خصوصی اشاعترسالاترمضان المبارکسلائیڈرقرآنیاتمکتوبات

آیتِ صوم کی مختصر تشریح

تحریر : مختار حسین توسلی
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ .
یعنی: اے ایمان والو! تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
(سورہ بقرہ آیت 183)
1. یاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا
قرآن مجید میں مختلف قسم کے خطابات اور نداءات پائے جاتے ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالی نے اپنے بندوں اور مخلوقات سے خطاب فرمایا ہے جیسے يا أيّها النّاس، يا أيّها الإنسان، يا بني آدم، يا أيّها الّذين آمنوا، يا أيّها الكافرون، يا أيّها النّبي، يا أيّها الرّسول و غيرها، لیکن يا أيّها المسلمون اور يا أيّها الّذين أسلموا جیسے خطابات وارد نہیں ہوئے ہیں۔
قرآن مجید میں یا أیّھا الذین اٰمنو تقریبا نواسی مرتبہ آیا ہے خداوند متعال نے اِس خطاب کے ذریعے اکثر اُن چیزوں کے بارے میں انسان کو خطاب کیا ہے جو اعمال سے مربوط ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوۃ، قصاص، تقوی وغیرہ۔
یہاں بطور نمونہ کچھ آیات درج کی جاتی ہیں چنانچہ ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے ۔أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ۔۔۔
(سورہ بقرہ آیت 153)
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ۔
(سورہ بقرہ آیت 183)
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ وغیرہ ۔
(سورہ آل عمران آیت 102)
قرآن مجید میں يا أيّها النّاس بیس مرتبہ آیا ہے، ان الفاظ کے ذریعہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ کے بارے میں خطاب نہیں کیا ہے بلکہ ایمان، عبادت اور امور تکوینی و فطری کے بارے میں خطاب کیا ہے، جیسے : يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۔
(سورہ بقرہ آیت نمبر 21)
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِنْ رَبِّكُمْ فَآمِنُوا خَيْرًا لَكُمْ ۚ وَإِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا۔
(سورہ نساء آیت 170)
نیز ارشاد ہوتا ہے۔ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ۔
(سورہ حجرات آیت 13)
قرآن مجید میں یا بنی آدم کے ذریعے پانچ مرتبہ خطاب کیا گیا ہے، اس خطاب کے ذریعے اکثر و بیشتر انسان اور شیطان کے درمیان موجود عداوت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جیسے ارشاد ہوتا ہے أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ ۔
(سورہ یسین آیت 160)
قرآن مجید میں يا أيّها الإنسان کے ذریعے دو مرتبہ خطاب کیا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ۔
(سورہ انفطار 6)
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے: يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ ۔
(سورہ انشقاق 6)
ان تمام خطابات کا مشترکہ مفاد اور مقصد دنیا میں عمل اور آخرت میں نتیجے کا حصول ہے۔
اللہ تعالی نے کفار سے دنیا میں بلا واسطہ خطاب نہیں کیا بلکہ رسول کے واسطے سے خطاب کیا ہے جیسے قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ …. البتہ آخرت میں بلاواسطہ خطاب کیا ہے.
سوال یہ ہے کہ اللہ تعالی نے یا أیھا المسلمون، يا أيها الذين أسلموا کے ذریعے خطاب کیوں نہیں کیا ؟
جواب یہ ہے کہ قیامت کے دن اسلام کے بارے میں سوال نہیں ہو گا بلکہ ایمان اور عمل کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
2. کُتِبَ عَلَیکُمُ الصّیَام
یہاں پر کُتِبَ ثبوت کے معنی میں ہے، کَتَبَ یعنی ثَبَتَ، و لذلك سُمّيَ الكتاب الكتابة لأنها إثباتات، یعنی اسی وجہ سے کتاب کو کتابت کا نام دیا ہے کیونکہ اس میں جو کچھ لکھا جاتا ہے وہ ثابت ہوتا ہے، كُتِبَ عليكم بمعنى فُرِضَ، وَ وَجَبَ، وَ ثَبَتَ فِي حَقّكُم هذَا الحُكُم، یعنی تمہارے حق میں اس حکم کو فرض، واجب اور ثابت کیا گیا۔
اس آیہ شریفہ میں روزے کے وجوب پر دو طرح سے دلالت موجود ہے ایک طرف لفظ کُتِبَ وجوب پر دلالت کر رہا ہے تو دوسری طرف لفظ عَلَیکُم۔
اگر لفظ کُتِبَ نہ بھی ہوتا صرف عَلَیکُمُ الصّیَامَ ہوتا تب بھی روزے کے وجوب پر دلالت ہوتی جس طرح مندرجہ ذیل آیہ شریفہ میں حج کے وجوب پر دلالت موجود ہے ملاحظہ ہو : وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ.
