قرآنیاتمقالات قرآنی

اصول ابلاغ قرآن (حصہ اول)

سید مون کاظمی

ابلاغِ قرآن
مومن بالقرآن اور عامل بالقرآن ہونے کے بعد جو اہم ترین ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ نورِقرآن کو عام کیا جائے تاکہ اطراف و اکنافِ عالم سے شرک و الحاد، کفر و طغیان، فسق و عصیان کا اندہیرا چھٹ جائے اور زمین کے سینہ پر چلنے والاہر فرد اللہ کی طرف رجوع کرنے والا، تقوٰی اختیار کرنے والا اور نماز قائم کرنے والا بن جائے اور مطلقًا شرک و رجس سے دوری اختیار کرنے والا ہو جائے۔
"مُنِبِیْنَ اِلَیْهِ وَاتَقُوْه وَاَقِیْمُواالصلٰوة وَلاَ تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ”۔
اسی کی طرف ر جوع کرتےہوئےاوراس سےڈرواورنماز قائم کرواور مشرکین میں سے نہ ہوجاؤ” (الروم#31)
یہی وہ اہم فریضہ تھا جس کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم 23سال تک انجام دیتے رہے۔اس مشن کی تکمیل میں بےپناه مصائب وآلام کا سامنا کیا۔اذیتیں برداشت کیں، پتھر کھائے، راستوں میں کانٹے بچھائے گئے مگر فریضہ کی بجاآوری میں ذرہ برابر فرق نہ آیا۔23سالہ جدوجہد ذاتی منفعت کےلیے نہیں بلکہ فرائض کی بجاآوری کےلیے تھی۔حجۃ الوداع کے موقع پر اصحابِ باصفا کے مجمعِ عام سے عمومی سوال کیا "الاهل بلغت” "کیا میں نے تم تک اللہ کا پیغام پہنچادیا” تو بیک زبان سب نے اعتراف کرتےہوئے کہا:
"قد بلغت و ادیت و نصحت”۔
یقینا آپ (ص) نے اللہ کا پیغام پہنچادیا، ذمہ داری ادا کردی اور نصیحت و خیرخواہی کا حق ادا کردیا۔
آپ (ص) نے اللہ تعالیٰ کو گواہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا:
"اللّٰهم اشهد۔ اللّٰهم اشهد۔ اللّٰهم اشهد”۔ اے اللہ گواہ رہنا، اے اللہ گواہ رہنا، اے اللہ گواہ رہنا۔
پھر رسالاتِ الہٰیہ کے ابلاغ کو دوام بخشتے ہوئے تمام حاضرین سے یہ مطالبہ کیا:
"فلیبلغ الشاهد الغائب” "جو موجود ہیں انکا فرض ہے کہ ان تک پہنچائیں جو غائب ہیں”۔
گویا آقائے نامدار صلی اللہ علیہ والہ فرمارہے تھے:
"اےمیرےسچے پیروکاروں، اے میرے عزیز جانثارو! خدائی پیغامات کو لے کر دنیا کےگوشےگوشےمیں پھیل جاؤ اور آیاتِ الہٰی کےچشموں سے پژمردہ دلوں کی آبیاری کرکےان کااحیاء کرتے رہو تاکہ آنےوالی نسلیں اور دور افتادہ علاقوں میں بسنےوالےانسان ہدایت کے بنیادی حق کو پالیں”
قرآن ابدی تعلیمات کا مجموعہ ہے اس کی تعلیمات رواں دواں آبشار کی مانند ہمیشہ پاک و مصفا ہیں۔ہر دور کے انسان کےلیے حیات بخش، صحت افزا اور خوش ذائقہ ہیں اور اس کی حیات آفریں تعلیمات ہر دور، ہر زمانہ اورہر خطہ کے انسان تک پہنچانا چاہیے:
"وَ اُوحِیَ اِلَیَ هذَاالْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُم بِه وَمَن بَلَغَ” "اور میری طرف اس قرآن کی وحی کی گئی ہےتاکہ اس کے ذریعہ سے تمہیں اور جہاں تک یہ پیغام پہنچے سب کو ڈراؤں”۔ (الانعام#19)
اس میں کوئی شک نہیں کہ ابلاغِ قرآن کی ذمہ داری اولین ان لوگوں کی ہے جو حکمت و دانائی، علم و تقوٰی، نیک نامی اور اچھی سماجی شہرت کے حامل ہیں لیکن یہ حکم اپنے اندر اتنی عمومیت رکھتا ہے کہ ہر وہ عاقل جو بالغ النظر بھی ہے اور آزادی کی نعمت سے بہرہ مند بھی اس حکم کے وجوب سے مستثنٰی نہیں۔
سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ والہ نے اس عمومیت کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا:
"بلغوا عنی ولو اٰیةٍ” پہنچاؤ میری طرف سے خواہ ایک ہی آیت ہو”
اور حق تعالیٰ کی یہ سنتِ جاریہ ہے کہ جب بھی اس نے کسی قوم کو کتاب عطا کی تو اس نے جاہلوں سے سیکھنے کا عہد بعد میں لیا مگر علماء سے تعلیم دینے کا عہد پہلے لیا۔بقدرِ ظرفِ علم ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآنی ہدایات کا ابلاغ کرے۔
"وَاِذْ اَخَذَاللّٰه مِیثَاقَ الَذِیْنَ اُوْتُوالْکِتٰبُ لَتُبَیِنُنَه لِلنَاسِ” اس وقت کو یاد کرو جب اللہ نےجن کوکتاب دی ان سے عہد لیا کہ اسے لوگوں کےلیے واضح طور پر بیان کریں گے”۔ (آل عمران#187)
اصولِ ابلاغ
قرآن مجید کے سب سے عظیم اور سب سے اولین مبلغ خود حضرت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں۔اس انداز سے آپ (ص) فریضہ تبلیغ سے عہدہ برآ ہوئے کہ حقِ تبلیغ ادا ہوگیا۔یقینًا اب بھی سب سے مؤثر اندازِ تبلیغ وہی ہوگا جو آپ (ص) کی سیرتِ طیبہ کے عین مطابق ہوگا۔

