قرآنیاتمقالات قرآنی

سورۃ الدھر معراج سخاوت اہلیبیت علیھم السلام پر گواہ

"الکوثر فی تفسیر القرآن ” سے اقتباس”
"اِنَّ الۡاَبۡرَارَ یَشۡرَبُوۡنَ مِنۡ کَاۡسٍ کَانَ مِزَاجُہَا کَافُوۡرًا۔عَیۡنًا یَّشۡرَبُ بِہَا عِبَادُ اللّٰہِ یُفَجِّرُوۡنَہَا تَفۡجِیۡرًا یُوۡفُوۡنَ بِالنَّذۡرِ وَ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسۡتَطِیۡرًاوَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا۔اِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡہِ اللّٰہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّ لَا شُکُوۡرًا۔اِنَّا نَخَافُ مِنۡ رَّبِّنَا یَوۡمًا عَبُوۡسًا قَمۡطَرِیۡرًا”
ترجمہ: نیکی کے مرتبے پر فائز لوگ ایسا مشروب پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہو گی۔یہ ایسا چشمہ ہے جس سے اللہ کے (خاص) بندے پئیں گے اور خود اسے (جیسے چاہیں) جاری کر دیں گے۔ جو نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی ہر طرف پھیلی ہوئی ہو گی۔ اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔(وہ ان سے کہتے ہیں) ہم تمہیں صرف اللہ (کی رضا) کے لیے کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ تو کوئی معاوضہ چاہتے ہیں اور نہ ہی شکرگزاری۔ ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کا خوف ہے جو شدید بدمنظر ہو گا۔”
شان نزول:اس آیت سے آیت نمبر ۲۲ تک آیات اہل بیت رسول کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔
زمخشری نے الکشاف ذیل آیہ میں تحریر کیا ہے :
ابن عباس سے روایت ہے کہ حسن و حسین (علیہما السلام) مریض ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چند لوگوں کے ہمراہ عیادت کے لیے آئے۔ لوگوں نے کہا: اے ابوالحسن! اپنے بیٹوں کی خاطر نذر مان لیں۔ چنانچہ علیؑ فاطمہؑ اور ان کی کنیز فضہ نے نذر مانی کہ اگر حسنین (علیہما السلام) شفایاب ہو جائیں تو تین دن روزہ رکھیں گے۔ چنانچہ حسنین (علیہما السلام) شفایاب ہوئے لیکن ان کے گھر میں کچھ نہیں تھا۔ چنانچہ علی (ع) نے شمعون خیبری یہودی سے تین صاع جو قرض لیا۔ چنانچہ فاطمہ (س) نے ایک صاع جو پیس لیا اور پانچ روٹیاں پکائیں اور ان کے سامنے افطار کے لیے رکھ دیں تو ایک سائل ان کے دروازے پر کھڑا ہوا اور کہا: السلام علیکم اہل بیت محمد! میں مسلمانوں کے مساکین میں سے ایک مسکین ہوں مجھے کچھ کھلائیں۔ اللہ آپ کو جنت کے دسترخوان سے اطعام کرے۔ چنانچہ سب نے اس مسکین کو ترجیح دی اور صرف پانی پر افطارکیا اور دوسرے دن روزہ رکھا۔ دوسرے دن بھی جب افطار کے لیے بیٹھ گئے تو ایک یتیم نے سوال کیا تو سارا کھانا اس یتیم کو دیا۔ تیسرے دن ایک اسیر نے سوال کیا تو سارا کھانا اس اسیر کو دیا۔ چنانچہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حسن اور حسین (علیہما السلام) کے ہاتھ پکڑ کر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں گرسنگی کی وجہ سے چوزے کی طرح لرزتے دیکھا تو فرمایا: جو حال تمہارا میں دیکھ رہا ہوں اس سے میں شدید متاثرہوا ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے ہمراہ گئے تو دیکھا حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) محراب عبادت میں گرسنگی کی حالت میں اور آنکھیں دھنسی ہوئی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس سے متاثر ہوئے۔ پس جبرئیل نازل ہوئے اور کہا یہ لیجیے اپنے اہل بیت کے بارے میں آپ کو مبارک ہو۔ پھر یہ سورہ پڑھ کر سنایا۔
