں اسلامی اخلاق کے نام پر مغربی اخلاق بیان کی جارہی ہیں، یورپی اخلاق کو اسلامی رنگ دے کر ان کی ترویج ہورہی ہے اور ہم اس کی طرف متوجہ نہیں ہیں۔
آغاز طالب علمی میں بعض ایسے سوالات میرے ذہن میں پیدا ہوئے جس کا جواب مجھے کئی سال بعد ملا۔ ان میں سے ایک سوال میرے ذہن میں تب پیدا ہوا جب آداب المتعلمین کا درس دیتے ہوئے استاد نے کہا کہ استاد اور طالب علم میں ایک تیر کا فاصلہ ہونا چاہئے۔یہ سنتے ہی میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ ہم نے تو سنا ہے کہ رسول اللہؐ جب اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھتے تو اس انداز سے بیٹھتے کہ باہر سے کوئی شخص اگر آتا تو شناخت نہ کرپاتے کہ ان میں سے رسول اللہؐ کون ہیں اگر پہلے سے آپؐ کو نہ جانتے ہوں، جبکہ رسول اللہؐ سے عظیم معلم تو دنیا میں کوئی نہیں۔اس سوال کا جواب تب ملا جب آیت اللہ آصف محسنی رحمۃ اللہ علیہ وفات پاگئے تھے تو جامعۃ الکوثر میں ایک تعزیتی پروگرام کا اہتمام کیا گیا تھا کہ جس سے آغا شیخ انور علی نجفی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ: "آیت اللہ آصف محسنی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ کہنا ہے کہ بعض دوسرے اقوام کے اخلاق کو ہم نے اسلامی اخلاق سمجھا ہے اور اسلامی اخلاق کے ساتھ مخلوط ہوچکے ہیں جبکہ ہم اس طرف متوجہ نہیں ہیں۔”
آج یورپی اخلاق کو آج باقاعدہ سے اسلامی اخلاق کا رنگ دیا جارہا ہے اور ہم اس طرف متوجہ بھی نہیں ہیں۔ اس سے زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ بعض سیکیولراور لبرل نظریات کو اسلا می نظریات سمجھ کر میڈیا پر ترویج ہورہی ہے، بے پردہ عورتیں اسلامی تعلیما ت پر گفتگو کررہی ہوتی ہیں۔اس میں کو ئی شک نہیں کہ دشمن کے بنائے گئے پروپیگنڈوں ا ور مغرب کے کھوکلے نظریات کی ترویج کرنے والے سب جاہل نہیں بلکہ بعض دشمن کے آلہ کار ہیں۔
دوسر ی روایت
زہری حضرت امام زین العابدینؑ سے روایت کرتے ہیں: علی بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقَاسَانِيِّ جَمِيعاً عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ لَوْ مَاتَ مَنْ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لَمَا اسْتَوْحَشْتُ بَعْدَ أَنْ يَكُونَ الْقُرْآنُ مَعِي وَ كَانَ إِذَا قَرَأَ- مالِكِ يَوْمِ الدِّينِ يُكَرِّرُهَا حَتَّى كَادَ أَنْ يَمُوت۔ (3)
(اگر مشرق و مغرب کے درمیان کے تمام لوگ مر جائیں تو میں تنہائی سے ذرا متوحش نہ ہوں گا اگر قرآن میرے ساتھ ہے چنانچہ جب حضرت مالک یوم الدین پڑھا کرتےتو اس کا تکرار کرتے ، یہ کیفیت ہوجاتی گویا کہ قریب ہے آپ وفات پاجائیں۔)