پہلا اصول: سہل بیانی 
انسان کی جبلت کچھ اس طرح کی واقع ہوئی ہے کہ وہ آسانیوں کو پسند کرتا ہے اور گراں بار سنگینیوں سے دور بھاگتا ہے۔تبلیغ کے دوران بھی اس انسانی نفسیات کو مدِنظر رکھنا ضروری ہے۔اول دن ہی قرآنی تعلیمات کو مشکل اور گراں بار بنا کر پیش کیا جائے گا تو نتیجہ بالعموم یہی نکلے گا کہ قرآن سے انس کی بجائے دلوں میں بیزاری پیدا ہو جائے گی۔اس نفسیاتی پہلو کا لحاظ کرتے ہوئے حضرت آقائے نامدار صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
"فانمابعثتم میسرین ولم تبعثوامعسرین”"تم آسانی پیدا کرنے والے بناکر بھیجےگئے ہو،دشواری پیدا کرنے والےبناکرنہیں بھیجے گئے”۔ (صحیح بخاری)
مخاطب کی صلاحیت، استعداد اور قبولیت پیشِ نظر رہنی چاہیے۔آیاتِ الہٰیہ کو اس انداز سے مخاطب کے سامنے پیش کیا جائے کہ وہ اس پر عمل پیرا ہونے میں آسانی محسوس کرے نہ یہ کہ وہ سمجھنے لگے کہ یہ تعلیمات تو سرے سے قابلِ عمل ہی نہیں اور مبلغ اپنے سامنے رکھے۔
"فان مع العسریسرا”
اور مشکل کےساتھ آسانی ہے۔
"ان مع العسریسرا”
یقینًا مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
"فاذافرغت فانصب”
لہٰذا آپ(ص) جب فارغ ہوجائیں تو نصب کردیں۔
"والی ربك فارغب”
چشم امید اپنے رب کی طرف لگائے رہیں۔
سورہ الم نشرح کی ان آیات میں یہ یاددہانی کرائی جارہی ہے کہ جوش عمل کی حدت کسی صورت کم نہیں ہونی چاہیے۔ہاں البتہ گھبرانا نہیں بلکہ چشمِ اُمید اپنے رب کی طرف لگائے رہیں وہ حالات میں آسانی پیدا کردےگا۔