اس روایت کے طرق درج ذیل ہیں:
i۔ حضرت علی علیہ السلام۔ ملاحظہ ہو شواہد التنزیل ۲: ۴۹۳۔ غایۃ المرام ص۳۶۸۔ تفسیر فرات ص۱۹۶۔ امالی صدوق حدیث ۱۱ مجلس ۴۴۔
ii۔ ابن عباس۔ حضرت ابن عباس سے یہ روایت چند ایک طرق سے منقول ہے:
الف۔ مجاہد ب۔ ابو صالح ج۔ عطاء سے
iii۔ زید بن ارقم۔ یہ روایت ابن عباس کی روایت سے اگرچہ مختلف عبارت میں ہے لیکن تین سائلوں کے اطعام کے بارے میں ان آیات کے نزول پر اتفاق ہے۔
iv۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام۔ یہ روایت چند ایک طرق سے منقول ہے:
الف۔ مسلمہ بن جابر ب۔ روح بن عبد اللّٰہ ج۔ ابن عمار د۔ میمون القداح۔
چنانچہ اس روایت کو ائمہ حدیث و تفسیر البرھان نے بیان کیا ہے۔ ان میں ابو جعفر اسکانی متوفی ۲۴۰ھ، محمد بن جریر طبری متوفی ۳۱۰ھ، حاکم نیشاپوری متوفی ۴۰۵ھ، ثعلبی متوفی ۴۲۷ھ، حافظ ابن مردویہ متوفی ۴۱۶ھ، واحدی نیشاپوری متوفی۴۶۸ھ، زمخشری متوفی ۵۳۸ھ وغیرھم قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ ۲۷ مصادر و منابع کی تفصیل کے لیے ملاحظ ہو الغدیر ۳: ۱۰۷۔
ان میں سبط ابن الجوزی کابھی ذکر آتا ہے جنہوں نے اپنے جد ابن الجوزی کو رد کیا ہے کہ اس روایت کو موضوعات میں شامل کیا ہے اور تعجب کا اظہار کیا ہے۔ الغدیر ۳: ۱۱۰ میں مذکور ہے: نظام الدین نیشاپوری نے اپنی تفسیر جو تفسیر طبری کے حاشیہ میں طبع ہے، لکھا ہے: یہ بھی روایت ہے کہ یہ سائل جبرئیل تھے جو باذن خدا اہل بیت کا امتحان کرنا چاہتے تھے۔
حضرت ابن عباس سے قرآن کی ترتیب نزولی کے بارے میں کئی طرق سے روایات موجود ہیں:
پہلی روایت: عن عثمان بن عطاء عن ابیہ عن ابن عباس۔ قال اول ما نزل بمکۃ اقرأ باسم ربک ثم ن و القلم۔۔۔۔ پھر ۸۵ سورتوں کا ذکر کرتے ہیں جو مکہ میں نازل ہوئیں۔ ثم انزلت بالمدینۃ البقرۃ ثم۔۔۔ ثم الرحمن ثم ھل اتی ثم الطلاق۔ اس میں سورہ ہل اتی کو مدنی سورتوں میں، سورۃ الرحمٰن اور سورہ طلاق کے درمیان ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو بیہقی کتاب دلائل النبوۃ۔ شواہد التنزیل، مجمع البیان اور الاتقان ۱: ۱۶۔
دوسری روایت: عن مجاہد عن ابن عباس انہ قال: اول ما نزل علی نبیہ من القرآن اقرأ باسم ربک۔۔۔۔
سابقہ حدیث کی طرح مدنی سورتوں میں سورۃ الانسان کو سورہ الرحمٰن اور سورہ طلاق کے درمیان ذکرکیا ہے۔ ملاحظہ ہو شواہد التنزیل، الاتقان ۱: ۱۵۔ النحاس الناسخ و المنسوخ میں ابو حاتم سے روایت کرتے ہیں۔
تیسری روایت: عن ابی صالح عن ابن عباس۔ اس روایت میں بھی سورہ انسان کو مدنی سورتوں میں ذکر کیا ہے۔ رجوع فرمائیں شواہد التنزیل۔