امام سجادؑ کا قرآن مجید کے ساتھ کتنا انس و محبت ہے گویا قرآن مجید کو اپنا ایک ایسا ساتھی تصور کرتے ہیں کہ جس سے کبھی جدائی نہ ہو۔امام سجادؑ نے کس فصیح و بلیغ انداز سے ہمیں قرآن مجید کی طرف متوجہ فرمایا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہمارا تعلق ہر وقت اللہ تعالی کے اس عظیم کتاب کے ساتھ ہو حتی کہ اس حد تک کہ ہم اس عظیم کتاب کو اپنے لیئے ایک ساتھی کی طرح تصور کریں۔اور اگر ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو پھر نہ ہمیں تنہائی سے خوف کھانے کی کوئی ضرورت ہے اور نہ پھر ہمیں کسی قسم کی تاریکی و گمراہی سے کوئی خوف ہے چونکہ ہر طرح کے تاریکی و گمراہی میں قرآن مجید ہی تو ہمارے لیےہدایت کی شمع ہے۔
تیسری روایت
امیر المومنین حضر ت امام علی ابن ابی طالبؑ فرماتے ہیں:
الْبَیْتُ الَّذِی یُقْرَأُ فِیهِ الْقُرْآنُ وَ یُذْکَرُ اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِیهِ تَکْثُرُ بَرَکَتُهُ وَ تَحْضُرُهُ الْمَلَائِکَةُ وَ تَهْجُرُهُ الشَّیَاطِینُ وَ یُضِی ءُ لِأَهْلِ السَّمَاءِ کَمَا تُضِی ءُ الْکَوَاکِبُ لِأَهْلِ الْأَرْضِ وَ إِنَّ الْبَیْتَ الَّذِی لَا یُقْرَأُ فِیهِ الْقُرْآنُ وَ لَا یُذْکَرُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِیهِ تَقِلُّ بَرَکَتُهُ وَ تَهْجُرُهُ الْمَلَائِکَةُ وَ تَحْضُرُهُ الشَّیَاطِینُ۔ (4)
(جس گھر میں قرآن پڑا جائے گاا ور ذکر خدا کیا جائے گا تو اس میں برکت زیادہ ہوگی ا ور ملائکہ موجود ہو ں گے اور شیاطین دور رہیں گے ا ور وہ گھر اہل آسمان کے لیےاس طرح چمکے گا جیسے اہل زمین کے لیےستارے ا ور جس گھر میں قرآن نہ پڑا جائے گا اس کی برکت کم ہو جائے گی ملائکہ ا س گھر کو چھوڑ دیں گے اورشیاطین گھس جائیں گے۔)
حضرت امام علیؑ نے اپنے کلام مبارک کے ذریعے مسلمانوں کو بار بار قرآن مجید کی طرف متوجہ کیا، نہج البلاغہ میں پہلے خطبے سے لیکر آخر تک دسیوں مقامات پر قرآن مجید کا ذکر نظر آتا ہے۔ لیکن آج اسلامی معاشرے میں قرآن مجید کی تلاوت کی طرف بھی توجہ نہ ہونے کی برابر ہے۔آج مسلمانوں کے پاس ہر ضروری و غیر ضر وری کام کیلئے تو وقت ہے لیکن قرآن مجید اور اسلامی تعلیمات سیکھنے ا ور سمجھنے کیلئے وقت نہیں ہے۔ کیا آج ہم نے اپنے گھروں کو قرآن مجید کی تلاوت سے مزین کیا ہے؟ یہ وہ سوال ہے کہ جس کا جواب مثبت آ نا چاہئے لیکن ایسا نہیں ہے۔ اسلا م صرف چند عبادات و رسومات کا نام نہیں ہے بلکہ اسلام ایک نظام کا نام ہے کہ جو اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کیلئے بنایا ہے۔ ضر وری ہے کہ انسان اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی اسلامی قوانین کے مطا بق گزارے۔ایک مسلمان ا پنی گھریلو زندگی کیسے بسر کرے قرآن و ا ہل بیتؑ کے دسیوں فرامین موجود ہیں کہ جس میں گھریلو زندگی گزا رنےکے اصول بتائے ہیں ا ن فرامین میں سے مولا علیؑ کا ایک فرمان یہ بھی ہے کہ ایک مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے گھر کو تلاوت قرآن ا ور اللہ تعالی کے ذکر سے مزین کرے۔ اس نورانی کلام میں ساتھ یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ اگر کو ئی اپنے گھر کو قرآن مجید کی تلاوت ا ور ذکر خد ا سے مزین کرے تو اس کےچار فائدے ہیں یعنی گھر میں برکت کا زیادہ ہونا،ملائیکہ کا گھر میں نازل ہونا، شیاطین کا گھر سے ہجرت کرنا ا ور وہ گھر اہل سماء یعنی نورانی مخلوقات کہ جس کو اللہ تعا لی نے آسمانوں ا ور عرش پر بنایا ہے اس طرح ان کے لیے روشن ہوگا، چمکتا ہوگا جس طرح ہم اہل زمین کیلئے ستارے چمکتے ہیں۔