دوسرا اصول:  بشارت
انسان کی فطرت کا یہ بھی تقاضا ہے کہ وہ خوشخبریاں سننا پسند کرتا ہے اور بُری خبروں کو سننا پسند نہیں کرتا۔ اگر ابتدائی ایام میں سخت عذاب کی خبروں کا نشریہ شروع ہوگیا تو مخاطب کی انسیت اجنبیت اور نفرت میں بدل جائے گی اور وہ وحشت زدہ ہو کر بھاگ کھڑا ہوگا اور لوٹ کر واپس نہیں آئے گا۔لہٰذا ضروری ہے کہ مخاطب کو رحمتِ خداوندی کے سائے میں لے کر چلا جائے۔جنت کے دلکش مناظر کی سیر کرائی جائے اور باغاتِ ارم کا دل آویز منظر دکھایا جائے۔حضرت سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں:
"بشرواولاتنفروا”خوشخبری دو،لوگوں میں نفرت نہ پھیلاؤ۔ (صحیح بخاری)

 تیسرا اصول: خوف و رجا 
خوف و رجا کے داعی زندگی کے افکار و اعمال اور ہدف و سمت کو متعین کرتے ہیں۔خوف ورجا کی شدت اور حدت کی مناسبت سے انسان راہ کا انتخاب کرتا ہے۔اسلامی تعلیمات میں باربار جو خوفِ خدا کی تاکید کی گئی ہے وہ دراصل اپنے اعمال سے خوف کی تاکید ہے۔یہ خوف نہایت وسیع و فراواں فوائد کا حامل ہے۔برے اعمال کے ناگوار نتائج کا خوف انسان کو اب سے پرہیز پر آمادی کرتا ہے اور انسان میں نظم و ضبط پیدا کرتا ہے اور خوفِ خدا سے بےنیاز بےانتہا رحمت کی امید رکھنا انسان کو بےلگام کردیتا ہے اور بہت سے مفاسد کا سبب بنتا ہے۔ایسے افراد جن کے دل علم و ایمان کے اسلحہ سے لیس ہوں اور ان کے ذہن میں خداوند ِعالم کی عادلانہ سزاؤں کا خوف بھی ہو تو وہ ہمہ وقت اوامرِالہٰی کی اطاعت میں لگے رہے ہیں اور منہیاتِ الہٰی سے پرہیز کرتے رہتے ہیں۔اس لیے قرآن اور داعی قرآن بشیر بھی ہیں اور نذیر بھی۔دامنِ دل کو ناامید بھی نہیں کرتے اور خوف سے بےنیاز بھی نہیں ہونے دیتے۔
"وَبِالْحَقِ اَنْزَلْنٰهُ وَ بِالْحَقِ نَزَلَوَمَآاَرْسَلْنٰك اِلاَ مُبَشِرًاوَنَذِیْرًا” اور اس قرآن کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا اور اسی حق کے ساتھ یہ نازل ہوا ہے۔
اور (اے رسول(ص)) ہم نے آپ کوصرف بشارت اورتنبیہ کرنےوالا بنا کربھیجا۔ ” (بنی اسرائیل!105)
قرآن مجید کے اس فلسفہ خوف ورجا کی خوبصورت تشریح حضرت صادق آل محمد علیہ السلام نے ان الفاظ میں فرمائی ہے اور شخصیت پر مرتب ہونے والے اثرات کو یوں بیان کیا ہے:
"الخوف رقیب القلب والرجاءشفیع النفس ومن کان باللّٰه عارفًا کان من اللّٰه خائفًا و الیه راجیًا وهما جناحا الایمان، یطیر بهما العبد المحقق الی رضوان اللّٰه و عینًا عقله یبصر بهما الی وعد اللّٰه و وعیده و الخوف طالع عدل اللّٰه باتقاء وعیده والرجاء داعی فضل اللّٰه وهو یحیی القلب والخوف یمیت النفس”۔
خوف انسان کے قلب کا نگہبان ہوتاہے اور امیدنفس سے اس کی خواہشات کی سفارش کرتی ہے۔جوشخص خدا کو پہچانتا ہےوہ اس سے خوفزدہ رہنے کے ساتھ ساتھ امید بھی رکھتا ہے۔یہ دونوں(خوف وامید) ایمان کے دو پرہیں اورخدا کے وہ بندےجو نظامِ ہستی اور خلقت میں غور و فکر کرتے ہیں۔ ان پروں کے ذریعہ خدا کی رضاکی جانب پرواز کرتےرہتے ہیں۔ وہ خدا سے خوف و امید کو اپنی عقل کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ خداوندِعالم کا خوف انہیں اس کی عدالت(جواس کی عینِ ذات ہے) کی طرف متوجہ کرتاہےاورعذاب کےجووعدے اس نے کئے ہیں ان سے ڈراتا ہے جبکہ امید اللہ کےفضل و کرم کی جانب راغب کرتی ہے امید دل کو زندگی بخشتی ہے اور خوف نفس کی سرکوبی کرتا ہے۔
قرآن کا پیغام پھیلانے والے کو چاہیے کہ تبشیر و انذار کے درمیان رہ کر ابلاغ کرے کہ نہ تو کوئی امید کے بہانے فاسقانہ عمل شروع کردے اور نہ کوئی خوف کی وجہ سے قنوطیت کا شکار ہوجائے۔