سب سے اہم یہ ہے کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ سورہ مدنی ہے۔ لہٰذا اس سورہ مبارکہ کو مکی صرف وہ لوگ کہتے ہیں جو فضائل اہل بیت علیہم السلام کے منکر ہیں۔ وَ اِنَّا لَنَعۡلَمُ اَنَّ مِنۡکُمۡ مُّکَذِّبِیۡنَ۔
جن لوگوں کو اس سورہ مبارکہ کے مکی ہونے کے ساتھ دلچسپی ہے وہ اپنی تسلی کے لیے کہتے ہیں: جنت کی نعمتوں کا مفصل ذکر کرنا اور ساتھ عذاب کا بھی ذکر کرنا اور فَاصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ وَ لَا تُطِعۡ مِنۡہُمۡ اٰثِمًا اَوۡ کَفُوۡرًا کا حکم بتاتا ہے کہ سورہ مکی ہے۔
جواب یہ ہے: مذکورہ باتیں مکی سورتوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں۔ سورہ رحمٰن اور سورہ حج دونوں مدنی ہیں اور سورہ ھل اتی سے زیادہ ان دونوں سورتوں میں نعمتوں اور عذاب کا ذکر ہے اور صبر کا حکم صرف مکی سورتوں میں نہیں ہے۔ اس سورہ کے مدنی ہونے پر کافی روایات موجود ہیں۔ سورہ کہف آیت ۲۸ دیکھیے۔ اس میں صبر کا حکم ان الفاظ میں آتا ہے:
وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ وَ لَا تَعۡدُ عَیۡنٰکَ عَنۡہُمۡ ۚ تُرِیۡدُ زِیۡنَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَہٗ عَنۡ ذِکۡرِنَا۔۔۔۔
اور (اے رسول) اپنے آپ کو ان لوگوں کی معیت میں محفوظ رکھیں جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اپنی نگاہیں ان سے نہ پھیریں، کیا آپ دنیاوی زندگی کی آرائش کے خواہشمند ہیں؟ اور آپ اس شخص کی اطاعت نہ کریں جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے۔
نیز ایک قول یہ ہے کہ یہ سورہ آیت ۲۲ تک جو فضائل اہل بیت علیہم السلام پر مشتمل ہے، مدنی ہے، باقی مکی ہے۔ لہٰذا اس قول کی بناپر فَاصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ کی آیت مکی ہو جاتی ہے۔
بعض اہل قلم کو اس پر اعتراض ہے اور لکھتے ہیں:
یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ایک مسکین، ایک یتیم اور ایک قیدی اگر آ کر کھانا مانگتا ہے تو گھر کے پانچوں افراد کا پورا کھانا اسے دے دینے کی کیا معقول وجہ ہو سکتی ہے؟ (تفہیم القرآن ۶: ۷۶)
اس عظیم ایثار کی معقولیت کا سوال ان لوگوں سے ہو گا جن سے کہا جائے گا: وَ لَا تَحٰٓضُّوۡنَ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ۔ (۸۹ فجر: ۱۸)
نیز یہ سوال قرآن کی تعبیر میں الطَّعَامَ کے صیغۂ جمع اور مسکین کے صیغۂ مفرد پر بھی جائے گا۔ فَمَا لَکُمۡ ۟ کَیۡفَ تَحۡکُمُوۡنَ۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس کے علاوہ قیدیوں کے معاملے میں یہ طریقہ اسلامی حکومت کے دور میں کبھی نہیں رہا کہ انہیں بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ اس کا جواب من فمک ادینک وہ آیت نمبر ۸ کے ذیل میں خود اپنی بات رد کرتے ہیں:
اس آیت میں قیدی سے مراد وہ شخص ہے جو قید میں ہو خواہ وہ کافر ہو یا مسلمان، خواہ جنگی قیدی ہو یا کسی اور جرم میں قید کیا گیا ہو نیز خواہ اسے قید کی حالت میں کھانا دیا جاتا ہو یا اس سے بھیک منگوائی جاتی ہو۔ (تفہیم القرآن)