چوتھی روایت
نہج البلاغہ میں حضرت اما م علی ابن ابی طالبؑ سے ایک طو یل وصیت منقول ہے کہ جس میں امام علیؑ نے اپنے آخری وقت میں اپنے بچوں کو بعض چیزوں کی وصیت فرمائی ہے۔امام علیؑ وصیت کرتے کرتے ایک جملہ یہ بھی بیان فرماتے ہیں کہ: اللّٰہ اللّٰہ فی القرآن لا یسبقکم بالعمل بہ غیرکم۔ (5)
(اللہ تعالی سے قرآن کے بار ے میں ڈرو ایسا نہ ہو کہ اس پر عمل کرنے میں دوسرے لوگ تم سے آ گے نکل جائے۔)
اہل بیتؑ کیا عظیم ہستیا ں ہیں۔ وہ کہ جن کی زندگی بھی اللہ کیلئے، جن کی موت بھی اللہ کیلئے،جن کا کلام اللہ کی معرفت سے پر بلکہ جن کی دعا ئیں بھی اللہ کی معرفت کا سمند ر ہے۔ہم اپنی دعاؤں میں اللہ سے مانگتے ہیں جبکہ یہ عظیم ہستیاں اللہ کی معرفت سے اپنی دعاؤں کو مزین کرتے ہیں ا ور اگر مانگتے بھی ہیں تو وہی کچھ مانگتے ہیں جس میں اللہ کی رضا ہو۔ اس سے زیادہ حیرانگی وا لی بات یہ ہے کہ ا ن ہستیوں کی وصیت بھی اللہ کیلئے ہے۔امام علیؑ نے اپنی آخری وصیت میں ایسی ایک چیز بھی نہیں بتا ئی جو ہم عام لوگ کہتے ہیں بلکہ وصیت میں بھی اللہ تعالی،قرآن مجید ا ور دین اسلام کی طرف توجہ دلا ئی۔امام علیؑ نے بظاہر یہ وصیت اپنی اولاد کو کی ہے، لیکن حقیقت میں امامؑ نے قیامت تک آنے والے اپنے ماننے والوں کو یہ ا رشاد فرمایا ا ور اس میں قرآن پاک کی طرف خصوصی توجہ د لائی کہ ایسا نہ ہو کہ قرآن کو ترک کر و ا ور دوسرے قرآن پر عمل کرنے میں تم سے آگے نکل جائے۔اگر چہ انقلاب اسلامی سےپہلے بالعمو م تشیع کی تو جہ قرآن کی طرف جیسی ہونی چاہئے تھی ویسے نہ تھی البتہ اس میں بھی کو ئی شک نہیں کہ شیعوں کیلئے مشکلات بھی تھے لیکن کچھ کوتاہیاں بھی تھیں،جبکہ انقلاب اسلامی کے بعد قرآن مجید کو خاص توجہ دی دگئی ا ور اس خلا کو کافی حد تک پر کیا لیکن پاکستان میں آج بھی بہت زیادہ کمی محسوس کی جا رہی ہے۔انقلاب اسلامی کے بعد علوم اسلامی پر تشیع نے جتنا کام کیا شاید یہ کام پہلے کئی صدیوںمیں ہونے والے کام سے کافی زیادہ ہے۔
پانچویں روایت
حضرت امام محمد باقر ؑ نے اپنے ا صحاب میں سے ایک صحابی جابر جعفی سے فرمایا:
و َاعلَم یٰا جٰابِر بِأَنَکَ لا تَکون لَنا وِلِیّا حَتی لَو اِجتَمَعَ عَلَیکَ أَهلَ مِصرک وَ قالوا: إِنّکَ رَجل سوء، لَم یَحزنک ذلک، وَ لَو قالوا: إِنّکَ رَجل صالِح، لَم یَسرکَ ذلک، وَ لَکن أَعرِض نَفسَکَ علی کِتابِ اللّٰه۔ (6)