 چوتھا اصول:  تدریجی تربیت
جس طرح اک ماہرطب مریض کی عمر، اس کے مزاج اور اس کے مرض جی شدت کے لحاظ سے دوا اور دوا کی مقدارِ خوراک تجویز کرتا ہے اسی طرح داعی اور مبلغِ قرآن کا بھی فرض ہے کہ مخاطب کی استعداد، طلب اور ظرف کے مطابق دعوت پیش کرے۔اس کی ذہنی سطح کے مطابق اپنی دعوت کی مقدار اور درجات کو بڑھائے۔اس کے ظرف کی تنگیوں کو بھی مدِنظر رکھے۔یہ بات اتنی اہم ہے کہ حق تعالیٰ نے نزولِ قرآن کےوقت اس کو پیشِ نظر رکھا۔
"وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰه عَلَی النَاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَنَزَلْنٰهُ تَنْزِیْلاً” "اور قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکےاس لیےاتارا کہ تم اس کو لوگوں کوٹھہرٹھہر کر سناؤ اور ہم نے اس کو نہایت اہتمام سے اتارا”۔( بنی اسرائیل#106)
قرآن مجید کی مکی اور مدنی سورتوں میں ان فطری و جبلتی تقاضوں کو مدِنظر رکھا گیا ہے۔مکی دور چونکہ نزولِ قرآن کا ابتدائی دور ہے اس لیے سورتیں مختصر ہیں مضامین کی کثرت مبداء و معاد سے متعلق ہے جبکہ مدنی دور میں سورتیں بڑی ہیں کیونکہ اس وقت تک فکریں بلند ہوچکی تھیں۔رجس و گمراہی کے اندہیرے چَھٹ چکے تھے۔ دلوں کے اندر قبولیت کی صلاحیت بدرجہ اتم پیدا ہوچکی تھی۔احکام کی فرمانبرداری کی کیفیت واستعداد بھی پیدا ہوچکی تھی۔سو مضامین نوع بہ نوع طویل سے طویل تر اور دقیق سے دقیق تر ہیں کیونکہ مدنی دورانیہ میں ایسے عظیم القدر مومنین کی ایک بڑی جماعت تیار ہوچکی تھی جن کے سامنے قرآن پڑھا جاتا تو:
"اِذَایُتْلٰی عَلَیْهم یَخِرُونَ لِلاَذْقَانِ سُجَدًاَ و یقولون سُبْحٰنَ رَبِنَااِنْ کَانَ وَعْدُرَبِنَا لَمَفْعُوْلاً” "جب یہ (قرآن) پڑھ کرانہیں سنایاجاتاہےتویقینًاوہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گرپڑتےہیں اورکہتے ہیں پاک ہے ہمارا پروردگار اور ہمارے پروردگار کا وعدہ پورا ہوا” (بنی اسرائیل#107/108)
تعلیم وتربیت ایک تدریجی عمل ہے اور اسے تدریجًا ہی انجام دینا چاہیے۔سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اسی تدریج کی مظہر ہے۔