تاریخ اسلام کا ایک ادنیٰ طالب بھی جانتا ہے کہ عہد رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کوئی قید خانہ نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ اسیروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسلمانوں کے حوالے کرتے تھے کہ دو یا تین دن تک اپنے ہاں رکھ لیں اور کبھی اسیروں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کا سنبھالنے میں دشواری پیش آتی تھی اور بھیک مانگنے کی نوبت آتی تھی۔ ملاحظہ ہو الکشاف ۴: ۶۶۸
قیدی کا مسئلہ خود ایک دلیل ہے کہ یہ سورہ مدنی ہے چونکہ مکہ میں کسی قیدی کا مسئلہ درپیش نہ تھا۔
سورہ ھل اتی عربی ادب میں: امام شافعی کہتے:
الام ألام و حتی متی
اعاتب فی حب ھذا الفتی
و ھل زوجت فاطم غیرہ
أو فی غیرہ ھل اتی ھل اتی
کسی اور شاعر نے کہا:
انا مولی الفتی انزل فیہ ھل اتی
الی متی أکتمہ، أکتمہ الی متی
کسی شاعر نے کہا:
و ھل اتی ھل اتی الا الی اسد
ففی الکتائب طود الحلم فی المحن
ھل فیہم سابق فی السابقین الی
حق الیقین وما صلی الی وثن
تفسیر آیات:
۱۔ اِنَّ الۡاَبۡرَارَ: یہ لفظ بر کی جمع ہے۔اطاعت گزار کے معنوں میں ہے۔ لہٰذا وہ ہستیاں جنہوں نے اپنے خالق کی اطاعت کا حق ادا کیا ہے انہیں ابرار کہتے ہیں۔
آگے آنے والی آیات سے بھی الۡاَبۡرَارَ کی تعریف نکل آتی ہے۔ خوف خدا دل میں رکھتے ہیں۔ صرف اللہ کی رضا جوئی کے لیے لوگوں پر احسان کرتے ہیں۔ لوگوں سے کسی قسم کے معاوضے اور تعریف کی توقع نہیں رکھتے۔ یعنی ایثار کی اعلیٰ منزل پر فائز ہیں۔
۲۔ یَشۡرَبُوۡنَ مِنۡ کَاۡسٍ : کَاۡسٍ شراب کے پیالے یعنی جام کو کہتے ہیں۔ وہ جنت میں ایسے جام میں مشروب نوش کریں گے جس میں کَافُوۡرًا کی آمیزش ہو گی۔ کَافُوۡرًا سے مراد ممکن ہے کہ اس جام کے معطر اور خوشبو والے ہونے کی طرف اشارہ ہو جیسا کہ جنت کی نعمتوں کا کماحقہ وصف و بیان انسان کے لیے قابل فہم نہیں ہے۔(الکوثر فی تفسیر القران جلد 9 صفحہ 412 )
عَیۡنًا یَّشۡرَبُ بِہَا عِبَادُ اللّٰہِ یُفَجِّرُوۡنَہَا تَفۡجِیۡرًا
یہ ایسا چشمہ ہے جس سے اللہ کے (خاص) بندے پئیں گے اور خود اسے (جیسے چاہیں) جاری کر دیں گے۔
تفسیر آیات
۱۔ عَیۡنًا: ایک خاص چشمہ ہو گا جس سے اللہ کے خاص بندے نوش فرمائیں گے۔ اس چشمے کی نوعیت کچھ اس طرح ہو گی کہ وہ پہلے سے موجود چشمہ نہ ہو گا بلکہ یہ عباد اللہ اپنے ارادے سے اس چشمے کو جاری کریں گے کہ جونہی ارادہ کیا یہ چشمہ ابل پڑے گا۔
یُفَجِّرُوۡنَہَا: اس چشمے کو خود اہل جنت شگافتہ کریں گے۔ صرف ارادے سے پھوٹ پڑے گا۔ واضح رہے دنیا میں ہم نعمتیں علل و اسباب کے ذرائع سے حاصل کرتے ہیں۔ علل و اسباب کم اور سادہ ہیں تو وہ کام آسان ہو جاتا ہے، زیادہ ہیں تو مشکل ہو جاتا ہے۔ جنت میں ایسا نہ ہو گا وہاں صرف ارادہ کرنا کافی ہو گا۔ چنانچہ فرمایا:
لَہُمۡ مَّا یَشَآءُوۡنَ فِیۡہَا۔۔۔۔ (۵۰ ق:۳۵)
وہاں ان کے لیے جو وہ چاہیں گے حاضر ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 9 صفحہ 416)
"یُوۡفُوۡنَ بِالنَّذۡرِ وَ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسۡتَطِیۡرًا”
"جو نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی ہر طرف پھیلی ہوئی ہو گی۔”