(ائے جابر جان لو کہ تم ا س وقت تک ہمارے دوست نہیں ہو سکتےجب تک کہ تمہارا سار ا اہل شہر جمع ہو کر تم سے کہیں کہ تو برا شخص ہے ا ور تو اس پر غمگین نہ ہو ا ور سب مل کر کہیں کہ تو اچھا آدمی ہے ا ور تو خوش نہ ہو بلکہ اپنے آپ کو کتاب خدا قرآن کے سامنے پیش کرو ا ور اچھا ئی ا ور برا ئی کے بارے میں قوانین و ضو ابط اس سے لو اور پھر دیکھو کہ تم کس گروہ میں سے ہو۔)
حضرت امام باقر ؑ نے ہمیں ایک بہت ہی اہم مسئلے کی طرف متوجہ کیا ہے کہ ایک شیعہ کو چاہئے کہ وہ لوگوں کی باتوں میں نہ آئے بلکہ اس کے لیےمعیار کلام خدا ہے۔اگر ہمیں پوری دنیا والے اچھا کہیں لیکن اگر ہم قرآن کے ا صولوں کے مطابق نہ ہوں تو ہمیں اس پر خو ش نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہما رے سامنے تباہی ہے ا ور اگر ہمارا عمل قرآن مجید کے بتائے ہوئے قوانین کے مطابق ہو تو پھر کسی ملامت کرنے والے کی ملامت پر ہمیں غمگین نہیں ہونا چاہئے۔یہ ایک عا م جملہ نہیں ہےبلکہ کا میابی حاصل کرنے کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے۔ ایک ایسا انسان کامیاب نہیں ہوسکتا کہ جو لو گوں کی باتوں سے خوفزدہ ہو بلکہ انسان کو چاہئے کہ قرآن مجید کے بتائے ہوئے اصول کو اپنا رہنما بنائے ا ور جب تک ا ن ا صولوں کے مطابق ٹھیک چل رہا ہے کسی کی پرواہ نہ کرے۔
آج اسلامی معاشرے میں بہت سارے غلط و غیر شرعی کام لوگ صرف اس وجہ سے کررہے ہیں کہ اگر و ہ افراد یہ کام نہ کریں تو معاشرے کی ضد میں اجا ئیں گے۔یعنی معاشرے کی خوف سے کچھ ایسے رسوما ت مومنین انجام د ے رہے ہیں کہ جو شریعت محمدؐ کے بالکل خلاف ہیں،قرآن مجید کے بتائے گئے قوانین کے سراسر خلاف ہیں اور اسی طرح اہل بیتؑ کے بتائے گئے فرامین کےخلاف ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ کچھ جاہل و نادان مو منین کچھ غیر شرعی کام اہل بیتؑ کی خوشنودی کی غرض سے انجام دے ر ہے ہیں اگر چہ اسلام میں ان کی حرمت واضح طور پر بیان ہو چکی ہے۔اہل بیتؑ نے ایسے کاموں کی انجام دینے کی بالکل بھی اجازت نہیں دی ہے کہ جواسلامی قوانین کے رو سے حرا م ہو ں ا ور اپنے شیعوں کو تاکید کے ساتھ ایسے کاموں سے منع کیا ہے۔حتی کہ بعض روایات میں اہل بیتؑ کی طرف سے شیعوں کو اس اندا ز میں نصیحت ہو ئی ہے کہ ا ے شیعو ں ہمارے لیے زینت بنو ہمارے لئے ننگ و عار نہ بنو۔ جیسے کہ آئمہ اہل بیتؑ سے مروی ہے: کونوا لنا زینا،ولا تکونوا لنا شینا۔ (7)
(ہمارے لیے زینت بنو،ہمارے لیے ننگ و عار نہ بنو۔) اگر ہم ہر قسم کے خلاف شریعت کام کریں اور پھر بھی اپنے کو شیعہ کہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم آئمہ اہل بیتؑ کے لیے ننگ و عار ہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ ہمیں دیکھ کر نعوذ باللّٰہ ہمارے مذہب یا ہمارے عظیم اماموں سے متعلق نامناسب الفاظ ادا کریں ہمیں لوگوں کو یہ موقع نہیں دینا چاہئے بلکہ ایسا کردار ہو ہمارا کہ لوگ ہمیں دیکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں کہ اگر فلاں علی کا شیعہ اتنا بہترین انسان ہے تو ان کا مولا علی ابن ابی طالبؑ کا کیا کہنا۔