 پانچواں اصول: حبِ انسانیت 
قرآن کتابِ انسانیت ہے۔اس کا مقصد انسانی سماج کی بہترین تنظیم و تربیت ہے۔وہ ایک ایسے سماج کی بنیاد ڈالتا ہے جس میں رشتے ضرورتوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ محبت اور رحمت کی ریسمان کے ذریعے جڑتے ہیں اور ترتیب پاتے ہیں۔قرآن جس تہذیبِ اسلامی کی داغ بیل ڈالتا ہے اس کی اٹھان اور ارتقاء حُبِ انسانیت کے بطن سے جنم لیتی ہے۔داعی قرآن ہدایت کا نور لے کر شہر بہ شہر، کو بہ کو اسی جذبہ محبت کے زیرِاثر پھرتا ہے اور چاہتا ہے وہ روشنی اور بصیرت جو اسے حاصل ہوئی ہے اس کا نور چاردانگ عالم پھیل جائے تاکہ نوعِ انسانی کا کوئی بھی فرد اس سے محروم نہ رہے۔اور اسی شدید جذبہ حب انسانیت کے تحت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم لوگوں کی ہدایت کےلیے اتنی تگ و دو کرتے ہیں کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے:
"فَلَعَلَكَ بَاخعّ نَفْسَكَ عَلٰی اٰثَارِهمْ اِنْ لَمْ یؤمنوا بِهذَاالْحَدِیْثِ اَسَفًا” پس اگر یہ لوگ اس(قرآن)پرایمان نہ لائےتو انکی وجہ سے شاید آپ (ص) میں اپنی جان سے ہاتھ دہو بیٹھیں گے۔(الکہف#06)
اور ابنائے آدم کا نورِہدایت نہ پانا رسولِ خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کےلیے اس قدر شاق اور تکلیف دہ ہے کہ افسوس میں جان ہی کھو دینے کا اندیشہ پیدا ہوگیا۔
"لَعَلَكَ بَاخِعّ نَفْسَكَ اَلاَ یَکُوْنوُا مُؤْمِنِیْنَ” شاید اس رنج سےکہ لوگ ایمان نہیں لاتےآپ(ص)جان کھودیں گے”(الشعراء#3)
حق تعالیٰ نے تشفی کے انداز میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے فرمایا اگر یہ لوگ قبولِ حق سے انکاری ہیں تو آپ (ص) اس قدر محزون و رنجیدہ نہ ہوں۔بس آپ (ص) ابلاغِ حق کے پروگرام کو جاری رکھے ان لوگوں نے بالآخر میری بارگاہ میں لوٹ کر آنا ہے۔
"وَمَنْ کَفَرَ فَلاخ یَحْزُنْكَ کُفْرُه” اور جو کفر کرتا ہےاس کا کفر آپ(ص)کو محزون نہ کرے۔ (لقمٰن#23)
آج بھی نتائج وہی شخص حاصل کرسکےگا جو انسانوں سے محبت و مودت کے اس شدید جذبہ سے سرشار ہوگا ورنہ محض روایتی انداز میں بات پہنچا دینے سے خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکل سکتا ہے۔

چھٹا اصول: حریصانہ و بیتابانہ ہدایت 
حرص اخلاق و تہذیبِ انسانی میں ایک قابلِ نفرت داعی ہے مگر یہی حرص اس وقت قابلِ تحسین احساس بن جاتا ہے جب یہ علم و ہدایت کےلیے ہو اور اتنا محترم و مکرم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیبِ معظم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے کہ میرا رسول (ص) تمہاری ہدایت کے بارے میں حریص ہے:
"لَقَدْجَآءَکُم رَسُوْلّ من اَنفُسِکُم عَزِیْزّ عَلَیْه مَا عَنِتُم حَرِیصّ عَلَیْکُم بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُفّ رَحِیم”۔
تمہارے پاس وہ پیغمبر(ص) آیا جو تمھیں میں سےہےاور اس پر تمہاری ہرمصیبت شاق ہوتی ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتاہےاور مومنین کے حال پر شفیق و مہربان ہے۔ (التوبہ#128)
گمراہی اور بےراہ روی سے بڑھ کر اور کیا مصیبت ہوسکتی ہے؟ اور ایک محبت کرنے والا انسان اپنے بھائی بندوں کو اس میں گیرا ہوا کیسے برداشت کرسکتا ہے؟ وہ پیار کرنے والا انسان جو اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے سروں پر دھوپ کو برداشت نہ کرتا ہو وہ یہ کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ اس کے ہم جنس جہنم کا ایندھن بن جائیں یا وہ اپنے کے مجرم بن جائیں اور پھر ان کو جانوروں کی طرح ہانک کر جہنم پر لایا جائے:
"وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰی جَهنَمَ وِرْدًا”۔
اور (فرشتے) مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسےجانوروں کی طرح ہانک کر لے جائیں گے۔ (مریم#86)
پس چاہیے کہ حبِ انسانیت سے لبریز دل لے کر حریصانہ انداز میں رشد و ہدایت کا کام انجام دیا جائے اور لوگوں کو آگاہ کیا جائے اگر وہ ان دنیاوی اشیاء (رزق) کےلیے حرص سے کام لیتے ہیں کہ جس کی فراہمی کی ضمانت اللہ نے دے دی ہے تو فرائض کی ادائیگی میں بھی حرص سے کام لیں:
"فکن حریصًا علی اداء المفروض علیك” (حضرت علی علیہ السلام) (غررالحکم)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button