۱۔ یُوۡفُوۡنَ بِالنَّذۡرِ: یہ عباد اللہ ایسے ہیں جو نذر پوری کرتے ہیں۔ النذر میں الف لام عہد کے لیے ہو سکتا ہے کہ ایک خاص نذر کی طرف اشارہ ہے جو اپنی نوعیت اور اخلاص کے اعتبار سے ایک خاص اور منفرد نذر ہے۔ جیسے وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ۔ (۵ مائدہ: ۵۵) میں بھی الزَّکٰوۃَ ایک خاص اور منفرد زکوۃ کی طرف اشارہ ہے۔ دونوں جگہ سائل کو رد نہ کرنے کے اصل محرک کی وجہ سے اہمیت حاصل ہوئی ہے۔ زکوۃ حالت رکوع میں ہونے کی وجہ سے اور وفا بہ نذر حالت خوف خدا میں ہونے کی وجہ سے کہ اگر سائل پر اپنی ذات کو ترجیح دی جائے تو یہ رضائے رب کے منافی ہو گی۔ اللہ کی رضا جوئی ہاتھ سے جانے کے خوف نے اس نذر کو قیمت بخشی۔ وہ رضا اور خوشنودی جس کے اثرات قیامت کے ہولناک لمحوں میں نمایاں ہونا ہیں۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 9 صفحہ 417)
وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا۔
"اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں”
وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ: وفا بہ نذر کی نوعیت کی طرف اشارہ ہے کہ نذرکو پورا اس حالت میں کر رہے ہیں کہ وہ کھانا کھلاتے ہیں۔ یہ کھانا کھلانا بھی دو باتوں کی وجہ سے منفرد تھا:
الف: عَلٰی حُبِّہٖ: اپنی ذاتی شدید خواہش کے باوجود یہ اطعام عمل میں آیا۔ اس قسم کا ایثارعام حالت میں وقوع پذیر نہیں ہوتا بلکہ ایک طاقتور محرک درکار ہوتا ہے۔ وہ عشق خدا اور اخلاص در عمل کی طاقت ہے جو اہل بیت اطہار % ہی کے وجود میں پائی جا سکتی ہے۔
عَلٰی حُبِّہٖ کی ضمیر طعام کی طرف ہے کہ طعام کی خواہش کے باوجود ایثار کی وجہ سے اسے فضیلت ملی گئی۔ جیسے لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ۔ (۳ آل عمران: ۹۲) کے تحت درجہ اس انفاق کو ملتا ہے جس میں اپنی پسند کی چیز دے دی جائے۔
ب: یہ ایثار مسکین، یتیم اور اسیر کے لیے عمل میں آیا جن کا تعلق معاشرے کے محروم ترین طبقے سے ہے اور ایثار کا محرک عشق الٰہی کے ساتھ سائل کا مسکین، یتیم اور اسیر ہونا ہے۔ یہ ضرورت مند اور محتاج ترین ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے قابل توجہ ہیں جو الٰہی قدروں کے حامل ہیں۔ ورنہ یہ لوگ معاشرے میں نظر اندازہوتے ہیں اور ان کا تعلق ناقابل اعتنا طبقہ سے ہوتا ہے۔(الکوثر فی تفسیر القران جلد 9 صفحہ 417)
اِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡہِ اللّٰہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّ لَا شُکُوۡرًا
"(وہ ان سے کہتے ہیں) ہم تمہیں صرف اللہ (کی رضا) کے لیے کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ تو کوئی معاوضہ چاہتے ہیں اور نہ ہی شکرگزاری۔”