(سورہ آل عمران آیت 97)
اس آیہ شریفہ میں کُتبَ یا وَجَبَ یا فُرِضَ علیکم الحج جیسے الفاظ نہیں ہیں بلکہ فرمایا : علی النّاس، یعنی لوگوں پر واجب ہے کہ وہ اللہ کے گھر کا حج کریں۔
اگر صرف کُتِبَ الصّیامُ ہوتا تب بھی روزے کے وجوب پر دلالت ہوتی لیکن اللہ تعالی نے اس آیہ شریفہ میں دونوں قسم کے الفاظ کو جمع کیا ہے یعنی دونوں کو استعمال فرمایا ہے، جس سے روزے کی اہمیت و افادیت دو چند ہو جاتی ہے، پس روزہ ایک اہم فریضہ ہے۔
الصّيام کو الصّوم سے لیا گیا ہے جو امساک یعنی روکنے یا رُکنے کے معنی میں ہے، البتہ صوم سے مراد اِمساک لغوی جبکہ صیام سے مراد اِمساک شرعی ہے، امساک لغوی ہر قسم کے امساک کو شامل ہے یعنی اس سے مراد تمام قسم کے حرام کاموں سے اجتناب کرنا ہے، جیسے معصوم فرماتے ہیں : اَلصّومُ جُنَّةُ مِّنَ النَّارِ، یعنی روزہ جہنم کی آگ کے لیے ڈھال ہے۔
یہاں پر امساک سے معصوم کی مراد مطلق امساک یعنی تمام قسم کے حرام کاموں سے پرہیز کرنا ہے، جیسے إمساك عن الغيبة، إمساك عن الكذب، إمساك عن الكفر و غيره لا فقط إمساك بالصيام، یعنی اس سے مراد فقط روزے کے ذریعے امساک کرنا نہیں ہے، اسی لیے معصوم نے فرمایا : اَلصّومُ جُنَّةُ مِّنَ النَّارِ، اَلصّیامُ جُنَّةُ مِّنَ النَّارِ نہیں فرمایا، غور فرمائیں۔
3. كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِن قَبلِكُم
یہاں پر کما تشبیہ کے لیے استعمال ہوا ہے، چنانچہ آیہ شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے گزرنے والے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، لیکن یہاں پر کچھ سوالات پیدا ہوسکتے ہیں وہ یہ کہ آیا امت محمدی سے پہلے گزرنے والے ساری اقوام پر روزہ فرض کیا گیا تھا یا بعض اقوام پر، آیا ان کا روزہ موجودہ روزے کی مانند تھا یا کسی اور نوعیت کا، جیسے کھانے پینے پر تو پابندی نہ تھی لیکن بات چیت ممنوع تھی، آیا ان پر رمضان المبارک کے مہینے میں روزہ فرض کیا گیا تھا یا کسی اور مہینے میں، آیا ان پر پورا ایک مہینہ روزہ فرض کیا گیا تھا یا اس سے کم یا پھر زیادہ فرض کیا گیا تھا، تشبیہ کی حدود کیا ہیں، کیا صد در صد مطابقت پائی جاتی تھی یا نہیں؟
اس کے بارے میں دو نظریے پائے جاتے ہیں پہلا نظریہ یہ ہے کہ روزے کو فی الجملہ فرض کیا گیا تھا، یعنی رمضان اور غیر رمضان، پورا مہینہ، یا اس سے زیادہ یا کم سے قطع نظر تمام انبیاء اور لوگوں پر فرض کیا گیا تھا۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اس آیہ شریفہ میں من قبلکم سے مراد انبیائے ماسبق ہیں جن پر اللہ تعالی نے مختلف شکل میں روزے فرض کئے تھے۔
یہاں پر دونوں اقوال قابل جمع ہیں، پہلے والے قول میں مطلق روزے یعنی رمضان المبارک کے علاوہ دیگر روزے کا ذکر ہے، جب کہ دوسرے قول کے مطابق رمضان المبارک کے روزے ہیں جو صرف انبیاء علیہم السلام پر واجب تھے۔
4. لَعَلّكُم تَتّقُون
یہ جملہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ روزہ اور تقوی کے درمیان ایک خاص قسم کا ربط ہے یعنی روزے کو فرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان میں تقوی آجائے، بلکہ تمام قسم کی عبادات جیسے نماز، روزہ، حج، زکات اور صدقات وغیرہ کو فرض کرنے کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ انسان متقی بن جائے، پس ہر وہ عبادت جس کو بجا لانے کے بعد انسان متقی نہ بن جائے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی اہل تقویٰ کے عمل کو ہی قبول فرماتا ہے، إنما يتقبل الله من المتقين، واضح رہے کہ تقویٰ سے مراد اوامر کو بجا لانا اور نواہی سے اجتناب کرنا ہے، التقوى هو إتيان الأوامر و إجتناب النواهي.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button