نُطۡعِمُکُمۡ: اس نذر اور اس اطعام کی اللہ کے ہاں قدر و قیمت زیادہ ہونے کا سبب بیان ہو رہا ہے اور وہ سبب اس طرح اللہ کی طرف سے بیان ہو رہا ہے جیسے اہل بیت علیہم السلام اپنی زبان سے اس جملے کو جاری فرما رہے ہوں ۔یعنی اللہ تعالیٰ اہل بیت اطہار % کی نیتوں کو الفاظ میں بیان فرما رہا ہے۔ نیت و اخلاص اہل بیت اطہار علیہم السلام کی طرف سے ہے اور اس کا اظہار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو رہا ہے۔ یہ بہت بڑی فضیلت اور انسانی تصور سے زیادہ درجہ ہے جو اہل بیت اطہار علیہم السلام کو حاصل ہے کہ ان کا اخلاص اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سے اپنے الفاظ میں بیان فرمایا:
۲۔ لِوَجۡہِ اللّٰہِ: ہم یہ ایثار و قربانی کی لازوال مثال صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے کر رہے ہیں چونکہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کو یہ معرفت سب سے زیادہ حاصل ہے کہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا بہترین موقع یہی ہے کہ اپنی احتیاج بھی شدید ہو اور سائل کی محتاجی بھی شدید۔ اس موقع پر ایثار و قربانی سے کام لیا جائے اور ترجیح سائل کو دی جائے۔
۳۔ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّ لَا شُکُوۡرًا: ان کے ایثار و قربانی کے پیچھے محرک صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی ہے۔ سائلین سے کسی قدردانی کی توقع نہیں ہے۔ ان کی نظر میں سائلین کی محتاجی ہے۔ ان کے کسی رد عمل پر نہیں ہے کہ وہ جزا کے طور پر اس احسان کا کوئی جواب دیں گے یا شکر گزاری کے طور پر زبانی اظہار کریں گے یا اس احسان کے بدلے وہ کوئی احسان کریں گے۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
مَنْ اَطْعَمَ مؤْمِناً حَتَّی یُشْبِعَہُ لَمْ یَدْرِ اَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ مَا لَہُ مِنَ الْاَجْرِ فِی الْآخِرَۃِ لَا مَلَکٌ مَقَرَّبٌ وَ لَا نَبِیُّ مُرْسَلٌ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَالَمِینَ۔۔۔۔ (الکافی۔۲: ۲۰۱)
جو کسی مومن کو سیر ہونے تک کھانا کھلائے تو جو آخرت میں اس کا ثواب ہے اسے نہ کوئی مقرب فرشتہ سمجھ سکے گا نہ نبی مرسل سوائے اللہ رب العالمین۔
حدیث نبوی ہے:خَیْرُکُمْ مَنْ اَطْعَمَ الطَّعَامَ وَ اَفْشَی السَّلَامَ وَ صَلَّی وَ النَّاسُ نِیَامٌ۔ (الکافی ۴: ۵۰)
تم میں بہتر وہ شخص ہے جو کھانا کھلائے، سلام کو عام کرے اور اس وقت نمازیں پڑھے جب لوگ سو رہے ہوں۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 9 صفحہ 418)
اِنَّا نَخَافُ مِنۡ رَّبِّنَا یَوۡمًا عَبُوۡسًا قَمۡطَرِیۡرًا”
"ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کا خوف ہے جو شدید بدمنظر ہو گا۔”
اس آیت میں بھی اہل بیت اطہار ؑ کی قلبی حالت الفاظ کی تعبیر میں لائی جا رہی ہے کہ اہل بیت علیہم السلام ان محروم سائلین کو اپنی حالت زار پر ترجیح اس لیے دے رہے ہیں کہ انہیں روز قیامت کی سختیوں کا اندازہ ہے۔ اس دن محروموں کی کمک فائدہ دے گی۔
ان آیات سے اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ محروموں کی کمک قیامت کی ہولناکیوں کے لیے ایک مضبوط ڈھال ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 9 صفحہ 419)

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button